شیخ نوید
رکن
- شمولیت
- جون 07، 2014
- پیغامات
- 32
- ری ایکشن اسکور
- 13
- پوائنٹ
- 36
سلام !
1) قال رسول اللہ علیہ السلام من استفادمالا فلا زکوۃ علیہ حتی یحول علیہ الحول یعنی جس کو مال ملا اس پر اس وقت تک زکوۃ نہیں ہے جب تک پورا سال نہ گزر جائے۔
اس حدیث مبارکہ کے ضمن میں چند سوالات
2) ابو داود وغیرہ میں ہے انہ علیہ السلم استسلف من العباس صدقۃ عامین یعنی نبی کریم علیہ السلام نے حضرت عباس سے دو سال کی زکوۃ پہلے ہی لے لی تھی۔
1) قال رسول اللہ علیہ السلام من استفادمالا فلا زکوۃ علیہ حتی یحول علیہ الحول یعنی جس کو مال ملا اس پر اس وقت تک زکوۃ نہیں ہے جب تک پورا سال نہ گزر جائے۔
اس حدیث مبارکہ کے ضمن میں چند سوالات
i) حول کا لفظ یہاں مشکل پیدا کررہا ہے کہ کوئی شخص اگر یکم محرم کو 5 لاکھ کا مالک ہوا (صاحب نصاب ہوا ) 2 تاریخ کو 10 لاکھ کا مالک ہوا تو کیا اگلے سال یکم محرم کو 5 لاکھ کی اور دوئم کو 10 لاکھ کی زکوۃ ادا کرے گا؟ اگر یوں ہے تو اسکا مطلب سارا سال ہی زکوۃ کے حساب کتاب میں لگا رہے کہ ہر دوسرے دن پچھلے سال کا حولان حول تو ضرور مکمل ہوا
ii) اگر نہیں تو ادائیگی زکوۃ کے حول کی بہتر صورت کیا ہے اور اس پر دلیل کیا ہے؟
iii) کیا صرف سال کے آخر میں مال count کر کے زکوۃ نکالی جائے یا پھر شروعِ سال ، وسطِ سال اور آخرِ سال کا Average نکالا جائے۔ اور اگر ہاں تو کیوں ؟
ii) اگر نہیں تو ادائیگی زکوۃ کے حول کی بہتر صورت کیا ہے اور اس پر دلیل کیا ہے؟
iii) کیا صرف سال کے آخر میں مال count کر کے زکوۃ نکالی جائے یا پھر شروعِ سال ، وسطِ سال اور آخرِ سال کا Average نکالا جائے۔ اور اگر ہاں تو کیوں ؟
2) ابو داود وغیرہ میں ہے انہ علیہ السلم استسلف من العباس صدقۃ عامین یعنی نبی کریم علیہ السلام نے حضرت عباس سے دو سال کی زکوۃ پہلے ہی لے لی تھی۔
i) اسکا مطلب ہے مال ملنے کے وقت کا اعتبار ہے اور اسی پر حولان حول کا اعتبار ہے ورنہ نبی کریم علیہ السلام کو کیسے پتہ کہ اس مال پر حولان حول ہوگا؟
بینو وتوجروا
Last edited: