ریحان احمد
مشہور رکن
- شمولیت
- ستمبر 13، 2011
- پیغامات
- 266
- ری ایکشن اسکور
- 708
- پوائنٹ
- 120
کسی کام میں گناہ نہ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس میں اجر بھی ضرور ہو۔تو کیا باعث اجر ہوگا؟
کسی کام میں گناہ نہ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس میں اجر بھی ضرور ہو۔تو کیا باعث اجر ہوگا؟
اچھا چلیں ایک بات کی تھوڑی وضاحت کردیجئے کہ کیا غصے میں طلاق ہوجاتی ہے؟؟؟۔۔۔اپنے بیان کی تشریح بیان دینے والا ہی بہتر طورپر کرسکتا ہے اس اصول کی بنا پر ہمیں آپ کی وضاحت قبول ہےلیکن ہم بری چیز کو حرام نہیں کہہ سکتے کیونکہ حرام کا ارتکاب کرنے والا گناہ گار ہے لیکن کسی بری بات کو کرنے والا لازمی طور پر گناہ گار نہیں۔ کبھی بھی یہ نہیں کہا جائے گا کہ اگر غصے میں طلاق دی جائے تو بندہ گناہگار ہو گا۔
اللہ اعلم
اگرچہ اس سوال کا تعلق موضوع سے نہیں ہے لیکن جواب دئیے دیتا ہوں۔ کہ غصے کی حالت میں طلاق ہو جاتی ہے۔۔اچھا چلیں ایک بات کی تھوڑی وضاحت کردیجئے کہ کیا غصے میں طلاق ہوجاتی ہے؟؟؟۔۔۔
میں موضوع کو طول دینے کے لئے سوال نہیں کررہا بس آپ کے اس پر نظریات جاننا چاہتا ہوں۔۔۔
اگرچہ اس سوال کا تعلق موضوع سے نہیں ہے لیکن جواب دئیے دیتا ہوں۔ کہ غصے کی حالت میں طلاق ہو جاتی ہے۔۔
یہاں عابد عبدالرحمٰن بھائی سے درخواست ہے کہ وہ اس مسئلے پر عملی انداز سے ہماری بھی رہنمائی فرمائیں۔۔۔وعلیکم السلام
اگرچہ اس سوال کا تعلق موضوع سے نہیں ہے لیکن جواب دئیے دیتا ہوں۔ کہ غصے کی حالت میں طلاق ہو جاتی ہے۔۔
چونكہ اللہ كے حكم وجہ سے ايك اجنبي عورت اس شخص كي بيوي بن كر دنیا كي سب سے قريب ترين ہستي بن جاتي ہے۔ جس كي قدر و منزلت اور اس كے حقوق كا خيال ركھنا اس شخص كا فريضہ قرار ديا گيا ہے۔حتي الامكان اس رشتہ كو قائم ركھنا شريعت ميں مطلوب ہے۔۔۔ ليكن اگر بعض نا گزير حالات كي وجہ سے جدائي كي نوبت آ ہي جائے تب بھي شريعت نے اس كا ايك خاص نظام بنايا ہے جس كو طلاق كا نام ديا گيا ہے۔۔ اس نظام طلاق كے مختلف درجات مقرر كئے گئے ہيں۔ تا كہ وہ اس شخص كو خوب سوچنے سمجھنے كا موقع مل سكے۔۔ اور وہ اللہ كي مقرر كردہ حدود سے تجاوز نہ كر ے۔طلاق كے اللہ نے تين درجات مقرر كئے ہيں۔ان درجات كي تفصيل گذر چكي ہے۔ ان ميں سے دو طلاق تك اس شخص كو اپني بيوي سے رجوع كرنے كا اختيار حاصل ہے۔ عدت كے دوران۔۔جس ميں بيوي كي رضا مندي ضروري نہيں۔ ليكن عدت كے بعد بھي وہ رجوع كر سكتا ہے ليكن اس كے لئے بيوي كي رضا مندي اور نئے نكاح اور نئے حق مہر كا تعين ضروري ہو گا۔۔
کیا اسکا مطلب یہی بنتا ہے کہ عدت کے فورن بعد پھر وہ میاں بیوی شادی کر سکتے ہیںليكن عدت كے بعد بھي وہ رجوع كر سكتا ہے ليكن اس كے لئے بيوي كي رضا مندي اور نئے نكاح اور نئے حق مہر كا تعين ضروري ہو گا
مولانا عابد الرحمن صاحب سے گذارش ہے کہ فقہ حنفی میں حلالہ کیا ہے؟میں نے سنا ہے کہ یہ جوحلالہ نکوالتے ہیں یہ فقہ حنفی میں نہیں ہے،نیز اہلحدیث اور حناف کا جو اختلاف ہے اسکی کچھ وضاحت فرمائیں ،تاکہ پتا چل سکے کہ اصل مسلئہ کیا ہے؟تو کیا باعث اجر ہوگا؟
قطع نظر اس موضوع بحث کے
۔