• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خاندان یزید و خاندان حسینؓ کے مابین رشتہ داریاں

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
509
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
خاندان یزید و خاندان حسینؓ کے مابین رشتہ داریاں

تحریر: محمد فھد حارث

اسلامی تاریخ کے سرسری و سطحی مطالعہ سے بعض لوگوں نے یہ نظریہ قائم کرلیا ہے کہ گویا بنو امیہ یعنی خاندان یزید اور بنو ہاشم یعنی خاندان حسین کے مابین کوئی سخت دشمنی تھی لیکن جب ہم انساب کی مستند کتب کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معاملہ اس کے بالکل برعکس نظر آتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اہل بیت کی خواتین کثرت سے بنو امیہ میں بیاھی گئیں اور بنو امیہ و بنو ہاشم میں واقعہ کربلا کے بعد بھی مصاہرت کے تعلقات چلتے رہے اور ظاہر سی بات ہے کہ ایک انسان اپنی بیٹی اور بہن اسی خاندان میں بیاہتا ہے جس کے لوگوں کے بارے میں اسکو قطعی اطمینان ہو کہ وہ ذی شرف و عالی مرتبت ہیں اور ہماری خواتین کا خیال رکھیں گے۔ اس سلسلے میں کچھ رشتہ داریاں بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں:

۱۔ سیدنا علی ؓ کی صاحبزادی رملہ مروان ؓ بن الحکم کے فرزند معاویہ بن مروانؒ کو بیاہی تھی جو کہ خلیفہ عبدالملک بن مروانؒ کے حقیقی بھائی تھے۔ (جمہرۃ الانساب ابن حزم، ص ۸۰)

۲۔ سیدنا علیؓ کی دوسری صاحبزادی انہی مروانؓ بن الحکم کے بیٹے عبدالملک بن مروان جو کہ خلیفہ تھے اپنے زمانہ میں انکو بیاہی تھی۔ (البدایہ و النہایہ ج ۹، ص ۶۹)

۳۔ سیدنا علی ؓ کی تیسری صاحبزادی خدیجہؒ امیر عامرؓ بن کریز اموی کے فرزند عبدالرحمٰن کو بیاہی گئی تھی۔ (جمہرۃ الانساب ص ۶۸)

اسی طرح سیدنا علی ؓ کے بڑے بیٹے حسنؓ کی ایک نہیں بلکہ ۶ پوتیاں اموی خاندان میں بیاہی گئی تھیں:

۱۔ سیدہ نفسیہؒ بنت زید بن حسن کی شادی خلیفہ ولید بن عبدالملک بن مروانؒ سے ہوئی (عمدۃ الطالب ص ۴۴)

۲۔ ان نفسیہؒ کی چچا زاد بہن زینب بنت حسن مثنیٰ بن حسن کی شادی بھی خلیفہ ولید بن عبدالملک بن مروانؒ سے ہوئی تھی۔ (جمہرۃ الانساب ص ۳۶)

۳۔ سیدنا حسن بن علیؓ کی تیسری پوتی ام قاسم بنت حسن مثنیٰ بن حسن کی شادی عثمانؓ کے پوتے مروان بن ابان بن عثمانؒ سے ہوئی۔ مروان بن عثمان کے انتقال کے بعد یہ ام قاسم علی بن حسین (زین العابدین) کے عقد میں آئیں۔ (جمہرۃ الانساب ص ۳۷)

۴۔ سیدنا حسن بن علیؓ کی چوتھی پوتی مروانؓ کے ایک فرزند معاویہؒ بن مروان بن الحکم کے عقد میں آئیں جن کے بطن سے حسنؓ کے اموی نواسہ ولید بن معاویہ متولد ہوئے۔ (جمہرۃ الانساب ص ۸۰، ۱۰۰)

۵۔ سیدنا حسن بن علیؓ کی پانچویں پوتی حمادہ بنت حسن مثنیٰ مروانؓ کے ایک بھتیجے کے فرزند، اسماعیل بن عبدالملک بن الحارث بن الحکم کو بیاہی گئی تھیں۔ (جمرۃالانساب ص ۱۰۰)

۶۔ سیدنا حسنؓ کی چھٹی پوتی خدیجہ بنت الحسین بن حسن بن علیؒ کی شادی بھی اپنی چچیری بہن حمادہ کے نکاح سے پہلے اسماعیل بن عبدالملک بن الحارث بن الحکم سے ہوئی تھی جن کے بطن سے حسنؓ کے چار اموی نواسے محمد الاکبرو حسین و اسحٰق و مسلمہ پیدا ہوئے۔ ( جمہرۃ الانساب ص ۱۰۰)

سیدنا حسن بن علیؓ کی طرح حسین بن علی ؓ کے گھر کی خواتین بھی کثرت سے بنو امیہ میں بیاہی گئی تھیں:

۱۔ سیدنا حسین بن علیؓ کی صاحبزادی سکینہؒ نے اپنے شوہر مصعب بن زبیرؓ کے مقتول ہوجانے کے بعد مروانؓ کے پوتے الاصبغ بن عبدالعزیز بن مروان سے نکاح کیا جو کہ خلیفہ عمر بن عبدالعزیزؒ کے بھائی تھے۔ ان الاصبغ کی دوسری بیوی یزید بن معاویہ ؒ کی بیٹی ام یزیدؒ تھیں ۔ (کتاب نسب قریش ص ۵۹، المعارف ابن قیتبہ ص ۹۴)

۲۔ سیدنا سکینہ بنت حسینؒ کا ایک اور نکاح عثمان بن عفان کے پوتے زید بن عمرہ بن عثمان اموی سے ہوا تھا، بعد میں ان سے علحیدگی ہوگئی تھی۔ ( المعارف ابن قتیبہ ص ۹۳، جمہرۃ الانساب ص ۷۹)

۳۔ سیدنا حسینؓ کی نواسی ربیحہ بنت سکینہ جو ان کے شوہر عبداللہ بن عثمان بن عبداللہ بن حکیم سے تھیں، مروانؓ کے پڑپوتے العباس بن ولید بن عبدالملک بن مروان کو بیاہی تھیں۔ (کتاب نسب قریش مصعب زبیری ص ۵۹)

۴۔ سیدناحسینؓ کی دوسری صاحبزادی سیدہ فاطمہؒ کا نکاح ثانی اپنے شوہر حسن مثنیٰ کے بعد اموی خاندان میں عبداللہ بن عمرو بن عثمان ذی النورینؓ سے ہوا۔ (جمہرۃ الانساب ص ۷۶)

۵۔ سیدنا حسینؓ کے ایک پڑپوتے حسن بن حسین بن علی بن حسین کی شادی اموی خاندان میں خلیدہ بنت مروان بن عنبسہ بن سعد بن العاص بن امیہ سے ہوئی تھی۔ (جمہرۃ الانساب ص ۷۵)

۶۔ سیدنا حسینؓ کے ایک اور پڑ پوتے اسحٰق بن عبداللہ بن علی بن حسین کی شادی اموی و عثمانی خاندان میں عائشہ بنت عمر بن عاصم بن عثمان ذی النورین سے ہوئی تھی۔ (جمہرۃ الانساب ص ۴۷)

اس کے علاوہ بنو ہاشم و بنو امیہ میں دیگر رشتہ داریاں بھی ہوتی رہیں جیسا کہ:

۱۔ سیدنا حسین بن علیؓ کے بھائی عباس بن علیؓ کی پوتی نفیسہ بنت عبیداللہ بن عباس بن علی کی شادی خلیفہ یزید بن معاویہؒ کے پوتے عبداللہ بن خالد بن یزید سے ہوئی۔ (جمہرۃا لانساب ص ۱۰۳، کتاب نسب قریش ص ۷۹)

۲۔ سیدنا علی ؓ کے بھتیجے محمد بن جعفر طیارؓ بن ابی طالب کی صاحبزادی رملہ کا نکاح مروانؓ کے پڑ پوتے سلیمان بن خلیفہ ہشام بن خلیفہ عبدالملک بن خلیفہ مروان سے ہوا تھا۔ ان کے انتقال کے بعد ان ہاشمیہ خاتون کا نکاح ثانی ابو سفیان بن حربؓ کے پڑ پوتے ابو القاسم بن ولید بن عتبہ بن ابو سفیان سے ہوا تھا۔ ان ابو القاسم بن ولید کی والدہ لبابہ بنت عبیداللہ بن عباس بن عبدالمطلب یعنی حسین بن علیؓ کی رشتہ میں چچیری بہن تھیں اور ان کے اموی شوہر ولید بن عتبہ بن ابو سفیان امیر المومنین معاویہؓ کے بھتیجے تھے۔ (جمہرۃ الانساب ص ۱۰۲)

۳۔ سیدنا حسینؓ کی بھانجی ام کلثوم بنت عبداللہ بن جعفر طیارؓ جو کہ زینبؓ بنت علیؓ کے بطن سے تھیں، اول اپنے چچا زاد قاسم بن محمد بن جعفر کے عقد میں آئیں۔ ان کے بعد انکا نکاح ثانی اموی گورنر حجاج بن یوسف ثقفی سے ہوا جن سے ایک بیٹی ہوئی، پھر زوجین میں علحیدگی ہوگئی۔ ان کا تیسرا نکاح اموی خاندان میں عثمانؓ کے فرزند ابان بن عثمان سے ہوا یعنی یہ ام کلثوم عثمان بن عفانؓ کی بہو ہوتی تھیں۔ (المعارف ابن قتیبہ ص ۹۰، جمہرۃ الانساب ص ۶۱، ۱۱۴)

۴۔ سیدنا حسین بن علیؓ کے حقیقی چچیرے بھائی اور بہنوئی عبداللہ بن جعفر طیار کی دوسری صاحبزادی ام محمد کا نکاح خلیفہ یزید بن معاویہ بن ابو سفیانؓ سے ہوا۔ اس حساب سے خلیفہ یزید بن معاویہ، حسین بن علیؓ کے بھتیج داماد تھے۔ حسین بن علیؓ کی بہن زینب بنت علی ان ام محمد کی سوتیلی والدہ تھیں اور اس ناطے یزید بن معاویہ سیدہ زینب بنت علی کے داماد تھے۔

یہ اور اس طرح کی اور ساری رشتہ داریاں جو کہ طوالت کے خوف سے ہم یہاں نقل نہیں کررہے ہیں بنو امیہ و بنو ہاشم میں ہوتی رہیں۔ غور طلب امر یہ ہے کہ کچھ کو چھوڑ کر یہ قریباً تمام کی تمام رشتہ داریاں واقعہ صفین و کربلا کے بعد کی ہیں۔سو عقلمند کے لئے اشارہ ہی کافی ہے ۔
 

Badar Umair

مبتدی
شمولیت
فروری 01، 2022
پیغامات
8
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
9
جناب اگر ان سب حوالوں کی اسناد بھی مل جائیں تو بڑی مہربانی ہوگی
 

Dr. Irfan

مبتدی
شمولیت
مئی 01، 2020
پیغامات
7
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
28
تاریخ کی کتب میں اکثر اسناد نہیں ہوتی۔ واقعہ کربلا کی اتنی تفصیلات جو موجود ہیں تاریخ میں اس کی کیا اسناد ہیں ۔اور عجیب بات ہے کہ امام حسن اور حسین کے عہد طفولیت کے واقعات ملیں گے یا پھر وفات کے درمیان کے چالیس پچاس سال کی کوئی باتیں نہیں تاریخ میں ۔۔۔
 
Top