• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خارجیت

سلفی منہج

مبتدی
شمولیت
جولائی 24، 2011
پیغامات
39
ری ایکشن اسکور
117
پوائنٹ
0
سلفی صاحب آپ سے گزارش ہے کہ مفتی مبشر احمد ربانی صاحب پر آپ نے جو مرجئہ اور جہمیہ ہونے کا الزام لگایا ہے اس کی با دلیل صراحت پیش کریں۔ کسی کو بھی مرجئہ کہنا تو بڑا آسان امر ہے، آپ جیسوں نے تو علامہ البانی تک کو مرجئہ کہہ رکھا ہے۔ فی الحال اس الزام کی ایک شق جہمیہ پر بات کر لیتے ہیں۔
سیدھا سا سوال ہے کہ آپ مولانا مبشر احمد ربانی کا جہمیہ ہونا ثابت کریں۔۔۔؟ ان کی کوئی ایک عبارت یا کوئی ایک فتویٰ پیش کریں جو ان کے جہمیہ ہونے پر با صراحت دلالت کرتا ہو اور اگر آپ یہ پیش نہ کر سکے تو تسلیم کر لیں کہ آپ خود خارجی ہیں۔ کتابوں کے لنک پیش نہ کیجئے گا اس میں اگر کوئی دلیل آپ کے موافق ہو تو اسے بیان کریں ورنہ اپنی جہالت با سہولت تسلیم کریں۔ والسلام
محترم میں نے جس کتاب کا لنک دیا ھے اس کو پڑھ لیجیے ساری صورتحال آپ کے سامنے بالکل صحیح طور پر واضح ہوجائے گی ۔ اس کتاب کا جواب فی الحال مفتی صاحب کے پاس ہے ہی نہیں ۔ مجھے اس بات پر حیرت ہے کہ ایک سلفی ارجائی خیالات کے حامل شخص کو کیوں کر نہیں پہچان سکتا ۔ یا تو پھر اس سلفی کو عقیدہ کا پتہ ہی نہیں کہ سلفیت ہوتی کیا چیز ہے ۔ اور سلف اس ایمان کے بارے میں کیا عقیدہ رکھتے تھے ؟ کیونکہ جو ان طاغوتی حکمرانوں کو جنہوں نے اپنے اپنے ملکوں میں اللہ کی شریعت کو معطل کررکھا ھے اور اللہ کے بندوں پر برطانوی امریکی اور فرانسیسی قوانین نافذ کررکھے ہیں ۔ مسلمان سمجھتا ہو وہ جہمیہ اور مرجئہ عقائد کا حامل شخص نہیں تو اور کیا ھے ۔
 

سلفی منہج

مبتدی
شمولیت
جولائی 24، 2011
پیغامات
39
ری ایکشن اسکور
117
پوائنٹ
0
بھائی پہلے مجھے شبہ تھا لیکن اب یقین آگیا ہے کہ آپ بھی انہیں میں سے ہیں۔پہلے آپ زبیر علی صاحب میں اور اب موجودہ دور کے اتنے بڑے علماء میں بھی نقص نکال رہے ہیں۔اب جن گلی محلے کے ملاؤں(محمد خبیب صدیقی ،حافظ عمار فاروقی) کی کتاب دی ہے ان کو شائد ہی کوئی جانتا ہو مجھے یقین ہے کہ آج امام مہدی اور سیدنا عیسیٰ بھی آجائیں تو آپ ان کو بھی پتا نہیں کیا کیا کہیں گے؟؟
آپ کو تو آپ کے اوائل میں ابن عباس رضی اللہ عنہما جیسے فقیہ کی دلیلیں متاثر نہیں کر سکیں تو آج کے علماء کی کیا حیثیت؟؟؟
میں صرف آپ کی ہدایت کے لئے دعا ہی کر سکتا ہوں۔
جزاکم اللہ
مسئلہ سے فرار حاصل کرنا مسئلہ کا حل ہے ہی نہیں ۔ اگر آپ مسئلہ کو سمجھنا چاہتے ہیں تو اسی فورم کے اس لنک کو بھی ملاحظہ کرلیجیے :http://www.kitabosunnat.com/forum/متفرق-عقائد-17/عقیدہ-اہل-السنۃ-والجماعۃ-2041/
 
B

Barakah

مہمان
muneebanjum صاحب مجھے معذرت سے کہنا پڑھ رہا ہے کہ آپ تعصب کے بہت حد تک شکار ہے ۔۔ آپ مصنفین کے ناموں کو دیکھنے کے بجائے سلفی منہج صاحب کیطرف سے دی گئی کتاب کے اندر دلائل کو دیکھیں ۔۔ مجھے امید ہے کہ اگر آپ واقعی حق کے متلاشی ہیں تو آپ سدھر جائیں گے ۔۔ لیکن آپ بحث برائے بحث کرنا چاہتے ہیں اور سمجھنا ہی نہیں چاہتے تو پھر اللہ ہی آپکو ہدایت دے ۔۔ اور جو یہ آپ معصوم لوگوں کے قتل عام کو طالبان اور مجاہدین کے ساتھ جوڑ رہے ہیں تو براہ مہربانی نیچے دی گئی ویڈیو ملاحظہ فرمائیں ۔۔

Mujahideen Dont kill Innocent People.flv - 4shared.com - online file sharing and storage - download
خون مسلم کی عظمت
اعظم طارق حفظہ اللہ معصوم مسلمانوں پر حملوں کی تردید اور مذمت کرتے ہوئے
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
میں نے لکھا تھا:
سیدھا سا سوال ہے کہ آپ مولانا مبشر احمد ربانی کا جہمیہ ہونا ثابت کریں۔۔۔؟ ان کی کوئی ایک عبارت یا کوئی ایک فتویٰ پیش کریں جو ان کے جہمیہ ہونے پر با صراحت دلالت کرتا ہو اور اگر آپ یہ پیش نہ کر سکے تو تسلیم کر لیں کہ آپ خود خارجی ہیں۔ کتابوں کے لنک پیش نہ کیجئے گا اس میں اگر کوئی دلیل آپ کے موافق ہو تو اسے بیان کریں ورنہ اپنی جہالت با سہولت تسلیم کریں۔ والسلام
سلفی منہج صاحب سیدھے سے سوال کا جواب دینے کی بجائے اوٹ پٹانگ الزامات کو دہرائے چلے جانا کیا ثابت کر رہا ہے؟ مجھے لمبی لمبی کہانیاں نہ سنائیں۔ سیدھی سی بات کا جواب پیش کریں۔ آپ نے مولانا مبشر احمد ربانی پر جہمی ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔ اس کا ثبوت ان کی تحریر یا فتویٰ سے ثابت کریں۔ اگر اب بھی آپ یہ بات ان سے ثابت نہ کر سکے تو میری انتظامیہ سے گزارش ہو گی کہ آپ جیسے لوگوں کو بین کر دیا جائے جو صرف فتنہ پھیلا رہے ہیں۔ اپنی جہالت کو اپنا سرمایہ سمجھنے والے ثبوت پیش کرنے کے نام پر بھی الزامات ہی پیش کر رہے ہیں اور اسی کا نام انہوں نے سلفیت رکھا ہوا ہے۔ اللہ ان لوگوں کو ہدایت دے، آمین۔
 

سلفی منہج

مبتدی
شمولیت
جولائی 24، 2011
پیغامات
39
ری ایکشن اسکور
117
پوائنٹ
0
میں نے لکھا تھا:

سلفی منہج صاحب سیدھے سے سوال کا جواب دینے کی بجائے اوٹ پٹانگ الزامات کو دہرائے چلے جانا کیا ثابت کر رہا ہے؟ مجھے لمبی لمبی کہانیاں نہ سنائیں۔ سیدھی سی بات کا جواب پیش کریں۔ آپ نے مولانا مبشر احمد ربانی پر جہمی ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔ اس کا ثبوت ان کی تحریر یا فتویٰ سے ثابت کریں۔ اگر اب بھی آپ یہ بات ان سے ثابت نہ کر سکے تو میری انتظامیہ سے گزارش ہو گی کہ آپ جیسے لوگوں کو بین کر دیا جائے جو صرف فتنہ پھیلا رہے ہیں۔ اپنی جہالت کو اپنا سرمایہ سمجھنے والے ثبوت پیش کرنے کے نام پر بھی الزامات ہی پیش کر رہے ہیں اور اسی کا نام انہوں نے سلفیت رکھا ہوا ہے۔ اللہ ان لوگوں کو ہدایت دے، آمین۔
مفتی صاحب فرماتے ہیں:
’’کافر تب ہوگا جب وہ مرتد ہو کر یا کفر کو پسند کر کے اسلام کو چھوڑ کر نکلے تو کافر ہوگا۔‘‘
جماعۃ الدعوۃ کے مفتی مبشر احمد ربانی کی تقریر ”فتنہ تکفیر“ملاحظہ کریں
یہ قول جہمیہ اور مرجئہ کے خبیث ترین اقوال میں سے ہے جن کے نزدیک کوئی عمل بذاتِ خود کفر نہیں ہے ۔یہ کفر کو اعتقاد اور کفر سے رضا مندی کہ ساتھ مشروط کرتے ہیں جبکہ اہل سنت کے نزدیک جس طرح کفر عقیدے کی بنا پر ہوتا ہے اسی طرح قول اور عمل سے بھی ہوتا ہے۔ یعنی جس طرح ایمان اعتقاد، قول اور عمل کے مجموعے کا نام ہے اسی طرح کفر اعتقاد سے بھی ہوتا ہے اور قول اور عمل سے بھی ہوتا ہے۔ خواہ اْس نے وہ کفریہ فعل کافر ہونے کیاارادے سے نہ ہی کیا ہو۔
لیجئے طالب نور صاحب ہم نے جماعۃ الدعوۃ کے مفتی جناب مبشر احمد ربانی کا قول پیش کرکے ان کی جہمیت اور ارجائیت سے پردہ اٹھادیا ہے۔اب آپ ان کی تقریر ”فتنہ تکفیر“ کو ملاحظہ کرلیں حقیقت حال سے باخبر ہوجائیں گے ان شاء اللہ ۔ جہمیت اور ارجائیت سے بڑا فتنہ اہل اسلام نے کوئی نہیں دیکھا۔ اس فتنے نے اسلام کی جڑیں کھوکھلی کرڈالیں ۔ چنانچہ یہی وجہ ہے امام سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے مرجئہ کے بارے میں ارشاد فرمایا : مرجئہ اس امت کے یہود ہیں ۔
اور فورم سے بینڈ کرنا یہ کوئی اہم مسئلہ نہیں ہیں ۔ مجاہدین تو عصر حاضر کے فرعون طاغوت اکبر امریکہ کے خلاف اکیلے اللہ کی مدد کے سہارے لڑرہے ہیں جبکہ مسلمان ملکوں کے مرتد حکام اس جنگ میں اپنے فرعون عصر اور طاغوت اکبر کے ہمراہ صلیبیت کی اس جنگ میں امریکہ کے ہمراہ مجاہدین کے خلاف نبردآزما ہیں ۔ اس لیے اس قسم کی دہمکیاں اہل حق کو حق بیان کرنے سے ہرگز نہیں روک سکتیں ۔ اللہ مجاہدین کا مولا اور کارساز ہے ۔ وہی ان کا بہترین مددگار ہیں ۔ اورمجاہدین اللہ ہی پر توکل کرتے ہیں ۔ بات یہ ہے جب دلائل نہیں ہوتے تو اسی طرح کی دہمکیاں دی جاتی ہیں ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور نمرود کے مابین جو مکالمہ قرآن مجید نے بیان کیا ہے ۔ وہ اس باب میں حجت ہے ۔والسلام
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
مفتی صاحب فرماتے ہیں:
’’کافر تب ہوگا جب وہ مرتد ہو کر یا کفر کو پسند کر کے اسلام کو چھوڑ کر نکلے تو کافر ہوگا۔‘‘
جماعۃ الدعوۃ کے مفتی مبشر احمد ربانی کی تقریر ”فتنہ تکفیر“ملاحظہ کریں
یہ قول جہمیہ اور مرجئہ کے خبیث ترین اقوال میں سے ہے
اللہ ایسے جاہلوں سے اپنی پناہ میں رکھے۔ میں یہاں موجود تمام لوگوں سے گزارش کروں گا کہ اس فتنہ کو اچھی طرح پہچان لیں۔ شیخ مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ کے جس قول کو پیش کر کے ان پر جہمی اور مرجئیہ ہونے کا الزام عائد کیا جا رہا ہے کیا اس میں یہ صراحت موجود ہے کہ عملی کفر بواح کا مرتکب کافر نہیں۔۔۔؟ اس قول میں تو صرف یہ ہے کہ کافر تب ہو گا جب کوئی مرتد ہو جائے تو کیا یہ جہمیہ یا مرجئیہ کا قول ہے۔۔۔۔؟ اسی طرح یہ ہے کہ کافر تب ہو گا جب کفر کو پسند کر کے اسلام کو چھوڑ کر نکلے تو کیا یہ قول جہمیہ و مرجئیہ کا ہے۔۔۔؟ جس بات کا الزام ہے کہ مرجئیہ کا نزدیک عملی کفر بواح کا مرتکب کافر نہیں اس کا تو کوئی ثبوت اس قول میں موجود نہیں۔ صرف ایک عمومی قول کو نقل کر کے اتنا بڑا فتویٰ ایک عالم پر عائد کر دینا ان لوگوں کا ہی کام ہے جو خود بھی گمراہ ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کر رہے ہیں۔ اللہ ان سے اپنی پناہ میں رکھے۔
پھر حیران کن بات یہ ہے کہ پوچھا گیا تھا کہ شیخ مبشر احمد ربانی کا وہ قول یا فتویٰ پیش کریں جو ان کے جہمی ہونے کو ثابت کرے جیسا کہ ان لوگوں کی جانب سے الزام عائد کیا گیا ہے اور اس کے جواب میں ارجاء کے الزام سے متعلق قول پیش کر دیا گیا ہے۔ جن لوگوں کو ارجاء اور جہمیت کا فرق معلوم نہیں وہ فتویٰ بازی کس شوق میں کر رہے ہیں؟ میں نے پہلے ہی اسی لئے ارجاء کی بجائے جہمیت کا ثبوت مانگا تھا کہ ارجاء کا الزام لگانا تو آسان ہے کہ کسی بھی قول کو تروڑ مروڑ کر ارجاء بنا دو۔ مگر جہمی ہونے کا الزام لگانا بھی آسان نہیں جسے یہ لوگ دن رات تھوک کے حساب سے دوسروں پر اپنی جہالت کے باعث ٹھوکتے جا رہے ہیں۔ پھر ان لوگوں سے عرض ہے کہ اگر تم لوگ خارجی نہیں تو ایک عالم پر جہمی ہونے کے الزام کا صریح ثبوت پیش کرو ورنہ اللہ سے ڈر جائو اور معاملے میں فتویٰ بازی سے پرہیز کرو جس کو تم لوگ جانتے ہی نہیں۔۔۔۔؟
 

سلفی منہج

مبتدی
شمولیت
جولائی 24، 2011
پیغامات
39
ری ایکشن اسکور
117
پوائنٹ
0
اللہ ایسے جاہلوں سے اپنی پناہ میں رکھے۔ میں یہاں موجود تمام لوگوں سے گزارش کروں گا کہ اس فتنہ کو اچھی طرح پہچان لیں۔ شیخ مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ کے جس قول کو پیش کر کے ان پر جہمی اور مرجئیہ ہونے کا الزام عائد کیا جا رہا ہے کیا اس میں یہ صراحت موجود ہے کہ عملی کفر بواح کا مرتکب کافر نہیں۔۔۔؟ اس قول میں تو صرف یہ ہے کہ کافر تب ہو گا جب کوئی مرتد ہو جائے تو کیا یہ جہمیہ یا مرجئیہ کا قول ہے۔۔۔۔؟ اسی طرح یہ ہے کہ کافر تب ہو گا جب کفر کو پسند کر کے اسلام کو چھوڑ کر نکلے تو کیا یہ قول جہمیہ و مرجئیہ کا ہے۔۔۔؟ جس بات کا الزام ہے کہ مرجئیہ کا نزدیک عملی کفر بواح کا مرتکب کافر نہیں اس کا تو کوئی ثبوت اس قول میں موجود نہیں۔ صرف ایک عمومی قول کو نقل کر کے اتنا بڑا فتویٰ ایک عالم پر عائد کر دینا ان لوگوں کا ہی کام ہے جو خود بھی گمراہ ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کر رہے ہیں۔ اللہ ان سے اپنی پناہ میں رکھے۔
پھر حیران کن بات یہ ہے کہ پوچھا گیا تھا کہ شیخ مبشر احمد ربانی کا وہ قول یا فتویٰ پیش کریں جو ان کے جہمی ہونے کو ثابت کرے جیسا کہ ان لوگوں کی جانب سے الزام عائد کیا گیا ہے اور اس کے جواب میں ارجاء کے الزام سے متعلق قول پیش کر دیا گیا ہے۔ جن لوگوں کو ارجاء اور جہمیت کا فرق معلوم نہیں وہ فتویٰ بازی کس شوق میں کر رہے ہیں؟ میں نے پہلے ہی اسی لئے ارجاء کی بجائے جہمیت کا ثبوت مانگا تھا کہ ارجاء کا الزام لگانا تو آسان ہے کہ کسی بھی قول کو تروڑ مروڑ کر ارجاء بنا دو۔ مگر جہمی ہونے کا الزام لگانا بھی آسان نہیں جسے یہ لوگ دن رات تھوک کے حساب سے دوسروں پر اپنی جہالت کے باعث ٹھوکتے جا رہے ہیں۔ پھر ان لوگوں سے عرض ہے کہ اگر تم لوگ خارجی نہیں تو ایک عالم پر جہمی ہونے کے الزام کا صریح ثبوت پیش کرو ورنہ اللہ سے ڈر جائو اور معاملے میں فتویٰ بازی سے پرہیز کرو جس کو تم لوگ جانتے ہی نہیں۔۔۔۔؟
مجھے حیرت ہے کہ اس جملہ کو طالب نور سمجھ ہی نہیں پائے ہم یہاں پر اس کی تفصیل نقل کیے دیتے ہیں تاکہ بات آسانی سے سمجھ میں آجائے :
موضوع کی تفصیل کے لیے دیکھیے شیخ علوی بن عبد القادر السقاف کی کتاب ’’التوسط والاقتصاد فی أن الکفر یکون بالقول أو الفعل أو الاعتقاد ‘‘ اور شیخ عبدالعزیز عبداللطیف کی کتاب ’’نواقض الایمان القولیہ والعملیہ‘‘
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بعض لوگوں ان کے کفریہ قول کی بنا پر کافر قرار دیا ہے حالانکہ انہوں نے اپنے فعل کوکفر نہیں سمجھا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَلَئِنْ سَاَلْتَہُمْ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّمَا کُنَّا نَخُوْضُ وَنَلْعَبُ قُلْ اَبِاللہِ وَاٰیٰتِہٖ وَرَسُوْلِہٖ کُنْتُمْ تَسْتَہْزِءُ وْنَ ، لاَ تَعْتَذِرُوْا قَدْ کَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ
’’اوراگر آپ پوچھیں توضرور کہیں گے ہم توصرف ہنسی مذاق اوردل لگی کررہے تھے۔ کہہ دیجیے !کیاتم اللہ اوراس کی آیات اوراس کے رسول کے ساتھ استہزاء کررہے تھے۔ بہانے مت بناؤ بے شک تم اپنے ایمان کے بعد کافر ہوچکے ہو۔ ‘‘التوبہ: 65-66
شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ اس آیت کے تحت رقمطراز ہیں :
فدل علی أنھم لم یکونوا عند أنفسھم قد أتوا کفراء بل ظنوا أن ذلک لیس بکفر، فبین أن الاستھزاء باللہ وآیاتہ ورسولہ کفر یکفر بہ صاحبہ بعد ایمانہ، فدل علی انہ کان عندھم ایمان ضعیف، ففعلوا ھذا المحرم الذي عرفوا أنہ محرم، ولکن لم یظنوہ کفرا، وکان کفرا کفروا بہ، فانھم لم یعتفدوا جوازہ۔ (مجموع الفتاویٰ : 172-173/7 و کتاب الایمان : ص207)
’’اس میں دلیل ہے کہ انہوں نے اس فعل کو کفر سمجھ کر نہیں کیا تھا۔ بلکہ ان کا گمان تھا کہ یہ کفر نہیں ہے، پس واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ اس کی آیات اور اِس کے رسول کیساتھ استہزاء کرنا کفر ہے جس سے بندہ اپنے ایمان کے بعد کافر ہو جاتا ہے، اس میں یہ دلیل ہے کہ ان کے پاس ضعیف ایمان تھا، پس انہوں نے یہ حرام کیا جس کے بارے میں وہ جانتے تھے کہ وہ حرام ہے لیکن انہوں نے اس کو کفر نہیں سمجھا تھا، حالانکہ وہ کفر تھا جس کے ساتھ وہ کافر ہو گئے، پس بے شک انہوں نے اس کے جوازکا عقیدہ بھی نہیں رکھا تھا۔‘‘

شیخ الاسلام اِسی آیت کے تحت لکھتے ہیں:
فبین أنھم کفار بالقول مع أنھم لم یعتقدوا صحتہ۔
’’پس یقیناً وہ اِس قول ہی کی بنا پر کافر ہو گئے باوجود اِس کے کہ انہوں نے اِس کے جائز ہونے کا عقیدہ نہیں رکھا تھا ۔‘‘ ( الصارم المسلول : ص 361، طبع دار ابن حزم)

امام ابنِ جریر طبری اپنی کتاب تہذیب الآثار میں خوارج کے متعلق احادیث ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
فیہ الرد علی قول من قال : لا یخرج أحد من الاسلام من أھل القبلۃ بعد استحقاقہ حکمہ الا بقصد الخروج منہ عالماً․․․․․․․(فتح الباری : 300/12)
’’اس میں اس شخص پر رد ہے جو کہتا ہے کہ اہلِ قبلہ میں کوئی بھی دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوگا مگر یہ کہ وہ جان بوجھ کر اپنے قصد اور ارادے کے ساتھ اسلام سے خارج ہو۔‘‘

حافظ ابنِ حجر فتح الباری 301-302/12میں ابنِ ھبیرۃ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا:
وفیہ أن من المسلمین من یخرج من الدین من غیر أن قصد الخروج منہ ومن غیرأن یختار دینا علی دین الاسلام۔
’’ بعض مسلمان دین سے خارج ہونے کا مقصد کیے بغیر اور دینِ اسلام پر کسی اور دین کو اختیار کیے بغیر بھی ( محض اپنے کفریہ عقائد و اعمال کی بنا پر ہی) دین سے خارج ہو جاتے ہیں۔‘‘

شیخ الاسلام ابن تیمیہ ﷫اپنی شہرہ آفاق اور لاجواب تصنیف ’’الصارم المسلول علی شاتم الرسول‘‘ میں مرتد کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
کل من أتی بعد الاسلام من القول أوالعمل بما یناقض الاسلام بحیث لا یجتمع معہ
’’ہر وہ شخص جو اسلام قبول کرنے کے بعد ایسے قول یا عمل کا ارتکاب کرے جو اسلام کوتوڑ دیتا ہو اس طرح کہ وہ (قول یا عمل) اسلام کے ساتھ جمع نہ ہو سکتا ہے۔‘‘(الصارم المسلول ص 315 ,طبع دارابن حزم)

امام صاحب اسی کتاب میں دوسری جگہ پر لکھتے ہیں:
’’وبالجملۃ فمن قال أوفعل ماہو کفرٌ کفر بذلک وان لم یقصد أن یکون کافراً، اذ لایکاد یقصد الکفر احدٌ الا ماشاء اللہ‘‘۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ جس نے کفر یہ قول کہا یا کفر یہ فعل کیا تو اس سے وہ کافر ہو جائے گا خواہ اس نے کافر ہونے کا ارادہ نہ ہی کیا ہو کیونکہ اپنے قصد و ارادے سے کوئی بھی کفر نہیں کرتا مگر یہ کہ اللہ چاہے‘‘۔ (الصارم المسلول ص 178 - 177، طبع قدیم)
امام صاحب کی مذکوہ بالا دونوں تعریفیں مرجئہ العصر کا منہ بند کرنے کے لیے کافی ہیں اور حفظ کرنے کے قابل ہیں۔

امام شوکانی فرماتے ہیں:
لکن لا یخفی علیک ما تقرر في أسباب الردّۃ أنہ لا یعتبر في ثبوتھا العلم بمعنی ماقالہ ما جاء بلفظ کفري أو فعل فعلاً کفریاً۔ ( الدر النضید : ص 39)
’’ لیکن تجھ پر یہ بات مخفی نہیں ہے کہ ارتداد کے اسباب میں جو بات مقرّر و ثابت ہے کہ اس (ارتداد) کے ثبوت میں اس بات کا اعتبار نہیں کیا جاتا کہ بندہ اپنے کفریہ لفظ یا کفریہ فعل کے معنی کا علم رکھتا ہو۔‘‘

قارئین کرام! لطف کی بات تو یہ ہے کہ مفتی مبشر ربانی صاحب نے خود بھی اپنی کتاب ’’آپ کے مسائل اور ان کا حل‘‘میں مرتد کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے۔
’’گویا مرتد ایسا شخص ہے جو اسلام لانے کے بعد واپس کفر کی طرف پلٹ گیا۔ یہ ارتداد اس کے اندر خواہ عقیدے کی بنا پر پیدا ہو یا کسی قول، فعل اور شک و شبہ کی بنا پر۔ خواہ سنجیدگی سے ہو یا مذاق و ٹھٹھہ سے کیونکہ ارتداد جیسے سنجیدگی سے ہوتا ہے، استھزاء و ھزل، ٹھٹھہ و مذاق سے بھی واقع ہوتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’کہہ دیجیے! کیا اللہ تعالیٰ، اس کی آیات اور اس کے رسولﷺ ہی تمہاری ہنسی مذاق کے لیے رہ گئے ہیں؟ تم بہانے نہ بناؤ یقینا اپنے ایمان کے بعد کفر کر چکے ہو‘‘۔(التوبہ:66،آپ کے مسائل اور ان کا حل 449/3)

ہم کہتے ہیں مفتی صاحب نے مرتد کی تعریف بالکل درست اور اہل سنت کے مطابق کی ہے لیکن تقریر میں چونکہ طاغوتی اور قبوری حکمرانوں کا دفاع کرنا اور مخلص کارکنان کو شکوک و شبہات میں مبتلا کرنا تھا اس لیے وہاں اہل سنت کی بجائے جہمیہ اور مرجئہ کی موافقت کی ہے․․․․․․․!!

قارئین!مفتی صاحب کے اس ارجائی مذہب کے مطابق اگر کوئی مسلمان دنیا کے لالچ میں اسلام کے خلاف لڑی جانے والی صلیبی جنگ میں صلیبی افواج کا سپہ سالار اور قائد ہی کیوں نہ بن جائے وہ جب تک کفر سے محبت و رضامندی اور اپنے مرتد ہونے کا اعلان نہیں کر دیتا یا دوسرے لفظوں میں ’’بقلم خود‘‘ اسلام سے مستعفی ہونے کی غلطی نہیں کرتا وہ مسلمان ہی رہے گا ․․․․․․․!حالانکہ کفر سے محبت رکھنا بذات خود علیحدہ سے کفر اکبر ہے، خواہ بندہ اپنے گھر میں ہی کیوں نہ بیٹھا ہو، حتیٰ کہ کفار کے خلاف مسلمانوں کی مدد ہی کیوں نہ کر رہا ہو!! ایسا آدمی کسی عملی اقدام کے بغیر محض کفار سے محبت رکھنے کی وجہ سے کافر و مرتد ہو جاتا ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کے خلاف کفار کی مدد و نصرت کرنے میں ’’مناطِ کفر‘‘ یعنی کفر کی علت یہ عمل ہے نہ کے کفر سے محبت، ہاں البتہ اگر کوئی مسلمانوں کے خلاف کفار کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ کفر پر راضی بھی ہے تو یہ اس کا علیحدہ سے اضافی کفر ہو گا یعنی کفر سے محبت رکھنا ناقضِ اعتقادی ہے اور مسلمانوں کے خلاف کافروں کی مدد کرنا ناقضِ عملی ہے۔
میرے خیال میں اب سمجھ میں آجائے گا کہ ہم نے مفتی صاحب کو جہمیہ اور مرجئہ کیوں کہا
 

اہل سلف

مبتدی
شمولیت
جولائی 04، 2011
پیغامات
33
ری ایکشن اسکور
143
پوائنٹ
0
بلاشبہ کسی وقت ہوسکتا ہے کوئی شخص نواقضِ اسلام کا مرتکب بھی ہو اور اس کے حق میں موانعِ تکفیر (یعنی لاعلمی، خطا، تاویل یا اکراہ وغیرہ) بھی نہ پائے جاتے ہوں…. یعنی اصولاً وہ پوری طرح تکفیر کا مستحق ہو، پھر بھی، کسی شرعی مصلحت کے پیشِ نظر یا دفعِ مفسدت کو مد نظر رکھتے ہوئے، اہل علم اس کی تکفیر کے معاملہ میں توقف کئے رکھیں، یعنی اس پر ارتداد کے احکام لاگو نہ کریں اور معاشرے کے اندر ایک مسلمان سمجھا جانے کا اسٹیٹس کسی خاص وقت تک اس سے پھر بھی سلب نہ کریں۔

جامعہ ام القریٰ مکہ مکرمہ میں عقیدہ کے استاد اور ایک ممتاز عالم شیخ احمد آل عبد اللطیف اس کی دلیل دیتے ہوئے کہتے ہیں:

”نبوی معاشرے کے اندر منافقین کے کفریہ افعال عمومی طور پر چھپے رہتے تھے، یہ درست ہے، مگر یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ چند خاص منافقین کے کفریہ افعال ریکارڈ پر بھی آگئے تھے۔ منافقین میں سے چند متعین لوگوں کانواقضِ اسلام کا مرتکب ہوناان کے باطن تک محدود نہ رہ گیا تھا کہ جس کا مؤاخذہ صرف اللہ عالم الغیب کی ذات ہی قیامت کے روز جا کر کرے گی، بلکہ ان کے ارتکابِ کفر پر صاف بین شواہد پائے گئے تھے، یہاں تک کہ ان کے ارتکابِ کفر کا پول کھولنے والے صحابہؓ کی گواہی کی تائید میں آیاتِ وحی اتری تھیں۔ مثلاً:

- آیت ”لاَ تَعْتَذِرُواْ قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ“ یعنی ”عذرات مت تراشو، یقینا تم ایمان لے آنے کے بعد کفر کرچکے ہو“ (التوبۃ: 66) خاص متعین لوگوں کی بابت اتری تھی۔

- ”وَلَقَدْ قَالُواْ كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَكَفَرُواْ بَعْدَ إِسْلاَمِهِمْ“ یعنی ”یقینا یہ کفر کی بات بک چکے ہیں اور اپنے اسلام لے آنے کے بعد کفر کر چکے ہیں“ (التوبۃ: 74) بھی کچھ خاص لوگوں کی بابت اتری تھی جن کا کفر طشت ازبام ہو گیا تھا۔

- ”وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا يَسْتَغْفِرْ لَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ لَوَّوْا رُؤُوسَهُمْ وَرَأَيْتَهُمْ يَصُدُّونَ وَهُم مُّسْتَكْبِرُونَ“ یعنی ”جب ان سے کہا جائے اؤ، اللہ کا رسول تمہارے لئے استغفار کردے، تو وہ (گھمنڈ سے) اپنے سر موڑ لیں اور تم دیکھو کہ وہ باز رہتے ہیں اس حال میں کہ وہ تکبر کر رہے ہوتے ہیں“ (المنافقون:5)، نیز ”هُمُ الَّذِينَ يَقُولُونَ لَا تُنفِقُوا عَلَى مَنْ عِندَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّى يَنفَضُّوا“ یعنی ”یہی ہیں جو کہتے ہیں مت خرچ کرو ان لوگوں پر جو رسول اللہ کے پاس ہیں یہاں تک کہ یہ (آپ کے گرد سے) چھٹ جائیں“ (المنافقون:7)، علاوہ ازیں ”يَقُولُونَ لَئِن رَّجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ“ یعنی ”کہتے ہیں، یقینا اگر ہم مدینہ واپس گئے تو جو زیادہ عزت دار ہوگا وہ ذلت دار کو وہاں سے نکال باہر کرے گا“ (المنافقون: 8)….

یہ سب، متعین لوگوں کے معاملہ میں پیش آیا۔ یوں مستند روایات میں ایسے متعدد واقعات ملتے ہیں کہ مدینہ کے اندر کچھ کلمہ گو لوگوں کا مرتکبِ کفر ہونا ”باطن“ کے دائرہ سے نکل کر ”ظاہر“ کے دائرہ میں آتا تھا، جبکہ ہم جانتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے کچھ خاص مصالح کے پیش نظر، ان کا کفر واضح اور معاشرتی سطخ پر ان کے قابل مؤاخذہ ہونے کے باوجود، ان لوگوں پر ارتداد کے احکام لاگو نہیں کئے“۔

اِس کے رد میں بعض لوگوں کی جانب سے اگر یہ کہا جائے کہ یہ باتیں نبی ﷺ کو وحی کے ذریعے بتائی گئی تھیں، جبکہ دنیوی احکام لاگو کرنے کیلئے معلومات کے انسانی ذرائع ضروری ہیں، اس لئے نبی ﷺ نے اُن لوگوں کی تکفیر نہ کی تھی۔ یا وہ یہ کہیں کہ منافقین کا اِس بات سے مکرنا کہ انہوں نے ایسی حرکات کی تھیں یا اس پر ایک طرح کا معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنا اِس بات پر دلیل ہوئی کہ وہ اپنے اُس کفریہ فعل پر قائم بہرحال نہ رہے تھے لہٰذا اس کو ایک طرح کا ظاہری رجوع باور کرتے ہوئے اُن کی تکفیر سے اجتناب برتا گیا ….

تو ان شبہات کے جواب میں ہم کہیں گے کہ کئی ایک باتیں ایسی بھی ریکارڈ پر ہیں کہ کسی منافق نے کھلم کھلا ایک کفریہ قول یا رویہ ظاہر کیا (اور اُس کو جاننے کیلئے وحی واحد ذریعہ نہ رہا)۔ نیز اپنے اُس کفریہ قول یا رویہ پر اُس کا کوئی معذرت خواہانہ رویہ بھی ہرگز ریکارڈ پر نہیں۔ مثال کے طور پر صحیح بخاری میں عبد اللہ بن اُبی کا یہ رویہ کہ :جب رسول اللہ ﷺ ایک گدھے پر سوار عبد اللہ بن اُبی کے پاس پہنچے تو وہ بے لحاظ بکنے لگا: اِلَیْکَ عَنِّیْ، وَاللّٰہِ لَقَدْ آذَانِیْ نَتْنُ حِمَارِکَ ”پرے ہٹو، واللہ تمہارے گدھے کی سڑاند میرے ناک میں دم کر رہی ہے“۔ تب انصارؓ میں سے ایک صحابیؓ سے نہ رہا گیا اور وہ عبد اللہ بن اُبی کو مخاطب کر کے بولا: وَاللّٰہِ لَحِمَارُ رَسُولِ اللّٰہِ اَطْیَبُ رِیْحاً مِنْکَ ”واللہ! رسول اللہ ﷺ کا گدھا بو میں تم سے کہیں بہتر ہے“۔ تب عبد اللہ بن اُبی کے قبیلے کا ایک آدمی عبد اللہ بن اُبی کیلئے طیش میں آیا اور اُس انصاریؓ کو گالیاں بکنے لگا۔ اِس پر ہر دو کے قبیلے کے لوگ اپنے اپنے آدمی کیلئے بھڑک اٹھے اور دونوں گروہوں کے مابین کھجور کی چھڑیوں، ہاتھوں اور جوتوں سے مار پیٹ ہونے لگی۔

(صحیح البخاری، کتاب الصلح، باب ما جاءفی الاِصلاح بین الناس اِذا تفاسدوا)

غرض بعض افراد سے اِس قسم کے کفریہ افعال اور رویے کھلم کھلا سرزد ہونے کے باوجود ___ بعض شرعی مصالح کے پیش نظر ___ اُن لوگوں کی تکفیر سے احتراز برتا گیا اور دنیوی امور میں اُن کا حکم ایک مسلمان کا سا رکھا گیا۔ یہاں تک کہ ایک علیحدہ نص کے ذریعہ سے جب تک اُن کی نمازِ جنازہ سے نہ روک دیا گیا، آپ نے اُن کا جنازہ پڑھنا تک موقوف نہ کیا۔

مقصد یہ کہ کسی شخص کے حق میں موانع تکفیر اگر زائل بھی ہو گئے ہوں، لیکن کچھ مصالح اہل علم کی نظر میں ایسے ہوں جو اُس کی تکفیر کی بابت سکوت کا تقاضا کریں، یا اُس کی تکفیر کرنے کی صورت میں وہ کچھ مفاسد اٹھ کھڑے ہونے کا اندیشہ محسوس کریں، تو اس صورت میں تکفیر سے احتراز کر رکھنا اُن کے حق میں ایک جائز و شرعی رویہ ہو گا۔ عام لوگوں کو بہرحال اہل علم ہی کے پیچھے چلنا ہے۔

پس اگر کسی وقت شرعی اتھارٹی (جوکہ آج اس وقت علماءہیں) کسی شخص یا گروہ پر نواقض اسلام کے ارتکاب کے باوجود اس کو معین کرکے تکفیر کا حکم عائد کرنے سے محترز رہتے ہیں یا اس کے معاملہ میں، بوجوہ، صرفِ نظر کر رکھتے ہیں، جس کی بنیاد کوئی خاص حفظِ مصالح یا دفعِ مفاسد ہو، جبکہ ان مصالح اور مفاسد کا موازنہ بھی ظاہر ہے اہل علم ہی کرسکتے ہیں، تو یہ بات شرعا غلط نہیں۔

[LINK=http://manhajahlussunah.wordpress.com/2011/07/22/%D9%85%D8%B3%D8%A6%D9%84%DB%81%D9%94-%D8%AA%DA%A9%D9%81%DB%8C%D8%B1-%D8%B3%DB%92-%D9%85%D8%AA%D8%B9%D9%84%D9%82-%DA%A9%DA%86%DA%BE-%D8%B6%D8%B1%D9%88%D8%B1%DB%8C-%D8%AA%D9%88%D8%B6%DB%8C%D8%AD%D8%A7/]اقتباس از مسئلہ تکفیر سے متعلق کچھ ضروری توضیحات ﴿حامد کمال الدین﴾[/LINK]
 
Top