اللہ ایسے جاہلوں سے اپنی پناہ میں رکھے۔ میں یہاں موجود تمام لوگوں سے گزارش کروں گا کہ اس فتنہ کو اچھی طرح پہچان لیں۔ شیخ مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ کے جس قول کو پیش کر کے ان پر جہمی اور مرجئیہ ہونے کا الزام عائد کیا جا رہا ہے کیا اس میں یہ صراحت موجود ہے کہ عملی کفر بواح کا مرتکب کافر نہیں۔۔۔؟ اس قول میں تو صرف یہ ہے کہ کافر تب ہو گا جب کوئی مرتد ہو جائے تو کیا یہ جہمیہ یا مرجئیہ کا قول ہے۔۔۔۔؟ اسی طرح یہ ہے کہ کافر تب ہو گا جب کفر کو پسند کر کے اسلام کو چھوڑ کر نکلے تو کیا یہ قول جہمیہ و مرجئیہ کا ہے۔۔۔؟ جس بات کا الزام ہے کہ مرجئیہ کا نزدیک عملی کفر بواح کا مرتکب کافر نہیں اس کا تو کوئی ثبوت اس قول میں موجود نہیں۔ صرف ایک عمومی قول کو نقل کر کے اتنا بڑا فتویٰ ایک عالم پر عائد کر دینا ان لوگوں کا ہی کام ہے جو خود بھی گمراہ ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کر رہے ہیں۔ اللہ ان سے اپنی پناہ میں رکھے۔
پھر حیران کن بات یہ ہے کہ پوچھا گیا تھا کہ شیخ مبشر احمد ربانی کا وہ قول یا فتویٰ پیش کریں جو ان کے جہمی ہونے کو ثابت کرے جیسا کہ ان لوگوں کی جانب سے الزام عائد کیا گیا ہے اور اس کے جواب میں ارجاء کے الزام سے متعلق قول پیش کر دیا گیا ہے۔ جن لوگوں کو ارجاء اور جہمیت کا فرق معلوم نہیں وہ فتویٰ بازی کس شوق میں کر رہے ہیں؟ میں نے پہلے ہی اسی لئے ارجاء کی بجائے جہمیت کا ثبوت مانگا تھا کہ ارجاء کا الزام لگانا تو آسان ہے کہ کسی بھی قول کو تروڑ مروڑ کر ارجاء بنا دو۔ مگر جہمی ہونے کا الزام لگانا بھی آسان نہیں جسے یہ لوگ دن رات تھوک کے حساب سے دوسروں پر اپنی جہالت کے باعث ٹھوکتے جا رہے ہیں۔ پھر ان لوگوں سے عرض ہے کہ اگر تم لوگ خارجی نہیں تو ایک عالم پر جہمی ہونے کے الزام کا صریح ثبوت پیش کرو ورنہ اللہ سے ڈر جائو اور معاملے میں فتویٰ بازی سے پرہیز کرو جس کو تم لوگ جانتے ہی نہیں۔۔۔۔؟
مجھے حیرت ہے کہ اس جملہ کو طالب نور سمجھ ہی نہیں پائے ہم یہاں پر اس کی تفصیل نقل کیے دیتے ہیں تاکہ بات آسانی سے سمجھ میں آجائے :
موضوع کی تفصیل کے لیے دیکھیے شیخ علوی بن عبد القادر السقاف کی کتاب ’’التوسط والاقتصاد فی أن الکفر یکون بالقول أو الفعل أو الاعتقاد ‘‘ اور شیخ عبدالعزیز عبداللطیف کی کتاب ’’نواقض الایمان القولیہ والعملیہ‘‘
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بعض لوگوں ان کے کفریہ قول کی بنا پر کافر قرار دیا ہے حالانکہ انہوں نے اپنے فعل کوکفر نہیں سمجھا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿
وَلَئِنْ سَاَلْتَہُمْ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّمَا کُنَّا نَخُوْضُ وَنَلْعَبُ قُلْ اَبِاللہِ وَاٰیٰتِہٖ وَرَسُوْلِہٖ کُنْتُمْ تَسْتَہْزِءُ وْنَ ، لاَ تَعْتَذِرُوْا قَدْ کَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ ﴾
’’اوراگر آپ پوچھیں توضرور کہیں گے ہم توصرف ہنسی مذاق اوردل لگی کررہے تھے۔ کہہ دیجیے !کیاتم اللہ اوراس کی آیات اوراس کے رسول کے ساتھ استہزاء کررہے تھے۔ بہانے مت بناؤ بے شک تم اپنے ایمان کے بعد کافر ہوچکے ہو۔ ‘‘التوبہ: 65-66
شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ اس آیت کے تحت رقمطراز ہیں :
فدل علی أنھم لم یکونوا عند أنفسھم قد أتوا کفراء بل ظنوا أن ذلک لیس بکفر، فبین أن الاستھزاء باللہ وآیاتہ ورسولہ کفر یکفر بہ صاحبہ بعد ایمانہ، فدل علی انہ کان عندھم ایمان ضعیف، ففعلوا ھذا المحرم الذي عرفوا أنہ محرم، ولکن لم یظنوہ کفرا، وکان کفرا کفروا بہ، فانھم لم یعتفدوا جوازہ۔ (مجموع الفتاویٰ : 172-173/7 و کتاب الایمان : ص207)
’’اس میں دلیل ہے کہ انہوں نے اس فعل کو کفر سمجھ کر نہیں کیا تھا۔ بلکہ ان کا گمان تھا کہ یہ کفر نہیں ہے، پس واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ اس کی آیات اور اِس کے رسول کیساتھ استہزاء کرنا کفر ہے جس سے بندہ اپنے ایمان کے بعد کافر ہو جاتا ہے، اس میں یہ دلیل ہے کہ ان کے پاس ضعیف ایمان تھا، پس انہوں نے یہ حرام کیا جس کے بارے میں وہ جانتے تھے کہ وہ حرام ہے لیکن انہوں نے اس کو کفر نہیں سمجھا تھا، حالانکہ وہ کفر تھا جس کے ساتھ وہ کافر ہو گئے، پس بے شک انہوں نے اس کے جوازکا عقیدہ بھی نہیں رکھا تھا۔‘‘
شیخ الاسلام اِسی آیت کے تحت لکھتے ہیں:
فبین أنھم کفار بالقول مع أنھم لم یعتقدوا صحتہ۔
’’پس یقیناً وہ اِس قول ہی کی بنا پر کافر ہو گئے باوجود اِس کے کہ انہوں نے اِس کے جائز ہونے کا عقیدہ نہیں رکھا تھا ۔‘‘ ( الصارم المسلول : ص 361، طبع دار ابن حزم)
امام ابنِ جریر طبری اپنی کتاب تہذیب الآثار میں خوارج کے متعلق احادیث ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
فیہ الرد علی قول من قال : لا یخرج أحد من الاسلام من أھل القبلۃ بعد استحقاقہ حکمہ الا بقصد الخروج منہ عالماً․․․․․․․(فتح الباری : 300/12)
’’اس میں اس شخص پر رد ہے جو کہتا ہے کہ اہلِ قبلہ میں کوئی بھی دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوگا مگر یہ کہ وہ جان بوجھ کر اپنے قصد اور ارادے کے ساتھ اسلام سے خارج ہو۔‘‘
حافظ ابنِ حجر فتح الباری 301-302/12میں ابنِ ھبیرۃ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا:
وفیہ أن من المسلمین من یخرج من الدین من غیر أن قصد الخروج منہ ومن غیرأن یختار دینا علی دین الاسلام۔
’’ بعض مسلمان دین سے خارج ہونے کا مقصد کیے بغیر اور دینِ اسلام پر کسی اور دین کو اختیار کیے بغیر بھی ( محض اپنے کفریہ عقائد و اعمال کی بنا پر ہی) دین سے خارج ہو جاتے ہیں۔‘‘
شیخ الاسلام ابن تیمیہ اپنی شہرہ آفاق اور لاجواب تصنیف ’’الصارم المسلول علی شاتم الرسول‘‘ میں مرتد کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
کل من أتی بعد الاسلام من القول أوالعمل بما یناقض الاسلام بحیث لا یجتمع معہ
’’ہر وہ شخص جو اسلام قبول کرنے کے بعد ایسے قول یا عمل کا ارتکاب کرے جو اسلام کوتوڑ دیتا ہو اس طرح کہ وہ (قول یا عمل) اسلام کے ساتھ جمع نہ ہو سکتا ہے۔‘‘(الصارم المسلول ص 315 ,طبع دارابن حزم)
امام صاحب اسی کتاب میں دوسری جگہ پر لکھتے ہیں:
’’وبالجملۃ فمن قال أوفعل ماہو کفرٌ کفر بذلک وان لم یقصد أن یکون کافراً، اذ لایکاد یقصد الکفر احدٌ الا ماشاء اللہ‘‘۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ جس نے کفر یہ قول کہا یا کفر یہ فعل کیا تو اس سے وہ کافر ہو جائے گا خواہ اس نے کافر ہونے کا ارادہ نہ ہی کیا ہو کیونکہ اپنے قصد و ارادے سے کوئی بھی کفر نہیں کرتا مگر یہ کہ اللہ چاہے‘‘۔ (الصارم المسلول ص 178 - 177، طبع قدیم)
امام صاحب کی مذکوہ بالا دونوں تعریفیں مرجئہ العصر کا منہ بند کرنے کے لیے کافی ہیں اور حفظ کرنے کے قابل ہیں۔
امام شوکانی فرماتے ہیں:
لکن لا یخفی علیک ما تقرر في أسباب الردّۃ أنہ لا یعتبر في ثبوتھا العلم بمعنی ماقالہ ما جاء بلفظ کفري أو فعل فعلاً کفریاً۔ ( الدر النضید : ص 39)
’’ لیکن تجھ پر یہ بات مخفی نہیں ہے کہ ارتداد کے اسباب میں جو بات مقرّر و ثابت ہے کہ اس (ارتداد) کے ثبوت میں اس بات کا اعتبار نہیں کیا جاتا کہ بندہ اپنے کفریہ لفظ یا کفریہ فعل کے معنی کا علم رکھتا ہو۔‘‘
قارئین کرام! لطف کی بات تو یہ ہے کہ مفتی مبشر ربانی صاحب نے خود بھی اپنی کتاب ’’آپ کے مسائل اور ان کا حل‘‘میں مرتد کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے۔
’’گویا مرتد ایسا شخص ہے جو اسلام لانے کے بعد واپس کفر کی طرف پلٹ گیا۔ یہ ارتداد اس کے اندر خواہ عقیدے کی بنا پر پیدا ہو یا کسی قول، فعل اور شک و شبہ کی بنا پر۔ خواہ سنجیدگی سے ہو یا مذاق و ٹھٹھہ سے کیونکہ ارتداد جیسے سنجیدگی سے ہوتا ہے، استھزاء و ھزل، ٹھٹھہ و مذاق سے بھی واقع ہوتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’کہہ دیجیے! کیا اللہ تعالیٰ، اس کی آیات اور اس کے رسولﷺ ہی تمہاری ہنسی مذاق کے لیے رہ گئے ہیں؟ تم بہانے نہ بناؤ یقینا اپنے ایمان کے بعد کفر کر چکے ہو‘‘۔(التوبہ:66،آپ کے مسائل اور ان کا حل 449/3)
ہم کہتے ہیں مفتی صاحب نے مرتد کی تعریف بالکل درست اور اہل سنت کے مطابق کی ہے لیکن تقریر میں چونکہ طاغوتی اور قبوری حکمرانوں کا دفاع کرنا اور مخلص کارکنان کو شکوک و شبہات میں مبتلا کرنا تھا اس لیے وہاں اہل سنت کی بجائے جہمیہ اور مرجئہ کی موافقت کی ہے․․․․․․․!!
قارئین!مفتی صاحب کے اس ارجائی مذہب کے مطابق اگر کوئی مسلمان دنیا کے لالچ میں اسلام کے خلاف لڑی جانے والی صلیبی جنگ میں صلیبی افواج کا سپہ سالار اور قائد ہی کیوں نہ بن جائے وہ جب تک کفر سے محبت و رضامندی اور اپنے مرتد ہونے کا اعلان نہیں کر دیتا یا دوسرے لفظوں میں ’’بقلم خود‘‘ اسلام سے مستعفی ہونے کی غلطی نہیں کرتا وہ مسلمان ہی رہے گا ․․․․․․․!حالانکہ کفر سے محبت رکھنا بذات خود علیحدہ سے کفر اکبر ہے، خواہ بندہ اپنے گھر میں ہی کیوں نہ بیٹھا ہو، حتیٰ کہ کفار کے خلاف مسلمانوں کی مدد ہی کیوں نہ کر رہا ہو!! ایسا آدمی کسی عملی اقدام کے بغیر محض کفار سے محبت رکھنے کی وجہ سے کافر و مرتد ہو جاتا ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کے خلاف کفار کی مدد و نصرت کرنے میں ’’مناطِ کفر‘‘ یعنی کفر کی علت یہ عمل ہے نہ کے کفر سے محبت، ہاں البتہ اگر کوئی مسلمانوں کے خلاف کفار کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ کفر پر راضی بھی ہے تو یہ اس کا علیحدہ سے اضافی کفر ہو گا یعنی کفر سے محبت رکھنا ناقضِ اعتقادی ہے اور مسلمانوں کے خلاف کافروں کی مدد کرنا ناقضِ عملی ہے۔
میرے خیال میں اب سمجھ میں آجائے گا کہ ہم نے مفتی صاحب کو جہمیہ اور مرجئہ کیوں کہا