• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حنفی مذہب میں بھی عورت کو مسجد میں اعتکاف کی اجازت ہے

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
تھریڈ شروع کرنے والے نے شروع میں ہی اپنی علمی امانت داری کا ثبوت دیاہے،عبارت آدھی ادھوری نقل کی ہے،پوری عبارت یہ ہے جو ذیل میں نقل کی جارہی ہے،
(قوله أما المرأة فتعتكف في مسجد بيتها) أي الأفضل ذلك، ولو اعتكفت في الجامع أو في مسجد حيها وهو أفضل من الجامع في حقها جاز، وهو مكروه ذكر الكراهة قاضي خان. ولا يجوز أن تخرج من بيتها ولا إلى نفس البيت من مسجد بيتها إذا اعتكفت واجبا أو نفلا على رواية الحسن
فتح القدير للكمال ابن الهمام (2/ 394)

عورت کیلئے بہتر ہے کہ وہ اپنے گھر کے مسجد میں اعتکاف کرے ،لیکن اگر وہ محلہ میں یاجامع مسجد میں اعتکاف کرتی ہے توجائز ہے،لیکن جامع مسجد سے بہتر محلہ کی مسجد اورمحلہ کی مسجد سے بہتر گھر کی مسجد میں اعتکاف کرناہے، گھر کی مسجد سے مراد گھر کا وہ حصہ جو نماز کیلئے خاص کرلیاجائے،آگے لکھتے ہیں کہ محلہ کی مسجد یاجامع مسجد میں عورت کیلئے اعتکاف کرنامکروہ ہے،اب کوئی یہ اعتراض نہ کرے کہ اگلی سطر میں جواز کاکہہ کر پچھلی سطر میں مکروہ کہاجارہاہے، تومکروہ اور جواز میں منافات نہیں ہے، ایک چیز کراہت کے ساتھ بھی جائز ہوسکتی ہے۔عورت کیلئے محلہ کی مسجد یاجامع مسجد میں اعتکاف کرنے کا مکروہ ہونا قاضی خان نے بیان کیاہے،کراہت کی بات چھوڑ دینا اور جواز کی بات کو نقل کرنا یہ علمی امانت داری کی کون سی قسم ہے یہ تو وہی جانیں لیکن اہل علم کے یہاں اس کو کچھ اورکہاجاتاہے۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
تومکروہ اور جواز میں منافات نہیں ہے، ایک چیز کراہت کے ساتھ بھی جائز ہوسکتی ہے۔
تو پھر تھریڈ شروع کرنے والے کو خواہ مخواہ کوسنے کیوں دیئے جا رہے ہیں!
غالباً یہ غم کھائے جا رہا ہے کہ علمائے مقلدین حنفیہ جو عوام سے جو چھپاتے ہیں، وہ بیان کر دیاہے!
 
Last edited:

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
تو پھر تھریڈ شروع کرنے والے کو خواہ مخواہ کوسنے کیوں دیئے جا رہے ہیں!
غالباً یہ غم کھائے جا رہا ہے کہ علمائے مقلدین حنفیہ جو عوام سے جو چھپاتے ہیں، وہ بیان کر دیاہے!
یہ ہے غیرمقلدین کے عقل اورفہم کا معیار !
یعنی جب کوئی چیز جواز کے ساتھ مکروہ ہو تو صرف جواز کا ذکر کردیاجائے اورکراہت کا ذکر نہ کیاجائے تواس سے کوئی فرق نہیں پڑتا،اس عقل اورفہم پر ایسے لوگ فقہائے احناف کے منہ آنے کی سوچتے ہیں،ابن دائود اس کا جواب توبن نہیں پڑا کہ جواز کا قول نقل کرنے کے بعد اسی کے ساتھ کراہت کا جوقول ہے اس کو کیوں چھوڑدیاگیاتو لے آئے اپنا غیرمقلدانہ علم کلام۔
یہ تومجھے شروع سے یقین ہے کہ فقہ اورفقہاء سے دشمنی کی بدولت اللہ ایسے لوگوں کی عقل سلب کرلیتے ہیں لیکن ان کو یہی گمان رہتاہے کہ وہ بہت عقل والے ہیں اوربڑی عقل کی باتیں کررہے ہیں :
الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا

کراہت اورجواز میں منافات اس طورپر نہیں ہے کہ کسی چیز کے مکروہ ہونے سے اس کا جواز ہی ختم ہوجائے لیکن کراہت کا ہونایہی واضح طورپر بتارہاہے کہ یہ کام افضل اورپسندیدہ نہیں ہےاورکسی چیز کے جواز کا ذکر کرنااوراگروہ کراہت کے ساتھ جائز ہے تواس کراہت کا ذکرنہ کرنااہل علم کے نزدیک نقل میں خامی اورقصور ہے اوربالخصوص اگرآپ کسی فریق کا موقف نقل کررہے ہیں توایمانداری سے نقل کریں،فریق توکہے کہ یہ چیز کراہت کے ساتھ جائز ہے اورآپ صرف جواز پر اٹک جائیں۔

دوسری بات یہ چھپنے اورچھپانے والے کام آپ ہی حضرات کرتے ہیں، یقین نہ ہو تو جائزہ لے لیں، نواب صدیق حسن خان اوراشاعۃ السنۃ کے مدیرمحمد حسین لاہوری کی وہ باتیں یاوہ کتابیں جن سے اہل حدیث کے موقف پر زد پڑتی ہو،شائع کرناہی چھوڑدیاہے کہ نہ شائع ہوں گی اور نہ ہی کوئی ان سے واقف ہوسکے گا،میرے ذہن میں اس وقت دوکتابیں آرہی ہیں، ایک نواب صدیق حسن خان کی تعویذ پر لکھی کتاب ہے اور حسین لاہوری صاحب کی جہاد کے مسئلہ پر ،اب کسی اہل حدیث مکتبہ سے اس کا سراغ مل پانابہت مشکل ہے،اس کے برعکس فتح القدیر ہمیشہ سے اہل علم کے درمیان تھی،اب بھی ہے اورکل بھی رہے گی،اس پر بھی احناف کو چھپانے کا طعنہ دینا جہالت اوربے شرمی ہے۔
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یہ ہے غیرمقلدین کے عقل اورفہم کا معیار !
یعنی جب کوئی چیز جواز کے ساتھ مکروہ ہو تو صرف جواز کا ذکر کردیاجائے اورکراہت کا ذکر نہ کیاجائے تواس سے کوئی فرق نہیں پڑتا،اس عقل اورفہم پر ایسے لوگ فقہائے احناف کے منہ آنے کی سوچتے ہیں،ابن دائود اس کا جواب توبن نہیں پڑا کہ جواز کا قول نقل کرنے کے بعد اسی کے ساتھ کراہت کا جوقول ہے اس کو کیوں چھوڑدیاگیاتو لے آئے اپنا غیرمقلدانہ علم کلام۔
یہ تومجھے شروع سے یقین ہے کہ فقہ اورفقہاء سے دشمنی کی بدولت اللہ ایسے لوگوں کی عقل سلب کرلیتے ہیں لیکن ان کو یہی گمان رہتاہے کہ وہ بہت عقل والے ہیں اوربڑی عقل کی باتیں کررہے ہیں :
الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا
اس مذکورہ آیت کا مصداق ااہل الرائے قرار پاتے ہیں، کہ جنہوں نے اپنے اٹکل پچو کو بہت اپنی اٹکل کا بہت بڑا کارنامہ سمجھ رکھا ہے!
اس پر مزید کہ مقلدین حنفیہ کا ہٹ دھرم ہونا ، بار بار ثابت ہوتا رہتا ہے! اور یہ ہٹ دھرمی انہیں وراثت میں ملی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
أَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ، ثنا أَبِي، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي سُرَيْجٍ، قَالَ: سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ، يَقُولُ: " سَمِعْتُ مَالِكًا، وَقِيلَ لَهُ: أَتَعْرِفُ أَبَا حَنِيفَةَ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، مَا ظَنُّكُمْ بِرَجُلٍ، لَوْ قَالَ هَذِهِ السَّارِيَةُ مِنْ ذَهَبٍ، لَقَامَ دُونَهَا، حَتَّى يَجْعَلَهَا مِنْ ذَهَبٍ، وَهِيَ مِنْ خَشَبٍ أَوْ حِجَارَةٍ؟ ".
قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: يَعْنِي أَنَّهُ كَانَ يَثْبُتُ عَلَى الْخَطَأِ وَيَحْتَجُّ دُونَهُ، وَلا يَرْجِعُ إِلَى الصَّوَابِ، إِذَا بَانَ لَهُ

امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ سے کہاگیا کہ کیا آپ ابوحنیفہ کو جانتے ہیں ؟ تو انہوں نے کہا جی ہاں ! اس آدمی کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جو اس کھمبے کو سونے کا کھمبا کہہ دے تو اسے سونے ہی کا ثابت کرنے لگ جائے گا یہاں تک کہ اسے سونے ہی کابناڈالے گا جب کہ حقیقت میں وہ لکڑی یا پتھر کا ہوگا۔
ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے کہا: یعنی امام مالک کی مراد یہ ہے کہ ابوحنیفہ ہٹ دھرمی کرتے ہوئے غلطی پر مصر رہتا تھا اور اس کے سامنے صحیح بات واضح ہوجاتی تھی تب بھی اس کی طرف رجوع نہیں کرتا تھا۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 162 آداب الشافعي ومناقبه - ابن أبي حاتم الرازي (المتوفى: 327هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 212 آداب الشافعي ومناقبه - ابن أبي حاتم الرازي (المتوفى: 327هـ) - مكتبة الخانجي، القاهرة

رہی بات فقہائے احناف کی توان کے اٹکل پچو کے ابطال کے لئے اس کا بیان ضروری ہے، وگرنہ اکثر فقہائے احنفاف بالخصوص اکثر علمائے دیوبند کو منہ لگانے کی کوئی حاجت نہیں!
ویسے یہ اہل الرائے اپنے اٹکل پچو کی بنا پر اپنی اٹکل یعنی عقل پر بہت ناز کرتے ہیں، جبکہ درحقیقت ان کی بیوقفی ہے! کہ عقل کتاب و سنت کی کے تابع ہے، نہ کہ کتاب سنت کو اپنی اٹکل کی بنا پر رد کرنا !
یہ مقلدین کہ جن کا ایمان ناقص ہے وہ لوگوں کو عقل و فہم سکھانے بیٹھے ہیں!
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا (سورة النساء 59)
اے ایمان والو الله کی فرمانبرداری کرو اور رسول کی فرمانبرداری کرو اور ان لوگوں کی جو تم میں سے حاکم ہوں پھر اگر آپس میں کوئی چیز میں جھگڑا کرو تو اسے الله اور اس کے رسول کی طرف پھیرو اگر تم الله اور قیامت کے دن پر یقین رکھتے ہو یہی بات اچھی ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت بہتر ہے (ترجمہ احمد علی لاہوری)
اب حنفی مقلدین اختلافی مسائل میں قرآن و حدیث کی طرف رجوع کرنے کے بجائے، اپنے امام و مُقَلَد اور اپنی فقہاء پر ہٹ دھرم رہتے ہوئے ، اپنےاللہ اور آخرت پر اپنے ایمان کے ناقص ہونے کا ثبوت دیتے ہیں!
اب یہ مقلدین حنفیہ کہ جن کا ایمان ناقص، وہ اہل الحدیث کی عقل و فہم پر طعن کریں!
ان کی اپنی عقل و فہم کے ناقص ہونے کا خود انہیں اعتراف ہے کہ انہیں نہ قرآن سمجھ آتا ہے، نہ حدیث سمجھ آتی ہے، اس لئے تقلید کرتے ہیں!
کراہت اورجواز میں منافات اس طورپر نہیں ہے کہ کسی چیز کے مکروہ ہونے سے اس کا جواز ہی ختم ہوجائے لیکن کراہت کا ہونایہی واضح طورپر بتارہاہے کہ یہ کام افضل اورپسندیدہ نہیں ہے
تھریڈ شروع کرنے والے نے صرف جواز بیان کیا ہے! اور جواز کا ثبوت آپ بھی بیان کر رہے ہیں! یہی بات تھریڈ شروع کرنے والے نے بیان کی ہے! کہ فقہ حنفی میں بھی عورتوں کو مسجد میں اعتکاف کرنے کا جواز ہے!
تھریڈ شروع کرنے والے نے اسے فقہ حنفی کے حوالہ سے صرف جواز ہی ذکر کیا ہے، اسے افضل نہیں کہا!
اورکسی چیز کے جواز کا ذکر کرنااوراگروہ کراہت کے ساتھ جائز ہے تواس کراہت کا ذکرنہ کرنااہل علم کے نزدیک نقل میں خامی اورقصور ہے اوربالخصوص اگرآپ کسی فریق کا موقف نقل کررہے ہیں توایمانداری سے نقل کریں،فریق توکہے کہ یہ چیز کراہت کے ساتھ جائز ہے اورآپ صرف جواز پر اٹک جائیں۔
یہ اس صورت ہوتا جب تھریڈ شروع کرنے والے نے اس کے افضل ہونے کا کہا ہوتا، یا فقہ حنفیہ میں اس کی کراہت نفی کی ہوتی، اس صور ت میں مذکورہ حوالہ مفید نہ تھا! کیونکہ وہاں کراہت بھی مذکور ہے!
لیکن تھریڈ شروع کرنے والے کراہت کی نفی نہیں کی!
ہاں عبد الحئی لکھنوی کا مؤقف بلا کراہت جواز کا ہے! جسے عمر اثری بھائی نے اس تھریڈ میں نقل کیا ہے!
برصغیر کے حنفی عالم علامہ عبدالحئی لکھنوی حنفی (١٢٦٤۔١٣٠٤ھ)لکهتے ہیں :
لو اعتکفت فی مسجد جماعة فی خباء ضرب لها فيه ، لا بأس به ، لثبوت ذالک عن أزواج النّبیّ صلی الله علیه وسلم فی عهدہ کما ثبت فی صحيح البخارى ۔
''اگر عورت ایسی مسجد میں جس میں نماز باجماعت ہوتی ہو اور اس کے لیے خیمہ لگایا گیا ہو ، اعتکاف کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ، کیونکہ اس کا ثبوت عہد ِ نبوی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے ملتا ہے ، جیسا کہ صحیح بخاری سے ثابت ہے ۔''
(عمدۃ الرعایۃ : ١/٢٥٥)
قوله: تعتكف في بيتها؛ أي يستحبّ لها أن تعتكفَ في مسجدِ بيتها؛ لأنّه أبعدُ عن الفتنة، ومبنى حالها على الستر، فلو اعتكفتَ في مسجدِ جماعةٍ في خباءٍ ضربَ لها فيه لا بأسَ به لثبوتِ ذلك عن أزواجِ النبيّ صلى الله عليه وسلَّم في عهده، كما ثبت في ((صحيح البخاريّ)) وغيره.
ابھی تک تو فقہ حنفیہ کے بیان کی بات تھی!
یہاں یہ بھی کہتا چلوں کہ فقہ حنفیہ کا یہ مسئلہ کہ عورتوں کے لئے اعتکاف مسجد میں مکروہ ہے، اور گھر میں افضل!
یہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی مقابلہ میں اپنے اٹکل پچو کو شاہکار اور باطل ہے!
دوسری بات یہ چھپنے اورچھپانے والے کام آپ ہی حضرات کرتے ہیں، یقین نہ ہو تو جائزہ لے لیں، نواب صدیق حسن خان اوراشاعۃ السنۃ کے مدیرمحمد حسین لاہوری کی وہ باتیں یاوہ کتابیںجن سے اہل حدیث کے موقف پر زد پڑتی ہو،شائع کرناہی چھوڑدیاہے کہ نہ شائع ہوں گی اور نہ ہی کوئی ان سے واقف ہوسکے گا،میرے ذہن میں اس وقت دوکتابیں آرہی ہیں، ایک نواب صدیق حسن خان کی تعویذ پر لکھی کتاب ہے اور حسین لاہوری صاحب کی جہاد کے مسئلہ پر ،اب کسی اہل حدیث مکتبہ سے اس کا سراغ مل پانابہت مشکل ہے،اس کے برعکس فتح القدیر ہمیشہ سے اہل علم کے درمیان تھی،اب بھی ہے اورکل بھی رہے گی،اس پر بھی احناف کو چھپانے کا طعنہ دینا جہالت اوربے شرمی ہے۔
ارے میاں! جب آپ نے خود کہا ہے کہ اس سے اہل حدیث کے مؤقف پر زد پڑتی ہے، یعنی یہ اہل الحدیث کا مؤقف نہیں، تو ہم کیوں اس کی اشاعت کریں؟
ہاں جس کا یہ مؤقف ہو وہ اس کی اشاعت کرنا چاہے تو کرے! اور ہم نے کسی کی تقلید کا پٹہ تو نہیں ڈالا کہ اس کسی امتی کے ہر قول و مؤقف کو اختیار کریں، اور اس مؤقف خواہ مخواہ کا دفاع کرتے پھریں!
ہاں اگر کوئی اپنے کسی مؤقف سے رجوع کرلے، تو پھر اس پر اپنے پچھلے مؤقف کا الزام بھی نہیں آتا!
خیر رجوع ہو یا نہ ہو، ہم کسی بھی امتی کے کسی مؤقف کو جسے ہم غلط و باطل سمجھتے ہیں، بلکل بیان کرتے ہیں!
ویسے میں نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ فتح القدیر اہل علم کے درمیان نہیں ہے، میں نے عوام سے چھپانے کا کہا تھا!
آپ کا اس خلط مبحث کے بغیر چارہ نہیں تھا! کوئی بات نہیں، مقلدین کا ایسا کرنا کوئی اچھنبے کی بات نہیں!
بات علمی خیانت کی ہے، تو عرض ہے کہ یوں تو میں ایک تھریڈ کی بات دوسرے تھریڈ میں اس طرح نہیں کیا کرتا، بیان تو میں اسی تھریڈ میں کروں گا، جہاں آپ نے آج ہی اس کے خوب جوہر دکھلائیں ہیں!
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
أَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ، ثنا أَبِي، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي سُرَيْجٍ، قَالَ: سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ، يَقُولُ: " سَمِعْتُ مَالِكًا، وَقِيلَ لَهُ: أَتَعْرِفُ أَبَا حَنِيفَةَ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، مَا ظَنُّكُمْ بِرَجُلٍ، لَوْ قَالَ هَذِهِ السَّارِيَةُ مِنْ ذَهَبٍ، لَقَامَ دُونَهَا، حَتَّى يَجْعَلَهَا مِنْ ذَهَبٍ، وَهِيَ مِنْ خَشَبٍ أَوْ حِجَارَةٍ؟ ".
قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: يَعْنِي أَنَّهُ كَانَ يَثْبُتُ عَلَى الْخَطَأِ وَيَحْتَجُّ دُونَهُ، وَلا يَرْجِعُ إِلَى الصَّوَابِ، إِذَا بَانَ لَهُ

امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ سے کہاگیا کہ کیا آپ ابوحنیفہ کو جانتے ہیں ؟ تو انہوں نے کہا جی ہاں ! اس آدمی کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جو اس کھمبے کو سونے کا کھمبا کہہ دے تو اسے سونے ہی کا ثابت کرنے لگ جائے گا یہاں تک کہ اسے سونے ہی کابناڈالے گا جب کہ حقیقت میں وہ لکڑی یا پتھر کا ہوگا۔
ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے کہا: یعنی امام مالک کی مراد یہ ہے کہ ابوحنیفہ ہٹ دھرمی کرتے ہوئے غلطی پر مصر رہتا تھا اور اس کے سامنے صحیح بات واضح ہوجاتی تھی تب بھی اس کی طرف رجوع نہیں کرتا تھا۔
یہ ابن ابی حاتم بالکل آپ ہی جیسے عقل وفہم کے ایک بزرگ تھے، ابن قیم نے اعلام الموقعین میں ان کے والد ابوحاتم کواس گروہ میں شمار کیاہے جو نرے محدث تھے اورفقاہت سے بے گانہ تھے اورمزید محدثین کاشمار کیاہے۔
قسم حفاظ) معتنون بالضبط والحفظ والأداء كما سمعوا.
ولا يستنبطون ولا يستخرجون كنوز ما حفظوه.
وقسم معتنون بالاستنباط واستخراج الأحكام من النصوص، والتفقه فيها.
فالأول كأبي زرعة وأبي حاتم وابن دارة.
وقبلهم كبندار ومحمد بن بشار وعمرو الناقد وعبد الرزاق، وقبلهم كمحمد بن جعفر غندر وسعيد بن أبي عروية وغيرهم من أهل الحفظ والاتقان والضبط لما سمعوه، من غير استنباط وتصرف وأستخراج الأحكام من ألفاظ النصوص.
الوابل الصيب من الكلم الطيب (ص: 59)

ظاہر ہے اپنے والد سے محض حفظ کی وراثت ابن ابی حاتم نے پائی اوراسی تفقہ کی کمی کی وجہ سے جوچیز مدح کی تھی اس کو ذم کی بات بنادیا،ابن ابی حاتم کےعلاوہ تمام ترجمہ نگاروں نے بشمول مزی ذہبی،ابن حجر اوردیگر تمام نےامام مالک کے اس قول کو ،مدح میں شمار کیاہے، تنہا ابن ابی حاتم کی ذات والاصفات تھی کہ اس نے اس چیز کو ذم سمجھااور ذم سمجھنے کی وجہ وہی تفقہ کی کمی تھی کہ مدح کوذم بنادیا۔
ویسے امام شافعی کی بھی بعض حضرات نے یہی تعریف کی ہے کہ وہ اپنے زور بیان سے لکڑی کے ستون کو پتھر کا ستون یااس کا برعکس ثابت کردیتے تھے۔
قَالَ عبد الرحمن قَالَ لَنَا هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ لَوْ أَنَّ الشَّافِعِيَّ نَاظَرَ عَلَى أَنَّ هَذَا الْعَمُودَ الَّذِي مِنْ حِجَارَةٍ مِنْ خَشَبٍ لأَثْبَتَ ذَلِكَ لِقُدْرَتِهِ عَلَى الْمُنَاظَرَةِ
الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء (ص: 78
)
وقال هارون: ما رأيت مثله، لو ناظر على أن هذا العمود الذي من حجارة أنه من خشب، لأثبت ذلك لقدرته على المناظرة
ترتيب المدارك وتقريب المسالك (3/ 183
(
وَقَالَ زكريا حَدَّثَنِي أبو بكر بن سعدان قَالَ سمعت هارون بن سعيد الأيلي يقول:
لو أن الشافعي ناظر على هذه العمود التي من حجارة أنها من خشب لغلب، لاقتداره على المناظرة
تاريخ بغداد وذيوله ط العلمية (2/ 65
(
وَقَال زكريا بْن يَحْيَى: حَدَّثَنِي أَبُو بَكْر بْن سعدان، قالسمعت هارون بْن سَعِيد الأيلي يَقُول: لو أن الشافعي ناظر على هَذَا العمود الذي من حجارة إنه من خشب لغلب، لاقتداره على المناظرة.
تهذيب الكمال في أسماء الرجال (24/ 373)

اب کیافرمائیں گے ابن دائود کہ امام شافعی ہٹ دھرمی کرتے تھے، غلطی پر مصر رہتے تھے یااپنے علم کلام کےزور سے کچھ اوربات بنائیں گے!
یہ مقلدین کہ جن کا ایمان ناقص ہے وہ لوگوں کو عقل و فہم سکھانے بیٹھے ہیں!
سبحان اللہ!اب یہ دن بھی آگئے ہیں کہ سلفی حضرات نے خدائی کاموں میں دخل دیناشروع کردیاہے،کس کا ایمان کامل اورکس کاایمان ناقص ہے،ا رشاد رسول میں اس کی علامت تو بتائی گئی ہیں،لیکن کسی گروہ کو کامل ایمان اورکسی کو ناقص ایمان بتانایہ تو صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کی علیم وخبیر ذات کیلئے مختص تھا؛لیکن اب اس میں کچھ سلفی حضرات بھی دخل دینے لگے کہ وہ ازخود فیصلہ کرنے لگے کہ فلاں گروہ کامل ایمان والااورفلاں گروہ ناقص ایمان والاہے؛لیکن حیرت ثم حیرت اس بات پر ہے کہ اتنے عظیم دعویٰ پر کسی بھی سلفی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی ،اگریہی بات کوئی بے چارہ بریلوی کہہ گزرتاتواب تک فورم کے سارے اکابر واصاغر لٹھ لے کر اس کے پیچھے دوڑچکے ہوتے۔
اب حنفی مقلدین اختلافی مسائل میں قرآن و حدیث کی طرف رجوع کرنے کے بجائے، اپنے امام و مُقَلَد اور اپنی فقہاء پر ہٹ دھرم رہتے ہوئے ، اپنےاللہ اور آخرت پر اپنے ایمان کے ناقص ہونے کا ثبوت دیتے ہیں!
اب یہ مقلدین حنفیہ کہ جن کا ایمان ناقص، وہ اہل الحدیث کی عقل و فہم پر طعن کریں!
مجھے واقعتاًحیرت ہے کہ بار بار مقلدین حنفیہ کو ایمان ناقص ہونے کا طعنہ دیاجارہاہے،انہیں بتاناچاہئے کہ فلاں شب اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایمان کی جانچ اورآزمائش کا شعبہ وڈپارٹمنٹ ان کے سپرد کردیاہے اور تب سے وہ لوگوں کے ایمان جانچنے میں لگے ہیں اوراس جانچ میں مقلدین حنفیہ کے ایمان کوناقص پایاہے۔
تھریڈ شروع کرنے والے نے صرف جواز بیان کیا ہے! اور جواز کا ثبوت آپ بھی بیان کر رہے ہیں! یہی بات تھریڈ شروع کرنے والے نے بیان کی ہے! کہ فقہ حنفی میں بھی عورتوں کو مسجد میں اعتکاف کرنے کا جواز ہے!
تھریڈ شروع کرنے والے نے اسے فقہ حنفی کے حوالہ سے صرف جواز ہی ذکر کیا ہے، اسے افضل نہیں کہا!
بات کو خواہ مخواہ طول شب فراق جتنی طوالت بخشنا ابن دائود سے سیکھناچاہئے، بنیادی بات یہ ہے کہ عورتوں کا مسجد مین اعتکاف کراہت کے ساتھ جائز ہے،یہ احناف کا موقف ہے،اب جس نے صرف جواز کا قول نقل کیاہے اور کراہت کا قول چھوڑدیاہے،کیااس نے صحیح طورپر پورا نقل کیا،اس نے احناف کاموقف اس باب میں درست طورپر نقل کیا،کیااس سے نقل میں آسان لفظوں میں کوتاہی اور درست لفظوں میں خیانت واقع نہ ہوئی؟
بوالعجبی ملاحظہ ہو! احناف کا موقف ہے کہ عورتوں کا مسجد میں اعتکاف کراہت کے ساتھ جائز ہے
آپ احناف کا موقف بتارہے ہیں کہ عورتوں کا مسجد میں اعتکاف جائز ہے،کراہت کے ذکر کو حذف کردیا
کیاایماندارانہ نقل ہے؟احناف کے موقف کو پیش کرنے میں کوتاہی اورقصور نہیں ہے، دنیا کا ہرایک غیرجانبدار شخص یہی کہے گاکہ درست طورپر موقف نہیں بیان کیاگیاہے اور احناف کا موقف پیش کرنے میں اگرغلطی سے ہی ہوا توقصور ہے اورجان بوجھ کر ہواہے توعلمی خیانت ہے۔
یہاں یہ بھی کہتا چلوں کہ فقہ حنفیہ کا یہ مسئلہ کہ عورتوں کے لئے اعتکاف مسجد میں مکروہ ہے، اور گھر میں افضل!
یہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی مقابلہ میں اپنے اٹکل پچو کو شاہکار اور باطل ہے!
حضرت عائشہؓ نے بھی کہاتھاکہ اگر رسول پاک آج کی عورتوں کو دیکھتے (اپنے زمانہ کی عورتوں کی بات)تو ان کا مسجد میں جانا منع کردیتے،پتہ نہیں ابن دائود اس دور میں ہوتے اور حضرت عائشہ کی یہ بات سن پاتے توانہیں کیاکچھ کہہ گزرتے،واللہ اعلم بالصواب
ویسے میں نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ فتح القدیر اہل علم کے درمیان نہیں ہے، میں نے عوام سے چھپانے کا کہا تھا!
یہ ابن دائود کا علم کلام ہے کہ ہماری جو کتاب چھپی ہوئی ہے اس میں مسائل لکھے ہوئے ہیں وہ توہم چھپارہے ہیں اور جن کتابوں کو غیرمقلدوں نے آوٹ آف مارکیٹ کررکھاہے ان کو چھپانے کا بھی اقرار نہیں سچ ہے ’’چہ دلاور است درزدے کہ بکف چراغ دارد‘‘چور کتناجری ہے کہ چراغ ہتھیلی پر رکھ کر چوری کیلئے نکلتاہے۔
کسی علمی موقف کو تبھی چھپایاجاسکتاہے جب یاتواس کتاب کی نشرواشاعت بندکردی جائے یاپھر اس کتاب کے پڑھنے پڑھانے پر پابندی عائد کردی جائے ،لیکن فتح القدیر اور دیگر کتابیں جس میں یہ موقف ہے، وہ کھلے صدیوں سے اہل علم کے درمیان متداول ہے،اسلام میں کوئی برہمنیت تونہیں ہے،جوکوئی بھی عربی جانتاہوچاہے وہ عوام میں سے ہو، فتح القدیر اوردیگر کتب فقہ میں اس مسئلہ کو دیکھ سکتاہے؟لہذا عوام سے ہو یاخواص سے چھپانے کا الزام تو احناف پر بالکل ہی غلط ہے،ہاں غیرمقلدوں کی جانب درست ہے کہ ان کو جہاں لگتاہے کہ فلاں عالم کی فلاں کتاب سے ہم پرزد پڑتی ہے وہ آئوٹ آف مارکیٹ ہوجاتی ہے،اس کی یہ تاویل کرنا نہایت غلط ہے کہ ہم اس کو غلط سمجھتے ہیں ،غلط سمجھیں لیکن اس کو رواج میں تو باقی رکھیں، اہل حق کی شان یہ ہوتی ہے جیساکہ وکیع نے بھی کہاہے کہ وہ ہرقسم کی روایت نقل کرتے ہیں چاہے ان کے موافق ہو چاہے ان کے خلاف ،ہاں اہل باطل صرف موافق باتوں کو نقل کرتے ہیں اورمخالف سے اغماض برتتے ہیں اوراس کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں، اس قول کی روشنی میں جائزہ لیجئے کہ خود کو کہاں کھڑاپاتے ہیں۔
عورتوں کے اعتکاف پر یہ سب تونظری باتیں تھیں، عملی طورپر ذرا واضح کیجئے کہ پاکستان کی کتنی مساجد میں اہل حدیث عورتیں اعتکاف کرتی ہیں؟ اگرعملی طورپر آپ احناف کی صف میں ہی شامل ہیں توپھر اس پر شوروغوغا کیوں کرتے ہیں، جائیے پہلے اپنی مسجدوں میں محلے کی مسجدوں میں عورتوں کے اعتکاف کی ابتداکرایئے ،پھر آکر بحث کیجئے،بلاوجہ بحث کرتے جانا اورعملی طورپر زیرو ہونا کوئی اچھی بات نہیں ،یہ لم تقولون مالاتفعلون کے قبیل والا دورنگی عمل ہے ،اس سے پرہیز لازم ہے
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یہ ابن ابی حاتم بالکل آپ ہی جیسے عقل وفہم کے ایک بزرگ تھے، ابن قیم نے اعلام الموقعین میں ان کے والد ابوحاتم کواس گروہ میں شمار کیاہے جو نرے محدث تھے اورفقاہت سے بے گانہ تھے اورمزید محدثین کاشمار کیاہے۔
قسم حفاظ) معتنون بالضبط والحفظ والأداء كما سمعوا.
ولا يستنبطون ولا يستخرجون كنوز ما حفظوه.
وقسم معتنون بالاستنباط واستخراج الأحكام من النصوص، والتفقه فيها.
فالأول كأبي زرعة وأبي حاتم وابن دارة.
وقبلهم كبندار ومحمد بن بشار وعمرو الناقد وعبد الرزاق، وقبلهم كمحمد بن جعفر غندر وسعيد بن أبي عروية وغيرهم من أهل الحفظ والاتقان والضبط لما سمعوه، من غير استنباط وتصرف وأستخراج الأحكام من ألفاظ النصوص.
الوابل الصيب من الكلم الطيب (ص: 59)

ظاہر ہے اپنے والد سے محض حفظ کی وراثت ابن ابی حاتم نے پائی اوراسی تفقہ کی کمی کی وجہ سے جوچیز مدح کی تھی اس کو ذم کی بات بنادیا،ابن ابی حاتم کےعلاوہ تمام ترجمہ نگاروں نے بشمول مزی ذہبی،ابن حجر اوردیگر تمام نےامام مالک کے اس قول کو ،مدح میں شمار کیاہے، تنہا ابن ابی حاتم کی ذات والاصفات تھی کہ اس نے اس چیز کو ذم سمجھااور ذم سمجھنے کی وجہ وہی تفقہ کی کمی تھی کہ مدح کوذم بنادیا۔
ویسے امام شافعی کی بھی بعض حضرات نے یہی تعریف کی ہے کہ وہ اپنے زور بیان سے لکڑی کے ستون کو پتھر کا ستون یااس کا برعکس ثابت کردیتے تھے۔
قَالَ عبد الرحمن قَالَ لَنَا هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ لَوْ أَنَّ الشَّافِعِيَّ نَاظَرَ عَلَى أَنَّ هَذَا الْعَمُودَ الَّذِي مِنْ حِجَارَةٍ مِنْ خَشَبٍ لأَثْبَتَ ذَلِكَ لِقُدْرَتِهِ عَلَى الْمُنَاظَرَةِ
الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء (ص: 78
)
وقال هارون: ما رأيت مثله، لو ناظر على أن هذا العمود الذي من حجارة أنه من خشب، لأثبت ذلك لقدرته على المناظرة
ترتيب المدارك وتقريب المسالك (3/ 183
(
وَقَالَ زكريا حَدَّثَنِي أبو بكر بن سعدان قَالَ سمعت هارون بن سعيد الأيلي يقول:
لو أن الشافعي ناظر على هذه العمود التي من حجارة أنها من خشب لغلب، لاقتداره على المناظرة
تاريخ بغداد وذيوله ط العلمية (2/ 65
(
وَقَال زكريا بْن يَحْيَى: حَدَّثَنِي أَبُو بَكْر بْن سعدان، قالسمعت هارون بْن سَعِيد الأيلي يَقُول: لو أن الشافعي ناظر على هَذَا العمود الذي من حجارة إنه من خشب لغلب، لاقتداره على المناظرة.
تهذيب الكمال في أسماء الرجال (24/ 373)

اب کیافرمائیں گے ابن دائود کہ امام شافعی ہٹ دھرمی کرتے تھے، غلطی پر مصر رہتے تھے یااپنے علم کلام کےزور سے کچھ اوربات بنائیں گے!
یہ قابل غور بات ہے، آپ امام مزی، امام ذہبی، ابن حجر اور دیگر کا کلام پیش کیجیئے، پھر ہم اس پر غور کررتے ہیں!
سبحان اللہ!اب یہ دن بھی آگئے ہیں کہ سلفی حضرات نے خدائی کاموں میں دخل دیناشروع کردیاہے،کس کا ایمان کامل اورکس کاایمان ناقص ہے،ا رشاد رسول میں اس کی علامت تو بتائی گئی ہیں،لیکن کسی گروہ کو کامل ایمان اورکسی کو ناقص ایمان بتانایہ تو صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کی علیم وخبیر ذات کیلئے مختص تھا؛لیکن اب اس میں کچھ سلفی حضرات بھی دخل دینے لگے کہ وہ ازخود فیصلہ کرنے لگے کہ فلاں گروہ کامل ایمان والااورفلاں گروہ ناقص ایمان والاہے؛لیکن حیرت ثم حیرت اس بات پر ہے کہ اتنے عظیم دعویٰ پر کسی بھی سلفی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی ،اگریہی بات کوئی بے چارہ بریلوی کہہ گزرتاتواب تک فورم کے سارے اکابر واصاغر لٹھ لے کر اس کے پیچھے دوڑچکے ہوتے۔
قطع وبرید شدہ عبارات تو آپ کتب سے پیش کرتے ہی ہیں، لیکن میرے کلام پر سامنے سامنے قطع وبرید شدہ اقتباس کو پیش کررکے کوسنے دینے کا شوق آپ نے خوب پورا کیا ہے!
ہم نے اپنی اس بات پر کہ مقلد کا ایمان ناقص ہے، قرآن کی آیت پیش کی ہے!

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا (سورة النساء 59)
اے ایمان والو الله کی فرمانبرداری کرو اور رسول کی فرمانبرداری کرو اور ان لوگوں کی جو تم میں سے حاکم ہوں پھر اگر آپس میں کوئی چیز میں جھگڑا کرو تو اسے الله اور اس کے رسول کی طرف پھیرو اگر تم الله اور قیامت کے دن پر یقین رکھتے ہو یہی بات اچھی ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت بہتر ہے (ترجمہ احمد علی لاہوری)
اس آیت میں متنازع امور میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی طرف رجوع کا حکم ہے، جبکہ مقلد متنازع امور میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف رجوع نہیں کرتا، بلکہ وہ اپنے مُقَلَدْ امام کے مؤقف کو اختیار کرتا ہے! اور یہی اس کا قاعدہ ہے، اور یہی مقلد کہتا ہے، جیسے مقلدین حنفی کہتے ہیں، کہ ہم غیر منصوص اجتہادی مسائل میں امام ابو حنیفہ کی تقلید کرتے ہیں!
یہاں مقلدین قرآن کے اس حکم کو رد کرتے ہیں!
اور اسی آیت میں ''ان'' شرطیکہ کے ساتھ بتلایا گیا ہے کہ متنازع امور میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرو اگر تم اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہو!
یعنی کہ جو متنازع امور میں اللہ اور اسے رسول کی طرف رجوع نہیں کرے گا، اس کا اللہ اور اس کے رسول پر ایمان ناقص ہے!
ہم نے قرآن کی آیت سے تقلید شخصی کے قائل وفاعل مقلدین کے ایمان کے ناقص ہونے پر قرآن سے دلیل دی ہے! اور ہم ان مقلدین کی طرح قرآن کو رد کرنے والے نہیں!
تو رحمانی صاحب! تقلیدی جنون کی حالت میں کوسنے دینے اور تہمتیں دھرنے سے گریز کیجیئے!
مجھے واقعتاًحیرت ہے کہ بار بار مقلدین حنفیہ کو ایمان ناقص ہونے کا طعنہ دیاجارہاہے،انہیں بتاناچاہئے کہ فلاں شب اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایمان کی جانچ اورآزمائش کا شعبہ وڈپارٹمنٹ ان کے سپرد کردیاہے اور تب سے وہ لوگوں کے ایمان جانچنے میں لگے ہیں اوراس جانچ میں مقلدین حنفیہ کے ایمان کوناقص پایاہے۔
آپ کو جب قرآن کی پیش کردہ آیت پر ایمان و عمل کی توفیق ہو گی، تو آپ کی حیرت ختم ہو جائے گی، اور ان شاء اللہ آپ کے ایمان میں اضافہ ہوگا! مسئلہ یہ ہے کہ آپ کے ہاں ایمان صرف دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار کو کہتے ہیں، اب دل کے بھید تو اللہ جانے، زبان سے قرآن کی آیت پر ایمان کے اقرار سے آپ ایمان کو مکمل سمجھتے ہو، اس پر عمل نہ کرنے سے آپ کے نزدیک تو ایمان پر کوئی فرق نہیں آتا! نہ نقص ہوتا ہے نہ زیادتی!
اور آپ قرآن کی اس آیت پر عمل نہیں کرتے بلکہ اس آیت کے حکم کے برخلاف عمل کرتے ہوئے بھی سمجھتے ہو کہ آپ کے ایمان میں کوئی نقص نہیں آتا!
دیکھیں جناب! قرآن کی اس آیت نے اللہ تعالیٰ نے متنازع مسائل میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف رجوع کرنے کے کو اللہ اور قیامت پر ایمان سے لئے شرط قرار دیا ہے!
اور جو اعلانیہ تقلید شخصی کے قائل ہیں، اس کے ایمان نے نقص کو جاننے کئے لئے کسی اور جانچ کی ضرورت نہیں!
جواعلانیہ تقلید شخصی کرتے ہیں، قرآن کی اس آیت کی رو سے ان کا ایمان ناقص ہے!
ہم نے قرآن کی آیت سے دلیل پیش کی ہے اور رحمانی صاحب، اٹل کو گھوڑے دوڑا کر کوسنے دینے اور تہمتیں دھرنے لگے ہیں!
بات کو خواہ مخواہ طول شب فراق جتنی طوالت بخشنا ابن دائود سے سیکھناچاہئے، بنیادی بات یہ ہے کہ عورتوں کا مسجد مین اعتکاف کراہت کے ساتھ جائز ہے،یہ احناف کا موقف ہے،اب جس نے صرف جواز کا قول نقل کیاہے اور کراہت کا قول چھوڑدیاہے،کیااس نے صحیح طورپر پورا نقل کیا،اس نے احناف کاموقف اس باب میں درست طورپر نقل کیا،کیااس سے نقل میں آسان لفظوں میں کوتاہی اور درست لفظوں میں خیانت واقع نہ ہوئی؟
بات کو آپ خواہ مخواہ طول دے رہے ہیں، اسی لئے میں نے کہا تھا کہ جب آپ خود فرماتے ہیں کہ جواز اور کراہت میں منافرت نہیں، تو پھر کوسنے کیوں؟
تھریڈ شروع کرنے والے نے احناف کا مؤقف مکمل نقل نہیں کیا، لیکن جتنا نقل کیا ہے وہ احناف کے مؤقف کے مخالف نہیں! ہاں بہتر ہوتا کہ وہ وہ اس کو بھی بیان کر دیتے کہ احناف کے ہاں جواز مع الکراہۃ ہے!
عنوان : ''حنفی مذہب میں بھی عورت کو مسجد میں اعتکاف کی اجازت ہے''
اور تھریڈ بنانے والے کے نزدیک عورتوں کا اعتکاف بھی صرف مسجد میں ہوتا ہے!
یہاں یہ بتلانا مقصود ہے کہ احناف کے ہاں بھی یہ جائز ہے، اور آپ نے اس کی توضیح کر دی، کہ بالکراہۃ جائز ہے!
بوالعجبی ملاحظہ ہو! احناف کا موقف ہے کہ عورتوں کا مسجد میں اعتکاف کراہت کے ساتھ جائز ہے
آپ احناف کا موقف بتارہے ہیں کہ عورتوں کا مسجد میں اعتکاف جائز ہے،کراہت کے ذکر کو حذف کردیا
کیاایماندارانہ نقل ہے؟احناف کے موقف کو پیش کرنے میں کوتاہی اورقصور نہیں ہے، دنیا کا ہرایک غیرجانبدار شخص یہی کہے گاکہ درست طورپر موقف نہیں بیان کیاگیاہے اور احناف کا موقف پیش کرنے میں اگرغلطی سے ہی ہوا توقصور ہے اورجان بوجھ کر ہواہے توعلمی خیانت ہے۔
اگر جواز اور کراہت میں منافرت ہوتی تو بلکل اسے خیانت کہا جا تا، یا اگر بلا کراہت جواز کا کہا ہوتا، تو بلکل خیانت کہا جاتا!
تھریڈ شروع کرنے والے نے محض جواز بلایا ہے!
یہ آپ کا حق تھا اور آ پ نے درست کیا کہ یہاں کراہت کے اضافہ کا بیان بھی کردیا!
حضرت عائشہؓ نے بھی کہاتھاکہ اگر رسول پاک آج کی عورتوں کو دیکھتے (اپنے زمانہ کی عورتوں کی بات)تو ان کا مسجد میں جانا منع کردیتے،
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ قَالَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ عَنْ عَمْرَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ لَوْ أَدْرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَحْدَثَ النِّسَاءُ لَمَنَعَهُنَّ كَمَا مُنِعَتْ نِسَاءُ بَنِي إِسْرَائِيلَ قُلْتُ لِعَمْرَةَ أَوَمُنِعْنَ قَالَتْ نَعَمْ
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالکؒ نے یحیٰ بن سعید سے خبر دی، ان سے عمرہ بنت عبد الرحمن نے، ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے، انہوں نے فرمایا کہ آج عورتوں میں جو نئی باتیں پیدا ہو گئی ہیں اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دیکھ لیتے توان کو مسجد میں آنے سے روک دیتے جس طرح بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا۔ میں نے پوچھا کہ کیا بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا؟ آپ نے فرمایاکہ ہاں۔
‌صحيح البخاري: كِتَابُ الأَذَانِ (بَابُ اِنتِظَارِ النَّاسِ قِيَامِ الاِمَامِ العَالِمِ)
صحیح بخاری: کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں (باب: لوگوں کا نماز کے بعد امام کے اٹھنے کا انتظار کرنا)

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ بِلَالٍ، عَنْ يَحْيَى وَهُوَ ابْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهَا سَمِعَتْ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَقُولُ: «لَوْ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى مَا أَحْدَثَ النِّسَاءُ لَمَنَعَهُنَّ الْمَسْجِدَ كَمَا مُنِعَتْ نِسَاءُ بَنِي إِسْرَائِيلَ» قَالَ: فَقُلْتُ لِعَمْرَةَ: أَنِسَاءُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مُنِعْنَ الْمَسْجِدَ؟ قَالَتْ: «نَعَمْ»
سلیمان بن بلال نے یحییٰ بن سعید سے اور انہوں نے عمرہ بنت عبد الرحمان سے روایت کی کہ انہوں نے نبی ﷺ کی زوجہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، وہ فرماتی تھیں کہ عورتوں نے (بناؤ سنگھار کے) جو نئے انداز نکال لیے ہیں اگر رسول اللہﷺ دیکھ لیتے تو انہیں مسجد میں آنے سے روک دیتے، جس طرح بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا۔ میں نے عمرہ سے پوچھا: کیا بنی اسرائیل کی عورتوں کو مسجد میں آنے سے روک دیا گیا تھا؟ انہوں نے کہا: ہاں۔
صحيح مسلم: كِتَابُ الصَّلَاةِ (بَابُ خُروجِ النِّسَاءِ إِلَى الْمَسَاجِدِ إِذَا لَمْ يَتَرَتَّبْ عَلَيْهِ فِتْنةٌ، وَأَنَّهَا لَا تَخْرُجْ مُطَيَّبَةً)
صحیح مسلم: کتاب: نماز کے احکام ومسائل (باب: اگر فتنے کا اندیشہ نہ ہو تو خواتین مساجد میں جا سکتی ہیں لیکن وہ خوشبو لگا کر نہ نکلیں)

یہ ہے وہ بات جو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہی، اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی کوئی مخالفت نہیں، اور نہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عورتوں کے مسجد جانے کو حرام یا مکروہ کہا، اور نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس معاملہ میں ثابت کسی شرعی حکم میں کوئی تغیر کیا ہے، بلکہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ان عورتوں کو تنبیہ بلیغ کی کہ جنہوں نے نئے نئے انداز اپنا لیئے تھے!
پتہ نہیں ابن دائود اس دور میں ہوتے اور حضرت عائشہ کی یہ بات سن پاتے توانہیں کیاکچھ کہہ گزرتے،واللہ اعلم بالصواب
رحمانی صاحب! آپ اپنے بغض بھرے دماغ میں دوسروں کے متعلق انتہائی خبیث باتیں تخیل وتصور کر لیتے ہو!
اور ایسے خبیث تخیل کا کسی کے ذہن میں آنا اس کے اپنے ذہن کے اسی وصف کی علامت ہے!
معلوم ہوتا ہے کہ یہ وصف مقلدین احناف کو ان کے فقہاء سے وراثت میں ملا ہے!
میری تو خیر ہے، میرے متعلق آپ کا کوئی خبیث قسم کا تخیل وتصور کرنااتنا قبیح نہيں!
لیکن فقہ حنفیہ میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے متعلق جو گمان کیا ہے، اور جس شک کو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر روا جانا ہے، وہ انتہائی قبیح وخبیث ہے؛
میں یہاں کوئی بات اپنے تخیل یا گمان کی بناء پر نہیں کروں گا! کہ قیاس آرائی واٹکل پچو میرا دین نہیں!
کھولیئے اصول الشاشی! نکالیئے ذرا ''
شَرط الْعَمَل بِخَبَر الْوَاحِد'' کا باب، بتلائیے کہ وہاں نبی صلی للہ علیہ وسلم سے روایت کرنے والوں کی کون سی تین اقسام بیان کی گئیں ہیں، اور کس بناء پر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث ''أَيّمَا امْرَأَة نكحت نَفسهَا بِغَيْر إِذن وَليهَا فنكاحها بَاطِل بَاطِل بَاطِل'' کو قرآن پر پیش کیا گیا ہے؟
یہ اتنا قبیح وخبیث گمان وشک تمام صحابہ بشمول سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر روا رکھا گیا ہے، کہ میں اسے یہاں تحریر بھی نہیں کرنا چاہتا۔
رحمانی صاحب! آئندہ کے لئے اس قسم کے تخیل وتصور سے باز رہیئے!
یہ ابن دائود کا علم کلام ہے کہ ہماری جو کتاب چھپی ہوئی ہے اس میں مسائل لکھے ہوئے ہیں وہ توہم چھپارہے ہیں اور جن کتابوں کو غیرمقلدوں نے آوٹ آف مارکیٹ کررکھاہے ان کو چھپانے کا بھی اقرار نہیں سچ ہے ’’چہ دلاور است درزدے کہ بکف چراغ دارد‘‘چور کتناجری ہے کہ چراغ ہتھیلی پر رکھ کر چوری کیلئے نکلتاہے۔
آپ کا معاملہ یہ ہے کہ آپ ہمارے کلام میں بھی علم الکلام کے متلاشی رہتے ہیں!
ہم نے آپ سے کہا تھا کہ:
ارے میاں! جب آپ نے خود کہا ہے کہ اس سے اہل حدیث کے مؤقف پر زد پڑتی ہے، یعنی یہ اہل الحدیث کا مؤقف نہیں، تو ہم کیوں اس کی اشاعت کریں؟
تو جو اس کا قائل ہو وہ اس کی اشاعت کرے!
کسی علمی موقف کو تبھی چھپایاجاسکتاہے جب یاتواس کتاب کی نشرواشاعت بندکردی جائے یاپھر اس کتاب کے پڑھنے پڑھانے پر پابندی عائد کردی جائے ،لیکن فتح القدیر اور دیگر کتابیں جس میں یہ موقف ہے، وہ کھلے صدیوں سے اہل علم کے درمیان متداول ہے،اسلام میں کوئی برہمنیت تونہیں ہے،جوکوئی بھی عربی جانتاہوچاہے وہ عوام میں سے ہو، فتح القدیر اوردیگر کتب فقہ میں اس مسئلہ کو دیکھ سکتاہے؟لہذا عوام سے ہو یاخواص سے چھپانے کا الزام تو احناف پر بالکل ہی غلط ہے،
کیا عوام کوعربی کی یہ کتب پڑھائی جاتی ہیں، یا کیا عوام یہ پڑھتی ہیں؟
آپ کو یہی کہا تھا کہ یہ باتیں علمائے احناف عوام سے چھپاتی ہیں؛
اور ہم جس ملک میں ہیں یہاں تو عوام کو عربی آتی بھی نہیں!
اب دیکھیں! کتاب کے ہوتے ہوئے، اسے چھپانے کا بیان تو حدیث میں بھی موجود ہے؛

حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا أَبُو ضَمْرَةَ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ الْيَهُودَ جَاءُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ مِنْهُمْ وَامْرَأَةٍ قَدْ زَنَيَا، فَقَالَ لَهُمْ: كَيْفَ تَفْعَلُونَ بِمَنْ زَنَى مِنْكُمْ؟" قَالُوا: نُحَمِّمُهُمَا وَنَضْرِبُهُمَا، فَقَالَ: لَا تَجِدُونَ فِي التَّوْرَاةِ الرَّجْمَ؟ " فَقَالُوا: لَا نَجِدُ فِيهَا شَيْئًا، فَقَالَ لَهُمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ: كَذَبْتُمْ، فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوهَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ سورة آل عمران آية 93، فَوَضَعَ مِدْرَاسُهَا الَّذِي يُدَرِّسُهَا مِنْهُمْ كَفَّهُ عَلَى آيَةِ الرّجْمِ ، فَطَفِقَ يَقْرَأُ مَا دُونَ يَدِهِ وَمَا وَرَاءَهَا، وَلَا يَقْرَأُ آيَةَ الرَّجْمِ، فَنَزَعَ يَدَهُ عَنْ آيَةِ الرَّجْمِ، فَقَالَ: مَا هَذِهِ، فَلَمَّا رَأَوْا ذَلِكَ، قَالُوا: هِيَ آيَةُ الرَّجْمِ، فَأَمَرَ بِهِمَا، فَرُجِمَا قَرِيبًا مِنْ حَيْثُ مَوْضِعُ الْجَنَائِزِ عِنْدَ الْمَسْجِدِ، فَرَأَيْتُ صَاحِبَهَا يَحْنِي عَلَيْهَا يَقِيهَا الْحِجَارَةَ.
مجھ سے ابراہیم بن منذر نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابو ضمرہ نے بیان کیا ، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا ، ان سے نافع نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ کچھ یہودی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے قبیلہ کے ایک مرد اور ایک عورت کو لے کر آئے ، جنہوں نے زنا کیا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا اگر تم میں سے کوئی زنا کرے تو تم اس کو کیا سزا دیتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہم اس کا منہ کالا کرکے اسے مار تے پیٹتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا کیا توریت میں رجم کا حکم نہیں ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہم نے توریت میں رجم کا حکم نہیں دیکھا ۔ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ بولے کہ تم جھوٹ بول رہے ہو، توریت لاؤ اور اسے پڑھو، اگر تم سچے ہو ۔ (جب توریت لائی گئی) تو ان کے ایک بہت بڑے مدرس نے جو انہیں توریت کا درس دیا کرتا تھا، آیت رجم پر اپنی ہتھیلی رکھ لی اور اس سے پہلے اوراس کے بعد کی عبارت پڑھنے لگا اور آیت رجم نہیں پڑھتا تھا ۔ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے اس کے ہاتھ کو آیت رجم سے ہٹا دیا اور اس سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ جب یہودیوں نے دیکھا تو کہنے لگے کہ یہ آیت رجم ہے، پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور ان دونوں کو مسجد نبوی کے قریب ہی جہاں جنازے لاکر رکھے جاتے تھے، رجم کردیا گیا ۔ میں نے دیکھا کہ اس عورت کا ساتھی عورت کو پتھر سے بچانے کے لیے اس پرجھک جھک پڑتا تھا ۔
صحيح البخاري » كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ » سُورَةُ آلِ عِمْرَانَ » (بَابُ قَوْلِهِ {قُلْ: فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوهَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ})

اور یہ حدیث موطا امام محمد بن الحسن الشیبانی میں بھی ہے؛

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ الْيَهُودَ جَاءُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَخْبَرُوهُ أَنَّ رَجُلا مِنْهُمْ وَامْرَأَةً زَنَيَا، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا تَجِدُونَ فِي التَّوْرَاةِ فِي شَأْنِ الرَّجْمِ»؟ فَقَالُوا: نَفْضَحُهُمَا، وَيُجْلَدَانِ، فَقَالَ لَهُمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلامٍ: كَذَبْتُمْ، إِنَّ فِيهَا الرَّجْمَ، فَأَتَوْا بِالتَّوْرَاةِ، فَنَشَرُوهَا، فَجَعَلَ أَحَدُهُمْ يَدَهُ عَلَى آيَةِ الرَّجْمِ، ثُمَّ قَرَأَ مَا قَبْلَهَا وَمَا بَعْدَهَا، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلامٍ: ارْفَعْ يَدَكَ، فَرَفَعَ يَدَهُ، فَإِذَا فِيهَا آيَةُ الرَّجْمِ، فَقَالَ: صَدَقْتَ يَا مُحَمَّدُ، فِيهَا آيَةُ الرَّجْمِ، «فَأَمَرَ بِهِمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرُجِمَا» .قَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَرَأَيْتُ الرَّجُلَ يَجْنَأُ عَلَى الْمَرْأَةِ يَقِيهَا الْحِجَارَةَ ".
قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا كُلِّهِ نَأْخُذُ، أَيُّمَا رَجُلٍ حُرٍّ مُسْلِمٍ زَنَى بِامْرَأَةٍ وَقَدْ تَزَوَّجَ بِامْرَأَةٍ قَبْلَ ذَلِكَ حُرَّةٍ مُسْلِمَةٍ وَجَامَعَهَا فَفِيهِ الرَّجْمُ، وَهَذَا هُوَ الْمُحْصَنُ، فَإِنْ كَانَ لَمْ يُجَامِعْهَا إِنَّمَا تَزَوَّجَهَا، وَلَمْ يَدْخُلْ بِهَا، أَوْ كَانَتْ تَحْتَهُ أَمَةٌ يَهُودِيَّةٌ أَوْ نَصْرَانِيَّةٌ لَمْ يَكُنْ بِهَا مُحْصَنًا، وَلَمْ يُرْجَمْ، وَضُرِبَ مِائَةً.وَهَذَا هُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
موطأ مالك برواية محمد بن الحسن الشيباني » كِتَابُ الْحُدُودِ وَالسَّرِقَةِ » بَابُ الْحُدُودِ فِي الزِّنَا


حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ یہودی آئے اور آپ کو بتایا کہ ان میں سے ایک آدمی اور عورت نے زنا کیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: رجم کے بارے میں تمہیں تورات میں کیا حکم ملا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ان دونوں کو رسوا کیا جائے۔ کوڑے لگائے جائیں، حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ علہ نے فرمایا تم نے جھوٹ بولا۔ اس میں تو رجم کا حکم ہے وہ (یہودی) تورات لے آئے انہوں نے اس کھولا ان میں سے ایک آدمی نے رجم والی آیت ہر پاتھ رکھ دیااور اس کے ماقبل اور مابعد کو پڑھا۔ حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا اپنا ہاتھ اُٹھاؤ، اس نے اپنا ہاتھ اُٹھایا تو اس میں آیت رجم موجود تھی۔ وہ کہنے لگے اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے سچ فرمایا ہے اس میں آیت رجم موجود ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو ان دونوں کو سنگسار کردیا گیا، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا میں نے دیکھا کہ (وہ) آدمی اس عورت کو بچانے کیلئے اس کے اوپر جھک جاتا تھا۔
حضرت امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ ہم ان سب باتوں پر عمل کرتے ہیں، اگر کوئی آزاد مسلمان کسی عورت سے زنا کرے جبکہ وہ پہلے کسی مسلمان آزاد عورت سے نکاح کر چکا ہو اور اس سے اس نے ہم بستری بھی کر لی ہو، اس صورت میں رجم کا حکم ہے کیونکہ وہ محصن ہے اگر اس نے مجامعت نہ کی ہو صرف نکاح کیا اور ہم بستری نہ کی ہو یا اس کے نکاح میں یہودی یا نصرانی لونڈی ہو تو وہ محصن نہیں اس کو سنگسار نہ کیا جائے گا، اس کو کوڑے لگائے جائیں گے۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ہمارے اکثر فقہاء کرام کا یہی قول ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 166 – 168 جلد 02 موطأ امام محمد - محمد بن الحسن الشيباني – مكتبة البشری، كراتشي

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 307 – 308 موطأ امام محمد - محمد بن الحسن الشيباني – الميزان، لاهور
ہاں غیرمقلدوں کی جانب درست ہے کہ ان کو جہاں لگتاہے کہ فلاں عالم کی فلاں کتاب سے ہم پرزد پڑتی ہے وہ آئوٹ آف مارکیٹ ہوجاتی ہے،اس کی یہ تاویل کرنا نہایت غلط ہے کہ ہم اس کو غلط سمجھتے ہیں ،غلط سمجھیں لیکن اس کو رواج میں تو باقی رکھیں، اہل حق کی شان یہ ہوتی ہے
میاں جی! آپ کو یہ بات نجانے کیوں سمجھ نہیں آتی کہ اہل الحدیث جس مؤقف کے قائل نہیں، اس کی اشاعت ان کے ذمہ ڈالانا کیونکر درست ہو سکتا ہے؟ اب یہ روایات وحدیث وعلم الرجال کی کتب تو ہیں نہیں، کہ ان کے مفقود ہونے سے حدیث کے ضائع ہونے کا خدشہ ہو!
اہل حق کی شان یہ ہوتی ہے جیساکہ وکیع نے بھی کہاہے کہ وہ ہرقسم کی روایت نقل کرتے ہیں چاہے ان کے موافق ہو چاہے ان کے خلاف ،ہاں اہل باطل صرف موافق باتوں کو نقل کرتے ہیں اورمخالف سے اغماض برتتے ہیں اوراس کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں، اس قول کی روشنی میں جائزہ لیجئے کہ خود کو کہاں کھڑاپاتے ہیں۔
رحمانی صاحب! روایات کے نقل کرنے اور فتاوی ومؤقف کی تشہیر کے فرق کو سمجھیں!
اب کل کو کوئی آپ سے کہہ دے کے کہ آپ تحریک طالبان پاکستان کی کتب ورسائل کیوں نہیں چھاپتے؟ آپ کو چاہیئے کہ آپ ان کی اشاعت بھی کریں، ان کو بھی رواج میں رہنا چاہیئے، آپ اس سے متفق ہوں یا نہ ہوں، اور پھر اس پر وکیع کے قول کا اطلاق کریں تو آپ خو دکو کہاں کھڑا پائیں گے؟


عورتوں کے اعتکاف پر یہ سب تونظری باتیں تھیں، عملی طورپر ذرا واضح کیجئے کہ پاکستان کی کتنی مساجد میں اہل حدیث عورتیں اعتکاف کرتی ہیں؟ اگرعملی طورپر آپ احناف کی صف میں ہی شامل ہیں توپھر اس پر شوروغوغا کیوں کرتے ہیں، جائیے پہلے اپنی مسجدوں میں محلے کی مسجدوں میں عورتوں کے اعتکاف کی ابتداکرایئے ،پھر آکر بحث کیجئے،بلاوجہ بحث کرتے جانا اورعملی طورپر زیرو ہونا کوئی اچھی بات نہیں ،یہ لم تقولون مالاتفعلون کے قبیل والا دورنگی عمل ہے ،اس سے پرہیز لازم ہے
میں تو دیار غیر آکر اہل الرائے کے فریب سے آزاد ہوا ہوں! اور جہاں میں ہوں، وہاں عورتیں ہر نماز میں مسجد آتی ہیں، جمعہ وعیدین بھی، اور اعتکاف بھی مسجد میں ہی کیا جاتا ہے! میں ایک مراکشیوں کی مسجد میں جاتا ہوں، وہاں اکثر عربی آتے ہیں!
میرے اہل الحدیث ہونے سے قبل میں ترکی مسجد میں جایا کرتا تھا، کیونکہ وہ بھی فقہ حنفی کے پیروکار تھے، لیکن ترکی مسجد میں بھی خصوصاً جمعہ کی نماز میں عورتیں بھی شریک ہوتی تھیں، اور ان کی جانب سے بھی پرچی پر خطیب سے سوال لکھ کر بھیجے جاتے تھے!
جب میں پاکستان میں تھا، اس وقت ہمارے محلہ میں اہل الحدیث کی ایک چھوٹی سی مسجد تھی، مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس مسجد کے اوپری حصے میں خواتین اعتکاف کرتی تھیں، یہ مجھے کچھ اس طرح یاد ہے کہ میرے ایک دوست جو کہ اہل الحدیث گھرانے سے تعلق رکھتا تھا، اس کے گھر سے یہ بات سننے کو ملی تھی، کہ امام صاحب کی بیوی اور کچھ عورتیں مسجد میں اعتکاف میں بیٹھی ہیں۔
ویسے آپ نے عبد الحئی لکھنوی کی بات کے بارے میں نہیں فرمایا، انہوں نے تو اسے بلا کراہت جائز کہا ہے۔
 
Last edited:
Top