- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,589
- پوائنٹ
- 791
ان باکس میں محترم بھائی @محمد جاوید بودلہ نے درج ذیل سوال کیا ہے ؛
اللہم انا نستعینک۔۔۔ والی
اسلئے احناف اس حدیث پر عمل نہیں کر رہے بلکہ اس کے خلاف ہیں ،
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
صحیح حدیث میں قنوت وتر کی خاص دعاء مروی ہے :
قال الحسن بن علي رضي الله عنهما: علمني رسول الله صلى الله عليه وسلم كلمات اقولهن في الوتر، قال ابن جواس: في قنوت الوتر، "اللهم اهدني فيمن هديت، وعافني فيمن عافيت، وتولني فيمن توليت، وبارك لي فيما اعطيت، وقني شر ما قضيت إنك تقضي ولا يقضى عليك، وإنه لا يذل من واليت، ولا يعز من عاديت، تباركت ربنا وتعاليت".
سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے چند کلمات سکھائے جنہیں میں وتر میں کہا کرتا ہوں (ابن جواس کی روایت میں ہے ”جنہیں میں وتر کے قنوت میں کہا کروں“) وہ کلمات یہ ہیں: «اللهم اهدني فيمن هديت، وعافني فيمن عافيت، وتولني فيمن توليت، وبارك لي فيما أعطيت، وقني شر ما قضيت إنك تقضي ولا يقضى عليك، وإنه لا يذل من واليت، ولا يعز من عاديت، تباركت ربنا وتعاليت» ۱؎۔
”اے اللہ! مجھے ہدایت دے ان لوگوں میں (داخل کر کے) جن کو تو نے ہدایت دی ہے اور مجھے عافیت دے ان لوگوں میں (داخل کر کے) جن کو تو نے عافیت دی ہے اور میری کارسازی فرما ان لوگوں میں (داخل کر کے) جن کی تو نے کارسازی کی ہے اور مجھے میرے لیے اس چیز میں برکت دے جو تو نے عطا کی ہے اور مجھے اس چیز کی برائی سے بچا جو تو نے مقدر کی ہے، تو فیصلہ کرتا ہے اور تیرے خلاف فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ جسے تو دوست رکھے وہ ذلیل نہیں ہو سکتا اور جس سے تو دشمنی رکھے وہ عزت نہیں پا سکتا، اے ہمارے رب تو بابرکت اور بلند و بالا ہے“۔
تخریج : سنن ابوداود 1425 ،سنن الترمذی/الصلاة ۲۲۴ (الوتر ۹) (۴۶۴)، سنن النسائی/قیام اللیل ۴۲ (۱۷۴۶)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۱۷ (۱۱۷۸)، (تحفة الأشراف:۳۴۰۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۱۹۹، ۲۰۰)، سنن الدارمی/الصلاة ۲۱۴ (۱۶۳۲)
السلام علیکم ورحمۃ اللہکچھ بھائی قنوت وتر میں یہ دعا پڑھتے ہیں، اللہم ان نستعینک و نستغفرک۔۔۔۔۔۔۔ کیا یہ دعا صحیح حدیث سے ثابت ہے؟ اور مفتی تقی عثمانی صاحب نے لکھا ہے کہ یہ قرآن کی منسوخ آیات ہیں، کیا یہ بات صحیح احادیث سے ثابت ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے ابن ابی شیبہ کا حوالہ دیتے ہیں، ذرا وضاحت فرما دیں، جزاک اللہ خیرا
اللہم انا نستعینک۔۔۔ والی
یہ دعاء قنوت وتر میں پڑھنا تو ثابت نہیں ہے ۔ ہاں قنوت نازلہ میں پڑھی جاسکتی ہے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ دعاء نماز فجر کےقنوت نازلہ میں پڑھی تھی :
حدثنا حفص بن غياث، عن ابن جريج، عن عطاء، عن عبيد بن نمير، قال: سمعت عمر، يقنت في الفجر يقول: «بسم الله الرحمن الرحيم، اللهم إنا نستعينك ونؤمن بك، ونتوكل عليك ونثني عليك الخير كله، ولا نكفر» ثم قرأ: «بسم الله الرحمن الرحيم اللهم إياك نعبد، ولك نصلي ونسجد، وإليك نسعى ونحفد، نرجو رحمتك، ونخشى عذابك، إن عذابك الجد بالكفار ملحق، اللهم عذب كفرة أهل الكتاب الذين يصدون عن سبيلك»
في اسناده عنعنة ابن جريج ، وهو مدلس ،لكن صرح بالتحديث في رواية عبدالرزاق
ترجمہ :عبید بن عمیر کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عمر کو فجر کی نماز میں دعائے قنوت پڑھتے سنا۔ انہوں نے پہلے یہ کہا (ترجمہ) بسم اللہ الرحمن الرحیم ، اے اللہ ! ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں، تجھ پر ایمان لاتے ہیں، تجھ پر بھروسہ کرتے ہیں، تیری خیر کی تعریف کرتے ہں ہ، ترمی ناشکری نہیں کرتے۔ پھر انہوں نے یہ پڑھا (ترجمہ) بسم اللہ الرحمن الرحیم، اے اللہ ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں، تیرے لئے نماز پڑھتے ہیں، تیرے آگے سجدہ کرتے ہیں۔ تیری طرف چلتے ہیں، تیری رحمت کی امید رکھتے ہیں، تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں اور بیشک تیرا عذاب کافروں تک پہنچنے والا ہے۔ اے اللہ ! ان اہل کتاب کافروں کو عذاب میں مبتلا فرما جو تیرے راستے سے روکتے ہیں۔
وقال الالباني في ارواء الغليل 2-170 قلت: وهذا سند رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين , ولولا عنعنة ابن جريج لكان حرياً بالصحة.
وقد رواه البيهقى (2/210) عن سفيان قال: حدثنى ابن جريج به.
ورواه ابن أبى شيبة (2/60/2 و12/41/2) من طريق ابن أبى ليلى عن عطاء به.
وابن أبى ليلى سىء الحفظ , لكنه لم يتفرد به، فقد روى البيهقى وغيره من طريق سعيد بن عبد الرحمن بن أبزى عن أبيه قال: صليت
خلف عمر بن الخطاب رضى الله عنه صلاة الصبح فسمعته يقول بعد القراءة قبل الركوع: " اللهم إياك نعبد , ولك نصلى ونسجد , وإليك نسعى ونحفد نرجو رحمتك , ونخشى عذابك إن عذابك بالكافرين ملحق , اللهم إنا نستعينك ونستغفرك , ونثنى
عليك الخير ولا نكفرك , ونؤمن بك , ونخضع لك ونخلع من يكفرك.
قلت: وهذا إسناد صحيح.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور وہ روایت جس میں اس دعاء کو قرآن کا حصہ بتایا گیا ہے درج ذیل ہے :
حدثنا وكيع، قال: حدثنا سفيان، عن حبيب بن أبي ثابت، عن عبد الملك بن سويد الكاهلي، أن عليا قنت في الفجر بهاتين السورتين: «اللهم إنا نستعينك ونستغفرك ونثني عليك الخير، ولا نكفر، ونخلع ونترك من يفجرك، اللهم إياك نعبد ولك نصلي ونسجد، وإليك نسعى ونحفد نرجو رحمتك، ونخشى عذابك، إن عذابك الجد بالكفار ملحق»
في اسناده عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ سُوَيْدٍ الْكَاهِلِيِّ لم اقف على ترجمة له ،وعنعنة حبيب بن أبي ثابت وهو مدلس "
(٧١٠٢) عبد الملک بن سوید کاہلی کہتے ہیں کہ حضرت علی نے فجر کی نماز میں دعائے قنوت پڑھتے ہوئے یہ دو اجزاء کہے (ترجمہ) اے اللہ ! ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں، تجھ سے مغفرت مانگتے ہیں، تیری بہترین تعریف کرتے ہیں، تیری ناشکری نہیں کرتے، جو تیری نافرمانی کرے اسے چھوڑتے ہیں اور اس سے دور ہوتے ہیں۔ اے اللہ ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں، تیرے لئے نماز پڑھتے ہیں، تیرے آگے سجدہ کرتے ہیں۔ تیری طرف چلتے ہیں، تیری رحمت کی امید رکھتے ہیں، تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں اور بیشک تیرا عذاب کافروں تک پہنچنے والا ہے۔
اس کی سند کمزور ہے ، اس کے راوی عبدالملک بن سوید کے حالات نہیں مل سکے ، اور دوسری علت یہ ہے اس کا راوی حبیب بن ابی ثابت مدلس ہے ، اور یہاں اس نے سماع کی تصریح نہیں کی ،
اس میں بھی واضح ہے کہ نماز فجر کے قنوت میں اسے پڑھا گیا ، نہ کہ وتر کی نماز میں ،
ـــــــــــــــــــــــــــــــحدثنا حفص بن غياث، عن ابن جريج، عن عطاء، عن عبيد بن نمير، قال: سمعت عمر، يقنت في الفجر يقول: «بسم الله الرحمن الرحيم، اللهم إنا نستعينك ونؤمن بك، ونتوكل عليك ونثني عليك الخير كله، ولا نكفر» ثم قرأ: «بسم الله الرحمن الرحيم اللهم إياك نعبد، ولك نصلي ونسجد، وإليك نسعى ونحفد، نرجو رحمتك، ونخشى عذابك، إن عذابك الجد بالكفار ملحق، اللهم عذب كفرة أهل الكتاب الذين يصدون عن سبيلك»
في اسناده عنعنة ابن جريج ، وهو مدلس ،لكن صرح بالتحديث في رواية عبدالرزاق
ترجمہ :عبید بن عمیر کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عمر کو فجر کی نماز میں دعائے قنوت پڑھتے سنا۔ انہوں نے پہلے یہ کہا (ترجمہ) بسم اللہ الرحمن الرحیم ، اے اللہ ! ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں، تجھ پر ایمان لاتے ہیں، تجھ پر بھروسہ کرتے ہیں، تیری خیر کی تعریف کرتے ہں ہ، ترمی ناشکری نہیں کرتے۔ پھر انہوں نے یہ پڑھا (ترجمہ) بسم اللہ الرحمن الرحیم، اے اللہ ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں، تیرے لئے نماز پڑھتے ہیں، تیرے آگے سجدہ کرتے ہیں۔ تیری طرف چلتے ہیں، تیری رحمت کی امید رکھتے ہیں، تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں اور بیشک تیرا عذاب کافروں تک پہنچنے والا ہے۔ اے اللہ ! ان اہل کتاب کافروں کو عذاب میں مبتلا فرما جو تیرے راستے سے روکتے ہیں۔
وقال الالباني في ارواء الغليل 2-170 قلت: وهذا سند رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين , ولولا عنعنة ابن جريج لكان حرياً بالصحة.
وقد رواه البيهقى (2/210) عن سفيان قال: حدثنى ابن جريج به.
ورواه ابن أبى شيبة (2/60/2 و12/41/2) من طريق ابن أبى ليلى عن عطاء به.
وابن أبى ليلى سىء الحفظ , لكنه لم يتفرد به، فقد روى البيهقى وغيره من طريق سعيد بن عبد الرحمن بن أبزى عن أبيه قال: صليت
خلف عمر بن الخطاب رضى الله عنه صلاة الصبح فسمعته يقول بعد القراءة قبل الركوع: " اللهم إياك نعبد , ولك نصلى ونسجد , وإليك نسعى ونحفد نرجو رحمتك , ونخشى عذابك إن عذابك بالكافرين ملحق , اللهم إنا نستعينك ونستغفرك , ونثنى
عليك الخير ولا نكفرك , ونؤمن بك , ونخضع لك ونخلع من يكفرك.
قلت: وهذا إسناد صحيح.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور وہ روایت جس میں اس دعاء کو قرآن کا حصہ بتایا گیا ہے درج ذیل ہے :
حدثنا وكيع، قال: حدثنا سفيان، عن حبيب بن أبي ثابت، عن عبد الملك بن سويد الكاهلي، أن عليا قنت في الفجر بهاتين السورتين: «اللهم إنا نستعينك ونستغفرك ونثني عليك الخير، ولا نكفر، ونخلع ونترك من يفجرك، اللهم إياك نعبد ولك نصلي ونسجد، وإليك نسعى ونحفد نرجو رحمتك، ونخشى عذابك، إن عذابك الجد بالكفار ملحق»
في اسناده عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ سُوَيْدٍ الْكَاهِلِيِّ لم اقف على ترجمة له ،وعنعنة حبيب بن أبي ثابت وهو مدلس "
(٧١٠٢) عبد الملک بن سوید کاہلی کہتے ہیں کہ حضرت علی نے فجر کی نماز میں دعائے قنوت پڑھتے ہوئے یہ دو اجزاء کہے (ترجمہ) اے اللہ ! ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں، تجھ سے مغفرت مانگتے ہیں، تیری بہترین تعریف کرتے ہیں، تیری ناشکری نہیں کرتے، جو تیری نافرمانی کرے اسے چھوڑتے ہیں اور اس سے دور ہوتے ہیں۔ اے اللہ ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں، تیرے لئے نماز پڑھتے ہیں، تیرے آگے سجدہ کرتے ہیں۔ تیری طرف چلتے ہیں، تیری رحمت کی امید رکھتے ہیں، تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں اور بیشک تیرا عذاب کافروں تک پہنچنے والا ہے۔
اس کی سند کمزور ہے ، اس کے راوی عبدالملک بن سوید کے حالات نہیں مل سکے ، اور دوسری علت یہ ہے اس کا راوی حبیب بن ابی ثابت مدلس ہے ، اور یہاں اس نے سماع کی تصریح نہیں کی ،
اس میں بھی واضح ہے کہ نماز فجر کے قنوت میں اسے پڑھا گیا ، نہ کہ وتر کی نماز میں ،
اسلئے احناف اس حدیث پر عمل نہیں کر رہے بلکہ اس کے خلاف ہیں ،
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
صحیح حدیث میں قنوت وتر کی خاص دعاء مروی ہے :
قال الحسن بن علي رضي الله عنهما: علمني رسول الله صلى الله عليه وسلم كلمات اقولهن في الوتر، قال ابن جواس: في قنوت الوتر، "اللهم اهدني فيمن هديت، وعافني فيمن عافيت، وتولني فيمن توليت، وبارك لي فيما اعطيت، وقني شر ما قضيت إنك تقضي ولا يقضى عليك، وإنه لا يذل من واليت، ولا يعز من عاديت، تباركت ربنا وتعاليت".
سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے چند کلمات سکھائے جنہیں میں وتر میں کہا کرتا ہوں (ابن جواس کی روایت میں ہے ”جنہیں میں وتر کے قنوت میں کہا کروں“) وہ کلمات یہ ہیں: «اللهم اهدني فيمن هديت، وعافني فيمن عافيت، وتولني فيمن توليت، وبارك لي فيما أعطيت، وقني شر ما قضيت إنك تقضي ولا يقضى عليك، وإنه لا يذل من واليت، ولا يعز من عاديت، تباركت ربنا وتعاليت» ۱؎۔
”اے اللہ! مجھے ہدایت دے ان لوگوں میں (داخل کر کے) جن کو تو نے ہدایت دی ہے اور مجھے عافیت دے ان لوگوں میں (داخل کر کے) جن کو تو نے عافیت دی ہے اور میری کارسازی فرما ان لوگوں میں (داخل کر کے) جن کی تو نے کارسازی کی ہے اور مجھے میرے لیے اس چیز میں برکت دے جو تو نے عطا کی ہے اور مجھے اس چیز کی برائی سے بچا جو تو نے مقدر کی ہے، تو فیصلہ کرتا ہے اور تیرے خلاف فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ جسے تو دوست رکھے وہ ذلیل نہیں ہو سکتا اور جس سے تو دشمنی رکھے وہ عزت نہیں پا سکتا، اے ہمارے رب تو بابرکت اور بلند و بالا ہے“۔
تخریج : سنن ابوداود 1425 ،سنن الترمذی/الصلاة ۲۲۴ (الوتر ۹) (۴۶۴)، سنن النسائی/قیام اللیل ۴۲ (۱۷۴۶)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۱۷ (۱۱۷۸)، (تحفة الأشراف:۳۴۰۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۱۹۹، ۲۰۰)، سنن الدارمی/الصلاة ۲۱۴ (۱۶۳۲)