مقبول احمد سلفی
سینئر رکن
- شمولیت
- نومبر 30، 2013
- پیغامات
- 1,400
- ری ایکشن اسکور
- 463
- پوائنٹ
- 209
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین مسئلہ ہذا کے سلسلے میں کہ سنبل حنیف (حالیہ مقیم امریکہ) کے شوہر فواد مجید نے آج سے تقریبا چار ماہ قبل حالت حمل میں ایک ساتھ دو طلاقیں دی ، پھر دودن بعد شوہر نے رجوع کرلیا۔ اور ہفتہ دن بعد اس سلسلے میں فتوی منگاکر اطمینان بھی کرلیا گیا۔ پھر دونوں میاں بیوی ہنسی خوشی ایک ساتھ پہلے کی طرح زندگی بسر کرنے لگے ۔ درمیان میں کسی قسم کی کوئی بات نہیں آئی ۔ اس وقت کچھ دنوں سے فواد مجید کے والد جو امریکہ میں ہی مقیم ہیں کہنے لگے کہ میں نے پاکستان سے فتوی منگایا ہے جس کی روشنی میں میان بیوی کے درمیان طلاق ہوچکی ہے ، اب یہ دونوں اکٹھا نہیں رہ سکتے کہہ کر میاں بیوی کے درمیان جدائی پیدا کرنے کے لئے زبردستی کر رہے ہیں۔ اس مسئلہ کا قرآن و حدیث کی روشنی میں کیا حل ہے ؟
سائل : راجہ کمال پاکستان کمیونٹی طائف ، سعودی عرب
الجواب بعون الوھاب بشرط صحۃ السوال
صورت مذکورہ کی روشنی میں سنبل حنیف کو حالت حمل میں دی گئی دو طلاقوں میں سے ایک ہی طلاق واقع ہوئی تھی کیونکہ ایک وقت میں ایک ہی طلاق واقع ہوتی ہے گرچہ دو یا تین طلاق دی گئی ہو۔
حالت حمل میں دی گئی طلاق واقع ہوجاتی ہے ، اس کی دلیل:
«عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ طَلَّقَ اِمْرَأَتَهُ وَهِیَ حَائِضٌ ، فَذَکَرَ «عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ» ذٰلِکَ لِلنَّبِیِّ ﷺ ،فَقَالَ «لَهُ»: مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا ، ثُمَّ لِيُطَلِّقْهَا وَهِیَ طَاهِرٌ أَوْ حَامِلٌ» (نسائى)
ترجمہ: ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی پس یہ بات حضرت عمر نے نبیﷺ کو بتائی تو رسول اللہﷺنے عمر کو فرمایا کہ اسے حکم دیں کہ وہ رجوع کرے پھر حالت طہر یا حمل میں طلاق دے۔
٭ اس حدیث کو شیخ البانی ؒ نے صحیح قرار دیا ہے ۔ ( صحیح النسائی : 12244)
ایک وقت میں ایک ہی طلاق واقع ہوتی ہے ، اس کی دلیل : اللہ تعالی کا فرمان:
الطلاق مرتان فإمساك بمعروف أو تسريح بإحسان (سورہ بقرہ : 229)
ترحمہ: طلاق دو مرتبہ ہے اس کے بعد پھر نیکی کے ساتھ لوٹا کے رکھنا یا بھلائی کے ساتھ چھوڑدینا ہے-
یہ آیت کریمہ واضح کرتی ہے کہ ایک وقت میں ایک ہی طلاق ہوگی، نہ دو، نہ تین کیونکہ "مرّتان" کا اطلاق "مرۃ بعد مرۃ" یکے بعد دیگرے پر ہوتا ہے۔
سيدنا رکانہ بن عبد یزید نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دے دیں لیکن بعد میں سخت غمگین ہوئے۔ رسول اللہﷺ نے ان سے پوچھا: « كيف طلقتها » کہ ’’تم نے اسے کس طرح طلاق دی تھی؟‘‘ انہوں نے کہا: تین مرتبہ۔ آپﷺ نے پوچھا: « في مجلس واحد؟ » کہ ’’ایک ہی مجلس میں؟‘‘ انہوں نے کہا: ہاں۔ آپﷺ نے فرمایا: « فإنما تلك واحدة، فارجعها إن شئت » کہ ’’پھر یہ ایک ہی طلاق ہوئی ہے، اگر تم چاہو تو رجوع کر سکتے ہو۔‘‘ راوی سیدنا ابن عباس فرماتے ہیں کہ اس کے بعد سیدنا رکانہ نے اپنی بیوی سے رجوع کر لیا۔ (مسند اَحمد)
یہاں یہ بھی واضح رہے گوکہ اس مسئلہ میں فقہاءکے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے مگر راحج یہی ہے کہ اگر شوہر عدت کے دوران دوسری اور تیسری طلاق دے تو ایک ہی طلاق مانی جائے گی ۔
جیساکہ سوال میں ذکر ہے کہ شوہر فواد مجید نے بیوی سے دو دن بعد رجوع کرلیا تھا اس لئےاب میاں بیوی کے درمیان کوئی معاملہ نہیں ہے ، بیوی ابھی بھی فواد مجیدکی زوجیت میں باقی ہے۔ فواد مجید کے والد کا طلاق کا بہانہ بناکر میاں بیوی میں زبردستی جدائی کرنے کی کوشش کرنا از قبیل شرع حرام ہے ، انہیں اس کام سے باز آنا چاہئے ۔
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ /مقبول احمد سلفی
داعی دفتر تعاونی برائے دعوت وارشاد شمال طائف مسرہ
سائل : راجہ کمال پاکستان کمیونٹی طائف ، سعودی عرب
الجواب بعون الوھاب بشرط صحۃ السوال
صورت مذکورہ کی روشنی میں سنبل حنیف کو حالت حمل میں دی گئی دو طلاقوں میں سے ایک ہی طلاق واقع ہوئی تھی کیونکہ ایک وقت میں ایک ہی طلاق واقع ہوتی ہے گرچہ دو یا تین طلاق دی گئی ہو۔
حالت حمل میں دی گئی طلاق واقع ہوجاتی ہے ، اس کی دلیل:
«عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ طَلَّقَ اِمْرَأَتَهُ وَهِیَ حَائِضٌ ، فَذَکَرَ «عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ» ذٰلِکَ لِلنَّبِیِّ ﷺ ،فَقَالَ «لَهُ»: مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا ، ثُمَّ لِيُطَلِّقْهَا وَهِیَ طَاهِرٌ أَوْ حَامِلٌ» (نسائى)
ترجمہ: ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی پس یہ بات حضرت عمر نے نبیﷺ کو بتائی تو رسول اللہﷺنے عمر کو فرمایا کہ اسے حکم دیں کہ وہ رجوع کرے پھر حالت طہر یا حمل میں طلاق دے۔
٭ اس حدیث کو شیخ البانی ؒ نے صحیح قرار دیا ہے ۔ ( صحیح النسائی : 12244)
ایک وقت میں ایک ہی طلاق واقع ہوتی ہے ، اس کی دلیل : اللہ تعالی کا فرمان:
الطلاق مرتان فإمساك بمعروف أو تسريح بإحسان (سورہ بقرہ : 229)
ترحمہ: طلاق دو مرتبہ ہے اس کے بعد پھر نیکی کے ساتھ لوٹا کے رکھنا یا بھلائی کے ساتھ چھوڑدینا ہے-
یہ آیت کریمہ واضح کرتی ہے کہ ایک وقت میں ایک ہی طلاق ہوگی، نہ دو، نہ تین کیونکہ "مرّتان" کا اطلاق "مرۃ بعد مرۃ" یکے بعد دیگرے پر ہوتا ہے۔
سيدنا رکانہ بن عبد یزید نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دے دیں لیکن بعد میں سخت غمگین ہوئے۔ رسول اللہﷺ نے ان سے پوچھا: « كيف طلقتها » کہ ’’تم نے اسے کس طرح طلاق دی تھی؟‘‘ انہوں نے کہا: تین مرتبہ۔ آپﷺ نے پوچھا: « في مجلس واحد؟ » کہ ’’ایک ہی مجلس میں؟‘‘ انہوں نے کہا: ہاں۔ آپﷺ نے فرمایا: « فإنما تلك واحدة، فارجعها إن شئت » کہ ’’پھر یہ ایک ہی طلاق ہوئی ہے، اگر تم چاہو تو رجوع کر سکتے ہو۔‘‘ راوی سیدنا ابن عباس فرماتے ہیں کہ اس کے بعد سیدنا رکانہ نے اپنی بیوی سے رجوع کر لیا۔ (مسند اَحمد)
یہاں یہ بھی واضح رہے گوکہ اس مسئلہ میں فقہاءکے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے مگر راحج یہی ہے کہ اگر شوہر عدت کے دوران دوسری اور تیسری طلاق دے تو ایک ہی طلاق مانی جائے گی ۔
جیساکہ سوال میں ذکر ہے کہ شوہر فواد مجید نے بیوی سے دو دن بعد رجوع کرلیا تھا اس لئےاب میاں بیوی کے درمیان کوئی معاملہ نہیں ہے ، بیوی ابھی بھی فواد مجیدکی زوجیت میں باقی ہے۔ فواد مجید کے والد کا طلاق کا بہانہ بناکر میاں بیوی میں زبردستی جدائی کرنے کی کوشش کرنا از قبیل شرع حرام ہے ، انہیں اس کام سے باز آنا چاہئے ۔
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ /مقبول احمد سلفی
داعی دفتر تعاونی برائے دعوت وارشاد شمال طائف مسرہ