دین کے اصولی باتوں میں جہالت عذر نہیں بن سکتی
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جس نے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین یا کسی ایک کو گالی دی ( ان کی توہین یا ان کی شان میں گستاخی کی) اور اس نے دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کی مذمت و توہین کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ جناب علی رضی اللہ عنہ خدا ہیں یا نبی ہیں یا یہ کہا کہ جبریل علیہ السلام غلطی پر تھا (اس نے علی رضی اللہ عنہ کے بجائے غلطی سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کردی) ایسا کہنے والے کے کافر ہونے میں کوئی شک نہیں ہے بلکہ اس شخص کے کافر ہونے میں شک نہیں ہے جو اس کے کفر میں شک کرتا ہے یا اس کو کافر کہنے میں توقف کرتا ہے ۔ فرماتے ہیں کہ جس نے یہ کہا کہ صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مرتد ہوئے سوائے چند افراد کے یا یہ کہے کہ صحابہ فاسق تھے ایسا کہنے والے کے کفر میں شک نہیں ہے اس کے کفر میں شک کرنے والا بھی کافر ہے ۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ جہالت کو عذر نہیں سمجھتے تھے ان کی یہ عبارتیں ان کے موقف کو واضح کرتی ہیں کہ اس بارے میں جاہل مستثنٰی نہیں ہے جو لوگ کہتے ہیں کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ جہمیہ کو کافر نہیں سمجھتے تھے تو اس کا جواب ہے کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اسماء وصفات کے بارے میں جہمیہ کو کافر نہیں سمجھتے اس لئے کہ یہ مخفی مسائل ہیں جہاں تک ظاہری امور ہیں مثلاً اولیاء کو پکارنا یا قبروں کا طواف یا غیر اللہ کے لئے ذبح کرنا ان مسائل میں ابن تیمیہ رحمہ اللہ جہل کو عذر نہیں سمجھتے تھے دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے لئے دلیل کتاب وسنت ہے جبکہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ ودیگر علماء معصوم عن الخطاء نہیں ہیں ۔
وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعبُدُوا اِلَّا اِیَّاہُ ۔ (الاسراء)
تیرے رب نے حکم کیا ہے کہ عبادت صرف اسی اللہ کی کرو۔
اگر کسی شخص کا خیال ہو کہ اس آیت میں قضٰی کا معنی ہے مقرر کرنا۔ تقدیر لکھ دینا اور اللہ نے جو کچھ تقدیر میں لکھا ہے وہ ہو کر رہتا ہے لہٰذا جو لوگ بتوں کی عبادت کرتے ہیں۔ وہ بھی دراصل اللہ کی عبادت کرتے ہیں (اس لیے کہ تقدیر میں جو کچھ لکھا ہے اسی کو پورا کررہے ہیں) اس طرح کہنے والا سب سے بڑے کفر کا ارتکاب کررہا ہے تمام کتب آسمانی کا انکار کررہا ہے ۔ اس طرح کی باتیں کرنے والے اگرچہ عبادت گزار وپرہیز گار لوگ ہی ہیں مگر ان کا یہ قول دراصل جہالت کی وجہ سے ہے اللہ تعالٰی نے کافروں کے بارے میں بتایا ہے کہ وہ رسولوں کی لائی ہوئی شریعت کے بارے میں شکوک وشبہات میں مبتلا تھے اور آخرت میں اٹھائے جانے پر بھی انہیں یقین نہیں تھا انہوں نے رسولوں سے کہا تھا۔
وَاِنّا لَفِی شَکٍّ مِمَّا تَدعُونَنَا اِلَیہِ مُرِیبٍ ۔ (مریم)
ان باتوں کے بارے میں شک میں مبتلا ہیں جن کی طرف تم ہمیں دعوت دیتے ہو۔
وَاِنَّھُم لَفِی شَکٍّ مِّنہُ مُرِیبٍ ۔ (ھود)
یہ لوگ اس (دین) کے بارے میں شک میں مبتلا ہیں۔
دوسری جگہ اللہ تعالٰی نے خبر دی ہے کہ وہ کہتے تھے ۔
اِن نَّظُنُّ اِلَّا ظَنَّا وَّمَا وَنَحنُ بِمُستَیقِنِینَ ۔ (جاثیۃ)
ہم صرف ایک خیال کررہے ہیں ہمیں یقین نہیں ہے۔
اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے ۔
اِتَّخَذُوا الشَّیطٰنَ اَولِیَآءَ مِن دُونِ اللہِ وَیَحسَبُونَ اَنَّھُم مُھتَدُونَ ۔ (اعراف)
ان لوگوں نے شیاطین کو دوست بنالیا ہے اللہ کو چھوڑ کر اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہدایت پر ہیں۔
اللہ تعالٰی کا فرمان ہے ۔
قُل ھَل نُنَبِّئُکُم بِالاَخسَرِینَ اَعمَالًا o الَّذِینَ ضَلَّ سَعیُھُم فِی الحَیوٰۃِ الدُّنیَا وَھُم یَحسَبُونَ اَنَّھُم یُحسِنُونَ صُنعًا۔ (الکہف)
کیا میں تمہیں ان لوگوں کے بارے میں جو اعمال کے لحاظ سے خسارے میں ہیں جن کی سعی و کوشش دنیا میں اکارت گئی اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ بہترین عمل کررہے ہیں ۔
ایسے لوگوں کو اللہ تعالٰی نے بہت زیاہ جاہل قرار دیا ہے ۔
لَھُم قُلُوبٌ لَّا یَفقَہُونَ بِھَا وَلَھُم اَعیُنٌ لَّا یُبصِرُونَ بِھَا وَلَھُم اٰذَانٌ لَّا یَسمَعُونَ بِھَا اُولٰئکَ کَالاَنعَامِ بَل ھُم اَضَلُّ ۔ (اعراف)
ان کے دل ہیں مگر وہ ان سے کام نہیں لیتے آنکھیں ہیں مگر ان سے دیکھتے نہیں کان ہیں مگر سنتے نہیں یہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ جانوروں سے بھی بدتر ہیں ۔ یہ لوگ غافل بے خبر ہیں۔
مقلدین کی مذمت کرتے ہوئے اللہ فرماتا ہے یہ کہتے ہیں کہ ۔
اِنَّا وَجَدنَا اٰبَآءَنَا عَلٰی اُمَّۃٍ وَّاَنَا عَلٰی اٰثٰرِھِم مُھتَدُونَ ۔ (زخرف)
ہم نے اپنے آباواجداد کو ایک طریقے پر پایا تو ہم ان کے نقش قدم پر چل رہے ہیں ۔
اس کے باوجود انہیں کافر کہا ہے ۔
شیخ موفق الدین ابومحمد بن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں : کیا ہر مجتہد صحیح اجتہاد کرتا ہے؟ پھر جمہور کی رائے کو ترجیح دیتے ہوئے فرماتے ہیں ہر مجتہد صحیح اجتہاد ہر وقت نہیں کرسکتا بلکہ مجتہدین کے اقوال میں ایک قول حق ہوتا ہے کہتے ہیں جاحظ کا یہ قول باطل ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص خلاف اسلام عمل کرے اور پھر غور وخوض کرے مگر حق کے ادراک سے عاجز آجائے تو اس کا عذر قبول ہے جاحظ کا قول ہر لحاظ سے باطل بلکہ اللہ کے ساتھ کفر کے مترادف ہے اللہ اور اس کے فرامین کا ردّ ہے اس لیے کہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود ونصاریٰ کو دعوت دی اسلام لانے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کرنے کی اور سابقہ دین پر قائم رہنے کی مذمت کی ان سب سے جنگ کی جب کہ ہم جانتے ہیں کہ ان میں سے اسلام دشمنی وبغض رکھنے والے وہ تھے جنہیں کچھ علم وسمجھ تھی اور بقیہ مقلدین تھے جنہوں نے اپنے باپ دادا کا دین اپنایا ہوا تھا انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اورمعجزے کا معلوم نہ تھا ہماری اس بات پر دلالت کرنے والی بہت سی قرآنی آیات ہیں مثلاً :
ذٰلِکَ ظَنُّ الَّذِینَ کَفَرُوا ۔ (ص)
یہ ان لوگوں کا خیال ہے جو کافر ہیں۔
وَذٰلِکُم ظَنُّکُمُ الَّذِی ظَنَنتُم بِرَبِّکُم اَردٰکُم ۔ (حٰم السجدۃ)
یہ تمہارا وہ خیال ہے جو تم نے اپنے رب سے متعلق رکھا اس نے تمہیں غارت کیا۔
اِن ھُم اِلَّا یَظُنُّونَ ۔ (جاثیہ)
یہ لوگ صرف خیال ہی کرتے رہتے ہیں۔
وَیَحسَبُونَ اَنَّھُم عَلٰی شَیءٍ ۔ (مجادلۃ)
ان کا خیال ہے کہ وہ کسی چیز پر ہیں ۔
وَیَحسَبُونَ اَنَّھُم مُھتَدُونَ ۔ (الزخرف)
وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہدایت پر ہیں ۔
قُل ھَل نُنَبِّئُکُم بِالاَخسَرِینَ اَعمَالًا o اَلَّذِینَ ضَلَّ سَعیُھُم فِی الحَیٰوۃِ الدُّنیَا وَھُم یَحسَبُونَ اَنَّھُم یُحسِنُونَ صُنعًا ۔ (الکہف)
کیا تمہیں ان لوگوں کے بارے میں بتاؤں جو اعمال کے لحاظ سے نقصان میں ہیں دنیا میں جن کی محنت رائیگاں گئی اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اچھا کام کررہے ہیں ۔
خلاصہ یہ ہے کہ رسول کو جھٹلانے والوں کی مذمت میں آیات واحادیث لاتعداد و بے شمار ہیں علماء کہتے ہیں جس نے پانچ عبادات میں سے کسی ایک کے متعلق کہا کہ یہ سنت سے واجب نہیں ہے اس کا انکار کیا ۔ یا روٹی کے حلال ہونے کا انکار کیا یا شراب کی حرمت کا انکار کیا یا ان باتوں میں سے کسی میں شک کیا اگر جہالت کی وجہ سے کیا تو کفر کا حکم لگے گا ۔ اگر تعریف ان کی جانتا ہو تو اس سے تعریف کروائی جائے گی تعریف کے بعد اگر اصرار کرتا رہا تو کافر ہے ۔ قتل کیا جائے گا۔ علماء نے یہ نہیں کہا کہ کسی کے سامنے حق واضح ہوجائے اور پھر وہ عناد کی وجہ سے انکار کرے تو کافر ہے ۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ ہم کسی کے بارے میں کیسے جان سکتے ہیں کہ وہ عناد نہیں رکھتا؟ جب تک خود نہ کہے کہ میں جانتا ہوں کہ یہ حق ہے مگر میں اس کو نہیں اپناتا ایسا ہونا ممکن نہیں ہر مذہب کے علماء نے کچھ چیزوں کا تذکرہ کیا ہے جن کا شمار کرنا مشکل ہے ایسے اقوال ، افعال اور اعتقادات ہیں جن کے اپنانے والے یا ارتکاب کرنے والے کو کافر کہاجاتا ہے مگر یہ شرط کسی عالم نے نہیں لگائی کہ ان میں سے کوئی چیز عناد کی وجہ سے پائی جائے تو شرک ہے ورنہ نہیں لہٰذا اب اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ کفر کا ارتکاب کرنے والا اگر غلطی ، لاعلمی ، تقلید یا تاویل کی وجہ سے کفر کرتا ہے تو اس کا عذر قابل قبول ہے ایسا کہنے والا کتاب وسنت کا مخالف ہے اجماع کے خلاف بات کرتا ہے ۔ اسی طرح اگر کسی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت میں شک کیا تو وہ بھی کافر ہے۔ (الدررالسنیۃ : ۱۲/۷۳،۲۹)
دین کے اصولی باتوں میں جہالت عذر نہیں بن سکتی
ابوعبدالرحمن الاثری سلطان بن بجاد العتیبی الشہید رحمہ اللہ
ابوعبدالرحمن الاثری سلطان بن بجاد العتیبی الشہید رحمہ اللہ
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جس نے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین یا کسی ایک کو گالی دی ( ان کی توہین یا ان کی شان میں گستاخی کی) اور اس نے دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کی مذمت و توہین کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ جناب علی رضی اللہ عنہ خدا ہیں یا نبی ہیں یا یہ کہا کہ جبریل علیہ السلام غلطی پر تھا (اس نے علی رضی اللہ عنہ کے بجائے غلطی سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کردی) ایسا کہنے والے کے کافر ہونے میں کوئی شک نہیں ہے بلکہ اس شخص کے کافر ہونے میں شک نہیں ہے جو اس کے کفر میں شک کرتا ہے یا اس کو کافر کہنے میں توقف کرتا ہے ۔ فرماتے ہیں کہ جس نے یہ کہا کہ صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مرتد ہوئے سوائے چند افراد کے یا یہ کہے کہ صحابہ فاسق تھے ایسا کہنے والے کے کفر میں شک نہیں ہے اس کے کفر میں شک کرنے والا بھی کافر ہے ۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ جہالت کو عذر نہیں سمجھتے تھے ان کی یہ عبارتیں ان کے موقف کو واضح کرتی ہیں کہ اس بارے میں جاہل مستثنٰی نہیں ہے جو لوگ کہتے ہیں کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ جہمیہ کو کافر نہیں سمجھتے تھے تو اس کا جواب ہے کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اسماء وصفات کے بارے میں جہمیہ کو کافر نہیں سمجھتے اس لئے کہ یہ مخفی مسائل ہیں جہاں تک ظاہری امور ہیں مثلاً اولیاء کو پکارنا یا قبروں کا طواف یا غیر اللہ کے لئے ذبح کرنا ان مسائل میں ابن تیمیہ رحمہ اللہ جہل کو عذر نہیں سمجھتے تھے دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے لئے دلیل کتاب وسنت ہے جبکہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ ودیگر علماء معصوم عن الخطاء نہیں ہیں ۔
وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعبُدُوا اِلَّا اِیَّاہُ ۔ (الاسراء)
تیرے رب نے حکم کیا ہے کہ عبادت صرف اسی اللہ کی کرو۔
اگر کسی شخص کا خیال ہو کہ اس آیت میں قضٰی کا معنی ہے مقرر کرنا۔ تقدیر لکھ دینا اور اللہ نے جو کچھ تقدیر میں لکھا ہے وہ ہو کر رہتا ہے لہٰذا جو لوگ بتوں کی عبادت کرتے ہیں۔ وہ بھی دراصل اللہ کی عبادت کرتے ہیں (اس لیے کہ تقدیر میں جو کچھ لکھا ہے اسی کو پورا کررہے ہیں) اس طرح کہنے والا سب سے بڑے کفر کا ارتکاب کررہا ہے تمام کتب آسمانی کا انکار کررہا ہے ۔ اس طرح کی باتیں کرنے والے اگرچہ عبادت گزار وپرہیز گار لوگ ہی ہیں مگر ان کا یہ قول دراصل جہالت کی وجہ سے ہے اللہ تعالٰی نے کافروں کے بارے میں بتایا ہے کہ وہ رسولوں کی لائی ہوئی شریعت کے بارے میں شکوک وشبہات میں مبتلا تھے اور آخرت میں اٹھائے جانے پر بھی انہیں یقین نہیں تھا انہوں نے رسولوں سے کہا تھا۔
وَاِنّا لَفِی شَکٍّ مِمَّا تَدعُونَنَا اِلَیہِ مُرِیبٍ ۔ (مریم)
ان باتوں کے بارے میں شک میں مبتلا ہیں جن کی طرف تم ہمیں دعوت دیتے ہو۔
وَاِنَّھُم لَفِی شَکٍّ مِّنہُ مُرِیبٍ ۔ (ھود)
یہ لوگ اس (دین) کے بارے میں شک میں مبتلا ہیں۔
دوسری جگہ اللہ تعالٰی نے خبر دی ہے کہ وہ کہتے تھے ۔
اِن نَّظُنُّ اِلَّا ظَنَّا وَّمَا وَنَحنُ بِمُستَیقِنِینَ ۔ (جاثیۃ)
ہم صرف ایک خیال کررہے ہیں ہمیں یقین نہیں ہے۔
اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے ۔
اِتَّخَذُوا الشَّیطٰنَ اَولِیَآءَ مِن دُونِ اللہِ وَیَحسَبُونَ اَنَّھُم مُھتَدُونَ ۔ (اعراف)
ان لوگوں نے شیاطین کو دوست بنالیا ہے اللہ کو چھوڑ کر اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہدایت پر ہیں۔
اللہ تعالٰی کا فرمان ہے ۔
قُل ھَل نُنَبِّئُکُم بِالاَخسَرِینَ اَعمَالًا o الَّذِینَ ضَلَّ سَعیُھُم فِی الحَیوٰۃِ الدُّنیَا وَھُم یَحسَبُونَ اَنَّھُم یُحسِنُونَ صُنعًا۔ (الکہف)
کیا میں تمہیں ان لوگوں کے بارے میں جو اعمال کے لحاظ سے خسارے میں ہیں جن کی سعی و کوشش دنیا میں اکارت گئی اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ بہترین عمل کررہے ہیں ۔
ایسے لوگوں کو اللہ تعالٰی نے بہت زیاہ جاہل قرار دیا ہے ۔
لَھُم قُلُوبٌ لَّا یَفقَہُونَ بِھَا وَلَھُم اَعیُنٌ لَّا یُبصِرُونَ بِھَا وَلَھُم اٰذَانٌ لَّا یَسمَعُونَ بِھَا اُولٰئکَ کَالاَنعَامِ بَل ھُم اَضَلُّ ۔ (اعراف)
ان کے دل ہیں مگر وہ ان سے کام نہیں لیتے آنکھیں ہیں مگر ان سے دیکھتے نہیں کان ہیں مگر سنتے نہیں یہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ جانوروں سے بھی بدتر ہیں ۔ یہ لوگ غافل بے خبر ہیں۔
مقلدین کی مذمت کرتے ہوئے اللہ فرماتا ہے یہ کہتے ہیں کہ ۔
اِنَّا وَجَدنَا اٰبَآءَنَا عَلٰی اُمَّۃٍ وَّاَنَا عَلٰی اٰثٰرِھِم مُھتَدُونَ ۔ (زخرف)
ہم نے اپنے آباواجداد کو ایک طریقے پر پایا تو ہم ان کے نقش قدم پر چل رہے ہیں ۔
اس کے باوجود انہیں کافر کہا ہے ۔
شیخ موفق الدین ابومحمد بن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں : کیا ہر مجتہد صحیح اجتہاد کرتا ہے؟ پھر جمہور کی رائے کو ترجیح دیتے ہوئے فرماتے ہیں ہر مجتہد صحیح اجتہاد ہر وقت نہیں کرسکتا بلکہ مجتہدین کے اقوال میں ایک قول حق ہوتا ہے کہتے ہیں جاحظ کا یہ قول باطل ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص خلاف اسلام عمل کرے اور پھر غور وخوض کرے مگر حق کے ادراک سے عاجز آجائے تو اس کا عذر قبول ہے جاحظ کا قول ہر لحاظ سے باطل بلکہ اللہ کے ساتھ کفر کے مترادف ہے اللہ اور اس کے فرامین کا ردّ ہے اس لیے کہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود ونصاریٰ کو دعوت دی اسلام لانے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کرنے کی اور سابقہ دین پر قائم رہنے کی مذمت کی ان سب سے جنگ کی جب کہ ہم جانتے ہیں کہ ان میں سے اسلام دشمنی وبغض رکھنے والے وہ تھے جنہیں کچھ علم وسمجھ تھی اور بقیہ مقلدین تھے جنہوں نے اپنے باپ دادا کا دین اپنایا ہوا تھا انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اورمعجزے کا معلوم نہ تھا ہماری اس بات پر دلالت کرنے والی بہت سی قرآنی آیات ہیں مثلاً :
ذٰلِکَ ظَنُّ الَّذِینَ کَفَرُوا ۔ (ص)
یہ ان لوگوں کا خیال ہے جو کافر ہیں۔
وَذٰلِکُم ظَنُّکُمُ الَّذِی ظَنَنتُم بِرَبِّکُم اَردٰکُم ۔ (حٰم السجدۃ)
یہ تمہارا وہ خیال ہے جو تم نے اپنے رب سے متعلق رکھا اس نے تمہیں غارت کیا۔
اِن ھُم اِلَّا یَظُنُّونَ ۔ (جاثیہ)
یہ لوگ صرف خیال ہی کرتے رہتے ہیں۔
وَیَحسَبُونَ اَنَّھُم عَلٰی شَیءٍ ۔ (مجادلۃ)
ان کا خیال ہے کہ وہ کسی چیز پر ہیں ۔
وَیَحسَبُونَ اَنَّھُم مُھتَدُونَ ۔ (الزخرف)
وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہدایت پر ہیں ۔
قُل ھَل نُنَبِّئُکُم بِالاَخسَرِینَ اَعمَالًا o اَلَّذِینَ ضَلَّ سَعیُھُم فِی الحَیٰوۃِ الدُّنیَا وَھُم یَحسَبُونَ اَنَّھُم یُحسِنُونَ صُنعًا ۔ (الکہف)
کیا تمہیں ان لوگوں کے بارے میں بتاؤں جو اعمال کے لحاظ سے نقصان میں ہیں دنیا میں جن کی محنت رائیگاں گئی اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اچھا کام کررہے ہیں ۔
خلاصہ یہ ہے کہ رسول کو جھٹلانے والوں کی مذمت میں آیات واحادیث لاتعداد و بے شمار ہیں علماء کہتے ہیں جس نے پانچ عبادات میں سے کسی ایک کے متعلق کہا کہ یہ سنت سے واجب نہیں ہے اس کا انکار کیا ۔ یا روٹی کے حلال ہونے کا انکار کیا یا شراب کی حرمت کا انکار کیا یا ان باتوں میں سے کسی میں شک کیا اگر جہالت کی وجہ سے کیا تو کفر کا حکم لگے گا ۔ اگر تعریف ان کی جانتا ہو تو اس سے تعریف کروائی جائے گی تعریف کے بعد اگر اصرار کرتا رہا تو کافر ہے ۔ قتل کیا جائے گا۔ علماء نے یہ نہیں کہا کہ کسی کے سامنے حق واضح ہوجائے اور پھر وہ عناد کی وجہ سے انکار کرے تو کافر ہے ۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ ہم کسی کے بارے میں کیسے جان سکتے ہیں کہ وہ عناد نہیں رکھتا؟ جب تک خود نہ کہے کہ میں جانتا ہوں کہ یہ حق ہے مگر میں اس کو نہیں اپناتا ایسا ہونا ممکن نہیں ہر مذہب کے علماء نے کچھ چیزوں کا تذکرہ کیا ہے جن کا شمار کرنا مشکل ہے ایسے اقوال ، افعال اور اعتقادات ہیں جن کے اپنانے والے یا ارتکاب کرنے والے کو کافر کہاجاتا ہے مگر یہ شرط کسی عالم نے نہیں لگائی کہ ان میں سے کوئی چیز عناد کی وجہ سے پائی جائے تو شرک ہے ورنہ نہیں لہٰذا اب اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ کفر کا ارتکاب کرنے والا اگر غلطی ، لاعلمی ، تقلید یا تاویل کی وجہ سے کفر کرتا ہے تو اس کا عذر قابل قبول ہے ایسا کہنے والا کتاب وسنت کا مخالف ہے اجماع کے خلاف بات کرتا ہے ۔ اسی طرح اگر کسی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت میں شک کیا تو وہ بھی کافر ہے۔ (الدررالسنیۃ : ۱۲/۷۳،۲۹)