• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حمید گل ایک شخصیت

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
موت برحق-انسانوں کی اوسطاََ مانے جانے والی عمر کے آخری حصے میں معمول کے مطابق آجائے تو اتنا حیران بھی نہیں کرتی۔ ہفتے کی رات جنرل حمید گل کی وفات نے مگر مجھے پریشان کردیا۔
دس روز پہلے انور بیگ نے امریکی سفیر کے لئے ایک عشائیے کا اہتمام کیا تھا۔ وہاں ایک صوفے پر وہ اپنی مخصوص آن کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ مجھے سلام کرنے ان کے پاس یقینا جانا تھا مگر سفیروں کے ایک گروپ کے ساتھ گپ شپ طویل ہوگئی تو میری توجہ کے حصول کے لئے انہوں نے مجھے نام لے کر پکارا۔ میں ان کے پاس گیا تو چہرہ ان کا دمک رہا تھا۔ بے اختیار کہہ بیٹھا: ”جنرل صاحب آپ تو جوان ہورہے ہیں۔ فٹ رہنے کے لئے جو نسخہ استعمال کرتے ہیں، اس کی ایک دوپُڑیا مجھے بھی عنائت فرمادیں۔“
میرے پھکڑ پن کو بھی انہوں نے سنجیدگی سے لیا اور بڑی متانت سے سمجھایا کہ بندہ اپنے معمولات اور سوچ پر قائم رہے تو ہمیشہ فٹ اور مطمئن رہتا ہے۔
مجھے فٹ نظر آکر مسخرہ پن کو اُکسانے والے حمید گل کی موت نے حیران کردیا۔ اس سے کہیں زیادہ وحشت اور پریشانی مگر سوشل میڈیا پر شروع ہوجانے والی اس بحث کی وجہ سے ہوئی جو ان کی ذات کے بارے میں شروع ہوگئی ہے۔ مجھے اب تک یہ وہم تھا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے صوفیاءاور ولیوں کی تعلیمات، شاعری اور مزارات کی برکت سے ہمارے لوگوں کے دل گداز سے بھرے ہوئے ہیں۔ حمید گل کی موت کی خبر کے بعد سوشل میڈیا پر انہیں چاہنے یا نفرت کرنے والوں کے درمیان جو فقرے بازی ہوئی، اس نے یہ طے کرنے پر مجبور کردیا کہ ہم جنگل کے درندوں کی طرح تقسیم ہوچکے ہیں۔ محبتوں سے کہیں زیادہ نفرتوں کی شدت نے ہمارے دلوں کو پتھر بنادیا ہے۔
حمید گل جب ISIکے سربراہ تھے تو میں اسلام آباد میں The Nationکابیورو چیف تھا۔ محمد خان جونیجومرحوم افغان مسئلہ کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر تلے بیٹھے تھے۔ پھر اوجڑی کیمپ میں ایک خوفناک دھماکہ بھی ہوگیا۔ جونیجو حکومت سکیورٹی کی ایسی خوفناک Breachکے ذمہ داروں کا تعین کرنے کے بعد انہیں سزائیں دینا چاہ رہی تھی۔ جنرل ضیاءاور حمید گل کی ISIمگر قطعی مختلف سوچ اپنائے ہوئے تھی۔ دونوں اطراف کے مابین تخت یا تختہ والی چپقلش شروع ہوگئی۔ میں بے وقوفی کی حد تک اپنے تئیں جی دار بنا جونیجو مرحوم کے دھڑے کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔
آج وہ دن یاد کروں تو اپنی دیوانگی پر ہنسی آتی ہے۔ کیونکہ یہ وہ دن تھے جب حمید گل تو پبلک میں نظر نہیں آتے تھے۔ مگر قومی اسمبلی کی راہداریوں میں ان کے ادارے کے میجر عامر اکثر نظر آتے تھے۔ صحافیوں کو عموماََ فدوی بننے کا شوق ہوتا ہے۔ مگر اپنے حلقوں میں پھنے خان بنے کئی سورما نظر آنے والے رانا، چوہدری اور سردار وغیرہ بھی میجر عامر کی تابعداری کو اپنے لئے بڑی سعادت کا باعث سمجھے تھے۔
محمد خان جونیجو کی حکومت جنرل ضیاءنے مئی 1988ءمیں برطرف کردی۔ نئے انتخابات کروانے کو وہ تیار نظر نہ آتے تھے۔ 17اگست 1988ءکو ایک فضائی حادثے کی نذر ہوگئے تو نئے انتخابات ہونا یقینی نظر آنے لگے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کی پیپلز پارٹی کی ان انتخابات میں واضح جیت دیوار پر نظر آرہی تھی۔
اس جیت کو اگر ناممکن نہیں تو مشکل تر بنانے کے لئے جنرل حمید گل اور ان کے ادارے نے تمام بھٹو مخالف ووٹوں کو IJI کی چھتری تلے ا کٹھا کرنے کا منصوبہ بناکر اس پر تن دہی سے عمل شروع کردیا۔ میں اس منصوبے سے جڑی تمام جزئیات کو تفصیل سے رپورٹ کرتا رہا۔ The Nationکے مرکزی دفتر میں میرے خلاف آنے والی شکایتوں کا انبار لگ گیا۔ کسی نے مجھے اطلاع تک نہ دی۔ نہ ہی میری کسی خبر کو روکا گیا یا Underplay۔
بالآخر مرکز میںمحترمہ بے نظیربھٹو کی حکومت بن گئی۔ انہیں بھی افغان مسئلہ کو اپنی سوچ کے مطابق ”حل“ کرنا تھا۔ جنرل نصیر اللہ بابر ان کے اس حوالے سے فیصلہ کن مشیر تھے اور تیاری شروع ہوگئی کہ جلال آباد کو مجاہدین کے ذریعے ”آزاد“ کروا کہ وہاں مجاہدین کی حکومت قائم کردی جائے۔ اس مقصدکے حصول کے لئے ”آپریشن جلال آباد“ ہوا تو بُری طرح ناکام ہوگیا۔ اس ناکامی کی تمام تروجوہات جنرل حمید گل کے ذمے تھونپ دی گئی۔
بجائے سزا کے مگر حمید گل کو ISIسے ہٹا کر پاکستان کی اہم ترین کور-ملتان- کی قیادت سونپ دینے کا فیصلہ ہوا۔ اس فیصلے کی حتمی منظوری پر وزیر اعظم کے دستخط جنرل نصیر اللہ بابر نے اس وقت لئے جب محترمہ ترکی کے ایک دورے کے لئے اپنے مخصوص جہاز میں بیٹھ چکی تھیں۔ بابر صاحب اپنی بغل میں ایک فائل تھامے مسکراتے چہرے کے ساتھ اسلام آباد ایئرپورٹ کے وی آئی پی روم میں آئے تو میں نے تاڑ لیا کہ کوئی بڑی خبر تیار ہے۔ بابر صاحب کی جان کے درپے ہوگیا۔ انہوں نے زچ ہوکر مجھے فائل دکھادی۔ میرا Exclusiveبن گیا۔
بات مگر اس Exclusiveپر ختم نہ ہوئی۔ میں نے ساتھی رپورٹر مریانہ بابر کے ساتھ مل کر ”آپریشن جلال آباد“ کا بے رحمانہ پوسٹ مارٹم The Nationمیں قسط وار لکھنا شروع کردیا۔ حمید گل ہماری کہانی میں ایک جذباتی مگر عملی طورپر ایک ناکام جنرل نظر آئے۔ ان کی مجبوری مگر یہ تھی کہ فوج کی نوکری کرتے ہوئے وہ اپنے دفاع میں صحافیوں کو کچھ بتا نہ سکتے تھے۔ میری کہانی جاری تھی کہ مجید نظامی صاحب کا فون آیا۔ انہوں نے اطلاع دی تو بس اتنی کہ جنرل صاحب مجھے ملنا چاہتے ہیں۔ ”مناسب سمجھیں تو انہیں مل لیں۔ ان کی بات سن لیں اور اگر اس میں وزن نظر آئے تو لکھ بھی ڈالیں۔ باقی آپ کی مرضی۔“ یہ کہہ کر نظامی صاحب نے فون بند کردیا۔
جنرل حمید گل نے اپنے دفاع میں انکشاف کیا کہ ”آپریشن جلال آباد“ درحقیقت ان کا منصوبہ تھا ہی نہیں۔ ان دنوں پاکستان میں مقیم امریکی سفیر رابرٹ اوکلے Robert Oakley، جنہیں میں اپنے کالموں میں پاکستان کا وائسرائے بھی لکھا کرتا تھا، اس منصوبے کے اصل خالق تھے۔ موصوف پاکستان کے سیاسی اور عسکری قیادت پر مشتمل ”افغان سیل“ کے اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں باقاعدہ شریک ہوا کرتے تھے۔ ان ہی کا ا صرار تھا کہ جلال آباد کو ”آزاد افغان حکومت“ کا مرکز بنایا جائے۔
اپنے دعوے کی تائید میں محض یادداشت کی بدولت جنرل صاحب نے کچھ دن اور تاریخوں کا خاص طور پر ذکر کیا۔ میں نے کاﺅنٹر چیک کے بعد ان کے دعوے میں کافی وزن دریافت کیا۔ انہیں Quoteکئے بغیر میں نے ’جنرل صاحب کے قریبی ذرائع کہتے ہیں“ کے بہانے سے ان کا ورژن بھی The Nationمیں لکھ ڈالا۔ وہ شکر گزار ہوئے۔
ان کی اس شکر گزاری کے باوجود میں نے ہی بعدازاں کھل کر لکھا کہ جنرل اسلم بیگ کے بعد آنے والے آصف نواز جنجوعہ مرحوم حمید گل صاحب کی نواز شریف سے قربت کی افواہوں پر سخت ناراض ہیں۔ بالآخر جنرل جنجوعہ نے حمید گل صاحب کو ملتان کور سے ہٹا کر ٹیکسلا بھیجنے کا حکم صادر کیا۔ حمید گل صاحب نے تعمیل میں دیر لگائی تو جنرل جنجوعہ نے اپنے ترکی کے دورے کے دوران ہی وہاں سے ان کی فوج سے برطرفی کے احکامات جاری کردئیے۔ یہ تفصیلی خبر بھی میں نے ہی دی تھی۔فوج سے اپنی جبری ریٹائرمنٹ کے بعد حمید گل صاحب نے جو بھی کہا میں نے اس پر مسلسل تنقید ہی لکھی۔ اس کے باوجود سماجی تقریبات میں جب بھی ملے صاف دل اور مسکراتے چہرے کے ساتھ گرم جوش معانقے کے ساتھ ملے۔ بحثیں ان کی میرے ساتھ بہت تلخ اور گرم ہوا کرتی تھیں۔ انہوں نے مگرمجھے کبھی غدار، ایمان کا کچّا یا ڈالر خور نہ کہا۔ میری عدم موجودگی میں بھی میری لکھی اور کہی باتوں کی سخت مخالفت کرتے ہوئے میری نیت پر ایک لمحے کو بھی شک وشبہ کا اظہار نہ کیا۔
کئی دفعہ جب اپنی بے ہودہ باتوں یا صحافیانہ فرائض کی ادائیگی کرتے ہوئے مشکلوں اور آفتوں کا شکار ہوا تو مسلسل مجھے اور میری بیوی کو فون کے ذریعے تسلیاں دیتے پائے گئے۔ اپنی ذات کے بارے میں ایک سخت گیر موقف رکھنے والے ”جہادی“ کے برعکس میرے لئے وہ ایک Gentleman Soldierہی رہے جو کچھ معاملات پر شدید اور میری نظر میں اکثر مضحکہ خیز موقف اپنائے ہوئے تھے اور اس موقف کا جارحانہ دفاع کرنے کا ہنر بھی انہیں خوب آتا تھا۔ٹھنڈے دل سے سوچیں تو ہمیں جس پاکستان کی خواہش ہے وہاں ”سوپھول اپنی مہکار دکھاسکیں“ تب ہی جمہوری رویے اور Pluralism کے جلوے نظر آئیں گے۔ سوشل میڈیا پر حمید گل کی خبر کے بعد ہونے والی فقرے بازی نے مگر مجھے اداس کردیا ہے۔ ہم فکری اختلاف کو برداشت کرنے کی سکت کھوبیٹھے ہیں۔ خدا ہمارے حال پر رحم کرے۔

"حمید گل جنٹلمین سولجر"(نصرت جاوید)
 

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
حمید گل سے ہفتے کی سہ پہر آخری گفتگو"اسد اللہ غالب"

آپ مجھے ڈھونڈ رہے تھے۔ یہ حمید گل کی آواز تھی۔ ہفتے کے روز تین بجے سہ پہر۔ ان کے دم آخریں سے صرف سات آٹھ گھنٹے قبل۔

اس ٹیلی فون کال نے مجھے خوشگوار حیرت میں مبتلا کر دیا۔میں انہیں واقعی ڈھونڈ رہا تھا، ایک ہفتے سے مجھے ان کی تلاش تھی، قصور کے جنسی اسکینڈل کو جس شخص نے عالمی سطح پر ابھار کر ملک کا نام بد نام کیا، اس کے بارے میںمجھے پتہ چلا کہ وہ جنرل حمید گل کے ساتھ کام کر چکا ہے، بلکہ ایک واردات بھی۔میں براہ راست تصدیق سے پہلے اس موضوع کو نہیں چھیڑ سکتا تھا، یہ میری صحافتی اخلاقیات کا تقاضہ ہے۔مگر میں ان کا فون نمبر گما چکا تھا، ان کے گھر والے نمبر پر کئی بار فون کیا مگر کوئی اٹھا نہیں رہا تھا۔ ہفتے کو ایک مشترکہ دوست کا فون آیا، ان سے جنرل صاحب کا موبائل نمبر مانگا، ابھی سوچ ہی رہا تھاکہ انہیں فون کروں کہ ان کی اپنی کال آ گئی ۔سولہ منٹ بائیس سیکنڈ تک بات چیت جاری رہی، پھر اچانک انہوں نے کہا کہ دوسری کال آ گئی، اللہ حافظ۔ میرے ساتھ یہ ان کے آخری الفاظ تھے۔ دوسری کا ل آ گئی ہے۔اللہ حافظ! یہ الفاظ سدا میرے کانوں میں گونجتے رہیں گے۔
میںنے ان سے پوچھا کہ کیا یہ کردار آپ کے ساتھ کام کرتا رہا ہے، انہوںنے کہا کہ میرے بیٹے عبداللہ گل کی تنظیم میں تھا، پھر چھوڑ کو ڈاکٹر عبدالقدیر کے ساتھ جاملا، انہیں بھی چھوڑ دیا اور اپنی کوئی الگ تنظیم کھڑی کر لی۔جماعت الدعوہ میں بھی رہا۔ میںنے قصور اسکینڈل کے موضوع پر ہی توجہ مرکوز رکھی اور اس سے ملک کی عالمی سطح پر جو بدنامی ہوئی، اس پر وہ بھی دل گرفتہ تھے۔
میںنے کہا کہ آپ کو ملنے کے لئے آ رہا ہوں، کہنے لگے کہ میں کئی روز سے مری میںہوں، بیٹا عبداللہ گل ترکی میں ہے، میری بیگم صاحبہ کی طبیعت خراب ہے، پنڈی میں سخت گرمی ا ور حبس کا عالم ہے ، انہیں لے کرمری آ گیا ہوں، چودہ اگست کو آرمی چیف نے پرانے فوجی افسروں کے ساتھ مجھے بھی کھانے پر مدعو کیا تھا،ا س میں شرکت کی ا ور واپس آ گیا،ابھی مری سے واپسی کا کوئی پروگرام نہیں۔ میںنے کہا،وہاں حاضر ہو جاﺅں گا۔ ملک کے معاملات دگر گوںہیں، فوج کارہا ئے نمایاں اور جانوں کی بیش بہا قربانی کے باوجود تنقید کی زد میں ہے۔ بالمشافہ گفتگو ضروری ہے۔ اب میں یہ گفتگو کسی اور سے نہیںکر سکتا۔
جنرل صاحب سے محبت اور دوستانہ اختلاف کا رشتہ ربع صدی سے قائم ہے۔ وہ ایک جہادی لیڈر تھے مگر میں ان سے کہا کرتا تھا کہ میرے اسلاف تحریک مجاہدین میںقربانی دے چکے ہیں، جہاد تومیرے لہو میں رچا بسا ہے۔انگریز ایس ایس پی میرے گھر میں والد صاحب کے ساتھ مقیم ایک جہادی لیڈر کو گرفتار کرنے آیا تھا، مگر گاﺅں والوں نے یہ کوشش ناکام بنا دی تھی، مجاہد لیڈر وہاں سے ہجرت کر گئے، یہ صوفی ولی محمد تھے جن کے ہاتھ پہ عبید اللہ سندھی نے ا سلام قبول کیا تھا۔
ضرب مومن کی مشقوں کے دوران میری ان سے پہلی جھڑپ ہوئی، وہ اس مشق کے کمانڈر تھے، اور ملکی اور غیر ملکی میڈیا کو سرگودھا میں اس پر بریفنگ دے رہے تھے، میںنے ان سے پوچھاکہ آپ نے پچھلے ایک ہفتے میں ہمیں جو مشقیں دکھائی ہیں ، وہ ساری کی ساری میدانی جنگ سے متعلق ہیں جبکہ آپ کو اگر کوئی کام کرناہے تو وہ کشمیر کی باز یابی کا نہ کہ بھارت کی فتح کا۔ اس لئے آپ کو پہاڑی جنگ کی مشق کرنا چاہئے تھی۔
ابھی چندماہ پہلے میں نے لکھا کہ افغان بارڈر پر کانکریٹ کی دیوار کھڑی کردی جائے تاکہ دہشت گردی کا راستہ روکا جا سکے، ان کا فون آیا کہ آپ آئندہ ایسا نہیںلکھیں گے، افغانستان ہمارا اثاثہ ہے، ہم یک جان و دو قالب کی مثال ہیں۔میںنے واضح کیا کہ میں تو پاکستانی طالبان کا رستہ روکنے کی بات کر رہا ہوں، انہوں نے کہا، ا سکے لئے اور بڑے طریقے ہیں۔اور ہم اس میںکامیاب ہوں گے۔
کوئی دو عشرے قبل میں نے پی سی ہوٹل میں جاپانی سفیر کی ضیافت کی، اس میںجنرل صاحب بھی شریک ہوئے، محفل برخواست ہوئی تو ہوٹل کے دروازے پر شور وغوغا ہوا، جنرل صاحب اور شامی صاحب میں تلخ بحث چل رہی تھی اور ا سکی وجہ ایک ا ٓرٹیکل تھا جو جنرل صاحب نے لکھا اور میںنے ایک اخبار میںچھاپا، اس کا عنوان تھا ، دائیں بازو کی دانش پر ڈاکہ۔ موقع پر موجود دوستوںنے اس بحث کو ختم کرا دیا مگر جنرل صاحب اپنے موقف میں سچے تھے، چند روز قبل حافظ محمد سعید کی ایک محفل میں مجھے ایسے ہی ایک دوست نے ننگی گالیاں سنا ڈالیں۔یہ دائیں بازو سے ہی تعلق رکھتے ہیںمگر اب ڈاکے کی زد میں ہیں۔محفل کے آداب کے پیش نظر میںنے ان کے نکات کا جواب تو ضرور دیالیکن ان کی مغلظات پر خاموشی اختیار کی۔ مجھے ا س موقع پر جنرل حمید گل بے طرح یاد آئے، انہیں ا س محفل میں آنا تھا مگر شاید بیگم صاحبہ کی علالت کے باعث سفر نہ کر سکے۔ مگر اب وہ سفرا ٓخرت پر ر وانہ ہوگئے ہیں۔ میں نے اتوار کے اخبارات تو کھولے تھے، مشاہد اللہ کی خبر کی تفصیل پڑھنے کے لئے مگر یہاں تو بساط ہی الٹ گئی تھی۔ ابھی تو مجاہد اول سردار عبدا لقیوم کی رحلت کا زخم تازہ تھا، ملا عمر کی شہادت اور جلال ا لدین حقانی کی شہادت کی خبروں سے دل ملول تھا کہ یہ کیا بجلی ا ٓن گری، دل کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ میں تو کل سہہ پہر دل بھر کے ان سے باتیں کر رہا تھا، یہ آواز خاموش کیسے ہو گئی مگر قدرت کے سامنے کون دم مار سکتا ہے۔ اورآج سترہ اگست ہے۔ یہ تاریخ ملکی تاریخ کی المناک تاریخ ہے۔
سانحہ بہاولپور نے دل دہلا دیا تھا مگر جنرل حمید گل نے حوصلہ دیا، اس نے راتوں رات اسلام آباد کی جامع مسجد کے سائے میں مرد مجاہد جنرل ضیا الحق کامقبرہ کھڑا کر دیا۔اور پھر ان کے مشن کا علم بلند کئے رکھا، آخری سانس تک۔ جنرل حمید گل کو گالیاں دینے والوں نے طالبان کی حکومت اپنے ہاتھوں سے قائم کی ، محترمہ بے نظیر بھٹو کے وزیر داخلہ ٹینک پر بیٹھ کر کابل گئے اور طالبان کو سریرا ٓرائے سلطنت کر کے لوٹے۔ پھر بھی طالبا ن کی سرپرستی کے لئے جنرل حمید گل ہی مورد الزام اور کون بھول سکتا ہے کہ گلبدین، ربانی ، سیاف، مجددی ا ور دوسرے نوجوان افغان مجاہدین کو پاکستان بلا کر ٹھکانے فراہم کئے تو ذوالفقار علی بھٹو نے۔یہ سب نوجوان اس دور کے طالبان تھے۔اور گالی پھر بھی جنرل حمید گل کو۔
جنرل حمید گل کا گناہ یہ تھا کہ اس نے ایک قومی پالیسی کو آگے بڑھایا، اس پالیسی پر بھٹو، ضیاا لحق، نوازشریف، بے نظیر ، سبھی کا اتفاق رائے تھا، نائن الیون تک جنرل مشرف کا بھی، اور ساتھ ہی پوری قو م کا بھی مگر پھر سب بھیڈ ہو گئے۔
میں اس لمحے کو نہیں بھول سکتا جب میں نے ایوان وقت میں گلبدین حکمت یار کو مدعو کیا تھا،ا س مرد مجاہد کی میڈیا میںیہ اولیں مہورت تھی۔ اور اگر کسی نے امریکہ کی اصل شکل دیکھنی ہو تو وائٹ ہاﺅس میں تمام افغان لیڈروں کی تصویریں ملاحظہ فرما لیں، لمبی ڈاڑھیوں کے حصار میں امریکی صدر۔
مگر گالیاں جنرل حمید گل ہی کے لئے۔ یہ گالیاںنہیں، ایک خراج عقیدت ہے، اس کی طاقت کو، اس کی حشمت کو ،ا س کی قوت ایمانی کو۔ جنرل حمید گل پنڈی کے فوجی قبرستان میں سانحہ بہاول پور کے شہدا کے پہلو میںمحو خواب ہے۔اس نے ہمیں آزادی، حریت،اور حمیت کا خواب دکھا یا تھا اور اس خواب کو حقیقت کا روپ دیا تھا، اس کی عملی تعبیر پیش کی تھی، اس کی قبر تاریخ کے راستوں کو اجالتی رہے گی۔اس سے آزادی اور حریت کے چشمے پھوٹتے رہیں گے، اور پوری دنیا اس کے شاہنامے رقم کرتی رہے گی، سنہری الفاظ میں۔ وہ زندگی کا درس تھا۔ وہ آ زادی کی للکار تھا۔وہ سراپا زندگی تھا اورسدا زندہ۔
 

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
تصویر ممنوع ہے ۔
 
Last edited by a moderator:

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
تصویر ممنوع ہے ۔
 
Last edited by a moderator:

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
تصویر ممنوع ہے ۔
 
Last edited by a moderator:
Top