• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خدا سے جنگ

غزنوی

رکن
شمولیت
جون 21، 2011
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
659
پوائنٹ
76
خدا سے جنگ


سعودی عرب میں مجرموں کو پھانسیاں دی جاتی ہیں اس لئے وہاں جرم بہت کم ہوتے ہیں۔ یہ فقرہ اکثر اخبارات کے مضامین میں پڑھنے کو ملتا ہے اور کئی لوگ گفتگو میں بھی یہ بات کہتے ہیں۔ یہ سچ ہے مگر پورا نہیں صرف آدھا سچ ہے۔ سعودی عرب میں محض مجرموں کو پھانسیاں ہی نہیں ملتیں، ایسے حالات بھی پیدا کئے جاتے ہیں جن میں جرائم کی ضرورت رہے نہ ہی گنجائش‘ جرم کو سر اٹھانے کا موقع نہ ملے۔ خاص طور سے ایسے جرم جو غربت محرومی اور نا انصافی کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔ سعودی حکومت نے ایسے رفاہی انتظامات کئے ہیں کہ پورے ملک میں کوئی شخص علاج نہ ہونے سے نہیں مرتا۔ کوئی بھوکابھی نہیں مرتا، مفت تعلیم کے علاوہ ، ویلفیئر کے بے شماردوسرے انتظامات ہیں جن کی وجہ سے ایسے جرائم کی زمین ہی نہیں رہی جس کا تعلق غربت سے ہو۔ سعودی عرب کے مختلف علاقوں میں معاشی تفاوت موجود ہے مثلاً جنوب کے صوبے اتنے خوشحال نہیں جتنے شمال کے ہیں لیکنان صوبوں میں بھی غربت ایسی نہیں کہ اس کا موزانہ پاکستان یا بھارت کے غریب علاقوں سے کیا جا سکے۔


اسلام میں سخت جرائم پر سخت سزائیں ہیں لیکن فیصلہ سناتے ہوئے ان حالات کو بھی سامنے رکھنا پڑتا ہے جن میں جرم ہوا۔ مثال کے طور پرحضرت عمر فاروقؓ کے دور میں ایک غریب نے چوری کی تو نہ صرف اسے سزا نہیں دی گئی بلکہ اس کی مالی مدد کی گئی۔ لیکن غیر منصفانہ سزائیں، اگر مسلمان ملکوں میں دی جائیں تو نہ صرف خود ’جرم‘ ہیں بلکہ اس سے اسلام کی بدنامی بھی ہوتی ہے۔دنیا کے بہت سے ممالک میں پریس ایسی خبریں اچھالتا ہے اور لوگوں کو بتاتا ہے کہ اسلام وحشیانہ سزاؤں کا مذہب ہے حالانکہ اس تاثر کی اسلامی تاریخ واضح نفی کرتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے افغانستان میں طالبان نے مجرموں کو کوڑے مارنے کی سزائیں دینے کا سلسلہ شروع کیا توپوری دنیا میں اس پر احتجاج ہوا۔ اگرچہ موت کی سزائیں سنانے میں طالبان نے بھی قدرے تامل اور احتیاط سے کام لیا۔


ان دنوں ایران میں دو یتیم بچوں کی سرعام پھانسی کی خبر مغربی میڈیا میں بہت زیادہ کوریج لے رہی ہے۔ 20اور21سال کے ان لڑکوں کو ایک شخص کو چھرا مارنے اور اس سے 20ڈالر لوٹنے پرسزائے موت دی گئی اور اعلان کیا گیا کہ پھانسی سرعام دی جائے گی۔انہوں نے جس شخص کو چھرا مارا ، وہ صرف زخمی ہوا جس پر عام قانون کے تحت موت کی سزا نہیں بنتی لیکن تہران کی مذہبی عدالت نے انہیں’’محاربین‘‘ قرار دیا یعنی ایسے لوگ جو خدایا ریاست سے جنگ کررہے ہوں، عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ واضح نہیں کیا کہ ایک شخص سے 20ڈالر چھیننے کی کوشش صرف ڈکیتی کی واردات کیوں نہیں ہے اور محاربہ کس وجہ سے ہو گئی ہے؟


تہران کے ایک پارک’’ہنرمندان‘‘ میں دونوں نوجوانوں کو کرینوں سے لٹکا کر پھانسی دی گئی، تماشائیوں میں دونوں کی مائیں اور کم عمر بہنیں بھی تھیں جو زاروقطار رو رہی تھیں اور رحم کی اپیلیں کررہی تھیں۔ایک ماں نے میلا کچیلا برقعہ اوڑھ رکھا تھا 23سالہ علی رضا مفیہا اور20سالہ محمد علی سروری بے روزگار تھے اور نہایت غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ دونوں نے دو ماہ پہلے ایک شخص کو چھرا مار کر اس سے 20ڈالر (تقریباً200روپے کے مساوی ) چھین لئے تھے۔ مفیہا نے بتایا کہ اس کی والدہ کا آپریشن ضروری تھا جس کے لئے ان کے پاس پیسے نہیں تھے۔ وہ بے روزگار ہیں اور وہ ان کے والد اس وقت چل بسے تھے جب وہ بہت چھوٹے تھے۔انہیں ماں کی زندگی بچانے کے لئے یہ رقم چاہیے تھی۔ دوران مقدمہ ایرانی سپریم کورٹ کے سربراہ آیت اللہ لاریجانی نے کہا کہ ’’اگرچہ ان دونوں نے کسی کو قتل نہیں کیا لیکن دونوں کو سزائے موت ملے گی کیونکہ ہمیں سٹریٹ کرائم کو روکنے کے لئے سختی کرنا ہی ہو گی۔‘‘


دونوں کو سزا عبدالقاسم صلاواتی نامی جج نے سنائی جو مہنگائی کے خلاف 2009ء میں ہونے والے مظاہروں میں شرکت کرنے والوں کو سخت ترین سزائیں دینے پر ملک بھر میں بدنام ہو چکا ہے۔ عبدالقاسم جج نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ان دونوں لڑکوں نے خدا سے جنگ کی ہے اس لئے سزائے موت کے مستحق ہیں۔


اس جج نے یا کسی اور جج نے کبھی نہیں بتایا کہ جو لوگ کرپشن کرتے ہیں اور بد انتظامی کے مرتکب ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں غربت جنم لیتی ہے ۔ لوگ بھوکوں مرتے ہیں، صاف لباس پہننے کے حق سے محروم ہو جاتے ہیں تو ایسے کرپٹ اور نا اہل حکام کے بارے میں کون سا اصول ہے؟ظاہر ہے ان پارسا لوگوں پر خدا سے جنگ کا الزام تو لگنے سے رہا۔


کرینوں کو ریموٹ کنٹرول سے چلایا گیا۔ ان پر لگے پھندے دونوں نوجوانوں کے گلے پر فٹ ہو گئے۔ کرینوں کی لمبی گردنیں فضا میں بلند ہوئیں اور دونوں کی گردن ایک جھٹکے سے چٹخ گئی۔


ان کے منہ پر نقاب نہیں تھا۔ جلاد ان کی چیخیں سننے کے منتظر تھے لیکن وہ کوئی آواز پیدا کئے بغیر ، خاموشی سے، خدا کے ساتھ جنگ کرنے کے جرم میں موت کی وادی میں اُتر گئے۔ تماشائیوں کے رونے کی لے ذرا کی ذرا اونچی ہوئی جو آہستہ آہستہ ٹھنڈی سانسوں میں تحلیل ہو گئی اور پھر خاموشی چھا گئی ۔ ہجوم آہستہ آہستہ منتشر ہو گیا۔


ایران کے سیاسی حکام کا کہنا ہے کہ بڑھتے ہوئے سٹریٹ کرائم کا یہی علاج ہے لیکن تہران کی پولیس اس سے اتفاق نہیں کرتی۔ اس کا کہنا ہے کہ حکومت کی بدانتظامی نے معیشت کو تباہ کردیا ہے۔ جس سے مہنگائی اور بے روزگاری عروج پر ہیں اور جرائم میں اضافے کی یہی وجہ ہے۔غربت اتنی بڑھ گئی ہے کہ لوگ علاج کرانے سے بھی قاصر ہیں ، دوائیں ان کی پہنچ سے باہر ہیں اور اَن گنت آبادی ایسی ہے جو اپنے بچوں کو روزانہ معمولی جیب خرچ دینے کی سکت بھی نہیں رکھتی۔ ایران میں کوئی یہ لکھنے یا بولنے کی جرأت نہیں رکھتا کہ جو لوگ اس تباہ حالی کی وجہ بن رہے ہیں، ان کا کیا علاج ہے ؟ اور یہ علاج کرنے کا اختیار کسے ہے!۔


ایرانی معیشت جس تیزی سے روبہ زوال ہے، وہ آنے والے زیادہ بھیانک دنوں کی خبر دے رہی ہے۔ معیشت کی تباہی کی تین بڑی وجوہات ہیں۔ پہلی ایٹمی پروگرام کے حوالے سے امریکہ اور اقوام متحدہ کی پابندیاں اور دوسری حکام کی نا اہلی اور کرپشن(ایران کے غیر عالم صدر احمدی نژاد کی کوئی نہیں سنتا اور آیت اللہ حضرات امور حکومت چلانے پر مصر ہیں چاہے وہ محکموں کی باریکیاں اور تقاضے سمجھ سکتے ہوں یا نہیں اور تیسری وجہ شام کو دی جانے والی امدادہے۔ ایران جانتا ہے کہ بشار الاسد حکومت زیادہ دن نہیں رہے گی لیکن وہ اسے بے تحاشہ مقدار میں رقم اور اسلحہ دے رہا ہے۔ شام کا اسلحہ کب کا ختم ہو چکا۔ اب وہ ساری جنگ ایرانی ہتھیاروں سے لڑ رہا ہے جن میں کلسٹر بم اور کیمیائی اسلحہ بھی شامل ہے۔ تینوں عوامل ایرانی معیشت کو سکیڑتے اور نچوڑتے چلے جارہے ہیں اورعوام کی غربت میں اضافہ کررہے ہیں۔ اور ایرانی معیشت کاروں کے مطابق غریب اور امیر طبقے میں فرق ریکارڈ سطح کو پہنچ چکا ہے۔ شام کو بے تحاشہ رقم دینے والی ایرانی حکومت کے پاس اپنے غریبوں کو ریلیف دینے کے لئے کچھ نہیں ۔ بہر حال، غنیمت ہے کہ اسے کرینوں کی کمی کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے۔


نئی بات​
 
Top