• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حمید گل ایک شخصیت

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
جنرل حمید گل
روف کلاسرا
دنیا نیوز
لندن میں سینیٹرانور بیگ سے ملاقات ہوئی۔ وہ جنرل حمیدگل کی موت پر دکھی تھے۔ کہا، پچھلے ہفتے وہ ان کے گھر دعوت میں شریک تھے جہاں اکثر صحافیوں اور دوسرے لوگوںکی ان سے آخری ملاقات ہوئی۔انور بیگ نے کچھ نام لے کر کہا، وہ سوشل میڈیا پر جنرل گل کے بارے میں نازیبا باتیں کر رہے ہیں۔ میں نے کہا، بیگ صاحب آپ دکھی نہ ہوں، جنرل گل ایک متنازع شخصیت تھے، وہ اسی طرح جینا اور مرنا چاہتے تھے۔ ہر مشہورانسان متنازع ہوتا ہے، اگر متنازع نہ ہو تو لوگ بھول جاتے ہیں۔ جنرل وحیدکاکڑ غیرمتنازع تھے، کتنے لوگ انہیںجانتے ہیں؟ جنرل گل یہ رازجان چکے تھے، لہٰذا ان کی دوستیاں اپنے ناقدین سے زیادہ تھیں۔
جنرل حمیدگل سے پہلی ملاقات 2002ء کے آخر میں دوست کالم نگار ہارون الرشید کے ہمراہ ان کے گھرہوئی۔ جنرل گل کی مدد کی ضرورت پڑگئی تھی۔ ہمارے صحافی دوست شاہین صہبائی جنرل مشرف کے زیرعتاب تھے، ان کی تحریروں نے جنرل مشرف کے ہائوس آف کارڈز میں طوفان برپاکیا ہوا تھا۔ بینظیر بھٹو، نواز شریف ڈیل کر کے پاکستان چھوڑ گئے تھے کہ اچھے دنوں میں پھر نئی ڈیل کر کے لوٹ آئیںگے۔جنرل مشرف سے جو لڑائی بینظیر بھٹو اور نواز شریف نے لڑنی تھی وہ اب شاہین صہبائی لڑ رہے تھے۔ انہوں نے جنرل مشرف کا پورا امتحان لینے کا فیصلہ کیا ہوا تھا کیونکہ ایک دن جنرل مشرف کے منہ سے نکل گیا تھا کہ انہوں نے پاکستان میں ججوں اور جرنلسٹوں کو آزادی دے رکھی ہے۔شاہین صہبائی کی ہر تحریر بم کی طرح جنرل مشرف پرگرتی۔فیصلہ ہوا، شاہین صہبائی کو مزہ چکھایا جائے۔ شاہین ان دنوں امریکہ میں تھے۔ایک ایجنسی کو کام سونپا گیا، وہ شاہین صہبائی کو فکس کرے ۔ شاہین صہبائی کی کراچی میں مقیم بہن، بہنوئی اور ایک بھتیجے پر مقدمات قائم ہوئے۔شاہین پر اپنے رشتہ دارکے گھر سے واشنگ مشین چوری کرنے کا مقدمہ بنا۔ بہنوئی جو چھ چھوٹی چھوٹی بیٹیوں کا باپ تھا اسے کراچی سے گرفتارکرکے جنرل مشرف کے حکم پر اڈیالہ جیل (راولپنڈی) میں ڈالاگیا تاکہ شاہین صہبائی کو جھکایا جا سکے۔ان کے بھتیجے پر الزام تھاکہ اس نے واشنگ مشین چرانے میں اپنے چچاکی مدد کی تھی۔ وہ بھی جیل میں تھا۔ وکیل ظفرعلی شاہ، ڈاکٹر ظفر الطاف اور میں ایجنسیوں کی سخت مخالفت کے باوجود اس مقدمے کی پیروی کر رہے تھے۔ ہر دفعہ ایجنسی کا افسر عدالت میں جج سے ملتا اور ضمانت نہ ملتی۔ ایک دن ہارون الرشید سے بات کی۔ہم دونوں جنرل گل سے جا کر ملے کہ ان مظلوموں کی جان چھڑائی جائے۔ میرا خیال تھا سخت مزاج ہوںگے۔ لیکن انہیں انتہائی مہذب پایا۔ بولے، اگرچہ وہ ریٹائر ہوچکے ہیں لیکن پھر بھی کسی سے بات کریں گے۔ جنرل گل سے اس دن تعلق بنا جو ان کی وفات تک قائم رہا۔مجھے علم تھا میرا ان کے خیالات اور فلسفے سے کبھی اتفاق نہیں ہوسکے گا۔ جنرل گل کو بھی پروا نہیں تھی کہ ان کے خیالات سے ضروراتفاق کیا جائے۔
جنرل حمید گل کے بارے میں سب سے اچھی گفتگو میجر عامر سے سنی۔ وہ خود ایک بڑا کردار ہیں جس پرکتاب لکھی جانی چاہیے۔ میجر عامرسے جنرل گل کی افغان جنگ کے دنوں کی حیرت زدہ کرنے والی داستانیں سنیں، پھر بھی میں ان کا قائل نہ ہو سکا۔ جنرل گل جب میجر عامرکے گھرکھانے پر مدعو ہوتے توان (میجر عامر) کی خوشی دیدنی ہوتی۔ لگتا،ایک بچے کو اپنا پسندیدہ ترین کھلونا مل گیا ہے۔ میجر عامرکی سنائی ہوئی کئی باتوں کے باوجود جنرل گل کے فلسفے سے دل متفق نہ ہوا۔
چند برس پہلے راولپنڈی کے ایک ہوٹل میں ایکس سروس مین کی تقریب میں جنرل حمید گل کوایک گھنٹہ سننے کا موقع ملا۔ جنرل اسلم بیگ نے بھی تقریرکی۔دونوںکا نظریہ ایک تھا کہ افغانستان کو امریکی افواج کی موجودگی میں بھی فتح کیا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد پورا سینٹرل ایشیا اور پھر پوری دنیا۔ میں دم بخود ہوکر سنتا رہا۔ مجھے یاد ہے، احسن اقبال اپنی باری پر حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکے کہ ہمارے ریٹائرڈ جنرلزکس دنیا میں زندہ ہیں۔ لیکن جنرل گل اپنی بات پر قائم تھے، ان کا خیال تھا، یہ سب ممکن ہے۔ اور تو اور فوج میں ان کے اپنے ریٹائرڈ ساتھی بھی ان کی باتوں سے متفق نہ تھے۔ایکس سروس مین کے اجلاسوں میں جب جنرل حمیدگل ملکی یا غیرملکی معاملات پر ایک اسٹینڈ لیتے اور دوسرے ریٹائرڈ جنرلز شدت سے مخالفت کرتے تو اکثر بات تلخی تک پہنچ جاتی۔
شعیب سڈل کے صاحبزادے کے ولیمے میں ملاقات ہوئی تو میں نے کہا، جنرل صاحب آج کل بھارتی ایجنسی را کے ایک سابق افسرکی کتاب پڑھ رہا ہوں۔ مسکرا کر پوچھا کیا لکھتا ہے۔ میں نے کہا، وہ لکھتا ہے جب آپ آئی ایس آئی کے سربراہ تھے تو آپ کی تین خفیہ ملاقاتیں بیرون ملک بھارتی ایجنسی کے سربراہ سے ہوئی تھیں اور جن کا اہتمام ایک عرب ملک کے اس شہزادے نے کیا تھا جو راجیوگاندھی اور جنرل ضیا دونوںکے قریب تھا۔ ان ملاقاتوںکے بعد پاکستان نے خفیہ طور پر وہ سکھ فوجی جوان بھی بھارت کے حوالے کر دیے تھے جو پنجاب میں چلنے والی سکھوں کی تحریک کے دوران بھارتی فوج چھوڑکر پاکستان سے آ ملے تھے؛ تاہم اس شرط پر وہ واپس کیے گئے کہ ان بھگوڑے بھارتی سکھ فوجیوں کو سرحد کے قریب ایک مقام پر رکھا جائے گا اور بھارتی فوج اچانک چھاپہ مارکر انہیںگرفتارکر کے لے جائے گی تاکہ یہ نہ لگے کہ پاکستان نے جان بوجھ کر انہیں بھارت کے حوالے کیا ہے، اسے بھارتی فوج کی ایک خفیہ کارروائی سمجھا جائے۔ بعد میں ان سکھوں کا کیا حشر ہوا وہ ایک علیحدہ داستان ہے۔
جنرل گل نے بڑی تسلی سے سنا اورکہا انہوں نے وہ کتاب نہیں پڑھی۔ ویسے سکھ فوجیوں والی کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔ میں نے کہا،کسی دن آپ سے اس پرانٹرویوکرناچاہتا ہوں۔کہا ضرور تاہم اس انٹرویو کی باری کبھی نہ آئی۔
کبھی کبھی مجھے جنرل صاحب اپنی ہی طرح کے لگتے۔۔۔۔۔ اپنے خیالات کے شدید رومانس میں گم اور اپنی الگ دنیا بسائے رہنے والے ۔ البتہ ان میں ایک خصوصیت وافر تھی جو مجھ میں نہیں۔ وہ اپنے ناقدین سے اپنے دوستوں سے بھی زیادہ پیارکرتے تھے، میں یہ کبھی نہیں کر سکا۔
ٹی وی پروگراموں میں کئی باران کے خیالات اور فلسفے پر تنقیدکی، کئی کالم لکھے، مجال ہے ان کے ماتھے پر شکن آئی ہو۔ ہر دفعہ مسکرا دیتے۔کوئی بات اچھی نہ لگتی تو موبائل پر اتنا لکھ کر بھیج دیتے کہ رئوف، آپ نے یاد کیا، شکریہ۔۔۔۔۔گُل۔
میرا ایک کالم انہیں پسند نہ آیا تو طویل میسج کیا۔ میں نے فون کرکے کہا، جنرل صاحب! آپ واحد شخصیت ہیں جو میری تحریریں برداشت کرلیتے ہیں، میرے اندر یہ احساس رہنے دیں۔ قہقہہ لگایا اور بولے، سوری یار۔
ایک دفعہ میں شدید دکھ کی کیفیت میں تھا۔ میرا لیہ کالج کا ایک کلاس فیلو مجھے اسلام آباد میں پچیس برس بعد ملا۔ وہ ایک سکیورٹی فورس میںکرنل تھا۔ باتوں باتوں میں بتایا، آج کل ہماری ایجنسی شدید پریشانی کی شکار ہے۔کرک کے ایک ایم این اے کو اٹھایاگیا ہے۔ وہ بیت اللہ محسودکا خط لے کر جنرل گل کے پاس جا رہا تھا جس میں اس نے ٹی وی چینلز پر جنرل گل کی حمایت پر شکریہ ادا کیا تھا۔فیصلہ ہوا ہے کہ اس معاملے کو دبا دیا جائے، بدنامی ہوگی۔ مجھے سمجھ نہ آئی کہ جنرل گل جنہوں نے امریکہ کے ساتھ مل کر طویل جنگ لڑی تھی وہ ریٹائر ہوتے ہی کیسے اس کے خلاف ہوگئے۔ عرصے بعد سحر صدیقی کی غلام اسحاق خان پر لکھی کتاب پڑھی تو معلوم ہوا کہ امریکہ سے دشمنی کی وجہ کیا تھی۔ جنرل گل نے اپنے انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ انہیں غلام اسحاق خان نے بتایا تھا وہ (جنرل گل) تو آرمی چیف بنانا چاہتے تھے لیکن امریکہ نے نہیں بننے دیا۔ میں نے جنرل گل سے ہنس کرکہا، سر!امریکہ نے آپ کو آرمی چیف نہ بنوا کر بڑی قیمت ادا کی ہے، آپ نے بھی انہیں معاف نہیںکیا۔
ذاتی مراسم قائم رکھناکوئی ان سے سیکھتا۔ میری بیوی بیمار ہوئی توکئی دفعہ فون کیا اور دیر تک اپنی بیگم کی بیماری کے حوالے سے قصے سناکر حوصلہ دیتے رہتے۔جب ان کی بہادر بیٹی عظمیٰ گل کی بس سروس واران کے خلاف(جنرل مشرف سے شہبازشریف تک سب نے جنرل گل کے نظریات سے اختلاف کی بنا پر) کارروائیاںکیں اور اتنی اچھی بس سروس بندکرادی تو میں نے ان کارروائیوں کے خلاف آواز اٹھائی جس پر وہ شکرگزار ہوئے۔
جنرل گل گمنام زندگی نہیںگزارنا چاہتے تھے۔ انہیں خود کو متنازع بنانے کا فن آتا تھا اور وہ فن تھا مخالفوںکو گلے لگاکر رکھنا۔ میں ان شدید نقادوں میں سے تھا جنہیں ہمیشہ گلے سے لگائے رکھا۔ میں جنرل گل کی جگہ ہوتا تو اپنے جیسے نقادوں کی شکل تک نہ دیکھتا۔ جنرل گل سرد جنگ دورکے جنرل تھے۔ وہ اس یقین کے ساتھ زندہ رہے کہ پراکسی جنگوں اور نان اسٹیٹ ایکٹرزکے ذریعے بھارت، امریکہ ، افغانستان کو فتح کیا جاسکتا ہے، بس نان اسٹیٹ ایکٹرزکو استعمال کرتے رہو۔ پراکسی جنگوں میں معصوم لوگوں کا بہتا خون بھی انہیں اپنی منزل کی طرف ایک سفر لگتا تھا۔ انہیں کوئی نہ سمجھا سکا کہ دنیا بدل گئی ہے۔ یا شاید ہم جنرل گل کی بسائی ہوئی دنیا کو نہ سمجھ سکے۔ جنرل گل اپنی بسائی ہوئی رومانٹک دنیا اور خیالات سے رہائی نہیں چاہتے تھے۔ وہ اپنی اس سوچ کے قیدی رہے کہ دنیا نان اسٹیٹ ایکٹرز کے ذریعے فتح کی جاسکتی ہے۔ جنرل گل کوکوئی نہیں بدل سکتا تھا۔ باقی چھوڑیں، جو لوگ ماضی میں ان کے گرویدہ تھے وہ بھی اب ان کے خیالات سے نالاں ہوچکے تھے۔ میں پھر کہوں گا کہ جنرل گل کی یہ بہت بڑی خوبی تھی کہ انہوں نے اپنے بدترین ناقدین سے بھی پیارکیا،انہیں عزت دی، ان کے لاڈ اٹھائے، خیال رکھا، لیکن ان سے کبھی ہارنہیں مانی اور اپنی ہی شرائط پر جیے۔۔۔۔!
 
Last edited by a moderator:

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
ایک نظریاتی جرنیل
ابتسام الہی ظہیر
دنیا نیوز
19 اگست ، 2015ء
موت کا ذائقہ ہر انسان نے چکھنا ہے‘ لیکن بعض لوگ اپنے کردار اور عمل کا ایسا تاثر چھوڑ جاتے ہیں کہ مرنے کے باوجود بھی ان کے نقوش ہمیشہ کے لیے دل و دماغ پر ثبت ہو جاتے ہیں۔ انہی یادگار لوگوں میں جنرل حمید گل بھی شامل ہیں۔ حمید گل مرحوم نے انتہائی متحرک اور قابل رشک زندگی بسر کی اور ملک و ملت سے اپنی والہانہ وابستگی کے سبب دھرتی کے قابل فخر سپوتوں میں شامل ہوئے۔ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ حمید گل کی زندگی کا وہ حصہ جو انہوں نے سروس مین کے طور پرگزارا اس کی تفصیلات سے صحیح معنوں میں ان کے ہم عصر اور ہم پیشہ لوگ ہی واقف ہوں گے۔ لیکن اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے جس انداز میں اپنی زندگی گزاری‘ اس سے معاشرے کا ایک بڑا حصہ آگاہ ہے۔
مجھے بھی جنرل حمید گل کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع میسر آیا۔ دفاع پاکستان کونسل، ملی یکجہتی کونسل اور سی پی آر ڈی نامی ایک تھنک ٹینک کے پلیٹ فارم پر ان کے ہمراہ بہت سی تقریبات میں خطاب کاموقع بھی ملا۔ جنرل صاحب انتہائی خوش گفتار، ملنسار اور خوش طبع انسان تھے۔ ان کی گفتگو اور خطاب میں تسلسل اور خیالات میں غیرمعمولی ربط تھا۔ وہ اپنے نظریات کے ابلاغ میں انتہائی مہارت رکھتے تھے اور دلائل اور مثالوں کے ذریعے سامعین کے دلوںو دماغ کی گہرائیوں میں اپنی بات اتار دیتے تھے۔
جنرل صاحب نظریاتی اعتبار سے دائیں بازو سے وابستہ تھے اور اسلام اور پاکستان کے مخالفین کا ہمہ وقت تعاقب کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ انہوں نے ہمیشہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کی خواہش اور امید رکھی اور اس حوالے سے ہمیشہ موثر گفتگو اور خطاب فرماتے رہے۔ وہ نفاذ اسلام کے حوالے سے نہ تو جمہوری اور پارلیمانی راستہ اختیار کرنے کے حامی تھے اور نہ ہی اسلام کا نفاذ طاقت کے ذریعے کرنا چاہتے تھے۔ ان کا یہ ذہن تھا کہ ملک میں جاری پارٹی سسٹم نے عوام کو تقسیم کیا ہے اورعوام کو گروہوں اور ٹولیوں میں تقسیم کیے بغیر نفاذ اسلام اور خلافت راشدہ کے احیاء کے لیے تیارکر نا چاہیے۔ جنرل صاحب کا گمان تھا کہ فقط متواتر ابلاغ کے ذریعے بھی ایسا وقت آ سکتا ہے کہ لوگ نفاذ اسلام کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں۔ ان کا یہ گمان تھا کہ بڑی عوامی تحریک نفاذ اسلام پر منتج ہو سکتی ہے۔ ووٹ اور طاقت کے استعمال کے حامی جنرل صاحب کے روڈ میپ سے مطمئن نہ ہو پاتے لیکن پھر بھی جنرل صاحب کی اسلام پسندی کی وجہ سے ہمہ وقت ان کے احترام پر تیار رہتے تھے۔
جنرل صاحب سامراج کے بہت بڑے مخالف تھے لہٰذا افغانستان پر امریکی حملے کے خلاف بھر پور آواز اُٹھائی۔ وہ افغانیوں کی امریکہ کے خلاف جدوجہد کو ہر اعتبار سے درست قرار دیتے اور اس کو قومی آزادی کے لیے چلائی جانے والی ایک تحریک سمجھتے تھے۔ ان کی نظروں میں افغان بین الاقوامی سامراج کے جبر واستبداد کے خلاف جہاد میں مصروف تھے اور وہ اس حوالے سے اُٹھائے جانے والے سوالات اور اعتراضات کابھر پور جواب دیتے تھے ۔
جنرل صاحب نے دفاع پاکستان کے پلیٹ فارم سے نیٹو سپلائی کی بندش کے حوالے سے بھرپور جدوجہدکی ۔ مولانا سمیع الحق اور حافظ سعید کی ہمراہی میں ،مینار پاکستان، لیاقت باغ راولپنڈی، جناح باغ کراچی اور دیگر مقامات پر نیٹو سپلائی کی بندش کے لیے بھرپور آواز اُٹھائی۔ جب دفاع پاکستان کونسل نے لاہور سے اسلام آباد کے ڈی چوک کی طرف لانگ مارچ کیا تو گرمی کی شدت کی وجہ سے جنرل صاحب کی طبیعت ناساز ہو گئی اس کے باوجود وہ مختلف مقامات پر منعقد ہونے والے بڑے عوامی اجتماعات سے خطاب کرتے رہے۔ ان کا استقلال اس موقع پر دیدنی تھا ۔ جنرل صاحب کے بڑے بیٹے برادرم عبداللہ گل نے جنرل صاحب کی طبیعت کی خرابی کو دیکھتے ہوئے بڑے ادب اور احترام سے انہیں گھر واپس چلنے کا مشورہ دیا لیکن جنرل صاحب پوری استقامت سے لانگ مارچ میں شریک رہے۔ گو جنرل صاحب ملی یکجہتی کونسل کے باضابطہ رکن نہ تھے‘ اس کے باوجود فرقہ وارانہ تشدد کے خاتمے کے لیے کونسل کے اجلاسوں میں تشریف لاتے اور اتحاد اُمت کی برکات کے حوالے سے انتہائی موثر گفتگو فرماتے۔ آپ ملی وحدت کے لیے ملی یکجہتی کونسل کے ضابطہ اخلاق کی بھر پور حمایت کیا کرتے تھے اور ہمیشہ فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے قرآن وسنت کی طرف پلٹنے کی دعوت دیتے۔
جنرل صاحب قومی اور ملی مسائل پر ہونے والے ٹی وی مذاکرات میں بھی بکثرت شریک ہوتے اور اپنی فکر انگیز گفتگو کے ذریعے پوری قوم کی رہنمائی فرماتے۔ ان مذاکرات میں کئی مرتبہ آپ کی مڈبھیڑ سیکولر دانشوروںسے ہوتی جن کے سامنے آپ دھیمے انداز میں موثر دلائل رکھتے ۔ اکثر وبیشتر آپ کے مدمقابل شرکاء آپ کی شخصیت کی سحر انگیزی اور دلائل کے وزن کی وجہ سے لاجواب ہو جاتے۔ جنرل صاحب نے ہمیشہ پاکستان کے نظریاتی تشخص کو اجاگر کیا ۔ آپ پاکستان کو کسی بھی طور پر روایتی قومی ریاست کے طور پر قبول کرنے پر آمادہ نہیں تھے ۔ آپ کے نزدیک ایک کثیر القومی ریاست کے اتحاد ، بقاء اور ترقی کے لیے مذہب کا عنصر انتہائی ضروری تھا اور اس حوالے سے آپ اپنے موقف میں کسی بھی قسم کی لچک نہیں رکھتے۔ آپ کے نزدیک تحریک پاکستان کے قائدین کی جدوجہد کی سیکولر تعبیر ناقابل قبول تھی اور آپ اس تعبیر کوقیام پاکستان کے لیے دی جانے والی قربانیوں سے بے وفائی سمجھتے تھے۔
میں اور جنرل حمید گل سی پی آر ڈی نامی ایک تھنک ٹینک کے ممبر بھی رہے ۔ سی پی آر ڈی کے اجلاسوں میں ان کے افکار کو مزید قریب سے سننے اور جاننے کا موقع ملا۔ جنرل صاحب پاکستان کو دہشت گردی سے پاک ایک پر امن ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے ۔ آپ کے نزدیک پاکستان کے دشمن دہشت گرد ی کے ذریعے پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنا چاہتے تھے ۔اس تھنک ٹینک کے ممبران نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ٹھوس تجاویز پر مشتمل ایک ڈرافٹ بھی تیار کیا تھا جس کو ارکان کے مشترکہ دستخطوں کے ساتھ سول اورعسکری قیادت کوبھی روانہ کیا گیا تھا ۔
مرحوم حمید گل کے ملک کے تمام مذہبی حلقوں سے قریبی مراسم تھے ۔ حافظ محمد سعید، مولانا سمیع الحق اور سید منور حسن صاحب کے ساتھ ان کی ذہنی ہم آہنگی آخری وقت تک برقرار رہی ۔ جنرل صاحب عمر بھر فعال رہے اور ریٹائرمنٹ کے باوجود سر گرم تحریکی اور سماجی زندگی گزارتے رہے ۔ ان کی وفات پر ملک کے تمام مذہبی طبقات نے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا اور ملک و ملت کے تمام بہی خواہ آپ کی مغفرت اور اخروی کامیابی کے لیے دعا گو ہیں۔
جنرل حمید گل کی موت نے اس حقیقت کو بھی اجاگر کیا کہ ہر شخص کو اس دارفانی کو خیرباد کہہ کے اپنے پروردگار کی طرف لوٹناہے۔دنیا سے رخصت ہونا اورقبر میں اترنا ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار ممکن نہیں۔ ہر رہائشی کالونی اور آبادی میں بنائے جانے والے قبرستا ن انسانوں کی عارضی زندگی کی حقیقت کو واضح کر رہے ہیں لیکن انسان کی کوتاہ بینی ہے کہ وہ ہر روز انسانوں کو مرتا دیکھ کربھی خود کو لا فانی سمجھ رہا ہے۔ اوروں کے جنازوں کو جاتا دیکھ کر بھی موت کے احساس سے عاری یہ انسان سمجھتا ہے کہ شاید اس کا جنازہ کبھی نہیں اُٹھایا جائے گا۔ اے کاش کہ انسان زندگانی کی حقیقت کو صحیح طریقے سے سمجھ کر اپنی حقیقی منزل کا تعین کرنے میں کامیاب ہوجائے ۔
 
Last edited by a moderator:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
محترم ڈاکٹر صاحب ! آپ نے محنت کے ساتھ کالمز یہاں لگائے ہیں ، لیکن اکثر میں تصویریں ہیں ، جو کہ فورم کے قوانین کے خلاف ہے ۔
 

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
محترم ڈاکٹر صاحب ! آپ نے محنت کے ساتھ کالمز یہاں لگائے ہیں ، لیکن اکثر میں تصویریں ہیں ، جو کہ فورم کے قوانین کے خلاف ہے ۔

"خضر بھائی

میں اپنی" دانستہ"خلاف ورزی پر معذرت پیش کرتا ہوں۔

کالمز لگانا ضروری تھا جبکہ کمپیوٹر سے زیادہ فن آشنائی نھیں ھے
 

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
خضر بھائی۔

"دنیا نیوز" میں "جناب امیر حمزہ " کاایک خوبصورت کالم انکی" خوبصورت تصویر " کے ساتھ "حمید گل صاحب" پر لکھا گیاھے۔فورم کے" قوانین"کی پاسداری

اور آپکی "ہلکی سی تنبیہ"کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر کے "فن "سے" فنی نا آشنائی" آڑے آرھی ھے۔


مجھے امید ھے کہ

سر آئینہ میرا عکس ھے پس آئینہ کوئی اور ھے۔

مدعا گوش گزار ھے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
یادوں کے گلدستہ میں جنرل حمید گل
امیر حمزہ
دنیا نیوز
21 اگست ، 2015ء
جنرل حمید گل ہمیں چھوڑ کر چلے گئے، وہاں جہاں ہر ایک نے جانا ہے۔ جب تک وہ دنیا میں رہے دوست اور احباب بناتے رہے، اپنے حلقے بناتے رہے۔ صحیح بخاری میں اللہ کے رسولؐ کے فرمان کے مطابق روحوں کی دنیا میں جو لوگ آپس میں متعارف ہو جاتے ہیں، باہم جان پہچان کر لیتے ہیں، الفت و مؤدت کا ایک رشتہ بنا لیتے ہیں، اس دنیا میں جب وہ جسمانی وجود کے ساتھ ظاہر ہوتے ہیں تو یہاں بھی باہم متعارف ہو جاتے ہیں دوست بن جاتے ہیں... اگلی تیسری اور آخری منزل آخرت کی ہے۔ اس کے بارے میں اللہ اور اس کے رسولؐ واضح کرتے ہیں کہ جن کی محبت محض اللہ کی خاطر ہو گی، دنیاوی مفاد کی خاطر نہ ہو گی وہ جنت میں باہم دوست ہوں گے، باقی دوستیاں ختم ہو جائیں گی اور وہ محبت کا رشتہ جو محض اللہ کی خاطر ہو گا‘ ایسے دوستوں کو اللہ تعالیٰ نور کے منبروں پر جلوہ افروز فرمائے گا۔
جنرل حمید گل سے میرا رابطہ آج سے 25سال قبل اس وقت ہوا جب وہ ملتان کے کور کمانڈر تھے۔ میں نے انہیں خط لکھا۔ کیا لکھا؟ اب مجھے یاد نہیں البتہ ان کا جوابی خط آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔ یہ خط 28 اکتوبر 1990ء کو مجھے لکھا گیا تھا۔ خط کے آخر پر لکھتے ہیں ''اوپر لکھا ہوا میرا پتہ درست ہے‘‘۔ یعنی اس درست پتے پر رابطہ رہے گا اور پھر ایسا رابطہ ہوا کہ محبت و پیار میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔ 18 سال قبل مجھ پر حملہ ہوا تو پہلا فون انہی کا آیا۔ فرما رہے تھے: ''الحمدللہ! اللہ نے محفوظ رکھا۔ اپنا خیال رکھیے گا۔‘‘ 14 اپریل 2015ء کو میں عمرہ پر جانے کے لئے اپنی اہلیہ کے ہمراہ لاہور ایئر پورٹ پہنچا تو اللہ کے مہمان کو یہ کہہ کر روک دیا گیا کہ آپ کا نام اس فہرست میں ہے جو باہر نہیں جا سکتے۔ اگلے دن ایف آئی اے نے یہ خبر اخبارات کو جاری کر دی۔ جنرل صاحب نے پھر مجھے فون کیا، فرمایا: ''پریشان نہیں ہونا، لگتاہے کسی غلط فہمی کی بنا پر آپ کا نام ڈال دیا گیا ہے۔ میری خدمات حاضر ہیں۔‘‘ لیکن میں نے روکنے والوں کا معاملہ اس اللہ میزبان کے سپرد کر دیا جس کے مہمان کو بلاوجہ روکا گیا۔
جنرل صاحب کے گھر ڈرائنگ روم میں بیٹھا تھا۔ وہاں پتھر کا ایک ٹکڑا پڑاتھا۔ ساتھ ہی تحریر بھی تھی۔ اس پتھر کا تعلق دیوار برلن سے تھا۔ جرمنی کو جب روس نے شکست سے دوچار کیا تو جرمنی دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ مشرقی جرمنی میں روس کا کمیونزم تھا جبکہ مغربی جرمنی میں جمہوری نظام اور آزادی تھی، ساتھ خوشحالی بھی تھی۔ برلن شہر کے وسط میں دیوار کر دی گئی تھی۔ یوں رشتوں کو کاٹ دیا گیا تھا۔ کتنے ہی لوگ اس دیوار کو کراس کرتے ہوئے اور پھلانگتے ہوئے مارے گئے تھے۔ جب افغانستان میں روس کو شکست ہوئی اور 14ٹکڑے آزاد ملکوں کی صورت میں اس سے الگ ہوئے تو مشرقی یورپ کے ممالک کمیونزم سے بھی آزاد ہوگئے۔ اس موقع پر جرمنی کی دیوار کو توڑ دیا گیا۔ برلن کی دیوار کے ٹکڑے ہو گئے۔ یہ ٹکڑے عجائب گھروں میں محفوظ ہوئے۔ ایک ٹکڑا جنرل حمید گل کو بھیجا گیا۔ جنرل صاحب کے نام جو تحریر میں پڑھ رہا تھا اس پر جرمنی کے حکمرانوں نے لکھا: ''جنرل گل صاحب! اس دیواربرلن کو ہم نے نہیں آپ نے گرایا ہے۔ آپ کے کردار سے گرا ہوا ایک ٹکڑا آپ کی خدمت میں پارسل کر رہے ہیں۔ ‘‘
دفاع پاکستان کونسل کے جلسوں میں جب میں اپنی تقریر میں مذکورہ واقعہ کا تذکرہ کرتا اور کبھی جنرل صاحب کو مائیک پر آنے کی دعوت مذکورہ واقعہ کے حوالے سے دیتا تو جنرل حمید گل شکریے کے ساتھ عجز و انکسار کا مجسمہ بنے ہوئے خطاب کے لئے آتے اور چہرہ یوں کھل اٹھتا جیسے گلاب کے پھول نے ابھی ابھی اپنی سرخ پنکھڑیوں کو کھول کر گلستان کے حسن اور عطر بیزی میں اضافہ کر دیا ہو۔
ایک بار میں نے ان سے پوچھا: ''جنرل ضیاء الحق مرحوم کے ساتھ آپ نے ایک عرصہ تک کام کیا۔ روس کے خلاف لڑتے رہے۔ کوئی اہم اور ذاتی واقعہ۔‘‘ فرمانے لگے: ''ہم معمول سے ہٹ کر رات کو کسی خفیہ جگہ پر بھی میٹنگ کر لیتے۔ بعض اوقات صدر صاحب میرے گھر میں آ جاتے۔ بغیر سکیورٹی کے ایک بار آ گئے۔ ہم رات دیر تک پروگرام بناتے رہے۔ بیگم صاحبہ نے تیتر بٹیر کا سالن تیار کیا۔ جنرل ضیاء الحق نے شوق سے کھایا۔ یوں دشمن کو شکار کرنے کی تدبیریں راتوں کے رت جگے میں ہم لوگ کرتے تھے۔‘‘ جب ہم نے مولانا سمیع الحق کی قیادت میں لاہور سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا تو جنرل صاحب کے ساتھ ٹرک پر رہے۔ پھر گجرات میں ایک محبت کرنے والی شخصیت کے ہاں اکٹھے قیام کیا۔ پھر گاڑی میں اکٹھے ہی اسلام آباد تک سفر کیا۔ اس سفر کے دوران جنرل صاحب سے مختلف موضوعات پر دنیا جہان کی باتیں ہوتی رہیں۔ عبداللہ گل بھی ہمراہ تھے۔ جنرل صاحب مجھ سے فرمانے لگے: ''یورپ کے یہ نامراد لوگ جو توہین آمیز خاک بناتے ہیں آپ نے ''رویے میرے حضورؐ کے‘‘ لکھ کر بڑا عمدہ کام کیا ہے، مگر جن روایات پر وہ جاہلانہ اعتراض کرتے ہیں، آپ علماء کو اکٹھا کر کے زبردست قسم کا علمی جواب تیار کروائیں اور اپنے قلم سے یہ خدمت انجام دیں۔‘‘ مجھ سے باتیں کرتے ہوئے حضورؐ کی محبت میں یوں لگ رہا تھا جیسے حمید گل کے منہ سے حب رسولؐ کے پھولوں کی پتیاں جھڑ رہی ہیں۔ ایک بار اپنے گھر کے لان میں مجھ سے گفتگو کرتے ہوئے فرمانے لگے: ''پاک فوج کے لئے جہاد کے موضوع پر آپ ایک کتاب لکھیں، میں نے دیکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے قلم میں تاثیر اور قوت رکھی ہے۔‘‘
بہرحال! ان کے ساتھ محبتوں اور قربتوں کا رشتہ 25سال یعنی ایک صدی کے چوتھے حصے پرپھیلا ہوا ہے، چند صفحات پر حقِ ادائیگی ناممکنات میں سے ہے۔
چند ماہ قبل آئی ایس آئی کے موجودہ چیف جنرل رضوان اختر نے اپنے محترم بزرگ حمید گل کو آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹر میں تشریف فرما ہونے کی دعوت دی۔ یقینا حالات سے بھی آگاہ کیا گیا اور خصوصی عزت افزائی یہ تھی کہ جنرل گل صاحب کو ان کی خدمات پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے خصوصی اعزاز سے نوازا گیا۔ بحمداللہ! پاکستان دہشت گردی کے بھنور سے نکل چکا ہے، مضبوط اور طاقتور ہوتا چلا جا رہا ہے، ضربِ عضب کی کاٹ میں تسلسل، غیر جانبداری اور عدل کی نگہداری ہے۔ اس پر جنرل حمید گل بہت خوش تھے۔ 69ویں یوم آزادی پر وزیراعظم میاں نوازشریف نے جس طرح آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور پاک فوج کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا اور کنونشن سنٹر میں ان کی موجودگی میں جس طرح شرکاء نے جنرل راحیل شریف کا پرتپاک استقبال کیا اور والہانہ انداز سے محبت کا اظہار کیا، بلوچستان میں 400فراری ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہوئے، یہ سب کچھ دیکھ کر جنرل حمید گل انتہائی خوش تھے۔ ایک کم 70ویں یوم آزادی پر یہ منظر کس قدر ایمان افروز تھا کہ جنرل ناصر جنجوعہ ہتھیار ڈالنے والوں سے کہہ رہے تھے: ''ہم اسلام اور پاکستان کے لئے لڑتے ہیں، یہی دینِ اسلام کا تقاضا ہے جبکہ کسی اور مقصد (قومیت پرستی وغیرہ) کے لئے لڑنا شرک ہے۔ جو بھی ہتھیار ڈال کر قومی پرچم تھام لے وہ ہمارا بھائی ہے،ہم اسے گلے لگا لیں گے۔‘‘ یوں اس یوم آزادی پر پاک فوج نے اپنے جوانوں کے گلے کاٹنے والوں کے لئے معافی کا اعلان، بھائی بنا کر گلے لگانے کا اعلان اور عمل کر کے حضور رحمت دو عالمؐ کی سنت کو تازہ کر دیا جب آپﷺ نے مکہ فتح کر کے حضرت حمزہؓ کا کلیجہ چبانے والی ہند اور قاتل وحشی تک کو معاف کر دیا تھا۔ یہ سارے مناظر دیکھ کر جنرل حمید گل بہت خوش تھے۔ وہ اپنی اس خوشی کا اظہار جناب کامران شاہد کے ساتھ اپنی گفتگو میں بھی کر رہے تھے۔ وہ بے لاگ ہوتے ہوئے احتساب پر اس قدر خوش تھے کہ انہوں نے اعلان کیا کہ فوج کے اندر جو احتساب کا عمل شروع ہوا ہے‘ اس کے سامنے میں اپنے آپ کو پیش کرتا ہوں، آغاز مجھ سے کیا جائے۔ جی ہاں! ایسا اعلان وہی کر سکتا ہے جس کا دامن صاف ہو۔ جنرل صاحب نے مقبوضہ کشمیر میں آسیہ اندرابی جیسی دلیر خاتون کو دیکھا کہ وہ 14اگست کو کس طرح یومِ پاکستان منا رہی ہیں اور کس طرح دلیری کے ساتھ 15اگست کو یوم سیاہ کے طور پر احتجاج کر رہی ہیں۔ یوں14اور 15اگست کے مناظر دیکھ کر... اور پھر ٹی وی کی سکرین پر یوم سیاہ کے منظر سے کشمیر کی آزادی کی صبح کو طلوع ہوتے چشم تصور میں دیکھتے ہوئے وہ اس جہان سے رخصت ہو گئے۔ اللہ کے حضور دعا ہے کہ مولا کریم! حمید گل تیرا ایک بندہ تھا، بشری خطائوں اور کمزوریوں کا حامل تھا۔ نیکیاں اور اچھائیاں قبول فرما لیں۔ کمزوریوں سے درگزر فرما لیں۔ ان کی رفیقۂ حیات، بیٹی عظمیٰ گل، بیٹوں عمر اور عبداللہ گل اور تمام لواحقین کو صبرِ جمیل اور جنرل گل کو فردوس کے کھلے پھولوں کی بہار عطا فرما دے۔ (آمین)
 
Top