اردو زبان میں حضرت شیخ کے جو تذکرے ملتے ہیں ان میں حضرت شیخ کے بہت تھوڑے حالات ملتے ہیں جب کہ اکثر میں حضرت شیخ کے فضائل اور ان کی کرامتوں کا ذکر زیادہ ملتا ہے۔ان کرامتوں سے تو حضرت شیخ کی شخصیت کا ایک ہی پہلو سامنے آتا ہے لیکن پڑھنے والے کو حضرت شیخ کی تعلیمات اور زندگی کے عملی پہلو سے ناواقفیت رہتی ہے۔ اس ایک یکطرفہ ذکر سے ان حضرات کا جو تصور عام ذہن میں بنتا وہ ایک مافوق الفطرت انسان کا ہوتا ہے۔ جبکہ حقیقتا بزرگان دین کی زندگیوں کا مطالعہ کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ انسان ان کی تعلیمات کو اپنی زندگی میں اختیار کر لے اور اس طرح اپنی دنیا اور آخرت دونوں کو سنوار لے۔ اسی طرح ان کتابوں سے یہ بھی نہیں معلوم ہوتا کہ حضرت شیخ جس دور میں پیدا ہوئے اس میں آپ نے امت کی اصلاح کا کام کس طرح کیا، ان کی تعلیمات کیا تھیں اور انہوں نے کن کن خرابیوں کی اصلاح کی۔اگلے صفحات میں اس پہلو سے بھی حضرت کی شخصیت کا جائزہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پڑھیے اور اپنی رائے سے آگاہ فرمایئے۔
------------------------------------------------------------------------------
حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ اور امت مسلمہ کے حالات
شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کا اصل تعلق تو جیلان (جس کو گیلان بھی کہا جاتا ہے) سے تھا۔ لیکن آپؒ نے امت کی اصلاح کی کام بغداد جو اس دور میں مرکز اسلام تھا میں بیٹھ کر کیا۔ حضرت شیخؒ کے کام کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس وقت کے حالات کا جائزہ لیا جائے جن میں اس وقت امت مسلمہ گھری ہوئی تھی۔ اس جائزے سے ہمیں یہ معلوم ہو گا کہ وہ کیا حالات تھے جن میں حضرت شیخ نے بغداد میں اپنے اصلاحی کام کا آغاز کیا، ان کے سامنے کیا مقاصد تھے، ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے انہوں نے کیا طریقہ کار اختیار کیا اور ان کے کام کے نتیجے میں امت میں کیا تبدیلی آئی۔
ان حالات کو پڑھتے ہوئے آپ کو بار بار یہ احساس ہوگا کہ گویا یہ ہمارے اپنے دور کا ذکر ہے۔سیاسی ابتری، مذہبی انتشار اور معاشرتی خرابی جیسے مسائل جو حضرت شیخ سے پہلے اور ان کی زندگی میں مسلمانوں کو درپیش تھے آج بھی امت مسلمہ انہی تمام مسائل کا شکار ہے گویا زمانہ گھوم پھر کر اسی مقام پر آ کھڑا ہوا ہے جہاں آج سے صدیوں پہلے تھا۔
سیاسی حالات
حضرت شیخ کی ولادت سے پہلے امت مسلمہ کو سیاسی ابتری، مذہبی انتشار اور معاشرتی خرابی نے مکمل طور پر گھیر رکھا تھا اور امت ایک ایسے دور میں تھی جس کو تاریخ دان امت مسلمہ کا سیاہ دور کہتے ہیں۔
مسلمانوں کے سیاسی انتشار کا آغاز تیسری صدی ہجری میں عباسی خلیفہ مامون کے زمانے سے ہوا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خلافت بغداد کی سیاسی مرکزیت روز بروز کمزور ہوتی چلی گئی۔تعداد کے اعتبار سے مسلمان کم نہ تھے لیکن عالم اسلام مختلف ملکوں میں تقسیم تھا۔جگہ جگہ چھوٹی چھوٹی خود مختار ریاستیں وجود میں آچکی تھیں اور خلیفہ بغداد کی کوئی عملی حیثیت نہیں تھی۔اس کی عزت کی جاتی تھی لیکن سارے اختیارات مختلف علاقوں کے طاقتور حکمرانوں کے ہاتھوں میں تھے۔
مسلمانوں میں انتشار کا آغاز ۲۰۵ھ میں ہوا جب طاہر بن حسین نے خراسان میں خلافت بغداد سے الگ ایک آزاد ریاست قائم کی جو ۲۵۹ھ تک قائم رہی۔ طاہر بن حسین مامون کی فوج کا سربراہ تھا۔ اس ریاست کا دارالحکومت نیشاپور تھا۔ اس کے بعد ۳۲۰ھ میں آل بویہ نے ایران میں ایک آزاد ریاست قائم کر لی اور ان کا اثر خلافت بغداد تک بڑھ گیا۔ آل بویہ شیعہ تھے اور وہ بغداد کی سیاست پر بڑی حد تک حاوی تھے۔ ۴۳۲ھ میں سلاجقہ کی مملکت کی بنیاد پڑی۔ یہ مملکت ۵۸۳ھ تک قائم رہی۔ سلاجقہ جو ترک نسل سے تھے ان کی یہ سلطنت خراسان اور ماوراء النہر کے ان علاقوں میں قائم ہوئی جہاں پہلے سامانی اور غزنوی برسر اقتدار تھے۔ افریقہ میں بھی مختلف گروہوں میں اقتدار کی جنگ چھڑی ہوئی تھی۔ اسپین کا حال بھی مختلف نہ تھا۔مسلمانوں کی یہ عظیم مملکت خانہ جنگیوں کا شکار تھی۔مختلف علاقوں میں خود مختار ریاستیں قائم تھیں جس کا فائدہ عیسائیوں کو پہنچ رہا تھا اور وہ اس نااتفاقی کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے تھے اور مسلمانوں کو اسپین سے مٹانے کے لیے متحد ہو رہے تھے۔ مصر میں فاطمیوں کی حکمرانی تھی۔ فاطمی اصلاً شیعہ تھے اور انہوں نے شام پر بھی قبضہ کر لیا تھا ان کا اثر و رسوخ خلافت بغداد تک پھیلا ہوا تھا۔ فاطمی حکومت کے قیام سے اہلسنت و الجماعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ ہندوستان بھی مختلف سلطنتوں میں تقسیم تھا اور ہندو راجے اپنی ذلت آمیز شکستوں کا بدلہ لینے کے لیے پر تول رہے تھے۔ یمن جیسا چھوٹا ملک بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا۔ ہرشہر ایک خود مختار ریاست کی صورت اختیار کر چکا تھا۔ غرض یہ کہ عالم اسلام متعدد سرحدوں میں تقسیم ہو چکا تھا اور اسلامی ممالک میں خانہ جنگی چھڑی ہوئی تھی۔ بے سکونی کا دور دورہ تھا۔نہ شہروں میںامن تھااور نہ دیہات پر سکون تھے۔
ایک اور فتنہ جو حضرت شیخ کے دور میں موجود تھا وہ فدائیوں کی جماعت تھی جس کا بانی ایک شیطان صفت انسان حسن بن صباح تھا۔وہ اپنے حامی کو جسے فدائی کہا جاتا تھا حشیش پلاتا اور نشے کے عالم میں اسے اپنی بنائی ہوئی جنت میں پہنچا دیتا۔ وہاں حوریں اس کی خاطر تواضع کرتیں۔فدائی کو چند روز اس جنت میں رکھنے کے بعد دوبارہ دنیا میں لے آیا جاتا۔ وہ دوبارہ جنت میں جانے کی خواہش کرتا تو اسے کہا جاتا کہ اگر وہ فلاں کارنامہ انجام دے یا فلاں کو قتل کردے تو اسے ہمیشہ کے لیے اس جنت میں بھیج دیا جائے گا۔ یہ فدائی مختلف بھیسوں میں پورے عالم اسلام میں پھیلے ہوئے تھے اور گمراہیاں پھیلا رہے تھے۔ ان کا مقصد اہلسنت کو فنا کرنا تھا۔ ان فدائین کے ذریعے حسن بن صباح نے عالم اسلام کے بہت سے نامور علما اور فقہا قتل کروا دئیے۔ان میں نظام الملک طوسی بھی تھا جس نے بغداد، نیشاپور، اور طوس میں مدارس نظامیہ قائم کر کے سنی علما کی کھیپ تیار کی جس نے دینی حلقوں میں گمراہ فرقوں کا مقابلہ کیا اور انہیں شکست دی۔ نظام الملک اہلسنت کا محسن تھا اور یہی بات حسن بن صباح کے دل میں کھٹکتی تھی۔
حضرت شیخ کے دور کا سب سے اہم تاریخی واقعہ صلیبی جنگیں ہیں جن کا آغاز ۴۸۸ھ (۱۰۹۵ء) میں ہوا۔اس وقت حضرت شیخ کی عمر ۱۸ سال تھی۔۴۸۸ھ میں عیسائیوں کے سب سے بڑے پادری نے تمام یورپ کے سب حکمرانوں کو حکم دیا کہ یروشلم کو مسلمانوں سے چھین لینے کے لیے جنگ کی تیاری کریں اور یہ فتوی جاری کیا کہ جو عیسائی اس جنگ میں شرکت کرے گا وہ اس کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کر دے گا اور جان دینے والوں کو جنت میں جگہ دینے کا وعدہ کیا۔ پوپ کا وعدہ گویا خدا کا وعدہ تھا۔اس فتوے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سارا یورپ جنگ کی تیاریاں کرنے لگا۔اس کے چار سال بعد عیسائیوں نے بیت المقدس کو فتح کر لیا اور مسلمانوں کا اتنا خون بہایا کہ ان کے گھوڑوں کے پیر خون میں ڈوب گئے اور زندہ بچنے والوں پر زندگی دوبھر کر دی۔ شام و فلسطین سے مہاجرین کا تانتا بندھ گیا اور یہ مصیبت زدہ لوگ بغداد آنے لگے۔ فتح قدس کے بعد یورپ کی یہ متحدہ قوت سرزمین حجاز و عراق پر حملے کے لیے پر تول رہی تھیں۔
اجتماعی حالات
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام سے فرمایا:
اللہ کی قسم! مجھے یہ ڈر نہیں کہ تم مفلس ہو جاؤگے میں تو اس بات سے ڈرتا ہوں کہ دنیا تم پر وسیع ہو جائے گی (یعنی مالدار ہوجاؤ گے) جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر وسیع ہوئی تھی اور ان ہی کی طرح تم لوگ اس کو حاصل کرنے میں ایک دوسرے سے مقابلے میں لگ جاؤ گے (اور یہ مال کی طلب) تمہیں اسی طرح تباہ کردے گی جس طرح تم سے پہلے لوگ تباہ ہوئے ہیں۔ (صحیح مسلم)
اس خدشے کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام کو اس بات کی تعلیم دی:
دنیا میں اس طرح زندگی گزار گویا تو اجنبی ہے یا مسافر ہے (جو راستے کی کسی چیز سے دل نہیں لگاتا تاکہ اپنی منزل تک جلد پہنچ جائے)۔ (صحیح بخاری)
صحابہ کرام نے ان باتوں کو غور سے سنا اور پوری طرح اس پر عمل کیا۔ دنیا ان پر بارش کی طرح برسی لیکن ان کے ہاتھوں اور جیبوں میں رہی ان کے دلوں تک نہ پہنچ پائی۔ان کے دل دنیا کی محبت سے خالی رہے۔ ان کے بعد تابعین میں بھی یہ معاملہ برقرار رہا کہ دنیا اور اس کا مال و متاع ان کے دل پر کوئی اثر نہ کرسکا۔لیکن جیسے جیسے دور نبوت سے دوری ہوتی گئی مسلمان اس تعلیم کو بھلاتے چلے گئے، دنیا کی محبت ان پر چھاتی چلی گئی اور وہ اس میں ڈوبتے چلے گئے۔ ساتھ ہی جب اسلامی سلطنت کی حدیں وسیع ہوئیں اور مسلمان حکمرانوں کے پاس بے تحاشا مال و دولت آنے لگی تو اس سے بھی مسلمانوں کی عملی زندگی میں بیشمار خرابیاں پیدا ہوئیں اور وہ دنیا کی محبت کا شکار ہو گئے اور آہستہ آہستہ وہ ان تمام خرابیوں میں ملوث ہو گئے جو کثرت مال کے سبب پیدا ہوتی ہیں۔ چنانچہ فضول خرچی کا سلسلہ شروع ہوا۔ سب سے پہلے مساجد کی تعمیر اور ان کی سجاوٹ پر بے دریغ مال خرچ کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔پھر فضول خرچی کا یہ سلسلہ لباس و آرائش اورکھانے پینے میں چل پڑا۔جب یہ سلسلہ آگے بڑھا تو پھر گانا بجانا اور شراب نوشی بھی عام ہو گئی۔ یہ توحکمرانوں اور مالداروں کی حالت تھی۔ اس کے برعکس عوام الناس کی اکثریت غربت اور فقر کی انتہائی پست حالت میں زندگی گزار رہی تھے۔
------------------------------------------------------------------------------
حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ اور امت مسلمہ کے حالات
شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کا اصل تعلق تو جیلان (جس کو گیلان بھی کہا جاتا ہے) سے تھا۔ لیکن آپؒ نے امت کی اصلاح کی کام بغداد جو اس دور میں مرکز اسلام تھا میں بیٹھ کر کیا۔ حضرت شیخؒ کے کام کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس وقت کے حالات کا جائزہ لیا جائے جن میں اس وقت امت مسلمہ گھری ہوئی تھی۔ اس جائزے سے ہمیں یہ معلوم ہو گا کہ وہ کیا حالات تھے جن میں حضرت شیخ نے بغداد میں اپنے اصلاحی کام کا آغاز کیا، ان کے سامنے کیا مقاصد تھے، ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے انہوں نے کیا طریقہ کار اختیار کیا اور ان کے کام کے نتیجے میں امت میں کیا تبدیلی آئی۔
ان حالات کو پڑھتے ہوئے آپ کو بار بار یہ احساس ہوگا کہ گویا یہ ہمارے اپنے دور کا ذکر ہے۔سیاسی ابتری، مذہبی انتشار اور معاشرتی خرابی جیسے مسائل جو حضرت شیخ سے پہلے اور ان کی زندگی میں مسلمانوں کو درپیش تھے آج بھی امت مسلمہ انہی تمام مسائل کا شکار ہے گویا زمانہ گھوم پھر کر اسی مقام پر آ کھڑا ہوا ہے جہاں آج سے صدیوں پہلے تھا۔
سیاسی حالات
حضرت شیخ کی ولادت سے پہلے امت مسلمہ کو سیاسی ابتری، مذہبی انتشار اور معاشرتی خرابی نے مکمل طور پر گھیر رکھا تھا اور امت ایک ایسے دور میں تھی جس کو تاریخ دان امت مسلمہ کا سیاہ دور کہتے ہیں۔
مسلمانوں کے سیاسی انتشار کا آغاز تیسری صدی ہجری میں عباسی خلیفہ مامون کے زمانے سے ہوا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خلافت بغداد کی سیاسی مرکزیت روز بروز کمزور ہوتی چلی گئی۔تعداد کے اعتبار سے مسلمان کم نہ تھے لیکن عالم اسلام مختلف ملکوں میں تقسیم تھا۔جگہ جگہ چھوٹی چھوٹی خود مختار ریاستیں وجود میں آچکی تھیں اور خلیفہ بغداد کی کوئی عملی حیثیت نہیں تھی۔اس کی عزت کی جاتی تھی لیکن سارے اختیارات مختلف علاقوں کے طاقتور حکمرانوں کے ہاتھوں میں تھے۔
مسلمانوں میں انتشار کا آغاز ۲۰۵ھ میں ہوا جب طاہر بن حسین نے خراسان میں خلافت بغداد سے الگ ایک آزاد ریاست قائم کی جو ۲۵۹ھ تک قائم رہی۔ طاہر بن حسین مامون کی فوج کا سربراہ تھا۔ اس ریاست کا دارالحکومت نیشاپور تھا۔ اس کے بعد ۳۲۰ھ میں آل بویہ نے ایران میں ایک آزاد ریاست قائم کر لی اور ان کا اثر خلافت بغداد تک بڑھ گیا۔ آل بویہ شیعہ تھے اور وہ بغداد کی سیاست پر بڑی حد تک حاوی تھے۔ ۴۳۲ھ میں سلاجقہ کی مملکت کی بنیاد پڑی۔ یہ مملکت ۵۸۳ھ تک قائم رہی۔ سلاجقہ جو ترک نسل سے تھے ان کی یہ سلطنت خراسان اور ماوراء النہر کے ان علاقوں میں قائم ہوئی جہاں پہلے سامانی اور غزنوی برسر اقتدار تھے۔ افریقہ میں بھی مختلف گروہوں میں اقتدار کی جنگ چھڑی ہوئی تھی۔ اسپین کا حال بھی مختلف نہ تھا۔مسلمانوں کی یہ عظیم مملکت خانہ جنگیوں کا شکار تھی۔مختلف علاقوں میں خود مختار ریاستیں قائم تھیں جس کا فائدہ عیسائیوں کو پہنچ رہا تھا اور وہ اس نااتفاقی کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے تھے اور مسلمانوں کو اسپین سے مٹانے کے لیے متحد ہو رہے تھے۔ مصر میں فاطمیوں کی حکمرانی تھی۔ فاطمی اصلاً شیعہ تھے اور انہوں نے شام پر بھی قبضہ کر لیا تھا ان کا اثر و رسوخ خلافت بغداد تک پھیلا ہوا تھا۔ فاطمی حکومت کے قیام سے اہلسنت و الجماعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ ہندوستان بھی مختلف سلطنتوں میں تقسیم تھا اور ہندو راجے اپنی ذلت آمیز شکستوں کا بدلہ لینے کے لیے پر تول رہے تھے۔ یمن جیسا چھوٹا ملک بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا۔ ہرشہر ایک خود مختار ریاست کی صورت اختیار کر چکا تھا۔ غرض یہ کہ عالم اسلام متعدد سرحدوں میں تقسیم ہو چکا تھا اور اسلامی ممالک میں خانہ جنگی چھڑی ہوئی تھی۔ بے سکونی کا دور دورہ تھا۔نہ شہروں میںامن تھااور نہ دیہات پر سکون تھے۔
ایک اور فتنہ جو حضرت شیخ کے دور میں موجود تھا وہ فدائیوں کی جماعت تھی جس کا بانی ایک شیطان صفت انسان حسن بن صباح تھا۔وہ اپنے حامی کو جسے فدائی کہا جاتا تھا حشیش پلاتا اور نشے کے عالم میں اسے اپنی بنائی ہوئی جنت میں پہنچا دیتا۔ وہاں حوریں اس کی خاطر تواضع کرتیں۔فدائی کو چند روز اس جنت میں رکھنے کے بعد دوبارہ دنیا میں لے آیا جاتا۔ وہ دوبارہ جنت میں جانے کی خواہش کرتا تو اسے کہا جاتا کہ اگر وہ فلاں کارنامہ انجام دے یا فلاں کو قتل کردے تو اسے ہمیشہ کے لیے اس جنت میں بھیج دیا جائے گا۔ یہ فدائی مختلف بھیسوں میں پورے عالم اسلام میں پھیلے ہوئے تھے اور گمراہیاں پھیلا رہے تھے۔ ان کا مقصد اہلسنت کو فنا کرنا تھا۔ ان فدائین کے ذریعے حسن بن صباح نے عالم اسلام کے بہت سے نامور علما اور فقہا قتل کروا دئیے۔ان میں نظام الملک طوسی بھی تھا جس نے بغداد، نیشاپور، اور طوس میں مدارس نظامیہ قائم کر کے سنی علما کی کھیپ تیار کی جس نے دینی حلقوں میں گمراہ فرقوں کا مقابلہ کیا اور انہیں شکست دی۔ نظام الملک اہلسنت کا محسن تھا اور یہی بات حسن بن صباح کے دل میں کھٹکتی تھی۔
حضرت شیخ کے دور کا سب سے اہم تاریخی واقعہ صلیبی جنگیں ہیں جن کا آغاز ۴۸۸ھ (۱۰۹۵ء) میں ہوا۔اس وقت حضرت شیخ کی عمر ۱۸ سال تھی۔۴۸۸ھ میں عیسائیوں کے سب سے بڑے پادری نے تمام یورپ کے سب حکمرانوں کو حکم دیا کہ یروشلم کو مسلمانوں سے چھین لینے کے لیے جنگ کی تیاری کریں اور یہ فتوی جاری کیا کہ جو عیسائی اس جنگ میں شرکت کرے گا وہ اس کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کر دے گا اور جان دینے والوں کو جنت میں جگہ دینے کا وعدہ کیا۔ پوپ کا وعدہ گویا خدا کا وعدہ تھا۔اس فتوے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سارا یورپ جنگ کی تیاریاں کرنے لگا۔اس کے چار سال بعد عیسائیوں نے بیت المقدس کو فتح کر لیا اور مسلمانوں کا اتنا خون بہایا کہ ان کے گھوڑوں کے پیر خون میں ڈوب گئے اور زندہ بچنے والوں پر زندگی دوبھر کر دی۔ شام و فلسطین سے مہاجرین کا تانتا بندھ گیا اور یہ مصیبت زدہ لوگ بغداد آنے لگے۔ فتح قدس کے بعد یورپ کی یہ متحدہ قوت سرزمین حجاز و عراق پر حملے کے لیے پر تول رہی تھیں۔
اجتماعی حالات
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام سے فرمایا:
اللہ کی قسم! مجھے یہ ڈر نہیں کہ تم مفلس ہو جاؤگے میں تو اس بات سے ڈرتا ہوں کہ دنیا تم پر وسیع ہو جائے گی (یعنی مالدار ہوجاؤ گے) جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر وسیع ہوئی تھی اور ان ہی کی طرح تم لوگ اس کو حاصل کرنے میں ایک دوسرے سے مقابلے میں لگ جاؤ گے (اور یہ مال کی طلب) تمہیں اسی طرح تباہ کردے گی جس طرح تم سے پہلے لوگ تباہ ہوئے ہیں۔ (صحیح مسلم)
اس خدشے کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام کو اس بات کی تعلیم دی:
دنیا میں اس طرح زندگی گزار گویا تو اجنبی ہے یا مسافر ہے (جو راستے کی کسی چیز سے دل نہیں لگاتا تاکہ اپنی منزل تک جلد پہنچ جائے)۔ (صحیح بخاری)
صحابہ کرام نے ان باتوں کو غور سے سنا اور پوری طرح اس پر عمل کیا۔ دنیا ان پر بارش کی طرح برسی لیکن ان کے ہاتھوں اور جیبوں میں رہی ان کے دلوں تک نہ پہنچ پائی۔ان کے دل دنیا کی محبت سے خالی رہے۔ ان کے بعد تابعین میں بھی یہ معاملہ برقرار رہا کہ دنیا اور اس کا مال و متاع ان کے دل پر کوئی اثر نہ کرسکا۔لیکن جیسے جیسے دور نبوت سے دوری ہوتی گئی مسلمان اس تعلیم کو بھلاتے چلے گئے، دنیا کی محبت ان پر چھاتی چلی گئی اور وہ اس میں ڈوبتے چلے گئے۔ ساتھ ہی جب اسلامی سلطنت کی حدیں وسیع ہوئیں اور مسلمان حکمرانوں کے پاس بے تحاشا مال و دولت آنے لگی تو اس سے بھی مسلمانوں کی عملی زندگی میں بیشمار خرابیاں پیدا ہوئیں اور وہ دنیا کی محبت کا شکار ہو گئے اور آہستہ آہستہ وہ ان تمام خرابیوں میں ملوث ہو گئے جو کثرت مال کے سبب پیدا ہوتی ہیں۔ چنانچہ فضول خرچی کا سلسلہ شروع ہوا۔ سب سے پہلے مساجد کی تعمیر اور ان کی سجاوٹ پر بے دریغ مال خرچ کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔پھر فضول خرچی کا یہ سلسلہ لباس و آرائش اورکھانے پینے میں چل پڑا۔جب یہ سلسلہ آگے بڑھا تو پھر گانا بجانا اور شراب نوشی بھی عام ہو گئی۔ یہ توحکمرانوں اور مالداروں کی حالت تھی۔ اس کے برعکس عوام الناس کی اکثریت غربت اور فقر کی انتہائی پست حالت میں زندگی گزار رہی تھے۔
(جاری ہے)
Last edited by a moderator: