﴿تھوڑی سی توجہ درکارہے۔۔۔پوسٹ ضرور پڑھیں﴾
اداکار حمزہ علی عباسی کی نادانی!!!
-----------------------------------------------
گذشتہ سال آزادیٴ اظہار رائے کے نام پر گستاخانہ خاکے شائع کیے گئے ۔ حمزہ علی عباسی نے گستاخانہ خاکے شائع کرنے والوں کو جراٴتمندانہ اور منہ توڑ جواب دیا جس پر فیس بک کی متعصب انتظامیہ نے حمزہ عباسی کا اکاؤنٹ بلاک کردیا۔بعد ازاں جب اس آمرانہ اقدام پر آواز اٹھائی گئی تو فیس بک کے بانی مارک زکربرگ نے حمزہ عباسی سے معذرت کی اور اکاؤنٹ بحال کردیا۔
اس واقعے کے بعد حمزہ عباسی کے لیے ہمدردی اور محبت کے جذبات ہمارے دل میں پیدا ہوئے اور ہم نے اسے ہمیشہ خراجِ عقیدت پیش کیا۔۔۔
لیکن یہی حمزہ عباسی اس سال رمضان نشریات میں ایک حساس ترین موضوع یعنی قادیانیوں کو ریاستی سطح پر غیر مسلم قرار دیے جانے کے متفقہ فیصلے پر سوالات اٹھاتے اور اسے متنازع بناتے نظرآیا۔۔۔اب اسے حمزہ کی نادانی کہیں۔۔۔یا کسی کا بہکاوا ۔۔۔ یا چینل انتظامیہ کا مذموم ایجنڈا؟؟؟ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
حمزہ کے اس پروگرام کے بعد پورے ملک میں ایک شور اُٹھا۔۔۔ہرطرف سے لعن طعن کا سلسلہ شروع ہوگیا۔۔۔ہم سابقہ عقیدت کی بناء پر دم بخود انتظار کرتے رہے کہ حمزہ عباسی ضرور اپنی پوزیشن کلیئر کرے گا اور نادانی میں جو غلطی سرزد ہوگئی اسے تسلیم کرتے ہوئے معذرت کرلے گا، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ حمزہ کی جانب سے مسلسل ہٹ دھرمی اور قادیانیوں کے لیے نرم گوشہ سامنے آتا رہا۔
گذشتہ روز حمزہ عباسی نےاپنے آفیشل پیج پر اس حوالے سے تحریری بیان نشر کیا جس میں غلطی تسلیم کرنے کے بجائے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیاگیا اور ادھر ادھر کی ٹامک ٹوئیاں ماری گئیں۔حمزہ عباسی کا تحریری بیان ملاحظہ فرمائیں:
[”میں نے ایک مسلمان پاکستانی ہونے کی حیثیت سے علماء سے سوال کیا کہ ریاست کسی گروہ کو غیر مسلم قرار دے سکتی ہے ؟انہوں نے دلائل کے ساتھ جواب دیا کہ جی ہاں، پھر میں نے اتنی عرض کی کہ جب ریاست نے فیصلہ سنا دیا تھا تو ابہام ختم ہو جانا چاہئے۔۔۔۔۔۔اور اس غیر مسلم گروہ کو انسان اور پاکستانی ہونے کی حیثیت سے آزادی سے رہنے اور جان و مال کا تحفظ کے حقوق حاصل ہونے چاہئے،اگر آپ انسان کی جان و مال کی حفاظت کے حق کے خلاف ہیں تو گستاخ رسول آپ ہیں ،میں نہیں۔“]
خوشنما الفاظ پر مشتمل اس وضاحتی بیان کے پہلے حصےکے حوالے سے درج ذیل باتیں قابل غور ہیں :
1) پہلی بات یہ کہ متفق علیہ مسائل میں بحثیں نہیں ہوتیں ۔بحثیں مجتہد فیہ اور اختلافی مسائل میں ہوتی ہیں ۔ ختم نبوت کا مسئلہ واشگاف الفاظ میں قرآن وسنت میں موجود ہے اور اس کے تحت متفقہ طور پر پاکستان میں قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قراردیا گیا ہے۔متفق علیہ مسائل پر بحث کرنے اور سوال اٹھانے کا مطلب عام طور پرانہیں متنازع بنانا ہوتا ہے۔
2)دوسری بات یہ کہ اگر کسی کو کوئی ابہام ہے اور وہ سوال کرکے اپنی الجھن دور کرنا چاہتا ہے توایسے نازک سوالات اٹھانے کی جگہ ٹی وی پروگرامز نہیں بلکہ علمی وتحقیقی فورم، دارالافتاء اور اہل علم حضرات کی مجالس ہیں۔ چونکہ ٹی وی پروگرامز کو مختلف ذہنی سطح کے لاکھوں لوگ براہ راست دیکھ رہے ہوتے ہیں ، اس لیے نازک سوالات لوگوں کی گمراہی اور شکوک وشبہات پیدا کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔
3)تیسری بات یہ ہے کہ اس طرح کے دقیق و نازک مسائل میں گفتگو، علماء اور اہل علم حضرات ہی کوزیب دیتی ہے۔اگر ہر اداکار،گلوکار، بھانڈے اور میراثی کو نازک مسائل میں گفتگو کی اجازت دے دی گئی تویہی نتیجہ نکلے گاکہ ملک میں انارکی اور انتشار کی فضا پیدا ہوگی اور خود گفتگو کرنے والے کے لیے بھی مشکلات کھڑی ہوجائیں گی اور دین بدنام ہوگا۔
حمزہ عباسی کے بیان کے آخری جملے پر غور کریں :
[”اور اس غیر مسلم گروہ کو انسان اور پاکستانی ہونے کی حیثیت سے آزادی سے رہنے اور جان و مال کا تحفظ کے حقوق حاصل ہونے چاہئے،اگر آپ انسان کی جان و مال کی حفاظت کے حق کے خلاف ہیں تو گستاخ رسول آپ ہیں ،میں نہیں۔“]
حمزہ عباسی کمال ہوشیاری کے ساتھ عوامی ہمدردی سمیٹنے کے لیے موضوع تبدیل کررہاہے۔۔۔آپ حمزہ عباسی کا وہ پہلا پروگرام دیکھیں جس پر شوراٹھاتھا، اس پروگرام کا موضوع یہ تھا ہی نہیں کہ قادیانیوں کو انسان اور پاکستانی ہونے کے ناطے جان ومال کا تحفظ حاصل ہے یا نہیں؟
اس کا صرف یہ موضوع تھا کہ
" ریاست، قادیانیوں کو کافر قرار نہیں دے سکتی "۔ جب حمزہ اُس پروگرام کی وجہ سے پھنس گیا اور عوام کا شدید ردعمل اسے دیکھنے کو ملا تو اپنی غلطی تسلیم کرنے کے بجائے اس نے قادیا نیوں کے جان ومال کے تحفظ کی بات کرکے پینترا بدلنے کی کوشش کی، لیکن اس میں بھی دلچسپ بات یہ ہے کہ جان ومال کے تحفظ کے حوالے سے صرف قادیانیوں کی تخصیص کہاں سے آگئی ؟
اسلام صرف قادیانیوں کو نہیں بلکہ تمام غیر مسلم اقلیتوں کو جان ومال کا تحفظ فراہم کرتا ہے اور اس مسئلے میں علماء کی دو رائے نہیں کہ اقلیتوں کے جان ومال کا تحفظ اسی طرح ضروری ہے جس طرح مسلمانوں کے جان ومال کا تحفظ ضروری ہے۔۔۔ قارئین خود بتائیں کہ کیاپاکستان میں قادیانیوں کے جان ومال کو تحفظ حاصل نہیں؟
کیا وہ آزادی سے کاروبار، تجارت، تعلیم اوراعلی ترین عہدوں پہ ملازمت کے فرائض سرانجام نہیں دے رہے؟
کیا” ربوہ“ چناب نگر میں قادیانیوں نے اپنی الگ اسٹیٹ قائم نہیں کررکھی؟
کیا پاکستان کے بااثر طبقات تک قادیانی نہیں پہنچے ہوئے؟
اب حمزہ عباسی کون سے مزید حقوق انہیں دلانا چاہتے ہیں؟؟؟
رہی بات اقلیتوں کی عبادت گاہوں پہ حملے اور خون خرابے کی تو اس سے تو پاکستان میں کوئی بھی محفوظ نہیں اور سفاک درندوں نے مساجد، مدارس، تبلیغی مراکز، امام بارگاہوں، مزاروں، خانقاہوں، چرچ اور احمدی عبادت گاہوں سمیت کوئی جگہ نہیں چھوڑی۔ ظلم کا شکار ہونے میں قادیانیوں کی کوئی تخصیص نہیں،بدقسمتی سے پاکستان کے اقلیتی واکثریتی ہر طرح کے طبقات ظلم کا شکار ہوئے ہیں۔
آخری بات جو حمزہ عباسی نے کی وہ سب سے زیادہ خطرناک ہے کہ
[”اگر آپ انسان کی جان و مال کی حفاظت کے حق کے خلاف ہیں تو گستاخ رسول آپ ہیں ،میں نہیں۔“]
حمزہ عباسی نے زبردستی ایک مفروضہ قائم کرلیا کہ ان پہ تنقید کرنے والے انسان کے جان ومال کے تحفظ کے خلاف ہیں اور پھر فتویٰ بھی صادر کردیا کہ وہ لوگ گستاخ رسول ہیں (نعوذباللہ)۔۔۔سوال یہ ہے کہ آپ ہی کہتے ہیں کہ کسی کو کافر یا گستاخ کہنے کا ہمیں اختیار نہیں پھر محض ایک مفروضے کی بنیاد پر اپنے اوپر تنقید کرنے والوں کو گستاخ رسول قرار دے رہے ہیں!!!
https://www.facebook.com/majlisEilmi/posts/699915470146717