اور ایک نظر ذرا انصار اللہ اردو بلاگ پر موجود نام نہاد منبر التوحید والجہاد کی شرعی کمیٹی کے[LINK=http://ansarullah.co.cc/ur/%D9%85%D9%86%D8%A8%D8%B1-%D8%A7%D9%84%D8%AA%D9%88%D8%AD%DB%8C%D8%AF-%D9%88%D8%A7%D9%84%D8%AC%DB%81%D8%A7%D8%AF-%D9%85%D8%B5%D8%B1-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AD%DA%A9%D8%A7%D9%85-%DA%A9%DB%92-%D8%AD%D8%A7/] فتوی[/LINK] پر بھی توجہ دیںمفتی صاحب فرماتے ہیں:
’’کافر تب ہوگا جب وہ مرتد ہو کر یا کفر کو پسند کر کے اسلام کو چھوڑ کر نکلے تو کافر ہوگا۔‘‘
جماعۃ الدعوۃ کے مفتی مبشر احمد ربانی کی تقریر ”فتنہ تکفیر“ملاحظہ کریں
یہ قول جہمیہ اور مرجئہ کے خبیث ترین اقوال میں سے ہے جن کے نزدیک کوئی عمل بذاتِ خود کفر نہیں ہے ۔یہ کفر کو اعتقاد اور کفر سے رضا مندی کہ ساتھ مشروط کرتے ہیں جبکہ اہل سنت کے نزدیک جس طرح کفر عقیدے کی بنا پر ہوتا ہے اسی طرح قول اور عمل سے بھی ہوتا ہے۔ یعنی جس طرح ایمان اعتقاد، قول اور عمل کے مجموعے کا نام ہے اسی طرح کفر اعتقاد سے بھی ہوتا ہے اور قول اور عمل سے بھی ہوتا ہے۔ خواہ اْس نے وہ کفریہ فعل کافر ہونے کیاارادے سے نہ ہی کیا ہو۔
لیجئے طالب نور صاحب ہم نے جماعۃ الدعوۃ کے مفتی جناب مبشر احمد ربانی کا قول پیش کرکے ان کی جہمیت اور ارجائیت سے پردہ اٹھادیا ہے۔اب آپ ان کی تقریر ”فتنہ تکفیر“ کو ملاحظہ کرلیں حقیقت حال سے باخبر ہوجائیں گے ان شاء اللہ ۔ جہمیت اور ارجائیت سے بڑا فتنہ اہل اسلام نے کوئی نہیں دیکھا۔ اس فتنے نے اسلام کی جڑیں کھوکھلی کرڈالیں ۔ چنانچہ یہی وجہ ہے امام سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے مرجئہ کے بارے میں ارشاد فرمایا : مرجئہ اس امت کے یہود ہیں ۔
اور فورم سے بینڈ کرنا یہ کوئی اہم مسئلہ نہیں ہیں ۔ مجاہدین تو عصر حاضر کے فرعون طاغوت اکبر امریکہ کے خلاف اکیلے اللہ کی مدد کے سہارے لڑرہے ہیں جبکہ مسلمان ملکوں کے مرتد حکام اس جنگ میں اپنے فرعون عصر اور طاغوت اکبر کے ہمراہ صلیبیت کی اس جنگ میں امریکہ کے ہمراہ مجاہدین کے خلاف نبردآزما ہیں ۔ اس لیے اس قسم کی دہمکیاں اہل حق کو حق بیان کرنے سے ہرگز نہیں روک سکتیں ۔ اللہ مجاہدین کا مولا اور کارساز ہے ۔ وہی ان کا بہترین مددگار ہیں ۔ اورمجاہدین اللہ ہی پر توکل کرتے ہیں ۔ بات یہ ہے جب دلائل نہیں ہوتے تو اسی طرح کی دہمکیاں دی جاتی ہیں ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور نمرود کے مابین جو مکالمہ قرآن مجید نے بیان کیا ہے ۔ وہ اس باب میں حجت ہے ۔والسلام
ناموں کی بحث میں پڑے بغیر طاغوتی حکام کی حمایت کرنے والے یہ علماء مختلف طرح کے ہیں اور ان کے مختلف درجات ہیں ۔
١۔ ان میں سے کچھ ان حکام سے واضح اور صریح تعلق قائم کرتے ہیں اور باطل پر ان کی مدد کرتے ہیں اور اس بارے میں وہ شریعت کی مخالفت کی پروا نہیں کرتے اس قسم کے علماء بسا اوقات درجہ کفر تک پہنچ جاتے ہیں۔
۲۔ ان میں سے کچھ ایسے ہیں جن کے افکارونظریات ان حکام کے بعض افعال کو جائز قرار دے رہے ہوتے ہیں یا ان کے قوانین کو تسلیم کررہے ہوتے ہیں یا ان کے خلاف بغاوت سے روک رہے ہوتے ہیں اور اس سلسلے میں ان کے پاس کوئی تاویل بھی ہوتی ہے یعنی کمزوری یا فتنے کا اندیشہ یا پھر ان کی تکفیر کے دلائل ان کے نزدیک غیر واضح ہوتے ہیں۔
اس قسم کے علماء درجہ کفر تک تو نہیں پہنچتے البتہ اس کے سب سے ہلکے درجے یعنی فسق تک پہنچ چکے ہیں جیساکہ شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ نے فرمایا:
یہ طاغوتی حکام جن کے متعلق لوگ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ کے سوا وہ بھی واجب الاطاعت ہیں سب کے سب کافر اور اسلام سے مرتد(پھر چکے) ہیں اور کیوں نہ ہوں جبکہ وہ اللہ کی حرام کردہ اشیاء کو حلال اور اللہ کی حلال کردہ اشیاء کو حرام قراردیتے ہیں اور زمین پر اپنے قول وفعل اور تائید کے ذریعے فساد مچاتے ہیں۔ اور جو لوگ ان کی حمایت میں بحث کرتے ہیں یا انہیں کافر کہنے والوں کا رد کرتے ہیں یا یہ گمان رکھتے ہیں ان کا یہ فعل اگر باطل ہو تب بھی انہیں کفر میں داخل نہیں کرتا تو اس طرح کی حمایت کرنے والے کا سب سے ہلکہ رتبہ یہ ہوگا کہ وہ فاسق ہے کیونکہ ان حکام سے لاتعلقی اختیار کئے اور انہیں کافر قراردیئے بغیر دین اسلام صحیح نہیں ہوسکتا۔ (الرسائل الشخصیۃ۔188)
چنانچہ ان حکام کی حمایت کرنے والے علماء کو کافر قراردینا مناسب نہیں ہے الایہ کہ ان کے پاس کوئی بھی شبہ یا تاویل باقی نہ رہے ایسے ہی ان میں سے کسی کو مرجئہ یا زندیق کہنا بھی جائز نہیں الایہ کہ اس میں یہ صفات شرعی پہلو سے اجاگر ہوں۔
مرجئہ اسے کہتے ہیں جو مرجئہ کا عقیدہ اختیار کرے جبکہ جوعالم کفر میں واقع ہوجانے والے کو اس لیے کافر نہیں کہتا کیونکہ وہ اس میں کوئی مانع کفر دیکھتا ہے یا وہ نواقض ایمان میں سے کسی ایک ایسے ناقض کے معتبر ہونے میں اختلاف کرتا ہے جس کے ناقص ہونے کے دلائل موجود ہوں تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ مرجئہ میں سے ہے۔
اور زندیق اسے کہتے ہیں جو اسلام ڈھانے کی کوشش کرے یا اپنی افکار کے ذریعے اسلام پر طعن کرے ۔
چنانچہ سب بھائیوں کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈریں اور کسی غلطی کرنے والے کو اس کی غلطی سے بڑ ھ کر غلط مت کہیں۔ شریعت کی کچھ مخالفتیں ایسی بھی ہیں مثلاً مدد نہ کرنا، فتنہ پردازی جن کے مرتکب کو مخذل(شکست خوردہ) اور مرجف (فتنہ پرور) سے زیادہ کچھ اور کہنا مناسب نہیں ہے۔
اور اگر بعض علماء اس طرح کی مخالفتوں میں واقع ہوں اور شواہد اور حالیہ قرائن کے ذریعے ان کا ان مخالفتوں کو جائز قراردینا معلوم ہوجائے تو لوگوں کو ان کے باطل سے بچانا چاہئیے لیکن ان کے مقام ومرتبہ کو گرانے سے بھی روک جانا چاہئیے اور جوعالم بھی اپنے لیے حسن ظن کا کوئی پہلو باقی رکھے اس کے متعلق حسن ظن ہی رکھنا چاہیئے اور اس کے واپس آجانے یا رجوع کرلینے سے مایوس نہیں ہونا چاہئیے باطل کے رد کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ خوبصورت الفاظ میں مضبوط رد کیا جائے۔
واللہ اعلم والحمدللہ رب العالمین
جواب منجانب: اشیخ ابو المنذر الشنقیطی
عضو شرعی کمیٹی
منبرالتوحید والجہاد