- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
مولانا رفیق اثری صاحب '' حیات و خدمات مولانا سلطان محمود محدث جلالپوری '' کے صفحہ نمبر 57 ،58 پر محدث جلالپوری کے اساتذہ کے تذکرہ کے ضمن میں مولانا عبد الحق محدث مکی ہاشمی رحمہ اللہ اور ایک مرزائی کے مابین ہونے والی گفتگو یوں نقل کرتے ہیں :
'' ایک مرزائی سے حیات مسیح کے موضوع پر گفتگو ہوئی اس نے آیت مبارکہ
إني متوفيك و رافعك إلي ومطهرك من الذين كفروا .... الآية
سے استدلال کیا کہ '' توفی '' کا ذکر '' رفع '' سے پہلے ہے لہذا وفات ہوچکی ہے ۔
شیخ محترم رحمہ اللہ نے اس سے دریافت کیا ، بتاؤ کہ
کیا '' واؤ '' ترتیب پر دلالت کرتی ہے ؟
اور یہ جملہ خبریہ ہے یا إنشائیہ ؟
مرزائی نے کہا کلام خبری ہے اور '' واؤ '' ترتیب کے لئے نہیں ۔
شیخ محترم رحمہ اللہ نے کہا مسئلہ یہ نہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام پر موت نہیں آئے گی ،بلکہ بحث یہ ہے کہ کس لفظ سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ پر موت آچکی ہے ؟
مرزائی نے جواب دیا کہ مسلمان کہتے ہیں کہ وہ زندہ آسمان پر اٹھائے گئے اور آیت میں '' رفع '' یعنی اٹھایا جانا '' توفی '' کے بعد مذکور ہے اس سے معلوم ہوا کہ وفات ہوچکی تھی ۔
شیخ محترم نے جواب دیا کہ آپ نے خود تسلیم کیا کہ یہ کلام خبری ہے ۔ اللہ تعالی یہ خبر کیوں دے رہا ہے ؟ کیا عیسی علیہ السلام کو اپنی موت کے بارے میں شک تھا ؟ وہ اللہ کے رسول ہیں اس کی کتاب انسانوں تک پہنچا چکے ہیں پھر ان کو یہ بتانے میں کیا حکمت تھی کہ میں تجھے موت دوں گا ؟ نظر بہ ظاہر اس کا فائدہ معلوم نہیں ہوتا ۔ حقیقتا اس میں کوئی حکمت ضرور ہے ورنہ یہ کلام اس درجے میں ہوجائے گا جیساکہ ایک شخص نے کسی کو خبردی :
چشمان تو زیر ابرواند دندان تو جملہ در دہانند
مرزائی کے استفاار پر کہ اللہ تعالی کے کلام میں بے فائدہ جملہ کیسے آسکتا ہے ؟آپ اس کی حکمت بیان فرمائیں ۔
آپ نے فرمایا ارشاد ربانی ہے :
فلما أحس عيسي منهم الكفر قال من أنصاري إلى الله ... الآية
اس سے یہ ظاہر ہے کہ عیسی علیہ السلام کو ان (عیسائیوں ) کے شدید کفر کا احساس ہوا اور خطرہ محسوس کیا کہ یہ لوگ میرے قتل کے درپے ہوں گے ، اسی لیے فرمایا من أنصاری إلی اللہ ؟ تو اللہ سبحانہ و تعالی نے آپ کو تسلی دی کہ اے عیسی! تیری موت تو میرے ہاتھ میں ہے جب تک میرا حکم نہ آئے ، یہ تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔
اس میں ابھی تشنگی ہے کہ پھر ان کے منصوبہ قتل کو کس طرح روکا جائے گا ؟ تو فرمایا : '' ورافعک إلی '' کہ میں تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں ، یہ دشمن تیرا کیا بگاڑ لیں گے ۔
اس پر مرزائی حواس باختہ ہوکر چلا گیا ۔
'' ایک مرزائی سے حیات مسیح کے موضوع پر گفتگو ہوئی اس نے آیت مبارکہ
إني متوفيك و رافعك إلي ومطهرك من الذين كفروا .... الآية
سے استدلال کیا کہ '' توفی '' کا ذکر '' رفع '' سے پہلے ہے لہذا وفات ہوچکی ہے ۔
شیخ محترم رحمہ اللہ نے اس سے دریافت کیا ، بتاؤ کہ
کیا '' واؤ '' ترتیب پر دلالت کرتی ہے ؟
اور یہ جملہ خبریہ ہے یا إنشائیہ ؟
مرزائی نے کہا کلام خبری ہے اور '' واؤ '' ترتیب کے لئے نہیں ۔
شیخ محترم رحمہ اللہ نے کہا مسئلہ یہ نہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام پر موت نہیں آئے گی ،بلکہ بحث یہ ہے کہ کس لفظ سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ پر موت آچکی ہے ؟
مرزائی نے جواب دیا کہ مسلمان کہتے ہیں کہ وہ زندہ آسمان پر اٹھائے گئے اور آیت میں '' رفع '' یعنی اٹھایا جانا '' توفی '' کے بعد مذکور ہے اس سے معلوم ہوا کہ وفات ہوچکی تھی ۔
شیخ محترم نے جواب دیا کہ آپ نے خود تسلیم کیا کہ یہ کلام خبری ہے ۔ اللہ تعالی یہ خبر کیوں دے رہا ہے ؟ کیا عیسی علیہ السلام کو اپنی موت کے بارے میں شک تھا ؟ وہ اللہ کے رسول ہیں اس کی کتاب انسانوں تک پہنچا چکے ہیں پھر ان کو یہ بتانے میں کیا حکمت تھی کہ میں تجھے موت دوں گا ؟ نظر بہ ظاہر اس کا فائدہ معلوم نہیں ہوتا ۔ حقیقتا اس میں کوئی حکمت ضرور ہے ورنہ یہ کلام اس درجے میں ہوجائے گا جیساکہ ایک شخص نے کسی کو خبردی :
چشمان تو زیر ابرواند دندان تو جملہ در دہانند
مرزائی کے استفاار پر کہ اللہ تعالی کے کلام میں بے فائدہ جملہ کیسے آسکتا ہے ؟آپ اس کی حکمت بیان فرمائیں ۔
آپ نے فرمایا ارشاد ربانی ہے :
فلما أحس عيسي منهم الكفر قال من أنصاري إلى الله ... الآية
اس سے یہ ظاہر ہے کہ عیسی علیہ السلام کو ان (عیسائیوں ) کے شدید کفر کا احساس ہوا اور خطرہ محسوس کیا کہ یہ لوگ میرے قتل کے درپے ہوں گے ، اسی لیے فرمایا من أنصاری إلی اللہ ؟ تو اللہ سبحانہ و تعالی نے آپ کو تسلی دی کہ اے عیسی! تیری موت تو میرے ہاتھ میں ہے جب تک میرا حکم نہ آئے ، یہ تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔
اس میں ابھی تشنگی ہے کہ پھر ان کے منصوبہ قتل کو کس طرح روکا جائے گا ؟ تو فرمایا : '' ورافعک إلی '' کہ میں تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں ، یہ دشمن تیرا کیا بگاڑ لیں گے ۔
اس پر مرزائی حواس باختہ ہوکر چلا گیا ۔