• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حقیقت مذہب صوفیاء اور اہل حدیث

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
حقیقت مذہب صوفیاء اور اہل حدیث

فی زمانہ کچھ منافق قسم کے لوگ اکابرین اہل حدیث کے بارے میں یہ دعویٰ بڑے زور و شور سے کررہے ہیں کہ یہ حضرات صوفی تھے۔ان منافقین کی اس محنت، مشقت ، کدوکاش اور پروپیگنڈہ کی حقیقت و اصلیت صرف اتنی سی ہے کہ اہل حدیث حضرات نے اپنا فرض منصبی نبھاتے ہوئے تصوف اور صوفیوں پر اسلامی اصولوں اور شرعی تعلیمات کی روشنی میں جو اعتراضات قائم کئے ہیں انکے پاس ان اعتراضات کے علمی اور معقول جوابات موجود نہیں۔ اہل باطل نے اپنے تئیں اس کا حل یہ نکالا کہ بجائے دلائل کے جھمیلے میں پڑنے کے اکابرین اہل حدیث ہی کو کیوں نہ صوفی ثابت کردیا جائے تاکہ اہل حدیث ،صوفیوں پر اعتراض کرنے اوران پر انگلی اٹھانے کے بجائے اپنے اکابرین کے دفاع ہی میں الجھ کر رہ جائیں۔

اہل حدیث کے مایہ ناز مناظر پروفیسر طالب الرحمن شاہ حفظہ اللہ نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ''دیوبندیت'' میں جب ایک مستقل باب قائم کرکے دیوبندیوں کے صوفیانہ کفریہ و شرکیہ عقائد سامنے لاکر دیوبندیوں کاگمراہ اور غالی صوفی ہونا ثابت کیا تو آل دیوبند پر سکتہ طاری ہوگیااور بجائے اپنے صوفیانہ عقائد کا دفاع،انکی وضاحت یا دلائل پیش کرنے کے یہ لوگ ان عقائد پر خاموشی اختیار کرکے اکابرین اہل حدیث کو صوفی ثابت کرنے کی ناکام کوششوں میں جت گئے۔چناچہ طالب الرحمن حفظہ اللہ کی کتاب کا جواب دیتے ہوئے ابوبکر غازی پوری دیوبندی نے اپنی کتاب''وقفۃ مع اللامذھبیۃ فی شبہ القارۃ الھندیۃ'' میں''غیرمقلدین اور تصوف'' کے علیحدہ باب کے تحت اہل حدیثوں کو صوفی ثابت کرنے کا فریضہ سر انجام دیا۔اس سلسلے میں ابوبکر غازی پوری دیوبندی کی شدت اور جذباتیت ملاحظہ فرمائیں موصوف لکھتے ہیں: چونکہ غیرمقلدین سلفیوں کے ساتھ انتہائی محبت اور ان کی صفوں سے انتہائی ملاپ کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس لئے انہوں نے آزادی کے ساتھ تصوف پر حملے شروع کردئے ہیں اور عارفین اولیاء اللہ کی شان میں زبان درازی کرنے لگے ہیں ۔تاہم یہ اپنے گھروں میں جو کچھ ہے اس سے جاہل ہیں یا اپنے آپ کو اس سے انہوں نے بتکلف انجان بنا رکھا ہے اور صحیح بات یہ ہے کہ انہوں نے قصداً اپنے آپ کو جاہل بنایا ہے اس لئے ان کے متعلق یہ کیسے سوچا جاسکتا ہے کہ انہیں اپنے اسلاف و اکابر کے واضح اور بالکل ظاہر عقائد کا علم نہ ہوگا......چونکہ ہمارے کئی سلفی بھائی ان کے فاسد عقیدہ اور تصوف سے متعلق انکے موقف سے واقفیت نہیں رکھتے اس لئے ان پر ان کے جھوٹ کا فریب چل گیا ہے....اس بنا ء پر ہم نے ضروری سمجھا کہ تصوف کے بار ے میں ان کے موقف کو واضح کردیں، ان کے گھروں میں داخل ہوکر وہاں کی تفتیش کریں تاکہ دنیا کے سامنے ان کا جھوٹ، نفاق اور دھوکہ کھل جائے۔(کچھ دیر غیرمقلدین کے ساتھ، صفحہ 161,160)

اہل باطل کا یہ طریقہ واردات نیا بالکل نہیں بلکہ ہر اس معاملہ میں جس میں یہ دلائل سے کورے اورانکا دامن نصوص سے خالی ہو یہ لوگ یہی آزمودہ حربہ آزماتے ہیں۔مثلاً اہل حدیث کی جانب سے جب دیوبندی اکابرین پر وحدت الوجودی ہونے کا الزام لگایا گیا تو دیوبندیوں نے کوئی علمی جواب دینے کے بجائے اس بات کو آسان جانا کہ کتب اہل حدیث سے گول مول،ادھوری، نامکمل اور منسوخ عبارتوں کے ذریعہ وحدت الوجودی ہونے کا یہی الزام اکابرین اہل حدیث پر عائد کردیا جائے۔کیونکہ دیوبندی بھی بخوبی اس بات کو جانتے ہیں کہ عقیدہ وحدت الوجود خالص کفر اور شرک ہے جس کامعقول جواز پیش کرنا آسان نہیں اور اس عقیدہ کی بناء پر خود انکے اکابرین کفر و شرک کی زد میں ہیں پھر اس میدان میں ان کے ہاتھ بھی نصوص سے خالی ہیں توایسی صورتحال میں جو الزام خود ان پرلگ رہا ہے وہی الزام دوسروں پر عائد کردینے سے بہتر اورکوئی بات نہیں ۔اس سلسلے میں انکے گھر کی گواہی ملاحظہ کریں: رب نواز دیوبندی نے سرفراز حسن خان حمزہ دیوبندی کے نام لکھا ہے: آج کل غیرمقلدین نے دیوبندیوں کے عقائد کفریہ و شرکیہ قرار دینے کی مہم چلا رکھی ہے ، وہ لوگ فروعی مسائل میں پے درپے شکستوں سے دوچار ہوئے ، تواب فروع کے بجائے عقائد کو تختہ مشق بنا رہے ہیں۔جن عقائد کو انہوں نے کفریہ قراردیا ہے ان میں ''وحدۃ الوجود'' بھی ہے۔ بندہ کے پاس کئی مضامین لکھے ہوئے غیرمطبوعہ موجود ہیں، مگر چونکہ دور حاضر میں اس کی شدید ضرورت ہے کہ خود غیرمقلدین کا وحدۃ الوجودی ہونا ثابت کیا جائے۔ (مجلہ صفدر گجرات ،شمارہ نمبر5، صفحہ 46)

حالانکہ اگریہ جاہل لوگ صوفیت کی اصلیت سے صحیح طور پر واقف ہوتے تو ہرگز اکابرین اہل حدیث کو صوفی کہنے کی جراءت نہ کرتے کیونکہ تصوف اہل حدیث مذہب میں ٹاٹ کاوہ پیوند ہے جو چاہ کر بھی نہیں لگ سکتا۔یا یوں کہیں کہ یہ لوگ سب کچھ جان کر بھی اپنے مذموم مقاصد کے حصول کی خاطر انجان بنے ہوئے ہیں اسی لئے ان لوگوں نے اکابرین اہل حدیث کودجل و فریب کے ذریعے صوفی ثابت کرنے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔۔ صوفیت اور اہل حدیث کے عقائد و منہج میں بعد المشرکین ہے جس کی وجہ سے صوفی مذہب اور اہل حدیث مذہب ایک دوسرے کی ضد ہیں اگر ایک شخص صوفی ہوگا تو وہ اہل حدیث نہیں ہوسکتا اور اگر اہل حدیث ہوگا تو اسکا صوفی ہونا ممکن نہیں۔لیکن یاد رہے کہ کسی اہل حدیث کا جزوی طور پر تصوف سے متاثر ہوجانا ممکن ہے جسے ہم نے اس لئے خارج از بحث رکھا ہے کہ تصوف سے کسی شخص کاجزوی طور پر متاثر ہونا اسے صوفی نہیں بناتا۔ تحت السطور میں ہم اپنے اس دعویٰ ( کہ بیک وقت صوفی اور اہل حدیث ہونا ممکنات میں سے نہیں) کی تفصیل بیان کریں گے اور وہ وجوہات بیان کریں گے جن کی بنا ء پراہل حدیث کا صوفیت سے تعلق جوڑنا درست نہیں ۔ ان شاء اللہ
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
پہلی وجہ:

پہلی وجہ یہ ہے کہ تصوف کے حق یا مخالفت میں اور اہل تصوف یعنی صوفیوں کے حالات و تراجم پر آج تک اہل حدیث اور غیر اہل حدیث حضرات کی جانب سے جتنی بھی کتابیں لکھی گئیں ہیں ان میں سے کسی ایک کتاب میں بھی کسی اہل حدیث کا بطور صوفی کوئی تذکرہ سرے سے موجود نہیں جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اہل باطل کی اکابرین اہل حدیث کو صوفی ثابت کرنے کی کوشش محض اندھیرے میں تیر چلانا ہے۔برصغیر پاک وہند اوردیگر مختلف مقامات سے تعلق رکھنے والے مشہور و معروف صوفیاء کے تذکرہ و تعارف پر لکھی گئی کتب جیسے شیخ فرید الدین عطار کی معروف تصنیف تذکرۃ الاولیاء، ڈاکٹر ظہورحسن شارب کی تالیف تذکرہ اولیائے پاک و ہند، مرزا محمد اختر دہلوی کی کتاب تذکرہ اولیائے برصغیر، صباح الدین عبدالرحمن کی تذکرہ اولیائے کرام ، ڈاکٹر انعام الحق کوثر کی تصنیف لطیف تذکرہ صوفیائے بلوچستان، اعجاز الحق قدوسی کی تذکرہ صوفیائے پنجاب، تاریخ مشائخ چشت از خلیق احمد نظامی وغیرہ میں اکابرین اہل حدیث کے ناموں کا صوفی کی حیثیت سے ذکر نہ ہونا آل تقلید کے مکذبانہ دعویٰ پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اگر انکے دعویٰ کے مطابق واقعی اہل حدیث کے بڑے صوفی تھے تو مذکورہ بالا کتابوں اور اسی موضوع پر لکھی جانے والی دیگر کتابوں میں سے کسی ایک میں بھی انکا تعارف کیوں موجود نہیں؟؟؟ متعلقہ کتب میں اکابرین اہل حدیث کاعدم ذکر اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ اکابرین اہل حدیث صوفی نہیں تھے اسی لئے کسی تذکرہ نگار نے بطور صوفی انہیں اپنی کتاب میں جگہ نہیں دی۔

دوسری وجہ:

دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ جن ادھوری اور غیر متعلق عبارات پر اہل حدیث حضرات کے صوفی ہونے کا شور مچایا جاتا ہے خود اہل باطل کو اعتراف ہے کہ وہ عبارات اور حوالے مبہم ہیں۔ روزنامہ اوصاف کے ایک مقلد کالم نگار پروفیسر محی الدین اپنے ایک کالم میں واشگاف الفاظ میں اعتراف کرتے ہوئے رقم کرتے ہیں: اکابرین اہلحدیث ؒ کے ساتھ ایک بڑی زیادتی یہ ہوئی کہ اولاً تو انکی سوانحیات مرتب ہی نہیں ہوئیں ہیں، اور جو مرتب کی گئی ہیں ، ان میں اکابرین اہلحدیثؒ کاجو تعلق تصوف و سلوک کے ساتھ تھا ، اسے نہ صرف مبہم کرکے پیش کیا گیا ، بلکہ ایک حد تک تو اسے پس پردہ کر دیا گیا ہے۔

وہ بات جس کا ذکر نہ تھا سارے فسانے میں​
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے۔​

یہ ساری دہائی اور افسوس اس لئے ہے کہ مخالفین کو اہل حدیث کی تحریروں میں اپنے مطلب کی بات نہیں مل رہی ۔خوب اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ایسی عبارتوں اور اسے حوالوں پر قائم کی گئی عمارت کی حالت کیسی ہوگی۔
سیدھی سی بات ہے اگر اکابرین اہل حدیث صوفی ہوتے تو انکی تحریروں میں اسکا ظہور ہوتالیکن چونکہ اہل حدیث کے اکابر صوفی تھے ہی نہیں اس لئے ان کے تعلق تصوف کی عبارتیں بھی مبہم ہیں جو اہل تقلید کو خاص فائدہ نہیں دیتیں اس لئے وہ بیچارے انہی دستیاب مشکوک عبارتوں سے اپنا مطلب کشید کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اپنے دعویٰ کو ثابت کرنے کے لئے آل تقلید کو چاہیے کہ وہ ایسی صاف اور دوٹوک عبارتیں پیش کریں جو اکابرین اہل حدیث کے تعلق صوفیت سے متعلق تمام شبہات دور کردیں۔بہت بہترہوگا کہ اہل حدیث کے اکابرین کو عقائد کے لحاظ سے صوفی ثابت کیا جائے وگرنہ مبہم عبارتوں پر مشتمل مخالفین کے ٹوٹے پھوٹے اور لولے لنگڑے دلائل قابل التفات نہیں ہونگے اور انکی بہترین جگہ ردی کی ٹوکری ہوگی۔

اس سلسلے میں ایک بہت بڑا ظلم اہل حدیثوں پر یہ کیا جاتا ہے کہ صوفی مذہب سے انکا تعلق جوڑنے کے لئے ایسے لوگوں کی عبارتیں بھی زبردستی اہل حدیث کے سر تھوپ دی جاتی ہیں جو بالاتفاق اہل حدیث نہیں تھے بلکہ اہل حدیث کے کوچے سے بھی کبھی ہوکر نہیں گزرے تھے جیسے شاہ ولی اللہ حنفی، وحیدالزماں رافضی اور شاہ اسماعیل شہید وغیرہ

اس کا سبب بھی وہی ہے جسے بالا سطور میں ذکر کیا گیا ہے کہ مخالفین کے پلے اکابرین اہل حدیث کو صوفی ثابت کرنے کے لئے واضح اور دوٹوک عبارات موجود نہیں تھیں لہٰذا صاف اورصریح عبارتوں کے حصو ل کے لئے کچھ ایسے غیر اہل حدیث لوگوں کو تلاش کیا گیا جنکی کچھ خدمات کے اہل حدیث معترف ہیں اور انکی تعریف کرتے ہیں ۔ان حضرات کے بارے میں پہلے بزعم خویش دعویٰ کیا گیا کہ جماعت اہل حدیث ان افراد کو اپنا اکابر تسلیم کرتی ہے پھر انکے صوفیانہ افکارو نظریات کو اہل حدیث کے خلاف بطور حجت پیش کرکے اس مشکل مسئلہ کا ریڈی میڈ حل تیار کرلیا گیا۔دیکھئے:

ابوبکر غاز ی پوری دیوبندی روایتی بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلے ''تصوف اور حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ''کی سرخی لگاتے ہیں پھر خفیہ انکشاف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: غیرمقلدین حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ برصغیر میں دعوت سلفیہ کے بانی، قائد اور امام ہیں، ان کی علمی، دینی اور اصلاحی خدمات کو سراہتے ہیں۔لیکن یہ بات بہت افسوسناک ہے کہ غیر مقلدین بڑی شدت کے ساتھ تصوف کے بارے میں حضرت شاہ ولی اللہؒ کے موقف اور صوفیہ اور اصحاب طریقت کے بارے میں ان کے عقیدہ کو چھپاتے ہیں۔ان کا یہ کتمان اس خوف کی وجہ سے ہے کہ کہیں سادہ لوح لوگوں کے سامنے ان کے جھوٹے پروپیگنڈے کی حقیقت نہ کھل جائے۔ (کچھ دیر غیرمقلدین کے ساتھ، صفحہ 165)

شاہ ولی اللہ دہلوی کا اہل حدیث نہ ہونا اور حنفی و صوفی ہوناسب کے نزدیک اس قدر روشن ، واضح اور غیرمتنازعہ حقیقت ہے کہ اس بابت ہمیں کچھ لکھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔حیرت ہے ابوبکر غازی پوری صاحب نے یہ نہ ہضم ہونے والا جھوٹ کیسے اتنی آسانی سے بول دیا! سچ یہ ہے کہ دفاع مذہب کے لئے ان مقلدین کے دل اور آنکھیں اندھے ،قلم اور زبان بے لگام ہوجاتے ہیں کچھ نہیں دیکھتے ،سنتے کہ کیا لکھ رہے ہیں کیا بول رہے ہیں۔پھر دفاع مذہب کے فریضہ کی ادائیگی میں مخالفین پر مضحکہ خیزالزامات لگانے کی وجہ سے چاہے ان کی جگ ہنسائی ہو، چاہے قرآن و حدیث کا مذاق اڑاکر انھیں رد کرکے ان کی آخرت داؤ پر لگ جائے۔ بہتانات اور کذب بیانیوں کے پہاڑ کھڑے کرنے کی وجہ سے اللہ کے ہاں جھوٹوں میں ان کا نام لکھ دیا جائے یہ مقلدین ایسی کسی بڑی سے بڑی ''قربانی'' سے بھی دریغ نہیں کرتے۔

ابوبکر غازی پوری صاحب نے اپنے جھوٹ میں مزید وزن پیدا کرنے کے لئے شاہ ولی اللہ حنفی کے ساتھ ساتھ شاہ اسماعیل کو بھی اہل حدیث کے کھاتے میں ڈال دیا۔اب ان کا پر زور اصرار ہے کہ اہل حدیث یہ تسلیم کرلیں کہ ان کے مذہبی اکابرین صوفی تھے۔ چناچہ لکھتے ہیں: جوعقائد اور تعلیمات ماقبل ذکر کئے گئے ہیں یعنی ان دونوں بزرگوں کا صوفیانہ مزاج ، شیخ ابن عربی اور طریقت کے شیوخ کی تعظیم، وحدۃ الوجود کا قول اور اولیاء اللہ کے بارے میں یہ اعتقاد کہ ان پر ملاء اعلی کے احکام جاری ہوتے ہیں چناچہ وہ کائنات میں تصرف کرتے ہیں، کشف اور مراقبہ کے متعلق ان کا عقیدہ اس طرح کی دوسری باتیں جن کے بارے میں ہم اس کتاب میں تفصیلی گفتگو کرچکے ہیں، ان جیسے عقائد پر مشتمل حضرت شاہ ولی اللہ اور حضرت شاہ اسماعیل کی تحریروں کے بارے میں ہم نے علمائے نجد کے فتاویٰ بالتفصیل ذکر کئے، یہ تمام عقائد اور افکار تصوف ان کے نزدیک کفر،ضلالت، شرک اور بدعت فی الدین ہیں۔
تو کیا ان ضلالتوں اور ان شرکیات سے غیر مقلدین کے لئے جان چھڑانا ممکن ہے حضرت شاہ ولی اللہؒ اور شاہ اسماعیلؒ کو دعوت سلفیہ اور تحریک غیرمقلدیت کے امام اور برصغیر میں انہیں اس تحریک کا بانی سمجھ کر غیرمقلدین نے ان شرکیات کے ساتھ اپنی بندش مزید مستحکم اور مضبوط کرلی ہے۔(کچھ دیر غیرمقلدین کے ساتھ، صفحہ 182,181)

ابوبکر غازی پوری دیوبندی کی ڈھٹائی سے قطع نظر کرتے ہوئے عرض ہے شاہ اسماعیل کا شمار بھی شاہ ولی اللہ کی طرح اہل حدیث کے تسلیم شدہ بزرگوں میں نہیں ہوتا بلکہ دیوبندیوں اور اہل حدیث کے مابین یہ ایک متنازعہ شخصیت ہیں دیوبندی ان کو اپنا ہم مسلک قرار دیتے ہیں جبکہ بعض اہل حدیث انکا مسلک اہل حدیث بتاتے ہیں۔بہرحال جماعت اہل حدیث کے غیرمتنازعہ اور مستند علماء کو چھوڑ کر ایک متنازعہ اور مختلف فیہ شخصیت شاہ اسماعیل کے اقوال اور صوفیانہ نظریات سے اہل حدیث پر کوئی الزام قائم کرناکسی صورت ممکن اور درست نہیں۔

بعض اہل حدیث کی شاہ اسماعیل کو اہل حدیث سمجھنے کی وجہ انکا حسن ظن ہے۔اہل حدیث بیچارے اتنے سادہ لوح اور غیر متعصب ہوتے ہیں کہ کسی بھی شخص کو محض رفع الیدین کرتے اور آمین بالجہر کہتے دیکھ کر ہی اسکے اہل حدیث ہونے کا گمان کر بیٹھتے ہیں اس بات سے قطع نظر کرکے کہ جس شخص کو وہ اہل حدیث سمجھ رہے ہیں اسکا عقیدہ اور منہج کیا ہے۔چونکہ شاہ اسماعیل نے رفع الیدین کے اثبات پر ایک کتاب بنام ''تنویر العنین'' لکھی تھی اور توحید پر ان کی لکھی ہوئی شہرہ آفاق اور کسی قدر متنازعہ کتاب ''تقویۃ الایمان'' سے بعض لوگوں کو شبہ ہوا کہ شاید وہ اہل حدیث ہیں حالانکہ صرف رفع الیدین یا آمین بالجہر کرلینے یا ان سنتوں کا قائل ہوجانے کی وجہ سے کوئی اہل حدیث نہیں ہوجاتا جب تک وہ اہل حدیث کے عقائد نہ اپنا لے۔تاریخ میں کئی ایسی شخصیات گزری ہیں جو حنفی المشرب تھیں لیکن انکے چند فروعی مسائل میں اہل حدیث کی مطابقت کی بناء پر ہی انکے اہل حدیث ہونے کا دعویٰ کردیاگیاحالانکہ یہ اہل حدیث حضرات کی سادگی اور ان شخصیات سے حسن ظن کے علاوہ کچھ نہیں۔

ابوبکر غازی پوری صاحب کے دل میں بھی چور ہے اور خود انکے نزدیک بھی یہ دونوں شخصیات یعنی شاہ ولی اللہ اور شاہ اسماعیل (جن کے بارے میں بیانگ دہل دعویٰ کررہے ہیں کہ یہ اہل حدیث کے اکابرین ہیں )اہل حدیث نہیں بلکہ حنفی المسلک تھے لیکن موصوف اس کا کھل کا اظہار نہیں کررہے کیونکہ پھر ان شخصیات کے صوفیانہ افکار کو اہل حدیث پر ناحق چسپاں نہیں کیا جاسکے گا۔ لیکن ابوبکر غازی پوری کی اس مکاری کی کھلا ثبوت یہ ہے کہ موصوف نے جہاں جہاں شاہ ولی اللہ اور شاہ اسماعیل کا ذکر کیا ہے وہاں وہاں انکے ناموں کے ساتھ رحمہ اللہ کی علامت اور دعائیہ کلمات ضرورلکھے ہیں لیکن اسکے برعکس جہاں جہاں علمائے اہل حدیث کا انکی تحریروں میں ذکر آیا ہے انکا صرف نام لکھنے پر ہی اکتفاء کیا ہے اور اہل حدیث علماء کے ناموں کے ساتھ کسی بھی قسم کے دعائیہ کلمات لکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی ۔ ابوبکر غازی پوری کا یہ طرز عمل انکا پردہ فاش کررہا ہے اور اس سچ کو واضح کررہا ہے کہ شاہ ولی اللہ اور شاہ اسماعیل انہیں کی ہم مذہب شخصیات ہیں جبھی انہوں نے انکے اور اہل حدیثوں کے درمیان یہ واضح فرق روا رکھا ہے۔ابوبکر غاز ی پوری اور انکی جماعت سے ہم یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ تمام علمائے اہل حدیث میں سے آپکی دعاؤں اور احترام کے مستحق صرف شاہ ولی اللہ اور شاہ اسماعیل ہی کیوں ؟ باقی علمائے اہل حدیث نے آخر کیا قصور کیا ہے؟ کیا یہ فرق اس لئے تو نہیں کہ شاہ ولی اللہ اور شاہ اسماعیل اہل حدیث نہیں بلکہ حنفی تھے۔ جی ہاں یہی حقیقت ہے اس لئے یہاں ابوبکر غازی پوری نے بڑی حد تک کھل کر اپنی منافقت اور منافقانہ پالیسی کا اظہار کردیا ہے۔ لکھتے ہیں: حضرت شاہ اسماعیل شہید اور حضرت شاہ ولی اللہ رحمہمااللہ کے بارے میں علمائے غیرمقلدین جو کچھ کہتے ہیں ہم اس کا انکار نہیں کرتے ہیں کیونکہ یہ دونوں بزرگ علم، دین اور تجدید کے اس مرتبہ پر تھے بلکہ ہم ان دونوں کے بارے میں اس سے زیادہ کا اعتقاد رکھتے ہیں۔(کچھ دیر غیرمقلدین کے ساتھ، صفحہ 181)

کیا یہ ممکن ہے کہ ابوبکر غازی پوری صاحب علمائے اہل حدیث کو اہل حدیث کے اعتقاد سے بھی بڑھ کر دیندار اور عالم تسلیم کریں؟ یہ تو شاہ سے بڑھ کر شاہ کی وفاداری والی بات ہے جو کہ ممکن نہیں۔بلکہ یہ تو وہ لوگ ہیں جن کا سینہ حسد، جلن اور بغض اہل حدیث سے پھٹا جارہا ہے ان سے علمائے اہل حدیث کے لئے ادب و احترام کی توقع کرنا دیوانے کا خواب ہے۔پس ثابت ہوا کہ شاہ ولی اللہ اور شاہ اسماعیل پر ابوبکر غازی پوری کی یہ مہربانیاں، کرم فرمائیاں اور محبتیں صرف اس لئے ہیں کہ یہ انکے اپنے علماء ہیں۔

اس بدترین کذب بیانی اور شرم ناک بددیانتی پر اہل تقلیدکو صرف دفاع اکابر اور دفاع مذہب کے جذبہ نے مجبورکیا کیونکہ اپنا موقف ثابت کرنے لئے انکے پاس ٹھوس دلائل نہیں تھے اس کمی کو پورا کرنے کے لئے انہوں نے ایسے صوفیوں کا مسلک اہل حدیث سے زبردستی رشتہ جوڑ دیا جن کا تعلق دور دور تک مسلک حق اہل حدیث سے نہیں تھا۔

تیسری وجہ:

اکابرین اہل حدیث کے بارے میں صوفی ہونے کے دعویٰ کے غلط ہونے کی ایک اور اہم اور تیسری وجہ یہ بھی ہے کہ اہل حدیث کا مذہب پورا کا پورا منزل من اللہ ہے اسکے برعکس صوفی مذہب کچھ انتہائی گمراہ انسانوں کے ہاتھوں معرض وجود میں آیاہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ کا دین اور گمراہ و بے دینوں کا مذہب ایک ہی انسان میں بیک وقت جمع ہوجائیں۔ اس لئے اکابرین اہل حدیث کے صوفی ہونے کا دعویٰ غلط ٹھہرا۔ مذہب اہل حدیث کے وحی الہی پر مشتمل ہونے کی وجہ سے نہ تو اس مذہب کے آغاز اور ابتداء کی نسبت کسی انسان کی جانب کی جاسکتی ہے اور نہ ہی امت میں کوئی ایسا شخص ہے جس کا نام اس مذہب کے بانی کے طور پر پیش کیا جاسکے لیکن تاریخ عالم کے تین اشخاص ایسے ہیں جنھیں سب سے پہلے صوفی کہا گیا اور یہی اس مذہب کے بانی بھی ہیں۔

علامہ احسان الہٰی ظہیر رحمہ اللہ رقم طراز ہیں: اسلامی تاریخ کے اندر وہ پہلے تین افراد جو صوفی کے لقب سے مشہور ہوئے ، وہ تینوں شیعہ تھے اور ان مقامات پر رہائش پذیر تھے جو اس دور میں شیعت کے مراکز تھے ،یعنی کوفہ ۔(تصوف ،تاریخ و حقائق، صفحہ 183)

ان میں سے پہلا شخص ابوہاشم الکوفی تھا۔

مشہور مستشرق نیکلسن اورعبدالرحمن جامی کا دعویٰ ہے کہ سب سے پہلے لفظ تصوف کا استعمال مشہور صوفی ابوہاشم الکوفی المتوفی 150ھ کے لئے ہوا۔(التصوف الاسلامی و تاریخہ، صفحہ 3، مطبوعہ قاہرہ)

ابوہاشم کوفہ کے مشہور شیعوں میں سے تھا بلکہ اس کے بارے میں تو یہاں تک کہا جاتا ہے کہ وہ زندیق اور دہریہ تھا۔(طرائق الحقائق، مصنف الحاج معصوم علی، جلد 1، صفحہ 101)

حاجی معصوم نے ابوہاشم الکوفی کے بارے میں لکھا ہے: اموی النسل تھا، ظاہری اعتبار سے فرقہ جبریہ سے تعلق رکھتا تھا جبکہ حقیقت میں دہریہ تھا۔اسلام میں فتنہ فساد پیداکرنے کے لئے اس نے اس مذہب(تصوف) کو وضع کیا۔(طرائف الحقائق، جلد 1، صفحہ 101)

دوسرا شخص جابر بن حیان تھا۔

مشہور مستشرق ماسینئن کہتے ہیں: تاریخ میں یہ پہلا شخص ہے جو صوفی کے لقب سے مشہور ہوا۔آٹھویں صدی عیسوی کے دوسرے نصف میں اس کا نام سامنے آیا، یہ کیمیا دان اور کوفہ کا مشہور شیعہ ہے۔تصوف میں اس کا خاص مقام ہے۔(دائرۃ المعارف الاسلامیہ، جلد6،صفحہ 419)

چیکوسلواکیہ کے مشہور مستشرق محقق پی کراس اور ایم پلیسز لکھتے ہیں: جابر بن حیان غالی شیعہ تھا، غالباً اس کا تعلق فرقہ امامیہ یا اسماعیلیہ سے تھا۔ دیگر غالی شیعوں کی طرح یہ بھی تناسخ ارواح کے عقیدے کا قائل تھا۔(دائرۃ المعارف الاسلامیہ، جلد7،صفحہ 6)

علامہ احسان الہٰی ظہیر رحمہ اللہ ابوہاشم الکوفی اور جابر بن حیان کے بارے میں لکھتے ہیں: تو یہ وہ دو افراد ہیں جو صوفیوں کے بانیان میں سے ہیں۔تصوف کے بانیان میں سے تیسرا شخص عبدک ہے۔(تصوف،تاریخ و حقائق، صفحہ 186)

تیسرا شخص عبدک تھا۔

عبدک کے بارے میں ماسینئن لکھتا ہے: عبدک بغداد کا رہنے والا ایک معتزلی تھا اور سب سے پہلے صوفی کے لفظ سے یہی مشہورہوا۔اس کے زمانے میں یہ لفظ کوفہ کے شیعوں کے لئے استعمال ہوتا تھا، اسکندریہ میں بھی شیعہ اس لفظ کو استعمال کرنے لگے۔چونکہ عبدک گوشت نہیں کھاتا تھا اور لوگوں کو بھی اس سے منع کرتا تھا لہٰذا عام طور پر اس کے بارے میں یہی مشہور تھا کہ وہ زندیق اور بے دین ہے۔
ہمذانی کا کہنا ہے: قرون اولیٰ میں نیک لوگ صوفی کے لفظ سے نہیں پہچانے جاتے تھے۔ بلکہ یہ لفظ تیسری صدی میں آکر مشہور ہوا اور سب سے پہلے بغداد میں عبدک نامی شخص کیلئے یہ لفظ استعمال ہوا۔ عبدک، بشر بن حارث الحافی اور سری بن المفلس السقطی سے پہلے کا صوفی ہے اور اس کا شمار صوفیوں کے بڑے مشائخ میں سے ہوتا ہے۔(الیواقیت والجواھر،مصنف شعرانی، جلد1، صفحہ 26)

کسی بھی باطل فرقے کی سب سے بڑی اور پہلی پہچان یہی ہوتی ہے کہ وہ اللہ کی جانب سے نازل شدہ نہیں ہوتااور اسکا ظہور بھی انسانوں کے ہاتھوں ہوا ہوتا ہے اور یہی حال صوفی مذہب کا ہے کہ تکمیل اسلام کے وقت اور اسکے بہت عرصہ بعد تک نہ تو صوفی نام کے کسی مذہب کا اس دنیا میں کوئی وجود تھا اور نہ ہی اس مذہب کے پیروکار صوفی کے نام سے موسوم تھے ۔شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں: لفظ صوفی پہلے تین صدیوں میں مشہور نہیں تھا بعد میں یہ لفظ استعمال اور مشہور ہوا۔(الصوفیہ و الفقرا،صفحہ 5)
ابن خلدوں کا بھی یہی خیال ہے کہ صوفی ایک جدید اصطلاح ہے جو پہلے موجود نہیں تھی دیکھئے: مقدمہ ابن خلدون ،صفحہ 476

مشہور فرانسیسی مستشرق ماسینئن کہتے ہیں: اگر اس لفظ صوفی کو جمع یعنی''صوفیاء'' کے طور پر استعمال کیا جائے تو یہ سب سے پہلے 189ھ کو استعمال ہوا۔اسکندریہ جو کہ مصر میں ہے ، وہاں کسی معاملے پر کوئی جھگڑا کھڑا ہوا، اس جھگڑے کے دوران پہلی دفعہ یہ لفظ سنائی دیا۔(دائرۃ المعارف الاسلامیہ، جلد 6، صفحہ 419)

علامہ احسان الہٰی ظہیر رحمہ اللہ اسی مسئلہ پر طویل بحث کے بعد فرماتے ہیں: خلاصہ کلا م یہ ہے کہ تمام محققین اس بات پر متفق ہیں کہ لفظ صوفی جدید اختراع ہے اور حضور ، صحابہ کرام اور سلف صالحین کے دور میں اس لفظ کے استعمال کو کوئی ثبوت نہیں ملتا۔(تصوف، تاریخ و حقائق،صفحہ 60)

ثابت ہوا کہ اہل حدیث کا مذہب قدیم ہے جبکہ اسکے مقابلے میں صوفی مذہب جدید ہے اور کوئی بھی انسان بیک وقت اس قدیم اور جدید مذہب کا پیروکار نہیں ہوسکتاپس اکابرین اہل حدیث کے صوفی ہونے کا دعویٰ اور پروپیگنڈہ باطل ہوا۔

چوتھی وجہ:

جو لوگ اکابرین اہل حدیث کو بزعم خویش صوفی قرار دیتے ہیں وہ اپنے اس کمزور موقف پر جو ایک اہم دلیل پیش کرتے ہیں وہ بعض اہل حدیث کا بیعت کرنے اور کروانے کا عمل ہے۔ابوبکر غازی پوری صاحب اپنی کتاب ''کچھ دیر غیرمقلدین کے ساتھ'' میں اکابرین اہل حدیث کو صوفی ثابت کرنے کے لئے باقاعدہ''بیعت اور غیرمقلدین'' کا باب قائم کرتے ہیں اور ''الحیات بعد الممات'' کے حوالے سے سید نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ کے بارے میں اپنے موقف کی تائید میں نقل کرتے ہیں: آپ کے یہاں بیعت کی تمام قسمیں رائج تھیں، سوائے بیعت الخلافہ، بیعت الجہاد، بیعت ثبات فی القتال اور بیعت ہجرت کے، نیز مریدین کو ان کے حسب حال بیعت فرماتے تھے۔ (کچھ دیر غیرمقلدین کے ساتھ، صفحہ 162)

نواب صدیق حسن خان کے بارے میں غازی پوری صاحب لکھتے ہیں: نواب موصوف کے پورے گھرانہ میں تصوف کا سلسلہ قدیم سے چلا آرہا تھا، بیعت ان کے گھر کا معمول چلی آرہی تھی، ان کے والد مولانا سید احمد شہید ؒ کے ہاتھ پر بیعت تھے اور وہ خود اور ان کے بیٹے نواب نورالحسن مولانا فضل الرحمن گنج مراد آبادی سے بیعت تھے۔(کچھ دیر غیرمقلدین کے ساتھ، صفحہ 163)

غازی پوری صاحب بطور فیصلہ لکھتے ہیں: کیا اس کے بعد بھی اس میں شک کی گنجائش رہتی ہے کہ بیعت کا رائج طریقہ فرقہ غیر مقلدین کے اکابر کے حلقہ میں ہمیشہ متد اول رہا ہے۔(کچھ دیر غیرمقلدین کے ساتھ، صفحہ 163)

ہمیں اس بات سے تو انکار نہیں کہ مذکورہ بالا دونوں اکابرین بیعت کے قائل تھے لیکن یہ اعتراض ضرور ہے کہ صرف مسئلہ بیعت سے انکا صوفی ہونا کیسے ثابت ہوتا ہے اور دوسرا یہ کہ ان دونوں حضرات کا عمل باقی اکابرین اہل حدیث پر چسپاں کرکے یہ فیصلہ کیسے کیاجاسکتا ہے کہ '' بیعت کا رائج طریقہ فرقہ غیر مقلدین کے اکابر کے حلقہ میں ہمیشہ متد اول رہا ہے''؟؟؟

مخالفین کا بیعت کو بنیاد بنا کر اہل حدیث کو صوفی ثابت کرنے کا یہ حربہ و طریقہ اس صورت میں بالکل بودا اور بے فائدہ ہے کہ اہل حدیث کے نزدیک اس مروجہ بیعت کی کوئی شرعی حیثیت ہی نہیں ہے ۔ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اسلام میں صرف دو ہی بیعتیں ہیں ۱۔نبی کی بیعت ۲۔ خلیفہ کی بیعت، ان کے علاوہ تیسری کسی بیعت کا دین اسلام میں کوئی نام و نشان نہیں ہے۔(فتاویٰ علمیہ المعروف تو ضیح الاحکام، جلد1، صفحہ 175)

الحمدللہ! پوری جماعت اہل حدیث کا یہی موقف ہے کہ صوفیوں میں رائج سلسلہ بیعت بدعت ہے اور اسکا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔اور یہ اکابرین سے بغاوت یا انکی توہین نہیں کیونکہ اہل حدیث کے مراجع قرآن و حدیث ہیں اکابرین کے غلط افعال نہیں۔

مسئلہ بیعت پر اکابرین اہل حدیث کو صوفی سمجھنا اس لئے بھی غلط ہے کہ اہل حدیث کی تنظیمی بنیادیوں پر قائم ایک جماعت'' غربا اہل حدیث'' عرصہ دراز سے بلکہ اپنے آغاز ہی سے بیعت کی قائل و فاعل ہے اور سلسلہ بیعت انکے ہاں تواتر سے چلا آرہا ہے۔ غربا اہل حدیث کی جانب سے مسئلہ بیعت پر مستقل تصنیفات بھی سامنے آچکی ہیں اور انکی مساجد میں بھی عام طو ر پر وہ احادیث آویزاں نظر آتی ہیں جن سے یہ لوگ مسئلہ بیعت پر استدلال کرتے ہیں۔لیکن انکے اپنی جماعت میں بیعت کرنے اور کروانے کے عمل کی بنیاد پر آج تک کسی نے بھی بشمول مخالفین انہیں صوفیوں کی جماعت قرار نہیں دیا جس کا سبب اس کے سوا کیا ہے کہ محض بیعت کرنے ،کروانے یا بیعت کی ترغیب دلانے سے کوئی صوفی نہیں ہوجاتا۔ جب جماعت غربا اہل حدیث والے بیعت کے فاعل ہونے کے باوجود بھی کسی نے نزدیک صوفی نہیں تو کوئی ہمیں سمجھا دے کہ اہل حدیث کے اکابرین مسئلہ بیعت کی بنیاد پرکیسے صوفی بن جاتے ہیں؟؟؟ ایک ہی چیز کچھ لوگوں کے لئے صوفی ہونے کی دلیل اور کچھ لوگوں کے لئے نہیں ۔یہ کیا اصول ہے؟؟؟

اپنے گھر بیٹھ کر اکابرین اہل حدیث کے بارے میں صوفی صوفی کی رٹ لگالینے سے کوئی اکابر اہل حدیث صوفی نہیں ہوجائے گا بلکہ اس مقصد کو پانے کے لئے ٹھوس دلیل اور کوئی ایسا اصول پیش کرنا پڑے گا جسے اہل حدیث بھی تسلیم کرتے ہوں۔ چونکہ اکابرین اہل حدیث کو صوفی ثابت کرنے کے سلسلہ میں دیوبندیوں کا اختیار کیا گیا اصول اہل حدیث کے نزدیک باطل ہے اور اہل حدیث کے نزدیک مروجہ بیعت غیر شرعی ہے لہٰذا اس غلطی اور اجتہادی خطاء میں مبتلا کسی اکابر اہل حدیث کو ہم صوفی تسلیم کرنے کو ہرگز تیار نہیں۔
مسلمہ اصول ہے کہ مخالف کو صرف اس بات سے ہی قائل کیا جاسکتا ہے جسے وہ مانتا ہو یا اسی اصول کے ذریعے اس الزام قائم کیا جاسکتا ہے جو اصول خود اسکے نزدیک تسلیم شدہ ہو اسکے برعکس صرف یکطرفہ دلائل سے مخالف کو قائل نہیں کیا جاسکتا ۔ہاں البتہ اپنے مقلدین اور اپنی عوام کو وقتی طور پر مطمئن ضرور کیا جاسکتا ہے۔

پانچویں وجہ:

یہ وہ پانچویں اور بنیادی وجہ ہے جس کی وجہ سے اہل حدیث کو صوفی کہنا خود کو اور دوسروں کو دھوکہ میں مبتلا کرنا ہے۔صوفی اور اہل حدیث مذہب میں بعد المشرقین ہے یہ ایک ندی کے وہ دو مخالف کنارے ہیں جو کبھی بھی آپس میں نہیں مل سکتے ، یہ دونوں مذاہب ایک دوسرے کی ضد ہیں حتی کہ صوفی مذہب میں توحید جس چیز کا نام ہے وہ اہل حدیث کے مذہب میں شرک اور کفر ہے اور صوفی مذہب میں جس چیز کو شرک سے تعبیر کیا جاتا ہے اہل حدیث مذہب میں وہ چیز عین توحید ہے۔مولانا عبدالرحمن کیلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اسلام جس چیز کو توحید قرار دیتا ہے وہ صوفیاء کی نظروں میں شرک ہے اور جس چیز کو شرک قرار دیتا ہے۔وہی دین طریقت کی بنیاد ہے۔(شریعت و طریقت، صفحہ 155)

ایک صوفی تلمسانی کی زبانی یہ ننگی اور کھلی حقیقت ملاحظہ فرمائیں: شیخ کمال الدین روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ شیخ تلمسانی نے کہا: قرآن میں توحید ہے کہاں؟ وہ تو پورے کا پورا شرک سے بھرا ہوا ہے، جو شخص اس کی اتباع کرے گا وہ کبھی توحید کے بلند مرتبے پر نہیں پہنچ سکتا۔(بحوالہ شریعت و طریقت، صفحہ 88)

اس لئے عملی طور پر یہ ممکن ہی نہیں کہ ایک شخص اہل حدیث بھی ہو اور صوفی بھی۔ جس طرح ایمان اور نفاق ایک دوسرے کی ضد ہونے کی وجہ سے ایک دل میں بیک وقت جمع نہیں ہو سکتے اسی طرح کوئی شخص بیک وقت صوفی اور اہل حدیث نہیں ہوسکتا۔

یہاں مخالفین کی جانب سے یہ اعتراض کیا جاسکتا ہے یا کسی کویہ وہم اور شبہ ہوسکتا ہے کہ جب ایک حنفی، حنفی ہونے کے ساتھ ساتھ صوفی ہوسکتا ہے اور ایک دیوبندی اور بریلوی، دیوبندی اور بریلوی ہونے کے ساتھ صوفی ہوسکتا ہے تو ایک اہل حدیث، اہل حدیث ہونے کے ساتھ صوفی کیوں نہیں ہوسکتا؟؟؟

اس اعتراض یا شبہ کا جواب نہایت آسان ہے جو کہ یہ ہے کہ حنفی مذہب ایک ایسا مذہب ہے جو ہمہ اقسام کی برائیوں، گمراہیوں، شرکیہ و کفریہ نظریات و عقائد کو اپنے اندر سمو لینے کی بھرپور استعداد اور صلاحیت رکھتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب رافضیوں کو اپنا مذہب چھپانے اور تقیہ کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو انہیں حنفیت وغیرہ سے بہتر کوئی مذہب نظر نہیں آتاجہاں وہ تقیہ کی آڑ میں حنفی بھی بنے رہتے ہیں اور اپنے شیعہ مذہب پر بھی عمل پیرا رہتے ہیں یعنی انہیں نہ تو اپنا مذہب بدلنے کی ضرورت پیش آتی ہے اور نہ اپنے عقیدہ اور عمل میں کوئی ترمیم کرنی پڑتی ہے بس اپنا نام بدل لینے سے کام چل جاتا ہے۔ملاحظہ فرمائیے ایک شیعہ عالم کا اعتراف ،شیعہ مجتہد قاضی نوراللہ شوستری اپنی کتاب مجالس المومنین میں لکھتا ہے: چونکہ علمائے شیعہ اصحاب شقاد شقاق کے طویل غلبے اور اہل تغلب و نفاق کے برسر اقتدار ہونے کے باعث ہمیشہ گوشہ تقیہ میں چھپے اور مخفی رہے ہیں۔اس لئے وہ اپنے آپ کو شافعی یا حنفی ظاہر کرتے رہے ہیں۔(بحوالہ اظہار حقیقت از عبدالستارخان نیازی، صفحہ 175)

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کسی شیعہ کوتقیہ کرنے اور اپنے مذہب پر پردہ ڈالنے کے لئے خود کو اہل حدیث ظاہر کرنے کا خیال کیوں نہیں آتا؟ جواب سیدھا ہے۔ کیونکہ اہل حدیث مذہب میں کسی گمراہی اور غیرشرعی نظریات کی کوئی گنجائش نہیں اس لئے کوئی منافق زیادہ دیر تک اہل حدیث مذہب کا لبادہ اوڑھ کر اپنے نفاق کو نہیں چھپا سکتا۔ یہ آسانی اور سہولت حنفی مذہب میں ہے کہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والا شخص باآسانی حنفیت کے لبادے میں تمام عمر اپنی منافقت کو چھپا ئے رکھ سکتا ہے۔یہ بظاہر ناممکن کام حنفی مذہب میں کیونکر ممکن ہوتا ہے ۔اسکا جواب یہ ہے۔

حنفی مذہب کا عقائد سے کوئی واسطہ نہیں یہ صرف فروعی مسائل تک محدود مذہب ہے۔ اس لئے خود کو حنفی مذہب سے منسوب کرنے والے گروہ برملا اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ عقائد میں ابوحنیفہ کی تقلید نہیں کرتے صرف مسائل میں انکی تقلید کرتے ہیں۔دیوبندیوں کی مستند عقیدہ کی کتاب میں صاف لکھا ہے: جاننا چاہیے کہ ہم اور ہمارے مشائخ اور ہماری ساری جماعت بحمداللہ فروعات میں مقلد ہیں مقتدائے خلق حضرت امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے، اور اصول اور اعتقادیات میں پیرو ہیں امام ابوالحسن اشعری اور امام ابو منصور ماترید ی رضی اللہ عنہما کے۔(المھندعلی المفند یعنی عقائد علماء اہل سنت دیوبند، صفحہ 29)

اور یہ حال صرف دیوبندیوں کا نہیں بلکہ ہر حنفی عقیدہ میں کبھی شیعہ ہوتا ہے کبھی اشعری اور ماتریدی، کبھی جہمی،کبھی مرجیہ، کبھی معتزلی، کبھی زیدی، کبھی صوفی اور کبھی قادیانی۔

مولانا عبدالحئی لکھنوی حنفی اس حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے رقمطراز ہیں: حنفیہ سے مراد وہ فرقہ ہے کہ جو مسائل فروعات میں امام ابوحنیفہ ؒ کی تقلید کرتا ہے اور اعمال شرعیہ میں ان کے طریقہ پر چلتا ہے خواہ اصول عقائد میں انکے موافق ہو یا مخالف۔پھر اگر موافق ہوتو اس کو کامل حنفی کہا جاتا ہے اور اگر موافق نہ ہو تو اس کو حنفی کہا جاتا ہے....پس کتنے حنفی فروع میں حنفی ہیں اور عقیدہ میں معتزلی۔ جیسے زمخشری جاراللہ مولف کشاف وغیرہ اور جیسے مولف قنیہ و حاوی اور مجتبیٰ شرح مختصر قدوری نجم الدین زاہدی ....اور جیسے عبدالجبار اور ابی ہاشم اور جبائی وغیرہ ہیں۔ اور کتنے حنفی فروعات میں حنفی ہیں اور اصول میں زیدی یا مرجی۔
حاصل کلام یہ کہ حنفیہ کی باعتبار اختلاف عقیدہ کئی شاخیں ہیں۔پس ان میں شیعہ ہیں اور معتزلی ہیں اور مرجیہ ہیں پس مراد حنفیہ سے وہ حنفیہ مرجیہ ہیں کہ جو ابوحنیفہؒ کے تابع ہیں فروعات میں اور مخالف ہیں ان کے عقیدہ میں۔(مجموعۃ رسائل الکنوی الرفع و التکمیل،جلد 5، صفحہ 189)

حنفیوں کا یہ اصول ابوحنیفہ کی تقلید کا دم بھرنے والوں کو عقیدے کے باب میں آزاد اور شتربے مہار بنادیتا ہے اور اس بات کو ممکن بناتا ہے کہ کسی بھی عقیدہ کا شخص باآسانی حنفیت کا لبادہ اوڑھ سکتا ہے یعنی ایک شخص ابوحنیفہ کا مقلد ہونے کے ساتھ ساتھ اشعری و ماتریدی بھی ہوسکتا ہے جیسے اس وقت دیوبندی اور بریلوی ہیں اور ایک حنفی ،حنفی ہونے کے ساتھ بیک وقت قادیانی،شیعہ وغیرہ بھی ہوسکتا ہے۔ یہ اسی اصول کی کرشمہ سازی ہے کہ تاریخ میں جتنے بھی صوفیوں کے اکابرین اور مشہور بزرگ گزرے ہیں وہ کم و بیش سب کے سب حنفی مذہب کے پیروکار تھے اسکے برعکس کوئی ایک بھی ایسا مستند صوفی نہیں گزرا جس کا تعلق مسلک اہل حدیث سے رہا ہو۔

آپ نے دیکھ لیا کہ حنفی مذہب کا معاملہ اہل حدیث مذہب سے یکسر مختلف ہے۔ ایک شخص حنفی ہونے کے ساتھ صوفی المشرب ہوسکتا ہے لیکن چونکہ اہل حدیث مذہب عقائد و مسائل کے لحاظ سے ایک مکمل مذہب ہے اور اہل حدیث جس طرح فروعی مسائل قرآن و حدیث سے لیتے ہیں اسی طرح ان کے تمام اصول و عقائد کی بنیاد بھی قرآن و حدیث پر ہی ہوتی ہے لہٰذا اہل حدیث کا معاملہ ان گمراہ صوفیوں کے بالکل برعکس ہے قرآن و سنت کا پیروکار عقیدہ میں بھی اہل حدیث ہوتا ہے اور مسائل میں بھی اہل حدیث مذہب پر کاربند رہتا ہے یعنی وہ کامل اہل حدیث ہوتا ہے۔اس لئے اصولی طور پر یہ ممکن ہی نہیں رہتا کہ ایک اہل حدیث ، اہل حدیث ہونے کے ساتھ صوفی بھی ہو یعنی اصولی طور پر یہ بات ہی غلط اور عقلاً محال ہے کہ کوئی شخص اہل حدیث بھی ہو اور صوفی بھی اور یہی بات اہل حدیث مذہب کے پیروکار کا صوفی المشرب ہونا نا ممکنات میں سے بناتی ہے ۔

پس اس بحث سے ثابت ہوا کہ تصوف اور اہل حدیث کے عقائد،مسائل و مناہج الگ الگ ہونے کی وجہ سے اگر کوئی اہل حدیث صوفیانہ عقائد کو اپنائے گا تو اہل حدیث نہیں رہے گا اور اگر اہل حدیث کے عقائد پر قائم رہے گا تو صوفی نہیں رہے گا۔لہٰذا مخالفین کا اہل حدیث اکابرین کو صوفی قرار دینے کا دعویٰ بے بنیاد ہے۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
چھٹی وجہ:

اس کی چھٹی وجہ یہ ہے کہ طریقت اور تصوف کے بارے میں صوفی پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ یہ تزکیہ اور احسان کا ہم معنی ہے جو شریعت کو مطلوب ہے یعنی شریعت میں جو چیز تزکیہ نفس یا احسان کے نام سے موسوم ہے اسے ہی دوسرے معنوں میں طریقت یا تصوف کہا جاتا ہے۔ مولانا زکریا دیوبندی تصوف کو تزکیہ اور احسان کا ہم معنی قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں: قرآن مجید کی اصطلاح میں اس کا نام تزکیہ ، حدیث کی اصطلاح میں اس کا نام احسان اور بعض علماء متاخرین کی اصطلاح میں اس کا نام فقہ باطن ہے۔ (شریعت و طریقت کا تلازم، صفحہ 57)

اسی طرح ابن الحسن عباسی دیوبندی لکھتے ہیں: یہاں اکابر دیوبند کی یہ چند عبارتیں نقل کی گئی ہیں ورنہ اس موضوع پر ان کی ہرکتاب ، ہر وعظ اور ہر مضمون اس حقیقت کی وضاحت کرتا ہے کہ ان کے نزدیک تصوف اور احسان ایک چیز کے دو نام ہیں۔(کچھ دیر غیرمقلدین کے ساتھ، صفحہ 75)

مذکورہ بالا کلام صوفیوں کا بدترین اور خطرناک مغالطہ ہے جبکہ اسکے برعکس حقیقت کوئی اور ہی کہانی سناتی ہے۔ اور اس حقیقت سے صوفی بھی بخوبی واقف ہیں کہ تصوف اورشرعی تزکیہ نفس کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔لیکن اپنے مطلب کے حصول کی خاطر صوفیاء نے اس حقیقت کو دانستہ نظر انداز کرکے اپنی شیطانیت اور کمینگی پر پردہ ڈالا ہے اورجانتے بوجھتے تصوف کو تزکیہ نفس اور احسان کے ہم معنی اور باہم مترادف قرار دینے کاباطل پروپیگنڈہ کرکے ایک خلق کثیر کو گمراہ کیاہے۔صوفیوں کا یہ پروپیگنڈہ اتنا زور دار اور پراثر ہے کہ اسکے متاثرین میں بہت سے اہل حدیث بھی شامل ہیں اوراسی پروپیگنڈہ کے زیر اثر اکابرین اہل حدیث بھی تصوف اور طریقت کو احسان اور تزکیہ نفس ہی ایک شکل سمجھنے کی زبردست غلطی میں مبتلا ہوئے ہیں اور اسی مغالطہ کے سبب بعض اکابر اہل حدیث تصوف سے جزوی طور پر متاثربھی ہوئے اور انہوں نے تصوف کی حمایت میں تھوڑا بہت لکھ دیا۔چونکہ اہل حدیث سیدھے سادے لوگ ہوتے ہیں اور مقلدوں کی طرح ان میں عیاری اور چالاکی نہیں ہوتی اس لئے جلدی دھوکہ کھا جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کچھ اہل حدیث علماء کا تصوف کی تائید یا حمایت میں کچھ لکھ دینا مخالفین کو بالکل بھی مفید مطلب نہیں کیونکہ انہوں نے جو کچھ بھی تھوڑا بہت لکھا ہے وہ تصوف کو زہد،شرعی تزکیہ نفس اور احسان ہی ایک شکل سمجھ کر لکھا ہے جبکہ صوفیوں کے اعمال و افعال تصوف سے متاثر ان بعض اہل حدیث علماء کے اس خیال کی سخت تردید کرتے ہیں۔آئندہ ان شاء اللہ ہم دلائل سے اس فرق کو واضح کرینگے کہ شریعت کے تزکیہ نفس، زہد اور احسان اور تصوف کے تزکیہ نفس،زہد اور احسان میں بعد المشرکین ہے۔

اس سلسلے میں ایک اہم اور قابل غور بات یہ بھی ہے کہ تزکیہ نفس کی اصطلاح دور نبویﷺ میں بھی موجود تھی پھر صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ محدثین بھی اس اصطلاح سے بخوبی واقف تھے لیکن بعد کے ادوارمیں مسلمانوں کو آخر ایسی کونسی شدید ضرورت اور مجبوری آن پڑی کہ انہیں تزکیہ نفس کے لئے طریقت اور تصوف کی اصطلاحات گھڑنی پڑیں؟ اس بات پر غور کرنے سے جو جواب سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ صوفی مذہب میں جو طریقہ تزکیہ نفس کے لئے متعارف کروایا گیا وہ شریعت کے تزکیہ نفس سے بالکل بھی میل نہیں کھاتا تھا ۔اس لئے جب کام الگ تھا تو نام بھی الگ رکھنا پڑا۔ جب تک مسلمانان اسلام شریعت کے مطابق اپنا تزکیہ کرتے رہے جب تک اسکا نام زہد اور تزکیہ نفس ہی رہا اور جیسے ہی تزکیہ کے لئے غیرشرعی افعال امت میں متعارف ہوئے تو اسکا نام تصوف اور طریقت رکھا گیا۔اگر تصوف شریعت کے زہداور تزکیہ نفس کے موافق ہوتا تو صوفیوں کا اسکا نام تصوف یا طریقت رکھنے کی ضرورت نہیں تھی لیکن پہلے سے موجود اصطلاحات کی موجودگی میں پرانے کام کے لئے نئی اصطلاحات کی ایجاد صوفیوں کی بد نیتی اوردغا بازی کی کھلی نشاندہی کررہی ہیں۔

الحمدللہ !علم کی بہتات اور علم تک آسان رسائی کی وجہ سے آج یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ شریعت اور صوفیت کا تزکیہ ایک دوسرے کے بالکل مخالف ہے اور دونوں کو ایک قرار دینا محض سراب ہے۔ لیکن اسکے باوجودمتصوفین نے اپنے خودساختہ صوفیانہ اعمال و افعال کے لئے تزکیہ نفس کی شرعی اصطلاح کو ایک دھوکے اور فریب کے طور پر استعمال کیا ہے تاکہ عوام الناس پر انکی گرفت ڈھیلی نہ پڑے اور وہ بیچارے اسلام کے نام پر غیراسلامی اعمال میں پھنسے صوفیاء کی عیاشی کا سامان مہیا کرتے رہیں۔

صوفیوں نے اسلام میں تصوف کی جو نئی اصطلاح ایجاد کی ہے اور پھر اسے زور و زبردستی شریعت کے موافق بارور کروانے پر تلے ہیں یہ بے وجہ نہیں بلکہ اس کے پیچھے انکا ایک عظیم مقصد پوشیدہ ہے او ر وہ مقصد ہے شریعت کے نام پر لوگوں کو شریعت سے دور لے جانا اور اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کرنا۔لیکن صوفیوں کی بدقسمتی کہ ہرشخص انکے دھوکہ میں مبتلا نہیں ہوسکتا ۔دھوکہ دھوکہ ہی ہوتا ہے اور اسکے دن تھوڑے ہوتے ہیں۔ صوفیت کا مطالعہ کرنے والا ہرغیر متعصب شخص اس نتیجہ پر باآسانی پہنچ جاتا ہے حتی کہ سرسری انداز سے تصوف کو پڑھنے والے قاری پربھی یہ سچائی منکشف ہوجاتی ہے کہ شریعت کا تزکیہ نفس کچھ اور ہے اور تزکیہ نفس کے نام پر تصوف کا احسان و سلوک اسلامی شریعت سے متصادم کوئی اور چیز ۔اسلامی شریعت میں تزکیہ نفس اخلاقی اور روحانی برائیوں سے نجات حاصل کرکے پاکیزگی اختیارکرنے کا نام ہے ۔ اگرچہ صوفی بھی تصوف کو برائیوں اور گناہوں سے بچنے کا ایک طریقہ اور راستہ ہی قرار دیتے ہیں لیکن یہ ایک فریب اور دھوکہ کے سوا کچھ نہیں۔

ابوحسین النوری سے منقول ہے: تصوف نفسانی خواہشات کو چھوڑنے کا نام ہے۔(طبقات السلمی، صفحہ 38)
یعنی اسلامی شریعت میں تزکیہ نفس کا جو کام زہد سے لیا جاتا ہے صوفیوں کے نزدیک تصوف بھی وہی کام کرتا ہے یعنی انسان کا تزکیہ نفس کرکے اسی پاکیزگی عطا ء کرتا ہے۔

جنید بغدادی سے تصوف کے بارے میں سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا: تصوف یہ ہے کہ اپنے دل کو اتنا صاف کرلو کہ اسے دنیا کی لذات ااور خواہشات میں کوئی دلچسپی نہ رہے اور اس کیلئے خلوت و جلوت ایک ہوجائے۔ طبعی عادات چھوڑدو،بشری تقاضوں کو دباؤ ،نفسانی خواہشات سے اجتناب کرو، روحانی صفات میں ترقی حاصل کرو اور حقیقی علوم کی طرف متوجہ ہو ۔(التصرف،صفحہ 35,34)

ان جھوٹے دعوؤں کے برعکس صوفیوں نے اپنے دل کو برائیوں اور گناہوں سے صاف کرنے یعنی اپنے تزکیہ نفس کے لئے عملی طور پر جو طریقہ اختیار کیا وہ ایسا ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں اور پھر وہ طریقہ شریعت کے تزکیہ نفس کی بھرپور نفی اور مخالفت بھی کرتا ہے۔ محمد بن جمیل زینو رحمہ اللہ تصوف کے تزکیہ سے پردہ اٹھاتے ہوئے لکھتے ہیں: صوفیت میں آخر ''تزکیہ'' ہے کہاں؟ صوفیت میں شرک،ریا کاری اور اسلامی تعلیمات کی مخالفت کے سوا اور کچھ نظر ہی نہیں آتا۔(تصوف کتاب و سنت کی روشنی میں، صفحہ 38)

شریعت اپنے ماننے والوں کو تزکیہ نفس کے ذریعے دل و دماغ کی پاکیزگی کا حکم دیتی ہے۔جبکہ تصوف تزکیہ نفس کے نام پر بدکرداری، نجاست،شرک و کفرکی گندگی اور بے ہودگی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔صوفیوں کے تزکیہ نفس کی یہ کچھ امثال ملاحظہ فرمائیں اور خود ہی انصاف کریں کہ کیا یہ وہی تزکیہ نفس ہے جس کی تلقین اسلام جیسا پاکیزہ مذہب اپنے پیروکاروں کو کرتا ہے۔

ایک روز فرمایا کہ شاہ ابوسعید گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ بغرض بیعت شاہ نظام الدین بلخی رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں بلخ تشریف لے گئے۔ شاہ نظام الدین رحمتہ اللہ علیہ کو اطلاع ہوئی کہ صاحبزادہ تشریف لاتے ہیں تو ایک منزل پر آکر استقبال کیا ۔اور بہت اعزاز و اکرام کے ساتھ لیکر بلخ پہنچے ۔وہاں پہنچ کر صاحبزادہ کی خوب خاطریں کیں۔ہر روز نئے نئے اور لذیز سے لذیز کھانے پکوا کر کھلاتے،ان کو مسند پر بٹھاتے خود خادموں کی جگہ بیٹھتے۔آخر جب شاہ ابوسعیدؒ نے اجازت چاہی کہ وطن واپس ہوں تو شاہ نظام الدین رحمتہ اللہ علیہ نے بہت سی اشرفیاں بطورنذر پیش کیں،اس وقت شاہ ابوسعیدؒ نے عرض کیا کہ حضرت اس دنیاوی دولت کی مجھے ضرورت نہیں ہے نہ اس کے لئے میں یہاں آیا،مجھے تو وہ دولت چاہیے جوآپ ہمارے یہاں سے لے کر آئیں ہیں۔بس اتنا سننا تھا کہ شاہ نظام الدین رحمتہ اللہ علیہ آنکھ بدل گئے اورجھڑک کر فرمایاکہ جاؤ تاویلہ میں جاکر بیٹھو اور کتوں کے دانہ راتب کی رکھو۔غرض یہ طویلہ میں آئے۔ شکاری کتے ان کی تحویل میں دئیے گئے کہ روز نہلائیں دھلائیں اور صاف ستھرا رکھیں ۔کبھی حمام چھکوایا جاتا اور کبھی شکار کے وقت شیخ گھوڑے پر سوار ہوتے اور یہ کتوں کی زنجیر تھام کر ہمراہ چلتے۔آدمی سے کہہ دیا گیا کہ یہ شخص جو طویلہ میں رہتا ہے اس کو دو روٹیاں جو کی دونوں وقت گھر سے لادیا کرو، اب شاہ ابوسعیدؒ صاحب جب کبھی حاضر خدمت ہوتے تو شیخ نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھتے ، چماروں کی طرح دور بیٹھنے کا حکم فرماتے اور التفات بھی نہ فرماتے تھے کہ کون آیا اور کہاں بیٹھا۔تین چار ماہ بعد ایک روز حضرت شیخ نے بھنگن کو حکم دیا کہ آج طویلہ کی لید اکھٹی کرکے کے جائے تو اس دیوانہ کے پاس سے گذریوجو طویلہ میں بیٹھا رہتا ہے ۔ چناچہ شیخ کے ارشاد کے بموجب بھنگن نے ایسا ہی کیا،پاس سے گذری کے کچھ نجاست شاہ ابوسعیدؒ پر پڑی۔شاہ ابوسعیدؒ کا چہرہ غصے سے لال ہوگیا، تیوری چڑھا کر بولے ''نہ ہوا گنگوہ ، ورنہ اچھی طرح مزہ چکھاتا، غیرملک ہے، شیخ کے گھر کی بھنگن ہے اس لئے کچھ نہیں کرسکتا''۔بھنگن نے قصہ حضرت شیخ سے عرض کردیا۔حضرت نے فرمایا ہاں ابھی بو ہے صاحبزادگی کی۔ پھر دو ماہ تک خبر نہ لی۔اس کے بعد بھنگن کو حکم ہوا کہ آج پھر ویسا ہی کرے بلکہ قصداً کچھ غلاظت شاہ ابوسعیدؒ پر ڈال کر جواب سنے کہ کیا ملتا ہے۔چناچہ بھنگن نے پھر ارشاد کی تعمیل کی۔ اس مرتبہ شاہ ابوسعید ؒ نے کوئی کلمہ زبان سے نہیں نکالا ہاں تیز اور ترچھی نگاہ سے اس کو دیکھا اور گردن جھکا کر خاموش ہورہے۔بھنگن نے آکر حضرت شیخ سے عرض کیا کہ آج تو میاں کچھ بولے نہیں تیز نظروں سے دیکھ کر چپ ہورہے۔حضرت شیخ نے فرمایا ابھی کچھ بو باقی ہے۔پھر دو چار ماہ کے بعد بھنگن کوحکم دیا کہ '' اس مرتبہ لید گوبر کا بھرا ٹوکرا اس پر پھینک ہی دیجیوکہ پاؤں تک بھر جائیں''۔ چناچہ بھنگن نے ایسا ہی کیا۔مگر اب شاہ ابوسعیدؒ بن چکے تھے جو کچھ بننا تھا۔اس لئے گھبرا گئے اور گڑگڑا کر کہنے لگے''مجھ سے ٹھوکر کھا کر بیچاری گر گئی، کہیں چوٹ تو نہیں لگی؟'' یہ فرما کر گری ہوئی لید جلدی جلدی اٹھا کر ٹوکرے میں ڈالنی شروع کی کہ لائیں بھردوں''۔ بھنگن نے قصہ حضرت شیخ سے آکر کہا کہ آج تو میاں جی غصہ کی جگہ الٹے مجھ پر ترس کھانے لگے اور لید بھر کر میرے ٹوکرے میں ڈال دی ۔شیخ نے فرمایا ''بس اب کام ہوگیا''۔اسی دن شیخ نے خادم کی زبانی کہلا بھیجا کہ آج شکار کو چلیں گے،کتوں کو تیار کرکے ہمراہ چلنا۔شام کو شیخ گھوڑے پر سوار خدام کا مجمع ساتھ جنگل کی طرف چلے۔شاہ ابوسعیدؒ کتوں کی زنجیر تھامے پا برکاب ہمراہ ہولئے ۔کتے تھے زبردست شکاری، کھاتے پیتے توانا، اور ابوسعیدؒ بیچارے سوکھے بدن،کمزور اس لئے کتے ان کے سنبھالے سنبھلتے نہ تھے۔بہتیرا کھینچتے روکتے مگر وہ قابو سے باہر ہوتے جاتے تھے ۔آخر انہوں نے ز نجیر کمر سے باندھ لی ، شکار جو نظر پڑا تو کتے اس پر لپکے۔ اب شاہ ابوسعیدؒ بے چارے گر گئے اور زمین پر گھسٹتے کتوں کو کھینچتے کھینچتے چلے جاتے تھے۔کہیں اینٹ لگی کہیں کنکر چبھی،بدن سارا لہولہان ہوگیا مگر انہوں نے اف نہ کی۔جب دوسرے خادم نے کتوں کو روکا اور ان کو اٹھایا تو یہ تھر تھر کانپے کہ حضرت خفا ہوں گے اور فرمائیں گے کہ حکم کی تعمیل نہ کی،کتوں کو روکا کیوں نہیں؟ شیخ کو تو امتحان مقصود تھا سو ہولیا۔اسی شب شیخ نے اپنے مرشد قطب العالم شیخ عبدالقدوسؒ کو خوا ب میں دیکھا کہ رنج کے ساتھ فرماتے ہیں''نظام الدین میں نے تجھ سے اتنی کڑی محنت نہ لی تھی جتنی تونے میری اولاد سے لی''۔ صبح ہوتے ہی شاہ نظام الدین رحمتہ اللہ علیہ نے شاہ ابوسعید رحمتہ اللہ علیہ کو طویلہ سے بلا کر چھاتی سے لگا لیا اور فرمایا کہ خاندان چشتیہ کا فیضان میں ہندوستان سے لیکر آیا تھا ، تم ہی ہو جو میرے پاس سے اس فیضان کو ہندوستان لئے جاتے ہو ، مبارک ہو وطن جاؤ ۔غرض مجاز حقیقت بنا کر ہندوستان واپس فرمایا۔ (اکابر کا سلوک و احسان، صفحہ 54تا 56)

اگرچہ یہ واقعہ کافی طویل ہے لیکن اسکی طوالت کو برادشت کرتے ہوئے ہم نے صرف اس لئے اس کا انتخاب کیا کہ یہ واقعہ صوفیوں کے طریقہ تزکیہ کو سمجھنے کے لئے کافی مددگار ہے یہ واقعہ کھل کراس بات پر روشنی ڈالتا ہے کہ صوفیوں کو تزکیہ نفس کے لئے کیسے کیسے انسانیت سوزاور شرمناک مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔مذکورہ بالا واقعہ کو نقل کرنے سے قبل مولانا محمد زکریا کاندھلوی لکھتے ہیں: بندہ کا خیال یہ ہے کہ قدماء کی اجازتیں زیادہ تر اسی پر ہوتی تھیں کہ وہ اولاً تزکیہ نفوس و اخلاق پر بہت زور لگاتے تھے اور جب نفس مزکی ہوجاتا تھا اس کے بعد اور ادواذکار کی تلقین کے بعد اجازت مرحمت فرمایا کرتے تھے۔اکابر کے مجاہدات اور تزکیہ کے قصے اگر لکھے جائیں تو بڑا دفتر چاہیے اور وہ آپ بیتی بھی نہیں ہیں۔صرف مثال کے لئے شاہ ابوسعیدصاحب گنگوہی قدس سرہ جو مشائخ چشتیہ کے مشاہیر مشائخ میں سے ہیں ،شیخ عبدالقدوس گنگوہی قدس سرہ کے پوتے ہیں جن کا مزار شریف گنگوہ شریف میں موجود ہے ان کا واقعہ مختصر طور پر لکھواتاہوں۔ (اکابر کا سلوک و احسان، صفحہ 53)
یعنی مولانا محمد زکریا کوبھی اس بات کا اقرار و اعتراف ہے کہ یہ سارے نجاست بھرے مجاہدات یعنی کتوں کے ساتھ رہنا، انکو نہلانا دھلانا ، خود پر نجاست گرتے دیکھ کر بھی برا نہ ماننا اور کراہت محسوس نہ کرنا، کتوں اور دیگر جانوروں کی گندگی اپنے ہاتھوں سے جمع کرنا وغیرہ پیر نے مرید سے اس لئے کروائے کہ اس کے نفس کو پاک و صاف کیا جاسکے تاکہ وہ تصوف کے اگلے مراحل طے کرنے کے قابل ہوسکے۔ہر صوفی کو اگر وہ ترقی کا متمنی ہے تو اسے ان نجاست بھرے اور بے شرمانہ طریقوں پر عمل کرنا پڑے گا ورنہ ناکامی اس کا مقدر ہوگی۔

صوفی مذہب میں گندگی سے ہی نفس کی پاکی حاصل کی جاسکتی ہے اگر کوئی یہ چاہے کہ صاف ستھرا رہ کریا خود کو ذلیل ورسواء کئے بغیر صوفیت میں کوئی مقام حاصل کرلے گا تو یہ اسکی بھول ہے۔اور یہ نجاست بھرے مراحل کون سے ہونگے اسکا اختیار بھی صرف اور صرف پیر و مرشد کے پاس ہے اگر وہ چاہے گا تو مرید سے بھیک منگوائے گا اگر چاہے گا تو کتوں کی صفائی کروائے گا ،اگر مرضی ہوگی تو ایسے کام کرنے کا حکم دے گا کہ لوگ بیچارے مرید کو گالیاں دیں اور اسے ماریں پیٹیں اسکے علاوہ چوری کرنے کا حکم بھی دے سکتا ہے۔اور اگر مرید نے اف بھی کیایا ان کاموں سے انکار کیا جن کا حکم اسکا پیر دیتا ہے تو وہ امتحان میں ناکام تصور کیا جائے گا۔مرید کو اپنے پیر کے بتائے ہوئے طریقہ پر ہی ہرحال میں عمل کرنا ہوگا اور اس طریقہ میں ترمیم کا کوئی اختیار اسے حاصل نہ ہوگا وگرنہ اسے مطلوب حاصل نہیں ہوگاکیونکہ صوفی مذہب میں پیر کی غیر مشروط اطاعت فرض ہے یعنی پیر اپنے مرید کے سیاہ سفید کا مالک ہے۔مولانا اللہ یارخان دیوبندی رقمطراز ہیں: تصوف اور تزکیہ باطن میں سالک اور شیخ کا تعلق بڑا نازک ہے۔ ظاہری علوم میں معاملہ اور قسم کا ہے۔ استاد سے نفرت اور اس کی مخالفت کے باوجود آدمی ظاہری علم حاصل کرلیتا ہے۔مگر اس راہ میں شیخ کامل میسر آجائے ،تو اس کی مخالفت مانع فیض ہی نہیں، بلکہ حرام ہے۔ شیخ کامل کی مخالفت دراصل تزکیہ ، باطن اور رضائے الہٰی کے حصول سے نافرورمیدہ ہونے کی دلیل ہے۔(دلائل السلوک، صفحہ 51)

اب صوفیوں کے تزکیہ نفس کی ایک اور مثال پیش خدمت ہے۔

2۔ ابویزیدیا بایزید صوفی کا اہل بسطام میں سے ایک مرید تھا جو ہمیشہ ابویزید کے ساتھ رہتا تھا جب اس کے مسلسل مجاہدات کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہوا تو اس نے اپنے پیر سے اس بات کی شکایت کی ،پیر نے جواباً کہا کہ اگر تو تین سو برس بھی یہ مجاہدات کرتا رہے تو اس خاص مقام تک نہیں پہنچ سکتا جس کی تجھے آرزو ہے اور اسکا سبب پیر نے یہ بتایا کہ تیرا نفس ابھی صاف اورپاکیزہ نہیں ہے اور جب مرید نے اپنے نفس کی صفائی اور پاکیزگی کے لئے کوئی دوا اور علاج پوچھا تو پیر یعنی بایزید صوفی نے اپنے اس مرید کو تزکیہ نفس کا یہ ذلیل،واہیات اور غیرشریفانہ طریقہ بتایا جس کے ذریعے صوفی مذہب میں دلوں اور نفسوں کی تطہیر کی جاتی ہے: ابویزید بولے کہ ابھی حجام کے پاس جاکر اپنا سر اور داڑھی منڈوا ڈال اور یہ لباس اتارکر ایک چادر کا تہبند باندھ اور اپنے گلے میں ایک جھولی ڈال کر اس کو اخروٹوں سے بھر لے اور اپنے چاروں طرف لڑکوں کو جمع کرکے بلند آواز سے پکار کہ جو مجھ کو ایک تھپڑ مارے گااس کو ایک اخروٹ دوں گا اور اس بازار میں جا جہاں تیری تعظیم ہوتی ہے۔(تلبیس ابلیس، صفحہ 521,520)

چونکہ مرید ابھی تصوف کی را ہ میں مبتدی تھااور اس میں عقل سلیم اور شریعت کی کچھ سوجھ بوجھ باقی تھی اس لئے اسے تزکیہ اور نفس کے علاج کایہ صوفیانہ طریقہ پسند نہ آیا اور اس نے اس طریقہ علاج سے معذرت کرلی جس پر ابویزید نے صاف صاف جتلادیا کہ صوفی مذہب میں تزکیہ نفس حاصل کرنے کا اسکے علاوہ کوئی علاج یامہذبانہ طریقہ نہیں۔ ملاحظہ فرمائیں: مرید نے کہا سبحان اللہ کیا علاج ہے؟ بایزید نے کہا تیرا سبحان اللہ کہنا بھی شرک ہے، کیونکہ تو یہ کلمہ اپنی پاکیزگی بیان کرنے کے لئے کہہ رہا ہے۔مرید نے کہا مجھ سے یہ علاج نہیں ہوسکتا کوئی اور بات بتلائے۔ بایزید نے کہا اگر یہ علاج نہیں کرسکتا تو تیرا کوئی علاج نہیں۔(احیاء العلوم، جلد 4، صفحہ 358)

اب اس واقعہ سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ بایزید کا تفرد یا ذاتی طریقہ علاج تھا اور دوسرے صوفیاء اس سے متفق نہیں۔ صوفیوں کے نزدیک عظیم المرتبت امام غزالی بایزید کے طریقہ علاج کی تائید اور تصدیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں: جس شخص کا دل بیمار ہے اور وہ اپنے نفس کے تابع ہے اس کا علاج وہی ہے جو بایزید نے تجویز کیا ۔(احیاء العلوم، جلد 4، صفحہ 358)


نفس کی طہارت کے حصول کے صوفی مذہب میں جتنے بھی طریقے ہیں اور سارے ہی انسان کو ذلیل کرنے والے ہیں۔شریعت انسان کوتقویٰ اور پرہیزگاری کے ذریعے شرف اور عزت عطا کرتی ہے اورتصوف اسے تزکیہ نفس کے نام پر ذلیل و رسواء کرتا ہے۔

صوفی مذہب کے طریقہ تزکیہ نفس کی ایک اور مثال ملاحظہ فرمائیں اور عبرت پکڑیں۔

3۔ علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: شبلی کی نسبت سنا ہے کہ ان کا کوئی ہم نشین تھا۔ایک روز اس نے شبلی سے کہا: میں توبہ کرنا چاہتا ہوں۔ شبلی نے کہا کہ اپنا مال بیچ ڈال اور قرض ادا کر اور اپنی بی بی کو طلاق دے اور اپنی اولاد کو یتیم کر اور اپنے تعلق سے ان کو نا امید کر تاکہ تجھ کو مرے ہوؤں میں شمار کریں۔ اس نے یہ سب کچھ کیا۔ پھر وہ شخص کچھ ٹکڑے لایا جو اس نے جمع کیے تھے۔ شبلی نے کہا: یہ ٹکڑے فقیروں کے سامنے ڈال دے اور ان کے ساتھ کھا۔(تلبیس ابلیس، صفحہ 510)

نکاح سے دور ی اور فطری خواہشات کو جبراً روکنا جیسا کہ مذکورہ بالا حوالے میں شبلی تجردپسندانہ زندگی کو توبہ کے لئے ضروری قرار دے رہا ہے اس سے تو نفس کا تزکیہ ہونے کے بجائے نفس مزید پراگندہ ہوجاتا ہے کیونکہ فطری خواہشات دبانے سے مزید ابھرتی ہیں یا انہیں وقتی طور پر تو دبایا جاسکتا ہے لیکن انہیں ختم نہیں کیا جاسکتا اس لئے جب یہ خواہشیں دوبارہ عود کرآتی ہیں تو بہت تباہی لاتی ہیں۔اس لئے ان کا حل یہی ہے کہ ان خواہشات کو جائز طریقے سے پورا کرلیا جائے۔صوفی حضرات عورت کی طرح مال کوبھی تزکیہ نفس میں بہت بڑی رکاوٹ تصور کرتے ہیں جبکہ مال سے دستبردار ہوکر بالکل فقیر ہو کر بیٹھ جانا تودل اور دین کی صفائی کے بجائے بعض اوقات دل کے ٹیڑھ پن اور دین کی مکمل بربادی کا سبب بن جاتا ہے اور انسان کو کفر تک لے جاتا ہے اسی لئے اللہ کے رسول ﷺ فقر سے اللہ کی پناہ مانگا کرتے تھے۔مطلب یہ ہوا کہ مسلمان کے تزکیہ نفس کے لئے شریعت جن چیزوں کو ضروری اور لازمی سمجھتی ہے جیسے نکاح اور ضرورت کے مطابق حلال مال کا حصول، صوفی مذہب میں یہی چیزیں تزکیہ نفس کے حصول میں آڑ ہیں اور اسکی مخالف چیزیں جیسے تجرد اور فقر ہی صوفی مذہب کے تزکیہ نفس کے حصول کا واحد ذریعہ ہیں جس کا نتیجہ انسان کے اخلاقی برائیوں، کفر اور گندگی ، خباثت اور نجاست میں مبتلا ہوجانے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔

اخلاقی و روحانی رذائل سے چھٹکارا پار کر اپنے نفوس کو پاک کرنے کا یہ انوکھا''اجرتی طریقہ'' بھی ملاحظہ کریں اور غور فرمائیں کہ شرعی تزکیہ نفس جو صفائی اور پاکیزگی سے موسوم و عبارت ہے صوفیاء کے اس تزکیہ نفس سے جونجاست، گندگی ، برائی ، گناہ ، غیر شرعی اور غیراخلاقی حرکات کا دوسرا نام ہے، کس قدر مختلف اور الگ ہے۔امام غزالی اپنی کتاب ''احیاء العلوم'' میں لکھتے ہیں: بعض بزرگ اجرت پر ایسے شخص کو لیتے تھے کہ ان کو بڑے آدمیوں کے سامنے گالیاں دے تاکہ ان کا نفس حلم و بربادی سیکھے۔(تلبیس ابلیس،صفحہ 519)

کتنے شریں ہیں تیرے لب کے رقیب
گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا​

کیا ان مثالوں کے بعد بھی صوفیاء کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ یہ تاثر بھی دینے کی کوشش کریں کہ شریعت کا تزکیہ نفس اور صوفیت کا تزکیہ نفس ایک ہی چیز ہے؟ حاشا وکلا
اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ بعض علمائے اہل حدیث کا تصوف کو تزکیہ نفس اور زہد کی ایک شکل سمجھ کر تصوف کی حمایت کرنا انکی زبردست غلطی ہے جس کا کوئی اعتبار نہیں۔اور تصوف کو زہد سمجھنے کی یہ غلطی ، وہم یا دھوکہ صرف بعض اہل حدیث کو نہیں بلکہ اس سے ماقبل بھی لوگوں کو ہوا ہے جس کی بنیاد پر دانستہ اور نادانستہ کچھ ایسے لوگوں کو بھی صوفی کہا گیا جو کہ صوفی نہیں تھے۔اسکے پیچھے تصوف کے حامیوں کی عیاری اور تصوف کو زہد سمجھنے والوں کا بھولاپن کار فرما تھا۔ عبدالعزید پشین اس اہم بات کی جانب نشاندہی کرتے ہوئے فرماتے ہیں: تصوف ایک ایسا پھندہ ہے جو دیکھنے میں زہد لگتا ہے جبکہ درحقیقت یہ زہد نہیں بلکہ اسلام کے سراسر خلاف ایک بدعت ہے۔دوسری جانب زہد سراسر اسلام ہے۔ اس غلط فہمی کی بناء پر چند لوگوں نے کچھ اہل علم کو بھی تصوف کے ساتھ موصوف کیا ہے، حالانکہ ان اہل علم میں تصوف نہیں زہد پایا جاتا تھا۔(تصوف کتاب و سنت کی روشنی میں، صفحہ 9 0،10)

سابقہ سطور میں پیش کئے گئے صوفیوں کے طریقہ تزکیہ نفس کی اہل حدیث مذہب میں ذرہ برابر کوئی جگہ یا گنجائش نہیں۔اس لئے کسی اکابرین اہل حدیث کو صوفی کہنا مردود ہے۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
ساتویں وجہ:
اہل حدیث کا اصل مرجع صرف اور صرف قرآن وحدیث ہے جس کی طرف یہ جاننے کے لئے اہل حدیث رجوع کرتے ہیں کہ شریعت کو ایک مسلمان سے اصل میں کیا مطلوب ہے اور کیا غیر مطلوب ہے ؟ صراط مستقیم کون سی ہے اور شیطا ن کی راہیں کون سی؟ دنیاوی اور اخروی کامیابی کے گر اور طریقے کیا ہیں ؟ مطلب یہ کہ زندگی کے ہر ہر مسئلہ میں ایک اہل حدیث کتاب و سنت کی راہنمائی پر ہی اکتفاء کرتا ہے اور قرآن وسنت کی تعلیمات پر کاربند اور جمے رہنے کو ہی حقیقی کامیابی اور نجات کی کلید جانتا اور مانتا ہے۔ قرآن و سنت سے ہٹ کر کسی اور جانب نگاہ کرنے کو اہل حدیث گمراہی کی جڑ اور بدبختی کا اصل سبب جانتے ہیں۔جیسا کہ اہل حدیثوں کے امام اعظم کا فرمان عالیشان ہے: ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حجتہ الوداع کے موقع پر لوگوں سے خطاب کیا اور فرمایا: اے لوگو! یقیناًمیں تمہارے درمیان ایسی شے چھوڑے جارہا ہوں اگر تم اسے مضبوطی سے تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے ،یعنی اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت۔(سنن بیہقی)

اسکے برعکس صوفیاء کے نزدیک قرآن و حدیث مرجع نہیں ہے یہ لوگ براہ راست اللہ اور اسکے رسول ﷺ سے علم حاصل کرنے اور شریعت کی منشاء جاننے کے دعویدار ہیں۔یہ کسی بھی صحیح حدیث کو یہ کہہ کر ٹھکرا سکتے ہیں کہ میں نے خود نبی ﷺسے اس حدیث کے بارے میں پوچھا اور نبیﷺ نے اس حدیث کی اپنی جانب نسبت سے انکار کیا یااسی بنیاد پر موضوع روایت کو جو انکی مطلب برآوری کررہی ہو صحیح قرار دے سکتے ہیں۔ یایہ بدبخت کسی بھی قرآنی حکم کو یہ کہہ کررد کرسکتے ہیں کہ میرے دل نے میرے رب سے اسکے خلاف روایت کیا ہے۔اسی لئے صوفی حضرات قرآنی آیات کی تفسیراور احادیث کی شرح مسلمان مفسرین اور شارحین سے بالکل ہٹ کر کرتے ہیں اور آیات و احادیث کا ایسا معنی اورمطلب بیان کرتے ہیں کہ امت میں کوئی بھی ان سے متفق نہیں ہوتا۔

محمد بن جمیل زینو رحمہ اللہ فرماتے ہیں: صوفیہ کا ایک باطل عقیدہ یہ بھی ہے کہ وہ براہ راست رسول اللہ ﷺ کے واسطے کے بغیر اللہ تعالیٰ سے علم حاصل کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ : ''میرے دل نے مجھے میرے رب سے روایت بیان کی''
ابن عربی مدفون دمشق اپنی کتاب ''الفصوص '' میں ہرزہ سرائی کرتا ہے: ''ہم میں سے کچھ ایسے لوگ ہیں جو رسول اللہﷺ کے بعد ان کے جانشین بنے اور آپﷺ کے واسطے سے کسی شرعی حکم کو لیتے ہیں یا پھر اجتہاد کرتے ہیں اور اس کی بنیاد بھی اصل یعنی نص پر ہوتی ہے جب کہ ہم میں کچھ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو بلا واسطہ اللہ کے جانشین ہیں اور اسی سے علم حاصل کرتے ہیں۔
(تصوف، کتاب وسنت کی روشنی میں، صفحہ 56)

مولانا محمد زکریادیوبندی صاحب ایک واقعہ نقل کرتے ہیں: ابدال میں سے ایک شخص نے خضر سے دریافت کیا کہ تم نے اپنے سے زیادہ مرتبہ والاکوئی ولی بھی دیکھا؟ فرمانے لگے ہاں دیکھا ہے۔ میں ایک مرتبہ مدینہ طیبہ میں رسول اللہﷺ کی مسجد میں حاضر تھا میں نے امام عبدالرزاق محدثؒ کو دیکھا کہ وہ احادیث سنا رہے ہیں اور مجمع ان کے پاس احادیث سن رہا ہے اور مسجدکے ایک کونہ میں ایک نوجوان گھٹنے پر سر رکھے علیحدہ بیٹھا ہے، میں نے اس جوان سے کہا تم دیکھتے نہیں کہ مجمع حضور اقدسﷺ کی حدیثیں سن رہا ہے تم ان کے ساتھ شریک نہیں ہوتے، اس جوان نے نہ تو سر اٹھایا اور نہ میری طرف التفات کیا اور کہنے لگا کہ اس جگہ وہ لوگ ہیں جو رزاق کے عبد سے حدیثیں سنتے ہیں اور یہاں وہ ہیں جو خود رزاق سے سنتے ہیں نہ اس کے عبد سے۔ خضر نے فرمایا: اگر تمہارا کہنا حق ہے تو بتاؤ میں کون ہوں؟ اس نے اپنا سر اٹھایا اور کہنے لگا کہ اگر فراست صحیح ہے تو آپ خضر ہیں۔ خضر فرماتے ہیں: اس سے میں نے جانا کہ اللہ جل شانہ کے بعض ولی ایسے بھی ہیں جنکے علو مرتبہ کی وجہ سے میں ان کو نہیں پہچانتا۔(فضائل حج،فصل 9، زائرین کے واقعات، واقعہ9)

محمد بن جمیل زینو رحمہ اللہ نے لکھا: مشہور صوفی محی الدین ابن عربی اپنی کتاب ''الفتوحات المکیۃ'' میں لکھتا ہے بہت سی ایسی احادیث ہیں جو سنداً یعنی راویوں کے اعتبار سے صحیح ہوتی ہیں مگر جب ایسی احادیث کو کسی صاحب کشف کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو وہ ان کا جائزہ لیتا ہے پھر اس حدیث کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ''میں نے تو یہ کہا ہی نہیں اور نہ ہی میں نے ایسا کوئی حکم دیاہے'' تب اس حدیث کا ضعف صاحب کشف یعنی صوفی پر واضح ہوجاتا ہے سو صاحب کشف کو رب کی طرف سے ملنے والی اس دلیل کی بناء پر ایسی احادیث پر عمل چھوڑ دیا جائے گا اگر چہ اہل نقل اس کے راویوں کے صحیح ہونے کی وجہ سے اس پر عمل ہی کیوں نہ کر رہے ہوں کیونکہ بہرحال ایسی احادیث صحیح نہیں ہوتیں۔(تصوف کتاب و سنت کی روشنی میں، صفحہ 63)

احادیث کے بارے میں ابن عربی کے اس معیار قبول و رد نے اہل حدیث اور صوفیوں کی الگ الگ راہیں صاف طور پر متعین کردیں ہیں۔اہل حدیث کے نزدیک احادیث دین ہیں اور انکی تصحیح یا تضعیف صرف اسماء الرجال کے فن اور محدیثین کے قائم کردہ اصولوں کی روشنی ہی میں ممکن ہے لیکن صوفیاء کو محدثین کے اصولوں کی کوئی پرواہ یا حاجت نہیں کیونکہ وہ براہ راست رسول اللہﷺ سے کسی بھی حدیث کی صحت یا ضعف معلوم کرلیتے ہیں۔

ابویزید صوفی کی ہرزہ سرائی بھی ملاحظہ فرمائیں: ابراہیم کہتے ہیں کہ میں ابویزید کی مجلس میں حاضر ہوا۔ لوگ بیان کرنے لگے کہ فلاں نے فلاں سے روایت کی اور اس سے علم حاصل کیا اور بہت سی حدیثیں نقل کیں اور فلاں نے ملاقات کی اور حدیث روایت کی۔ابویزید سن کر بولے اے مسکینو! تم نے مرے ہوؤں کا علم مرے ہوؤں سے لیا اور ہم نے حی لایموت سے علم حاصل کیا۔(تلبیس ابلیس،صفحہ 490)
کتاب و سنت کے علم اور حاملین کتاب و سنت کی اتنی بے توقیری شاید کسی نے بھی نہ کی ہوگی جتنی ان صوفیاء نے ،جنھوں نے کتاب وسنت کے علم کی تذلیل کرکے اسے مرے ہوؤں کا علم قرار دیا۔

علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں: صوفیہ اگر کسی کو سنتے ہیں کہ حدیث روایت کرتا ہے تو کہتے ہیں ان بیچاروں نے اپنا علم مرے ہوؤں سے لیا ہے اور ہم نے اپنا علم زندہ جاوید یعنی اللہ تعالیٰ سے حاصل کیا ہے۔ لہٰذا اگر یہ کہتے ہیں حدثنی ابی عن جدی( یعنی میرے باپ نے میرے دادا سے روایت کی) تو ہم کہتے ہیں حدثنی قلبی عن ربی( میرے قلب نے میرے رب سے روایت کی)۔(تلبیس ابلیس، صفحہ 540)
صوفیاء کے اس کلام میں بھی قرآن وحدیث کی زبردست توہین ہے اور انہیں یہ کہہ کر بے وقعت اور بے توقیر کرنے کی پوری کوشش کی گئی ہے کہ قرآن و حدیث کا علم تو وہ علم ہے جو مرے ہوئے لوگوں کے ذریعے مسلمانوں تک پہنچا ہے اور اسکے مقابلے میں افضل علم وہ ہے جو صوفی براہ راست اللہ اور اسکے رسول ﷺ سے حاصل کرتے ہیں۔

اہل حدیث اور صوفیاء کے حصول علم کے بنیادی ذرائع بالکل مختلف ہونے کی وجہ سے انہیں ایک صف میں کھڑا کرنا انتہائی ناانصافی ہے۔یہ ایک بہت بڑا سبب ہے جو صوفیاء اور اہل حدیث کے درمیان ایک خط امتیاز کھینچتا ہے اور اس حقیقت کو آشکار کرتا ہے کہ کوئی اہل حدیث صوفی نہیں ہوسکتا۔جب دونوں کا منہج الگ ، مرجع الگ، عقائد الگ، نظریات الگ ہیں اور کوئی قدر مشترک بھی انکے مابین نہیں پائی جاتی تو پھر اہل حدیث کے صوفی ہونے کا دعویٰ بھی کیونکر صحیح ہوسکتا ہے؟!

آٹھویں وجہ:

اہل حدیث صحیح اسلام پر کاربند اور گامزن ہیں اس لئے وہ اسی چیز کو طاعت قرار دیتے ہیں جسے شریعت طاعت سمجھتی ہے اور وہی عمل اہل حدیث کی نگاہ میں نافرمانی یا حق سے روگردانی ہے جس پر شریعت برائی اور دین سے دوری کی مہر ثبت کرتی ہے اسکے برعکس صوفیوں کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔وہ ہر مسئلہ اور ہر عقیدہ میں شریعت کی بھرپور مخالفت کرتے ہیں اور شریعت سے ہٹ کر اور اسکی ضد میں ایک تصور اور نظریہ پیش کرتے ہیں۔اسی لئے صوفیاء کا تصور نیکی اور بدی مسلمانوں کے تصوراور عقیدہ کے بالکل برعکس اور مخالف ہے۔اسکی چند امثال ملاحظہ فرمائیں۔

1۔ مشکلات میں اللہ کو پکارنا اور اسکے مدد کا طالب ہونا اسکے سامنے گریہ زاری اور عاجزی کرنا ایک مسلمان کے ایمان کا مضبوط ثبوت اور بہت بڑی نیکی ہے جو ایک مسلمان کے عقیدہ توحید کی تکمیل کرتی ہے۔لیکن صوفی حضرات غرور و تکبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشکلات میں بھی اللہ کو نہیں پکارتے اور اس سے استغاثہ نہیں کرتے اور اس کو اعلیٰ درجے کی نیکی سمجھتے ہیں۔

شیخ عبدالرحمن عبدالخالق تصوف کے علمبردار اور حامی ڈاکٹر مصطفی محمود کا ایک قول نقل کرتے ہیں: ''صوفی سوال نہیں کرتا ....وہ بیمار ہوتا ہے تو اللہ سے شفاء نہیں مانگتا ۔بلکہ ادب سے کہتا ہے: میں اللہ کے ارادہ کے بالمقابل اپنے لئے کوئی ارادہ کیوں کربنا سکتا ہوں کہ اس سے ایسی بات کا سوال کروں جسے اس نے نہیں کیا۔(اہل تصوف کی کارستانیاں، صفحہ 19)

رابعہ بصری کے بارے میں آتا ہے : مشائخین کا قول ہے کہ رابعہ نے خدا کی شان میں کبھی کوئی گستاخی نہ کی اور نہ کبھی دکھ سکھ کی پرواہ کی اور مخلوق سے کچھ طلب کرنا تو درکنار اپنے مالک حقیقی سے بھی کبھی کچھ نہ مانگا اور انوکھی شان کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوگئیں۔(تذکرۃ الاولیاء ،صفحہ 58)

ابوالعباس بن عطاء کہتے ہیں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کو پہچانے گا وہ اپنی حاجتوں کو اس کے پاس پیش کرنے سے رک جائے گا۔کیوں کہ اس نے جان لیا کہ وہ اس کے حالات کو جانتا ہے۔(تلبیس ابلیس، صفحہ 508)

صوفیوں کا یہ باطل نظریہ انکی شرعی علم سے جہالت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔اگر وہ قرآن و حدیث پر تھوڑا سا غور کرتے تو جان لیتے کہ اللہ کو پکارنا اس سے استعانت چاہنا اور استغاثہ کرنا ایک عظیم نیکی ہے۔خود فرمان باری تعالیٰ ہے: ''وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُم'' اور تمہارے رب نے کہامجھے پکارومیں تمہاری پکار کو قبول کروں گا۔ (غافر:60)

نبیﷺ نے فرمایا: جب تم مانگو تو اللہ ہی سے مانگو اور جب مدد چاہوتو اللہ ہی سے مدد چاہو۔(جامع ترمذی)

اللہ سے مانگنا اور دعا کرنا اتنی اہم نیکی ہے کہ شریعت نے اسے عبادت قرار دیا ہے۔ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: دعا ہی عبادت ہے۔(جامع ترمذی)

جولوگ اللہ کو نہیں پکارتے اللہ سے نہیں مانگتے ان کے بارے میں حکم ربی ہے: ''اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَھَنَّمَ دٰخِرِیْن'' جو لوگ میر ی عبادت سے گریز کرتے ہیں عنقریت جہنم میں ذلیل ہوکر داخل ہوں گے۔(غافر:60)

اللہ تعالیٰ اس شخص سے ناراض ہوتا ہے جو اس سے نہیں مانگتا۔حدیث میں ہے کہ : ''من لم یسال اللہ یغضب علیہ''جو شخص اللہ تعالیٰ سے سوال نہیں کرتا اس پر وہ ناراض ہو جاتا ہے۔(جامع ترمذی)

ان دلائل سے معلوم ہوا کہ اللہ کو پکارنا اور اس سے مدد طلب کرنانیکی اور ثواب کا کام ہے اور اللہ سے نہ مانگنا بدی ،برائی اور گناہ ہے جس کا انجام رسوائی کے ساتھ جہنم کا دخول ہے۔ اسکے برعکس صوفیاء کا اللہ کو پکارنے اور اس سے مدد کا طالب ہونے کو برا اور ناپسندیدہ فعل سمجھنا اور اللہ کو نہ پکارنے کو افضل نیکی سمجھنا اہل حدیث اور صوفیوں کے تصور نیکی وبدی میں ایک واضح اور بہت بڑے فرق کو ظاہر کرتا ہے۔

2۔ شرعی علم حاصل کرنا ہر مسلمان عورت اور مرد پر فرض ہے۔علم چونکہ رب العالمین کی معرفت میں بنیادی اور کلیدی کردار ادا کرتا ہے اس لئے شریعت ایک مسلم کوحصول علم کی بھرپور ترغیب دلاتی ہے ۔علم ایک ایسی نیکی ہے جو تمام کامیابیوں کی اصل ہے۔اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے: ''قُلْ ھَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْن''آپ فرما دیجئے کیا برابر ہیں جو علم نہیں رکھتے اور وہ جو علم رکھتے ہیں؟ (الزمر:9)

اس آیت کا مطلب ہے کہ علم والا جاہل سے افضل ہے۔اور فرض کی ادائیگی عظیم اور افضل نیکی ہے اس لئے کسی مسلمان کا علم سے روگردانی کرنا بہت بڑا جرم اور آخرت میں خسارے کے باعث ہے۔لیکن ان اسلامی تعلیمات کے برعکس صوفیوں کو شرعی علم سے چڑ ہے اور وہ اسے حقائق کی معرفت میں بڑی رکاوٹ تصور کرتے ہوئے علم سے دور رہنے کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ صوفیاء کے نزدیک علم نیکی نہیں بلکہ ایک بے کار اور بری چیز ہے۔

مولانا عبدالرحمن کیلانی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں: صوفیوں میں یہ مقولہ بھی بہت مشہور ہے۔
العلم حجاب الاکبر ''یعنی علم (شریعت) ہی (دین طریقت یا مشاہدہ حق میں) سب سے بڑا حجاب ہے۔''
اور کسی صوفی نے یہ بھی کہہ دیا کہ: الجھل احب الی من العلم ''یعنی جہالت مجھے علم سے زیادہ عزیز ہے۔''
(شریعت و طریقت، صفحہ 143)

جنید بغدادی صوفیوں کو علم سے دور رہنے کی وصیت کرتے ہوئے کہتے ہیں: مبتدی کے لئے مستحب ہے کہ اس کا دل تین چیزوں میں مشغول نہ ہو۔ کمائی کرنا، علم حدیث طلب کرنا ،نکاح کرنا اور صوفی کے لئے مستحب ہے کہ وہ لکھنا پڑھنا ترک کردے۔(قوت القلوب، جلد 4، صفحہ 135)

علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ علم کے بارے میں صوفیوں کی بدقسمتی کاتذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: جاننا چاہیے کہ ان لوگوں کے لیے شیطان کا پہلا فریب یہ ہے کہ ان کو علم سے باز رکھا کیوں کے علم ایک نور ہے۔جب شیطان نے ان کے چراغ ہی بجھا دئیے تو اندھیرے میں جس طور سے چاہے ان کو ٹیڑھاترچھا لے جائے اس بارے میں صوفیہ پر شیطان نے کئی جہت سے دخل پایا۔ایک یہ کہ ان کی جماعت کثیر کو کلی علم سے باز رکھا۔(تلبیس ابلیس،صفحہ 486)

علامہ ابن جوزی مزید فرماتے ہیں: صوفیہ میں سے کچھ ایسے ہیں جو علماء کی مذمت کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ علم میں مشغول ہونا بے کار اور بے سود ہے اور کہتے ہیں کہ ہمارے علوم بلاواسطہ ہیں۔(تلبیس ابلیس،صفحہ 487)

جعفر خلدی صوفی حصول علم کے بعد ترک علم کی اپنی کہانی یوں سناتے ہیں: میں جس زمانہ میں جوان تھا ایک بار عباس دوری کے پاس گیا اور ایک جلسہ میں جس قدر حدیثیں انہوں نے بیان کیں لکھ لایا جب ان کے پاس سے اٹھ کر آیا تو راستے میں میرے ایک دوست جو صوفی تھے ملے، پوچھنے لگے کہ تمہارے پاس یہ کیا ہے؟ میں نے وہ کتاب دکھائی۔کہنے لگے، وائے ہو تجھ پر علم خرق کو چھوڑ کر علم ورق کو اختیار کرتا ہے۔ یہ کہہ کر ان اوراق کو پھاڑ ڈالا۔ میرے دل میں ان کا کلام گھر کر گیا۔پھر میں کبھی عباس کے پاس نہیں گیا۔(تلبیس ابلیس،صفحہ 498)

اشرف علی تھانوی صاحب کہتے ہیں: ایک بار حضرت حاجی صاحب مجھے اپنا کتب خانہ دینے لگے میں نے کہا کتابیں اپنے پاس رکھیئے کتابوں میں کیا رکھا ہے کچھ سینے سے عطاء فرمائیے یہ سن کر حضرت خوشی کے مارے کھل گئے اور فرمایا: ''ہاں بھائی سچ تو یہ ہے کہ کتابوں میں کیا رکھا ہے''۔ (قصص الاکابر، صفحہ 71)
چونکہ کتابوں میں شرعی علم ہوتا ہے جو کہ صوفی کو مطلوب نہیں ہوتا اس لئے اشرف علی تھانوی نے کتابوں کو حقارت سے ٹھکراتے ہوئے باطنی علم کی خواہش کا اظہار کیاجو کہ سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا ہے۔ جس پر انکے پیر و مرشد خوشی کے مارے کھل اٹھے۔

علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ کا بیان ہے: ابوسعید کندی کی نسبت میں نے سنا ہے، بیان کرتے تھے کہ میں صوفیہ کی رباط میں قیام کرتا تھا اور خفیہ طور پر حدیث طلب کرتاتھا کہ ان کو خبر نہ ہوتی تھی۔ ایک روز میری جیب سے دوات گر پڑی تو ایک صوفی نے مجھ سے کہا کہ اپنی شرمگاہ چھپاؤ۔(تلبیس ابلیس،صفحہ 499)
صوفیوں کی علم سے نفرت اور حقارت دوات کو شرم گاہ سے تشبیہ دینے سے صاف ظاہر ہے۔

اس دوسری مثال سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ صوفیاء کا تصور نیکی و بدی اسلام کے نظریہ نیکی وبدی سے قطعی طور پر مختلف بلکہ مخالف ہے۔

3۔ مشہور مقولہ ہے کہ ''بد سے بدنام برا''
یہ بات ایک عام شخص بھی جانتا ہے کہ بدنامی بری چیز ہے اس لئے ایک مسلمان کو چاہیے کہ بدنامی سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرے اور اگر اس کے کسی عمل سے کوئی شخص غلط فہمی کا شکار ہوجائے توجتنی جلدی ممکن ہوسکے اس غلط فہمی کا ازالہ کرے تاکہ کسی کو اس پر شک کرنے یا انگلی اٹھانے کا موقع نہ ملے۔ اس بات کی تعلیم ہمیں رسول اللہﷺکے اسوہ حسنہ سے ملتی ہے۔

ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ایک بار رسول اللہﷺ اعتکاف میں تھے ۔میں رات کو آپﷺ کی زیارت کے لئے گئی اور آپ ﷺسے باتیں کرکے واپس آنے لگی ۔آپﷺ میرے ساتھ مجھ کو گھر پہنچانے کے لئے ہولیے۔صفیہ رضی اللہ عنہا کا مکان اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے احاطہ میں تھا ۔اتنے میں دو انصار کے آدمی نمودار ہوئے ۔انہوں نے جب رسول اللہ ﷺ کو دیکھا تو تیزی کے ساتھ آگے بڑھے ۔آپ ﷺنے ان سے فرمایا ٹھہرو، میرے ساتھ صفیہ ہے۔وہ عرض کرنے لگے یا رسول اللہﷺ یہ آپ کیا فرماتے ہیں؟ ارشاد فرمایا کہ شیطان انسان کے جسم میں خون کی طرح دوڑتا ہے ، میں اس بات سے ڈرا کہ کہیں تمہارے دلوں میں ''خیال فاسد'' یا فرمایا ''کوئی بات ''نہ ڈال دے۔(صحیح بخاری،کتاب الاعتکاف، صحیح مسلم،کتاب السلام)

علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی تشریح میں لکھا ہے: اس سے ظاہر ہے کہ رسول اللہﷺ نے لوگوں کو تعلیم دی کہ جو چیز بدگمانی کا باعث ہواس سے دور رہیں ۔کیوں کہ اہل ایمان زمین پر خدا کی طرف سے شاہد ہیں۔(تلبیس ابلیس، صفحہ527)

ابوسلیمان خطابی نے کہا کہ اس حدیث میں فقہی بات یہ ہے کہ انسان کو ہر ایسے امر مکروہ سے بچنا مستحب ہے جس سے بدگمانیاں پیدا ہوں اور دلوں میں خطرے گزریں ۔اور چاہیے کہ عیب سے اپنی براء ت ظاہر کرکے لوگوں کے طعن سے بچنے کی کوشش کرے۔(بحوالہ تلبیس ابلیس)

مذکورہ بالا حدیث اور اسکی تشریح سے معلوم ہوا کہ نیک نامی اور بدنامی کی پرواہ نہ کرنا شریعت میں معیوب بات ہے۔اور جان بوجھ کر خود کو بدنام کرنا گناہ اور برائی ہے۔ابن الجوزی کہتے ہیں: اگر کوئی آدمی سر راہ کھڑے ہوکر اپنی بی بی سے باتیں کرے تاکہ ناواقف لوگ اسے فاسق کہیں تو اس حرکت سے گنہگار ہوگا۔(تلبیس ابلیس، صفحہ522)

لیکن صوفیاء خود کو جان بوجھ کر بدنام کرتے ہیں اور اسکو نیکی اور روحانی برائیوں سے نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ سید علی بن عثمان الہجویری ملامت اور بدنامی کو بطور علاج ذکرکرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں: قصداًملامت طلب کرنے کی صورت یہ ہے جب کسی بزرگ کی خلق خدا میں بہت قدر منزلت ہوتی ہے جس سے اس کے دل میں خود پسندی پیداہوتی ہے ۔اس کا علاج وہ اس طرح کرتے ہیں کہ وہ ایسا کام کرتے ہیں جو شریعت کے خلاف نہ ہو لیکن لوگو ں کو خلاف شرع نظر آئے۔ اس سے ان کو اطمینان قلب نصیب ہوتا ہے او ر حق تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔لیکن لوگ ان سے متنفر ہوجاتے ہیں اور ملامت کی زبان دراز کرتے ہیں۔(شرح کشف المحجوب،صفحہ 275,274)

مزید لکھتے ہیں: بعض حضرات تزکیہ نفس کی خاطر ملامتی طریقہ اختیار کرتے ہیں تاکہ بدنامی کی وجہ سے ان کو روحانی ترقی حاصل ہو۔اس لئے وہ اپنے نفس کو ذلیل کرکے خوش ہوتے ہیں۔(شرح کشف المحجوب،صفحہ 282)

الہجویر ی کا یہ دعویٰ کہ صوفیاء ملامت کے لئے ایسا طریقہ اختیار کرتے ہیں جو بظاہر خلاف شرع نظر آتا ہے لیکن حقیقت میں خلاف شرع نہیں ہوتا محض جھوٹ ہے۔اوّل تو ہم پہلے ہی ذکر کر آئے ہیں کہ کسی شخص کاشرعی اور جائز کام کے ذریعے بھی لوگوں کو اس طرح مغالطہ دینا کہ لوگ اسے فاسق اور فاجر سمجھنے لگیں بذات خود ایک گناہ اور جرم ہے۔اوراس کے علاوہ الہجویری کاصوفیاء کے ''ملامتی طریقہ کار'' کے تحفظ اوردفاع میں کیا گیایہ دعویٰ ابن کرینی صوفی کے اس واقعہ سے بالکل غلط اور جھوٹاثابت ہوتا ہے جس میں وہ چوری جیسے قبیح فعل کے ذریعے اللہ کے قرب اور روحانی ترقی کے حصول کا متلاشی نظر آتا ہے۔ ابوحامد نے بیان کیا کہ ابن کرینی نے کہا: میں ایک بار ایک مقام پر اترا اور میرے خیر و صلاح کی وہاں شہرت ہوگئی۔میں حمام میں گیا، وہاں ایک لباس فاخرہ دیکھ کر اس کو چرا لیا اور نیچے وہ لباس پہن کر اوپر سے اپنا خرقہ پہنا اور حمام سے نکل کر آہستہ آہستہ چلنے لگا۔لوگ میرے پاس آئے اور میرا خرقہ اتارا اور وہ لباس مجھ سے چھین کر مجھ کو پیٹا۔اس کے بعد میں حمام کا چور مشہور ہوگیا اس وقت میرے نفس کو قرار آیا۔(بحوالہ تلبیس ابلیس،صفحہ 522)

ایک مسلمان سے اگر چوری ہوجائے تو اس کا ضمیر اسے ملامت کرتا رہتا ہے اور اس جرم پر خوش ہونا تو دور کی بات چوری کے گناہ ہونے کا احساس اسے پشیمان اور پریشان کئے رکھتا ہے۔ لیکن ابن کرینی صوفی کے نفس کو چوری کرکے اس لئے قرار آگیا کہ خود پر نیکوکاراور پرہیزگار ہونے کی چھاپ اتارنے کے لئے انکے ہاں ہر طرح کا گناہ اور جرم جائز ہے۔سابقہ واقعات کی طرح یہ واقعہ بھی صوفیوں کے فلسفہ نیکی اور بدی کے مخالف شریعت ہونے کی نشاندہی کررہا ہے۔

4۔ اولاد کی محبت فطری محبت ہے جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانوں کے دلو ں میں ڈالی ہے ۔اس لئے محبت اولا د نہ تو اللہ رب العالمین کی محبت میں رکاوٹ ہے اور نہ ہی مانع۔رسول اللہ ﷺاپنی اولاد سے محبت فرماتے تھے۔سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے (اپنے بیٹے)ابراہیم کو (گود میں ) لیا اور اس کا بوسہ لیااور (پیارسے) اس کی خوشبو سونگھی۔(صحیح بخاری،کتاب الجنائز)

اور یہ اولاد سے محبت کا نتیجہ و ثبوت تھا کہ رسول اللہﷺ نے ان کی جدائی پر آنسو بہائے۔اولاد سے محبت کرنا، انہیں پیار کرنا نبیﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل ہے جو باعث ثواب ہے۔صوفیاء کا معاملہ اس سلسلے میں بالکل انوکھا ہے انکے نزدیک نہ صرف یہ کہ اپنے بچوں سے پیار کرنا گناہ ہے بلکہ وہ اولاد کی محبت کو اللہ کی محبت کے منافی اور اللہ کی محبت کے راستے میں رکاوٹ سمجھتے ہیں انکے نزدیک کسی انسان سے محبت کرنے والا حتی کہ اولاد سے الفت ومحبت رکھنے والاشخص بھی اللہ کی محبت میں سچا نہیں جھوٹا ہے۔کیونکہ بقول صوفیاء دو محبتیں ایک ساتھ دل میں جمع نہیں ہوسکتیں چاہے اللہ کی محبت کے ساتھ وہ دوسری محبت اپنی آل اولاد ہی کی کیوں نہ ہو۔ اس سلسلے میں صوفیوں کے کچھ واقعات مطالعہ فرمائیں اور انکی الٹی عقل کی داد دیجئے۔

حضرت فضیل ایک مرتبہ اپنے بچے کو آغوش میں لئے ہوئے پیار کررہے تھے کہ بچے نے سوال کیا کہ کیا آپ مجھے اپنا محبوب تصور کرتے ہیں۔فرمایا بے شک پھر بچے نے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کو بھی محبوب سمجھتے ہیں، پھر ایک قلب میں دو چیزوں کی محبوبیت کیسے جمع ہوسکتی ہے یہ سنتے ہی بچے کو آغوش سے اتار کر مصروف عبادت ہوگئے۔(تذکرۃ الاولیاء ،صفحہ63)

شیخ فریدالدین عطار صاحب تخت و تاج کو ٹھکرانے پھر ایک طویل عرصہ بعد اپنے گھروالوں سے ملاقات پر ابراہیم بن ادھم کے تاثرات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: فرمایا کہ جب میں بچے سے ہم آغوش ہوا تو وفورجذبات اور فرط محبت سے بے تاب ہوگیا اور اسی وقت یہ ندا آئی کہ ہم سے دوستی کے دعویٰ کے بعد دوسرے کو دوست رکھتا ہے۔یہ ندا سن کر میں نے عرض کیا کہ یا اللہ یاتو لڑکے کی جان لے لے یا پھر مجھے موت دے دے چناچہ لڑکے کے حق میں دعا مقبول ہوگئی۔(تذکرۃ الاولیاء ،صفحہ 71)

صوفیوں کے یہ غیرفطری خیالات شرعی علم سے انتہاء درجے کی جہالت کا ثبوت ہیں۔ان فاسد خیالات کی تردید کے لئے اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس امت میں سب سے بڑھکر اللہ کی معرفت رکھنے والے تھے اگر اولاد کی محبت واقعتا اللہ کی محبت سے مانع ہوتی تو نبی ﷺ نہ تو خود کبھی اپنی اولاد سے محبت فرماتے اور نہ ہی اپنی امت کو اسکی ترغیب دیتے ۔اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ نبی ﷺ حسن کا بوسہ لے رہے تھے تو اقرع رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے دس بیٹے ہیں مگر میں کسی کا بھی بوسہ نہیں لیتا۔تو رسول اللہﷺ نے فرمایا : جو رحم نہیں کرتا ،اس پر رحم نہیں کیا جائے گا۔(صحیح بخاری، کتاب الادب)

عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک اعرابی آیا اور کہا: کیا آپ بچوں کا بوسہ لیتے ہیں ؟ ہم تو بچوں کا بوسہ نہیں لیتے!آپ ﷺ نے فرمایا: اگر اللہ نے تمہارے دل سے رحمت نکال دی ہے تو میں کیا کرسکتا ہوں۔(صحیح بخاری، کتاب الادب)

پس ثابت ہوا کہ شریعت کے نزدیک اولاد سے محبت کار ثواب اور پسندیدہ عمل ہے جبکہ صوفیاء کے نزدیک اولاد سے محبت ناپسندیدہ ،اللہ کی ناراضگی اور دین میں کمی کا باعث ہے،مطلب صوفیوں کا تصور نیکی اور بدی شریعت کے تصور نیکی وبدی سے متصاد م و مخالف ہے۔

صحیح اور صاف بات یہ ہے کہ صوفیوں کے نزدیک بدی وہ ہے جو شریعت کی نگاہ میں نیکی ہے اور نیکی وہ ہے جسے شریعت بدی قرار دیتی ہے اور یہ صوفیوں کے اسی انوکھے اور خلاف شرع عقیدہ کا کرشمہ و نتیجہ ہے کہ اسلام کی نگاہ میں جو صحیح معنوں میں فرمابردار ہے وہ صوفیاء کے نزدیک نافرمان ہے اور جو شریعت کی کسوٹی پر نافرمان اترتا ہے وہی صوفی مذہب میں فرما بردار اور نیکوکار ہے۔ ''الفکر الصوفی'' جیسی عظیم کتاب کے خالق شیخ عبدالرحمن عبدالخالق ''فصوص الحکم ''کے حوالے سے لکھتے ہیں: اور اسی کتاب میں ابن عربی نے بیان کیا ہے کہ ابلیس اور فرعون اللہ کی معرفت رکھتے تھے ۔اور نجات پائیں گے۔اور فرعون کو موسیٰ علیہ السلام سے زیادہ اللہ کا علم تھا۔اور جس نے کسی بھی چیز کی پوجا کی اس نے اللہ ہی کی پوجا کی۔(اہل تصوف کی کارستانیاں، صفحہ 56)

ابن عربی صوفیوں کابڑا امام ہے اور اسکے عقیدے کے مطابق ثابت ہوا کہ فرعون، ابلیس اور بتوں کے پجاری مشرک وغیرہ جو شریعت کی نگاہ میں اللہ کے نافرمان اور آخرت میں ناکام ہیں، اللہ کی حقیقی معرفت رکھنے والے اور نجات پانے والے ہیں بلکہ یہی'' نافرمان'' لوگ علم اور رب العالمین کی معرفت میں انبیاء علیہ السلام سے بھی افضل ہیں۔انااللہ وانا الیہ راجعون!
کیونکہ انبیاء علیہ السلام ابلیس، فرعون اور مشرکین کو ناکامیاب اورآخرت میں خسارہ پانے والے سمجھتے تھے جبکہ صوفیوں کے عقیدے کے مطابق یہ بات غلط ہے اس طرح صوفیوں کے نزدیک انبیاء اور انکے پیروکار غلط راہ پر جبکہ بتوں کے پجاری اللہ کے نافرمان بندے صحیح راہ پر ہیں۔

اس بات کی مزید وضاحت میں ابن عربی کی ایک اور عبارت ملاحظہ فرمائیں جس میں موصوف کہتے ہیں کہ: قوم ہود بھی صراط مستقیم پر تھی۔فرعون کامل الایمان تھا اور قوم نوح بھی۔اللہ پاک نے قوم نوح اور فرعون کو ان کے نیک اعمال کا بدلہ دیتے ہوئے وحدت الوجود کے سمندر میں غرق کیا۔ اور قوم ہود کو عشق الہٰی کی آگ میں داخل کیاتاکہ اسے عیش و آرام حاصل ہو۔(بحوالہ شریعت و طریقت، صفحہ 85)

اگر یہ اللہ کے نافرمان بندے اور قومیں بھی صراط مستقیم پر تھیں تو اس کا صاف اور سیدھا مطلب یہ ہے کہ انکی مخالفت کرنے والے انبیاء علیہ السلام صراط مستقیم سے منحرف اور گمراہ تھے(نعوذباللہ من ذالک)بدقسمتی سے صوفیوں کا یہی عقیدہ ہے۔اسی لئے یہ انبیاء کے منع کرنے کے باوجود بت پرستی نہ چھوڑنے پر انکی قوم کی تعریف کرتے ہیں۔ابن عربی نے کہا: حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے بھی بہت اچھا کردار ادا کیا جو بت پرستی سے باز نہ آئے۔(فصوص الحکم)

صوفیاء کے اس طرح کے نظریات و عقائد نے اسلام کی بنیاد ہی کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ہے یہ اس کڑوی سچائی کا ٹھوس ثبوت ہے کہ صوفی مذہب کا دین اسلام سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں بلکہ یہ اسلام کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے اور دین کی عمارت کو ڈھا دینے کی گہری سازش ہے۔ اہل حدیث اور صوفیوں کے مابین نیکی اور بدی کے تصور میں زبردست تضاد اور اختلاف کے باوجود جو شخص اہل حدیث کو صوفیوں کے زمرے میں داخل کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ جھوٹا ترین انسان ہے۔

نویں وجہ:

تصوف کے بارے میں متصوفین کا دعویٰ ہے کہ یہ اچھے اور بہترین اخلاق کے مجموعہ کا نام ہے اور صوفی مذہب کے ماننے والوں کے اخلاق بعینہ وہی ہیں جو نبی ﷺ کے اخلاق تھے۔

دیوبندیوں کے ''پیر'' ذوالفقار احمد نقشبندی لکھتے ہیں: حضرت مرتعش نے فرمایا: تصوف اچھے اخلاق کا مجموعہ ہے۔(تصوف و سلوک،صفحہ 12)

یہی ذوالفقار احمد نقشبندی صاحب ایک اور صوفی کا قول نقل کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: حضرت ابوالحسن نوری نے فرمایا: تصوف علم و فن کا نام نہیں مجموعہ اخلاق کا نام ہے۔(تصوف و سلوک،صفحہ 12)

رشید احمد گنگوہی صوفی دیوبندی کا خیال ہے کہ: صوفیا ء کے اخلاق وہی ہیں جو جناب رسول مقبول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا خلق ہے۔(اکابر کا سلوک و احسان،صفحہ 27، امداد السلوک،صفحہ 47)

آئیے صوفیوں کے اس دعویٰ کا تجزیہ کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ نبیﷺ کے اخلاق اور صوفیوں کے اخلاق میں کوئی مماثلت ہے یا نہیں؟

نبیﷺ مہمان کی بہت عزت اور تکریم فرماتے تھے اور مہمان کو اللہ کی رحمت قرار دیتے ہوئے مہمان کے کھانے پینے کا خاص خیال رکھنے کی تلقین فرماتے تھے۔ چناچہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو اللہ تعالیٰ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ دستور کے ساتھ اپنے مہمان کی عزت کرے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہما نے پوچھا دستور کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ایک دن اور ایک رات تو پرتکلف دعوت دے اور ضیافت تین دن کے لئے اس کے بعد صدقہ اور خیرات ہے۔(صحیح بخاری، کتا ب الادب)

اب مہمان کے ساتھ صوفیوں کا اخلاق اور برتاؤ ملاحظہ کریں جو مہمان کی عزت کرنے کے بجائے اسکی بے عزتی کرتے ہوئے کھانا بھی اسکے آگے سے اٹھا لیتے ہیں۔ فرید الدین عطار لکھتے ہیں: حضرت حسن بصری ایک مرتبہ حبیب عجمی کے پاس تشریف لے گئے تو اس وقت انکے یہاں جو کی ایک روٹی اور تھوڑا سا نمک موجود تھا وہی بطور تواضع آپ کے سامنے رکھ دیا اور جب انہوں نے کھانا شروع کردیا تو ایک سائل آپہنچا ،تو حضرت حبیب عجمی نے وہ روٹی آپ کے سامنے سے اٹھا کر سائل کو دے دی۔اس پر حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ تم میں شائستگی تو ضرور ہے لیکن علم نہیں۔ کیا تمہیں یہ معلوم نہیں کہ مہمان کے سامنے سے اس طر ح پوری روٹی اٹھا کر نہ دینی چاہیے بلکہ ایک ٹکڑا توڑ کر دے دیتے یہ سن کر وہ خاموش رہے۔(تذکرۃ الاولیاء،صفحہ 39)

مشہور صوفی بزرگ رابعہ بصری کس طرح مہمانوں کے ساتھ پیش آتی ہیں دیکھئے: دو بھوکے افراد رابعہ بصری کے یہاں بغرض ملاقات حاضر ہوئے اور باہمی گفتگو کرنے لگے کہ اگر رابعہ بصری اس وقت کھانا پیش کردیں تو بہت اچھا ہے کیونکہ ان کے یہاں رزق حلال میسّر آجائے گااور آپ کے یہاں اس وقت دو ہی روٹیاں تھیں وہی ان کے سامنے رکھ دیں،دریں اثناء کسی سائل نے سوال کیا تو آپ نے وہ دونوں روٹیاں اٹھا کر اس کو دیدیں، یہ دیکھ کر وہ حیرت زدہ رہ گئے۔(تذکرۃ الاولیاء،صفحہ 49)

ان اور ان جیسے دیگر واقعات کے بعد صوفیوں کے اس زعم اور فریب کی قلعی کھل جاتی ہے کہ ان کے اخلاق رسول اللہ ﷺ کے اخلاق ہیں۔نبی ﷺ اور صحابہ کرام تو دور کی بات ایک عام مسلمان بھی مہمانوں سے ایسا برتاؤ کرنے میں انتہائی شرم اور غیرت محسوس کرے گاجس کا مظاہرہ صوفیاء کے اکابرین نے کیا ہے ۔ اسی لئے علامہ احسان الہٰی ظہیر رحمہ اللہ نے صوفی مذہب پرگہری تحقیق کے بعد یہ فیصلہ سنایا کہ صوفیاء کا نبی ﷺ کی سیرت اور اخلاق سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ لکھتے ہیں: جب ہم صوفیوں کی تعلیمات پر گہرائی سے نظر ڈالتے ہیں، ان کے اقوال کو پرکھتے ہیں، ان کی قدیم اور جدید کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں،ان کے متقدمین اور متاخرین کے افکار کو سامنے رکھتے ہیں تو ہمارے سامنے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ ان کی تعلیمات اور قرآن و سنت کی تعلیمات میں بعد المشرقین ہے ۔تصوف کی بنیاد یں،جڑیں اور اس کے بیج کسی بھی طرح ہمیں حضور کی سیرت میں نہیں ملتے اور نہ ہی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کی تعلیمات اور ان کی زندگیوں سے میل کھاتے ہیں۔(تصوف،تاریخ و حقائق، صفحہ 75)

ان حوالہ جات سے اظہر من الشمس ہے کہ صوفیوں کا تصوف کے بارے میں یہ دعویٰ جھوٹا ہے کہ یہ مجموعہ اخلاق کا نام ہے بلکہ یہ تو بد اخلاقیوں اور برائیوں کا مجموعہ ہے۔اہل حدیث کے نزدیک اخلاق وہی ہیں جن کی تعلیم رسول اللہ ﷺ نے دی۔یہ ایک اوروجہ تھی جس کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اہل حدیثوں کا صوفیوں سے کوئی واسطہ اور تعلق نہیں۔اس لئے اہل حدیثوں کے متعلق مخالفین کا صوفی ہونے کا دعویٰ بے بنیاد ہے۔

دسویں وجہ:

اہل حدیث کے صوفی نہ ہونے کی ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اکابرین اہل حدیث صوفیانہ عقائد کے شدید مخالف تھے اور موجود اہل حدیث علماء بھی صوفیانہ عقائد کو کفریہ اور شرکیہ قرار دے کر انہیں رد کرتے ہیں۔ایسی مضبوط وجہ کی موجودگی میں تو کسی کوبھی حق نہیں پہنچتا کہ کسی اہل حدیث کی جانب صوفی ہونے کی نسبت کرے لیکن اتنی بڑی حقیقت کو نظر انداز کرکے مخالفین صرف کچھ افعال میں صوفیوں سے بعض اکابرین اہل حدیث کی مشابہت کی بنیاد پرہی ان کے صوفی ہونے کا دعویٰ کردیتے ہیں۔ لیکن مخالفین کی ناانصافی اور دوغلاپن دیکھئے کہ اہل حدیث کے اکابرین کو صوفی قرار دینے والے یہ لوگ خود قادیانیوں کو مسلمان تسلیم کرنے کو تیار نہیں جبکہ قادیانیوں کے قریب قریب تمام افعال اور عقائد مسلمانوں والے ہی ہیں۔وہ مسلمانوں ہی کی طرح نماز پنجگانہ بھی ادا کرتے ہیں، روزے بھی رکھتے ہیں، حج بیت اللہ بھی کرتے ہیں۔ چونکہ قادیانی بھی دیوبندیوں اور بریلویوں کی طرح فروع میں حنفی ہیں اس لئے ایک حنفی دیوبندی و بریلوی اور قادیانی میں تفریق کرنا بھی قریب قریب ناممکن ہے ،یہاں تک کہ خود قادیانی ہی اپنے قادیانی ہونے کا انکشاف کرکے اس مشکل کو آسان نہ کردے ۔حنفیوں سے خصوصاً اور مسلمانوں سے عموماً اس زبردست مماثلت اور مشابہت کے باوجود صرف ایک عقیدہ ایسا ہے جو قادیانیوں کا مسلمانوں سے علیحدہ ہے اور وہ ختم نبوت کا عقیدہ ۔ قادیانی مسلمانوں کے برخلاف رسول اللہﷺ کو آخری نبی تسلیم نہیں کرتے۔یعنی مسلمانوں کے صرف ایک عقیدہ سے انکار یا اسکی مخالفت کی بناء پر کوئی بھی مسلمان بشمول حنفی، قادیانیوں کو مسلمان تسلیم کرنے کو تیار نہیں ،توپھر صوفیوں کے تمام عقائد سے انکار اور مخالفت کے باوجود بھی اہل حدیث کو کس کلیے و قاعدہ کے تحت صوفی قرار دیا جاتا ہے؟؟؟

وحدت الوجود صوفی مذہب کا لازمی اور بنیادی عقیدہ ہے اور قریب قریب تمام ہی صوفیاء اس عقیدہ کو تسلیم کرنے والے اور اسکا دفاع کرنے والے ہیں۔یہ وہ عقیدہ ہے جسے تسلیم کئے بغیر کوئی صوفی ،صوفی نہیں ہوسکتا۔ جس طرح قادیانی مسلمانوں کے بنیادی عقیدے ختم نبو ت کے منکر ہیں اسی طرح ماضی وحال کے تمام اکابرین و اصاغرین اہل حدیث بھی صوفی مذہب کے بنیادی عقیدے وحدت الوجود کا انکار کرتے ہوئے اس کا زبردست رد کرتے ہیں۔مثلاً

01۔ نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ مسئلہ وحدت الوجود کے متعلق اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں: اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ وحدت الوجود کا مسئلہ کتاب وسنت کے واضح اور صریح نصوص کی بنیاد پر بے شک وشبہ کفر بواح ہے۔(ابقاء المنن،صفحہ 193)

02۔ عبداللہ بہالپوری رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں: اب وحدت الوجود کا عقیدہ صوفیوں کا بنیادی عقیدہ ہے۔آپ سب کچھ نہ کچھ سکو ل کی تعلیم رکھتے ہیں۔یہ جدھر دیکھتا ہوں تو ہی تو ہے اور ہمہ اوست کا عقیدہ یہ وحدت الوجود کا عقیدہ....اور یہ خالصتاً کفر ہے۔ ایسا گندہ عقیدہ ہے جس کی کوئی انتہاء نہیں۔(خطبات بہالپوری، جلد 1، صفحہ 327)

03۔ حافظ عبداللہ روپڑی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: اب رہی ''توحید الہٰی' ' سو اس کے متعلق بہت دنیا بہکی ہوئی ہے۔بعض تو اس کا مطلب ''ہمہ اوست'' سمجھتے ہیں یعنی ہر شے عین خدا ہے۔(فتاویٰ اہلحدیث، جلد 1، صفحہ 154)

تنبیہ: یہاں عبداللہ روپڑی رحمہ اللہ وحدت الوجودیوں کو گمراہ قرار دے رہے ہیں۔ یادرہے کہ ہمہ اوست اور وحدت الوجودکی حقیقت ایک ہی ہے اور یہ ایک ہی عقیدے کے دو نام ہیں بس ہمہ اوست کی اصطلاح ہندو وغیرہ کفار لوگ استعمال کرتے ہیں اور وحدت الوجود کی اصطلاح صوفیوں کے ہاں مستعمل ہے۔عبدالعزیز نورستانی حفظہ اللہ فرماتے ہیں: معلوم یوں ہوتا ہے کہ ''ہمہ اوست'' کی اصطلاح ان ملحدین کی تھی جنہوں نے اسلام کا لبادہ نہیں اوڑھا اور وحدۃ الوجود کی اصطلاح ان ملحدین کی ہے جنہوں نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام اور اسلامی عقیدہ کی بیخ کنی کی جیسے ابن عربی، ابن سبعین، عفیف تلمسانی وغیرہ ہم۔(ڈاکٹر اسرار صاحب کا نظریہ توحیدالوجودی اور اس کا شرعی حکم،صفحہ 20)

اسی طرح شاہ ولی اللہ حنفی صوفی بھی ہمہ اوست اور وحدت الوجود کو قریب قریب ایک ہی عقیدہ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں: تو دونوں میں ایسی مشابہت پیدا ہوگئی کہ تمیز کرنا مشکل ہوگیا۔اور صفائی اور باریکی کے لحاظ سے ایک دوسرے کے رنگ میں اس طرح ظاہر ہوا کہ لوگوں کی نظروں کے لئے مشکل آن پڑی ''فکا نما خمر لاقدح''جیسے شراب ہے شیشہ نہیں گویا کہ شراب ہے جو منجمد ہے اور پیمانے کا وجود نہیں ''وکا نما قدح ولا خمر'' گویا پیمانہ ہے شراب نہیں۔(انفاس العارفین،صفحہ 231)

04۔ مولانا عبدالرحمن کیلانی رحمہ اللہ نے عقیدہ وحدت الوجود پر بڑا تفصیلی رد کیا ہے۔ وہ اس عقیدہ کو ہندو مذہب سے مستعارعقیدہ قرار دیتے ہوئے رقم طراز ہیں: ہم پہلے یہ بتلا چکے ہیں کہ یہ نظریہ خود اسلام کے وجود میں آنے سے ہزار ہا سال پہلے ہندؤں کے اپنشدوں میں موجود تھا...اس طرح یہ نظریہ دوسرے مذاہب میں بھی پایا جاتا تھا، تو جب عباسی خلیفہ ہارون الرشید کے زمانہ میں(یعنی دوسری صدی ہجری کے آخر میں) یونانی، لاطینی اور سنسکرت کی بے شمار کتابوں کا ترجمہ عربی زبان میں ہونے لگا تو ان کتابوں میں فلسفہ وحدت الوجود اور تصوف کی بیشمار مسائل پر بحث موجود تھی۔انہی نظریات و مسائل سے ہمارے صوفیاء نے بھی متاثر ہونا شروع کیا۔(شریعت و طریقت،صفحہ 92)

عبدالرحمن کیلانی رحمہ اللہ کے نزدیک بھی صوفیوں کا وحدت الوجود کا عقیدہ غیرشرعی اور غیراسلامی ہے۔چناچہ لکھتے ہیں: چونکہ عقیدہ وحدت الوجود قرآن کی تعلیم سے براہ راست متصادم تھا اس لئے علمائے دین مخالف ہوگئے۔(شریعت و طریقت،صفحہ 87)

مزید فرماتے ہیں: اب اتفاق کی بات ہے کہ وحدت الوجود کا مسئلہ عقل یا فلسفہ کا مسئلہ بھی ہے اور وجدان یا تصوف کا بھی ۔بالفاظ دیگر یہ خالص مادہ پرستانہ فلسفہ بھی ہے اور صوفیا ء کا روحانی مسئلہ بھی۔اور ان دونوں کا اس مسئلہ پر اتحاد و اتفاق بھی ہوجاتا ہے لیکن اس کے باجود وحی الہٰی سے متصادم ہے۔(شریعت و طریقت،صفحہ 93)

05۔ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے بھی وحدت الوجودیوں کا مفصل رد کیا ہے ۔اس عقیدہ سے متعلق اپنا نظریہ بیان کرتے ہوئے زبیرعلی زئی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: مروجہ وحدت الوجود کا عقیدہ قرآن و حدیث کے سراسر خلاف بلکہ کفر و باطل ہے۔ (تحقیقی،اصلاحی اور علمی مقالات، جلد 5، صفحہ 55)

06۔ شیخ الحدیث ابوعمر عبدالعزیز النورستانی حفظہ اللہ وحدت الوجود کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار یوں کرتے ہیں: بہرحال عقیدہ وحدۃ الوجود کو توحید وجودی کہو،شرک وجودی کہو یا کفر وجودی یہ نظریہ کفر ہی کفراور زندقہ ہے۔(ڈاکٹر اسرار صاحب کا نظریہ توحیدالوجودی اور اس کا شرعی حکم،صفحہ 16)

07۔ شیخ الحدیث محمد رفیق اثری حفظہ اللہ کے نزدیک بھی وحدت الوجود کفر،شرک اور الحاد ہے۔اس سلسلے میں وہ عبدالعزیز نورستانی حفظہ اللہ کی رائے کی مکمل موافقت کرتے ہیں چناچہ اپنے دستخط شدہ فتوے میں لکھتے ہیں: وحدۃ الوجود یا وحدۃ الشہود یا توحید وجودی کے بارے میں مولانا عبدالعزیز نورستانی حفظہ اللہ کی مفصل تحریر کا مطالعہ کیا، اسے فکر سلف صالحین و محدثین رحمہم اللہ کے عین مطابق پایا، میں ان کی تائید و تصدیق کرتا ہوں۔(ڈاکٹر اسرار صاحب کا نظریہ توحیدالوجودی اور اس کا شرعی حکم،صفحہ 39)

08۔ بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ کا شمار بھی وحدۃ الوجود کے شدید مخالفین میں ہوتا ہے انہوں نے اپنی مایہ ناز تصنیف توحید خالص میں وحدۃ الوجود کے قائلین کے دلائل کا تعاقب و علمی رد کرتے ہوئے ان کا خوب محاسبہ و محاکمہ کیا ہے۔ دیکھئے: (توحید خالص، صفحہ 253 تا454)

09۔ شیخ الحدیث ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ کہتے ہیں: وحدۃ الوجود کی بھول بھلیاں ہوں یا وحدۃ الشہود کی موشگافیاں ہوں، ان کا ٹھیٹھ اسلام جسے اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے حبیب سیدنا محمد رسولﷺ پر نازل کیا تھا، سے کوئی تعلق نہیں۔آپ ﷺ کے ارشادات یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فرمودات میں ان اصطلاحات اور اس کی تفصیلات کا کوئی تذکرہ نہیں۔ ایک مسلمان کیلئے ان اصطلاحات کی تعلیم و تفہیم قطعاً غیرضروری ہے۔بلکہ وحدۃ الوجود سے توحید اور شرک کی تفریق ختم ہوتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔(ڈاکٹر اسرار صاحب کا نظریہ توحیدالوجودی اور اس کا شرعی حکم،صفحہ 40)

10۔ شیخ الحدیث ابو زکریا عبدالسلام رستمی حفظہ اللہ وحدۃ الوجود کو عین شرک وکفر قرار دیتے ہیں۔دیکھئے: وجہ ششم: وحدۃ الوجودعین حلول ہے اور عقیدہ حلول عین کفر اور شرک ہے۔
وجہ ھفتم: عقیدہ وحدۃ الوجود اور حلول شرک کیلئے زینہ بلکہ عین کفر اور شرک ہے۔
(ڈاکٹر اسرار صاحب کا نظریہ توحیدالوجودی اور اس کا شرعی حکم،صفحہ 43)

11۔ ابو محمد امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ عقیدہ وحدۃ الوجود کا فیصلہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: اہل السنۃوالجماعۃ کے تمام محققین علماء کرام کا یہ متفق علیہ فتویٰ ہے کہ عقیدہ وحدت الوجود اور توحید وجودی کفریہ اور شرکیہ عقیدہ ہے بلکہ یہ یہود اور نصاریٰ کے کفر سے بھی بڑھ کر کفر ہے۔(ڈاکٹر اسرار صاحب کا نظریہ توحیدالوجودی اور اس کا شرعی حکم،صفحہ 55)

پس ثابت ہوا کہ جس طرح قادیانی حضرات مسلمانو ں کے ایک متفقہ عقیدہ کے انکار کے سبب مسلمان کہلائے جانے کے حقدار نہیں بعینہ اسی طرح اہل حدیث بھی صوفیوں کے متفقہ اور بنیادی عقیدہ کے انکار کی وجہ سے صوفی کہلائے جانے کے مستحق نہیں۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
گیارویں وجہ:

اکابرین اہل حدیث کے صوفی نہ ہونے کی گیارویں وجہ یہ ہے کہ سلف صالحین سے اہل حدیث کی تعریف و مدح منقول و ثابت ہے جبکہ صوفیوں کی تردید و مذمت میں یہ ہم زبان اورمتحد ہیں۔اگر بالفرض اہل حدیث بھی صوفی ہوتے تو انکی بھی مذمت کی جاتی حالانکہ ان کی مذمت کسی بھی مستند اورقابل ذکر صحیح العقیدہ عالم سے ثابت نہیں جو اس دعویٰ کی مضبوط دلیل ہے کہ اہل حدیث کبھی بھی صوفی نہیں رہے اور مخالفین کا اس بارے میں پروپیگنڈہ صرف شعبدہ بازی ہے۔

سلف صالحین کی نظر میں اہل حدیث مقام ومرتبہ ملاحظہ کریں۔

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میرے نزدیک اہلحدیث جماعت سے کوئی بہتر جماعت نہیں یہ حدیث کے سوا کچھ جانتے ہی نہیں ابوعبداللہ فرماتے ہیں علمی باتیں جن لوگوں نے کی ہیں ان میں سب سے بہتر باتوں والے اہل حدیث ہیں۔(شرف اصحاب الحدیث،مترجم،صفحہ 44)

امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جب کسی حدیث جاننے والے کو دیکھ لیتا ہوں تو اتنا خوش ہوتا ہوں کہ گویا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیا۔(شرف اصحاب الحدیث،مترجم،صفحہ 43)

اہل حدیث کی شان میں اور بھی کافی حوالے ہیں شائقین علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ کی مشہور و معروف تصنیف ''شرف اصحاب الحدیث'' کی جانب رجوع کریں لیکن ہم انہیں دو حوالہ جات پر اکتفاء کرتے ہیں۔اب سلف صالحین کی صوفیوں کے بارے میں رائے بھی پڑھ لیں۔

ابو عبداللہ بن بطہ عکبری نے کہا: مجھ سے ایک شخص نے گانا سننے کی نسبت سوال کیا، میں نے اس کو منع کیا اور بتایا کہ غنا کو علماء برا سمجھتے ہیں اور بیوقوف لوگ اچھا جانتے ہیں۔ایک گروہ اس حرکت کے مرتکب ہیں جن کو صوفیہ کہتے ہیں اور اہل تحقیق نے ان کا نام احمق،برے لوگ، کم ہمت والے ، بدعت کے طریقوں والے رکھاہے۔(تلبیس ابلیس،صفحہ 378)

محمد بن کثیر صنعانی صوفیوں کو شیطان کی اولاد کہتے تھے: محمد بن موسی جرجانی نے کہا: میں نے محمد بن کثیر صنعانی سے ان زاہدوں کے بارے میں سوال ، جو نہ سفر میں توشہ لے جاتے ہیں اور نہ جوتا اور موزہ پہنتے ہیں۔ جواب دیا کہ تم نے مجھ سے اولاد شیاطین کی نسبت سوال کیا ہے، زاہدوں کے بارے میں نہیں پوچھا ۔ میں نے کہا پھر زہد کیا چیز ہے۔ بولے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنا اور صحابہ رضی اللہ عنھم کی مشابہت کرنا۔(تلبیس ابلیس، صفحہ 465)

علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ کے نزدیک صوفیہ جاہل ہیں،فرماتے ہیں: مکر کے متعلق بعض صوفیہ سے مجھ کو عجیب حکایات پہنچی جس کے بیان سے میرے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں۔لیکن ان جاہلوں کے خیالات کی قباحت پر تنبیہ کرتا ہوں۔(تلبیس ابلیس، صفحہ 506)

شیخ عبدالرحمن عبدالخالق صوفیوں کے بارے میں ابن عقیل کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:ابن عقیل حتمی طور پر کہتے ہیں جیسا کہ ابن جوزی نے ان سے نقل کیا ہے کہ یہ لوگ زندیق، ملحد اور دین کے جھوٹے دعوے دار ہیں۔(اہل تصوف کی کارستانیاں، صفحہ 30)

امام شافعی رحمہ اللہ کا فرمان ہے: انہوں نے فرمایا کہ اگر کوئی آدمی چاشت کے وقت صوفی بنے ظہر سے پہلے پہلے ضرور احمق ہوجائے گا۔ شافعی رحمہ اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ جو شخص چالیس روز صوفیہ کے پاس رہے گا پھر اس کی عقل اس کے پاس نہ آئے گی۔(تلبیس ابلیس، صفحہ 537)

یحییٰ بن معاذ نے نصیحت کی: تین قسم کے لوگوں کی صحبت سے پرہیز کرو۔ ایک وہ علماء جو غافل ہیں اور دوسرے وہ لوگ جو چرب زبان ہیں اور تیسرے وہ جو صوفیہ ہیں۔ (تلبیس ابلیس ، صفحہ 538)

حسن بن علی بن سیار نے صوفیوں کے بارے میں کہا: لہٰذا ایک زمانہ تک ان کی خدمت کرتا رہا، یہاں تک کہ بعد میں ثابت ہوا کہ وہ لوگ کمینے ہیں۔ جب وہ باہم جمع ہوکر بیٹھتے ہیں تو ان کا علم وہی ہے جو چرواہوں، کمینوں اور رذیلوں کا علم ہے۔انہوں نے صوف کا لباس اس لئے پہنا ہے کہ نیک معلوم ہوں، حالانکہ شریر بھیڑئیے اور رنگ باز ہیں۔(تلبیس ابلیس ، صفحہ 544, 543)

شیخ عبدالرحمن عبدالخالق صوفیت کے بارے میں اپنا موقف بیان کرتے ہوئے رقم طرازہیں: صوفیانہ افکار دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہرقسم کے جدید و قدیم فلسفوں ، خرافات اور لاف و گزاف کا پورا پورا معجون مرکب ہیں۔دنیا کا کوئی بھی کفر ، زندقہ اور الحاد ایسا نہیں جو صوفیانہ افکار میں داخل ہوکر صوفی عقیدے کا ایک جزو نہ بن گیا ہو۔(اہل تصوف کی کارستانیاں، صفحہ 23)

علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: شریعت کو اہل کلام اور اہل تصوف سے بڑھ کر کسی نے ضرر نہیں پہنچایا۔اہل کلام تو عقلی شبہات کے وہم میں ڈال کر عقائد کو فاسد کرتے ہیں اور اہل تصوف اعمال میں فساد پیدا کرتے ہیں اور شرعی قوانین کو منہدم کرتے ہیں۔(تلبیس ابلیس ، صفحہ 541)

اگر اہل حدیث بھی صوفی ہوتے تو انہیں بھی سلف صالحین کی جانب سے زندیق،ملحد، گمراہ، احمق،بدعتی، جاہل اوراولاد شیاطین کے خطابات ملتے۔

علماء تو ایک طرف صوفیوں کے خطرناک اور ملحدانہ نظریات کے باعث ایک عام مسلمان بھی انہیں کافر جانتا ہے۔ ماضی میں اسکی کئی مثالیں موجود ہیں کہ عام مسلمانوں نے بھی صوفیوں کے بڑے بڑے بزرگوں کو کافر،ملحد،گمراہ اور زندیق وغیرہ کا خطاب دیا۔

فرید الدین عطار ایک بہت بڑے صوفی ذوالنون مصری کے بارے میں لوگوں کے رویے کی شکایت کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: جس وقت آپ بلند مراتب پر فائز ہوگئے تو لوگوں نے مراتب کی ناواقفیت کی بناء پر آپ کو زندیق کا خطاب دے کر خلیفہ سے آپ کی شکایت کردی۔ (تذکرۃ الاولیاء ،صفحہ 91)

ابن الجوزی رحمہ اللہ ابوحمزہ صوفی کے بارے میں لکھتے ہیں: لوگوں نے ان کو زندیقیت کی طرف منسوب کیا۔مسجد کے دروازے پر ان کا گھوڑا یوں پکار کر نیلام ہوا کہ یہ زندیق کا گھوڑاہے۔(تلبیس ابلیس،صفحہ 288)

مطلب یہ ہوا کہ صوفیوں کے عقائد میں کفر، شرک اور الحاد اتنا واضح ہوتا ہے کہ عوام تک پربھی باآسانی افشاں ہوجاتا ہے اوروہ بلاخوف اعلانیہ انہیں کافر و زندیق کہتے ہیں۔عوام کے علاوہ خود صوفیاء کو بھی اپنے کافر،مرتد اور ملحد ہونے کا ادراک ہوتا ہے اس لئے کبھی کبھی یہ خود بھی اس حقیقت کا اعتراف و اقرار کرلیتے ہیں ۔ملاحظہ فرمائیں۔

صوفیوں کے اکابر ابراہیم بن ادھم کے بارے میں منقول ہے: آپ قطع مسافت کرتے اور گریہ وزاری فرماتے مکمل چالیس برس میں مکہ معظمہ پہنچے، اور جب اہل حرم بزرگوں کو آپ کی آمد کی اطلا ع ملی تو وہ برائے استقبال نکل کھڑے ہوئے اور آپ نے محض اس خوف سے کہ کوئی شناخت نہ کرسکے خود کو قافلے سے جد ا کرلیا اور جب خادمان اہل حرم نے جو آگے آگے تھے دریافت کیا کہ ابراہیم بن ادہم کتنی دور ہیں ؟ اس لئے کہ اہل حرم ان سے نیاز حاصل کرنے آرہے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ وہ لوگ ایک ملحدو دہریہ سے کیوں ملنا چاہتے ہیں یہ سنتے ہی خدام نے آ پ نے منہ پر تھپڑ مارتے ہوئے کہا ملحد دہریہ تو خود ہے آپ نے فرمایا کہ میں بھی تو یہی کہہ رہا ہوں۔(تذکرۃ الاولیاء ،صفحہ 69)

رشید احمد گنگوہی سے جب ایک صوفی حافظ لطافت علی کے بارے میں سوال کیا گیا جو انکے مطابق ''توحید میں غرق تھا'' تو رشید احمد گنگوہی صاحب نے جواب دیاکہ: ''پکا کافر تھا''۔ (تذکرۃ الرشید،جلد 2،صفحہ 242)

دیوبند ی اکابرحاجی امداد اللہ صاحب رقمطراز ہیں: صوفی شہاب الدین عمر سہروردی سے ابن عربی الصوفی کے بارے میں ان کی زندگی میں پوچھا گیاتو انھوں نے کہا: وہ بے دین ہے زندیق ہے۔اور جب ابن عربی فوت ہوگیاتو سہروردی نے کہا قطب الوقت فوت ہوگیا،لوگوں نے کہا آپ نے اس کے بارے میں پہلے کہا وہ زندیق ہے بے دین ہے اب کہہ رہے ہیں قطب تھا۔سہروردی نے کہا وہ قطب تھا لیکن زندگی میں اتباع کے قابل نہیں تھاآخر میں وہ مجذوب ہوگیا تھااس نے رب تعالیٰ کا راز ظاہر کردیا تھاجو نہیں کرنا چاہیے تھا۔(کلیات امدادیہ،صفحہ 219)

اہل حدیث کا معاملہ ان سے قطعاً مختلف ہے تاریخ میں کبھی بھی عام عوام نے انہیں کافر نہیں کہانہ ہی کبھی خودکسی اہل حدیث نے صوفیوں کی طرح اپنے کافر ہونے کا خوداقرار کیا۔کیا یہ اکابرین اہل حدیث کے صوفی نہ ہونے کا صاف اور واضح ثبوت نہیں؟

علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: زہد اور تصوف میں فرق ہونے کی دلیل یہ ہے کہ زہد کی مذمت کسی نے نہیں کی اور تصوف کو سب نے برا کہا ہے۔(تلبیس ابلیس،صفحہ 283)
ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ اہل حدیث اور صوفی میں فرق ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اہل حدیث کی مذمت کسی نے نہیں کی اور صوفیوں کو سب نے برا کہا ہے۔جیسا کہ اوپر دلائل سے اس فرق کو ثابت کردیا گیا ہے۔والحمدللہ

بارویں وجہ:

یہود و نصاریٰ نے دعویٰ کیا کہ ہم ابراہیم علیہ السلام کے پیروکاریعنی ابراہیمی ہیں لیکن اللہ رب العالمین نے ان کا یہ دعویٰ مسترد کردیا۔کیوں؟ اس لئے کہ وہ اپنے دعویٰ میں سچے نہیں تھے انکا دعویٰ صرف زبانی کلامی حد تک تھا جبکہ انکے اعمال ،عقائد وغیرہ ابراہیم علیہ السلام کے اعمال و عقائد سے قطعاً مطابقت نہیں رکھتے تھے۔دعویٰ اور عمل کا یہ تضاد کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لئے کافی ہے۔کسی شخص کے دعویٰ کو اس وقت تک قبول نہیں کیا جاسکتا جب تک وہ اپنے عمل سے اپنے دعویٰ کی سچائی کو ثابت نہ کردے۔اسی اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم اہل حدیث کو صوفی قرار دینے والوں کے دعویٰ کو مردود اور باطل قراردے کر رد کرتے ہیں کیونکہ یہ ایک ناقابل تردید اور اٹل حقیقت ہے کہ اہل حدیث صوفیوں سے ہر معاملہ میں منفرد اور مختلف ہیں ۔نہ ہی اہل حدیثوں کے عقائد صوفیوں کے عقائد سے ملتے ہیں، نہ انکے مناہج ایک جیسے ہیں اور نہ انکے مسائل میں کوئی مشابہت ہے۔ اہل حدیث کا ہر عقیدہ ہر مسئلہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے اور صوفیوں کا ہر عقیدہ اور ہر مسئلہ قرآن و حدیث کے مخالف ثابت ہے۔ جیسے تزکیہ نفس ہی کو لیجئے اہل حدیث کے نزدیک شریعت کی اتباع ہی تزکیہ نفس کے حصول کا ذریعہ ہے جبکہ صوفیوں نے بھی لوگوں کو مبتلائے دھوکہ کرنے کے لئے یہی دعویٰ کیا ہے کہ تصوف کے تزکیہ نفس اور شریعت کے تزکیہ نفس میں کوئی تفاوت اور دوری نہیں۔جبکہ حقیقت اسکے الٹ اور برعکس ہے جسے سابقہ سطور میں دلائل سے ثابت کیا گیا ہے۔ اسکے علاوہ وحدت الوجود کا عقیدہ ہے جو نہ قرآن سے ثابت ہے اورنہ حدیث سے اور نہ ہی کوئی اہل حدیث اس عقیدے کی حمایت اور تائید کے لئے تیار ہے۔ جبکہ صوفیاء انتہائی جراء ت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے اس الحادی عقیدہ کی بنیاد قرآن وحدیث ہی سے فراہم کرتے ہیں اور اسے کتاب و سنت سے ثابت شدہ بتلاتے ہیں۔

شاہ ولی اللہ حنفی صوفی عقیدہ وحدت الوجود نہ ماننے والے علماء پر ''لفظوں کے پجاری علماء '' کی بھپتی کستے ہوئے اسے عقلی اور نقلی(قرآن وحدیث) کے دلائل سے ثابت کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: میں نے عرفاء و علماء کی ایک بڑی مجلس میں مسئلہ وحدت الوجود ثابت کردکھایا عقائد متکلمین پر مبنی عبارات کے حوالے پیش کئے اور عقلی و نقلی دلائل دئے مگر اس تمام بحث کے دوران وحدۃ الوجود کی اصطلاح کو ذکر نہیں کیا انہوں نے تمام دلائل قبول کرلئے گویا خلاصہ یہ نکلا کہ لفظوں کے پجاری علماء کا اکثر تعصب لفظوں سے ہوتا ہے ۔(انفاس العارفین، صفحہ 217)

صاف ، سیدھی اور مختصر بات یہ ہے کہ صوفیوں کا مذہب موسوم بہ طریقت کچھ اور ہے اور اہل حدیث کا مذہب قرآن وحدیث کچھ اور ۔مخالفین اکابرین اہل حدیث کے صوفی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں جبکہ اہل حدیث کامخالفانہ عمل اس مکذبانہ دعویٰ کی بھرپور نفی کرتا ہے ۔ ہم یہود و نصاریٰ کے ابراہیمی ہونے کے دعویٰ اور اس کے بارے میں قرآن حکیم کے فیصلہ کی روشنی میں ثابت کرآئے ہیں کہ کسی دعویٰ کی سچائی کے لئے عمل سے اسکا ثبوت فراہم کرنا ضروری ہے۔ چونکہ اکابرین اہل حدیث کے صوفی ہونے کے دعوے کی اہل حدیث کے عقائد ، اصول، منہج، مذہبی تعلیمات سے تائید و تصدیق نہیں ہوتی اس لئے مخالفین کا یہ دعویٰ جھوٹا ہے۔

یہ صرف ہمارا دعویٰ نہیں کہ طریقت اور تصوف( جسے بعض اوقات صوفی'' حقیقت''کے لفظ سے بھی تعبیر کرتے ہیں) شریعت سے علیحدہ اور مختلف ہے بلکہ خود صوفی بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں ملاحظہ فرمائیں۔

شیخ فرید الدین عطارایک صوفی محمد واسع کے متعلق لکھتے ہیں: اور آپ شریعت و طریقت پر یکساں عمل پیرا رہے۔(تذکرۃ الاولیاء ،صفحہ 35)
فرید الدین عطار کا یہ بیان اس بات کا اعلان و ثبوت ہے کہ شریعت اور طریقت دہ علیحدہ اور مستقل راہیں ہیں جبھی شریعت اور طریقت پر یکساں عمل پیرا ہونے کی بات کی گئی ہے۔

شریعت اور طریقت کے جد ا ہونے کا ایک اور ثبوت شیخ فرید الدین صوفی سے ملاحظہ فرمائیں، لکھتے ہیں: حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد بن حنبل کسی جگہ تشریف فرما تھے کہ حضرت حبیب عجمی بھی اتفاق سے وہاں پہنچ گئے۔انہیں دیکھ کر امام احمدبن حنبل نے کہا میں ان سے ایک سوال کروں گا۔ لیکن امام شافعی نے منع کرتے ہوئے فرمایا کہ واصل باللہ لوگوں سے سوال کروگے۔ان کا تو مسلک ہی جداگانہ ہے۔(تذکرۃ الاولیاء ،صفحہ 41)
چونکہ امام شافعی اور احمد بن حنبل شریعت پر عمل پیرا ائمہ محدثین تھے اس لئے امام شافعی کا حبیب عجمی صوفی کے بارے میں یہ کہنا کہ ان کا مسلک علیحدہ ہے ،ظاہر کرتا ہے کہ امام شافعی کا اشارہ طریقت کا شریعت سے علیحدہ ہونے کی طرف ہے۔

علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: اب صوفیہ آئے ہیں۔انہوں نے ایک نام مقرر کیا اور کہنے لگے کہ حقیقت اور ہے شریعت اور ہے۔ (تلبیس ابلیس،صفحہ 540)

جب صوفیوں نے خود ہی طریقت کا شریعت سے علیحدہ ہوناتسلیم کرلیا تو انکا یہ دعویٰ کیونکر درست ہوا کہ تصوف شریعت سے الگ اور متصادم نہیں؟ اور پھر اہل حدیث جو کہ شریعت پر قولاً اور فعلاً عمل پیرا ہیں کا صوفی ہونا کیونکر قابل فہم ہواجبکہ وہ ہر معاملہ میں شریعت کا اتباع اور تصوف کی مخالفت کرتے ہیں؟! پھر صوفیوں کا اہل حدیثوں سے بغض رکھنا بھی کسی اہل حدیث کے صوفی ہونے کے ادنیٰ سے امکان اور دعوے کی قلعی کھول کر رکھ دیتا ہے۔علامہ ابن الجوزی فرماتے ہیں: اور ایسے ہی صوفیہ کا اہل حدیث سے بغض رکھنا ہے۔(تلبیس ابلیس،صفحہ 540)
تصوف کے پھیلاؤ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اہل حدیث اور انکا مذہب ہی ہے اس لئے صوفیوں کا اہل حدیث سے نفرت کرنا اور ان سے بغض رکھنا فطری ہے۔موجودہ دور کے منافقین اور باطل پرستوں کاان ازلی مخالفین کو یوں آپس میں ایک کردینا کہ اہل حدیثوں کو ہی صوفی قرار دے دیناایک ایسا لطیفہ ہے جس پر صرف ہنسا ہی جاسکتا ہے۔

اس سلسلے کی آخری بات یہ ہے کہ اہل حدیثوں کو صوفی کہنے یا انکے صوفی ہونے میں انکے مذہب کا یہ اولین اور بنیادی اصول مانع ہے کہ قرآن و حدیث کے مقابلے میں ہر نظریہ ،عقیدہ باطل ہے چاہے وہ کسی بڑے سے بڑے عالم کا ہو یا امام کا، چاہے اسکا قائل کوئی اہل حدیث ہو یا غیر اہل حدیث ۔اولین ترجیح ہر حال میں اور ہمیشہ کتاب و سنت کو ہی حاصل ہے شخصیات اور انکے افکار و نظریات کو نہیں۔

جماعت اہل حدیث کے مایہ ناز عالم و محدث حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: اہل حدیث کے نزدیک کتاب وسنت اور اجماع کے صریح مقابلے میں ہر شخص کی بات مردود ہے۔(تحقیقی،اصلاحی اور علمی مقالات،جلد1، صفحہ 596)

ایک سلفی عالم علی محمد سعیدی اہل حدیث کے اس سنہری اصول کی وضاحت میں رقم طراز ہیں: یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ مسلک اہل حدیث کا بنیادی اصول صرف کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہے۔رائے،قیاس،اجتہاد اور اجماع یہ سب کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کے ماتحت ہیں، ارشاد خداوندی ہے اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ لَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآء فروعی اختلاف سے دامن بچا کر صرف کتاب وسنت پر صحیح معنوں میں عمل کرنے والے صرف ائمہ حدیث ہیں جو اقوال الرجال کو دینی امور کے لئے ماخذ قرار نہیں دیتے ۔اس اصول کی بناپر اہل حدیث کے نزدیک ہر ذی شعور مسلمان کو حق حاصل ہے کہ وہ جملہ افراد امت کے فتاویٰ ، ان کے خیالات کو کتاب وسنت پر پیش کرے جو موافق ہوں سر آنکھوں پر تسلیم کرے ، ورنہ ترک کرے۔علمائے اہل حدیث کے فتاویٰ،ان کے مقالاجات ،بلکہ دیگر علمائے امت کے فتاویٰ اسی حیثیت میں ہیں اور جملہ صلحائے امت نے بھی بلاتفاق یہی کہا ہے کہ ہمارے اقوال وفتاوٰے کو کتاب وسنت پر پیش کرو، اگر خلاف پاؤ تو اسے چھوڑ کر کتاب وسنت کو مقدم رکھو۔علمائے اہلحدیث کی تحریرات فتاوٰے میں بھی جگہ جگہ یہی چیز آپ کو نمایاں نظر آئے گی۔(فتاویٰ علمائے حدیث ،جلداوّل،صفحہ 15)

یہ وہ بیش قیمت اصول ہے جس کی موجودگی میں کوئی باطل اور غیرشرعی نظریہ مذہب اہل حدیث میں کبھی جگہ نہیں پاسکتااور نہ ہی کسی اکابر اہل حدیث کا غلط عمل اور غلط سوچ سند کا درجہ حاصل کرسکتی ہے۔اس لئے اگر کوئی اہل حدیث دانستہ یا نا دانستہ صوفیت جیسے بدعی مذہب کی حمایت کرے گا یا انکے کسی اصول کو صحیح سمجھے گا یا انکے کسی طریقہ پر عمل پیرا ہوگاتو اسے اس اہل حدیث عالم کی غلطی ،شاذ رائے اور خطاء قرار دے کر بلاتفاق رد کردیا جائے گا۔ اب قارئین خود اندازہ کرلیں کہ اہل حدیث مذہب کو صوفیوں کا مذہب کہنے والوں کی بات میں کتنا دم ہے۔

یہ اصول جو اہل حدیث مذہب میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اسے جاننے کے بعد بھی بعض اکابرین اہل حدیث کی شاذ آراء اور کتاب و سنت کے مقابلے میں مردود تحریرات کو پیش کرکے تصوف کو صحیح اور جائز قرار دینے کی کوشش کرنا بے کار ہے کیونکہ کسی بھی اہل حدیث کو وہی رائے قابل قبول ہے جس کی بنیاد کتاب وسنت پر ہو۔ کتاب و سنت سے ہٹے ہوئے افکار و نظریات کی جگہ ردی کی ٹوکری ہے۔ اگر مخالفین کتاب وسنت کسی اہل حدیث سے تصوف کو منواناہی چاہتے ہیں تو کچھ اکابرین اہل حدیث کے بڑے نام اور انکی بعض مبہم تحریروں کو پیش کرکے رعب جمانے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اہل حدیث اپنے بڑوں کی عزت ضرور کرتے ہیں لیکن ان کے کسی قول و فعل کو حجت تسلیم نہیں کرتے۔اس لئے اہل حدیث سے تصوف کو تسلیم کروانے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ راستہ قرآن و حدیث کی واضح نصوص سے تصوف کو ثابت کردکھانے کا ہے۔ اگر تصوف کے حامی حضرات کتاب وسنت کی کسوٹی پر تصوف کو شرعی ثابت کردکھائیں توتمام اہل حدیث بلاں چوں چراں اپناسر تسلیم خم کردینگے۔وگرنہ اکابرین اہل حدیث کی دہائیاں دے کر دیوار سے اپنا سر ٹکرانے کا کوئی فائدہ نہیں۔
 
Top