لفظ حدیث بارے آپ کی تحقیق پر لکھنے کے بجائے موضوع پر ہی بات کرنا درست ہے۔
در حقیقت قصہ یوں ہیکہ امام ابو حنیفہ اپنی مجلس میں جب اپنے طلباء سے ہم کلام ہوتے اور کوئی نیا مسئلہ درپیش ہوتا تو سب سے پہلے وہ سب سے کمزور ترین قول کو لاتے تھے اور اس قول کو ہر ممکن دلیل سے ثابت فرماتے تھے۔ جب طلباء اس بات کے قائل ہوجاتے تو ان سے فرماتے تھے کہ میں جتنی بھی باتیں کیں سب بے وزنی ہیں۔ آپکا مقصد یہ ہوتا تھاکہ یہ قول اور اسکی تمام دلیلیں غلط ہیں اور اب تک جتنی بھی باتیں میں نے کیں اور تم لوگ اسکے قائل ہوگئے وہ سب کمزور باتیں تھیں۔ اسکے بعد اصل مسئلہ پر روشنی ڈالتے تھے۔
کوئی مثال ؟ ۔۔۔
مگر بعض ساتھیوں کو یہاں پر بھی غلط فہمی ہوگئی اور انہوں نے (یحدثنا) کا ترجمہ حدیث رسول صلي اللہ علیہ وسلم سے کردیا حالانکہ یہ بات غلط ہے
میرے خیال میں یعقوب بھائی آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ جس ترجمہ کو آپ غلط کہہ رہے ہیں۔ وہ ترجمہ پہلی پوسٹ میں سرے سے ہے ہی نہیں۔ گرافکس میں موجود قول کو یہاں دوبارہ پیش کیا جارہا ہے
" سمعت محمود بن غيلان قال سمعت المقري يقول سمعت ابا حنيفة: عامة ما أحدثكم خطاء " (علل الترمذی الکبیر ص388)
امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے محمود بن غیلان کو سنا وہ کہہ رہے تھےکہ میں نے ابو عبدالرحمٰن عبداللہ بن یزید المقری کو سنا انہوں نے فرمایا کہ میں نے ابوحنیفہ کو یہ کہتے سنا ’اکثر وہ باتیں جو میں تمہیں بیان کرتا ہوں غلط ہوتی ہیں ‘
اب آپ ہمیں بتائیں کہ اس میں آپ والا ترجمہ کہاں کیا گیا ہے۔۔ ہاں اگر آپ کا اشارہ اسی قبیل سے کسی اور پوسٹ کی طرف سے تو اس طرف بھی رہنمائی فرمادیں۔
کیونکہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ سے محض حدیث کی مجلس ثابت ہی نہیں بلکہ آپکی مجالس میں نصوص قرآن وسنت اور اسکے معنی سمجھنے اور سمجھانے پر بحث ہوا کرتی تھی اور آپکا مقصد یہ ہوتا تھا کہ اس مسئلہ کو ثابت کرنے کیلئے میں نے جتنے بھی دلائل دئیے ان سے اس مسئلہ کی دلیل نہیں نکلتی۔
مثال ؟
ان تمام جگہوں پر لفظ (یحدث) ہم کلامی کے معنی میں مستعمل ہے نہ کہ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کرنے کےمعنی میں
جب آپ والا معنیٰ کیا ہی نہیں گیا تو آپ کہہ بھی نہیں سکتے۔
اگر ہم نے یہی معنی لیا تو اس عبارت کا ترجمہ یوں ہوگا
عامۃ ما ٲحدثکم بہ خطٲ
ترجمہ یعنی میں اپنے درس میں جان بوجھ اکثر غلط دلیلیں بیان کرتا ہوں
مقصد یعنی غلط دلیلیں دے کر تمہاری فقاہت کا امتحان بھی لیتا ہوں اور تمہیں فقاہت سکھانا بھی مقصود ہوتا ہے۔
اور ہماری طرف سے ترجمہ یوں کیا گیا ہے۔۔۔
’اکثر وہ باتیں جو میں تمہیں بیان کرتا ہوں غلط ہوتی ہیں ‘۔۔آپ نے یعنی سے جو مزید باتوں کو ترجمہ میں ذکر کیا ہے۔یا وضاحت کی ہے ان کے شواہد پیش کرسکتے ہیں ؟
یہ صرف ایک تحقیق ہے جسکا صحیح اور غلط ہونا دلائل ظنیہ پر مبنی ہے کوئی اس سے غلط مطلب نہ نکالے۔
جزاکم اللہ خیرا
اگر اس طرح کی تحقیق اختلافی مسائل میں کی جاتی اور پھر تقلید سے جان چھڑا کر صرف راجح پر ہی عمل کیا جاتا تو بہت فائدہ ہوتا۔۔۔