• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حنفی مقلدین کے ہاں رائج دعاء قنوت اور مسنون دعاء قنوت اور نماز وتر کا طریقہ

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
ان باکس میں محترم بھائی @محمد جاوید بودلہ نے درج ذیل سوال کیا ہے ؛
کچھ بھائی قنوت وتر میں یہ دعا پڑھتے ہیں، اللہم ان نستعینک و نستغفرک۔۔۔۔۔۔۔ کیا یہ دعا صحیح حدیث سے ثابت ہے؟ اور مفتی تقی عثمانی صاحب نے لکھا ہے کہ یہ قرآن کی منسوخ آیات ہیں، کیا یہ بات صحیح احادیث سے ثابت ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے ابن ابی شیبہ کا حوالہ دیتے ہیں، ذرا وضاحت فرما دیں، جزاک اللہ خیرا
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
اللہم انا نستعینک۔۔۔ والی
یہ دعاء قنوت وتر میں پڑھنا تو ثابت نہیں ہے ۔ ہاں قنوت نازلہ میں پڑھی جاسکتی ہے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ دعاء نماز فجر کےقنوت نازلہ میں پڑھی تھی :
حدثنا حفص بن غياث، عن ابن جريج، عن عطاء، عن عبيد بن نمير، قال: سمعت عمر، يقنت في الفجر يقول: «بسم الله الرحمن الرحيم، اللهم إنا نستعينك ونؤمن بك، ونتوكل عليك ونثني عليك الخير كله، ولا نكفر» ثم قرأ: «بسم الله الرحمن الرحيم اللهم إياك نعبد، ولك نصلي ونسجد، وإليك نسعى ونحفد، نرجو رحمتك، ونخشى عذابك، إن عذابك الجد بالكفار ملحق، اللهم عذب كفرة أهل الكتاب الذين يصدون عن سبيلك»
في اسناده عنعنة ابن جريج ، وهو مدلس ،لكن صرح بالتحديث في رواية عبدالرزاق
ترجمہ :
عبید بن عمیر کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عمر کو فجر کی نماز میں دعائے قنوت پڑھتے سنا۔ انہوں نے پہلے یہ کہا (ترجمہ) بسم اللہ الرحمن الرحیم ، اے اللہ ! ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں، تجھ پر ایمان لاتے ہیں، تجھ پر بھروسہ کرتے ہیں، تیری خیر کی تعریف کرتے ہں ہ، ترمی ناشکری نہیں کرتے۔ پھر انہوں نے یہ پڑھا (ترجمہ) بسم اللہ الرحمن الرحیم، اے اللہ ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں، تیرے لئے نماز پڑھتے ہیں، تیرے آگے سجدہ کرتے ہیں۔ تیری طرف چلتے ہیں، تیری رحمت کی امید رکھتے ہیں، تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں اور بیشک تیرا عذاب کافروں تک پہنچنے والا ہے۔ اے اللہ ! ان اہل کتاب کافروں کو عذاب میں مبتلا فرما جو تیرے راستے سے روکتے ہیں۔
وقال الالباني في ارواء الغليل 2-170 قلت: وهذا سند رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين , ولولا عنعنة ابن جريج لكان حرياً بالصحة.
وقد رواه البيهقى (2/210) عن سفيان قال: حدثنى ابن جريج به.
ورواه ابن أبى شيبة (2/60/2 و12/41/2) من طريق ابن أبى ليلى عن عطاء به.
وابن أبى ليلى سىء الحفظ , لكنه لم يتفرد به، فقد روى البيهقى وغيره من طريق سعيد بن عبد الرحمن بن أبزى عن أبيه قال: صليت
خلف عمر بن الخطاب رضى الله عنه صلاة الصبح فسمعته يقول بعد القراءة قبل الركوع: " اللهم إياك نعبد , ولك نصلى ونسجد , وإليك نسعى ونحفد نرجو رحمتك , ونخشى عذابك إن عذابك بالكافرين ملحق , اللهم إنا نستعينك ونستغفرك , ونثنى
عليك الخير ولا نكفرك , ونؤمن بك , ونخضع لك ونخلع من يكفرك.
قلت: وهذا إسناد صحيح.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

اور وہ روایت جس میں اس دعاء کو قرآن کا حصہ بتایا گیا ہے درج ذیل ہے :
حدثنا وكيع، قال: حدثنا سفيان، عن حبيب بن أبي ثابت، عن عبد الملك بن سويد الكاهلي، أن عليا قنت في الفجر بهاتين السورتين: «اللهم إنا نستعينك ونستغفرك ونثني عليك الخير، ولا نكفر، ونخلع ونترك من يفجرك، اللهم إياك نعبد ولك نصلي ونسجد، وإليك نسعى ونحفد نرجو رحمتك، ونخشى عذابك، إن عذابك الجد بالكفار ملحق»
في اسناده
عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ سُوَيْدٍ الْكَاهِلِيِّ لم اقف على ترجمة له ،وعنعنة حبيب بن أبي ثابت وهو مدلس "
(٧١٠٢) عبد الملک بن سوید کاہلی کہتے ہیں کہ حضرت علی نے فجر کی نماز میں دعائے قنوت پڑھتے ہوئے یہ دو اجزاء کہے (ترجمہ) اے اللہ ! ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں، تجھ سے مغفرت مانگتے ہیں، تیری بہترین تعریف کرتے ہیں، تیری ناشکری نہیں کرتے، جو تیری نافرمانی کرے اسے چھوڑتے ہیں اور اس سے دور ہوتے ہیں۔ اے اللہ ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں، تیرے لئے نماز پڑھتے ہیں، تیرے آگے سجدہ کرتے ہیں۔ تیری طرف چلتے ہیں، تیری رحمت کی امید رکھتے ہیں، تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں اور بیشک تیرا عذاب کافروں تک پہنچنے والا ہے۔
اس کی سند کمزور ہے ، اس کے راوی عبدالملک بن سوید کے حالات نہیں مل سکے ، اور دوسری علت یہ ہے اس کا راوی حبیب بن ابی ثابت مدلس ہے ، اور یہاں اس نے سماع کی تصریح نہیں کی ،

اس میں بھی واضح ہے کہ نماز فجر کے قنوت میں اسے پڑھا گیا ، نہ کہ وتر کی نماز میں ،
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
اسلئے احناف اس حدیث پر عمل نہیں کر رہے بلکہ اس کے خلاف ہیں ،
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
صحیح حدیث میں قنوت وتر کی خاص دعاء مروی ہے :
قال الحسن بن علي رضي الله عنهما:‏‏‏‏ علمني رسول الله صلى الله عليه وسلم كلمات اقولهن في الوتر، ‏‏‏‏‏‏قال ابن جواس:‏‏‏‏ في قنوت الوتر، ‏‏‏‏‏‏"اللهم اهدني فيمن هديت، ‏‏‏‏‏‏وعافني فيمن عافيت، ‏‏‏‏‏‏وتولني فيمن توليت، ‏‏‏‏‏‏وبارك لي فيما اعطيت، ‏‏‏‏‏‏وقني شر ما قضيت إنك تقضي ولا يقضى عليك، ‏‏‏‏‏‏وإنه لا يذل من واليت، ‏‏‏‏‏‏ولا يعز من عاديت، ‏‏‏‏‏‏تباركت ربنا وتعاليت".
سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے چند کلمات سکھائے جنہیں میں وتر میں کہا کرتا ہوں (ابن جواس کی روایت میں ہے ”جنہیں میں وتر کے قنوت میں کہا کروں“) وہ کلمات یہ ہیں: «اللهم اهدني فيمن هديت، وعافني فيمن عافيت، وتولني فيمن توليت، وبارك لي فيما أعطيت، وقني شر ما قضيت إنك تقضي ولا يقضى عليك، وإنه لا يذل من واليت، ولا يعز من عاديت، تباركت ربنا وتعاليت» ۱؎۔
”اے اللہ! مجھے ہدایت دے ان لوگوں میں (داخل کر کے) جن کو تو نے ہدایت دی ہے اور مجھے عافیت دے ان لوگوں میں (داخل کر کے) جن کو تو نے عافیت دی ہے اور میری کارسازی فرما ان لوگوں میں (داخل کر کے) جن کی تو نے کارسازی کی ہے اور مجھے میرے لیے اس چیز میں برکت دے جو تو نے عطا کی ہے اور مجھے اس چیز کی برائی سے بچا جو تو نے مقدر کی ہے، تو فیصلہ کرتا ہے اور تیرے خلاف فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ جسے تو دوست رکھے وہ ذلیل نہیں ہو سکتا اور جس سے تو دشمنی رکھے وہ عزت نہیں پا سکتا، اے ہمارے رب تو بابرکت اور بلند و بالا ہے“۔

تخریج : سنن ابوداود 1425 ،سنن الترمذی/الصلاة ۲۲۴ (الوتر ۹) (۴۶۴)، سنن النسائی/قیام اللیل ۴۲ (۱۷۴۶)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۱۷ (۱۱۷۸)، (تحفة الأشراف:۳۴۰۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۱۹۹، ۲۰۰)، سنن الدارمی/الصلاة ۲۱۴ (۱۶۳۲)
 
شمولیت
اپریل 22، 2018
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
37
جز
ان باکس میں محترم بھائی @محمد جاوید بودلہ نے درج ذیل سوال کیا ہے ؛

السلام علیکم ورحمۃ اللہ
اللہم انا نستعینک۔۔۔ والی
یہ دعاء قنوت وتر میں پڑھنا تو ثابت نہیں ہے ۔ ہاں قنوت نازلہ میں پڑھی جاسکتی ہے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ دعاء نماز فجر کےقنوت نازلہ میں پڑھی تھی :
حدثنا حفص بن غياث، عن ابن جريج، عن عطاء، عن عبيد بن نمير، قال: سمعت عمر، يقنت في الفجر يقول: «بسم الله الرحمن الرحيم، اللهم إنا نستعينك ونؤمن بك، ونتوكل عليك ونثني عليك الخير كله، ولا نكفر» ثم قرأ: «بسم الله الرحمن الرحيم اللهم إياك نعبد، ولك نصلي ونسجد، وإليك نسعى ونحفد، نرجو رحمتك، ونخشى عذابك، إن عذابك الجد بالكفار ملحق، اللهم عذب كفرة أهل الكتاب الذين يصدون عن سبيلك»
في اسناده عنعنة ابن جريج ، وهو مدلس ،لكن صرح بالتحديث في رواية عبدالرزاق
ترجمہ :
عبید بن عمیر کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عمر کو فجر کی نماز میں دعائے قنوت پڑھتے سنا۔ انہوں نے پہلے یہ کہا (ترجمہ) بسم اللہ الرحمن الرحیم ، اے اللہ ! ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں، تجھ پر ایمان لاتے ہیں، تجھ پر بھروسہ کرتے ہیں، تیری خیر کی تعریف کرتے ہں ہ، ترمی ناشکری نہیں کرتے۔ پھر انہوں نے یہ پڑھا (ترجمہ) بسم اللہ الرحمن الرحیم، اے اللہ ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں، تیرے لئے نماز پڑھتے ہیں، تیرے آگے سجدہ کرتے ہیں۔ تیری طرف چلتے ہیں، تیری رحمت کی امید رکھتے ہیں، تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں اور بیشک تیرا عذاب کافروں تک پہنچنے والا ہے۔ اے اللہ ! ان اہل کتاب کافروں کو عذاب میں مبتلا فرما جو تیرے راستے سے روکتے ہیں۔
وقال الالباني في ارواء الغليل 2-170 قلت: وهذا سند رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين , ولولا عنعنة ابن جريج لكان حرياً بالصحة.
وقد رواه البيهقى (2/210) عن سفيان قال: حدثنى ابن جريج به.
ورواه ابن أبى شيبة (2/60/2 و12/41/2) من طريق ابن أبى ليلى عن عطاء به.
وابن أبى ليلى سىء الحفظ , لكنه لم يتفرد به، فقد روى البيهقى وغيره من طريق سعيد بن عبد الرحمن بن أبزى عن أبيه قال: صليت
خلف عمر بن الخطاب رضى الله عنه صلاة الصبح فسمعته يقول بعد القراءة قبل الركوع: " اللهم إياك نعبد , ولك نصلى ونسجد , وإليك نسعى ونحفد نرجو رحمتك , ونخشى عذابك إن عذابك بالكافرين ملحق , اللهم إنا نستعينك ونستغفرك , ونثنى
عليك الخير ولا نكفرك , ونؤمن بك , ونخضع لك ونخلع من يكفرك.
قلت: وهذا إسناد صحيح.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

اور وہ روایت جس میں اس دعاء کو قرآن کا حصہ بتایا گیا ہے درج ذیل ہے :
حدثنا وكيع، قال: حدثنا سفيان، عن حبيب بن أبي ثابت، عن عبد الملك بن سويد الكاهلي، أن عليا قنت في الفجر بهاتين السورتين: «اللهم إنا نستعينك ونستغفرك ونثني عليك الخير، ولا نكفر، ونخلع ونترك من يفجرك، اللهم إياك نعبد ولك نصلي ونسجد، وإليك نسعى ونحفد نرجو رحمتك، ونخشى عذابك، إن عذابك الجد بالكفار ملحق»
في اسناده
عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ سُوَيْدٍ الْكَاهِلِيِّ لم اقف على ترجمة له ،وعنعنة حبيب بن أبي ثابت وهو مدلس "
(٧١٠٢) عبد الملک بن سوید کاہلی کہتے ہیں کہ حضرت علی نے فجر کی نماز میں دعائے قنوت پڑھتے ہوئے یہ دو اجزاء کہے (ترجمہ) اے اللہ ! ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں، تجھ سے مغفرت مانگتے ہیں، تیری بہترین تعریف کرتے ہیں، تیری ناشکری نہیں کرتے، جو تیری نافرمانی کرے اسے چھوڑتے ہیں اور اس سے دور ہوتے ہیں۔ اے اللہ ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں، تیرے لئے نماز پڑھتے ہیں، تیرے آگے سجدہ کرتے ہیں۔ تیری طرف چلتے ہیں، تیری رحمت کی امید رکھتے ہیں، تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں اور بیشک تیرا عذاب کافروں تک پہنچنے والا ہے۔
اس کی سند کمزور ہے ، اس کے راوی عبدالملک بن سوید کے حالات نہیں مل سکے ، اور دوسری علت یہ ہے اس کا راوی حبیب بن ابی ثابت مدلس ہے ، اور یہاں اس نے سماع کی تصریح نہیں کی ،

اس میں بھی واضح ہے کہ نماز فجر کے قنوت میں اسے پڑھا گیا ، نہ کہ وتر کی نماز میں ،
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
اسلئے احناف اس حدیث پر عمل نہیں کر رہے بلکہ اس کے خلاف ہیں ،
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
صحیح حدیث میں قنوت وتر کی خاص دعاء مروی ہے :
قال الحسن بن علي رضي الله عنهما:‏‏‏‏ علمني رسول الله صلى الله عليه وسلم كلمات اقولهن في الوتر، ‏‏‏‏‏‏قال ابن جواس:‏‏‏‏ في قنوت الوتر، ‏‏‏‏‏‏"اللهم اهدني فيمن هديت، ‏‏‏‏‏‏وعافني فيمن عافيت، ‏‏‏‏‏‏وتولني فيمن توليت، ‏‏‏‏‏‏وبارك لي فيما اعطيت، ‏‏‏‏‏‏وقني شر ما قضيت إنك تقضي ولا يقضى عليك، ‏‏‏‏‏‏وإنه لا يذل من واليت، ‏‏‏‏‏‏ولا يعز من عاديت، ‏‏‏‏‏‏تباركت ربنا وتعاليت".
سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے چند کلمات سکھائے جنہیں میں وتر میں کہا کرتا ہوں (ابن جواس کی روایت میں ہے ”جنہیں میں وتر کے قنوت میں کہا کروں“) وہ کلمات یہ ہیں: «اللهم اهدني فيمن هديت، وعافني فيمن عافيت، وتولني فيمن توليت، وبارك لي فيما أعطيت، وقني شر ما قضيت إنك تقضي ولا يقضى عليك، وإنه لا يذل من واليت، ولا يعز من عاديت، تباركت ربنا وتعاليت» ۱؎۔
”اے اللہ! مجھے ہدایت دے ان لوگوں میں (داخل کر کے) جن کو تو نے ہدایت دی ہے اور مجھے عافیت دے ان لوگوں میں (داخل کر کے) جن کو تو نے عافیت دی ہے اور میری کارسازی فرما ان لوگوں میں (داخل کر کے) جن کی تو نے کارسازی کی ہے اور مجھے میرے لیے اس چیز میں برکت دے جو تو نے عطا کی ہے اور مجھے اس چیز کی برائی سے بچا جو تو نے مقدر کی ہے، تو فیصلہ کرتا ہے اور تیرے خلاف فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ جسے تو دوست رکھے وہ ذلیل نہیں ہو سکتا اور جس سے تو دشمنی رکھے وہ عزت نہیں پا سکتا، اے ہمارے رب تو بابرکت اور بلند و بالا ہے“۔

تخریج : سنن ابوداود 1425 ،سنن الترمذی/الصلاة ۲۲۴ (الوتر ۹) (۴۶۴)، سنن النسائی/قیام اللیل ۴۲ (۱۷۴۶)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۱۷ (۱۱۷۸)، (تحفة الأشراف:۳۴۰۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۱۹۹، ۲۰۰)، سنن الدارمی/الصلاة ۲۱۴ (۱۶۳۲)

جزاکم اللہ خیرا، اللہ پاک آپکو جزائے خیر دیں، بھائی فرصت نکال کے یہ بھی بتا دیجیے گا کہ وہ اس حدیث میں منسوخ آیات کس وجہ سے کہتے ہیں، آپ نے جو حدیث درج کی اس میں مجھے آیت کا ذکر نہیں ملا،
جزاک اللہ خیرا
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
نماز وتر میں دعاءِ قنوت

صحیح حدیث میں ہے :
عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ عَلَّمَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ فِي الْوِتْرِ قَالَ قُلْ اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ فَإِنَّكَ تَقْضِي وَلَا يُقْضَى عَلَيْكَ وَإِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ وَصَلَّى اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ مُحَمَّدٍ ))
(سنن النسائی (1746 )

قنوت وتر کی دعاء میں سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی حدیث بالکل صحیح ہے ؛
علم حدیث کے عظیم علماء نے اسے صحیح کہا ہے ،تفصیل درج ذیل ہے :
ـــــــــــــــــــــــــ
(1)أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي (المتوفى: 676هـ)
امام نوویؒ الاذکار میں میں اسے : الحديث الصحيح "کہتے ہیں ،اپنی کتاب "الاذکار " میں فرماتے ہیں :

ما روينا في الحديث الصحيح في سنن أبي داود، والترمذي، والنسائي، وابن ماجه، والبيهقي، وغيرها، بالإِسناد الصحيح عن الحسن بن عليّ رضي الله عنهما قال: علّمني رسولُ الله صلى الله عليه وسلم كلماتٍ أقولُهُنَّ في الوتر: " اللَّهُمَّ اهْدِني فِيمَنْ هَدَيْتَ، وعَافِني
فِيمَنْ عَافَيْتَ، وَتَوَلّني فِيمَن تَوَلَّيْتَ، وبَارِكْ لِي فِيما أَعْطَيْتَ، وَقِني شَرَّ ما قَضَيْتَ، فإنَّكَ تَقْضِي وَلا يُقْضَى عَلَيْكَ، وَإِنَّهُ لا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ، تَبَارَكْتَ رَبَّنا وَتَعالَيْتَ ".

قال الترمذي: هذا حديث حسن، قال: ولا نعرف عن النبي صلى الله عليه وسلم في القنوت شيئاً أحسن من هذا.
ترجمہ :
امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ : حدیث صحیح میں روایت کیا گیا ہے اور یہ حدیث سنن ابی داود ،سنن الترمذی ؒ ،سنن ابن ماجہ ؒ ،سنن النسائیؒ ، اور السنن الکبری للبیہقیؒ میں ہے کہ :
جناب حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کچھ کلمات تعلیم فرمائے جنہیں میں وتر میں پڑھا کروں “ اور وہ یہ ہیں « اے اللہ ! جن لوگوں کو تو نے ہدایت دی ہے مجھے بھی ان کے ساتھ ہدایت دے ۔ اور جن کو تو نے عافیت دی ہے مجھے بھی ان کے ساتھ عافیت دے ( یعنی ہر قسم کی برائیوں اور پریشانیوں وغیرہ سے ) اور جن کا تو والی ( دوست اور محافظ ) بنا ہے ان کے ساتھ میرا بھی والی بن ۔ اور جو نعمتیں تو نے عنایت فرمائی ہیں ان میں مجھے برکت دے ۔ اور جو فیصلے تو نے فرمائے ہیں ان کے شر سے مجھے محفوظ رکھ ۔ بلاشبہ فیصلے تو ہی کرتا ہے ، تیرے مقابلے میں کوئی فیصلہ نہیں ہوتا ۔ اور جس کا تو والی اور محافظ ہو وہ کہیں ذلیل نہیں ہو سکتا ۔ اور جس کا تو مخالف ہو وہ کبھی عزت نہیں پا سکتا ، بڑی برکتوں ( اور عظمتوں ) والا ہے تو اے ہمارے رب ! اور بہت بلند و بالا ہے » “
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے، میرے علم میں وتر کے قنوت کے سلسلے میں اس سے بہتر کوئی اور چیز نبی اکرمﷺسے مروی ہو معلوم نہیں ۔
دیکھئے :الاذکار ،تحقیق شعیب ارناؤط ص48
https://archive.org/details/WAQazkarn/page/n48
ــــــــــــــــــــــــــ
(2) امام حافظ ا حمد بن علی ابن حجر عسقلانی (المتوفی 852 ھ)
وقال الحافظ في "نتائج الأفكار": هذا حديث حسن صحيح" (انیس الساری 2/870 )
الاذکار کی تخریج "نتائج الافکار " میں اس حدیث کو "حسن صحیح " کہتے ہیں ۔

(3) عرب کے علم حدیث کے مشہور محقق علامہ حسیں سلیم اسد بھی اس حدیث کو "اسنادہ صحیح " لکتے ہیں :
قال الشیخ حسین سلیم اسد في تخريج سنن الدارمي : إسناده صحيح 1633

(4) اور معروف محقق علامہ شعیب ارناؤط رحمہ اللہ بھی اس کی سند کو صحیح اور رواۃ کو ثقہ لکھتے ہیں :
وقال الشيخ شعيب الارناؤط (في تعليق المسند 3/246: إسناده صحيح، رجالُه كلهم ثقات. أبو الحوراء: هو ربيعة بن شيبان السعدي.
وأخرجه ابن الجارود (272) ،. وابن خزيمة (1095) ، والطبراني (2712) من طريق
وكيع، بهذا الإسناد.
وأخرجه البيهقي 2/209 من طريق العلاء بن صالح، عن بريد، به.
وأخرجه الطبراني (2713) من- طريق الربيع بن ركين، عن أبي يزيد الزراد، عن أبي الحوراء، به.
وأخرجه ابن أبي عاصم في "السنة" (375) ، وفي "الآحاد والمثاني" (415) ، والطبراني (2700) ، والحاكم 3/172 وصححه على شرط الشيخين من طريق موسى بن عقبة، عن هشام، عن أبيه، عن عائشة، عن الحسن.
وأخرجه النسائي 3/248 من طريق موسى بن عقبة، عن عبد الله بن علي، عن الحسن. وسيأتي برقم (1721) و (1723) و (1727)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور علامہ ناصرالدین البانیؒ کی نماز کے مسائل و احکام پر تفصیلی کتاب "اصل صفۃ الصلاۃ " ہے
اس میں قنوت وتر کی اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں :
" اس کی اسناد بالکل صحیح ہے ،اور تمام راوی ثقہ ہیں "

هو من حديث الحسن بن علي نَفْسِه قال:
علمني رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كلمات أقولهن في قنوت الوتر: ... فذكرها.
أخرجه أبو داود (1/225) ، والنسائي (1/252) ، والترمذي (2/328) ، والدارمي
(1/373 - 374) ، وابن ماجه (1/358) ، وابن نصر (134) ، والحاكم (3/172) ،
والبيهقي (2/209 و 497) ، وأحمد (1/199) ، والطبراني في " الكبير "، {وكذا ابن
أبي شيبة [2/95/6888] } من طرق عن بريد ابن أبي مريم عن أبي الحوراء عنه.
ورواه ابن خزيمة { (1/119/2) = [2/151 و 152/1095 و 1096] } ، وابن حبان
في " صحيحيهما " (*) - كما في " نصب الراية " (2/125) ، و " التلخيص " (4/425) -.
والزيادة عند البيهقي، والطبراني.
والحديث صحيح - كما قال النووي (3/496) -، ورجاله كلهم ثقات. وسكت عليه الحاكم. واقتصر الترمذي على قوله:" حديث حسن ". وهو قصور.
وأما تضعيف ابن حزم له في " المحلى " (4/147 - 148) ؛ فمما لا يلتفت إليه؛ لأنه لا سلف له في ذلك ولا حجة.
(أصل صفة صلاة النبي صلى الله عليه وسلم3/975)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اہل علم سے جواب مطلوب ہے
وتر کی مسنون رکعات

تحریر غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز وتر کی ایک ، تین ، پانچ، سات اور نو رکعات ثابت ہیں۔
ایک رکعت نماز وتر:
ربیع بن سلیمان رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
«سئل الشافعي عن الوتر : أيجوز أن يوتر الرجل بواحدة ، ليس قبلھا شيء ؟ قال : نعم ، والّذي أختار أن أصلّي عشر ركعات ، ثمّ أوتر بواحدة ، فقلت للشافعي : فما الحجة في أن الوتر يجوز بواحدة ؟ فقال : الحجة فيه السنّة و الآثار»
”امام شافعی رحمہ اللہ سے وتر كے بارے ميں سوال كيا گيا كہ آدمی ایک وتر ایسے پڑھے کہ اس سے پہلے کوئی نماز نہ ہو تو کیا جائز ہے ؟ فرمایا : ہاں، جائز ہے، لیکن میں پسند یہ کرتا ہوں کہ دس رکعات پڑھ کر پھر ایک وتر پڑھوں۔ میں نے امام شافعی رحمہ اللہ سے پوچھا : ایک وتر جائز ہونے کی دلیل ہے ؟ فرمایا : اس بارے میں سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آثار سلف دلیل ہیں۔ “ ( السنن الصغریٰ للبیھقی :۵۹۳، وہ سندہٗ حسنٌ)
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کی نماز کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«صلاة الليل مثنى مثنى فإذا خشی أحدكم الصبح صلى ركعة واحدة ، توتر له ما قد صلى»
”رات کی نماز دو دو رکعت ہے پھر جب کوئی صبح ہونے سے ڈرے تو ایک رکعت پڑھ لے، وہ اس کی ساری نماز کو طاق بنا دے گی۔ “ ( صحیح بخاری : 990، صحیح مسلم : 749)

صحیح مسلم (۱۵۸/۷۴۹) کی ایک روایت کے الفاظ ہیں :
«ويوتر بركعة من آخر الليل»
”رات كے آخری حصے میں ایک رات وتر پڑھ لے۔ “
صحیح مسلم (۷۵۲ ، ۷۵۳) میں سیدنا ابن عمر اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«الوتر ركعة من آخر الليل»
”وتر رات کے آخری حصہ میں ایک رکعت کا نام ہے ۔ “

صحیح مسلم (۱۵۹/۷۴۹) کی ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں :
«صلاة الليل مثنى مثنى فإذا رآيت أنّ الصبح يدر كك ، فاوتر بواحدة»
”رات کی نماز دو ، دو رکعت ہے ، جب تو دیکھے کہ صبح ہونے کو ہے تو ایک وتر پڑھ لے ۔ “
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
«أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصلي باليل إحدى عشرة ركعة ، يوتر منھا بواحدة ، فإذا فرغ منھا اضطجع على شقه الأيمن ، حتى يأتيه المؤذن ، فيصلی ركعتين خفيفتين»
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو گیارہ رکعت پڑھتے تھے، ان میں سے ایک وتر ادا فرماتے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہو جاتے تو اپنے دائیں پہلو پر لیٹ جاتے، حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مؤذن آتا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو ہلکی سی رکعتیں ( فجر کی سنتیں ) ادا فرماتے۔ “ (صحیح البخاری : ۹۹۴، صحیح مسلم : ۷۳۶، و للفظ له‘)
سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«الوتر حق فمن شاء أوتر بسبع ومن شاء أوتر بخمس ، ‏‏‏‏ ومن شاء أوتر بثلاث ومن شاء أوتر بواحدة»
”وتر حق ہے، جو چاہے سات پڑھے، جو چاہے پانچ پڑھے، جو چاہے تین پڑھے، اور جو چاہے ایک پڑھے۔ “ (سنن ابی داؤد ۱۴۲۲، سنن النسائی : ۱۷۱۱، سنن ابن ماجه : ۱۱۹۰، وسندہٗ صحیح )
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (۲۴۱۰) اور حافظ ابن الملقن ( البدر المنیر : ۲۹۶/۴) نے ”صحیح“ قرار دیا ہے۔
امام حاکم رحمہ اللہ نے بخاری و مسلم کی شرط پر ”صحیح“ قرار دیا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
«أن النبی صلى الله عليه وسلم أوتر بركعة.»
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت وتر ادا فرمایا۔ “ ( سنن الدارقطنی : ۱۶۵۶، وسندہٗ صحیحٌ)
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بیان کرتے ہیں :
«أوتر بركعة.»
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت وتر پڑھا۔ “ (صحیح ابن حبان : ۲۴۲۴۔ وسندہٗ صحیحٌ)
ابن ابی ملیکہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے عشاء کے بعد ایک وتر پڑھا۔ ان کے پاس سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے غلام بھی موجود تھے۔ انہوں نے آ کر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو بتایا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
دعه فإنه صحب رسول الله صلى الله عليه وسلم.
”ان کو چھوڑ دو، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے ہیں۔ “ ( صحیح بخاری : ۳۷۶۴)
صحیح بخاری ہی کی ایک روایت (۳۷۶۵) میں ہے کہ ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا گیا کہ امیرالمؤمنین معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں، انہوں نے وتر کی نماز صرف ایک رکعت پڑھی ہے؟ انہوں نے کہا إنه فقيه. ”وہ فقیہ ہیں۔عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
”أن معاوية أوتر بركعة ، فأنكر ذلك عليه ، فسئل ابن عباس ، فقال : أصاب السنّة.“
” سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک وتر پڑھا، ان پر اس چیز کا اعتراض کیا گیا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا : انہوں نے سنت پر عمل کیا ہے۔ “ ( مصنف ابن ابی شيبة : ۲۹۱/۲، وسندہٗ صحیحٌ)
ایک رکعت وتر سنت ہے، فقیہ کی نشانی بھی یہی ہے کہ وہ ایک رکعت وتر کا قائل و فاعل ہوتا ہے۔ سیدنا معاویہ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم دو جلیل القدر صحابی ایک رکعت وتر کے قائل و فاعل ہیں۔

دیگر صحابہ کرا م کا عمل
ابومجلز بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے وتر کے بارے میں پوچھا اور کہا کہ اگر میں سفر میں ہوں تو کیا کروں ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ركعة من آخر الليل. ”رات كے آخری حصے میں ایک رکعت پڑھ لو۔“ ( مصنف ابن ابی شيبة : ۳۰۱/۲، وسندہٗ صحیحٌ)
عبدالرحمٰن تیمی بیان کرتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ آج رات قیام اللیل پر مجھ سے کوئی سبقت نہ لے جائے گا۔ میں اٹھا تو اپنے پیچھے ایک آدمی کی آہٹ پائی۔ وہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ تھے۔ میں ایک طرف ہٹ گیا۔ آپ رضی اللہ عنہ آگے بڑھے، قرآن کریم شروع کیا اور ختم کر دیا، پھر رکوع کیا اور سجدہ کیا۔ میں نے سوچا : شیخ بھول گئے ہیں۔ جب آپ رضی اللہ عنہ نماز پڑھ چکے تو میں نے عرض کیا : اے امیر المؤمنین ! آپ نے ایک ہی رکعت وتر ادا کی ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ہاں۔ یہ میرا وتر ہے۔“ ( شرح معانی الآثار للطحاوی : ۲۹۴/1، سنن الدارقطنی : ۳۴/۲، ح، ۱۶۵۶-۱۶۵۸، و سندہٗ حسنٌ)
عبداللہ بن مسلمہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے ہمیں نماز عشاء پڑھائی، پھر مسجد کے ایک کونے میں ایک رکعت ادا کی۔ میں آپ کے پیچھے گیا اور عرض کیا : اے ابواسحاق ! یہ کیسی رکعت ہے ؟ فرمایا : وتر، أنام عليه. ”يه وتر هے، جو پڑھ کر میں سو رہا ہوں۔“ عمرو بن مرۃ کہتے ہیں کہ میں نے یہ بات مصعب بن سعد کو بتائی تو انہوں نے کہا : سیدنا سعد رضی اللہ عنہ ایک رکعت وتر پڑھا کرتے تھے۔ (شرح معانی الآثار للطحاوی : ۲۹۵/۱، و سندہٗ حسنٌ)
سیدنا عبداللہ بن ثعبلہ بن صغیر رضی اللہ عنہ جن کے چہرے پر فتح مکہ کے موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ پھیرا تھا، وہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ جو کہ بدر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے، نماز عشاء کے بعد ایک وتر پڑھا کرتے تھے۔ اس سے زیادہ نہ پرھتے تھے، حتیٰ کہ رات کے وسط میں قیام کرتے تھے۔ ( معرفة السنن والآثار للبيھقي : 3142 ح،، 1390 صحيح البخاري : 6356 : وسندہٗ صحیحٌ)
نافع رحمہ اللہ، سيدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں بیان کرتے ہیں :
أنه كان يوتر بركعتة
”آپ رضی اللہ عنہ ایک رکعت وتر پڑھتے تھے۔ “
(الاوسط لابن لمنذر : 179/5، وسندہٗ صحیحٌ)

ابومجلز بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے مکہ و مدینہ کے درمیان عشاء کی نماز دو رکعت ادا کی، پھر کھڑے ہو کر ایک رکعت وتر پڑھا۔ (الاوسط لابن لمنذر : 179/5، وسندہٗ صحیحٌ)
جریر بن حازم بیان کرتے ہیں :
«سألت عطاء : أوتر بركعة ؟ فقال : نعم ، إن شئت.»
”ميں نے امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ سے سوال کیا کہ کیا میں ایک رکعت وتر پڑھ لیا کروں ؟ فرمایا : ہاں اگر چاہے تو پڑھ لیا کر۔ “ ( مصنف ابن ابی شيبة : ۲۹۲/۲، وسندہٗ صحیحٌ)

ابن عون بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ سے پوچھا کہ اگر آدمی سو گیا اور صبح ہو گئی تو کیا صبح ہونے کے بعد وہ ایک رکعت وتر پڑھ لے ؟ فرمایا :
«لا أعلم به بأسا.»
”ميں اس ميں كچھ حرج نہیں سمجھتا۔ “ ( مصنف ابن ابی شيبة : ۲۹۰/۲، وسندہٗ صحیحٌ)


ایک تین ، پانچ اور سات وتر احناف کی نظر میں
ایک، تین، پانچ اور سات رکعات وتر پڑھنا جائز ہیں۔ اب ہم مقلدین کی معتبر کتب کے حوالہ جات پیش کرتے ہیں :
۱۔ مشہور حنفی جناب عبدالحیئ لکھنوی صاحب لکھتے ہیں :
وقد صحّ من جمع من الصحابة أنّھم أوتروا بواحدة، دون تقدّم نفل قبلھا.
”صحابہ کرام کی ایک جماعت سے یہ بات ثابت ہے کہ انہوں نے پہلے کوئی نفل پڑھے بغیر ایک رکعت وتر ادا کیا۔ “
( التعلیق الممجد للکنوی : ۵۰۸/۱)
۲۔ علامہ سندھی حنفی، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
ھذا صريح في جواز الوتر بواحدة.
”یہ حدیث ایک وتر کے جائز ہونے میں واضح ہے۔ “
( حاشیة السندي علی النسائي : ۳۰/۲)
۳۔ جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی لکھتے ہیں :
نعم، ثابت عن بعض الصحابة بلا ريب.
”ہاں، بعض صحابہ کرام سے بلاشک و شبہ ایک وتر پڑھنا ثابت ہے۔ “
( العرف الشذی للکشمیری : ۱۲/۲)
۴۔ جناب عبدالشکور فاروقی لکھنوی دیوبندی لکھتے ہیں :
”یہ ( صرف تین وتر پڑھنا ) مذہب امام صاحب کا ہے۔ ان کے نزدیک ایک رکعت کی وتر جائز نہیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک وتر میں ایک رکعت بھی جائز ہے۔ دونوں طرف بکثرت احادیث صحیحہ موجود ہیں۔ “
( علم الفقه از عبدالشكور اللكونوي : حصه دوم : ۱۸۲)
تنبیہ نمبر ۱ :

بعض الناس پر لازم ہے کہ وہ اپنے امام سے ایک رکعت وتر کا عدم جواز بسندِ صحیح ثابت کریں۔

تنبیہ نمبر ۲ :
جس روایت میں تین وتر ہے ذکر ہے، اس سے ایک یا پانچ وتر کی نفی نہیں ہوتی۔
۵۔ جناب خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی لکھتے ہیں :
وتر کی رکعت احادیث صحاح میں موجود اور سیدنا عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم وغیرہما صحابہ کرام اس کے مقر اور مالک رحمہ اللہ و شافعی رحمہ اللہ و احمد رحمہ اللہ کا وہ مذہب، پھر اس پر طعن کرنا ان سب پر طعن ہے، کہو اب ایمان کا کیا ٹھکانہ ؟۔۔۔۔ “
( براھین قاطعه : ص ۷)
یاد رہے کہ اس کتاب پر جناب رشید احمد گنگوہی دیوبندی کی تقریظ بھی ہے۔
سہارنپوری دیوبندی صاحب کی عبارت سے بہت سی باتیں ثابت ہوتی ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایک رکعت وتر پر طعن کرنے والے بے ایمان ہیں۔

۶۔ جب بعض لوگوں نے جناب سہارنپوری کی مذکورہ بالا کتاب پر اعتراضات کئے تو ان کے ردّ جواب میں دیوبندیوں کے عقیدۂ وحدت الوجود کے امام حاجی امداد اللہ ”مکی“ دیوبندی صاحب لکھتے ہیں :
”ایسے ہی ایک وتر کی بحث میں جو آپ نے لکھا ہے کہ صاحب ”براہین“ کا اعتراض امام صاحب و صاحبین تک پہنچتا ہے۔ یہ تو محض تعصب یا سفاہت ہے۔ صاحب ”براہین“ اس شخص کو ردّ کرتے ہیں، جو عموماً ایک وتر پڑھنے والوں پر طعن کرے کیونکہ ایک وتر پڑھنے والے بعض صحابہ و ائمہ بھی ہیں۔ حضرت امام و صاحبین نے کب ایک وتر پڑھنے والوں پر طعن کیا ہے اور کب طعن کر سکتے ہیں کہ اس طرف بھی صحابہ کبار اور ائمہ خیار ہیں۔ صاحب ”انوار ساطعہ“ نے چونکہ بالعموم ایک وتر پڑھنے والوں کو مطعون کیا تھا، حالانکہ ان میں صحابہ و ائمہ ہیں۔ اس کو متنبہ کیا ہے اور اس گستاخی سے روکا ہے۔ “
( یہ تحریر براھین کے آخر میں ملحق ہے : ص : ۲۸۰)
۷۔ اس تحریر کے ایک مقلد محشی لکھتے ہیں :
”پس معترض کا یہ کہنا کہ ”براہین“ کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے امام صاحب و صاحبین کے ایمان کا بھی کیا ٹھکانہ، نہایت حمق و شقاوت ہے، کیونکہ ان حضرات نے ایک وتر پڑھنے والوں صحابہ و ائمہ کو کبھی طعن نہیں کیا اور نہ کلمات تحقیر ان حضرات کی شان میں لکھے۔ مؤلفِ ”انوارِ ساطعہ“ نے بالعموم ایک وتر پڑھنے والوں کی نسبت کلماتِ ناشائشتہ لکھے، اس لیے اس کو گستاخی سے روکا گیا ہے اور سمجھایا گیا ہے کہ تحقیر احادیث و تحقیر سلف میں ایمان کا ٹھکانا نہیں۔ اگر مؤلف ”انوارِ ساطعہ“ کہے کہ میری مراد صحابہ و ائمہ قائلین وترِ واحد پر اعتراض کرنا نہیں تو یہ عذر گناہ بدتر از گناہ ہے، کیونکہ اس کتاب میں بالتعمیم ایک وتر پڑھنے والوں پر اعتراض کیا ہے۔ حکم شرعی ظاہر پر ہے اور پھر سلف ہوں یا خلف، جس امر میں متبع حدیثِ نبوی ہیں، اس فعل پر اعتراض نہیں ہو سکتا اور نہ اس کی تحقیر زیبا اعتراض جس پر ہے، کسی احادیث یا اتباع ہونے کی وجہ سے ہے، ورنہ چاہیئے کہ فرقِ باطلہ و اہلِ ہویٰ جن عقائد و اعمال میں اہلِ حق کے موافق ہیں، ان عقائد و اعمال میں بھی اعتراض یا جائے، پھر جب ایک وتر کے قائلین بھی صحابہ و اہل سنت ہیں تو اس فعل پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے ؟“
( ایضاً ص۔۲۸۰)
۸۔ جناب سہارنپوری کی تائید اور مؤلف ”انوارِ ساطعہ“ کے ردّ میں مشہور مقلد جناب محمود الحسن دیوبندی لکھتے ہیں :
” ( عبدالسمیع رامپوری مؤلفِ انوارِ ساطعہ نے ) وتر کی ایک رکعت پڑھنے والوں پر سخت الفاظ کے ساتھ طعن کیا ہے۔ خیر اور تو وہی پرانا رونا ہے، جو مؤلف مذکور ( عبدالسمیع) کے سلف کر چکے تھے، مگر وتر کی ایک رکعت پڑھنے والوں پر جس کے بارے میں احادیث صحاح موجود ہیں اور بعض ائمہ مثل امام شافعی و امام احمد وغیرہ رحمہ اللہ علیہم کا وہ مذہب ہے۔ زبان درازی کرنا مؤلف مذکور کا ہی حصہ ہے۔ یہ جدا قصہ ہے کہ علمائے حنفیہ رحمہ اللہ کا یہ مذہب بوجہ اور دلائل کے نہ ہو، مگر فقط اس امر سے ایک دوسرے پر طعن نہیں کر سکتا۔ “
( الجھد المقل فی تنزيه المعز والمذل از محمو الحسن دیوبندی : ص ۱۷)
۹۔ اشرف علی تھانوی دیوبندی صاحب کہتے ہیں :
” بعض لوگوں کے نزدیک وتر ایک رکعت ہے اور بعض کے نزدیک تین ہیں اور بعض کے نزدیک پانچ ہیں اور ان سب میں تاویل مذکور جاری ہو سکتی ہے، مگر میرے نزدیک عمدہ طریقہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تینوں طرح ثابت ہے۔ “
( تقریر ترمذی از تھانوی : ۱۳۶)
اس کتاب پر جناب تقی عثمانی دیوبندی صاحب کا مقدمہ موجود ہے۔

۱۰۔ جناب اشرف علی تھانوی دیوبندی صاحب اپنے استاذ جناب شیخ محمد تھانوی صاحب دیوبندی سے نقل کرتے ہیں :
” ( اہل حدیث ) نے وتر کی تمام احادیث میں سے ایک رکعت والی حدیث پسند کی ہے، حالانکہ تین رکعتیں بھی آئیں ہیں، پانچ بھی آئی ہیں، سات بھی آئی ہیں۔ “
( قصص الاکابر از تھانوی : ۱۲۲)

تبصرہ:
جناب تھانوی صاحب کا یہ بہتان ہے کہ اہل حدیث نے ایک رکعت والی حدیث پسند کی ہے جبکہ اہل حدیث ایک رکعت کے علاوہ تین، پانچ اور سات رکعت وتر کی احادیث کو بھی ناپسند نہیں کرتے، بلکہ ان کے بھی قائل و فاعل ہیں۔
والحمدلله علي ذلك !
۱۱۔ جناب احمد سعید کاظمی بریلوی لکھتے ہیں : ”یعنی علامہ کرمانی نے فرمایا کہ سیدنا قاسم بن محمد ( سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پوتے ) کے قول ”إنَ کّلا“ کے معنی یہ ہیں کہ وتر ایک رکعت، تین رکعت اور پانچ رکعت اور سات وغیرہ سب جائز ہیں۔“ (مقالات کاظمی : حصہ سوم : ۴۸۸ )
۱۲۔ جناب احمد یار خان نعیمی بریلوی لکھتے ہیں :
”حضور صلی اللہ علیہ وسلم وتر ایک رکعت پڑھتے تھے، تین یا پانچ پڑھتے تھے، سات پڑھتے تھے تو گیارہ تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے۔“
( جاء الحق از نعیمی، جلد دوم : ص ۲۶۳)

 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
نماز وتر پڑھنے کا مسنون طریقہ


تحریر: ابوثاقب محمد صفدر حضروی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
➊ ”اللہ وتر ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے۔“ [بخاري : 6410، مسلم : 2677]

➋ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”وتر ایک رکعت ہے رات کے آخری حصہ میں سے۔“ [مسلم : 756]

➌ نبی کریم سلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”رات کی نماز دو، دو رکعتیں ہیں۔ جب صبح (صادق) ہونے کا خطرہ ہو تو ایک رکعت پڑھ لو۔ یہ ایک (رکعت پہلی ساری) نماز کو طاق بنا دیگی۔“ [بخاري : 993، 990مسلم : 749]

➍ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رکعت وتر پڑھتے (آخری ) دو رکعتوں اور ایک رکعت کے درمیان (سلام پھیر کر ) بات چیت بھی کرتے۔“ [ابن ماجه : 77، مصنف ابن ابي شيبه : 2؍291]

➎ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز عشاء سے فجر تک گیارہ رکعتیں پڑھتے ہر دو رکعتوں پر سلام پھیرتے اور ایک رکعت وتر پڑھتے۔“ [مسلم : 736]

➏ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”وتر ہر مسلمان پر حق ہے پس جس کی مرضی ہو پانچ وتر پڑھے اور جس کی مرضی ہو تین وتر پڑھے اور جس کی مرضی ہو ایک وتر پڑھے۔“ [ابوداؤد : 1422، نسائي : 1710، ابن ماجه : 1190، صحيح ابن حبان : 270، مستدرك1؍302وغيره]

↰ تین رکعت وتر پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیں۔ پھر ایک رکعت وتر پڑھیں جیسا کہ احادیث مبارکہ میں آیا ہے۔ [ديكهئے مسلم : 752، 736، 765، 769، بخاري : 626، 990، 993، 994، 2013، ابن ماجه : 1177، نسائي 1698، صحيح ابن حبان : 678، صحيح ابن حبان الاحسان4؍70، 2426وغيره]
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے وتر کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ
”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ وہ وتر ایک رکعت ہے آخر شب میں، اور پوچھا گیا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے تو انہوں نے بھی اسی طرح کہا۔“ [مسلم : 753]
➑ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ایک رکعت وتر پڑھتے تھے۔ [بخاري : 991، طحاوي : 1549، 1551، آثار السنن200، 201، 202]
➒ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ایک رکعت وتر پڑھتے تھے۔ [بخاري : 3764، 3765، آثار السن203]
➓ سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ایک رکعت وتر پڑھتے تھے۔ [بخاري : 2356، طحاوي : 1634، آثار السنن 205، 6٠6، وغيره]
⓫ امیر المؤمنین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ ایک رکعت وتر پڑھتے تھے۔ [دارقطني : 1657، طحاوي 1631، آثار السنن204]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”جو شخص آخر رات میں نہ اٹھ سکے تو وہ اول شب وتر پڑھ لے اور جو آخر رات اٹھ سکے وہ آخر رات وتر پڑھے کیونکہ آخر رات کی نماز افضل ہے۔“ [مسلم : 755]
⓭ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اول رات، رات کے وسط اور پچھلی رات (یعنی) رات کے ہر حصہ میں نماز پڑھی۔ [بخاري : 755، 996]
⓮ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ایک رات میں دو بار وتر پڑھنا جائز نہیں۔ [ ابوداؤد1439ابن خزيمه1101، ابن حبان 671، وغيره]

⓯ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”رات کو اپنی آخری نماز وتر کو بناؤ۔“ [مسلم : 751]

↰ اس حدیث سے ان لوگوں کا رد ہوتا ہے جو وتر کے بعد رات کو اٹھ کر تہجد پڑھتے ہیں۔
⓰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”تین وتر (اکٹھے ) نہ پڑھو، پانچ یا سات وتر پڑھو۔ اور مغرب کی مشابہت نہ کرو۔“ [دار قطني نمبر 1634، ابن حبان 680، آثار السنن591، 596وغيره]

نوٹ :
اس کے برعکس بعض حضرات نے یہ فتوی دیا ہے کہ ایک رکعت وتر پڑھنا جائز نہیں۔ [دیکھئے علم الفقہ ص 186از عبدالشکور لکھنوی دیوبندی]

دیوبندیوں کے مفتی اعظم عزیز الرحمن (دیوبندی) نے فتویٰ دیا ہے کہ ”ایک رکعت وتر پڑھنے والے امام کے پیچھے نماز حتی الوسع نہ پرھیں۔ کیونکہ وہ غیر مقلد معلوم ہوتا ہے اور اس شخص کا امام بنانا اچھا نہیں ہے ؟“ [دیکھئے فتاویٰ دارالعلوم دیوبنج 3ص154 سوال نمبر 770، مکتبہ امداد یہ ملتان پاکستان]
حرمین شریفین میں بھی امام ایک رکعت وتر پڑھاتے ہیں۔ اب ان حجاج کرام کی نمازوں کا کیا ہو گا ؟ اور اس فتویٰ کی زد میں کون سی شخصیات آتی ہیں ؟
◈ جبکہ جناب خلیل احمد سہار نپوری (دیوبندی) صاحب انوار ساطعہ کے بدعتی مولوی پر رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
”وتر کی ایک رکعت احادیث صحاح میں موجود ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہما اس پر۔ اور امام مالک رحمہ اللہ، امام شافعی رحمہ اللہ، امام احمد رحمہ اللہ کا وہ مذھب۔ پھر اس پر طعن کرنا مؤلف کا ان سب پر طعن ہے۔ کہو اب ایمان کا کیا ٹھکانا۔“ [براهين قاطعه ص7]
یہ فریق مخالف کی کتب کے ہم حوالے اس لئے دیتے ہیں تاکہ ان پر حجت تمام ہو جائے اور ویسے بھی ہر فریق کے لئے اس کی کتاب یا اپنے اکابرین کی کتاب اس پر حجت ہے۔ [ديكهئے بخاري، 3635، مسلم : 1299] جب تک وہ اس سے برأت کا اظہار نہ کرے۔
جو حضرات تین وتر اکٹھے پڑھتے ہیں اور اصلاح کر لیں اور اپنے علماء سے اس کی دلیل طلب کریں کہ کون سی صحیح حدیث میں تین وتر اکٹھے پڑھنا آیا ہے۔ جن روایات میں ایک سلام سے تین رکعتوں کا ذکر آیا ہے وہ سب بلحاظ سند ضعیف ہیں۔ بعض میں قتادہ رحمہ اللہ مدلس ہے اور مدلس کی ”عن“ والی روایت صحیح نہیں ہوتی۔ جب تک وہ سماع کی صراحت نہ کرے یا پھر کوئی دوسرا ثقہ راوی اس کی متابعت نہ کرے (تاہم بعض صحابہ کرام سے تین وتر اکٹھے پڑھنا ثابت ہے ) یاد رہے کہ صحیحین میں تدلیس مضر نہیں وہ دوسرے طرق سے سماع پر محمول ہے۔ [ديكهئے خزائن السنن ص 1حصه اول، ازالة الريب 1237از جناب سرفراز خان صفدر ديوبندي، حقائق السنن ص 156، 161، وغيره]

تاہم اگر کوئی ان ضعیف روایات (اور آثار ) پر عمل کرنا چاہے تو دوسری رکعت میں تشہد کے لئے نہیں بیٹھے گا۔ بلکہ صرف آخری رکعت میں ہی تشہد کے لئے بیٹھے گا۔ جیسا کہ السنن الکبریٰ للبیہقی وغیرہ میں قتادہ کی روایت میں ہے۔ [زاد المعادص 330 ج 1] اور [مسند احمد ص 155 ج 5] والی روایت لا فصل فيهن یزید بن یعمر کے ضعف اور حسن بصری رحمہ اللہ کے عنعنہ (دو علتوں) کی وجہ سے ضعیف ہے۔

↰ دو تشہد اور تین وتر والی مرفوع روایت بلحاظ سند موضوع و باطل ہے۔ دیکھئے [الاستیعاب ص 471ج 4 ترجمہ ام عبد بنت اسود، میزان الاعتدال وغیرہ ہما]

اس کے بنیادی راوی حفص بن سلیمان القاری اور ابان بن ابی عیاش ہیں۔ دونوں متروک و معتہم ہیں۔ نیچے کی سند غائب ہے اور ایک مدلس کا عنعنہ بھی ہے۔ اتنے شدید ضعف کے باوجود ”حدیث و اہل حدیث“ کے مصنف نے اس موضوع (جھوٹی) روایت سے استدلال کیا ہے۔ دیکھئے [کتاب مذکور ص523، نمبر22 طبع مئی 1993ء تفصیل کے لئے دیکھیں ھدیۃ المسلمین ص56]

محترم بھائیو ! اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے بارے میں سخت وعید فرمائی ہے۔ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے۔ ”ان لوگوں کو ڈرنا چاہیئے جو آپ کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں کہ کہیں ان پر فتنہ (شرک و کفر) اور دردناک عذاب آنہ جائے۔“ [سورة النور63] مومن کی تو یہ شان ہے کہ جب اللہ تعالیٰ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان آ جائے تو سر تسلیم خم کر دے۔ اس کا عمل اگر پہلے خلاف سنت تھا۔ تو اب دلیل مل جانے پر اپنے عمل کو حدیث، رسول کے مطابق کرے، یہ کیسی ہٹ دھرمی ہے کہ حدیث رسول کو اپنے پہلے سے طے شدہ اصول اور عمل کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتا رہے ! [ماخوذ ازھدیہ المسلمین ص 54، از حافظ زبیر علی زئی]
↰ خود تو بدلتے نہیں حدیث کو بدل دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسی سوچ و فکر سے اپنی پناہ میں رکھے آمین۔
⓱ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
”میری تمام امت جنت میں داخل ہو گی سوائے اس کے جس نے انکار کر دیا۔“ کسی نے پوچھا: انکار کرنے والا کون ہو گا ؟ آپ نے فرمایا : ”جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوا۔ اور جس نے میری نافرمانی کی تو اس نے میرا انکار کیا۔“ [صحيح بخاري 7680]

نیز فرمایا :
⓲ ”جس نے بھی میری سنت سے منہ موڑا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔“ [بخاري 5023، مسلم : 1401]

⓳ ”جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو اسے بجا لاؤ۔“ [بخاري : 7688، مسلم : 1337]
⓴ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا : ”نماز اس طرح پڑھو جس طرح مجھے نماز ادا کرتے ہوئے دیکھتے ہو۔“ [بخاري : 231]
21 : رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”جس نے ہماری طرح نماز پڑھی۔ ہمارے قبلہ کا رخ کیا اور ہمارا ذبیحہ کھایا تو وہ مسلمان ہے۔“ [بخاري : 391]

ایک دوسری روایت میں ہے۔
22 : ”مجھے اللہ نے حکم دیا کہ میں لوگوں کے ساتھ جنگ کروں جب تک لوگ اللہ کی وحدانیت کا اقرار کر لیں اور ہماری طرح نماز پڑھیں۔“ [بخاري396]

23 : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”میری سنت کو میرے خلفائے راشدین کی سنت کو مضبوطی سے پکڑ لو۔“ [ ابوداؤد : 2607، الترمذي : 6276 وقال : حسن صحيح و صححه ابن حبان : 102 او الحاكم1؍95، 96 و وافقه الذهبي]

24 : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”آخری زمانہ میں دجال اور کذاب ہوں گے وہ تمہیں ایسی ایسی احادیث سنائیں گے جنہیں تم نے اور تمہارے آباو اجداد نے نہیں سنا ہو گا۔ لہذا ان سے اپنے آپ کو بچانا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں گمراہ کر دیں اور فتنہ میں ڈال دیں۔“ [مسلم : 7]

محترم بھائیو، بزرگو ! اپنی نمازوں کی اصلاح کیجئے اور امام الانبیاء رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بنائی ہوئی ”نماز محمدی“ کو سینے سے لگائیں۔ اسی میں دونوں جہانوں کی کامیابی ہے۔
25 : ”جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا تو وہ عظیم کامیابی سے ہمکنار ہو گا۔“ [الاحزاب : 71]

ورنہ یاد رکھیں :
26 : ”قیامت کے دن انسان اسی کے ساتھ ہو گا جس سے وہ محبت کرتا ہے۔“ [بخاری : 3288مسلم : 2639]

وما علينا إلا البلاغ
 
Last edited:

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
صحیح حدیث میں قنوت وتر کی خاص دعاء مروی ہے :
قال الحسن بن علي رضي الله عنهما:‏‏‏‏ علمني رسول الله صلى الله عليه وسلم كلمات اقولهن في الوتر، ‏‏‏‏‏‏قال ابن جواس:‏‏‏‏ في قنوت الوتر، ‏‏‏‏‏‏"اللهم اهدني فيمن هديت، ‏‏‏‏‏‏وعافني فيمن عافيت، ‏‏‏‏‏‏وتولني فيمن توليت، ‏‏‏‏‏‏وبارك لي فيما اعطيت، ‏‏‏‏‏‏وقني شر ما قضيت إنك تقضي ولا يقضى عليك، ‏‏‏‏‏‏وإنه لا يذل من واليت، ‏‏‏‏‏‏ولا يعز من عاديت، ‏‏‏‏‏‏تباركت ربنا وتعاليت".
سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے چند کلمات سکھائے جنہیں میں وتر میں کہا کرتا ہوں (ابن جواس کی روایت میں ہے ”جنہیں میں وتر کے قنوت میں کہا کروں“) وہ کلمات یہ ہیں: «اللهم اهدني فيمن هديت، وعافني فيمن عافيت، وتولني فيمن توليت، وبارك لي فيما أعطيت، وقني شر ما قضيت إنك تقضي ولا يقضى عليك، وإنه لا يذل من واليت، ولا يعز من عاديت، تباركت ربنا وتعاليت» ۱؎۔
”اے اللہ! مجھے ہدایت دے ان لوگوں میں (داخل کر کے) جن کو تو نے ہدایت دی ہے اور مجھے عافیت دے ان لوگوں میں (داخل کر کے) جن کو تو نے عافیت دی ہے اور میری کارسازی فرما ان لوگوں میں (داخل کر کے) جن کی تو نے کارسازی کی ہے اور مجھے میرے لیے اس چیز میں برکت دے جو تو نے عطا کی ہے اور مجھے اس چیز کی برائی سے بچا جو تو نے مقدر کی ہے، تو فیصلہ کرتا ہے اور تیرے خلاف فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ جسے تو دوست رکھے وہ ذلیل نہیں ہو سکتا اور جس سے تو دشمنی رکھے وہ عزت نہیں پا سکتا، اے ہمارے رب تو بابرکت اور بلند و بالا ہے“۔

تخریج : سنن ابوداود 1425 ،سنن الترمذی/الصلاة ۲۲۴ (الوتر ۹) (۴۶۴)، سنن النسائی/قیام اللیل ۴۲ (۱۷۴۶)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۱۷ (۱۱۷۸)، (تحفة الأشراف:۳۴۰۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۱۹۹، ۲۰۰)، سنن الدارمی/الصلاة ۲۱۴ (۱۶۳۲)
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
محترم شیخ @اسحاق سلفی حفظہ اللہ
اس روایت کی سند پر یہ کلام ہے کہ ابو اسحاق السبیعی مدلس ہیں اور عن سے روایت کر رہے ہیں ۔ لہذا یہ روایت ضعیف ہے ۔
اس اعتراض کا جواب لکھ دیں ۔ جزاکم اللہ خیرا
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
یاد دہانی
رمضان میں خصوصی مصروفیات کے سبب دیگر مطالعہ وغیرہ سرگرمیاں کم ہوگئی ہیں ،
اس دفعہ اپنی مسجد میں تراویح پڑھانے کی ذمہ داری بھی نبھانی ہے اس لئے دیگر امور کیلئے وقت نکالنا مشکل ہے ،
امید محسوس نہیں فرمائیں گے ،ان شاء اللہ جیسے ہی وقت ملے گا اس مسئلہ کو بھی دیکھوں گا ۔
 
Top