• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خاوند کا ۔۔ بیوی پر حق

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
کیا عورت پرشادی کرنا واجب ہے

کیا عورت کے لیے شادی کرنا واجب ہے ؟

الحمد للہ:

اس سوال کا جواب دینے کے لیے ہم ذیل میں مسلمان فقھاء کرام کے موقف کوپیش کرتے ہیں :

مواھب الجلیل میں لکھا ہے :

عورت پر اس کے نان ونفقہ اورسرچھپانے سے عاجز ہونے کی بنا پر نکاح کرنا واجب ہے کیونکہ یہ سب کچھ اسے نکاح سے ہی حاصل ہوسکتا ہے ۔
شرح الکبیر میں ہے کہ :

اگر اسے اپنے آپ پر زنا میں پڑنے کا خدشہ ہو تو نکاح واجب ہے ۔

اورفتح الوھاب میں ہے :

طاقت رکھنے والی عورت پر نکاح کرنا سنت ہے ، اوراسی طرح نفقہ کی محتاج اوروہ عورت جسے فاجر قسم کے مردوں کے حملوں کا ڈر ہو وہ بھی اسی حکم میں شامل ہے ۔

اورصاحب مغنی المحتاج کہتے ہیں :

جب زنا کا خوف ہو تو نکاح کرنا واجب ہے ، ایک قول ہے جب نذر مانے توبھی نکاح واجب ہے ، پھر عورت کے نکاح کے حکم میں اس کا قول ہے : اگروہ اس کی محتاج ہو ، یعنی اسے نکاح یا پھر نفقہ کی ضرورت ہو یا وہ فاجر قسم کے لوگوں کے حملے سے ڈرے تو پھر اس کے لیے نکاح کرنا مستحب ہے ، یعنی اس میں دین اورشرمگاہ کی حفاظت اورنفقہ وغیرہ کی خوشحالی ہے ۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی اپنی کتاب المغنی میں کہتے ہیں :

وجوب نکاح میں ہمارے اصحاب میں اختلاف ہے ، مشہور مسلک تویہی ہے یہ واجب نہيں ہے ، لیکن اگر کسی کونکاح ترک کرنےکی بنا پر حرام کام میں پڑنے کا خدشہ ہو تواس پر اپنے نفس کی عفت لازمی ہے ، عام فقھاء کرام کا قول یہی ہے ۔

نکاح کے بارہ میں لوگوں کی تین قسمیں ہيں :

کچھ تو ایسے ہیں کہ اگر وہ نکاح نہ کرے تواسے حرام کام میں پڑنے کا خدشہ ہو عام فقھاء کرام کے ہاں ایسے شخص کے لیے نکاح کرنا واجب ہے کیونکہ اس پر اپنے آپ کوحرام کام سے بچانا اورعفت اختیار کرنا لازم ہے اوریہ نکاح کے بغیر نہیں ہوسکتا ۔

اورسبل السلام میں ہے :

ابن دقیق رحمہ اللہ تعالی نے ذکر کیا ہے کہ : جسے حرام کام میں پڑنے کا خدشہ ہواور وہ نکاح کی طاقت بھی رکھتا ہو ایسے شخص پر کچھ فقھاء کرام نے نکاح کرنا واجب قرار دیا ہے ، توایسے شخص پر نکاح کرنا واجب ہوگا جونکاح کیے بغیر زنا ترک نہيں کرسکتا ۔

اورصاحب بدائع الصنائع کا کہنا ہے :

نکاح کی خواہش اورطاقت رکھنے کی حالت میں نکاح کرنا فرض ہے ، حتی کہ جو شخص عورت کی خواہش رکھتا ہو اورصبر نہ کرسکتا ہو اور مہر و نان نفقہ دینے کی کی قدرت بھی رکھنے کے باوجود نکاح نہ کرے تو وہ گنہگار ہوگا ۔

اوپر کے بیان میں اس بات کی وضاحت بیان کی گئي ہے کہ کن کن حالات میں نکاح کرنا واجب ہوتا ہے ، اب اگر آپ یہ کہیں کہ ہم عورت کے متعلق یہ کس طرح تصور کرسکتے ہیں ، عادت تو یہ ہے کہ مرد ہی تلاش کرت اور شادی کا پیغام دیتا اور نکاح کےلیے دروازے کھٹکھٹاتا ہے ، یہ کام عورت کا نہیں ؟

تواس کا جواب یہ ہے کہ اس کے بارہ میں جوکچھ عورت کرسکتی ہے وہ یہ کہ اگر اس کے پاس کوئي اچھا اورکفو دینی رشتہ آتا ہے تو اسے رد نہیں کرنا چاہیے بلکہ وہ قبول کرلے ۔

عورت اورمرد کے لیے ضروری ہے کہ اسے یہ علم ہونا چاہیے کہ اسلام میں نکاح کا بہت ہی عظيم مقام ومرتبہ ہے ، جب اسے یہ علم ہوگاتو پھر وہ اس کی حرص بھی رکھیں گے ذيل میں ہم اس موضوع کے بارہ میں بہت ہی اچھا خلاصہ پیش کرتے ہیں :

امام ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ تعالی اپنی کتاب المغنی میں کہتے ہيں :

فصل :

نکاح کی مشروعیت میں اصل تو کتاب وسنت اوراجماع ہے :

کتاب اللہ کے دلائل :

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{ اورعورتوں سے جو بھی تمہیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کرلو ، دد دو ، تین تین ، چار چار سے } النساء ( 3 ) ۔

اورایک دوسرے مقام پرکچھ اس طرح فرمایا :
{ تم میں سے جو مرد و عورت بے نکاح ہیں ان کا نکاح کردو ، اوراپنے نیک بخت غلاموں اورلونڈیوں کا بھی } النور ( 32 ) ۔
سنت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دلائل :

ابن مسعود رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( اے نوجوانوں کی جماعت تم میں سے جوبھی شادی کرنے کی استطاعت رکھتا ہے اسے شادی کرنی چاہیے کیونکہ یہ آنکھوں کو نیچا کرتا ہے اورشرمگاہ کی حفاظت کا باعث ہے ، اورجو طاقت نہيں رکھتا اسے روزے رکھنے چاہيیں یہ اس کے لیے ڈھال ہیں ) متفق علیہ ۔
اس کے علاوہ اوربھی بہت سی آيات واحادیث ہیں ، اورمسلمانوں کا نکاح کے مشروع ہونے پر اجماع ہے ۔

ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ اگر میری عمر کے دس دن بھی باقی بچیں اورمجھے علم ہو کہ میں اس کے آخر میں فوت ہوجاؤں گا اورمجھے نکاح کی خواہش ہو تو میں نکاح کرلوں گا کہ کہيں فتنہ میں نہ پڑ جاؤں ۔

اورعبداللہ بن عباس رضي اللہ تعالی عنہما نے سعید بن جبیر رحمہ اللہ تعالی کو فرمایا :

شادی کرو کیونکہ اس امت کا سب سے بہتر شخص وہ ہے جس کی عورتیں زيادہ ہوں ۔

اورابراھیم بن میسرہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مجھے طاؤس رحمہ اللہ نے کہا تم نکاح کرلو وگرنہ تمہیں وہی بات کہوں گا جوعمر رضي اللہ تعالی عنہ نے ابی الزوائد کو کہی تھی : کہ یا تو تم نکاح کے قابل ہی نہیں یا پھر تمہیں فجور نے نکاح کرنے سے روک رکھا ہے ۔

مروزي کی روایت میں ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ نے کہا : بغیر شادی کے رہنا اسلام میں کہيں بھی نہیں ملتا ، اورفرمایا : جو تمہيں یہ کہے کہ شادی نہ کرو وہ تمہیں اسلام کے علاوہ کسی اورچيز کی دعوت دے رہا ہے ۔

پھر رحمہ اللہ تعالی کہنے لگے :

نکاح کی مصلحتیں بہت ساری ہیں ، اس میں دین اسلام کی حفاظت اوربچا‎ؤ ہے اور اسی طرح عورت کی بھی حفاظت و پاکبازی اوراس کے حقوق کاخیال اورنسل آگے بڑھتی ہے اورامت اسلامیہ کی کثرت ہے اوراس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فخر کا ثبوت ہے اوراس کے علاوہ بھی بہت ساری مصلحتیں پائي جاتی ہيں ۔

اےہماری سوال کرنے والی بہن اس سے آپ کویہ علم ہوگا کہ نکاح کی مصلحت اورمنافع بہت زيادہ ہیں ، اس لیے مسلمان عورت اس سے پیچھے نہيں رہتی اورخاص کر جب اسے کوئي دین اوراخلاق والا رشتہ مل رہا ہو ۔

واللہ اعلم .

شیخ محمد صالح المنجد

http://islamqa.info/ur/1665
 

شعیب طیار

مبتدی
شمولیت
اکتوبر 09، 2015
پیغامات
1
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
28
11015 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
یہ حدیث بالکل صحیح ہے ۔علامہ الالبانی ؒؒ نے اسے ۔حسن صحیح ۔کہا ہے۔۔حسن صحيح - ((التعليق الرغيب))

اور علامہ شعیب ارناوط نے صحیح ابن حبان کی تعلیق و تخریج میں اسے ’‘ حسن ’‘قرار دیا ہے ۔نیچے اس کا سکین پیش خدمت ہے ۔

11016 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
والحديث الثاني :
جاء عَنْ أَبِى سَعِيدٍ الْخُدْرِىِّ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ :
( جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِىِّ صلى الله عليه وسلم بِابْنَةٍ لَهُ فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ! هَذِهِ ابْنَتِى قَدْ أَبَتْ أَنْ تَزَوَّجَ . فَقَالَ لَهَا النَّبِىُّ صلى الله عليه وسلم : أَطِيعِى أَبَاكِ . فَقَالَتْ : وَالَّذِى بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لاَ أَتَزَوَّجُ حَتَّى تُخْبِرَنِى مَا حَقُّ الزَّوْجِ عَلَى زَوْجَتِهِ .
قَالَ : حَقُّ الزَّوْجِ عَلَى زَوْجَتِهِ أَنْ لَوْ كَانَتْ لَهُ قُرْحَةٌ فَلَحِسَتْهَا مَا أَدَّتْ حَقَّهُ )
زاد بعض الرواة : ( أَوِ انْتَثَرَ مَنْخِرَاهُ صَدِيدًا أَوْ دَمًا ، ثُمَّ ابْتَلَعَتْهُ مَا أَدَّتْ حَقَّهُ ، فَقَالَتْ : وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ ، لا أَتَزَوَّجُ أَبَدًا ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لا تُنْكِحُوهُنَّ إِلا بِإِذْنِهِنَّ )
رواه ابن أبي شيبة في " المصنف " (3/556)، والنسائي في "السنن الكبرى" (3/283)، والبزار – كما في " كشف الأستار " (رقم/1465) - وابن حبان في " صحيحه " (9/473)، والحاكم في " المستدرك " (2/205)، وعنه البيهقي في " السنن الكبرى " (7/291)
جميعهم من طريق : جعفر بن عون ، قال حدثني ربيعة بن عثمان ، عن محمد بن يحيى بن حبان ، عن نهار العبدي ، عن أبي سعيد به .
وإسناد الحديث لا يحتمل مثل هذا المتن ، مع ما فيه من النكارة .
جعفر بن عون : قال فيه أحمد : ليس به بأس ، وقال أبو حاتم : صدوق .
أما وربيعة بن عثمان : وثقه يحيى بن معين والنسائي ، لكن فيه أبو حاتم : منكر الحديث يكتب حديثه .
وأما نهار العبدي : فقال فيه النسائي حين أخرج حديثه ههنا : مدني لا بأس به .
ولذلك لما قال الحاكم رحمه الله :
" هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه " انتهى.
تعقبه الذهبي في "تلخيصه" فقال ِ:
" بل منكر ، قال أبو حاتم : ربيعة منكر الحديث " انتهى .

وقال الشيخ قال الشيخ عبدالله الجديع في كتابه "تحرير علوم الحديث" (2/757) , عند حديثه عن علامات كشف العلة عند المتقدمين:
"أن يدل على نكارة الحديث ما يجده الناقد من نفرة منه ، ينزه عن مثلها الوحي وألفاظ النبوة.
والمقصود أن يقع ذلك الشعور لمن عايش المفردات والمعاني النبوية ، حتى أصبح وهو يحرك لسانه بالألفاظ النبوية ، وكأنه يتذوق منها ريق النبي صلى الله عليه وسلم ، فهذا قد يرد عليه من الرواية ما يجد له مرارة ، أو بعض مرارة ، فيرد على قلبه الحرج في نسبة مثل ذلك إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فيكون ذلك الشعور علامة على علة في الرواية ، توجب عليه بحثاً عن محل الغلط منها حتى يقف عليه .
وليس المقصود أن ينصب الناقد هواه ومزاجه مجرداً لقبول الحديث أو رده ، فإن الرأي يخطئ مهما اعتدل وراقب صاحبه ربه ، والهوى لا تعصم منه نفس .
ومما وجدته يصلح لهذا مثالاً ، حديث بقي في القلب منه غصة زماناً ، حتى اطمأنت النفس لعلته ، وهو حديث أبي سعيد الخدري ... "
فذكر الحديث السابق ، ثم قال :
" فهذا الحديث فيما ذكر فيه من وصف حق الزوج على الزوجة بهذه الألفاظ المنفرة المستنكرة ، ليس في شيء من المعهود في سنة أعف خلق الله صلى الله عليه وسلم ، والذي أوتي الحكمة وفصل الخطاب وجوامع الكلم ، وقد فصل الله في كتابه ونبيه ذو الخلق العظيم صلى الله عليه وسلم في سنته الحقوق بين الزوجين بأجمع العبارات وأحسن الكلمات ، كلها من باب قول ربنا عز وجل : ( ولهن مثل الذي عليهن بالمعروف ) البقرة/228 .

وأما علة الحديث فما هي مجرد النفرة من صيغة تلك العبارات ، وإنما روى هذا الحديث جعفر بن عون ، قال : حدثني ربيعة بن عثمان ، عن محمد بن يحيى بن حبان ، عن نهار العبدي ، عن أبي سعيد ، به. قال البزار : " لا نعلمه يروى إلا بهذا الإسناد ، ولا رواه عن ربيعة إلا جعفر " .
وقال الحاكم : " حديث صحيح الإسناد " ، فتعقبه الذهبي بجرح ربيعة .
وكنت اغتررت مدة بكون ربيعة هذا قد أخرج له مسلم في " الصحيح " حديثه : " المؤمن القوي " ، من روايته عن محمد بن يحيى بن حبان ، محتجاً به ، فأجريت أمره على القبول في هذا الحديث .
والتحقيق أن تخريج مسلم له لا يصلح الاحتجاج به بإطلاق ، فمسلم قد ينتقي من حديث من تكلم فيه ، وكان الأصل فيه الثقة ، فيخرج من حديثه ما تبين له كونه محفوظاً .
أما هذا الحديث ، فالشأن كما ذكر البزار من تفرد جعفر به عن ربيعة ، وهو إسناد فرد مطلق. وربيعة هذا قال يحيى بن معين ومحمد بن سعد : " ثقة " ، وقال النسائي : " ليس به بأس " ، لكن قال أبو زرعة الرازي : " إلى الصدق ما هو ، وليس بذاك القوي " ، وقال أبو حاتم الرازي : " منكر الحديث ، يكتب حديثه " .
قلت : والجرح إذا بان وجهه وظهر قدحه فهو مقدم على التعديل ، كما شرحته في محله من هذا الكتاب ، فالرجل أحسن أحواله أن يكون حسن الحديث ، بعد أن يزول عما يرويه التفرد ، فيروي ما يروي غيره ، أو يوجد لحديثه أصل من غير طريقه بما يوافقه .
وليس كذلك في هذا الحديث. اهـ

والحاصل :
أن الجملة المذكورة ، والتي محل استشكال السائل في الروايتين : في ثبوتها نظر ، والأقرب أنها ضعيفة لا تثبت .

وأما تعظيم حق الزوج على زوجته ، وما فيه من أنه يبلغ بها أن تسجد له ، لو كان يصح لبشر أن يسجد لبشر ؛ فقد ثبت ذلك في الحديث الذي يرويه جماعة من أصحاب السنن عن جماعة من الصحابة ، منهم : أبو هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :
( لَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا )
رواه الترمذي (1159) وقال : وَفِي الْبَاب عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ وَسُرَاقَةَ بْنِ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ وَعَائِشَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى وَطَلْقِ بْنِ عَلِيٍّ وَأُمِّ سَلَمَةَ وَأَنَسٍ وَابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ .
وقال الهيثمي رحمه الله : " إسناده حسن " انتهى. " مجمع الزوائد " (9/10)، وصححه الألباني في " إرواء الغليل " (7/54)
 
Top