• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حیات النبی

شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
بسم اللہ الرحمن الرحیم عقیدہ حیاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم از افادات: مولانا محمد الیاس گھمن حضورعلیہ السلام وفات کے بعداپنی قبراطہر میں بتعلق روح زندہ ہیں ،روضہ اقدس پرپڑھاجانے والا صلوة وسلام خودسنتے ہیں ،جواب دیتے ہیں اور دورسے پڑھاجانے والا صلوة وسلام آپکی خدمت اقدس میں پہنچایاجاتاہے مذہب اہل بدعت حضور علیہ السلام سمیت تمام انبیاء کرام علیھم السلام وفات کے بعداعلی علیین میں اجسادمثالیہ کے ساتھ زندہ ہیں جسم عنصری محفوظ توہے مگرزندہ نہیں اورروضہ اقدس پرپڑھاجانے والاصلوٰۃ وسلام نہ آپ سنتے ہیں نہ ہی جواب دیتےہیں سماع صلوٰۃ وسلام کی حدیث موضوع اورمن گھڑت ہے۔ {ندائے حق۔ ازمحمدحسین نیلوی، مقالات نیلوی ۔ عقائدعلماء اسلام مولوی شہاب الدین خالدی} دلائل اہل السنت والجماعت قرآن مع التفسیر اورعقیدہ حیات انبیاء آیت1: “وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لَا تَشْعُرُونَ” (البقرۃ آیت 154) تفسیر1: قاضی ثنا ء اللہ پانی پتی المتوفی 1225ھ”فذهب جماعة من العلماء إلى ان هذه الحيوة مختص بالشهداء والحق عندى عدم اختصاصها بهم بل حيوة الأنبياء أقوى منهم وأشد ظهورا اثارها في الخارج حتى لا يجوز النكاح بأزواج النبي صلى اللّه عليه وسلم بعد وفاته بخلاف الشهيد” (تفسیر مظہری ج:1ص:152) یعنی بعض علماء کے نزدیک اس آیت میں جس حیات کا ذکرہے وہ صرف شھداء کو ملتی ہے ۔لیکن صحیح قول کے مطابق انبیاء کو حیات شھداء سے بھی بڑھکر ملتی ہے یہی وجہ ہے کہ شھید کی بیوی سے نکاح جائز ہے مگرنبی کی بیوی سے جائز نہیں تفسیر2: حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی المتوفی1362اس آیت کے تحت فرماتے ہیں اور یہی حیات ہے جس میں حضرات انبیاء علیہم السلام شہداء سے بھی زیادہ امتیاز اور قوت رکھتے ہیں حتیٰ کہ بعد موت ظاہری کے سلامت جسد کے ساتھ ایک اثر اس حیات کا اس عالم کے احکام میں یہ بھی ظاہر ہوتا ہے مثل زواج احیاء کے ان کی ازواج سے کسی کو نکاح جائز نہیں ہوتا اور ان کا مال میراث میں تقسیم نہیں ہوتا پس اس حیات میں سب سے قوی تر انبیاء علیہم السلام ہیں ۔ (بیان القرآن ج:1ص:97) تفسیر 3: مولانا عبد الحق حقانی فرماتے ہیں کبھی پاک روحوں کا اثر جسم خاکی تک بھی پہنچتا ہے اور یہ جسم سٹرتا ،گلتا نہیں جیسا کہ انبیاء علیہم السلام اور اولیائے کرام اور شہدائے عظام کے اجساد سے ظاہر ہوا ہے ۔۔۔۔۔۔۔لیکن اس حیات میں انبیاء علیہم السلام اور اولیائے کرام بھی شریک ہیں اور اس کے درجات متفاوت ہیں ۔ (تفسیر حقانی ج:1ص:594) تفسیر4: مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحب فرماتے ہیں :یہ تو سب کو معلوم ہے کہ اسلامی روایات کی رو سے ہر مرنے والے کو برزخ میں ایک خاص قسم کی حیات ملتی ہے جس سے وہ قبر کے عذاب یا ثواب کو محسوس کرتا ہے اس میں مؤمن و کافر یا صالح و فاسق میں کوئی تفریق نہیں لیکن اس حیات برزخی کے مختلف درجات ہیں ایک درجہ تو سب کو عام اور شامل ہے کچھ مخصوص درجے انبیاء علیہم السلام و صالحین کے لئے مخصوص ہیں اور ان میں بھی باہمی تفاضل ہے ۔۔۔۔۔۔اس کے بعد حضرت مفتی صاحب نے حکیم الامت کی بیان القرآن والی تفسیر نقل فرما ئی ہے کہ یہی حیات ہے جس میں حضرات انبیاء علیہم السلام شہداء سے بھی زیادہ امتیاز اور قوت رکھتے ہیں ۔ (معارف القرآن ج:1 ص:397) آیت2: ” وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ “ (آل عمران آیت 169) تفسیر1: ماثبت فی القرآن الکریم من نص علی حیاۃ الشھداء فی قولہ تعالیٰ ” وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ “والرسل اکمل من الشھداء بدون شک ولذلک کانوا احق بالحیاۃ منھم ۔ (حیاۃ الانبیاء صلوات اللہ علیھم بعد وفاتھم ص:35) تفسیر 2: قال الامام تقی الدین سبکی المتوفی756ھ والکتاب العزیز یدل علی ذالک ایضاً قال اللہ تعالیٰ:” وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ “{آل عمران 169}واذاثبت ذلک فی الشہید ؛ثبت فی حق النبی صلی اللہ علیہ وسلم بوجوہ :احدھا: ان ھذہ رتبۃ شریفۃ اعطیت للشہید کرامۃلہ ، ولا رتبۃ اعلی من رتبۃ الانبیاء ، ولاشک ان حال الانبیاء اعلیٰ واکمل من حال جمیع الشھداء ، فیستحیل ان یحصل کمال للشھداء ، ولا یحصل للانبیاء ، لا سیما ھذا الکمال الذی یوجب زیادہ القرب و الزلفیٰ والنعیم ، والانس بالعلی الاعلی ٰ۔ الثانی ان ھذہ الرتبۃ حصلت للشھداء اجرا علی جھادھم ، وبذلھم انفسھم للہ تعالیٰ ، والنبی صلی اللہ علیہ وسلم ھوالذی سن لنا ذلک ودعانا الیہ وھدانا لہ باذن اللہ تعالیٰ و توفیقہ ، وقد قال صلی اللہ علیہ وسلم من سن سنۃ حسنۃ ، فلہ اجرھا واجر من عمل بھا الی یوم القیامۃ ، ومن سن سنۃ سیئۃ ، فعلیہ وزرھا ووزر من عمل بھاالی یوم القیامۃ ۔۔۔۔۔۔الثالث : ان انبی صلی اللہ علیہ وسلم شہید ، فانہ صلی اللہ علیہ وسلم لما سم بخیبر واکل من الشاۃ المسمومۃ ، وکان ذلک سما قاتلا من ساعتہ ، مات منہ بشر ابن البراء رضی اللہ عنہ ، وبقی النبی صلی اللہ علیہ وسلم و ذلک معجزۃ فی حقہ ؛ صارالم السم یتعاھدہ الی ان مات بہ صلی اللہ علیہ وسلم فی مرضہ الذی مات فیہ ” مازالت اکلۃ خیبر تعاودنی ، حتیٰ کان الان اوان قطعت ابہری” (شفاء السقام فی زیارۃ خیر الانام صلی اللہ علیہ وسلم ص:403تا406) تفسیر 3: قال الامام الحافظ محمد بن عبد الرحمن السخاوی الشافعی المتوفی 902ھ ومن ادلة ذلک ایضاًقولہ تعالیٰ ” وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ “فان الشھادۃ حاصلۃ لہ صلی اللہ علیہ وسلم علی اتم الوجوہ لانہ شھید الشھداء ، وقد صرح ابن عباس وابن مسعود و غیرھما رضی اللہ عنھم بانہ صلی اللہ علیہ وسلم مات شھیدا۔ (القول البدیع فی الصلاۃ علی الحبیب الشفیع ص:173) تفسیر4: قال الامام الحافظ العلامہ جلال الدین سیوطی المتوفی 911 ھ وقد قال تعالیٰ فی الشھداء ” وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ “والانبیاء اولی بذلک فھم اجل و اعظم ، وما من نبی الا وقد جمع مع النبوۃ وصف الشھادۃ ، فید خلون فی عموم لفظ الایۃ ۔ ( الحاوی للفتاویٰ ص:556) تفسیر 5: مشہو رغیر مقلد عالم قاضی شوکانی لکھتے ہیں وورد النص في كتاب الله في حق الشهداء أنهم أحياء يرزقون وأن الحياة فيهم متعلقة بالجسد فكيف بالأنبياء والمرسلين وقد ثبت في الحديث أن الأنبياء أحياء في قبورهم رواه المنذري وصححه البيهقي وفي صحيح مسلم عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال مررت بموسى ليلة أسري بي عند الكثيب الأحمر وهو قائم يصلي في قبره (نیل الاوطار ج:3ص:263) حیات شہداء سے حیات انبیاءپراستدلال کرنے والےچند علماء 1:قال الامام الحافظ المحدث ابو بکر احمد بن الحسین البیھقی المتوفی 458 وهذ إنما يصح على أن الله جل ثناؤه رد إلى الأنبياء عليهم السلام أرواحهم فهم أحياء عند ربهم كالشهداء ۔ (حیاۃ الانبیاء صلوات اللہ علیھم بعد وفاتھم ص:111) 2:قال الامام ابو عبد اللہ محمد بن احمد القرطبی المتوفی 671 ھ” قال شيخنا أحمد بن عمر : و الذي يزيح هذا الإشكال إن شاء الله تعالى أن الموت ليس بعدم محض ، و إنما هو انتقال من حال إلى حال ، و يدل على ذلك : أن الشهداء بعد قتلهم و موتهم أحياء عند ربهم يرزقون ، فرحين مستبشرين ، و هذه صفة الأحياء في الدنيا و إذا كان هذا في الشهداء ، كان الأنبياء بذلك أحق و أولى ، مع أنه قد صح عن النبي صلى الله عليه و سلم أن الأرض لا تأكل أجساد الأنبياء و أن النبي صلى الله عليه و سلم قد اجتمع بالأنبياء ليلة الإسراء في بيت المقدس ، و في السماء و خصوصاً بموسى و قد أخبرنا النبي صلى الله عليه و سلم بما يقتضي ان الله تبارك و تعالى يرد عليه روحه حتى يرد السلام على كل من يسلم عليه إلى غير ذلك مما يحصل من جملته القطع بأن موت الأنبياء إنما هو راجع إلى أن غيبوا عنا بحيث لا تدركهم ، و إن كانوا موجودين أحياء ، و ذلك كالحال في الملائكة فإنهم موجودون أحياء و لا يراهم أحد من نوعنا إلا من خصه الله بكرامة من أوليائه . و إذا تقرر أنهم أحياء فإذا نفخ في الصور نفخة الصعق صعق كل من في السموات و من في الأرض إلا من شاء الله فأما صعق غير الأنبياء فموت . و أما صعق الأنبياء ، فالأظهر : أنه غشية . فإذا نفخ في الصور نفخة البعث ، فمن مات حيي و من غشي عليه أفاق” (التذکرہ فی احوال الموتی وامور الآخرۃ ص:212) 3:قال الامام الحافظ المحدث ابوزکریا النووی المتوفی 676فان قيل كيف يحجون ويلبون وهم أموات وهم فى الدار الآخرة وليست دار عمل فاعلم أن للمشايخ وفيما ظهر لنا عن هذا أجوبة أحدها أنهم كالشهداء بل هم أفضل منهم والشهداء أحياء عند ربهم ( شرح مسلم ج1ص94باب الاسراء برسول الله صلى الله عليه و سلم) 4:قال الامام الحافظ المحدث ابن حجر العسقلانی المتوفی 852 وإذا ثبت أنهم أحياء من حيث النقل فإنه يقويه من حيث النظر كون الشهداء أحياء بنص القرآن والأنبياء أفضل من الشهداء ( فتح الباری ج6ص595) 5:لأن الأنبياء أحياء عند الله وأن كانوا في صورة الأموات بالنسبة إلى أهل الدنيا وقد ثبت ذلك للشهداء ولا شك أن الأنبياء أرفع رتبة من الشهداء ( فتح الباری ج6ص444قوله وفاة موسى) آیت3: وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا (النساء64) وقوله وَلَوْ أَنْهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا يرشد تعالى العصاة والمذنبين إذا وقع منهم الخطأ والعصيان أن يأتوا إلى الرسول صلى الله عليه وسلم فيستغفروا الله عنده،ويسألوه أن يستغفر لهم فإنهم إذا فعلوا ذلك تاب الله عليهم ورحمهم وغفر لهم ولهذا قال لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا وقد ذكر جماعة منهم الشيخ أبو نصر بن الصباغ في كتابه “الشامل” الحكاية المشهورة عن العُتْبي قال كنت جالسا عند قبر النبي صلى الله عليه وسلم فجاء أعرابي فقال السلام عليك يا رسول الله سمعت الله يقول وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا وقد جئتك مستغفرا لذنبي مستشفعا بك إلى ربي ثم أنشأ يقول يا خيرَ من دُفنَت بالقاع أعظُمُه فطاب منْ طيبهنّ القاعُ والأكَمُ نَفْسي الفداءُ لقبرٍ أنت ساكنُه فيه العفافُ وفيه الجودُ والكرمُ ثم انصرف الأعرابي فغلبتني عيني فرأيت النبي صلى الله عليه وسلم في النوم فقال يا عُتْبى الحقْ الأعرابيّ فبشره أن الله قد غفر له تفسيرابن كثير ج 2ص348 الدرالمنثورج 2ص474 القول البدیع ص167،168،کتاب الایضاح فی مناسک الحج والعمرۃ نووی ص:454،455، حاشیہ علی شرح الایضاح ابن حجر المکی ص:489، کتاب المناسک ملا علی قاری ص:512 واقعہ کی تحسین کرنے والے چندحضرات: 1 :قال الامام الحافظ المحدث ابو زکریا النوری المتوفی 676 ھ ومن احسن ما یقول ما حکاہ اصحابنا عن العتبی مستحسنین لہ ،کتاب الایضاح فی مناسک الحج والعمرۃ نووی ص454 2:قال الامام تقى الدين السبكى وحكاية العتبى فى ذالك مشهورة وقدحكاها المصنفون فى المناسك من جميع المذاهب والمورخون وكلهم استحسنوها ورأوها من آداب الزائر وما ینبغی لہ شفاء السقام ص235،236 3:قال الامام علی بن احمد السمہودی ومن أحسن ما يقول ما حكاه أصحابنا عن العتبيّ مستحسنين له خلاصة الوفاء باخبار دار المصطفى ج1ص56 فائدہ حکیم الامت حضرت تھانوی فرماتے ھیں مواہب میں بسند اما م ابوالمنصورصباع ،ابن النجاراورابن عساکر اورابن الجوزی رحمھم اللہ تعالی محمدبن حرب ہلال سے روایت کیا ہے کہ میں قبر مبارک کی زیارت کرکے سامنے بیٹھا تھا کہ ایک اعرابی آیا اورزیارت کرکےعرض کیا کہ یاخیرالرسل اللہ تعالی نے آپ پر سچی کتاب نازل فرمائ جس میں ارشاد فرمایاہے وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا اورمیں آپ کے پاس اپنے گناہوں سے استغفار کرتاہوا اورآپ کے رب کے حضور میں آپ کے وسیلہ سے شفاعت چاہتاہوا آیاہوں پہردوشعرپڑہے الخ اوران محمدبن حرب کی وفات 228ہجری میں ہوئ ہے غرض زمانہ خیرالقرون کاتھا اورکسی سے اس وقت نکیر منقول نہیں پس حجت ہوگیا۔ نشرالطیب فی ذکرالنبی الحبیب ص242،243 یہ حكم آج بھی باقی ہے: 1: وبالكتاب لقوله تعالى ولو إنهم إذ ظلموا أنفسهم جاءوك الآية لحثه على المجيء إليه والاستغفار عنده واستغفاره للجاءين وهذه رتبة لا تنقطع بموته۔۔۔۔۔۔۔ وقد فهم العلماء من الآية العموم واستحبوا لمن أتى القبر أن يتلوها ويستغفر الله تعالى وأوردوا حكاية العتبي الآتية في كتبهم مستحسنين لها خلاصة الوفاء باخبار دار المصطفى ج1ص45 2:والآية وان وردت فى اقوام معينين فى حالة الحياة فتعم بعموم العلة كل من وجد فيه ذالك الوصف فى الحياة وبعدالموت ولذالك فهم العلماء من الآية العموم فى الحالتين واستحبوا لمن أتى الى قبره صلى الله عليه وسلم أن يتلوا هذه الآية ويستغفرالله تعالى شفاء السقام ص235 3: قرآن مجیدکی سورۃ نساء آیت 64(وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ) کیونکہ اس میں کسی کی تخصیص نہیں آپ کے ہم عصرہوںیابعدکے امتی ہوں اورتخصیص ہوتوکیونکرہوآپ کاوجودتربیت تمام امت کے لئے یکساںرحمت ہے کہ پچھلے امتیوں کاآپ کی خدمت میں آنااوراستغفارکرنااورکراناجب ہی متصورہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبرمیں زندہ ہوں آب حیات ص52 4: مفتی شفیع صاحب اس آیت کے تحت فرماتے ہیں : یہ آیت اگرچہ خاص واقعہ منافقین کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن اس کے الفاظ سے ایک ضابطہ نکل آیا کہ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لئے دعا مغفرت کر دیں اس کی مغفر ت ضرور ہو جائے گی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری جیسے آپ کی دنیوی حیات کے زمانے میں ہو سکتی تھی اسی طرح آج بھی روضہ اقدس پر حاضر ی اسی حکم سے ہے ، حضرت علی کرم اللہ وجھہ نے فرمایا کہ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دفن کر کے فارغ ہوئے تو اس کے تین روز بد ایک گاؤں والا آیا اور قبر شریف کے پاس آکر گر گیا اور زار زار روتے ہوئے آیت مذکورہ کا حوالہ دے کر عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں وعدہ فرمایا ہے کہ اگر گنہگار رسو ل اللہ کی خدمت میں حاضر ہو جائے او رر سول اس کےلئے دعائَ مغفرت کردیں تو اس کی مغفرت ہو جائے گی ۔ اس لئے میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں کہ آپ میرے لئے مغفرت کی دعا کریں اس وقت جو لوگ حاضر تھے ان کا بیان ہے کہ اس کے جوان میں روضہ اقدس کے اندر سے یہ آواز آئی ” قد غفرلک” یعنی مغفرت کردی گئی ۔ (معارف القرآن ج:2 ص:456۔460) 5:علامہ ظفر احمد عثمانی فرماتے ھیں فثبت أن حكم الآیة باق بعد وفاته صلى الله عليه وسلم فینبغی لمن ظلم نفسہ أن يزور قبره ويستغفر الله عنده فيستغفر له الرسول اعلاءالسنن ج10ص498 آیت سے حیات پر استدلال کرنے والے چندحضرات: 1:قرآن مجیدکی سورۃ نساء آیت 64(وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ) کیونکہ اس میں کسی کی تخصیص نہیں آپ کے ہم عصرہوں یابعدکے امتی ہوں اورتخصیص ہوتوکیونکرہوآپ کاوجودتربیت تمام امت کے لئے یکساںرحمت ہے کہ پچھلے امتیوں کاآپ کی خدمت میں آنااوراستغفارکرنااورکراناجب ہی متصورہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبرمیں زندہ ہوں آب حیات ص52 2:واستدلوا علیٰ انہا مندوبۃ بقولہ تعالیٰ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ والنبی حی فی قبرہ بعد موتہ ۔۔۔۔۔۔واذا ثبت انہ حی بعد وفاتہ فالمجئی الیہ بعد وفاتہ کالمجئی الیہ قبلہ اوجزالمسالک ج2ص338،339 3:احتج القائلون بانہا مندوبۃ بقولہ تعالیٰ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ ووجہ الاستدلال بہا انہ صلی اللہ علیہ وسلم حی فی قبرہ بعد موتہ کما فی حدیث اعلاءالسنن ج10ص498 آیت4: وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ (الانفال33) اس آیت کی تفسیر میں مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع فرماتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کادنیا میں ہونا قیامت تک باقی رہے گا کیونکہ آپ کی رسالت قیامت تک کے لیے ہے نیزآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت بھی زندہ ہیں گواس زندگی کی صورت سابق زندگی سے مختلف ہے اور یہ بحث لغواور فضول ہے کہ ان دونوں زندگیوں میں فرق کیا ہے ۔۔۔۔۔ خلاصہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کااپنے روضہ میں زندہ ہونااورآپ کی رسالت کا قیامت تک رہنا اس کی دلیل ہے کہ آپ قیامت تک دنیا میں ہیں اس لیے یہ امت قیامت تک عذاب سے مامون رہے گی معارف القرآن ج4ص225 آیت5 ” يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا “(سورۃ الاحزاب آیت 45) اس آیت کی تفسیر میں مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع فرماتے ہیں اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ تمام انبیاء خصوصاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے گزرنے کے بعد بھی اپنی قبروں میں زندہ ہیں ان کی یہ حیات برزخی ہےعام لوگوں کی حیات برزخی سے بدرجہا زیادہ فائق و ممتاز ہوتی ہے جس کی حقیقت اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں (معارف القرآن ج:7 ص:177-178) آیت6 ” وَمَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا أَنْ تَنْكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِنْ بَعْدِهِ أَبَدًا” (سورۃ الاحزاب آیت 53) تفسیر1 قاضی ثناء اللہ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں ” وجاز ان يكون ذلك لاجل ان النبي صلى اللّه عليه وسلم حىّ فى قبره ولذلك لم يورث ولم يتئم أزواجه عن أبى هريرة قال قال رسول اللّه صلى اللّه عليه وسلم من صلى علىّ عند قبرى سمعته ومن صلّى علىّ نائيا أبلغته رواه البيهقي فى شعب الايمان “ (تفسیر مظہری ج:7 ص:373) تفسیر 2 حکیم الامت حضرت تھانوی فرماتے ہیں (نبی علیہ السلام کی حیات )حیات نا سوتی کے قریب قریب ہے چنانچہ بہت سے احکام ناسوت کے اس پر متفرع بھی ہیں دیکھئے زندہ کی بیوی سے نکاح جائز نہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے بھی نکاح جائز نہیں (خطبات حکیم الاسلام ج:5 ص؛33) آیت 7 وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَلَا تَكُنْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقَائِهِ وَجَعَلْنَاهُ هُدًى لِبَنِي إِسْرَائِيلَ (23السجدة) فلا تكن في مرية من لقائه قال كان قتادة يفسرها أن نبي الله صلى الله عليه وسلم قد لقي موسى عليه السلام صحيح مسلم باب الإسراء برسول الله صلى الله عليه وسلم إلى السماوات وفرض الصلوات فلا تكن في شك من لقاء موسى فإنك تراه وتلقاه تفسير كبيرتحت هذه الآية آیت8 “وَاسْأَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُسُلِنَا “ (سورۃ الزخرف آیت 45) قال ابن عباس و ابن زيد لما أسري برسول الله صلى الله عليه و سلم من المسجد الحرام إلى المسجد الأقصى وهو مسجد بيت المقدس بعث الله له آدم ومن ولد من المرسلين وجبريل مع النبي صلى الله عليه و سلم فأذن جبريل صلى الله عليه و سلم ثم أقام الصلاة ثم قال يا محمد تقدم فصل بهم فلما فرغ رسول الله صلى الله عليه و سلم قال له جبريل سل يا محمد من أرسلنا من قبلك من رسلنا أجعلنا من دون الرحمن آلهة يعبدون فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم لا أسأل قد اكتفيت۔۔۔۔۔قلت وهذا هو الصحيح في تفسير هذه الآية تفسیرقرطبی تحت هذه الآية اس آیت کےس تحت خاتم المحدثین علامہ انور شاہ کشمیری فرماتے ہیں ” یستدل بہ علی حیاۃ الانبیاء “ (مشکلات القرآن ص:234) بقول حافظ ابن حجر عسقلانی لیلة الاسراءکی یہ ملاقات روح مع الجسد والاقول راجح اورمویدبالحدیث ہے وقد استشكل رؤية الأنبياء في السماوات مع ان اجسادهم مستقرة في قبورهم بالأرض وأجيب بأن ارواحهم تشكلت بصور أجسادهم أو احضرت اجسادهم لملاقاة النبي صلى الله عليه و سلم تلك الليلة تشريفا له وتكريما ويؤيده حديث عبد الرحمن بن هاشم عن أنس ففيه وبعث له آدم فمن دونه من الأنبياء فافهم فتح البارى ج7ص210 آیت9 ” يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ “ (سورۃ الحجرات آیت 2) اس آیت کی تفسیر میں مولانا محمد مالک کاندھلوی فرماتے ہیں : احادیث میں ہے کہ ایک مرتبہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مسجد میں دو شخصوں کی آواز سنی تو ان کو تنبیہ فرمائی اور پوچھا کہ تم لوگ کہاں کے ہو معلوم ہوا کہ یہ اہل طائف ہیں تو فرمایا اگر یہاں مدینے کے باشندے ہوتے تو میں تم کو سزا دیتا (افسوس کی بات ہے ) تم اپنی آوازیں بلند کر رہے ہو مسجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اس حدیث سے علماء امت نے یہ حکم اخذ فرمایا ہے کہ جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام آپ کی حیات مبارکہ میں تھا اسی طرح کا احترام و توقیر اب بھی لازم ہے کیوں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں حیی (زندہ) ہیں۔ (معارف القرآن تکملہ ج:7 ص؛487) عقیدہ حیاۃ الانبیاء علیہم السلام اور احادیث مبارکہ حدیث 1: “روی الامام الحافظ ابو یعلیٰ الموصلی حدثنا أبو الجهم الأزرق بن علي حدثنا يحيى بن أبي بكير حدثنا المستلم بن سعيد عن الحجاج عن ثابت البناني : عن أنس بن مالك : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : ( الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون ) “(مسند ابی یعلیٰ ج:6 ص:147 ، رقم الحدیث 3425، تاریخ اصبہان ج:2ص:44، مجمع الزاوئد ج:8 ص:386، فیض القدیرج:3ص:239، حاشیہ ابن حجر مکی ص:481حیاۃ الانبیاء بھیقی ص؛70۔72۔74 ، شفاء السقام ص:391) مصححین ومستدلین: 1:امام بہیقی نے یہ روایت کئی طرق سے سے نقل کر کے استدلال کیا ہے۔ (حیاۃ الانبیاء) 2: امام تقی الدین سبکی ۔(شفاء السقام ص:391) 3:حافظ ابن حجر عسقلانی۔ (فتح الباری ج:6ص:594۔595) 4: امام ہیثمی ۔ (مجمع الزوائد ج:8 ص:386) 5: ملا علی قاری حنفی ۔ ( مرقات ج:3 ص:415) 6:علامہ عبد الرؤف مناوی ( فیض القدیر ج:3 ص:239) 7: امام سمہودی: وقد قال صلى الله عليه وسلم كما رواه الحافظ المنذري علي بعد وفاتي كعلي في حياتي ولأبن عدي فى كامله وأبي بعلي برجال ثقات عن أنس رضي الله عنه مرفوعا الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون وصححه البيهقي [خلاصة الوفاءج1ص43] 8: وجمع البيهقي كتابا لطيفا في حياة الأنبياء وروى فيه بإسناد صحيح عن أنس مرفوعا الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون [شرح زرقانی ج4ص357] 9: امام سیوطی [انباء الاذکیاء] 10: علامہ عزیزی وھوحدیث صحیح [السراج المنیرج2ص134بحوالہ تسکین الصدورص213] 11:شیخ عبد الحق محدث دہلوی۔ ( مدار ج النبوۃ اردوج:2 ص؛527) 12:علامہ شبیراحمدعثمانی ( فتح الملہم ج:2 ص:388) 13:علامہ انور شاہ کشمیری ۔ ( فیض الباری ج:2 ص:64) یرید بقولہ الانبیاء احیاء مجموع الاشخاص لا الارواح فقط” ۔( مجموعہ رسائل ج:2 ص:119) 14: شیخ الحدیث مولانا زکریا [فضائل درود شریف] 15: علامہ عثمانی [اعلاء السنن ج10ص505] 16:فتاوی حقانیہ [ج1ص158] 17:خیرالفتاوی [ج1ص98] 18: مولانا نصیرالدین غورغشتوی [حاشیہ مشکوةص112] 19: : امام اہل سنت شیخ التفسیر والحدیث مولانا محمدسرفرازخان صفدر [تسکین الصدورص212] 20: قاضی شو کانی ( نیل الاوطار ج:3 ص:263) لأنه صلى الله عليه وسلم حي في قبره وروحه لا تفارقه لما صح أن الأنبياء أحياء في قبورهم تحفة الذاكرين لشوكانى ج1ص42 21:ارشاد الحق اثری۔ ( حاشیہ مسند ابی یعلیٰ ج:3 ص:379) حدیث2 : “حدثنا هداب بن خالد وشيبان بن فروخ قالا حدثنا حماد بن سلمة عن ثابت البناني وسليمان التيمي عن أنس بن مالك أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال أتيت وفي رواية هداب مررت على موسى ليلة أسري بي عند الكثيب الأحمر وهو قائم يصلي في قبره” (صحیح مسلم ج:2 ص:268، باب من فضائل موسیٰ) حدیث3 : “حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ حَدَّثَنَا الْمُقْرِئُ حَدَّثَنَا حَيْوَةُ عَنْ أَبِى صَخْرٍ حُمَيْدِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُسَيْطٍ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ مَا مِنْ أَحَدٍ يُسَلِّمُ عَلَىَّ إِلاَّ رَدَّ اللَّهُ عَلَىَّ رُوحِى حَتَّى أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلاَمَ ( سنن ابی داؤد ج:1 ص: 286 ،السنن الکبریباب زِيَارَةِ قَبْرِ النَّبِىِّ صلى الله عليه وسلم،مسند احمدرقم10815،مسنداسحاق بن راہویہ رقم526، مصححین ومستدلین 1: حافظ ابن حجر ۔ ( فتح الباری ج:6 ص:596) 2:امام نووی۔ ( کتاب الاذکار ص:152 3:امام تقی الدین سبکی ۔ ( شفاء السقام ص:161 ) 4:امام سخاوی۔ (القو ل البدیع ص:161) 5: حافظ ابن تیمیہ۔ ( فتاویٰ ابن تیمیہ ج:1 ص:195) 6: علامہ عزیزی اسنادہ حسن [السراج المنیرج3ص297بحوالہ تسکین الصدورص295] 7:امام ابن کثیر وصححه النووي في الأذكار [تفسیرابن کثیرتحت الآیہ إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا] 8: علامه زرقانى ما من أحد يسلم علي إلا رد الله علي روحي حتى أرد عليه السلام أخرجه أبو داود ورجاله ثقات [شرح زرقانی ج4ص357] 9:امام سمہودی ولأبي داود بسند صحيح عن أبي هريرة رضي الله عنه مرفوعا ما من أحد يسلم عليّ إلا ردّ الله عليّ روحي حتى أرد عليه السلام [خلاصة الوفاءج1ص42] 10: قال الألباني حسن [سنن ابى داود باب زِيَارَةِ الْقُبُورِ] 11:ما من أحد يسلم علي إلا أرد عليه السلام لأني حي أقدر على رد السلام عون المعبودشمس الحق عظيم آبادی ج6ص19 12:(ما من أحد يسلم علي إلا رد الله علي) ۔۔۔۔۔(روحي) يعني رد علي نطقي لأنه حي على الدوام وروحه لا تفارقه أبدا لما صح أن الأنبياء أحياء في قبورهم (حتى أرد) غاية لرد في معنى التعليل أي من أجل أن أرد (عليه السلام) هذا ظاهر في استمرار حياته لاستحالة أن يخلو الوجود كله من أحد يسلم عليه عادة [فيض القديرج5ص596] ردروح کا مطلب ووجه الإشكال فيه أن ظاهره أن عود الروح إلى الجسد يقتضي انفصالها عنه وهو الموت وقد أجاب العلماء عن ذلك بأجوبة۔۔۔۔۔۔۔الرابع المراد بالروح النطق فتجوز فيه من جهة خطابنا بما نفهمه الخامس أنه يستغرق في أمور الملأ الأعلى فإذا سلم عليه رجع إليه فهمه ليجيب من سلم عليه [فتح البارى ج6ص488] قَالَ: ” مَا مِنْ أَحَدٍ يُسَلِّمُ عَلَيَّ إِلَّا رَدَّ اللهُ عَلَيَّ رُوحِي حَتَّى أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ “، ومَعْنَاهُ وَاللهُ أَعْلَمُ، ” إِلَّا وَقَدْ رَدَّ اللهُ عَلَيَّ رُوحِي فَأَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ “ [شعب الايمان رقم4161] اس حیات میں شبہ نہ کیاجاوے کیونکہ مراد یہ ہے کہ میری روح جو ملکوت وجبروت میں مستغرق تھی جس طرح کہ دنیا میں نزول وحی کے وقت کیفیت ہوتی تھی اس سے افاقہ ہوکر سلام کی طرف متوجہ ہوجاتا ہوں اس کو رد روح سے تعبیر فرمادی [نشرالطیب فی ذکر النبی الحبیب ص200] اور ان مشاغل کے ایک وقت میں اجتماع سے تزاحم کا وسوسہ نہ کیاجاوے کیونکہ برزخ میں روح کو پھر خصوصاً روح مبارک بہت وسعت ہوتی ہے۔ [نشرالطیب فی ذکر النبی الحبیب ص200] شیخ الاسلام حضرت مدنی فرماتے ہیں : ابوداودکی روایت میں رداللہ علی روحی فرمایاگیاہے حدیث کے الفاظ یہ ہیں مَا مِنْ مسلم يُسَلِّمُ عَلَىَّ إِلاَّ رَدَّ اللَّهُ عَلَىَّ رُوحِى حَتَّى اسلم علیہ اوکما قال اگرلفظ الی روحی فرمایاگیاہوتاتوآپ کا شبہ واردہوسکتا ہے۔الی اورعلی کے فرق سے آپ نے ذہول فرمایا۔علی استعلاءکے لئے ہے اورالی نہایت طرف کے لئے ہے اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ صلوة وسلام سے پہلے روح کا استعلاء نہ تھا ۔نہ یہ کہ وہ جسم اطہر سے بالکل خارج ہوگئ تھی اوراب اس کو جسم اطہرکی طرف لوٹایا گیا ہےچونکہ آنحضرت علیہ السلام مدارج قرب ومعرفت میں ہر وقت ترقی پذیرہیں ، اس لیے توجہ الیٰ اللہ کا انہماک اور استغراق دوسری جانب کی توجہ کو کمزور کردیتاہے، چنانچہ اہل استغراق کی حالتیں روزانہ مشاہد ہوتی ہیں ، مگر جب رسول اللہ صلیٰ علیہ وسلم رحمۃ اللعالمین بنایا گیا ہے ، اس لیے بارگاہ لوہیت سے درود بھیجنے والے پر رحمتیں نازل فرمانے کےلیے متعدد مزایا میں ایک مزیت یہ بھی عطا فرمائی گئی کہ خود سرورِ کائنات علیہ السلام کو اس استغراق سے منقطع کر کے درُود والے کی طرف متوجہ کر دیا جاتا ہے اور آپ اس کےلیے متوجہ ہو کر دعا فرماتے ہیں ۔ اگر بالفرض وہی معنیٰ لیے جائیں جو آپ سمجھے ہیں اور علی اور الی میں کوئی فرق نہ کیاجاوے ،تب بھی یہ روایت دوام حیات پر دلالت کرتی ہے اس لیے کہ دن رات میں کوئی گھڑی اور کوئی گھنٹہ بلکہ کوئی منٹ اس سے خالی نہیں رہتا کہ آپ پر اندرونِ نماز اور بیرونِ نماز درُود نہ بھیجا جاتا ہو اس لیے دوامِ حیاۃ لازم آئے گا۔ مکتوباب شیخ السلام حصہ اول ص248تا252 وقد استشكل ذلك من جهة أخرى وهو أنه يستلزم استغراق الزمان كله في ذلك لاتصال الصلاة والسلام عليه في أقطار الأرض ممن لا يحصي كثرة وأجيب بأن أمور الآخرة لا تدرك بالعقل وأحوال البرزخ أشبه بأحوال الآخرة والله أعلم فتح البارى ج6ص488 حدیث 4: ” أخبرنا عبد الوهاب بن عبد الحكم الوراق قال حدثنا معاذ بن معاذ عن سفيان بن سعيد ح وأخبرنا محمود بن غيلان قال حدثنا وكيع وعبد الرزاق عن سفيان عن عبد الله بن السائب عن زاذان عن عبد الله قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إن لله ملائكة سياحين في الأرض يبلغوني من أمتي السلام “ (سنن نسائی باب السلام على النبي صلى الله عليه و سلم، صحيح ابن حبان رقم 914 ذكر البيان بأن سلام المسلم على المصطفى صلى الله عليه و سلم يبلغ إياه ذلك في قبره،مسنداحمدرقم 10529،سنن دارمی 2774 باب في فضل الصلاة على النبي صلى الله عليه و سلم،مسند ابی یعلی رقم 5213،) مصححین: 1: امام سخاوی ۔ ( القول البدیع ص: 159) 2: امام ہیثمی۔ ( مجمع الزوائد ج:8 ص:595) 3:امام حاکم ۔ ( المستدرک ج:3 ص:197) 4: امام ذھبی ۔ ( تلخیص علی المستدرک ج:3 ص:197) 5: علامہ ابن ھادی۔ ( الصارم المنکی ص:192) 6:قال الشيخ الألباني صحيح سنن نسائی باب السلام على النبي صلى الله عليه و سلم، 7:قال شعيب الأرنؤوط : إسناده صحيح على شرط مسلم صحيح ابن حبان رقم 914 ذكر البيان بأن سلام المسلم على المصطفى صلى الله عليه و سلم يبلغ إياه ذلك في قبره 8:قال حسين سليم أسد : إسناده صحيح سنن دارمی 2774باب في فضل الصلاة على النبي صلى الله عليه و سلم 9: صحيح الإسناد ولم يخرجاه المستدرك تفسير سورة الأحزاب 10: وللبزاز برجال الصحيح عن ابن مسعود رضي الله عنه مرفوعا أن لله تعالى ملائكة سباحين يبلغوني عن أمتي خلاصة الوفاءج1ص43 حدیث 5: “حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِىٍّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ عَنْ أَبِى الأَشْعَثِ الصَّنْعَانِىِّ عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَّامِكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فِيهِ خُلِقَ آدَمُ وَفِيهِ قُبِضَ وَفِيهِ النَّفْخَةُ وَفِيهِ الصَّعْقَةُ فَأَكْثِرُوا عَلَىَّ مِنَ الصَّلاَةِ فِيهِ فَإِنَّ صَلاَتَكُمْ مَعْرُوضَةٌ عَلَىَّ ». قَالَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَكَيْفَ تُعْرَضُ صَلاَتُنَا عَلَيْكَ وَقَدْ أَرِمْتَ يَقُولُونَ بَلِيتَ. فَقَالَ « إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَرَّمَ عَلَى الأَرْضِ أَجْسَادَ الأَنْبِيَاءِ »” (سنن ابی داؤد ج:1 ص:157،باب تَفْرِيعُ أَبْوَابِ الْجُمُعَةِ) مصححین ومستدلین : 1:امام نووی ۔ ( کتا ب الاذکار ص:150 ،رقم الحدیث 345) 2:حافظ ابن حجر فرماتے ہیں و صححہ ابن خزیمہ وغیرہ ۔ ( فتح الباری ج:6 ص؛595) 3: امام حاکم۔ (المستدرک ج:1 ص:569 ،رقم الحدیث 1068 ) 4: امام ذھبی۔ ( تلخیص علی المستدرک ج:1 ص:568) : حافظ عبد الغنی۔ ( القول البدیع ص:167) 6: امام منذری۔ ( القول البدیع ص:163 ) 7: وقد صحح هذا الحديث ابن خزيمة وابن حبان والدارقطني، والنووي في الأذكار تفسیرابن کثیرتحت الآیہ إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا 8:ا لموت ليس بعدم إنما هو انتقال من دار إلى دار فإذا كان هذا للشهداء كان الأنبياء بذلك أحق وأولى مع أنه صح عنه أن الأرض لا تأكل أجساد الأنبياء عليهم الصلاة والسلام عمدة القارى باب ما يذكر في الأشخاص والخصومة بين المسلم واليهودي 9:ومن تأمل هذا الإسناد لم يشك في صحته لثقة رواته وشهرتهم وقبول الأئمة أحاديثهم جلاء الافهام ج1ص80 10:و قال ابن العربي حديث حسن . [التذكره ج1ص204] 11:فالأنبياء في قبورهم أحياء [مرقات ج5ص32] حديث 6 “حدثنا عمرو بن سواد المصري حدثنا عبد الله بن وهب عن عمرو بن الحارث عن سعيد بن أبي هلال عن زيد بن أيمن عن عبادة بن نسي عن أبي الدرداء قالقال رسول الله صلى الله عليه و سلم أكثروا الصلاة علي يوم الجمعة . فإنه مشهود تشهده الملائكة . وإن أحدا لن يصلي علي إلا عرضت علي صلاته حتى يفرغ منها قال قلت وبعد الموت ؟ قال ( وبعد الموت . إن الله حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء . فنبي الله حي يرزق )” (سنن ابن ماجہ ص:118 باب ذكر وفاته صلى الله عليه و سلم،تحریرات حدیث ص331) مصححین : 1:قال الدمیری رجالہ ثقات ۔ ( فیض القدیر ج:2 ص: 111) 2:قال الحافظ المنذری اسنادہ جید۔ ( ترجمان السنۃ ج:3 ص:297) 3:ملا علی قاری ۔ (مرقاۃ ج:3 ص: 415 ) 4:حافظ ابن حجر۔ رجاله ثقات ( تھذیبالتھذیب ج:2 ص:537، تحت الترجمہ زید بن ایمن ) 5:قاضی شو کانی ۔وقد أخرج ابن ماجه بإسناد جيد ( نیل الاوطار ج:3 ص:263) 6:ولابن ماجة بإسناد جيد عن أبي الدرداء رضي الله عنه مرفوعا أكثروا الصلاة عليّ يوم الجمعة خلاصة الوفاءج1ص43 7:وقد أخرج ابن ماجه بإسناد جيد أنه صلى الله عليه و سلم قال لأبي الدرداء إن الله عز و جل حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء عون المعبودج3ص261 حدیث 7: وقال أبو الشيخ في كتاب الصلاة على النبي حدثنا عبد الرحمن بن أحمد الأعرج حدثنا الحسن بن الصباح حدثنا أبو معاوية حدثنا الأعمش عن أبي صالح عن أبي هريرة رضي الله عنه قال قال رسول الله من صلى علي عند قبري سمعته ومن صلى علي من بعيد أعلمته جلاءالافهام ص54 مشكوة باب الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم وفضلهاتحریرات حدیث ص330 مصححین ومستدلین 1حافظ ابن حجر وأخرجه أبو الشيخ في كتاب الثواب بسند جيد بلفظ من صلى على عند قبري سمعته ومن صلى علي نائيا بلغته فتح البارى ج6ص488 2امام سخاوى قال ابن القيم انه غريب قلت وسنده جيد القول البديع ص160 3ملاعلى قارى ورواه أبو الشيخ وابن حبان في كتاب ثواب الأعمال بسند جيد مرقاة شرح مشكوة ج4ص21 وعن أبي هريرة قال قال رسول الله من صلى علي عند قبري سمعته أي سمعا حقيقيا بلا واسطة مرقاة شرح مشكوة ج4ص21 4امام مناوى من صلى علي عند قبري سمعته ومن صلى علي نائيا) أي بعيدا عني (أبلغته) أي أخبرت به من أحد من الملائكة وذلك لأن روحه تعلقا بمقر بدنه الشريف وحرام على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء فيض القديرج6ص220 5ابوالحسن على بن محمد عراقى ( قلت ) وسنده جيد كما نقله السخاوى عن شيخه الحافظ ابن حجر تنزيه الشريعه ج1ص381 6قاضى ثناء الله قلت وجاز ان يكون ذلك لاجل ان النبي صلى اللّه عليه وسلم حىّ فى قبره ولذلك لم يورث ولم يتئم أزواجه عن أبى هريرة قال قال رسول اللّه صلى اللّه عليه وسلم من صلى علىّ عند قبرى سمعته ومن صلّى علىّ نائيا أبلغته رواه البيهقي فى شعب الايمان. تفسيرمظهرى ج7ص373 7علامہ شبیراحمدعثمانی واخرجہ ابوالشیخ فی کتاب الثواب بسندجید فتح الملهم ج1ص330 علماء اسلام اور عقيده سماع صلوة وسلام عندالقبر 1امام شرنبلانى وينبغي لمن قصد زيارة سيدنا النبي صلى الله عليه وسلم أن يكثر من الصلاة عليه فإنه يسمعها وتبلغ اليه نورالايضاح ج1ص153فصل في زيارة سيدنا النبي صلى الله عليه وسلم 2حافظ ابن تيميه وَهُوَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْمَعُ السَّلَامَ مِنْ الْقَرِيبِ وَتُبَلِّغُهُ الْمَلَائِكَةُ الصَّلَاةَ وَالسَّلَامَ عَلَيْهِ مِنْ الْبَعِيدِ مجموع الفتاوى ج27ص384 3 ملاعلى قارى أن الأنبياء أحياء في قبورهم فيمكن لهم سماع صلاة من صلى عليهم مرقاة شرح مشكوة ج5ص32 4امام احمدبن محمدبن اسماعيل ( فإنه يسمعها ) أي إذا كانت بالقرب منه صلى الله عليه وسلم قوله ( وتبلغ إليه ) أي يبلغها الملك إليه إذا كان المصلى بعيدا حاشية الطحطاوى على مراقى الفلاح ج1ص487 5علامه ابن الہادى فأما ذاك الحديث وإن كان معناه صحيحاً فإسناده لا يحتج به. الصارم المنكى ج1ص160 وهو صلى الله عليه وسلم يسمع السلام من القرب الصارم المنكى ج1ص327 6حضرت گنگوہی انبیاء علیہم السلام کے سماع میں کسی کو خلاف نہیں ۔ ( فتاوی ٰ رشیدیہ ص:134) 7 حضرت تھانوی خودحضورصلی اللہ علیہ وسلم کاارشادمروی ہے کہ جوشخص میری قبر کے پاس درود پڑھتا ہے اس کو میں خودسن لیتا ہوں نشرالطیب ص199 تلخیص ؛ مجموعہ روایات سے علاوہ فضیلت حیات واکرام ملائکہ کے برزخ میں آپکے یہ مشاغل ثابت ہوتے ہیں ۔۔۔۔سلام کاسننانزدیک سے خوداوردورسے بذریعہ ملائکہ سلام کاجواب دینا یہ تودائما ثابت ہیں نشرالطیب ص200 8حضرت مدنی خلاصہ کلام یہ ہے کہ اگرمزارمقدس کے پاس صلوة وسلام عرض کیا جاتاہے توروحانی سماع ہوتا ہے اورباعث جواب ودعابنتاہے مکتوبات شیخ الاسلام ج1ص254 9قاری محمد طیب اوروہ [انبیاءعلیھم السلام]قبورمبارکہ پرحاضرہونے والوں کاصلوة وسلام بھی سنتے ہیں خطبات حکیم الاسلام ج7ص181 10شیخ زکریا اس حدیث پاک میں دوسرامضمون کہ جو قبر اطہر کے قریب درود پڑھے اس کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس خود سنتے ہیں بہت ہی قابل فخر ،قابل عزت،قابل لذت چیز ہے ۔۔۔۔اس روایت میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے خود سننے میں کوئ اشکال نہیں اس لئے کہ انبیاء علیھم السلام اپنی قبور میں زندہ ہیں فضائل درود شریف ص32،34 11حضرت سہارنپوری زائرین جو بے با کانہ اونچی آواز سے صلاۃ سلام پڑھتے اس سے آ پ کو بہت تکلیف ہوتی اور فرمایا کرتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حیات ہیں اور ایسی آواز سے سلام عرض کرنا بے ادبی اور آپ کی ایذاء کا سبب ہے لہذا پست آواز سے سلام عرض کرنا چاہیے اور یہ بھی فرمایا کہ مسجد نبوی کی حد میں کتنی ہی پست آواز سے سلام عرض کیا جائے اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود سنتے ہیں ۔ ( تذکرہ الخلیل ص:370) 12مفتی محمود حسن گنگوہی روایات سے اس قدر ثابت ہے کہ جوشخص مزارمبارک کے پاس کھڑا ہوکر درودوسلام پڑھتا ہے وہ آپ خودسنتے ہیں اورجودورسے پڑھتا ہے وہ خدمت اقدس میں بواسطہ ملائکہ پہنچایاجاتاہے فتاوی محمودیہ ج1ص531 13 مولانامحمدشریف کشمیری اگرروضہ اقدس پر صلوة وسلام پڑھاجائے توآپ خود سنتے ہیں بلکہ جمیع اہل السنت والجماعت اس کے قائل ہیں اور سب اکابردیوبند کایہی عقیدہ ہے خیرالفتاوی ج1ص128 14مولانامحمدمنظورنعمانی روایات اور خواص امت کے تجربات سے یہ بھی ثابت ہے کہ جوامتی قبر پرحاضرہوکرسلام عرض کرتے ہیں آپ ان کاسلام سنتے ہیں اورجواب دیتے ہیں معارف الحدیث ج4ص212،213 اس حدیث سے یہ تفصیل معلوم ہوگئ کہ فرشتوں کے ذریعہ آپ کو صرف وہی درودوسلام پہنچتاہے جوکوئدور سے بھیجے ،لیکن اللہ تعالی جن کوقبرمبارک کے پاس پہنچادے اور وہ وہاں حاضر ہوکرصلوة وسلام عرض کریں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو بنفس نفیس سنتے ہیں اور جواب دیتے ہیں اورجیسا کہ ابھی معلوم ہوچکا ہے ہرایک کوجواب بھی عنایت فرماتے ہیں معارف الحدیث ج5ص281 15مولانا غلام اللہ خان شیخ وہاں تشریف لے گئے اورتقریرکی اورمسئلہ توحیدبڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا اورحضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کے لئے درودشریف پڑھنے کے فضائل ومناقب بیان کرتے ہوئے یہ حدیث پڑھی من صلى علي عند قبري سمعته ومن صلى علي غائبا ابلغتہ یعنی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو آدمی میری قبرکے قریب درودشریف پڑھے میں خودسن لیتا ہوں اورجوشخص دوردرازجگہ میں پڑھے تواللہ کے فرشتے مجھ تک پہنچادیتے ہیں سوانح حیات مولانا غلام اللہ خان ص326 وفات کے بعدنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسد اطہرکو برزخ[قبرشریف]میں بہ تعلق روح حیات حاصل ہے اوراسی حیات کی وجہ سے روضہ اقدس پر حاضرہونے والوں کا آپ صلوة وسلام سنتے ہیں ماہنامہ تعلیم القرآن اگست 1962ص24،25 نوٹ اس فیصلہ پر حکیم الاسلام قاری محمد طیب ،مولانا محمد علی جالندھری،مولاناغلام اللہ خان اورمولانا قاضی نورمحمد کے دستخط موجود ہیں کتب فقہ حنفیہ اوراحادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ عندالقبر بذات خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم درودوسلام سنتے ہیں سلف اہل السنت والجماعت میں اس کے اندر کوئ اختلاف نہیں عبدالرشید مفتی دارالعلوم تعلیم القرآن الجواب صحیح لاشئ غلام اللہ خیرالفتاوی ج1ص127 16مولانانصیرالدین غورغشتوی من صلى علي عند قبري سمعته سمعا حقیقیابلاواسطة مشکوة بین السطور ج1ص93 میں[نصیرالدین غورغشتوی]اورمولاناغلام اللہ خان صاحب عقائد میں متفق ہیں ،میں بھی نبی علیہ السلام کی وفات کے بعدبرزخی حیات کا قائل ہوں اور وہ بھی برزخی حیات کےقائل ہیں میں بھی یہ کہتاہوں کہ روضہ پاک کے قرب میں جب درود جہرا پڑھاجائے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم سنتے ہیں اورجواب دیتے ہیں اورجناب غلام اللہ خان صاحب نے بھی اپنے ماہنامہ تعلیم القرآن میں یہ لکھا ہے ۔۔۔۔۔۔۔اورنبی علیہ السلام اورسب اموات میں حیات برزخی ہے اورنبی علیہ السلام میں سب سے اکمل اوراحسن ہے ۔اس واسطے وہ قبر کے پاس درودوسلام سنتے ہیں ماہنامہ تعلیم القرآن ستمبر1960ص25 بحوالہ مولانانصیرالدین غورغشتوی کا عقیدہ ص50،51 17مفکراسلام مفتی محمود متعدداحادیث سے بھی یہ ثابت ہے کہ قبر شریف کے پاس صلوة وسلام کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم خود سنتے ہیں اخرج البیھقی فی شعب الایمان من صلى علي عند قبري سمعته ومن صلى علي نائیا بلغتہ فتاوی مفتی محمود ج1ص353 18مفتی عبدالرحیم لاجپوری قبرشریف کے پاس درودوسلام پڑھاجاتاہے توآپ خودسنتے ہیں فتاوی رحیمیہ ج2ص108 19مولانامحمدادریس کاندھلوی اورمزارمبارک پرجوشخص حاضرہوکرصلوة وسلام پڑھتا ہے اس کو خودسنتے ہیں سیرة المصطفى ج3ص168،169 20مولانامحمدیوسف لدھیانوی شھید اکابرسے سنا ہے کہ احاطئہ مسجد شریف میں جہاں سے بھی درودوسلام پڑھاجائے خود سماعت فرماتے ہیں آپ کے مسائل اوران کا حل ج1ص309 21مولاناعبدالحق حقانی اورحضورانور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اطہر کے قریب جو درودوسلام پڑھاجائےاس کو آپ بلاواسطہ سنتے ہیں اور یہی تمام محدثین ومتکلمین اہل سنت والجماعت کا متفق علیہ عقیدہ ہے فتاوی حقانیہ ج1ص158 22مفتی عبدالشکورترمذی اگرکوئ شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرمبارک کے پاس صلوة وسلام پڑھے تو اس کو آپ خودبنفس نفیس سنتے ہیں عقائدعلماء دیوبندص3عقیدہ نمبر6 23امام تقی الدین سبکی وسنذكرمن الاحاديث والاثار والادلة مايدل على أن النبى صلی اللہ علیہ وسلم يسمع من يسلم عليه عند قبره شفاء السقام ص181 24علامہ ظفراحمدعثمانی وقدوردالتصریح بسماعہ صلی اللہ علیہ وسلم سلام الزائرفی اثر اعلاءالسنن ج10ص505 25مولانابدرعالم میرٹھی جولوگ حاضرہوکرآپ پردرودوسلام پیش کرتے ہیں وہ تو آپ بنفس نفیس خودسنتے ہیں اورجودورسے درودوسلام پڑھتے ہیں اس کے لئے اللہ تعالی نے فرشتے معین فرمادئے ہیں وہ اس کو آپکی خدمت میں پیش کردیتے ہیں ترجمان السنة ج3ص302 جس طرح اپنی حیات میں وہ قریب کی بات خودسناکرتے تھے اسی طرح وفات کے بعد قریب کی درودشریف بنفس نفیس خودہی سنتے ہیں ترجمان السنة ج2ص436 فائدہ اس روایت کوتلقی بالقبول کاشرف حاصل ہے اورتلقی بالقبول حدیث کی صحت کی دلیل ہے قال بعضھم یحکم للحدیث بالصحة اذا تلقاہ الناس بالقبول وان لم یکن لہ اسناد صحیح. (تدریب الراوی ص29) قال ابن عبد البر فی الاستذکار لما حکی عن الترمذی ان البخاری صحح حدیث البحر ھو الطھور ماؤہ و اھل الحدیث لا یصححون مثل اسنادہ لکن الحدیث عندی صحیح لان العلماء تلقوہ بالقبول. (تدریب الراوی29) المقبول ما تلقاہ العلماء بالقبول و ان لم یکن لہ اسناد (شرح نظم الدرر) امام شافعی ؒ فرماتے ہیں :حديث لا وصيه لوارث إنه لا يثبته أهل الحديث ولكن العامه تلقته بالقبول وعملوا به حتى جعلوة ناسخا لآيه الوصيه له۔ (فتح المغيث شرح ألفية الحديث للسخاوي ج 1 ص 289) وكذا إذا تلقت الأمه الضعيف بالقبول يعمل به على الصحيح حتى أنه ينزل منزله المتواتر (فتح المغيث شرح ألفية الحديث للسخاوي ج 1 ص 289) وخبر الواحد متي يفيد اليقين والعلم ؟ يفيد خبر الواحد العلم اليقيني عند جماهير الأمة إذا تلقته الأمة بالقبول عملا به وتصديقا، وليس بين سلف الأمة في ذلك نزاع، وهو أحد قسمي المتواتر إذ المتواتر قسمان ما رواه جماعة كثيرون يستحيل في العادة تواطؤهم على الكذب إلي أن ينتهي للمخبر عنه، وأسندوه إلي شيء محسوس سماع أو مشاهدة لا اجتهاد، والثاني خبر الواحد إذا تلقته الأمة بالقبول شرح العقيدة الطحاويه ج1ص243 حدیث 8: “حدثنا أحمد بن عيسى حدثنا ابن وهب عن أبي صخر أن سعيدا المقبري أخبره أنه سمع أبا ه ريرة يقول : سمعت رسول الله ـ صلى الله عليه و سلم ـ يقول : والذي نفس أبي القاسم بيده لينزلن عيسى بن مريم إماما مقسطا وحكما عدلا فليكسرن الصليب وليقتلن الخنزير وليصلحن ذات البين وليذهبن الشحناء وليعرضن عليه المال فلا يقبله ثم لئن قام على قبري فقال : يا محمد لأجيبنه” ( مسند ابی یعلیٰ ص:1149 رقم الحدیث 6577 ،المطالب العالیہبابعلاماتالساعة،) وليأتين قبري حتى يسلم علي ولأردن عليه المستدرک ج3ص490 رقم 4218 مصححین: 1: امام ہیثمی رواه أبو يعلى ورجاله رجال الصحيح۔ (مجمع الزوائد ج:8 ص:387 ، رقم الحدیث 13813) 2امام حاكم هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه [المستدرک رقم 4218] 3حسين سليم أسد إسناده صحيح۔ [مسند أبي يعلى ص1149 رقم الحدیث 6577] احادیث حیاۃ الانبیاء متوا تر ہیں 1: امام سیوطی ؒ فرماتے ہیں ’’ فاقول حیاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی قبرہ ھو وسائر الانبیاء معلومۃ عند نا علماً قطعیاً لما قا م عند نا من الادلۃ فی ذلک و تو اترت بہ الاخبار ‘‘ ( الحاوی للفتاویٰ ص:554) 2 : وَسُئِلَ رضي اللَّهُ عنه عن حديث أَحْمَدَ وَأَبِي دَاوُد وَالْبَيْهَقِيِّ ما من أَحَدٍ يُسَلِّمُ عَلَيَّ إلَّا رَدَّ اللَّهُ إلَيَّ وفي رِوَايَةٍ عَلَيَّ رُوحِي حتى أَرُدَّ عليه السَّلَامَ ما الْجَوَابُ عنه مع الْإِجْمَاعِ على حَيَاةِ الْأَنْبِيَاءِ كما تَوَاتَرَتْ بِهِ الْأَخْبَارُ الفتاوى الكبرى الفقهية ج2ص135 3:نظم المتناثر فی الحدیث المتواتر میں بھی حیاۃ الانبیاء علیہم السلام کی احادیث کو متواتر کہا گیا ہے اور اصول حدیث کا قاعدہ ہے کہ جب کسی مسئلے کی احادیث کو تواتر کا درجہ حاصل ہو جائے تو اس کی سند پر بحث کر نا جائز نہیں۔ والمتواتر لا يُبْحثُ عن رجاله أي عن صفاتهم بل يجب العمل به من غير بحث شرح نخبة الفكرلعلى القارى ج1ص186 ولذلك يجب العمل به من غير بحث عن رجاله تدريب الراوى ج2ص176 المتواتر فإنه صحيح قطعا ولا يشترط فيه مجموع هذه الشروط تدريب الراوى ج1ص68 ومن شأنه أن لا يشترط عدالة رجاله بخلاف غيره قفوالاثرلابن الحنبلى ج1ص46 لأن المتواتر لا يُسأل عن أحوال رجاله شرح نخبة الفكرلعلى القارى ج1ص161 و من شانہ ان لا یشترط عدالۃ رجالہ بخلاف غیرہ ۔( قواعد فی علوم الحدیث ص:32 ) آثارصحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین 1: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يُذِيقُكَ اللَّهُ الْمَوْتَتَيْنِ أَبَدًا صحیح بخاری ج1ص517 مستدلین قوله لا يذيقك الله الموتتين بضم الياء من الإذاقة وأراد بالموتتين الموت في الدنيا والموت في القبر وهما الموتتان المعروفتان المشهورتان فلذلك ذكرهما بالتعريف وهما الموتتان الواقعتان لكل أحد غير الأنبياء عليهم الصلاة والسلام فإنهم لا يموتون في قبورهم بل هم أحياء وأما سائر الخلق فإنهم يموتون في القبور ثم يحيون يوم القيامة ومذهب أهل السنة والجماعة أن في القبر حياة وموتا فلا بد من ذوق الموتتين لكل أحد غير الأنبياء وقد تمسك بقوله لا يذيقك الله الموتتين من أنكر الحياة في القبر وهم المعتزلة ومن نحا نحوهم عمدۃ القاری ج:11 ص:403 کتاب فضائل الصحابہ واحسن من هذا الجواب ان يقال ان حياته صلى الله عليه و سلم في القبر لايعقبها موت بل يستمر حيا والأنبياء احياء في قبورهم ولعل هذا هو الحكمة في تعريف الموتتين حيث قال لايذيقك الله الموتتين المعروفتين المشهورتين الواقعتين لكل أحد غير الأنبياء فتح البارى ج7ص29 والا حسن ان یقال ان حیاتہ صلی اللہ علیہ وسلم لا یتعقبہا موت بل یستمر حیاً والانبیاء احیاء فی قبورھم ۔
 
شمولیت
جنوری 27، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
137
پوائنٹ
94
شہید کہاں زندہ ہیں
مسروق کہتے ہیں کہ ہم نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے اس آیت ”ان لوگوں کو مردہ مت سمجھو جو اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے، بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں، روزی دئیے جاتے ہیں“کے بارے میں پوچھا، تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا۔ ہم نے اس آیت کے بارے میں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے) پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شہیدوں کی روحیں سبز پرندوں کے قالب میں قندیلوں کے اندر ہیں، جو عرش مبارک سے لٹک رہی ہیں اور جہاں چاہتے ہیں جنت میں چگتے پھرتے ہیں، پھر اپنی قندیلوں میں آ رہتے ہیں۔ ایک دفعہ ان کے پروردگار نے ان کو دیکھا اور فرمایا کہ تم کچھ چاہتی ہو؟ انہوں نے کہا کہ اب ہم کیا چاہیں گی؟ ہم تو جنت میں جہاں چاہتی ہیں چگتی پھرتی ہیں تو پروردگار جل وعلا نے تین دفعہ پوچھا۔ جب انہوں نے دیکھا کہ بغیر مانگے ہماری رہائی نہیں (یعنی پروردگار جل جلالہ برابر پوچھے جاتا ہے) تو انہوں نے کہا کہ اے ہمارے پروردگار! ہم یہ چاہتی ہیں کہ ہماری روحوں کو ہمارے بدنوں میں پھیر دے (یعنی دنیا کے بدنوں میں) تاکہ ہم دوبارہ تیری راہ میں مارے جائیں۔ جب ان کے رب نے دیکھا کہ اب ان کو کوئی خواہش نہیں، تو ان کو(پوچھنا) چھوڑ دیا۔
صحیح مسلم،جہاد کے مسائل،حدیث نمبر : 1068
شہید تو جنتوں میں رہیں اور رسول اللہ ﷺ دنیاوی قبر میں؟؟
ہم تو کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بلکہ تمام پیغمبر بھی زندہ ہیں اور وہ اللہ کی جنتوں میں ہیں دنیاوی قبروں میں نہیں۔

ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ یہ بھی اللہ کی نعمتوں میں سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے گھر میں اور میری باری کے روز میری ٹھوڑی اور سینہ کے درمیان (سر رکھے ہوئے) وفات پائی اور اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت میرا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا لعاب دہن ملا دیا (اس طرح) کہ ایک روز میرے بھائی عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ ہاتھ میں مسواک لیے ہوئے آئے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اوپر ٹیکا دیے ہوئے تھی۔ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کو دیکھ رہے ہیں اور مجھے معلوم تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کو جیسا پسند کرتے تھے، میں نے عرض کی کہ کیا یہ مسواک آپ کے لیے لے لوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر کے اشارہ سے فرمایا: ”ہاں۔“ میں نے وہ مسواک (ان سے لے کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بیماری سخت تھی تو میں نے کہا کہ میں نرم کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر کے اشارے سے فرمایا: ”ہاں۔“ میں نے چبا کر نرم کر دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مسواک دانتوں پر پھیری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پانی کی ایک چھاگل یا پانی کا ایک کٹورا (راوی عمر کو شک ہے) رکھا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھ پانی میں ڈالتے اور چہرہ مبارک پر پھیرتے اور فرماتے: ”لا الہٰ الا اللہ! موت میں بڑی سختیاں ہوتی ہیں۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور فرمایا: ”(اللہ) بلند رفیقوں میں (رکھ)۔“ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک نکل گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ گر گیا۔
صحیح بخاری،حدیث نمبر : 1708
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@قادری رانا ! آپ سے التماس ہے کہ آپ آپنے مراسلہ کو فورمیٹ کر دیں!!
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مطلب یہ کہ اس میں تمام اقوال بغیر کسی فرق کے ایک ساتھ ہی ہیں، کوئی پیراگراف نہیں!! اس کو درست کر لیں! کہ ایک قول ختم ہو تو دوسری لائن سے دوسرا قول شروع ہو!!
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
یہ ایڈیٹ نہیں ہو رہا اس کو ڈیلیٹ کر دے میں ہم دوبارہ اس کو پیسٹ کر دے گئے
 
شمولیت
مئی 05، 2014
پیغامات
202
ری ایکشن اسکور
40
پوائنٹ
81
قادری رانا جی:
جناب مولانا الیاس گھمن صاحب کا جو عقیدہ جناب نے نقل کیا ہے اسے پڑھیں :
(مولانا محمد الیاس گھمن حضورعلیہ السلام وفات کے بعداپنی قبراطہر میں بتعلق روح زندہ ہیں ،روضہ اقدس پرپڑھاجانے والا صلوة وسلام خودسنتے ہیں ،جواب دیتے ہیں)
پہلا عقیدہ (حضورعلیہ السلام وفات کے بعداپنی قبراطہر میں بتعلق روح زندہ ہیں) اس عقیدہ میں لکھا ہے کہ حضور ﷺ قبر اطہر میں بتعلق روح زندہ ہیں؟
یہ بتائیں کہ آپ ﷺ کی روح مبارک کہاں قرار پزیر ہے جس کا قبر اطہر میں جسم اقدس کے ساتھ تعلق ہے؟ یہ تعلق کیسا ہے ؟
یہ عقیدہ (بتعلق روح والا) خیر القرون میں کس کس کا تھا؟ ایسی کوئی صحیح صریح حدیث نقل کر دیں جس میں ہو قبر اطہر میں بتعلق روح زندہ ہیں؟
دوسرا عقیدہ یہ لکھا گیا (روضہ اقدس پرپڑھاجانے والا صلوة وسلام خودسنتے ہیں ،جواب دیتے ہیں) موجودہ روضہ کے باہر کھڑا زائر رسول اللہ ﷺ کی قبر اطہر سے 15 فٹ دور کھڑا ہوتا ہے جناب کے عقیدہ میں لکھا ہے روضہ اقدس پر پڑھا جانے والا درود وسلام خود سنتے ہیں ۔ ایسی کوئی صحیح و صریح حدیث نقل کر دیں جس میں ہو کہ روضہ پر پڑھا جانے والا درود وسلام خود سنتے ہیں؟
یاد رہے کہ دلیل دعوی کے مطابق ہو
جناب کا تعلق بریلوی مسلک سے ہے اور احمد رضا کا عقیدہ بھی حیات النبی پر گھمن صاحب سے مختلف ہے ۔ مولانا احمد رضا صاحب کو چھوڑ کر جناب نے گھمن کا دامن کیوں پکڑا ہے؟؟؟
 
Top