السلام علیکم
ایک بکری کا بچا اگر کسی گھدی یا کتیا کا دودھ پی لے تو اس پر کیا حکم ہے
آیا وہ حلال ہی رہے گا یا حرام ہوجائیگا
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
شریعت اسلامیہ میں وہ حلال جانور جو نجاست کھائیں ان کے متعلق یہ حکم ہے کہ
ان کچھ دنوں تک نجاست کھانے سے روک کر ان کا گوشت کھانا چاہیئے ؛
(عن ابن عمر، قال: "نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن اكل الجلالة والبانها".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاست خور جانور کے گوشت کھانے اور اس کا دودھ پینے سے منع فرمایا۔
سنن ابي داود حدیث نمبر: 3785 ، سنن الترمذی/الأطعمة ۲۴ (۱۸۲۴)، سنن ابن ماجہ/الذبائح ۱۱ (۳۱۸۹)، (تحفة الأشراف: ۷۳۸۷) (صحیح)
اس حدیث سے جلالہ کی قطعی حرمت ثابت نہیں ہوتی بلکہ اس کے استعمال سے اس وقت تک روکا گیا ہے جب تک کہ اس گندی خوراک کی بدبو زائل نہ ہو
جیسا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے صحیح چر سے ثابت ہے کہ:
" إنه كان يحبس الدجاجة الجلالة ثلاثا"
''عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جلالہ مرغی کو تین دن بند رکھتے تھے (پھر استعمال کر لیتے تھے)۔''(رواہ ابنِ ابی شیبہ)
علامہ ناصرا لدین البانی نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے ، (ارواء الغلیل ج۸، ص۱۵۱)
اور سنن ابوداود کے مشہور شارح علامہ شمس الحق عظیم آبادی عون المعبود میں اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
"قال الخطابي واختلف الناس في أكل لحوم الجلالة وألبانها فكره ذلك أصحاب الرأي والشافعي وأحمد بن حنبل وقالوا لا يؤكل حتى تحبس أياما وتعلف علفا غيرها فإذا طاب لحمها فلا بأس بأكله
وقد روي في حديث أن البقر تعلف أربعين يوما ثم يؤكل لحمها وكان بن عمر تحبس الدجاجة ثلاثة أيام ثم تذبح
ترجمہ : امام خطابی فرماتے ہیں کہ نجاست خور جانور کے گوشت اور دودھ کے متعلق کچھ اہل الرائے اور شافعیہ اور حنبلی علماء کا کہنا ہے کہ مکروہ ہے، لیکن اگر اس کو گندگی کھانے سے کچھ روز روک لیا جائے اور دوسری پاک غذا کھلائی جائے اور اس کے گوشت سے نجاست کا اثر زائل ہو جائے تو اسے کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں ، اور ایک حدیث منقول ہے کہ ایسی گائے کو چالیس روز دوسری صاف غذا کھلائی پھر اس کا گوشت کھایا جائے اور سیدنا ابن عمر تین دن ایسی مرغی کو نجاست سے بچا کر اسے ذبح کرتے "
یہ صرف اس لئے کرتے تھے تا کہ اس کا پیٹ صاف ہو جائے اور گندگی کی بو اس کے گوشت سے جاتی رہے۔
اگر جلالہ کی حرمت گوشت کی نجاست کی وجہ سے ہوتی تو وہ گوشت جس نے حرام پر نشو ونما پائی ہے کسی بھی حال میں پاک نہ ہوتا۔
جیسا کہ ابنِ قدامہ نے کہا ہے کہ اگر جلالہ نجس ہوتی تو دو تین دن بند کرنے سے بھی پاک نہ ہوتی۔ (المغنی ج۹، ص۴۱)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے اس صحیح اثر سے معلوم ہوتا ہے کہ جلالہ کی حرمت اس کے گوشت کا نجس اور پلید ہونا نہیں بلکہ علت اس کے گوشت سے گندگی کی بدبو وغیرہ کا آنا ہے۔ جیسا کہ حافظ ابنِ حجر فرماتے ہیں:
" و المعتبر فى جواز اكل الجلالة زوال رائحة النجاسة عن تعلف بالشيى الطاهر على الصحيح "( فتح البارى ج9 , ص 565)
''جلالہ کے کھانے کا لائق ہونے میں معتبر چیز نجاست وغیرہ کی بدبو کا زائل ہونا ہے۔ یعنی جب بدبو زائل ہو جائے تو اس کا کھانا درست ہے۔''
علامہ صنعانی بھی فرماتے ہیں:
" قيل بل الإعتبار بالرائحة و النتن"
''کہ جلالہ کے حلال ہونے میں بدبو کے زائل ہونے کا اعتبار کیا جاتا ہے۔''(سبل السلام ، ج۳، ص۷۷)
جلالہ کے بارے میں اہل لغت کے اقوال جان لینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ اکثر اہل لغت نے لکھا ہے کہ:
" ألجلالة هى البقرة التى تتبع النجاسات"
''کہ جلالہ وہ گائے ہے جو نجاسات کو تلاش کرتی ہے۔'' (لسان العرب ج۲، ص۳۳۶، الصحاح للجوہری ج۴، ص۱۲۵۸، القاموس المیط ج۱، ص۵۹۱)
لغت عرب کے مشہور امام ابنِ منظور الافریقی لکھتے ہیں:
" و الجلالة من الحيوان التى تأكل الجلة العذرة "
''کہ جلالہ وہ حیوان جو انسان کا پاخانہ وغیرہ کھاتے ہیں۔''(لسان العرب، ج۲، ص۳۳۶ )