• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حیات و تعلیمات شیخ عبدالقادر جیلانیٌ (حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ اور امت مسلمہ کے حالات)

deewan

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2014
پیغامات
71
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
57
اردو زبان میں حضرت شیخ کے جو تذکرے ملتے ہیں ان میں حضرت شیخ کے بہت تھوڑے حالات ملتے ہیں جب کہ اکثر میں حضرت شیخ کے فضائل اور ان کی کرامتوں کا ذکر زیادہ ملتا ہے۔ان کرامتوں سے تو حضرت شیخ کی شخصیت کا ایک ہی پہلو سامنے آتا ہے لیکن پڑھنے والے کو حضرت شیخ کی تعلیمات اور زندگی کے عملی پہلو سے ناواقفیت رہتی ہے۔ اس ایک یکطرفہ ذکر سے ان حضرات کا جو تصور عام ذہن میں بنتا وہ ایک مافوق الفطرت انسان کا ہوتا ہے۔ جبکہ حقیقتا بزرگان دین کی زندگیوں کا مطالعہ کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ انسان ان کی تعلیمات کو اپنی زندگی میں اختیار کر لے اور اس طرح اپنی دنیا اور آخرت دونوں کو سنوار لے۔ اسی طرح ان کتابوں سے یہ بھی نہیں معلوم ہوتا کہ حضرت شیخ جس دور میں پیدا ہوئے اس میں آپ نے امت کی اصلاح کا کام کس طرح کیا، ان کی تعلیمات کیا تھیں اور انہوں نے کن کن خرابیوں کی اصلاح کی۔اگلے صفحات میں اس پہلو سے بھی حضرت کی شخصیت کا جائزہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پڑھیے اور اپنی رائے سے آگاہ فرمایئے۔
------------------------------------------------------------------------------
حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ اور امت مسلمہ کے حالات
شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کا اصل تعلق تو جیلان (جس کو گیلان بھی کہا جاتا ہے) سے تھا۔ لیکن آپؒ نے امت کی اصلاح کی کام بغداد جو اس دور میں مرکز اسلام تھا میں بیٹھ کر کیا۔ حضرت شیخؒ کے کام کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس وقت کے حالات کا جائزہ لیا جائے جن میں اس وقت امت مسلمہ گھری ہوئی تھی۔ اس جائزے سے ہمیں یہ معلوم ہو گا کہ وہ کیا حالات تھے جن میں حضرت شیخ نے بغداد میں اپنے اصلاحی کام کا آغاز کیا، ان کے سامنے کیا مقاصد تھے، ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے انہوں نے کیا طریقہ کار اختیار کیا اور ان کے کام کے نتیجے میں امت میں کیا تبدیلی آئی۔
ان حالات کو پڑھتے ہوئے آپ کو بار بار یہ احساس ہوگا کہ گویا یہ ہمارے اپنے دور کا ذکر ہے۔سیاسی ابتری، مذہبی انتشار اور معاشرتی خرابی جیسے مسائل جو حضرت شیخ سے پہلے اور ان کی زندگی میں مسلمانوں کو درپیش تھے آج بھی امت مسلمہ انہی تمام مسائل کا شکار ہے گویا زمانہ گھوم پھر کر اسی مقام پر آ کھڑا ہوا ہے جہاں آج سے صدیوں پہلے تھا۔
سیاسی حالات
حضرت شیخ کی ولادت سے پہلے امت مسلمہ کو سیاسی ابتری، مذہبی انتشار اور معاشرتی خرابی نے مکمل طور پر گھیر رکھا تھا اور امت ایک ایسے دور میں تھی جس کو تاریخ دان امت مسلمہ کا سیاہ دور کہتے ہیں۔
مسلمانوں کے سیاسی انتشار کا آغاز تیسری صدی ہجری میں عباسی خلیفہ مامون کے زمانے سے ہوا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خلافت بغداد کی سیاسی مرکزیت روز بروز کمزور ہوتی چلی گئی۔تعداد کے اعتبار سے مسلمان کم نہ تھے لیکن عالم اسلام مختلف ملکوں میں تقسیم تھا۔جگہ جگہ چھوٹی چھوٹی خود مختار ریاستیں وجود میں آچکی تھیں اور خلیفہ بغداد کی کوئی عملی حیثیت نہیں تھی۔اس کی عزت کی جاتی تھی لیکن سارے اختیارات مختلف علاقوں کے طاقتور حکمرانوں کے ہاتھوں میں تھے۔
مسلمانوں میں انتشار کا آغاز ۲۰۵ھ میں ہوا جب طاہر بن حسین نے خراسان میں خلافت بغداد سے الگ ایک آزاد ریاست قائم کی جو ۲۵۹ھ تک قائم رہی۔ طاہر بن حسین مامون کی فوج کا سربراہ تھا۔ اس ریاست کا دارالحکومت نیشاپور تھا۔ اس کے بعد ۳۲۰ھ میں آل بویہ نے ایران میں ایک آزاد ریاست قائم کر لی اور ان کا اثر خلافت بغداد تک بڑھ گیا۔ آل بویہ شیعہ تھے اور وہ بغداد کی سیاست پر بڑی حد تک حاوی تھے۔ ۴۳۲ھ میں سلاجقہ کی مملکت کی بنیاد پڑی۔ یہ مملکت ۵۸۳ھ تک قائم رہی۔ سلاجقہ جو ترک نسل سے تھے ان کی یہ سلطنت خراسان اور ماوراء النہر کے ان علاقوں میں قائم ہوئی جہاں پہلے سامانی اور غزنوی برسر اقتدار تھے۔ افریقہ میں بھی مختلف گروہوں میں اقتدار کی جنگ چھڑی ہوئی تھی۔ اسپین کا حال بھی مختلف نہ تھا۔مسلمانوں کی یہ عظیم مملکت خانہ جنگیوں کا شکار تھی۔مختلف علاقوں میں خود مختار ریاستیں قائم تھیں جس کا فائدہ عیسائیوں کو پہنچ رہا تھا اور وہ اس نااتفاقی کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے تھے اور مسلمانوں کو اسپین سے مٹانے کے لیے متحد ہو رہے تھے۔ مصر میں فاطمیوں کی حکمرانی تھی۔ فاطمی اصلاً شیعہ تھے اور انہوں نے شام پر بھی قبضہ کر لیا تھا ان کا اثر و رسوخ خلافت بغداد تک پھیلا ہوا تھا۔ فاطمی حکومت کے قیام سے اہلسنت و الجماعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ ہندوستان بھی مختلف سلطنتوں میں تقسیم تھا اور ہندو راجے اپنی ذلت آمیز شکستوں کا بدلہ لینے کے لیے پر تول رہے تھے۔ یمن جیسا چھوٹا ملک بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا۔ ہرشہر ایک خود مختار ریاست کی صورت اختیار کر چکا تھا۔ غرض یہ کہ عالم اسلام متعدد سرحدوں میں تقسیم ہو چکا تھا اور اسلامی ممالک میں خانہ جنگی چھڑی ہوئی تھی۔ بے سکونی کا دور دورہ تھا۔نہ شہروں میںامن تھااور نہ دیہات پر سکون تھے۔
ایک اور فتنہ جو حضرت شیخ کے دور میں موجود تھا وہ فدائیوں کی جماعت تھی جس کا بانی ایک شیطان صفت انسان حسن بن صباح تھا۔وہ اپنے حامی کو جسے فدائی کہا جاتا تھا حشیش پلاتا اور نشے کے عالم میں اسے اپنی بنائی ہوئی جنت میں پہنچا دیتا۔ وہاں حوریں اس کی خاطر تواضع کرتیں۔فدائی کو چند روز اس جنت میں رکھنے کے بعد دوبارہ دنیا میں لے آیا جاتا۔ وہ دوبارہ جنت میں جانے کی خواہش کرتا تو اسے کہا جاتا کہ اگر وہ فلاں کارنامہ انجام دے یا فلاں کو قتل کردے تو اسے ہمیشہ کے لیے اس جنت میں بھیج دیا جائے گا۔ یہ فدائی مختلف بھیسوں میں پورے عالم اسلام میں پھیلے ہوئے تھے اور گمراہیاں پھیلا رہے تھے۔ ان کا مقصد اہلسنت کو فنا کرنا تھا۔ ان فدائین کے ذریعے حسن بن صباح نے عالم اسلام کے بہت سے نامور علما اور فقہا قتل کروا دئیے۔ان میں نظام الملک طوسی بھی تھا جس نے بغداد، نیشاپور، اور طوس میں مدارس نظامیہ قائم کر کے سنی علما کی کھیپ تیار کی جس نے دینی حلقوں میں گمراہ فرقوں کا مقابلہ کیا اور انہیں شکست دی۔ نظام الملک اہلسنت کا محسن تھا اور یہی بات حسن بن صباح کے دل میں کھٹکتی تھی۔
حضرت شیخ کے دور کا سب سے اہم تاریخی واقعہ صلیبی جنگیں ہیں جن کا آغاز ۴۸۸ھ (۱۰۹۵ء) میں ہوا۔اس وقت حضرت شیخ کی عمر ۱۸ سال تھی۔۴۸۸ھ میں عیسائیوں کے سب سے بڑے پادری نے تمام یورپ کے سب حکمرانوں کو حکم دیا کہ یروشلم کو مسلمانوں سے چھین لینے کے لیے جنگ کی تیاری کریں اور یہ فتوی جاری کیا کہ جو عیسائی اس جنگ میں شرکت کرے گا وہ اس کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کر دے گا اور جان دینے والوں کو جنت میں جگہ دینے کا وعدہ کیا۔ پوپ کا وعدہ گویا خدا کا وعدہ تھا۔اس فتوے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سارا یورپ جنگ کی تیاریاں کرنے لگا۔اس کے چار سال بعد عیسائیوں نے بیت المقدس کو فتح کر لیا اور مسلمانوں کا اتنا خون بہایا کہ ان کے گھوڑوں کے پیر خون میں ڈوب گئے اور زندہ بچنے والوں پر زندگی دوبھر کر دی۔ شام و فلسطین سے مہاجرین کا تانتا بندھ گیا اور یہ مصیبت زدہ لوگ بغداد آنے لگے۔ فتح قدس کے بعد یورپ کی یہ متحدہ قوت سرزمین حجاز و عراق پر حملے کے لیے پر تول رہی تھیں۔
اجتماعی حالات
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام سے فرمایا:
اللہ کی قسم! مجھے یہ ڈر نہیں کہ تم مفلس ہو جاؤگے میں تو اس بات سے ڈرتا ہوں کہ دنیا تم پر وسیع ہو جائے گی (یعنی مالدار ہوجاؤ گے) جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر وسیع ہوئی تھی اور ان ہی کی طرح تم لوگ اس کو حاصل کرنے میں ایک دوسرے سے مقابلے میں لگ جاؤ گے (اور یہ مال کی طلب) تمہیں اسی طرح تباہ کردے گی جس طرح تم سے پہلے لوگ تباہ ہوئے ہیں۔ (صحیح مسلم)
اس خدشے کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام کو اس بات کی تعلیم دی:
دنیا میں اس طرح زندگی گزار گویا تو اجنبی ہے یا مسافر ہے (جو راستے کی کسی چیز سے دل نہیں لگاتا تاکہ اپنی منزل تک جلد پہنچ جائے)۔ (صحیح بخاری)
صحابہ کرام نے ان باتوں کو غور سے سنا اور پوری طرح اس پر عمل کیا۔ دنیا ان پر بارش کی طرح برسی لیکن ان کے ہاتھوں اور جیبوں میں رہی ان کے دلوں تک نہ پہنچ پائی۔ان کے دل دنیا کی محبت سے خالی رہے۔ ان کے بعد تابعین میں بھی یہ معاملہ برقرار رہا کہ دنیا اور اس کا مال و متاع ان کے دل پر کوئی اثر نہ کرسکا۔لیکن جیسے جیسے دور نبوت سے دوری ہوتی گئی مسلمان اس تعلیم کو بھلاتے چلے گئے، دنیا کی محبت ان پر چھاتی چلی گئی اور وہ اس میں ڈوبتے چلے گئے۔ ساتھ ہی جب اسلامی سلطنت کی حدیں وسیع ہوئیں اور مسلمان حکمرانوں کے پاس بے تحاشا مال و دولت آنے لگی تو اس سے بھی مسلمانوں کی عملی زندگی میں بیشمار خرابیاں پیدا ہوئیں اور وہ دنیا کی محبت کا شکار ہو گئے اور آہستہ آہستہ وہ ان تمام خرابیوں میں ملوث ہو گئے جو کثرت مال کے سبب پیدا ہوتی ہیں۔ چنانچہ فضول خرچی کا سلسلہ شروع ہوا۔ سب سے پہلے مساجد کی تعمیر اور ان کی سجاوٹ پر بے دریغ مال خرچ کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔پھر فضول خرچی کا یہ سلسلہ لباس و آرائش اورکھانے پینے میں چل پڑا۔جب یہ سلسلہ آگے بڑھا تو پھر گانا بجانا اور شراب نوشی بھی عام ہو گئی۔ یہ توحکمرانوں اور مالداروں کی حالت تھی۔ اس کے برعکس عوام الناس کی اکثریت غربت اور فقر کی انتہائی پست حالت میں زندگی گزار رہی تھے۔
(جاری ہے)​
 
Last edited by a moderator:

deewan

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2014
پیغامات
71
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
57
اردو زبان میں حضرت شیخ کے جو تذکرے ملتے ہیں ان میں حضرت شیخ کے بہت تھوڑے حالات ملتے ہیں جب کہ اکثر میں حضرت شیخ کے فضائل اور ان کی کرامتوں کا ذکر زیادہ ملتا ہے۔ان کرامتوں سے تو حضرت شیخ کی شخصیت کا ایک ہی پہلو سامنے آتا ہے لیکن پڑھنے والے کو حضرت شیخ کی تعلیمات اور زندگی کے عملی پہلو سے ناواقفیت رہتی ہے۔ جبکہ حقیقتا بزرگان دین کی زندگیوں کا مطالعہ کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ انسان ان کی تعلیمات کو اپنی زندگی میں اختیار کر لے اور اس طرح اپنی دنیا اور آخرت دونوں کو سنوار لے۔ اسی طرح ان کتابوں سے یہ بھی نہیں معلوم ہوتا کہ حضرت شیخ جس دور میں پیدا ہوئے اس میں آپ نے امت کی اصلاح کا کام کس طرح کیا، ان کی تعلیمات کیا تھیں اور انہوں نے کن کن خرابیوں کی اصلاح کی۔اگلے صفحات میں اس پہلو سے بھی حضرت کی شخصیت کا جائزہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پڑھیے اور اپنی رائے سے آگاہ فرمایئے۔
-----------------------------------------------------------------------------
فکری و مذہبی انتشار
اسلام اپنے ماننے والوں کو طلب علم پر ابھارتا ہے یہی وجہ ہے مسلمان جب بھی کسی علاقے کو فتح کرتے تو جہاں وہ مسجد قائم کرتے وہیں مدرسے کا قیام بھی ضروری سمجھتے تھے۔ اسی تعلیم اور فکر کا نتیجہ تھا کہ مسلمان جہاں بھی علم پاتے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے۔چنانچہ ایران، ہندوستان، یونان جس جگہ بھی مسلمان پہنچے وہاں کے علوم اور تصانیف کو حاصل کیا۔ عباسی خلفا کے دور میں بیت الحکمت قائم ہوا جہاں خاص طور پر یونانی فلسفے کا عربی زبان میں ترجمہ کیا جاتا تھا۔ اس یونانی فلسفے سے بعض اہل علم مسلمان جن کی دینی بنیاد کمزور تھی بہت متاثر ہوئے۔ بجائے اس کے کہ وہ اس فلسفے کو اسلام کی تعلیمات پر جانچتے انہوں نے اسلامی تعلیمات کو اس فلسفے کی بنیاد پر جانچنا شروع کر دیا جس کے نتیجے میں ان کے عقائد میں خرابی پیدا ہوئی، کمزور ذہنوں میں شک و شبہات پیدا ہونے لگے اور مسلمانوں میں مختلف گمراہ فرقے پیدا ہوئے جنہوں نے عقل کو اپنا معیار بنایا اور بے فائدہ اور بے حقیقت باتوں پر بحثیں ہونے لگیں۔ (آج یہی کام مغرب پرست مسلمان کررہے ہیں۔)
سیاسی افراتفری اور فکری انتشار اور بدامنی کا ایک اثر یہ ہوا کہ علوم و فنون کی ترقی رک گئی۔ امت کا درد و غم رکھنے والے علمائے حق گوشہ نشین ہو گئے جس کے نتیجے میں دنیا پرست علما علمی مجلسوں پر چھا گئے اور قرآن و حدیث کے بجائے بے مقصد اور غیر اہم مسائل موضوع بحث بن گئے اور دنیا پرست اور مال و جاہ کے طلب گار علما جو عام لوگوں کی دین سے محبت اور تعلق لیکن ناواقفیت کا فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں اور عوام الناس کو ان فروعی مسائل کو بنیاد بنا کر آپس میں لڑاتے رہے ہیں انہوں نے ان اختلافات کو اس درجے تک پہنچا دیا تھا کہ ایک دوسرے پر حملے کرنا، گھروں کو لوٹنا یہاں تک کہ مخالفین کی قبروں تک کو اکھاڑنے کے واقعات عام تھے۔ گالی گلوچ اور خون خرابہ تو ایک معمولی بات تھی۔ (غور فرمائیں آج بھی یہی کچھ ہورہا ہے۔)
ان تمام خرابیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمان عمل میں سست پڑ گئے، دنیاوی زندگی انہیں پیاری ہوگئی، ان کا آپس کا اتحاد پارہ پارہ ہوگیا، جذبہ جہاد ختم ہوگیا اور وہ اپنی وہ طاقت اور رعب کھو بیٹھے جس سے کفر کی طاقتیں خوف کھاتی تھیں۔
لوگوں کی اخلاقی حالت پر بھی اس کا بہت برا اثر پڑا تھا۔ خود غرضی، لالچ و حرص اور مکر و فریب جیسی خرابیاں عام تھیں۔ بزدلی، خوشامد، چاپلوسی، خیانت، دھوکہ دہی جیسی خرابیاں ان کی زندگیوں کا حصہ بن گئیں تھیں۔ملی و قومی مفادات پر ذاتی مفادات کو ترجیح دی جانے لگی تھی اور اس کی خاطر دین و ایمان تک داؤ پر لگا دیا جاتا تھا۔ حکمرانوں کی زندگیاں گناہوں میں ڈوبی ہوئی تھیں۔اور عوام الناس دنیا داری اور حرص و ہوس میں آلودہ اور ظلم و ستم کا شکار بنے ہوئے تھے۔ اقتدار پرستی اور چند افراد کی بالا دستی نے نئی نئی سازشوں کو جنم دیا۔مذہب سے دوری ایک فیشن بن گیا تھا۔بد امنی عام ہو گئی تھی۔
ان حالات میں ایک ایسی شخصیت کی شدید ضرورت تھی جو نہ صرف امت محمدیہ کی منجدھار میں پھنسی کشتی کو سلامتی کی طرف موڑ دے بلکہ اسے آنے والے طوفانوں کا مقابلہ کرنے کے قابل بھی بنا سکے۔ یہ ذات شاہ بغداد، محبوب سبحانی، پیران پیر، محی الدین شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی صورت میں اس دنیا میں تشریف لائی۔ یہی وہ ذات بابرکت تھی جس نے امت مسلمہ کی خستہ حالی کو ختم کیا، لوگوں سے مایوسی کو دور کیا، امید کا چراغ روشن کیا اور کشتی اسلام کو بھنور سے نکال کر صحیح سمت میں موڑ دیا۔
حضرت شیخ ۴۸۸ھ میں بغداد میں داخل ہوئے اور تقریباتینتیس (۳۳) سال تک طلب علم اور اصلاح نفس میں گزارے۔اس مدت میں تمام مذکورہ حالات کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے۔ بغداد کی معاشرتی سماجی اور دینی زندگی کے بگاڑ کو دیکھا۔ ظلم و ستم، فحاشی و تن آسانی اور عیش و عشرت میں ڈوبی ہوئی زندگی ان کے سامنے تھی۔ انہوں نے مسلمانوں کی باہمی نااتفاقی اور خانہ جنگی اور دشمنی کو بھی دیکھا، انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ ملک، صوبوں اور شہروں کی حکومت حاصل کرنے کے لیے لوگ سب کچھ کر گزرنے پر آمادہ ہیں۔ انہوں نے درباری اور دنیا پرست علما کا کردار بھی دیکھا جو ذلیل دنیا کی خاطر مسلمانوں کو آپس میں لڑاتے تھے۔ یقینا حضرت شیخ نے ان حالات اور واقعات کا بھرپور اثر قبول کیا اور یہ احساس ان کے دل میں پیدا ہوا کہ ملت اسلامیہ زوال کی زد پر ہے جس سے بچاؤ کے لیے دوسری کوئی قوت عالم اسلام میں سرگرم عمل نہیں ہے۔حضرت شیخ کا ایک ملفوظ ملاحظہ فرمائیں:
’’ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی دیواریں گر رہی ہیں اور پکار رہی ہیں کہ کوئی ہے جو ان کی تعمیر کرے؟ دین محمدی کی نہر خشک ہوا چاہتی ہے۔اللہ کی عبادت اول تو ہوتی ہی نہیں اور کبھی ہوتی بھی ہے تو دکھاوے اور نفاق کے ساتھ ہوتی ہے۔ کوئی ہے جو ان دیواروں کو سیدھا کرنے اور نہر کو وسیع کرنے اور اہل نفاق کو شکست دینے میں مدد کرے؟‘‘ (ملفوظات شیخ)
یہی تعمیر اور امت کو ہلاکت کے بھنور سے باہر نکال کر لانا ہی آپ کا اصلی مقصد تھا۔ یہی آپ کے مواعظ کا اصلی محرک تھا اور اسی لیے آپ نے بغداد کو، جو اس وقت عالم اسلام کا علمی اور روحانی مرکز تھا، اپنی دعوت کا مرکز بنایا تھا تا کہ امت مسلمہ کے قلب میں بیٹھ کر اس کی اصلاح کا کام کیا جائے۔چنانچہ وہ اپنی پوری قوت اور اخلاص کے ساتھ وعظ و ارشاد دعوت و تربیت، اصلاح نفوس اور تزکیہ قلوب کی طرف متوجہ ہوئے۔ انہوں نے ان مسائل کی جڑ پر کلہاڑا چلایا جو امت کو دیمک کی طرح چاٹ رہے تھے۔ انہوں نے توحید خالص، اخلاص کامل، تقدیر پر ایمان، عقیدہ آخرت کی یاد دہانی، اس دنیا کے فانی ہونے اور اس کے مقابلے میں آخرت کی زندگی کی ہمیشگی، نفاق اور حب دنیا کی برائی اور تہذیب اخلاق کی دعوت پر سارا زور صرف کر دیا۔ ان مواعظ اور خطبات کا خواص و عوام پر بہت زبردست اثر پڑا اور وہ بہت جلد راہ راست پر آگئے۔ ہزاروں افراد نے آپ کے ہاتھ پر توبہ کی۔ صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ سینکڑوں یہودیوں اور عیسائیوں نے بھی اسلام قبول کیا۔
آپ نے صرف واعظانہ کام ہی نہیں کیا بلکہ مجاہدانہ سرگرمیاں بھی آپ کی شخصیت کا حصہ رہیں۔ گو براہ راست آپ نے ان سرگرمیوں میںحصہ نہیں لیا لیکن تاریخ سے ثابت ہے کہ ان کے دور میں بلکہ بعد میں بھی عالم اسلام میں جو جذبہ جہاد بیدار ہوا اس کے پیچھے حضرت شیخ ہی کی تحریک جہاد کام کر رہی تھی۔ اس بات کے ثبوت کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ مجاہد اسلام نور الدین زنگیؒ کے دربار میں حضرت شیخ کے مدرسہ قادریہ کے فارغ ہونے والوں کو اعلی عہدے حاصل تھے مثلاً: قطب الدین نیشاپوری اور شرف الدین عبدالمومن شوردہ۔اسی طرح حامد بن محمود حرانی جو حضرت شیخ ہی کے شاگرد تھے نور الدین زنگیؒ کے دربار میں قاضی کے عہدے پر فائز تھے۔ ایک اور شاگرد علی بن برداون بن زید کندی بھی نور الدین زنگی کے دربار میں خاص قدر و منزلت حاصل تھی۔
فاتح بیت المقدس صلاح الدین ایوبیؒ کے دربار میں بھی حضرت شیخ کے شاگرد موجود تھے مثلاً: زین الدین علی بن ابراھیم بن نجا دمشقی جو حضرت شیخ کے شاگرد تھے صلاح الدین ایوبی کے مشیروں میں شامل تھے۔ فتح بیت المقدس کے وقت ابن نجا اور موفق الدین بن قدامہ اور ان کے بھائی محمد صلاح الدین ایوبی کے ہمراہ تھے اور یہ تمام لوگ حضرت شیخ کے شاگرد تھے۔
ہندوستان میں جہاد کا پرچم شہاب الدین غوری نے بلند کیا۔ اس جہاد کے پیچھے بھی حضرت شیخ کے فیض یافتہ خواجہ معنی الدین چشتیؒ کی کوشش کار فرما تھی۔حضرت خواجہ حضرت شیخ کے آخری سالوں میں بغداد پہنچے تھے اور وہیں سے لوٹ کر آپ نے ہندوستان کا سفر کیا تھا اور پھر اجمیر کو اپنا مرکز بنایا۔یہ علاقہ اس وقت کفر و شرک کا بہت بڑا مرکز تھا۔ وہیں سے آپ نے شہاب الدین غوری کو ہندوستان پر حملے کی دعوت دی۔آپ کے بعد آپ کے خلفا نے اپنی دعوتی اور تبلیغی کوششوں سے پورے ہندوستان کو نور اسلام سے منور کر دیا۔
یہ انہی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ حضرت شیخ کی زندگی ہی میں عیسائیوں کو شکستیں ہونے لگیں ا ور ان کے وصال کے چند سال کے بعد پورا عالم اسلام عیسائیوں کی یلغار کے مقابلے میں سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑا ہو گیا۔حضرت شیخ کی وفات ۵۶۱ھ میں ہوئی اور اس کے تین چار سال بعد ہی سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے صلیبیوں کو شکست دے دی۔ اس کے کچھ عرصہ کے بعد شہاب الدین غوری نے ہندوستان میں بت پرستوں کو روند کر اسلام کا پرچم بلند کیا۔
حضرت شیخ کی تمام کرامتوں کو ایک پلڑے میں رکھا جائے اور دوسرے پلڑے میں آپ کی ان کوششوں کو جس کے نتیجے میں ہزاروں بھٹکے ہوئے راہ راست پر آگئے اور گلشن اسلام میں دوبارہ بہار آگئی۔ اسلام کے اصل عقائد اور تعلیمات واضح ہو گئیں امت مسلمہ عمل و جہاد کی طرف لوٹ آئی تو یقینا یہی پلڑا بھاری ہوگا اور یہی آپ کی سب سے بڑی کرامت مانی جائے گی۔ لیکن آج حضرت شیخ کی دوسری کرامتوں کے مقابلے میں ان کی اس کرامت کا بہت کم لوگوں کو علم ہے۔
(جاری ہے)​
 

deewan

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2014
پیغامات
71
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
57
حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیم و تربیت
حضرت شیخ کی طالب علمی کے حالات
حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ بغداد میں علوم دین حاصل کرنے کے لیے آئے تھے اس لیے آپ نے اس پر بھرپور توجہ دی۔آپ نے سب سے پہلے قرآن کریم حفظ کیا اور اس کے بعد دوسرے علوم کی تعلیم حاصل کی۔ آپ نے دینی تعلیم اس وقت کے بہت بڑے عالم قاضی ابو سعید مخرمی کے مدرسہ باب الازج میں حاصل کی۔ مختلف علوم میں آپ کے اساتذۃ کرام کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:
ادب: ادب کی تعلیم ابو زکریا تبریزی سے حاصل کی، جو خود متعدد کتابوں کے مصنف تھے۔
علم حدیث: علم حدیث اس وقت کے بڑے بڑے محدثین سے حاصل کیا جن میں ابوغالب محمد بن احسن باقلانی، ابوبکر احمد بن مظفر، ابو قاسم علی بن بیان رزاز، ابومحمد جعفر بن احمد سراج، ابوسعید محمد بن خشیش، ابوطالب عبدالقادر بن محمد بن یوسف، میں ابوبرکات طلحہ عاقولی، ابوغنائم محمد بن علی بن میمون خراصی،ابوطاہر عبدالرحمان بن محمد، ابومنصور عبدالرحمان قزاز،ابوالقاسم بن احمد بن بنان کرخی کے نام قابل ذکر ہیں۔
فقہ اور اصول فقہ: یہ فنون آپ نے شیخ ابو خطاب محفوظ کلوذانی، ابو وفا علی بن عقیل حنبلی، ابو حسن محمد بن قاضی ابو یعلی،محمد بن حسین بن محمد سراج، قاضی ابو سعید مخرمی سے حاصل کئے۔
آپ کا علم حاصل کرنے کا عرصہ ۴۸۸ھ سے لے کر ۵۲۱ھ تک کی تینتیس (۳۳) سال کی طویل مدت پر پھیلا ہوا ہے جس کے متعلق کچھ زیادہ معلومات نہیں ملتیں شاید اس لیے کہ اس دوران آپ کئی بار سلسلہ تعلیم چھوڑ کر بغداد کے ویرانوں اور کھنڈرات کی طرف چلے جاتے تھے یہاں تک کہ آپ کو عبدالقادر مجنون کے لقب سے یاد کیا جانے لگا۔طلب علم کی اس طویل مدت کے دوران میں آپ نے بے پناہ مشکلات کا سامنا کیا مگر ہمت نہ ہاری۔ آپ فرماتے تھے کہ میں نے ایسی ہولناک سختیاں جھیلی کہ اگر وہ پہاڑ پر گزرتیں تو پہاڑ بھی پھٹ جاتا۔ جب مصیبتوں کی ہر طرف سے مجھ پر یلغار ہو جاتی تھی تو میں ویرانوں کی طرف نکل جاتا تھا اور شور پکار کرنے لگتا تھا۔
اس طرح کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ ایک دن ویرانے میں میرے شور اور پکار کو سن کر علاقے کے ڈاکو گھبرائے ہوئے آئے مجھے پہچان کر کہنے لگے : ’’یہ تو عبدالقادر دیوانہ ہے۔تو نے ہمیں ڈرا دیا۔‘‘
بعض اوقات یہ سختیاں جب برداشت سے باہر ہوجاتیں تو تنگ آکر زمین پر لیٹ جاتا اور اس آیت کا ورد شروع کردیتا:

فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا، اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا۔ (الانشراح 4،5)
ترجمہ:بے شک تنگی کے ساتھ آسانی ہے بے شک تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔
ابوبکر تمی بیان کرتے ہیں کہ حضرت شیخ نے مجھ سے یہ واقعہ بیان کیا کہ قیام بغداد کے دوران مجھ پر ایک ایسا سخت وقت گزرا کہ میں نے چند روز تک کچھ نہیں کھایا حتی کے بھوک سے ایک دن دریا کے کنارے آیا تاکہ گری پڑی گھاس پھوس سے ہی پیٹ بھر لوں لیکن جس جگہ پہنچا وہاں مجھ سے بھی پہلے کچھ لوگ پہنچے ہوئے تھے۔میں نے یہ سمجھ کر کہ شاید یہ کوئی درویشوں کی جماعت ہے واپس ہو گیا اور اسی کیفیت میں شہر کی ایک مسجد کے اندر پہنچا جو ایک بازار میں تھی۔اس وقت میں بھوک سے نڈھال تھا۔ مگر کسی سے سوال بھی میرے لئے ممکن نہیں تھا اور مجھے یوں لگا کہ میری موت واقع ہو جائے گی۔اس وقت ایک عجمی نوجوان روٹی اور بھنا گوشت لے کر مسجد میں داخل ہوا اور کھانے بیٹھ گیا۔ اس کو دیکھ کر بھوک کی شدت سے میرا منہ بار بار کھل جاتا تھا حتی کہ میں نے خود کو ملامت کر کے کہا کہ یہ کیا حرکت ہے؟ رب العالمین تیرے حال سے واقف ہے اور زیادہ سے زیادہ موت ہی تو واقع ہو سکتی ہے۔یکایک نوجوان نے مجھے مخاطب کر کے کہا: ’’آئیے بسم اللہ کیجیے۔‘‘ لیکن میں نے انکار کر دیا۔ پھر جب اس نے بہت اصرار کیا تو مجبورا کھانے میں شریک ہو گیا۔
جب میں نے اس شخص کے بارے میں معلوم کیا تو اس نے بتایا کہ میں جیلان کا رہنے والا ہوں اور عبدالقادر کی تلاش میں آیا ہوں۔میں نے اس کو بتایا کہ میں ہی عبد القادر ہوں تو اس کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑ گیا اور اس نے کہا کہ اللہ کی قسم جس وقت میں آپ کی تلاش میں بغداد پہنچا ہوں تو میرے پاس صرف تین دن کا سفر خرچ رہ گیا تھاجب کسی طرح آپ کا پتہ معلوم نہ ہو سکا اور میرے اوپر تین دن ایسے گزر گئے کہ میرے پاس کھانا خریدنے کو بھی سوائے اس رقم کے جو آپ کے لیے میرے پاس تھی کچھ باقی نہ رہا اور مزید تین دن گزرنے کے بعد میری حالت ایسی ہو گئی کہ جہاں شریعت مردار تک کھانے کی اجازت دے دیتی ہے تو میں نے آپ کی رقم میں سے یہ روٹی سالن خرید لیا ہے۔ لہذا یہ آپ ہی کا مال ہے۔خوب اچھی طرح کھائیے اور مجھے اپنا مہمان سمجھئے اور جب میں نے اس سے پوچھا کہ تم یہ کیا کہہ رہے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ آپ کی والدہ نے میرے ذریعے آٹھ دینار بھجوائے تھے جس سے میں نے یہ روٹی سالن خرید لیا اور اس خیانت کے لیے آپ سے معذرت خواہ ہوں۔
آپ نے ایک واقعہ اس طرح بیان فرمایا کہ فصل کٹنے کے زمانے میں بغداد کے طالب علموں کی ایک جماعت دیہاتوں میں جا کر غلہ وغیرہ طلب کیا کرتی تھی۔ چنانچہ ایک مرتبہ میں بھی ان کے ہمراہ چلا گیا۔لیکن وہاں ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ حق کا ارادہ کرنے والے اور صالح لوگ کسی سے کچھ طلب نہیں کرتے۔ یہ کہہ کر مجھے سوال کرنے سے روک دیا۔اس کے بعد میں کچھ طلب کرنے نہیں گیا۔

تزکیہ باطن
دینی علوم حاصل کرنے کے بعد آپ نے حضرت حماد بن مسلم دباس کی خدمت میں رہ کر طریقت و سلوک کی راہیں طے کیں جو کہ اصل ترتیب ہے۔ حضرت شیخ کے اپنے قول سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔
’’مخلوق سے کنارہ کشی سے قبل علم فقہ حاصل کرو کیونکہ جو شخص علم کے بغیر عبادت کرتا ہے وہ اصلاح سے زیادہ فساد میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ تمہیں چاہیے کہ شمع شریعت اپنے ہمراہ لے کر علم کی روشنی میں عمل کرو۔ پھر اللہ تمہیں علم لدنی کا وارث بنا دے گا۔‘‘ (قلائد الجواہر)
الفتح الربانی کی مجلس ۴۷ میں فرماتے ہیں:
’’تیرے لیے علم و تدریس میں داخل ہونا ضروری ہے اس کے بعد عمل کا نمبر ہے اور پھر اخلاص کا۔‘‘
حضرت شیخ کے نزدیک اس ترتیب کی اس قدر اہمیت ہے کہ اپنے وعظوں میں اس کا کئی بار ذکر کیا ہے۔ مثلا دیکھئے شیخ کے مواعظ حضرت الفتح الربانی مجلس ۱۲، ۴۵، ۴۹،۳۷ وغیرہ۔
حضرت جنید بغدادیؒ سے بھی اسی طرح کی ایک بات منقول ہے۔ ان کا قول ہے:
’’تصوف پورا کا پورا اللہ کی کتاب اور نبی کی سنت پر مبنی ہے۔ پس جو قرآن کا علم نہ رکھتا ہو اور حدیث سے واقف نہ ہو تو اس راہ تصوف میں اس کا اتباع نہ کیا جائے۔‘‘
درحقیقت یہ بہت اہم اصول ہے اسی لیے کتابوں میں لکھا ہے کہ صحبت ایسے شیخ کی اختیار کرنی چاہیے جو بقدر ضرورت علم دین رکھتا ہو اور عقائد، اعمال اور اخلاق میں شریعت کا پابند ہو۔
عالم کی فضیلت عابد پر کیسی ہے اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسی میری تم میں سے معمولی آدمی پر۔ (ترمذی)
حضرت شیخ کے مرشد حضرت حماد بن مسلم دباس نے آپ کی تربیت کے دوران بہت سخت امتحانات سے گزارا۔ خود حضرت شیخ فرماتے ہیں کہ جب میں کبھی شیخ دباس کے پاس ہوتا تو آپ مجھ سے فرماتے تو ہمارے پاس کیا لینے آیا ہے تو فقیہ ہے اہل فقہ کے پاس جایا کر مگر میں خاموش رہتا تھا۔ ایک اور واقعہ میں حضرت شیخ اپنے مرشد کے ساتھ جمعہ کی نماز کے لیے جارہے تھے۔ راستے میں ایک پل پر سے گزر ہوا جو نہر دجلہ کے اوپر تھا تو ان کے مرشد نے انہیں پانی میں دھکا دے دیا۔ اس وقت سخت سردی کا موسم تھا لیکن حضرت شیخ فرماتے ہیں کہ میں نے غسل جمعہ کی نیت کر لی۔ ان کے ساتھی انہیں وہیں چھوڑ کر آگے بڑھ گئے۔ حضرت شیخ نے نہر سے نکل کر اپنے کپڑے نچوڑے اور اپنے مرشد کے پیچھے چل پڑے۔اس واقعہ سے جہاں حضرت شیخ کا اپنے مرشد سے تعلق کا اظہار ہوتا ہے وہیں یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ حضرت شیخ تزکیہ نفس کی راہ پر آنے سے پہلے مفتی اور فقیہ بن چکے تھے۔
ایک اور واقعہ میں حضرت شیخ فرماتے ہیں کہ میں حضرت دباس کے پاس گیا تو انہوں نے فرمایا کہ آج ہمارے پاس بہت سی روٹیاں آئیں لیکن ہم نے سب کھا لیں اور تمہارے لیے کچھ نہیں بچا۔ حضرت دباس کا حضرت شیخ کے ساتھ یہ معاملہ دیکھ کر ان کے دیگر مرید بھی انہیں تکلیفیں پہنچانے لگے۔ وہ بار بار کہتے کہ تم تو فقیہ ہو تمھارا ہمارے پاس کیا کام۔ جب حضرت دباس کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے اپنے مریدوں سے فرمایا کہ تم اس کو تکلیف کیوں پہنچاتے ہو۔ خدا کی قسم تم میں سے کوئی ایک بھی اس کے مقام کا نہیں ہے۔ میں تو صرف امتحان کے طور پر اس کو اذیت پہنچاتا ہوں۔ لیکن میں نے اس کو ایسا پہاڑ پایا جس میں ذرا حرکت نہیں ہے۔

تدریسی زندگی کا آغاز
۵۲۸ھ میں حضرت شیخ کے استاد اور مرشد قاضی ابو سعید مخرمی کا قائم کردہ مدرسہ حضرت شیخ کے حوالے کیا گیا جس میں انہوں نے مختلف تیرہ علوم و فنون کی تدریس کا کام سنبھالا۔ اس سلسلے میں نحو، تفسیر، حدیث، اصول فقہ، حنبلی فقہ جس میں اختلاف مذاہب بھی شامل ہے قابل ذکر ہیں۔
آپ نے جب مدرسے میں درس شروع فرمایا تو طلبا کی تعداد کچھ زیادہ نہیں تھی لیکن آپ کی وسعت علم کی شہرت بہت جلد بغداد اور اس سے باہرپہنچ گئی اور دور دراز کے طلبا جوق در جوق آپ کے درس میں شریک ہونے لگے اور حالت یہاں تک پہنچ گئی کہ مدرسہ تنگ پڑ گیا اور اس کو وسیع کرنے کی نوبت آگئی۔جب مدرسے کی توسیع کا کام پورا ہو گیا اس وقت اس مدرسے کا نام مدرسہ باب الازج کے بجائے مدرسہ قادریہ ہوگیا اور اس کی شہرت سارے عالم میں پھیل گئی۔

(جاری ہے)
 
Last edited:

deewan

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2014
پیغامات
71
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
57
شخصیت و معمولات
آپ نازک بدن اور درمیانہ قدتھے۔ رنگ گندمی تھا۔ سینہ کشادہ تھا، بھویں ملی ہوئی تھیں، داڑھی طویل اور گنجان تھی، آواز بلند تھی۔
آپ ہفتے میں تین مرتبہ عوامی مجلس سے خطاب فرمایا کرتے تھے اور ہر روز صبح اور شام کے وقت آپ تفسیر، حدیث اور سنت نبوی کا درس دیا کرتے تھے۔ دن کے ابتدائی حصے میں تفسیر اور حدیث و اصول فقہ کی تعلیم دیتے اور ظہر کے بعد قرات کے ساتھ قرآن مجید کی تعلیم دیتے تھے۔ظہر کی نماز کے بعد آپ فتوے کا کام انجام دیا کرتے تھے۔ دوردراز کے شہروں اور ملکوں سے جو کچھ سوالات آپ کی خدمت میں آیا کرتے تھے ان کے جوابات تحریر فرماتے تھے۔ آپ امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ دونوں کے مسلک پر فتوی دیا کرتے تھے۔
آپ کی ذات مستجاب الدعوات، رقیق القلب اور علم دوست تھی۔ایک طرف آپ روحانی علوم کے حامل، عارف باللہ اور باکمال صوفی نظر آتے ہیں تو دوسری طرف سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پابند، فقہ و حدیث کے استاد، مفتی، مصنف، مصلح اور مبلغ کی حیثیت سے بھی آپ نمایاں ہیں۔
سید ہونے کی وجہ سے صدقہ لینا آپ کے لیے جائز نہیں تھا۔ ہدیہ بھی بہت مشکل سے قبول کرتے تھے کیوں کہ ہدیہ دینے والے کو اس بات کا ثبوت پیش کرنا ہوتا تھا کہ اس کا مال حلال طریقے سے کمایا ہوا ہے۔ حضرت شیخ کے پاس جب کوئی ہدیہ آتا تو آپ سب کا سب یا اس کا کچھ حصہ حاضرین مجلس میں تقسیم فر ما دیتے اور ہدیہ بھیجنے والے کے پاس بطور اظہار تشکر خود بھی ہدیہ بھجتے تھے۔ (قلائد الجواہر)
آپ کے پاس زمین کا ایک ٹکڑا تھا جس میں آپ دیہاتیوں سے کاشت کرواتے۔ آپ کے بعض اصحاب اناج پیس کر چار پانچ روٹیاں تیار کر دیتے پھر آپ ان روٹیوں میں سے ایک ایک ٹکڑا حاضرین مجلس میں تقسیم فرما دیتے اور جو کچھ باقی بچتا اس کو اپنے لیے رکھ لیتے۔ (قلائد الجواہر)
آپ علما کے شایان شان لباس پہنتے تھے جو پر تکلف ہوتا تھا (قلائد الجواہر)۔ خود حضرت شیخ کا قول ہے:
’’اے دنیا بھر کے اہل مملکت و شاہان و سلاطین و حکام! میرے گھر میں اندر بہت سے کپڑے لٹکے ہوئے ہیں جس لباس کا جی کرتا ہے پہن لیتا ہوں۔‘‘ (ملفوظات شیخ )
اپنی تمام تر عبادات اور مجاہدوں کے باوجود آپ بیوی بچوں کا پورا پورا خیال رکھتے تھے۔ آپ فرماتے تھے جو شخص حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں راہوں پر گامزن رہتا ہے وہ بہ نسبت دوسرے لوگوں کے مکمل اور جامع ہوتا ہے۔کیونکہ یہی صفت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی تھی۔ (قلائد الجواہر)
حضرت شیخ کے پاس عراق کے مختلف علاقوں سے کثیر تعداد میں فتوی آیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ بغداد میں ایک فتوی آیا جو تمام علمائے عراق کے سامنے پیش ہوا تھا لیکن کوئی بھی عالم اس کا مناسب جواب دینے سے قاصر رہا تھا۔ مسئلہ یوں تھا کہ اگر کسی شخص نے یہ قسم کھالی کہ وہ ایسی عبادت کرے گا جس میں کوئی دوسرا اس کا شریک نہ ہو اور اگر وہ ایسا نہ کرسکا تو اس کی بیوی کو تین طلاقیں ہوجائیں گی۔جب یہ فتوی دوسرے تمام علما کے پاس سے ہوتا ہوا حضرت شیخ کی خدمت میں پیش ہوا تو آپ نے فوری طور پر جواب دیا کہ کچھ دیر کے لیے مطاف کعبہ خالی کرایا جائے اور مذکورہ شخص اس میں طواف کرے۔ اس طرح اس کی قسم پوری ہوجائے گی۔
ایک اور فتوی کی روداد اس طرح سے ہے:
’’حکایت کے طور پر نقل کیا گیا ہے کہ حضرت شیخ کے زمانے میں کسی شخص نے اپنی بیوی کے لیے طلاق کی قسم کے ساتھ کہا کہ میں بایزید بسطامیؒ سے افضل ہوں اور جب علمائے عراق سے فتوی طلب کیا گیا تو کسی نے بھی فتوے کا جواب نہیں دیا۔ جب وہ شخص زیادہ پریشان ہوا تو لوگوں نے اس کو شیخ عبد القادر جیلانیؒ کے پاس جانے کو کہا۔ چنانچہ اس نے آپ کے پاس آکر پورا واقعہ بیان کیا اور معلوم کیا کہ میں اپنی بیوی کو الگ کر دوں یا ساتھ رکھوں؟ آپ نے ڈانٹ کر فرمایا: ’’ساتھ رکھو کیونکہ تم کو بایزید بسطامیؒ پر فضیلت اور سبقت اس اعتبار سے رکھتے ہو کہ تم نے فتوے کا علم حاصل کیا اور وہ مفتی نہیں تھے۔ تم نے نکاح کیا اور ان کا نکاح نہیں ہوا، تم اپنی اولاد کے رزق کا خیال رکھتے ہو اور وہ اس سے محروم تھے۔‘‘ (قلائد الجواہر)
حضرت شیخ بادشاہوں سے کبھی نہیں ملتے تھے مگر بادشاہ بڑے اصرار سے حاضری کی درخواست کرتے تھے۔ ان کے آنے سے پہلے حضرت مکان کے اندر تشریف لے جاتے تھے اور جب بادشاہ آکر بیٹھ جاتا تب آپ مجلس میں تشریف لاتے تا کہ بادشاہ کی تعظیم کی خاطر نہ اٹھنا پڑے۔آپ ان کے مال کو بھی جائز اور حلال نہ سمجھتے تھے بلکہ آپ ان کو بیت المال میں خیانت کرنے والا سمجھتے تھے۔
آپ برسر منبر معاشرے کے بھٹکے ہوئے افراد کی اصلاح کی کوشش فرماتے رہتے اور بعض اوقات سخت گرفت فرماتے تھے اور اس میں کسی سے خوف نہ کھاتے تھے۔ آپ فرماتے تھے:
’’میں تم سے حق بات کہہ رہا ہوں اور نہ تم سے ڈرتا ہوں اور نہ امید رکھتا ہوں۔ تم اور ساری زمین کے لوگ میرے نزدیک مچھر اور چیونٹی جیسے کمزور ہیں۔ کیونکہ میں نفع اور نقصان سب حق تعالیٰ ہی کی طرف سے سمجھتا ہوں۔‘‘ (الفتح الربانی مجلس ۵۱)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا : کون سا جہاد افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ظالم حکمران کے سامنے حق بات کہنا۔‘‘(نسائی)۔چنانچہ جب عباسی خلیفہ المقتضی بامر اللہ نے ایک ظالم ابوالوفا جو ابن مرجم کے نام سے مشہور تھا کو گورنر مقرر کیا تو اسی فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں جناب شیخ نے منبر پر خلیفہ کو یوں مخاطب کیا:
’’آج تو نے جس ظالم کو مسلمانوں کے امور کا ذمہ دار مقرر کیا ہے کل قیامت کے دن اس تقرر کے بارے میں کیا جواب دے گا؟‘‘
یہ خطاب سن کر خلیفہ لرز گیا اور فورا ابن مرجم کی برطرفی کا حکم جاری کیا۔ (قلائد الجواہر)
معاشرے کے مختلف طبقوں کو خطاب کرتے ہوئے حضرت شیخ فرماتے ہیں:
’’اے بادشاہو! اے غلامو! اے ظالمو! اے منصفو! اور اے مخلصو! دنیا ایک محدود وقت کے لیے ہے اور آخرت لامحدود مدت کے لیے۔ اپنے مجاہدے اور زہد سے اللہ تعالیٰ کے سوا سب کو چھوڑ کر اپنے رب کے غیر سے اپنے دل کو پاک صاف بناؤ۔‘‘ (الفتح الربانی مجلس ۵۱)
جلاء الخواطر کی مجلس نمبر ۲۹ میں ارشاد فرماتے ہیں:
’’تم اپنے محل کے ارد گرد کے پہریدار سے اس سے زیادہ ڈرتے ہو جتنا کہ تم اپنے رب جلیل سے ڈرتے ہو۔ تم ان کو مال دیتے ہو اور ان کے لیے تحفے بھیجتے ہو۔ اس لیے کہ وہ تمہارے گھر کی خرابی اور تمہاری مہربانی سے مطلع ہیں۔‘‘
جلاء الخواطر کی چھٹی مجلس میں فرماتے ہیں:
’’اے منافق یہ مرتبہ تمہیں اپنے نفاق اور ریاکاری سے کب ہاتھ آسکتا ہے۔ تم تو اپنی مقبولیت لوگوں میں دیکھنا چاہتے ہو۔اپنے ہاتھوں کو چومتے چماتے دیکھنا چاہتے ہو۔تم اپنے لیے دنیا اور آخرت دونوں میں منحوس ہو اور اپنے مریدوں کے لیے بھی جو تمہارے زیرتربیت ہیں۔تم ریاکار ہو، جھوٹے ہو، لوگوں کا مال اڑانے والے ہو۔ جب غبار چھٹے گا تو دیکھو گے کہ گھوڑے پر سوار ہو یا گدھے پر۔‘‘
بے علم صوفیوں سے خطاب فرماتے ہوئے جلاء الخواطر مجلس ۴۵ میں فرماتے ہیں:
’’اے گھروں اور خانقاہوں میں نفس، طبیعت، خواہش نفسانی اور علم کی کمی کے ساتھ بیٹھنے والو! تم پر لازم ہے کہ علم پر عمل کرنے والے شیوخ کی صحبت اختیار کرو۔ تم میں سے بہت سارے حرص اور لالچ کا شکار ہیں۔ اپنی خانقاہوں میں بیٹھے مخلوق کی پوجا کرتے ہو۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
جو شخص دین کا علم غیر اللہ کے لیے سیکھے وہ اپنے اس ٹھکانے میں ٹھہرنے کے لیے تیار ہوجائے جو دوزخ میں ہے۔ (ترمذی)
ایسے ہی بے عمل عالموں سے خطاب فرماتے ہوئے حضرت شیخ فرماتے ہیں:
’’تمہارے علوم کتنے زیادہ ہیں اور تمہارے اعمال کتنے کم۔ تم نے علم کو اپنے نصیبہ کی حفاظت کا ذریعہ بنا لیا ہے۔اور کہانیاں اور واقعات کا اضافہ کردیاہے۔یہ بات تمہیں فائدہ نہ دے گی۔اتنی اور اتنی حدیثیں یاد کرتا ہے اور ان میں سے ایک حرف پر بھی عمل نہیں کرتا۔‘‘ (جلاء الخواطر مجلس ۳۸)
(جاری ہے)​
 

deewan

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2014
پیغامات
71
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
57
حضرت شیخ کے بارے میں بعض اکابر امت کی رائے
تمام مشائخ کرام کا آپ کی فضیلت پر اتفاق ہے۔
حضرت شیخ کے متعلق شیخ معمر بیان کرتے ہیں:
’’ میری آنکھوں نے شیخ عبد القادر جیلانی کے سوا کسی کو اتنا خوش اخلاق، وسیع القلب، کریم النفس، مہربان، وعدوں اور دوستی کا نبھانے والا نہیں دیکھا۔لیکن اتنے بلند مرتبت اور وسیع العلم ہونے کے باوجود چھوٹوں کو شفقت سے بٹھاتے، بزرگوں کا احترام کرتے، سلام میں پہل کرتے اور درویشوں کے ساتھ حلم اور تواضع سے پیش آتے۔ کبھی کسی حاکم یا بڑے آدمی کے لیے کھڑے نہ ہوتے نہ کبھی بادشاہ یا وزیر کے دروازے پر جاتے۔‘‘ (قلائد الجواہر)
شیخ علی بن ادریس یعقوبی بیان کرتے ہیں کہ جب میں نے شیخ علی بن الہیتی سے حضرت شیخ کے طرز عمل کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے بتایا:
’’ان کا طرز عمل اللہ کی موافقت و سپردگی تھا۔ان کا طریقہ خالص توحید تھا۔ اور ان کا باطن حضوری کی وجہ سے مکمل توحید بن چکا تھا۔ان کو عبودیت کا وہ مقام حاصل تھا جہاں خدائے واحد کے سوا کچھ باقی نہیں رہ جاتا۔ ان کی عبودیت پوری طرح ربوبیت سے مدد حاصل کرتی تھی اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی مصاحبت و قرب سے کبھی جدا نہ ہونے کی وجہ سے بہت بلند مراتب حاصل کیے اور ان کے حصول کی وجہ آداب شریعت کو ملحوظ رکھنا ہے۔آپ قضا و قدر کے فیصلوں پر بالکل ساکت رہتے اور قلب و روح کو قضا و قدر کے فیصلوں پر راضی رہنے والا بنا چکے تھے۔آپ کا ظاہر و باطن یکساں تھا۔غیوبیت کا ایسا عالم طاری رہتا کہ نفسانی خواہشات سے جدا ہو کر سود و زیاں اور قرب و بعد سے یکسر بے گانہ ہو چکے تھے۔ آپ کے قول و فعل میں یگانگت تھی، اخلاص و تسلیم آپ سے ہم کنار تھے اور اللہ کے ساتھ ثابت قدم رہ کر اپنی واردات قلبی اور اپنے احوال کو ہر لمحہ کتاب و سنت کے سانچے میں ڈھالے رکھتے تھے۔اللہ تعالیٰ سے وابستگی کا یہ عالم تھا کہ فنا فی اللہ ہو کر رہ گئے تھے۔بڑے بڑے متقدمین اولیا آپ کے مقابلے میں کمزور معلوم ہوتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے تحقیق و تدقیق کے سلسلے میں آپ کا مقام بہت بلند کر دیا تھا۔‘‘ (قلائد الجواہر)
حضرت شیخ کے متعلق شیخ الاسلام شہاب الدین حجر سے سوال کیا گیا کہ کیا شیخ عبد القادر جیلانی سماع (قوالی) میں شریک ہوتے تھے اور کیا سماع میں فقرا دف یا دوسرے سازوں کا استعمال کرتے تھے؟ کیا شیخ نے کبھی سماع کے مباح یا حرام ہونے کے متعلق بھی کچھ فرمایا ہے؟
شیخ الاسلام نے جواب دیا:
’’جہاں تک ہمارے پاس شیخ کے صحیح حالات پہنچے ہیں وہ تو یہ ہیں کہ آپ فقیہ و زاہد اور عابد و واعظ تھے اور لوگوں کو زہد اختیار کرنے اور توبہ کرنے کا درس دیتے تھے۔ گناہ کی سزا سے لوگوں کو ڈراتے تھے۔ بے شمار لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر توبہ کی۔آپ سے اس کثرت کے ساتھ کرامتیں منقول ہیں کہ آپ کے زمانے یا آپ کے بعد آنے والے اولیا سے منقول نہیں لیکن ہمیں مزامیر (موسیقی کے آلات) کے ذریعے سماع میں ان کی شرکت کا علم نہیں ہے۔‘‘ (قلائد الجواہر)
لیکن غنیۃ الطالبین میں حضرت شیخ نے اپنا نقطہ نظر واضح فرما دیا ہے۔ حضرت شیخ لکھتے ہیں:
’’سماع، قوالی مزامیر اور رقص کو ہم جائز نہیں جانتے۔‘‘
علامہ ابوالحسن مقری بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے استاد موفق الدین بن قدامہ سے سنا:
’’جب میں بغداد میں داخل ہوا تو یہ وہ دور تھا جب شیخ عبدالقادر جیلانی علم و فضل، حال و قال کی انتہائی منزل پر تھے۔ کسی طالب علم کو دوسرے علما کے پاس جانے کی ضرورت نہ ہوتی تھی۔آپ کی ذات سرچشمہ علوم و فیض تھی۔ آپ کا طرز عمل طالب علموں کے ساتھ بہت اچھا تھا۔ آپ صبر و تحمل اور وسیع النظری سے کام لیتے اور یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ آپ ان اخلاق کے حامل تھے کہ آپ کے بعد دوسرا کوئی شخص میری نظروں سے نہیں گزرا۔آپ اکثر خاموش رہتے۔ لیکن جب گفتگو فرماتے تو لوگوں کے ظاہری اور باطنی حالات پر اظہار خیال فرماتے۔نماز جمعہ یا خانقاہ جانے کے علاوہ کبھی مدرسے سے باہر نہ نکلتے۔ اہل بغداد کی بہت بڑی تعداد نے آپ کے ہاتھ پر توبہ کی۔ یہودیوں اور عیسائیوں نے بھی آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔‘‘ (قلائد الجواہر)
انہی موفق الدین کا بیان ہے کہ انہوں نے حضرت شیخ کے بالکل آخری ایام میں ان سے شرف ملاقات حاصل کیا۔آپ ان سے بہت شفقت سے پیش آئے۔ انہوں نے حضرت شیخ سے بعض کتابیں پڑھیں اسی قیام کے دوران حضرت شیخ کا انتقال ہوگیا۔ (قلائد الجواہر)
شیخ الاسلام عزالدین فرماتے ہیں کہ حضرت شیخ نہایت درجہ حساس تھے اور شریعت پر سختی سے عمل پیرا تھے اور ان کی طرف تمام لوگوں کو متوجہ کرتے رہتے تھے۔مخالفین شریعت سے ہمیشہ اظہار تنفر کرتے۔ (قلائد الجواہر)
حافظ زین الدین نے لکھا ہے کہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی شیخ وقت، علامۃ الدہر، قدوۃ العارفین، سلطان المشائخ اور سردار اہل طریقت تھے۔آپ کو مخلوق میں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔اہلسنت کو آپ کی ذات سے بڑی قوت حاصل ہوئی اور بدعتیوں کو ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ (قلائد الجواہر)
حافظ ابن کثیرؒ لکھتے ہیں کہ آپ نے بغداد آنے کے بعد حدیث کی سماعت کی۔ پھر فقہ، علوم حقائق اور فن خطابت میں مہارت حاصل کی۔آپ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے علاوہ اکثر خاموش رہتے۔آپ کا زہد و تقوی اس قدر بڑھا ہوا تھا کہ خوارق و کرامات و مکاشفات کا اکثر ظہور ہوتا تھا۔آپ برسر منبر ظالم امیروں اور سلطنت کے اہل کاروں پر گرفت فرماتے اور اللہ کی راہ پر عمل میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی ذرا پرواہ نہ کرتے۔آپ کی صحبت میں بیٹھنے والا ہر فرد یہی محسوس کرتا کہ سب سے زائد شفقت آپ کی اسی پر ہے۔ غیر حاضر لوگوں کے حالات دریافت فرماتے۔ دوستی کو نبھاتے، لوگوں کی غلطیاں معاف فرماتے اور یہ جانتے ہوئے کہ اس شخص نے جھوٹی قسم کھائی ہے اس کی قسم کا یقین کر لیتے۔ (قلائد الجواہر)
حضرت شیخ سعدی شیرازیؒ نے بھی جامعہ نظامیہ بغداد ہی میں تعلیم حاصل کی جہاں حضرت شیخ مدرس رہے تھے۔شیخ سعدی کی ولادت حضرت شیخ کی وفات سے ۱۴ سال بعد کی ہے۔ اپنی مشہور تصنیف گلستان میں حضرت شیخ کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں:
’’لوگوں نے عبد القادر جیلانی کو کعبہ میں دیکھا کہ کنکریوں پر چہرہ رکھے ہوئے عرض کر رہے تھے: اے مالک بخش دے اور اگر میں مستحق سزا ہوں تو قیامت میں مجھے نابینا اٹھانا تاکہ نیک لوگوں کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے۔‘‘ (بحوالہ فیوض غوث یزدانی ترجمہ الفتح الربانی)
آپ خود بھی اپنے مواعظ میں بار بار اپنی عاجزی اور انکساری کا اظہار فرماتے تھے۔ مثلا الفتح الربانی کی مجلس ۵۱ میں فرماتے ہیں:
’’بار الہا! میں تو گونگا بنا ہوا تھا پس تو نے ہی مجھے بلوایا لہذا میرے بولنے سے مخلوق کو نفع بخش اور میرے ہاتھوں ان کی درستی کامل فرما دے ورنہ مجھے پھر اسی گونگے پن کی طرف لوٹا دے۔‘‘
الفتح الربانی مجلس ۶۲ میں فرماتے ہیں:
’’یا اللہ! ہمارے ساتھ بھی سلامتی کا معاملہ فرما اگرچہ ہم مستحق نہیں۔ ہمارے ساتھ اپنے کرم کا برتاؤ فرما۔ ہماری جانچ مت کر نہ ہم کو اوجھل کر اور نہ مقام امتحان میں کھڑا کر۔‘‘
یہی عبدیت اور عاجزی بندگی کا حاصل ہے جو ہزاروں کرامتوں سے بڑھ کر ہے۔ اسی سے راہ کھلتی ہے اور بندہ اپنے رب کا قرب حاصل کرتا ہے۔یہ عبدیت اتنا بڑا مقام ہے کہ جنت میں داخلے سے پہلے اللہ اپنے نیک بندوں کو اپنے عبد ہونے کا اعزاز بخشیں گے۔ قرآن پاک میں میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْo وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْo (الفجر- ۲۹، ۳۰ )
ترجمہ: تو میرے بندوں میں شامل ہوجا اور میری جنت میں داخل ہوجا۔
(جاری ہے)​
 

deewan

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2014
پیغامات
71
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
57
میرا یہ قدم ہر ولی کی گردن پر ہے
حضرت شیخ سے ایک جملہ منسوب ہے کہ: ’’ میرا یہ قدم ہر ولی کی گردن پر ہے۔‘‘شیخ الاسلام شہاب الدین احمد عسقلانی ؒ سے جس وقت یہ پوچھا گیا کہ حضرت شیخ کے اس قول کا کیا مطلب ہے؟ تو آپ نے کہا :
’’اس کا ظاہری مفہوم تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان سے ایسی کرامتیں ظاہر ہوں گی جن کا سوائے حاسدین اور مخالفوں کے اور کوئی انکار نہ کرسکے گا۔ ‘‘ (قلائد الجواہر)
’’بعض حضرات قدم سے مجازی معنی مراد لیتے ہیں اور ادب کا تقاضا بھی یہی ہے۔ لہذا قدم سے مراد طریقہ بیان کیا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس طرح بزرگوں کا احترام بے معنی ہو کر رہ جاتاہے۔ دوسرے یہ کہ ایسے عظیم عالم، عارف کامل کے قول کو فصاحت و بلاغت کے اعلی نمونے پر خیال نہ کرنا انصاف کے تقاضے کے خلاف ہے۔لہذا حضرت کے مقام کے مطابق یہی مطلب زیادہ دلنشیں ہے۔ باقی پوشیدہ مفہوم کا علم تو عالم الغیب حق سبحانہ تعالیٰ ہی کو ہے۔‘‘(قلائد الجواہر)
اس کا ایک مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اس قول سے آپ کی عظمت و تکریم مقصود ہے۔ (قلائد الجواہر)
وصال
آپ کا وصال ربیع الثانی ۵۶۱ھ میں نوے (۹۰) سال کی عمر میں ہوا۔البتہ تاریخ کے بارے میں مورخین میں اختلاف ہے۔ بعض ۱۰ ربیع الثانی بتاتے ہیں اور بعض ۱۱ ربیع الثانی۔ وصال سے پہلے ایک دن رات آپ کی طبیعت ناساز رہی۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے علاوہ حضرت شیخ کبھی بیمار نہیں ہوئے۔
آپ کے بیٹوں نے غسل دیا اور آپ کے بیٹے عبدالوہاب نے نماز جنازہ پڑھائی۔نماز جنازہ رات کے وقت مدرسے ہی میں ادا کی گئی۔اس موقع پر آپ کے شاگرد، مرید اور عقیدت مند بڑی تعداد میں موجود تھے۔اسی رات مدرسہ ہی میں آپ کو دفن کیا گیا۔
گیارہویں شریف
ایک عمل جو حضرت شیخ کی ذات سے وابستہ ہے وہ گیارہویں شریف ہے۔ گیارہویں شریف دراصل حضرت شیخ کے لیے ایصال ثواب کرنے کا نام ہے۔اہلسنت کے نزدیک ایصال ثواب کے لیے کوئی خاص تاریخ ضروری نہیں، یعنی یہ ضروری نہیں کہ گیارہویں شریف گیارہ تاریخ ہی کو ہو گی ورنہ نہیں۔ جب بھی ایصال ثواب کیا جائے جائز ہے۔اس صورت میں بھی اسے گیارہویں شریف ہی کہا جاتا ہے۔رہا کسی خاص دن کو مقرر کرنا تو یہ سہولت کی خاطر کیا جاتا ہے نہ کہ دینی تقاضا سمجھ کر (نہ ہی سمجھنا چاہیے)۔ اسی طرح ایصال ثواب کا کوئی خاص طریقہ بھی مقرر نہیں۔ ہر نیک کام کا اجر و ثواب بخشا جا سکتا ہے۔
(جاری ہے)​
 

deewan

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2014
پیغامات
71
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
57
تصوف یا تزکیہ باطن کی اہمیت
اسلام کی تمام تعلیمات کا سرچشمہ قرآن و سنت ہیں جس کی تعلیم مجلس نبوی میں دی جاتی تھی۔چونکہ اسلام کے ابتدائی دور میں اہل اسلام اپنے اصلی مرکز میں موجود تھے جن کی تعداد بھی اس وقت اتنی زیادہ نہ تھی جتنی بعد میں ہوگئی اسی لیے درس گاہ محمدی میں تمام علوم یعنی تفسیر، حدیث، فقہ اور تزکیہ باطن کی تعلیم دی جاتی تھی۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم ہی مفسر تھے، وہی محدث تھے، وہی فقیہ تھے اور وہی مرشد بھی تھے۔آنے والے دور میں جب اسلام جزیرہ عرب سے نکلا اور ایک عالمی حیثیت اختیار کر گیا تو اس کی تعلیمات کو علمائے دین نے الگ الگ شعبوں میں بانٹ دیا۔قرآن پاک کی تفسیر بیان کرنے والے مفسر کہلائے، حدیث کی خدمت کرنے والے محدث کہلائے اور جو فتوی اور فقہ کے کام میں لگے ان کو فقیہ کہا جانے لگا۔اسی طرح تزکیہ باطن اور اصلاح نفس کے کام کو لے کر چلنے والے صوفیا کہلائے۔اور اس علم کو تصوف یا طریقت کہا جانے لگا۔ اسی کو قرآن و حدیث میں تزکیہ اور احسان کا نام دیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکَّھَا وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسَّھَاo (الشمس -۹)
بے شک جس نے نفس کو پاک کیا وہ کامیاب رہا ور جس نے اس میلا کیا وہ ناکام رہا۔
اسی طرح فرمایا:
یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَ لَا بَنُوْنَ اِلَّا مَنْ اَتَی اللّٰہَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍo (الشعراء- ۸۹، ۸۸)
اس دن نہ مال کام آئے گا نہ اولاد مگر جو شخص اللہ تعالیٰ کے پاس پاک دل لے کر آیا۔پہلی آیت میں تزکیہ باطن کو فلاح کا سبب اور دوسری میں سلامتی قلب کو آخرت میں کامیابی کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔ اسی پاکی اور اصلاح قلب کا نام اصطلاح اور عرف میں تصوف ہے۔
جس طرح قرآن مجید میں ظاہری اعمال جیسے نماز، روزہ، حج، زکوۃ وغیرہ کا حکم موجود ہے اسی طرح باطنی اعمال کا بھی حکم ہے۔ جس طرح قرآن مجید میں کئی بار وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ آتا ہے اسی طرح یٰٓایُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوا یعنی اے ایمان والو! صبر کرو، اور وَاشْکُروا لِلّٰہِ یعنی اللہ کا شکر بجا لاؤ بھی موجود ہے۔اگر ایک مقام پر کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامَ اور لِلِّہ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتَ میں مسلمان پر روزے اور حج فرض ہونے کا ذکر ہے تو دوسرے مقام پر وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوا اَشَدَّ حُبًّا لِلّٰہِ میں مسلمان کا محبت الہی میں سرگرداں ہونے کا ذکر موجود ہے۔جہاں اِذَا قَامُوْا اِلَی الصَّلٰوۃِ قَامُوْا کُسَالٰی میں نماز میں سستی منافقوں کی علامت بتائی گئی ہے اسی کے ساتھ ہی یُرَآءُ وْنَ النَّاسَ کے ذریعے ریاکاری کی برائی بھی موجو د ہے۔
اگر ظاہری اعمال کی مثال بدن کی طرح ہے تو باطنی اعمال کی مثال روح کی سی ہے۔ گویا تزکیہ باطن یا تصوف دین کی روح ہے جس کا کام نفس کو رذائل یعنی برے اخلاق جیسے شہوت، غضب، حسد، حب دنیا، حب جاہ، بخل، حرص، ریا، عجب، غرور سے پاک کرنا اور فضائل یعنی پسندیدہ اخلاق جیسے توبہ، صبر، شکر، خوف، رجا، زہد، توحید، توکل، محبت، شوق، اخلاص، صدق، زبان کی حفاظت، مراقبہ، محاسبہ و تفکر سے آراستہ کرنا ہے۔ تاکہ توجہ الی اللہ یعنی مقام احسان پیدا ہوجائے جس کی طرف سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشہور حدیث جبرئیل میں اشارہ فرمایا ہے۔ اس میں جبرئیل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تھا کہ احسان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(احسان یہ ہے کہ) تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو اور اگر ایسانہ کر سکو تو پھر (یہ دھیان رکھو کہ) وہ تو تمھیں دیکھ رہا ہے۔ (صحیح بخاری)
دین اسلام میں عبادت صرف نماز، حج، روزہ اور زکوٰۃ کا نام نہیں بلکہ مسلمان کا ہر وہ کام جو وہ اللہ کی رضا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے پر کرتا ہے وہ اس کے حق میں اجر و ثواب کا ذریعہ بنتا ہے یہاں تک کہ اس کا کھانا پینا، سونا جاگنا، روزی کمانا، اپنی فطری ضروریات کو پورا کرنا اگر دین کے بتائے ہوئے طریقے پر کرے تو اس کے لیے قرب الہی کا ذریعہ بنتا ہے۔الفتح الربانی کی مجلس ۲۲ حضرت شیخ فرماتے ہیں:
’’دنیا میں تصرف کرنے کے متعلق جب نیت درست ہوتی ہے تو وہ آخرت ہی بن جاتی ہے۔ ‘‘
تصوف اور مقصد تصوف کے متعلق حضرت شیخ فرماتے ہیں:
’’تصوف لفظ صفا سے بنا ہے نہ کہ لفظ صوف (اون) سے۔ سچا صوفی وہ ہے جو اپنے تصوف (یعنی صفائی) میں سچا ہو۔اس کا دل مولا کے سوا تمام چیزوں سے صاف ہوتا ہے۔یہ ایک ایسی چیز ہے جو کپڑوں کا رنگ بدلنے، چہروں کو زرد کرنے، کندھوں کو اکٹھا کرنے، بزرگوں کی حکایتیں بیان کرنے اور تسبیح پر انگلیاں چلانے سے حاصل نہیں ہوتی۔ بلکہ حق تعالیٰ کی طلب میں سچا بننے، دنیا سے بے رغبت بننے، مخلوق کو دل سے باہر نکالنے اور اپنے مولا عز و جل کے سوا ہر کسی سے بے تعلق ہوجانے سے حاصل ہوتی ہے۔‘‘ (الفتح الربانی مجلس ۲۵)
یہ وہ تصوف ہے جس کی حضرت شیخ نے دعوت دی جس کی انتہا توحید خالص ہے جو عین تقاضائے دین ہے۔
غنیۃ الطالبین، باب آداب المریدین میں فرماتے ہیں:
’’تصوف کے معنی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اللہ کے ساتھ صدق اور اس کے بندوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آنا تصوف ہے۔‘‘
مروجہ تصوف میں ایک چیز بیعت ہے۔ بیعت کا مقصد یہ ہے کہ مرید اس بات کا عہد کرتا ہے کہ وہ شیخ کی تعلیمات پر عمل کرے گا اور شیخ اس بات کا ذمہ لیتا ہے کہ دین حق کے مطابق مرید کی تعلیم و تربیت کرے گا۔ اس کا مقصدیہ ہرگز نہیں کہ شیخ قیامت میں بخشش کا ذمہ دار ہوں جائے گا۔ صحیح مسلم میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمادیا:
اے فاطمہ! (محمد کی بیٹی) میرے مال سے جو چاہو لے لو مگر میں اللہ کے یہاں بچا نہیں سکتا۔
حضرت شیخ نے بھی اس خیال کی تردید فرمائی ہے۔ جلاء الخواطر مجلس ۳۸ میں فرماتے ہیں:
’’تم کہتے ہو کہ میرا شیخ فلاں ہے اور فلاں کے ساتھ رہا ہے اور میں فلاں کے پاس حاضر ہوا ہوں اور میں نے فلاں عالم سے کہا۔ یہ سب چیزیں عمل نہ کرنا ہے۔ اس سے کچھ نہیں بنتا۔‘‘
(جاری ہے)​
 
Top