ساتویں وجہ:
اہل حدیث کا اصل مرجع صرف اور صرف قرآن وحدیث ہے جس کی طرف یہ جاننے کے لئے اہل حدیث رجوع کرتے ہیں کہ شریعت کو ایک مسلمان سے اصل میں کیا مطلوب ہے اور کیا غیر مطلوب ہے ؟ صراط مستقیم کون سی ہے اور شیطا ن کی راہیں کون سی؟ دنیاوی اور اخروی کامیابی کے گر اور طریقے کیا ہیں ؟ مطلب یہ کہ زندگی کے ہر ہر مسئلہ میں ایک اہل حدیث کتاب و سنت کی راہنمائی پر ہی اکتفاء کرتا ہے اور قرآن وسنت کی تعلیمات پر کاربند اور جمے رہنے کو ہی حقیقی کامیابی اور نجات کی کلید جانتا اور مانتا ہے۔ قرآن و سنت سے ہٹ کر کسی اور جانب نگاہ کرنے کو اہل حدیث گمراہی کی جڑ اور بدبختی کا اصل سبب جانتے ہیں۔جیسا کہ اہل حدیثوں کے امام اعظم کا فرمان عالیشان ہے:
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حجتہ الوداع کے موقع پر لوگوں سے خطاب کیا اور فرمایا: اے لوگو! یقیناًمیں تمہارے درمیان ایسی شے چھوڑے جارہا ہوں اگر تم اسے مضبوطی سے تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے ،یعنی اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت۔(سنن بیہقی)
اسکے برعکس صوفیاء کے نزدیک قرآن و حدیث مرجع نہیں ہے یہ لوگ براہ راست اللہ اور اسکے رسول ﷺ سے علم حاصل کرنے اور شریعت کی منشاء جاننے کے دعویدار ہیں۔یہ کسی بھی صحیح حدیث کو یہ کہہ کر ٹھکرا سکتے ہیں کہ میں نے خود نبی ﷺسے اس حدیث کے بارے میں پوچھا اور نبیﷺ نے اس حدیث کی اپنی جانب نسبت سے انکار کیا یااسی بنیاد پر موضوع روایت کو جو انکی مطلب برآوری کررہی ہو صحیح قرار دے سکتے ہیں۔ یایہ بدبخت کسی بھی قرآنی حکم کو یہ کہہ کررد کرسکتے ہیں کہ میرے دل نے میرے رب سے اسکے خلاف روایت کیا ہے۔اسی لئے صوفی حضرات قرآنی آیات کی تفسیراور احادیث کی شرح مسلمان مفسرین اور شارحین سے بالکل ہٹ کر کرتے ہیں اور آیات و احادیث کا ایسا معنی اورمطلب بیان کرتے ہیں کہ امت میں کوئی بھی ان سے متفق نہیں ہوتا۔
محمد بن جمیل زینو رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
صوفیہ کا ایک باطل عقیدہ یہ بھی ہے کہ وہ براہ راست رسول اللہ ﷺ کے واسطے کے بغیر اللہ تعالیٰ سے علم حاصل کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ : ''میرے دل نے مجھے میرے رب سے روایت بیان کی''
ابن عربی مدفون دمشق اپنی کتاب ''الفصوص '' میں ہرزہ سرائی کرتا ہے: ''ہم میں سے کچھ ایسے لوگ ہیں جو رسول اللہﷺ کے بعد ان کے جانشین بنے اور آپﷺ کے واسطے سے کسی شرعی حکم کو لیتے ہیں یا پھر اجتہاد کرتے ہیں اور اس کی بنیاد بھی اصل یعنی نص پر ہوتی ہے جب کہ ہم میں کچھ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو بلا واسطہ اللہ کے جانشین ہیں اور اسی سے علم حاصل کرتے ہیں۔(تصوف، کتاب وسنت کی روشنی میں، صفحہ 56)
مولانا محمد زکریادیوبندی صاحب ایک واقعہ نقل کرتے ہیں:
ابدال میں سے ایک شخص نے خضر سے دریافت کیا کہ تم نے اپنے سے زیادہ مرتبہ والاکوئی ولی بھی دیکھا؟ فرمانے لگے ہاں دیکھا ہے۔ میں ایک مرتبہ مدینہ طیبہ میں رسول اللہﷺ کی مسجد میں حاضر تھا میں نے امام عبدالرزاق محدثؒ کو دیکھا کہ وہ احادیث سنا رہے ہیں اور مجمع ان کے پاس احادیث سن رہا ہے اور مسجدکے ایک کونہ میں ایک نوجوان گھٹنے پر سر رکھے علیحدہ بیٹھا ہے، میں نے اس جوان سے کہا تم دیکھتے نہیں کہ مجمع حضور اقدسﷺ کی حدیثیں سن رہا ہے تم ان کے ساتھ شریک نہیں ہوتے، اس جوان نے نہ تو سر اٹھایا اور نہ میری طرف التفات کیا اور کہنے لگا کہ اس جگہ وہ لوگ ہیں جو رزاق کے عبد سے حدیثیں سنتے ہیں اور یہاں وہ ہیں جو خود رزاق سے سنتے ہیں نہ اس کے عبد سے۔ خضر نے فرمایا: اگر تمہارا کہنا حق ہے تو بتاؤ میں کون ہوں؟ اس نے اپنا سر اٹھایا اور کہنے لگا کہ اگر فراست صحیح ہے تو آپ خضر ہیں۔ خضر فرماتے ہیں: اس سے میں نے جانا کہ اللہ جل شانہ کے بعض ولی ایسے بھی ہیں جنکے علو مرتبہ کی وجہ سے میں ان کو نہیں پہچانتا۔(فضائل حج،فصل 9، زائرین کے واقعات، واقعہ9)
محمد بن جمیل زینو رحمہ اللہ نے لکھا:
مشہور صوفی محی الدین ابن عربی اپنی کتاب ''الفتوحات المکیۃ'' میں لکھتا ہے بہت سی ایسی احادیث ہیں جو سنداً یعنی راویوں کے اعتبار سے صحیح ہوتی ہیں مگر جب ایسی احادیث کو کسی صاحب کشف کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو وہ ان کا جائزہ لیتا ہے پھر اس حدیث کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ''میں نے تو یہ کہا ہی نہیں اور نہ ہی میں نے ایسا کوئی حکم دیاہے'' تب اس حدیث کا ضعف صاحب کشف یعنی صوفی پر واضح ہوجاتا ہے سو صاحب کشف کو رب کی طرف سے ملنے والی اس دلیل کی بناء پر ایسی احادیث پر عمل چھوڑ دیا جائے گا اگر چہ اہل نقل اس کے راویوں کے صحیح ہونے کی وجہ سے اس پر عمل ہی کیوں نہ کر رہے ہوں کیونکہ بہرحال ایسی احادیث صحیح نہیں ہوتیں۔(تصوف کتاب و سنت کی روشنی میں، صفحہ 63)
احادیث کے بارے میں ابن عربی کے اس معیار قبول و رد نے اہل حدیث اور صوفیوں کی الگ الگ راہیں صاف طور پر متعین کردیں ہیں۔اہل حدیث کے نزدیک احادیث دین ہیں اور انکی تصحیح یا تضعیف صرف اسماء الرجال کے فن اور محدیثین کے قائم کردہ اصولوں کی روشنی ہی میں ممکن ہے لیکن صوفیاء کو محدثین کے اصولوں کی کوئی پرواہ یا حاجت نہیں کیونکہ وہ براہ راست رسول اللہﷺ سے کسی بھی حدیث کی صحت یا ضعف معلوم کرلیتے ہیں۔
ابویزید صوفی کی ہرزہ سرائی بھی ملاحظہ فرمائیں:
ابراہیم کہتے ہیں کہ میں ابویزید کی مجلس میں حاضر ہوا۔ لوگ بیان کرنے لگے کہ فلاں نے فلاں سے روایت کی اور اس سے علم حاصل کیا اور بہت سی حدیثیں نقل کیں اور فلاں نے ملاقات کی اور حدیث روایت کی۔ابویزید سن کر بولے اے مسکینو! تم نے مرے ہوؤں کا علم مرے ہوؤں سے لیا اور ہم نے حی لایموت سے علم حاصل کیا۔(تلبیس ابلیس،صفحہ 490)
کتاب و سنت کے علم اور حاملین کتاب و سنت کی اتنی بے توقیری شاید کسی نے بھی نہ کی ہوگی جتنی ان صوفیاء نے ،جنھوں نے کتاب وسنت کے علم کی تذلیل کرکے اسے مرے ہوؤں کا علم قرار دیا۔
علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں:
صوفیہ اگر کسی کو سنتے ہیں کہ حدیث روایت کرتا ہے تو کہتے ہیں ان بیچاروں نے اپنا علم مرے ہوؤں سے لیا ہے اور ہم نے اپنا علم زندہ جاوید یعنی اللہ تعالیٰ سے حاصل کیا ہے۔ لہٰذا اگر یہ کہتے ہیں حدثنی ابی عن جدی( یعنی میرے باپ نے میرے دادا سے روایت کی) تو ہم کہتے ہیں حدثنی قلبی عن ربی( میرے قلب نے میرے رب سے روایت کی)۔(تلبیس ابلیس، صفحہ 540)
صوفیاء کے اس کلام میں بھی قرآن وحدیث کی زبردست توہین ہے اور انہیں یہ کہہ کر بے وقعت اور بے توقیر کرنے کی پوری کوشش کی گئی ہے کہ قرآن و حدیث کا علم تو وہ علم ہے جو مرے ہوئے لوگوں کے ذریعے مسلمانوں تک پہنچا ہے اور اسکے مقابلے میں افضل علم وہ ہے جو صوفی براہ راست اللہ اور اسکے رسول ﷺ سے حاصل کرتے ہیں۔
اہل حدیث اور صوفیاء کے حصول علم کے بنیادی ذرائع بالکل مختلف ہونے کی وجہ سے انہیں ایک صف میں کھڑا کرنا انتہائی ناانصافی ہے۔یہ ایک بہت بڑا سبب ہے جو صوفیاء اور اہل حدیث کے درمیان ایک خط امتیاز کھینچتا ہے اور اس حقیقت کو آشکار کرتا ہے کہ کوئی اہل حدیث صوفی نہیں ہوسکتا۔جب دونوں کا منہج الگ ، مرجع الگ، عقائد الگ، نظریات الگ ہیں اور کوئی قدر مشترک بھی انکے مابین نہیں پائی جاتی تو پھر اہل حدیث کے صوفی ہونے کا دعویٰ بھی کیونکر صحیح ہوسکتا ہے؟!
آٹھویں وجہ:
اہل حدیث صحیح اسلام پر کاربند اور گامزن ہیں اس لئے وہ اسی چیز کو طاعت قرار دیتے ہیں جسے شریعت طاعت سمجھتی ہے اور وہی عمل اہل حدیث کی نگاہ میں نافرمانی یا حق سے روگردانی ہے جس پر شریعت برائی اور دین سے دوری کی مہر ثبت کرتی ہے اسکے برعکس صوفیوں کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔وہ ہر مسئلہ اور ہر عقیدہ میں شریعت کی بھرپور مخالفت کرتے ہیں اور شریعت سے ہٹ کر اور اسکی ضد میں ایک تصور اور نظریہ پیش کرتے ہیں۔اسی لئے صوفیاء کا تصور نیکی اور بدی مسلمانوں کے تصوراور عقیدہ کے بالکل برعکس اور مخالف ہے۔اسکی چند امثال ملاحظہ فرمائیں۔
1۔ مشکلات میں اللہ کو پکارنا اور اسکے مدد کا طالب ہونا اسکے سامنے گریہ زاری اور عاجزی کرنا ایک مسلمان کے ایمان کا مضبوط ثبوت اور بہت بڑی نیکی ہے جو ایک مسلمان کے عقیدہ توحید کی تکمیل کرتی ہے۔لیکن صوفی حضرات غرور و تکبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشکلات میں بھی اللہ کو نہیں پکارتے اور اس سے استغاثہ نہیں کرتے اور اس کو اعلیٰ درجے کی نیکی سمجھتے ہیں۔
شیخ عبدالرحمن عبدالخالق تصوف کے علمبردار اور حامی ڈاکٹر مصطفی محمود کا ایک قول نقل کرتے ہیں:
''صوفی سوال نہیں کرتا ....وہ بیمار ہوتا ہے تو اللہ سے شفاء نہیں مانگتا ۔بلکہ ادب سے کہتا ہے: میں اللہ کے ارادہ کے بالمقابل اپنے لئے کوئی ارادہ کیوں کربنا سکتا ہوں کہ اس سے ایسی بات کا سوال کروں جسے اس نے نہیں کیا۔(اہل تصوف کی کارستانیاں، صفحہ 19)
رابعہ بصری کے بارے میں آتا ہے :
مشائخین کا قول ہے کہ رابعہ نے خدا کی شان میں کبھی کوئی گستاخی نہ کی اور نہ کبھی دکھ سکھ کی پرواہ کی اور مخلوق سے کچھ طلب کرنا تو درکنار اپنے مالک حقیقی سے بھی کبھی کچھ نہ مانگا اور انوکھی شان کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوگئیں۔(تذکرۃ الاولیاء ،صفحہ 58)
ابوالعباس بن عطاء کہتے ہیں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کو پہچانے گا وہ اپنی حاجتوں کو اس کے پاس پیش کرنے سے رک جائے گا۔کیوں کہ اس نے جان لیا کہ وہ اس کے حالات کو جانتا ہے۔
(تلبیس ابلیس، صفحہ 508)
صوفیوں کا یہ باطل نظریہ انکی شرعی علم سے جہالت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔اگر وہ قرآن و حدیث پر تھوڑا سا غور کرتے تو جان لیتے کہ اللہ کو پکارنا اس سے استعانت چاہنا اور استغاثہ کرنا ایک عظیم نیکی ہے۔خود فرمان باری تعالیٰ ہے:
''وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُم'' اور تمہارے رب نے کہامجھے پکارومیں تمہاری پکار کو قبول کروں گا۔ (غافر:60)
نبیﷺ نے فرمایا:
جب تم مانگو تو اللہ ہی سے مانگو اور جب مدد چاہوتو اللہ ہی سے مدد چاہو۔(جامع ترمذی)
اللہ سے مانگنا اور دعا کرنا اتنی اہم نیکی ہے کہ شریعت نے اسے عبادت قرار دیا ہے۔ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
دعا ہی عبادت ہے۔(جامع ترمذی)
جولوگ اللہ کو نہیں پکارتے اللہ سے نہیں مانگتے ان کے بارے میں حکم ربی ہے:
''اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَھَنَّمَ دٰخِرِیْن'' جو لوگ میر ی عبادت سے گریز کرتے ہیں عنقریت جہنم میں ذلیل ہوکر داخل ہوں گے۔(غافر:60)
اللہ تعالیٰ اس شخص سے ناراض ہوتا ہے جو اس سے نہیں مانگتا۔حدیث میں ہے کہ :
''من لم یسال اللہ یغضب علیہ''جو شخص اللہ تعالیٰ سے سوال نہیں کرتا اس پر وہ ناراض ہو جاتا ہے۔(جامع ترمذی)
ان دلائل سے معلوم ہوا کہ اللہ کو پکارنا اور اس سے مدد طلب کرنانیکی اور ثواب کا کام ہے اور اللہ سے نہ مانگنا بدی ،برائی اور گناہ ہے جس کا انجام رسوائی کے ساتھ جہنم کا دخول ہے۔ اسکے برعکس صوفیاء کا اللہ کو پکارنے اور اس سے مدد کا طالب ہونے کو برا اور ناپسندیدہ فعل سمجھنا اور اللہ کو نہ پکارنے کو افضل نیکی سمجھنا اہل حدیث اور صوفیوں کے تصور نیکی وبدی میں ایک واضح اور بہت بڑے فرق کو ظاہر کرتا ہے۔
2۔ شرعی علم حاصل کرنا ہر مسلمان عورت اور مرد پر فرض ہے۔علم چونکہ رب العالمین کی معرفت میں بنیادی اور کلیدی کردار ادا کرتا ہے اس لئے شریعت ایک مسلم کوحصول علم کی بھرپور ترغیب دلاتی ہے ۔علم ایک ایسی نیکی ہے جو تمام کامیابیوں کی اصل ہے۔اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے:
''قُلْ ھَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْن''آپ فرما دیجئے کیا برابر ہیں جو علم نہیں رکھتے اور وہ جو علم رکھتے ہیں؟ (الزمر:9)
اس آیت کا مطلب ہے کہ علم والا جاہل سے افضل ہے۔اور فرض کی ادائیگی عظیم اور افضل نیکی ہے اس لئے کسی مسلمان کا علم سے روگردانی کرنا بہت بڑا جرم اور آخرت میں خسارے کے باعث ہے۔لیکن ان اسلامی تعلیمات کے برعکس صوفیوں کو شرعی علم سے چڑ ہے اور وہ اسے حقائق کی معرفت میں بڑی رکاوٹ تصور کرتے ہوئے علم سے دور رہنے کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ صوفیاء کے نزدیک علم نیکی نہیں بلکہ ایک بے کار اور بری چیز ہے۔
مولانا عبدالرحمن کیلانی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں:
صوفیوں میں یہ مقولہ بھی بہت مشہور ہے۔
العلم حجاب الاکبر ''یعنی علم (شریعت) ہی (دین طریقت یا مشاہدہ حق میں) سب سے بڑا حجاب ہے۔''
اور کسی صوفی نے یہ بھی کہہ دیا کہ: الجھل احب الی من العلم ''یعنی جہالت مجھے علم سے زیادہ عزیز ہے۔'' (شریعت و طریقت، صفحہ 143)
جنید بغدادی صوفیوں کو علم سے دور رہنے کی وصیت کرتے ہوئے کہتے ہیں:
مبتدی کے لئے مستحب ہے کہ اس کا دل تین چیزوں میں مشغول نہ ہو۔ کمائی کرنا، علم حدیث طلب کرنا ،نکاح کرنا اور صوفی کے لئے مستحب ہے کہ وہ لکھنا پڑھنا ترک کردے۔(قوت القلوب، جلد 4، صفحہ 135)
علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ علم کے بارے میں صوفیوں کی بدقسمتی کاتذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
جاننا چاہیے کہ ان لوگوں کے لیے شیطان کا پہلا فریب یہ ہے کہ ان کو علم سے باز رکھا کیوں کے علم ایک نور ہے۔جب شیطان نے ان کے چراغ ہی بجھا دئیے تو اندھیرے میں جس طور سے چاہے ان کو ٹیڑھاترچھا لے جائے اس بارے میں صوفیہ پر شیطان نے کئی جہت سے دخل پایا۔ایک یہ کہ ان کی جماعت کثیر کو کلی علم سے باز رکھا۔(تلبیس ابلیس،صفحہ 486)
علامہ ابن جوزی مزید فرماتے ہیں:
صوفیہ میں سے کچھ ایسے ہیں جو علماء کی مذمت کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ علم میں مشغول ہونا بے کار اور بے سود ہے اور کہتے ہیں کہ ہمارے علوم بلاواسطہ ہیں۔(تلبیس ابلیس،صفحہ 487)
جعفر خلدی صوفی حصول علم کے بعد ترک علم کی اپنی کہانی یوں سناتے ہیں:
میں جس زمانہ میں جوان تھا ایک بار عباس دوری کے پاس گیا اور ایک جلسہ میں جس قدر حدیثیں انہوں نے بیان کیں لکھ لایا جب ان کے پاس سے اٹھ کر آیا تو راستے میں میرے ایک دوست جو صوفی تھے ملے، پوچھنے لگے کہ تمہارے پاس یہ کیا ہے؟ میں نے وہ کتاب دکھائی۔کہنے لگے، وائے ہو تجھ پر علم خرق کو چھوڑ کر علم ورق کو اختیار کرتا ہے۔ یہ کہہ کر ان اوراق کو پھاڑ ڈالا۔ میرے دل میں ان کا کلام گھر کر گیا۔پھر میں کبھی عباس کے پاس نہیں گیا۔(تلبیس ابلیس،صفحہ 498)
اشرف علی تھانوی صاحب کہتے ہیں:
ایک بار حضرت حاجی صاحب مجھے اپنا کتب خانہ دینے لگے میں نے کہا کتابیں اپنے پاس رکھیئے کتابوں میں کیا رکھا ہے کچھ سینے سے عطاء فرمائیے یہ سن کر حضرت خوشی کے مارے کھل گئے اور فرمایا: ''ہاں بھائی سچ تو یہ ہے کہ کتابوں میں کیا رکھا ہے''۔ (قصص الاکابر، صفحہ 71)
چونکہ کتابوں میں شرعی علم ہوتا ہے جو کہ صوفی کو مطلوب نہیں ہوتا اس لئے اشرف علی تھانوی نے کتابوں کو حقارت سے ٹھکراتے ہوئے باطنی علم کی خواہش کا اظہار کیاجو کہ سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا ہے۔ جس پر انکے پیر و مرشد خوشی کے مارے کھل اٹھے۔
علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ کا بیان ہے:
ابوسعید کندی کی نسبت میں نے سنا ہے، بیان کرتے تھے کہ میں صوفیہ کی رباط میں قیام کرتا تھا اور خفیہ طور پر حدیث طلب کرتاتھا کہ ان کو خبر نہ ہوتی تھی۔ ایک روز میری جیب سے دوات گر پڑی تو ایک صوفی نے مجھ سے کہا کہ اپنی شرمگاہ چھپاؤ۔(تلبیس ابلیس،صفحہ 499)
صوفیوں کی علم سے نفرت اور حقارت دوات کو شرم گاہ سے تشبیہ دینے سے صاف ظاہر ہے۔
اس دوسری مثال سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ صوفیاء کا تصور نیکی و بدی اسلام کے نظریہ نیکی وبدی سے قطعی طور پر مختلف بلکہ مخالف ہے۔
3۔ مشہور مقولہ ہے کہ ''بد سے بدنام برا''
یہ بات ایک عام شخص بھی جانتا ہے کہ بدنامی بری چیز ہے اس لئے ایک مسلمان کو چاہیے کہ بدنامی سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرے اور اگر اس کے کسی عمل سے کوئی شخص غلط فہمی کا شکار ہوجائے توجتنی جلدی ممکن ہوسکے اس غلط فہمی کا ازالہ کرے تاکہ کسی کو اس پر شک کرنے یا انگلی اٹھانے کا موقع نہ ملے۔ اس بات کی تعلیم ہمیں رسول اللہﷺکے اسوہ حسنہ سے ملتی ہے۔
ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ایک بار رسول اللہﷺ اعتکاف میں تھے ۔میں رات کو آپﷺ کی زیارت کے لئے گئی اور آپ ﷺسے باتیں کرکے واپس آنے لگی ۔آپﷺ میرے ساتھ مجھ کو گھر پہنچانے کے لئے ہولیے۔صفیہ رضی اللہ عنہا کا مکان اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے احاطہ میں تھا ۔اتنے میں دو انصار کے آدمی نمودار ہوئے ۔انہوں نے جب رسول اللہ ﷺ کو دیکھا تو تیزی کے ساتھ آگے بڑھے ۔آپ ﷺنے ان سے فرمایا ٹھہرو، میرے ساتھ صفیہ ہے۔وہ عرض کرنے لگے یا رسول اللہﷺ یہ آپ کیا فرماتے ہیں؟ ارشاد فرمایا کہ شیطان انسان کے جسم میں خون کی طرح دوڑتا ہے ، میں اس بات سے ڈرا کہ کہیں تمہارے دلوں میں ''خیال فاسد'' یا فرمایا ''کوئی بات ''نہ ڈال دے۔(صحیح بخاری،کتاب الاعتکاف، صحیح مسلم،کتاب السلام)
علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی تشریح میں لکھا ہے:
اس سے ظاہر ہے کہ رسول اللہﷺ نے لوگوں کو تعلیم دی کہ جو چیز بدگمانی کا باعث ہواس سے دور رہیں ۔کیوں کہ اہل ایمان زمین پر خدا کی طرف سے شاہد ہیں۔(تلبیس ابلیس، صفحہ527)
ابوسلیمان خطابی نے کہا کہ اس حدیث میں فقہی بات یہ ہے کہ انسان کو ہر ایسے امر مکروہ سے بچنا مستحب ہے جس سے بدگمانیاں پیدا ہوں اور دلوں میں خطرے گزریں ۔اور چاہیے کہ عیب سے اپنی براء ت ظاہر کرکے لوگوں کے طعن سے بچنے کی کوشش کرے۔
(بحوالہ تلبیس ابلیس)
مذکورہ بالا حدیث اور اسکی تشریح سے معلوم ہوا کہ نیک نامی اور بدنامی کی پرواہ نہ کرنا شریعت میں معیوب بات ہے۔اور جان بوجھ کر خود کو بدنام کرنا گناہ اور برائی ہے۔ابن الجوزی کہتے ہیں:
اگر کوئی آدمی سر راہ کھڑے ہوکر اپنی بی بی سے باتیں کرے تاکہ ناواقف لوگ اسے فاسق کہیں تو اس حرکت سے گنہگار ہوگا۔(تلبیس ابلیس، صفحہ522)
لیکن صوفیاء خود کو جان بوجھ کر بدنام کرتے ہیں اور اسکو نیکی اور روحانی برائیوں سے نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ سید علی بن عثمان الہجویری ملامت اور بدنامی کو بطور علاج ذکرکرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں:
قصداًملامت طلب کرنے کی صورت یہ ہے جب کسی بزرگ کی خلق خدا میں بہت قدر منزلت ہوتی ہے جس سے اس کے دل میں خود پسندی پیداہوتی ہے ۔اس کا علاج وہ اس طرح کرتے ہیں کہ وہ ایسا کام کرتے ہیں جو شریعت کے خلاف نہ ہو لیکن لوگو ں کو خلاف شرع نظر آئے۔ اس سے ان کو اطمینان قلب نصیب ہوتا ہے او ر حق تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔لیکن لوگ ان سے متنفر ہوجاتے ہیں اور ملامت کی زبان دراز کرتے ہیں۔(شرح کشف المحجوب،صفحہ 275,274)
مزید لکھتے ہیں:
بعض حضرات تزکیہ نفس کی خاطر ملامتی طریقہ اختیار کرتے ہیں تاکہ بدنامی کی وجہ سے ان کو روحانی ترقی حاصل ہو۔اس لئے وہ اپنے نفس کو ذلیل کرکے خوش ہوتے ہیں۔(شرح کشف المحجوب،صفحہ 282)
الہجویر ی کا یہ دعویٰ کہ صوفیاء ملامت کے لئے ایسا طریقہ اختیار کرتے ہیں جو بظاہر خلاف شرع نظر آتا ہے لیکن حقیقت میں خلاف شرع نہیں ہوتا محض جھوٹ ہے۔اوّل تو ہم پہلے ہی ذکر کر آئے ہیں کہ کسی شخص کاشرعی اور جائز کام کے ذریعے بھی لوگوں کو اس طرح مغالطہ دینا کہ لوگ اسے فاسق اور فاجر سمجھنے لگیں بذات خود ایک گناہ اور جرم ہے۔اوراس کے علاوہ الہجویری کاصوفیاء کے ''ملامتی طریقہ کار'' کے تحفظ اوردفاع میں کیا گیایہ دعویٰ ابن کرینی صوفی کے اس واقعہ سے بالکل غلط اور جھوٹاثابت ہوتا ہے جس میں وہ چوری جیسے قبیح فعل کے ذریعے اللہ کے قرب اور روحانی ترقی کے حصول کا متلاشی نظر آتا ہے۔ ابوحامد نے بیان کیا کہ ابن کرینی نے کہا:
میں ایک بار ایک مقام پر اترا اور میرے خیر و صلاح کی وہاں شہرت ہوگئی۔میں حمام میں گیا، وہاں ایک لباس فاخرہ دیکھ کر اس کو چرا لیا اور نیچے وہ لباس پہن کر اوپر سے اپنا خرقہ پہنا اور حمام سے نکل کر آہستہ آہستہ چلنے لگا۔لوگ میرے پاس آئے اور میرا خرقہ اتارا اور وہ لباس مجھ سے چھین کر مجھ کو پیٹا۔اس کے بعد میں حمام کا چور مشہور ہوگیا اس وقت میرے نفس کو قرار آیا۔(بحوالہ تلبیس ابلیس،صفحہ 522)
ایک مسلمان سے اگر چوری ہوجائے تو اس کا ضمیر اسے ملامت کرتا رہتا ہے اور اس جرم پر خوش ہونا تو دور کی بات چوری کے گناہ ہونے کا احساس اسے پشیمان اور پریشان کئے رکھتا ہے۔ لیکن ابن کرینی صوفی کے نفس کو چوری کرکے اس لئے قرار آگیا کہ خود پر نیکوکاراور پرہیزگار ہونے کی چھاپ اتارنے کے لئے انکے ہاں ہر طرح کا گناہ اور جرم جائز ہے۔سابقہ واقعات کی طرح یہ واقعہ بھی صوفیوں کے فلسفہ نیکی اور بدی کے مخالف شریعت ہونے کی نشاندہی کررہا ہے۔
4۔ اولاد کی محبت فطری محبت ہے جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانوں کے دلو ں میں ڈالی ہے ۔اس لئے محبت اولا د نہ تو اللہ رب العالمین کی محبت میں رکاوٹ ہے اور نہ ہی مانع۔رسول اللہ ﷺاپنی اولاد سے محبت فرماتے تھے۔سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
رسول اللہ ﷺ نے (اپنے بیٹے)ابراہیم کو (گود میں ) لیا اور اس کا بوسہ لیااور (پیارسے) اس کی خوشبو سونگھی۔(صحیح بخاری،کتاب الجنائز)
اور یہ اولاد سے محبت کا نتیجہ و ثبوت تھا کہ رسول اللہﷺ نے ان کی جدائی پر آنسو بہائے۔اولاد سے محبت کرنا، انہیں پیار کرنا نبیﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل ہے جو باعث ثواب ہے۔صوفیاء کا معاملہ اس سلسلے میں بالکل انوکھا ہے انکے نزدیک نہ صرف یہ کہ اپنے بچوں سے پیار کرنا گناہ ہے بلکہ وہ اولاد کی محبت کو اللہ کی محبت کے منافی اور اللہ کی محبت کے راستے میں رکاوٹ سمجھتے ہیں انکے نزدیک کسی انسان سے محبت کرنے والا حتی کہ اولاد سے الفت ومحبت رکھنے والاشخص بھی اللہ کی محبت میں سچا نہیں جھوٹا ہے۔کیونکہ بقول صوفیاء دو محبتیں ایک ساتھ دل میں جمع نہیں ہوسکتیں چاہے اللہ کی محبت کے ساتھ وہ دوسری محبت اپنی آل اولاد ہی کی کیوں نہ ہو۔ اس سلسلے میں صوفیوں کے کچھ واقعات مطالعہ فرمائیں اور انکی الٹی عقل کی داد دیجئے۔
حضرت فضیل ایک مرتبہ اپنے بچے کو آغوش میں لئے ہوئے پیار کررہے تھے کہ بچے نے سوال کیا کہ کیا آپ مجھے اپنا محبوب تصور کرتے ہیں۔فرمایا بے شک پھر بچے نے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کو بھی محبوب سمجھتے ہیں، پھر ایک قلب میں دو چیزوں کی محبوبیت کیسے جمع ہوسکتی ہے یہ سنتے ہی بچے کو آغوش سے اتار کر مصروف عبادت ہوگئے۔
(تذکرۃ الاولیاء ،صفحہ63)
شیخ فریدالدین عطار صاحب تخت و تاج کو ٹھکرانے پھر ایک طویل عرصہ بعد اپنے گھروالوں سے ملاقات پر ابراہیم بن ادھم کے تاثرات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فرمایا کہ جب میں بچے سے ہم آغوش ہوا تو وفورجذبات اور فرط محبت سے بے تاب ہوگیا اور اسی وقت یہ ندا آئی کہ ہم سے دوستی کے دعویٰ کے بعد دوسرے کو دوست رکھتا ہے۔یہ ندا سن کر میں نے عرض کیا کہ یا اللہ یاتو لڑکے کی جان لے لے یا پھر مجھے موت دے دے چناچہ لڑکے کے حق میں دعا مقبول ہوگئی۔(تذکرۃ الاولیاء ،صفحہ 71)
صوفیوں کے یہ غیرفطری خیالات شرعی علم سے انتہاء درجے کی جہالت کا ثبوت ہیں۔ان فاسد خیالات کی تردید کے لئے اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس امت میں سب سے بڑھکر اللہ کی معرفت رکھنے والے تھے اگر اولاد کی محبت واقعتا اللہ کی محبت سے مانع ہوتی تو نبی ﷺ نہ تو خود کبھی اپنی اولاد سے محبت فرماتے اور نہ ہی اپنی امت کو اسکی ترغیب دیتے ۔اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ نبی ﷺ حسن کا بوسہ لے رہے تھے تو اقرع رضی اللہ عنہ نے کہا:
میرے دس بیٹے ہیں مگر میں کسی کا بھی بوسہ نہیں لیتا۔تو رسول اللہﷺ نے فرمایا : جو رحم نہیں کرتا ،اس پر رحم نہیں کیا جائے گا۔(صحیح بخاری، کتاب الادب)
عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ
رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک اعرابی آیا اور کہا: کیا آپ بچوں کا بوسہ لیتے ہیں ؟ ہم تو بچوں کا بوسہ نہیں لیتے!آپ ﷺ نے فرمایا: اگر اللہ نے تمہارے دل سے رحمت نکال دی ہے تو میں کیا کرسکتا ہوں۔(صحیح بخاری، کتاب الادب)
پس ثابت ہوا کہ شریعت کے نزدیک اولاد سے محبت کار ثواب اور پسندیدہ عمل ہے جبکہ صوفیاء کے نزدیک اولاد سے محبت ناپسندیدہ ،اللہ کی ناراضگی اور دین میں کمی کا باعث ہے،مطلب صوفیوں کا تصور نیکی اور بدی شریعت کے تصور نیکی وبدی سے متصاد م و مخالف ہے۔
صحیح اور صاف بات یہ ہے کہ صوفیوں کے نزدیک بدی وہ ہے جو شریعت کی نگاہ میں نیکی ہے اور نیکی وہ ہے جسے شریعت بدی قرار دیتی ہے اور یہ صوفیوں کے اسی انوکھے اور خلاف شرع عقیدہ کا کرشمہ و نتیجہ ہے کہ اسلام کی نگاہ میں جو صحیح معنوں میں فرمابردار ہے وہ صوفیاء کے نزدیک نافرمان ہے اور جو شریعت کی کسوٹی پر نافرمان اترتا ہے وہی صوفی مذہب میں فرما بردار اور نیکوکار ہے۔ ''الفکر الصوفی'' جیسی عظیم کتاب کے خالق شیخ عبدالرحمن عبدالخالق ''فصوص الحکم ''کے حوالے سے لکھتے ہیں:
اور اسی کتاب میں ابن عربی نے بیان کیا ہے کہ ابلیس اور فرعون اللہ کی معرفت رکھتے تھے ۔اور نجات پائیں گے۔اور فرعون کو موسیٰ علیہ السلام سے زیادہ اللہ کا علم تھا۔اور جس نے کسی بھی چیز کی پوجا کی اس نے اللہ ہی کی پوجا کی۔(اہل تصوف کی کارستانیاں، صفحہ 56)
ابن عربی صوفیوں کابڑا امام ہے اور اسکے عقیدے کے مطابق ثابت ہوا کہ فرعون، ابلیس اور بتوں کے پجاری مشرک وغیرہ جو شریعت کی نگاہ میں اللہ کے نافرمان اور آخرت میں ناکام ہیں، اللہ کی حقیقی معرفت رکھنے والے اور نجات پانے والے ہیں بلکہ یہی'' نافرمان'' لوگ علم اور رب العالمین کی معرفت میں انبیاء علیہ السلام سے بھی افضل ہیں۔انااللہ وانا الیہ راجعون!
کیونکہ انبیاء علیہ السلام ابلیس، فرعون اور مشرکین کو ناکامیاب اورآخرت میں خسارہ پانے والے سمجھتے تھے جبکہ صوفیوں کے عقیدے کے مطابق یہ بات غلط ہے اس طرح صوفیوں کے نزدیک انبیاء اور انکے پیروکار غلط راہ پر جبکہ بتوں کے پجاری اللہ کے نافرمان بندے صحیح راہ پر ہیں۔
اس بات کی مزید وضاحت میں ابن عربی کی ایک اور عبارت ملاحظہ فرمائیں جس میں موصوف کہتے ہیں کہ:
قوم ہود بھی صراط مستقیم پر تھی۔فرعون کامل الایمان تھا اور قوم نوح بھی۔اللہ پاک نے قوم نوح اور فرعون کو ان کے نیک اعمال کا بدلہ دیتے ہوئے وحدت الوجود کے سمندر میں غرق کیا۔ اور قوم ہود کو عشق الہٰی کی آگ میں داخل کیاتاکہ اسے عیش و آرام حاصل ہو۔(بحوالہ شریعت و طریقت، صفحہ 85)
اگر یہ اللہ کے نافرمان بندے اور قومیں بھی صراط مستقیم پر تھیں تو اس کا صاف اور سیدھا مطلب یہ ہے کہ انکی مخالفت کرنے والے انبیاء علیہ السلام صراط مستقیم سے منحرف اور گمراہ تھے(نعوذباللہ من ذالک)بدقسمتی سے صوفیوں کا یہی عقیدہ ہے۔اسی لئے یہ انبیاء کے منع کرنے کے باوجود بت پرستی نہ چھوڑنے پر انکی قوم کی تعریف کرتے ہیں۔ابن عربی نے کہا:
حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے بھی بہت اچھا کردار ادا کیا جو بت پرستی سے باز نہ آئے۔(فصوص الحکم)
صوفیاء کے اس طرح کے نظریات و عقائد نے اسلام کی بنیاد ہی کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ہے یہ اس کڑوی سچائی کا ٹھوس ثبوت ہے کہ صوفی مذہب کا دین اسلام سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں بلکہ یہ اسلام کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے اور دین کی عمارت کو ڈھا دینے کی گہری سازش ہے۔ اہل حدیث اور صوفیوں کے مابین نیکی اور بدی کے تصور میں زبردست تضاد اور اختلاف کے باوجود جو شخص اہل حدیث کو صوفیوں کے زمرے میں داخل کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ جھوٹا ترین انسان ہے۔
نویں وجہ:
تصوف کے بارے میں متصوفین کا دعویٰ ہے کہ یہ اچھے اور بہترین اخلاق کے مجموعہ کا نام ہے اور صوفی مذہب کے ماننے والوں کے اخلاق بعینہ وہی ہیں جو نبی ﷺ کے اخلاق تھے۔
دیوبندیوں کے ''پیر'' ذوالفقار احمد نقشبندی لکھتے ہیں:
حضرت مرتعش نے فرمایا: تصوف اچھے اخلاق کا مجموعہ ہے۔(تصوف و سلوک،صفحہ 12)
یہی ذوالفقار احمد نقشبندی صاحب ایک اور صوفی کا قول نقل کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
حضرت ابوالحسن نوری نے فرمایا: تصوف علم و فن کا نام نہیں مجموعہ اخلاق کا نام ہے۔(تصوف و سلوک،صفحہ 12)
رشید احمد گنگوہی صوفی دیوبندی کا خیال ہے کہ:
صوفیا ء کے اخلاق وہی ہیں جو جناب رسول مقبول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا خلق ہے۔(اکابر کا سلوک و احسان،صفحہ 27، امداد السلوک،صفحہ 47)
آئیے صوفیوں کے اس دعویٰ کا تجزیہ کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ نبیﷺ کے اخلاق اور صوفیوں کے اخلاق میں کوئی مماثلت ہے یا نہیں؟
نبیﷺ مہمان کی بہت عزت اور تکریم فرماتے تھے اور مہمان کو اللہ کی رحمت قرار دیتے ہوئے مہمان کے کھانے پینے کا خاص خیال رکھنے کی تلقین فرماتے تھے۔ چناچہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
جو اللہ تعالیٰ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ دستور کے ساتھ اپنے مہمان کی عزت کرے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہما نے پوچھا دستور کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ایک دن اور ایک رات تو پرتکلف دعوت دے اور ضیافت تین دن کے لئے اس کے بعد صدقہ اور خیرات ہے۔(صحیح بخاری، کتا ب الادب)
اب مہمان کے ساتھ صوفیوں کا اخلاق اور برتاؤ ملاحظہ کریں جو مہمان کی عزت کرنے کے بجائے اسکی بے عزتی کرتے ہوئے کھانا بھی اسکے آگے سے اٹھا لیتے ہیں۔ فرید الدین عطار لکھتے ہیں:
حضرت حسن بصری ایک مرتبہ حبیب عجمی کے پاس تشریف لے گئے تو اس وقت انکے یہاں جو کی ایک روٹی اور تھوڑا سا نمک موجود تھا وہی بطور تواضع آپ کے سامنے رکھ دیا اور جب انہوں نے کھانا شروع کردیا تو ایک سائل آپہنچا ،تو حضرت حبیب عجمی نے وہ روٹی آپ کے سامنے سے اٹھا کر سائل کو دے دی۔اس پر حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ تم میں شائستگی تو ضرور ہے لیکن علم نہیں۔ کیا تمہیں یہ معلوم نہیں کہ مہمان کے سامنے سے اس طر ح پوری روٹی اٹھا کر نہ دینی چاہیے بلکہ ایک ٹکڑا توڑ کر دے دیتے یہ سن کر وہ خاموش رہے۔(تذکرۃ الاولیاء،صفحہ 39)
مشہور صوفی بزرگ رابعہ بصری کس طرح مہمانوں کے ساتھ پیش آتی ہیں دیکھئے:
دو بھوکے افراد رابعہ بصری کے یہاں بغرض ملاقات حاضر ہوئے اور باہمی گفتگو کرنے لگے کہ اگر رابعہ بصری اس وقت کھانا پیش کردیں تو بہت اچھا ہے کیونکہ ان کے یہاں رزق حلال میسّر آجائے گااور آپ کے یہاں اس وقت دو ہی روٹیاں تھیں وہی ان کے سامنے رکھ دیں،دریں اثناء کسی سائل نے سوال کیا تو آپ نے وہ دونوں روٹیاں اٹھا کر اس کو دیدیں، یہ دیکھ کر وہ حیرت زدہ رہ گئے۔(تذکرۃ الاولیاء،صفحہ 49)
ان اور ان جیسے دیگر واقعات کے بعد صوفیوں کے اس زعم اور فریب کی قلعی کھل جاتی ہے کہ ان کے اخلاق رسول اللہ ﷺ کے اخلاق ہیں۔نبی ﷺ اور صحابہ کرام تو دور کی بات ایک عام مسلمان بھی مہمانوں سے ایسا برتاؤ کرنے میں انتہائی شرم اور غیرت محسوس کرے گاجس کا مظاہرہ صوفیاء کے اکابرین نے کیا ہے ۔ اسی لئے علامہ احسان الہٰی ظہیر رحمہ اللہ نے صوفی مذہب پرگہری تحقیق کے بعد یہ فیصلہ سنایا کہ صوفیاء کا نبی ﷺ کی سیرت اور اخلاق سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ لکھتے ہیں:
جب ہم صوفیوں کی تعلیمات پر گہرائی سے نظر ڈالتے ہیں، ان کے اقوال کو پرکھتے ہیں، ان کی قدیم اور جدید کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں،ان کے متقدمین اور متاخرین کے افکار کو سامنے رکھتے ہیں تو ہمارے سامنے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ ان کی تعلیمات اور قرآن و سنت کی تعلیمات میں بعد المشرقین ہے ۔تصوف کی بنیاد یں،جڑیں اور اس کے بیج کسی بھی طرح ہمیں حضور کی سیرت میں نہیں ملتے اور نہ ہی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کی تعلیمات اور ان کی زندگیوں سے میل کھاتے ہیں۔(تصوف،تاریخ و حقائق، صفحہ 75)
ان حوالہ جات سے اظہر من الشمس ہے کہ صوفیوں کا تصوف کے بارے میں یہ دعویٰ جھوٹا ہے کہ یہ مجموعہ اخلاق کا نام ہے بلکہ یہ تو بد اخلاقیوں اور برائیوں کا مجموعہ ہے۔اہل حدیث کے نزدیک اخلاق وہی ہیں جن کی تعلیم رسول اللہ ﷺ نے دی۔یہ ایک اوروجہ تھی جس کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اہل حدیثوں کا صوفیوں سے کوئی واسطہ اور تعلق نہیں۔اس لئے اہل حدیثوں کے متعلق مخالفین کا صوفی ہونے کا دعویٰ بے بنیاد ہے۔
دسویں وجہ:
اہل حدیث کے صوفی نہ ہونے کی ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اکابرین اہل حدیث صوفیانہ عقائد کے شدید مخالف تھے اور موجود اہل حدیث علماء بھی صوفیانہ عقائد کو کفریہ اور شرکیہ قرار دے کر انہیں رد کرتے ہیں۔ایسی مضبوط وجہ کی موجودگی میں تو کسی کوبھی حق نہیں پہنچتا کہ کسی اہل حدیث کی جانب صوفی ہونے کی نسبت کرے لیکن اتنی بڑی حقیقت کو نظر انداز کرکے مخالفین صرف کچھ افعال میں صوفیوں سے بعض اکابرین اہل حدیث کی مشابہت کی بنیاد پرہی ان کے صوفی ہونے کا دعویٰ کردیتے ہیں۔ لیکن مخالفین کی ناانصافی اور دوغلاپن دیکھئے کہ اہل حدیث کے اکابرین کو صوفی قرار دینے والے یہ لوگ خود قادیانیوں کو مسلمان تسلیم کرنے کو تیار نہیں جبکہ قادیانیوں کے قریب قریب تمام افعال اور عقائد مسلمانوں والے ہی ہیں۔وہ مسلمانوں ہی کی طرح نماز پنجگانہ بھی ادا کرتے ہیں، روزے بھی رکھتے ہیں، حج بیت اللہ بھی کرتے ہیں۔ چونکہ قادیانی بھی دیوبندیوں اور بریلویوں کی طرح فروع میں حنفی ہیں اس لئے ایک حنفی دیوبندی و بریلوی اور قادیانی میں تفریق کرنا بھی قریب قریب ناممکن ہے ،یہاں تک کہ خود قادیانی ہی اپنے قادیانی ہونے کا انکشاف کرکے اس مشکل کو آسان نہ کردے ۔حنفیوں سے خصوصاً اور مسلمانوں سے عموماً اس زبردست مماثلت اور مشابہت کے باوجود صرف ایک عقیدہ ایسا ہے جو قادیانیوں کا مسلمانوں سے علیحدہ ہے اور وہ ختم نبوت کا عقیدہ ۔ قادیانی مسلمانوں کے برخلاف رسول اللہﷺ کو آخری نبی تسلیم نہیں کرتے۔یعنی مسلمانوں کے صرف ایک عقیدہ سے انکار یا اسکی مخالفت کی بناء پر کوئی بھی مسلمان بشمول حنفی، قادیانیوں کو مسلمان تسلیم کرنے کو تیار نہیں ،توپھر صوفیوں کے تمام عقائد سے انکار اور مخالفت کے باوجود بھی اہل حدیث کو کس کلیے و قاعدہ کے تحت صوفی قرار دیا جاتا ہے؟؟؟
وحدت الوجود صوفی مذہب کا لازمی اور بنیادی عقیدہ ہے اور قریب قریب تمام ہی صوفیاء اس عقیدہ کو تسلیم کرنے والے اور اسکا دفاع کرنے والے ہیں۔یہ وہ عقیدہ ہے جسے تسلیم کئے بغیر کوئی صوفی ،صوفی نہیں ہوسکتا۔ جس طرح قادیانی مسلمانوں کے بنیادی عقیدے ختم نبو ت کے منکر ہیں اسی طرح ماضی وحال کے تمام اکابرین و اصاغرین اہل حدیث بھی صوفی مذہب کے بنیادی عقیدے وحدت الوجود کا انکار کرتے ہوئے اس کا زبردست رد کرتے ہیں۔مثلاً
01۔ نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ مسئلہ وحدت الوجود کے متعلق اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں:
اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ وحدت الوجود کا مسئلہ کتاب وسنت کے واضح اور صریح نصوص کی بنیاد پر بے شک وشبہ کفر بواح ہے۔(ابقاء المنن،صفحہ 193)
02۔ عبداللہ بہالپوری رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں:
اب وحدت الوجود کا عقیدہ صوفیوں کا بنیادی عقیدہ ہے۔آپ سب کچھ نہ کچھ سکو ل کی تعلیم رکھتے ہیں۔یہ جدھر دیکھتا ہوں تو ہی تو ہے اور ہمہ اوست کا عقیدہ یہ وحدت الوجود کا عقیدہ....اور یہ خالصتاً کفر ہے۔ ایسا گندہ عقیدہ ہے جس کی کوئی انتہاء نہیں۔(خطبات بہالپوری، جلد 1، صفحہ 327)
03۔ حافظ عبداللہ روپڑی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
اب رہی ''توحید الہٰی' ' سو اس کے متعلق بہت دنیا بہکی ہوئی ہے۔بعض تو اس کا مطلب ''ہمہ اوست'' سمجھتے ہیں یعنی ہر شے عین خدا ہے۔(فتاویٰ اہلحدیث، جلد 1، صفحہ 154)
تنبیہ: یہاں عبداللہ روپڑی رحمہ اللہ وحدت الوجودیوں کو گمراہ قرار دے رہے ہیں۔ یادرہے کہ ہمہ اوست اور وحدت الوجودکی حقیقت ایک ہی ہے اور یہ ایک ہی عقیدے کے دو نام ہیں بس ہمہ اوست کی اصطلاح ہندو وغیرہ کفار لوگ استعمال کرتے ہیں اور وحدت الوجود کی اصطلاح صوفیوں کے ہاں مستعمل ہے۔عبدالعزیز نورستانی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
معلوم یوں ہوتا ہے کہ ''ہمہ اوست'' کی اصطلاح ان ملحدین کی تھی جنہوں نے اسلام کا لبادہ نہیں اوڑھا اور وحدۃ الوجود کی اصطلاح ان ملحدین کی ہے جنہوں نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام اور اسلامی عقیدہ کی بیخ کنی کی جیسے ابن عربی، ابن سبعین، عفیف تلمسانی وغیرہ ہم۔(ڈاکٹر اسرار صاحب کا نظریہ توحیدالوجودی اور اس کا شرعی حکم،صفحہ 20)
اسی طرح شاہ ولی اللہ حنفی صوفی بھی ہمہ اوست اور وحدت الوجود کو قریب قریب ایک ہی عقیدہ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
تو دونوں میں ایسی مشابہت پیدا ہوگئی کہ تمیز کرنا مشکل ہوگیا۔اور صفائی اور باریکی کے لحاظ سے ایک دوسرے کے رنگ میں اس طرح ظاہر ہوا کہ لوگوں کی نظروں کے لئے مشکل آن پڑی ''فکا نما خمر لاقدح''جیسے شراب ہے شیشہ نہیں گویا کہ شراب ہے جو منجمد ہے اور پیمانے کا وجود نہیں ''وکا نما قدح ولا خمر'' گویا پیمانہ ہے شراب نہیں۔(انفاس العارفین،صفحہ 231)
04۔ مولانا عبدالرحمن کیلانی رحمہ اللہ نے عقیدہ وحدت الوجود پر بڑا تفصیلی رد کیا ہے۔ وہ اس عقیدہ کو ہندو مذہب سے مستعارعقیدہ قرار دیتے ہوئے رقم طراز ہیں:
ہم پہلے یہ بتلا چکے ہیں کہ یہ نظریہ خود اسلام کے وجود میں آنے سے ہزار ہا سال پہلے ہندؤں کے اپنشدوں میں موجود تھا...اس طرح یہ نظریہ دوسرے مذاہب میں بھی پایا جاتا تھا، تو جب عباسی خلیفہ ہارون الرشید کے زمانہ میں(یعنی دوسری صدی ہجری کے آخر میں) یونانی، لاطینی اور سنسکرت کی بے شمار کتابوں کا ترجمہ عربی زبان میں ہونے لگا تو ان کتابوں میں فلسفہ وحدت الوجود اور تصوف کی بیشمار مسائل پر بحث موجود تھی۔انہی نظریات و مسائل سے ہمارے صوفیاء نے بھی متاثر ہونا شروع کیا۔(شریعت و طریقت،صفحہ 92)
عبدالرحمن کیلانی رحمہ اللہ کے نزدیک بھی صوفیوں کا وحدت الوجود کا عقیدہ غیرشرعی اور غیراسلامی ہے۔چناچہ لکھتے ہیں:
چونکہ عقیدہ وحدت الوجود قرآن کی تعلیم سے براہ راست متصادم تھا اس لئے علمائے دین مخالف ہوگئے۔(شریعت و طریقت،صفحہ 87)
مزید فرماتے ہیں:
اب اتفاق کی بات ہے کہ وحدت الوجود کا مسئلہ عقل یا فلسفہ کا مسئلہ بھی ہے اور وجدان یا تصوف کا بھی ۔بالفاظ دیگر یہ خالص مادہ پرستانہ فلسفہ بھی ہے اور صوفیا ء کا روحانی مسئلہ بھی۔اور ان دونوں کا اس مسئلہ پر اتحاد و اتفاق بھی ہوجاتا ہے لیکن اس کے باجود وحی الہٰی سے متصادم ہے۔(شریعت و طریقت،صفحہ 93)
05۔ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے بھی وحدت الوجودیوں کا مفصل رد کیا ہے ۔اس عقیدہ سے متعلق اپنا نظریہ بیان کرتے ہوئے زبیرعلی زئی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
مروجہ وحدت الوجود کا عقیدہ قرآن و حدیث کے سراسر خلاف بلکہ کفر و باطل ہے۔ (تحقیقی،اصلاحی اور علمی مقالات، جلد 5، صفحہ 55)
06۔ شیخ الحدیث ابوعمر عبدالعزیز النورستانی حفظہ اللہ وحدت الوجود کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار یوں کرتے ہیں:
بہرحال عقیدہ وحدۃ الوجود کو توحید وجودی کہو،شرک وجودی کہو یا کفر وجودی یہ نظریہ کفر ہی کفراور زندقہ ہے۔(ڈاکٹر اسرار صاحب کا نظریہ توحیدالوجودی اور اس کا شرعی حکم،صفحہ 16)
07۔ شیخ الحدیث محمد رفیق اثری حفظہ اللہ کے نزدیک بھی وحدت الوجود کفر،شرک اور الحاد ہے۔اس سلسلے میں وہ عبدالعزیز نورستانی حفظہ اللہ کی رائے کی مکمل موافقت کرتے ہیں چناچہ اپنے دستخط شدہ فتوے میں لکھتے ہیں:
وحدۃ الوجود یا وحدۃ الشہود یا توحید وجودی کے بارے میں مولانا عبدالعزیز نورستانی حفظہ اللہ کی مفصل تحریر کا مطالعہ کیا، اسے فکر سلف صالحین و محدثین رحمہم اللہ کے عین مطابق پایا، میں ان کی تائید و تصدیق کرتا ہوں۔(ڈاکٹر اسرار صاحب کا نظریہ توحیدالوجودی اور اس کا شرعی حکم،صفحہ 39)
08۔ بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ کا شمار بھی وحدۃ الوجود کے شدید مخالفین میں ہوتا ہے انہوں نے اپنی مایہ ناز تصنیف توحید خالص میں وحدۃ الوجود کے قائلین کے دلائل کا تعاقب و علمی رد کرتے ہوئے ان کا خوب محاسبہ و محاکمہ کیا ہے۔ دیکھئے:
(توحید خالص، صفحہ 253 تا454)
09۔ شیخ الحدیث ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ کہتے ہیں:
وحدۃ الوجود کی بھول بھلیاں ہوں یا وحدۃ الشہود کی موشگافیاں ہوں، ان کا ٹھیٹھ اسلام جسے اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے حبیب سیدنا محمد رسولﷺ پر نازل کیا تھا، سے کوئی تعلق نہیں۔آپ ﷺ کے ارشادات یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فرمودات میں ان اصطلاحات اور اس کی تفصیلات کا کوئی تذکرہ نہیں۔ ایک مسلمان کیلئے ان اصطلاحات کی تعلیم و تفہیم قطعاً غیرضروری ہے۔بلکہ وحدۃ الوجود سے توحید اور شرک کی تفریق ختم ہوتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔(ڈاکٹر اسرار صاحب کا نظریہ توحیدالوجودی اور اس کا شرعی حکم،صفحہ 40)
10۔ شیخ الحدیث ابو زکریا عبدالسلام رستمی حفظہ اللہ وحدۃ الوجود کو عین شرک وکفر قرار دیتے ہیں۔دیکھئے:
وجہ ششم: وحدۃ الوجودعین حلول ہے اور عقیدہ حلول عین کفر اور شرک ہے۔
وجہ ھفتم: عقیدہ وحدۃ الوجود اور حلول شرک کیلئے زینہ بلکہ عین کفر اور شرک ہے۔(ڈاکٹر اسرار صاحب کا نظریہ توحیدالوجودی اور اس کا شرعی حکم،صفحہ 43)
11۔ ابو محمد امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ عقیدہ وحدۃ الوجود کا فیصلہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
اہل السنۃوالجماعۃ کے تمام محققین علماء کرام کا یہ متفق علیہ فتویٰ ہے کہ عقیدہ وحدت الوجود اور توحید وجودی کفریہ اور شرکیہ عقیدہ ہے بلکہ یہ یہود اور نصاریٰ کے کفر سے بھی بڑھ کر کفر ہے۔(ڈاکٹر اسرار صاحب کا نظریہ توحیدالوجودی اور اس کا شرعی حکم،صفحہ 55)
پس ثابت ہوا کہ جس طرح قادیانی حضرات مسلمانو ں کے ایک متفقہ عقیدہ کے انکار کے سبب مسلمان کہلائے جانے کے حقدار نہیں بعینہ اسی طرح اہل حدیث بھی صوفیوں کے متفقہ اور بنیادی عقیدہ کے انکار کی وجہ سے صوفی کہلائے جانے کے مستحق نہیں۔