مضمون : حلالہ ملعونہ مروجہ کا قرآن کریم سے جواز
مضمون نگار: صلاح الدین یوسف
اب تک تو ہم سنتے ہی آئے تھے کہ علماے احناف حلالے کے جواز کا فتویٰ دیتے ہیں ،لیکن یہ دیکھ کر ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ موجودہ علماے احناف میں ایک نہایت برسرآوردہ عالم مولانا تقی عثمانی صاحب ہیں۔ جن کو ان کے عقیدت مند'شیخ الاسلام'کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔جن کا اس دور میں اہم تعارف یہ بھی ہےکہ'میزان بنک' کے نام سے جو بنک قائم ہوا ہے، اس کو غیر سودی بنک قرار دے کر اُنہوں سودی طریقوں کو سندِ جواز مہیا کی ہے، جبکہ جید و مستند علما کی اکثریت بنکوں کے اس سارے عمل کو ناجائز اور سودی ہی قرار دیتی ہے۔ مگر اُنہوں نے سود کو حلال کرنے کے لئے درجنوں فقہی حیلے اختیار کئے ہیں ، گویا اس کام میں مولانا عثمانی صاحب کو خصوصی مہارت حاصل ہے۔
اس فقہی مہارت کے ذریعے سے اُنہوں نے حلالہ جیسےممنوع فعل کے جواز میں بھی سات دلائل مہیا کیے ہیں جو ان کی'درسِ ترمذی' نامی کتاب کی زینت ہیں۔ہم مسئلے کی اہمیت کے پیش نظر ان دلائلِ سبعہ کا مختصراً جائزہ لینا ضروری سمجھتے ہیں۔ ہم ترتیب وار ان پر گفتگو کریں گے، پہلے مولانا موصوف کی عبارت اور پھر تبصرہ کے عنوان سے اس پر نقد ہوگا۔ وَبِید الله التوفیق!
1. مولانا عثمانی صاحب حدیث«لعن الله المحل والمحلل له»کی شرح میں فرماتے ہیں:
''ا س حدیث کی بنا پر نکاح بشرط التحلیل بالاتفاق ناجائز ہے ،البتہ اگر عقد میں تحلیل کی شرط نہ لگائی گئی ہو، لیکن دل میں یہ نیت ہو کہ کچھ دن اپنے پاس رکھ کر چھوڑ دوں گا تو حنفیہ کے نزدیک یہ صورت جائز ہے، بلکہ امام ابوثور کا قول ہے کہ ایسا کرنے والا ماجور ہوگا۔''8
تبصرہ:حالانکہ مشہور حدیث ہے:«إنما الأعمال بالنيات»9(عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے)۔علاوہ ازیں نیت کا تعلق بھی صرف حلال کاموں سے ہے۔ حرام کام کرتے وقت نیت کتنی بھی اچھی ہو، وہ حلال نہیں ہوگا، اس پر کوئی اجر نہیں ملے گا۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ایک حرام کام کرتے وقت زبان سے اس کو حلال کرنے کا اظہار نہ ہو۔ لیکن اگر دل میں اس کو حلال سمجھتے ہوئے وہ کام کرے گا تو نہ وہ حلال ہوگا او رنہ اس پر اجرملے گا بلکہ ہوسکتا ہے وہ ڈبل جرم کا مرتکب سمجھا جائے، ایک، حرام کو اختیار کرنے کا؛ دوسرا، حرام کو حلال سمجھنے کا بلکہ ایک تیسرا جرم، کسی دوسرے کے لئے حرام کو حلال کرنے کا۔ پھر یہ کون سا اُصول ہے کہ زبان سے تو تحلیل کا نہ کہے لیکن دل میں تحلیل کی نیت کرلے تو وہ جائز بلکہ قابل اجر ہوجائے گا؟ اس فقہی حیلے کی رُو سے تو ہر حرام کام حلال اورجائز قرار پاجائے گا۔مثلاً ایک چور اس نیت سےچوری کرے، ایک ڈاکو اس نیت سے ڈاکہ ڈالے کہ میں اس رقم کو غریبوں پر خرچ کروں گا۔ اسی طرح کوئی شخص سود بھی غریبوں پر اور رشوت بھی غریبوں پر خرچ کرنے کی نیت سے لے تو کیا ایسی نیت کرلینے سے مذکورہ حرام کام نہ صرف جائز بلکہ باعثِ اجر ہوجائیں گے؟
اگر ایسا نہیں ہے اوریقیناً ایسا نہیں ہے کہ حُسن نیت سے کوئی حرام کام بھی جائز ہوسکتا ہے تو پھر حلالہ جیسا حرام اور لعنتی فعل محض ا س نیت سے کہ میرے اس حرام کام سے دوسرے شخص کا اس عورت سے دوبارہ نکاح کرنا جائز ہوجائے گا اور ایک دوسرےبھائی کا بھلا ہوجائے گا۔ کیسے حلال اور جائز بلکہ ماجور کام قرار پاجائے گا؟
2. مولانا تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں:
''امام احمد کے نزدیک یہ صورت بھی (بہ نیتِ تحلیل عارضی نکاح) ناجائز اور باطل ہے، وہ حدیث ِباب کے اطلاق سے استدلال کرتے ہیں کہ اس میں محلل پر مطلقاً لعنت کی گئی ہے اور تخصیص کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ ہم (احناف) یہ کہتے ہیں کہ تخصیص تو آپ نے بھی کی ہے، وہ اس طرح کہ حدیث ِ باب کے اطلاق کا تقاضا تو یہ تھا کہ اگر نکاح نہ بشرط التحلیل ہو او رنہ بنیۃ التحلیل ہو، پھر بھی اگر زوجِ ثانی طلاق دے کر اس کو زوجِ اوّل کے لئے حلال کردے تو بھی ناجائز ہو کیونکہ محلل کا لفظ اس پر بھی صادق آتا ہے حالانکہ ایسا شخص کسی کے نزدیک بھی ملعون نہیں۔''
تبصرہ:یہ ساری گفتگو محض اپنی بات کو جائز قرار دینے کے لیے ہے،نیز خلافِ حقیقت ہے۔ یہ دعویٰ کہ ''ایسا شخص کسی کے نزدیک بھی ملعون نہیں'' یکسر غلط ہے۔ جب ایسا شخص زبان رسالت مآبﷺ کی رُو سے ملعون ہے تو اس کے ملعون ہونے میں کیا شک ہوسکتا ہے؟ علاوہ ازیں کوئی اور اسے ملعون کہے یا نہ کہے، جب رسول اللّٰہ ﷺ اسے ملعون قرار دے رہے ہیں تو اس کے بعد بھی اس کے ملعون ہونےکے لئے کسی ہما شما کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ کیا آپﷺ کا ملعون قرار دینا اس کے ملعون ہونے کے لئے کافی نہیں ہے؟
ثانیاً: جو نکاح بشرط التحلیل ہو اور نہ بہ نیتِ تحلیل، وہ تو بالاتفاق صحیح نکاح ہے، اس طرح نکاح کرنے والا خوامخواہ طلاق کیوں دے گا؟ ہاں اس کا نباہ نہ ہو سکے اور وہ طلاق دینے پر مجبور ہو جائے تو بات اور ہے اور اس صورت میں اس عورت کا نکاح دوبارہ زوجِ اوّل کے ساتھ بھی جائز ہو گا، لیکن اس صورت کو ''زوجِ ثانی طلاق دے کر زوجِ اول کے لیے حلال کر دے۔'' سے کس طرح تعبیر کیا جا سکتا ہے؟جبکہ واقعات کی دنیا میں اس طرح ممکن ہی نہیں ہے۔ ایسا تو تب ہی ممکن ہے جب نکاح بہ شرطِ تحلیل ہو یا بہ نیتِ تحلیل۔ اگر یہ ان دونوں میں سے کوئی بھی صورت نہیں ہو گی تو عدم آہنگی کی صورت میں طلاق ہو سکتی ہے، ورنہ نہیں اور اس صورت کو 'طلاق دےکر زوجِ اوّل کے لیے حلال کر دے'سے تعبیر کرنا مغالطہ انگیزی کے سوا کچھ نہیں۔
رسول اللّٰہ ﷺ نے جس طرح حلالہ کرنے والے اور جس کے لئے حلالہ کیا جائے، دونوں پر لعنت فرمائی ہے، یعنی یہ دونوں ملعون ہیں۔اسی طرح رسول اللّٰہ ﷺ نے اور بھی بہت سےکام کرنے والوں پرلعنت فرمائی ہے، یعنی وہ سب ملعون ہیں۔جیسے :
1.«لَعَنَ رَسُولُ الله ﷺ آكِلَ الرِّبَا وَمُوكِلَهُ وَشَاهِدَهُ وَكَاتِبَهُ»10
''رسول اللّٰہ ﷺ نے لعنت فرمائی ، سود کھانے والے، کھلانے والے، اس کا گواہ بننے والے او راس کے لکھنے والے پر''
2.«لَعَنَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ الرَّاشِيَ والمرتشِيَ»11
''رسول اللّٰہ ﷺ نے رشوت لینے والے اور دینے والے پرلعنت فرمائی۔''
3. رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا: اللّٰہ تعالیٰ لعنت فرمائے شراب پر، اس کے پینے والے پر، اس کے پلانے والے (ساقی) پر، اس کے بیچنے والے، خریدنے والےپر، اس کےنچوڑنے والے اور نچڑوانے والے پر، اس کواُ ٹھا کر لے جانے والے اور جس کی طرف اُٹھا کر لے جائی جائے، اس پر۔12
4.«لَعَنَ رَسُولُ الله ﷺ الرَّجُلَ يَلْبَسُ لِبْسَةَ الْمَرْأَةِ وَالْمَرْأَةَ تَلْبَسُ لِبْسَةَالرَّجُلِ»13''رسول اللّٰہ ﷺ نے اس مرد پر لعنت فرمائی ہے جو عورتوں کا سا لباس پہنتا اور اس عورت پر جو مردوں کا سا لباس پہنتی ہے۔''
5. ناجائز فیشن اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے:«لَعَنَ رَسُولُ الله الْوَاشِمَةَ وَالْمسْتَوْشِمَةَ... الحديث »14
کیا یہ اور دیگر بہت سے لعنتی کام اس وقت ہی لعنتی اور ان کے کرنے والے اس وقت ہی ملعون ہوں گے جب ان کو لوگوں کا بنایا ہوا کوئی امام ہی ملعون قرار دے گا؟ کیا نبیﷺ کا ان کو ملعون قرار دینا کافی نہیں ہوگا؟ ...کیا نبیﷺ کے مذکورہ کاموں اوران کے مرتکبین کو ملعون قرار دینے کے بعد کسی فقہی حیلے سے ان کو جائز قرار دیا جاسکتا ہے؟
اگران میں سے کوئی ملعون کام حلال نہیں ہوسکتا تو حلالہ کیوں کر جائز ہوسکتا ہے؟
حلالۂ ملعونہ کو کون سے سُرخاب کے پَر لگے ہوئے ہیں کہ اس کو ملعون کے بجائے ماجور (قابل اجر) مان لیا جائے؟ آخر دوسرے ملعون کام او رحلالۂ ملعونہ میں کیا فرق ہے جس کی بنیاد پر ایک تو حلال ہوجائے اور دوسرے حرام کے حرام ہی رہیں؟
﴿هاتوا بُرهـٰنَكُم إِن كُنتُم صـٰدِقينَ ﴿١١١﴾... سورة البقرة
مضمون نگار: صلاح الدین یوسف
اب تک تو ہم سنتے ہی آئے تھے کہ علماے احناف حلالے کے جواز کا فتویٰ دیتے ہیں ،لیکن یہ دیکھ کر ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ موجودہ علماے احناف میں ایک نہایت برسرآوردہ عالم مولانا تقی عثمانی صاحب ہیں۔ جن کو ان کے عقیدت مند'شیخ الاسلام'کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔جن کا اس دور میں اہم تعارف یہ بھی ہےکہ'میزان بنک' کے نام سے جو بنک قائم ہوا ہے، اس کو غیر سودی بنک قرار دے کر اُنہوں سودی طریقوں کو سندِ جواز مہیا کی ہے، جبکہ جید و مستند علما کی اکثریت بنکوں کے اس سارے عمل کو ناجائز اور سودی ہی قرار دیتی ہے۔ مگر اُنہوں نے سود کو حلال کرنے کے لئے درجنوں فقہی حیلے اختیار کئے ہیں ، گویا اس کام میں مولانا عثمانی صاحب کو خصوصی مہارت حاصل ہے۔
اس فقہی مہارت کے ذریعے سے اُنہوں نے حلالہ جیسےممنوع فعل کے جواز میں بھی سات دلائل مہیا کیے ہیں جو ان کی'درسِ ترمذی' نامی کتاب کی زینت ہیں۔ہم مسئلے کی اہمیت کے پیش نظر ان دلائلِ سبعہ کا مختصراً جائزہ لینا ضروری سمجھتے ہیں۔ ہم ترتیب وار ان پر گفتگو کریں گے، پہلے مولانا موصوف کی عبارت اور پھر تبصرہ کے عنوان سے اس پر نقد ہوگا۔ وَبِید الله التوفیق!
1. مولانا عثمانی صاحب حدیث«لعن الله المحل والمحلل له»کی شرح میں فرماتے ہیں:
''ا س حدیث کی بنا پر نکاح بشرط التحلیل بالاتفاق ناجائز ہے ،البتہ اگر عقد میں تحلیل کی شرط نہ لگائی گئی ہو، لیکن دل میں یہ نیت ہو کہ کچھ دن اپنے پاس رکھ کر چھوڑ دوں گا تو حنفیہ کے نزدیک یہ صورت جائز ہے، بلکہ امام ابوثور کا قول ہے کہ ایسا کرنے والا ماجور ہوگا۔''8
تبصرہ:حالانکہ مشہور حدیث ہے:«إنما الأعمال بالنيات»9(عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے)۔علاوہ ازیں نیت کا تعلق بھی صرف حلال کاموں سے ہے۔ حرام کام کرتے وقت نیت کتنی بھی اچھی ہو، وہ حلال نہیں ہوگا، اس پر کوئی اجر نہیں ملے گا۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ایک حرام کام کرتے وقت زبان سے اس کو حلال کرنے کا اظہار نہ ہو۔ لیکن اگر دل میں اس کو حلال سمجھتے ہوئے وہ کام کرے گا تو نہ وہ حلال ہوگا او رنہ اس پر اجرملے گا بلکہ ہوسکتا ہے وہ ڈبل جرم کا مرتکب سمجھا جائے، ایک، حرام کو اختیار کرنے کا؛ دوسرا، حرام کو حلال سمجھنے کا بلکہ ایک تیسرا جرم، کسی دوسرے کے لئے حرام کو حلال کرنے کا۔ پھر یہ کون سا اُصول ہے کہ زبان سے تو تحلیل کا نہ کہے لیکن دل میں تحلیل کی نیت کرلے تو وہ جائز بلکہ قابل اجر ہوجائے گا؟ اس فقہی حیلے کی رُو سے تو ہر حرام کام حلال اورجائز قرار پاجائے گا۔مثلاً ایک چور اس نیت سےچوری کرے، ایک ڈاکو اس نیت سے ڈاکہ ڈالے کہ میں اس رقم کو غریبوں پر خرچ کروں گا۔ اسی طرح کوئی شخص سود بھی غریبوں پر اور رشوت بھی غریبوں پر خرچ کرنے کی نیت سے لے تو کیا ایسی نیت کرلینے سے مذکورہ حرام کام نہ صرف جائز بلکہ باعثِ اجر ہوجائیں گے؟
اگر ایسا نہیں ہے اوریقیناً ایسا نہیں ہے کہ حُسن نیت سے کوئی حرام کام بھی جائز ہوسکتا ہے تو پھر حلالہ جیسا حرام اور لعنتی فعل محض ا س نیت سے کہ میرے اس حرام کام سے دوسرے شخص کا اس عورت سے دوبارہ نکاح کرنا جائز ہوجائے گا اور ایک دوسرےبھائی کا بھلا ہوجائے گا۔ کیسے حلال اور جائز بلکہ ماجور کام قرار پاجائے گا؟
2. مولانا تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں:
''امام احمد کے نزدیک یہ صورت بھی (بہ نیتِ تحلیل عارضی نکاح) ناجائز اور باطل ہے، وہ حدیث ِباب کے اطلاق سے استدلال کرتے ہیں کہ اس میں محلل پر مطلقاً لعنت کی گئی ہے اور تخصیص کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ ہم (احناف) یہ کہتے ہیں کہ تخصیص تو آپ نے بھی کی ہے، وہ اس طرح کہ حدیث ِ باب کے اطلاق کا تقاضا تو یہ تھا کہ اگر نکاح نہ بشرط التحلیل ہو او رنہ بنیۃ التحلیل ہو، پھر بھی اگر زوجِ ثانی طلاق دے کر اس کو زوجِ اوّل کے لئے حلال کردے تو بھی ناجائز ہو کیونکہ محلل کا لفظ اس پر بھی صادق آتا ہے حالانکہ ایسا شخص کسی کے نزدیک بھی ملعون نہیں۔''
تبصرہ:یہ ساری گفتگو محض اپنی بات کو جائز قرار دینے کے لیے ہے،نیز خلافِ حقیقت ہے۔ یہ دعویٰ کہ ''ایسا شخص کسی کے نزدیک بھی ملعون نہیں'' یکسر غلط ہے۔ جب ایسا شخص زبان رسالت مآبﷺ کی رُو سے ملعون ہے تو اس کے ملعون ہونے میں کیا شک ہوسکتا ہے؟ علاوہ ازیں کوئی اور اسے ملعون کہے یا نہ کہے، جب رسول اللّٰہ ﷺ اسے ملعون قرار دے رہے ہیں تو اس کے بعد بھی اس کے ملعون ہونےکے لئے کسی ہما شما کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ کیا آپﷺ کا ملعون قرار دینا اس کے ملعون ہونے کے لئے کافی نہیں ہے؟
ثانیاً: جو نکاح بشرط التحلیل ہو اور نہ بہ نیتِ تحلیل، وہ تو بالاتفاق صحیح نکاح ہے، اس طرح نکاح کرنے والا خوامخواہ طلاق کیوں دے گا؟ ہاں اس کا نباہ نہ ہو سکے اور وہ طلاق دینے پر مجبور ہو جائے تو بات اور ہے اور اس صورت میں اس عورت کا نکاح دوبارہ زوجِ اوّل کے ساتھ بھی جائز ہو گا، لیکن اس صورت کو ''زوجِ ثانی طلاق دے کر زوجِ اول کے لیے حلال کر دے۔'' سے کس طرح تعبیر کیا جا سکتا ہے؟جبکہ واقعات کی دنیا میں اس طرح ممکن ہی نہیں ہے۔ ایسا تو تب ہی ممکن ہے جب نکاح بہ شرطِ تحلیل ہو یا بہ نیتِ تحلیل۔ اگر یہ ان دونوں میں سے کوئی بھی صورت نہیں ہو گی تو عدم آہنگی کی صورت میں طلاق ہو سکتی ہے، ورنہ نہیں اور اس صورت کو 'طلاق دےکر زوجِ اوّل کے لیے حلال کر دے'سے تعبیر کرنا مغالطہ انگیزی کے سوا کچھ نہیں۔
رسول اللّٰہ ﷺ نے جس طرح حلالہ کرنے والے اور جس کے لئے حلالہ کیا جائے، دونوں پر لعنت فرمائی ہے، یعنی یہ دونوں ملعون ہیں۔اسی طرح رسول اللّٰہ ﷺ نے اور بھی بہت سےکام کرنے والوں پرلعنت فرمائی ہے، یعنی وہ سب ملعون ہیں۔جیسے :
1.«لَعَنَ رَسُولُ الله ﷺ آكِلَ الرِّبَا وَمُوكِلَهُ وَشَاهِدَهُ وَكَاتِبَهُ»10
''رسول اللّٰہ ﷺ نے لعنت فرمائی ، سود کھانے والے، کھلانے والے، اس کا گواہ بننے والے او راس کے لکھنے والے پر''
2.«لَعَنَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ الرَّاشِيَ والمرتشِيَ»11
''رسول اللّٰہ ﷺ نے رشوت لینے والے اور دینے والے پرلعنت فرمائی۔''
3. رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا: اللّٰہ تعالیٰ لعنت فرمائے شراب پر، اس کے پینے والے پر، اس کے پلانے والے (ساقی) پر، اس کے بیچنے والے، خریدنے والےپر، اس کےنچوڑنے والے اور نچڑوانے والے پر، اس کواُ ٹھا کر لے جانے والے اور جس کی طرف اُٹھا کر لے جائی جائے، اس پر۔12
4.«لَعَنَ رَسُولُ الله ﷺ الرَّجُلَ يَلْبَسُ لِبْسَةَ الْمَرْأَةِ وَالْمَرْأَةَ تَلْبَسُ لِبْسَةَالرَّجُلِ»13''رسول اللّٰہ ﷺ نے اس مرد پر لعنت فرمائی ہے جو عورتوں کا سا لباس پہنتا اور اس عورت پر جو مردوں کا سا لباس پہنتی ہے۔''
5. ناجائز فیشن اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے:«لَعَنَ رَسُولُ الله الْوَاشِمَةَ وَالْمسْتَوْشِمَةَ... الحديث »14
کیا یہ اور دیگر بہت سے لعنتی کام اس وقت ہی لعنتی اور ان کے کرنے والے اس وقت ہی ملعون ہوں گے جب ان کو لوگوں کا بنایا ہوا کوئی امام ہی ملعون قرار دے گا؟ کیا نبیﷺ کا ان کو ملعون قرار دینا کافی نہیں ہوگا؟ ...کیا نبیﷺ کے مذکورہ کاموں اوران کے مرتکبین کو ملعون قرار دینے کے بعد کسی فقہی حیلے سے ان کو جائز قرار دیا جاسکتا ہے؟
اگران میں سے کوئی ملعون کام حلال نہیں ہوسکتا تو حلالہ کیوں کر جائز ہوسکتا ہے؟
حلالۂ ملعونہ کو کون سے سُرخاب کے پَر لگے ہوئے ہیں کہ اس کو ملعون کے بجائے ماجور (قابل اجر) مان لیا جائے؟ آخر دوسرے ملعون کام او رحلالۂ ملعونہ میں کیا فرق ہے جس کی بنیاد پر ایک تو حلال ہوجائے اور دوسرے حرام کے حرام ہی رہیں؟
﴿هاتوا بُرهـٰنَكُم إِن كُنتُم صـٰدِقينَ ﴿١١١﴾... سورة البقرة