• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خلاصہ قرآن اہم نکات کے ساتھ

نسرین فاطمہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 21، 2012
پیغامات
1,281
ری ایکشن اسکور
3,232
پوائنٹ
396
بسمﷲ الرحمان الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

خلاصہ قرآن


پارہ نمر10 ( وَاعْلَمُواْ)
پارے کی ابتداء میں بتایا گیا ہے ’’مال غنیمت‘‘ میں سے پانچواں حصہ بیت المال کے لئے نکال کر باقی چار خمس مجاہدین میں تقسیم کردیئے جائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے پہلے سے کسی تیاری کے بغیر غزوہ بدر میں کفر و اسلام کو مدمقابل لانے کی حکمت بیان فرمائی کہ اگر تم مقابلہ کا وقت مقرر کرلیتے تو اس بات کا قوی امکان تھا کہ مسلمان اپنی تعداد و اسلحہ کی قلت کے پیش نظر پس و پیش کا مظاہرہ کرتے یا کافر مرعوب ہوکر مسلمانوں کے مقابلہ سے گریز کرتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ مسلمانوں اور کافروں سے جنگ چاہتے تھے تاکہ بے سروسامانی کے باوجود انہیں کامیاب کرکے حق و باطل کا فرق واضح کردیں اور جو مسلمان ہونا چاہے علی وجہ البصیرت ہو اور جو کافر رہنا چاہے وہ بھی سوچ سمجھ کر ہو۔ اس کے بعد جہاد میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنے اور ذکر الٰہی میں مشغول رہنے کی تلقین ہے، اس بات کا بیان ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے ساتھ باہمی اختلاف و نزاع سے بھی بچنا ضروری ہے۔ ورنہ ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ کافر ریاکاری اور تکبر کے ساتھ میدان میں اس لئے نکلے تھے تاکہ اہل ایمان کو اللہ کے راستہ سے روکیں اور شیطان انسانی شکل میں ان کی حوصلہ افزائی کررہا تھا مگر جب اس نے فرشتوں کی شکل میں اللہ کی مدد اترتی ہوئی دیکھی تو بھاگ اٹھا اور کہنے لگا کہ میں جس صورتحال کا مشاہدہ کررہا ہوں وہ تمہیں نظر نہیں آرہی ہے۔ اس وقت بعض منافق اور دلوں میں مرض رکھنے والے لوگ یہ کہہ رہے تھے، ان مسلمانوں کو ان کے دین نے دھوکے میں ڈال رکھا ہے اور انہوں نے اللہ کے بھروسہ پر اتنا بڑا خطرہ مول لے لیا ہے۔ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم اپنے پر توکل کرنے والوں کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں اور انہیں کامیابی عطا فرمایا کرتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس سے پہلے کافروں کے عبرتناک انجام کو بیان کیا اور بتایا کہ کافر بھی اسی صورتحال سے دوچار ہوکر رہیں گے۔ اس کے بعد قوموں کے عروج و زوال کا ناقابل تردید ضابطہ بیان فرمایا۔ اللہ کسی قوم کو اس وقت تک زوال پذیر نہیں کرتے جب تک وہ اپنی عملی زندگی میں انحطاط کا شکار نہ ہوجائیں۔ حضرت محمد علیہ السلام پر ایمان نہ لانے والے لوگ بدترین جانور ہیں۔ یہودیوں نے اس موقع پر میثاق مدینہ کی مخالفت کرتے ہوے مشرکین مکہ کی حمایت کی تھی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :عہد شکنی کرنے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنا چاہئے تاکہ دوسروں کو عبرت حاصل ہو اور خیانت کرنے والوں کے ساتھ کئے گئے معاہدوں کی پاسداری لازمی نہیں رہ جاتی ایسے معاہدے توڑ دینے چاہئیں۔ کافر یہ نہ سمجھیں کہ وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوجائیں گے وہ اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے۔ مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ دشمنان اسلام پر رعب ڈالنے کے لئے تم لوگ جس قدر ہوسکے قوت اور مضبوط گھوڑے تیار رکھو۔ اللہ کے راستہ میں تم جو بھی اخراجات کروگے اللہ تمہیں واپس کردیں گے۔ تم کافروں کے مقابلہ میں کسی قسم کی کمزوری کا مظاہرہ نہ کرنا البتہ اگر وہ تمہارے ساتھ صلح کرنا چاہیں تو پھر صلح کرلینا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ اللہ نے اپنی مدد اور ایمان والوں کی قوت سے آپ کو مضبوط کیا ہوا ہے اور ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے باہم شیر وشکر بناکر آپ کے گرد جمع کردیا ہے۔ ساری دنیا کا مال دولت خرچ کرکے بھی آپ انہیں اس طرح جمع نہیں کرسکتے تھے جس طرح اللہ نے انہیں جمع کردیا ہے۔ جہاد میں کامیابی کے لئے اللہ کی مدد اور مسلمانوں کا تعاون آپ کے لئے بہت کافی ہے۔ خود بھی جہاد کریں اور اہل ایمان کو بھی جہا دکی ترغیب دیں۔ ابتداء میں جب مسلمانوں کی تعداد کم تھی تو، اگر مسلمانوں اور کافروں میں ایک اور دس کا تناسب ہوتو میدان سے ہٹ جانے کو فرار عن الزحف اور گناہ کبیرہ قرار دیا گیا پھر جب تعداد زیادہ ہوگئی تو ایک اور دو کا تناسب باقی رکھا گیا اور اس سے زیادہ ہونے کی صورت میں میدان چھوڑ دینے کی اجازت دے دی گئی۔
غزوہ بدر میں ستر کافر قتل ہوئے اور ستر ہی گرفتار ہوئے تو قیدیوں کا مسئلہ درپیش آگیا۔ اس سلسلہ میں دو رائے سامنے آئیں کہ مسلمانوں کا رعب پیدا کرنے کے لئے انہیں قتل کردیا جائے یا ان کے ایمان لانے کی امید پر فدیہ لے کر رہا کردیا جائے۔ دوسری رائے کو اختیار کیا گیا مگر اس میں شبہ تھا کہ یہ قیدی رہائی کے بعد پھر اسلام کے خلاف استعمال ہوسکتے ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس رائے کے مطابق فیصلہ پسند نہیں فرمایا مگر بعد کے حالات نے ثابت کردیا کہ اس سے اسلام کو کوئی نقصان نہیں پہنچا اس لئے اللہ نے فدیہ کا فیصلہ کرنے والوں کو کوئی سزا نہیں دی۔
اس کے بعد ہجرت و نصرت کا حکم بیان کیا کہ جب کسی علاقہ میں رہ کر اپنا ایمان و عمل بچانا مشکل ہوجائے تو رشتہ داروں اور وطن کی محبت میں وہاں رہنے کی اجازت نہیں بلکہ وہاں سے ہجرت کرکے اپنے ایمانی رشتہ داروں کے ساتھ جاکر مقیم ہوجانے کا حکم ہے۔ ایمانی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ہجرت نہ کرنے پر بہت سخت وعید سنائی گئی کہ اس سے دنیا میں فتنہ و فساد پھیل جائے گا۔

سورہ توبہ
مدنی سورت ہے۔ ایک سو انتیس ۱۲۹ آیتوں اور سولہ رکوع پر مشتمل ہے۔ اس میں جہاد سے پیچھے رہ جانے والے تین مخلص مسلمانوں کی توبہ قبول ہونے کا اعلان ہے۔ اس لئے اس کا نام توبہ رکھا گیا ہے اور اس سورت کا مضمون پہلی سورت سے جہاد کے حوالہ سے ملتا جلتا ہے اور اس میں کفار کے لئے مہلت ختم کرکے کھلا ہوا اعلان جنگ ہے اس لئے اس کے شروع میں بسم اللہ نہیں لائی گئی۔
یہ سورت غزوہ تبوک کے بعد واپسی پر نازل ہوئی۔ جہاد اور زکوٰۃ کے حوالہ سے منافقین کی خباثتوں کی نشاندہی کی گئی ہے اور ان کے مکروہ چہرے سے اسلام کا نقاب ہٹاکر انہیں معاشرے میں ظاہر کیا گیا ہے۔ صلح اور امن کے معاہدوں سے کافروں نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اور ان کے اسلام دشمن طرز عمل میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، لہٰذا ان معاہدوں کو چار مہینہ کی مہلت دے کر ختم کرنے کا اعلان کیا جارہا ہے اور حکم دیا جارہا ہے کہ جس طرح یہ کافر مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے اور انہیں نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ اسی طرح مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ کافر جہاں بھی ملیں انہیں تہِ تیغ کریں۔ اللہ ان کافروں پر آسمان سے کوئی عذاب اتارنے کی بجائے میدان جہاد میں مسلمانوں کے ہاتھ سے قتل کرانا چاہتے ہیں تاکہ انہیں سزا بھی مل جائے، یہ ذلیل و رسوا بھی ہوں اور مسلمانوں کے دلوں کا غصہ بھی اتر جائے اور بعض کافر اس عبرتناک انجام سے سبق حاصل کرکے اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل کرسکیں۔ دو مسلمانوں کی آپس میں گفتگو ہوئی، ایک نے کہا حضور علیہ السلام کے ساتھ جہاد میں شرکت کے بہت سے مواقع مل چکے ہیں۔ اب تو میں کعبۃ اللہ میں رہ کر عبادت کرنے اور حاجیوں کو پانی پلانے کی سعادت حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ دوسرے نے کہا کہ جہاد کے برابر کوئی دوسرا عمل نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا میں تو اللہ کے نبی کے ہمراہ جہاد کی سعادت حاصل کرتا رہوں گا۔ حضور علیہ السلام نے آیت قرآنی پڑھ کر سنائی۔ کیا تم نے کعبۃ اللہ کی عبادت اور حاجیوں کو پانی پلانے کی خدمت کو جہاد فی سبیل اللہ کے برابر سمجھ لیا ہے؟ یہ اللہ کی نگاہ میں کبھی بھی برابر نہیں ہوسکتے۔ رشتہ داریوں، کاروباری مفادات اور اپنے گھروں کو اللہ اور اس کے رسول اور جہاد پر ترجیح دینے والے اللہ کے عذاب کے لئے تیار ہوجائیں۔ ایسے فاسقوں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتے۔ اس کے بعد غزوۂ حنین اور اس میں کثرت تعداد کے باوجود مسلمانوں کے نقصان اٹھانے اور پھر اللہ کی مدد سے کامیاب ہونے کا تذکرہ ہے۔ آئندہ کے لئے کافروں کے حرم شریف میں داخلے پر پابندی کا قانون بیان کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ توحید و آخرت پر ایمان نہ لانے والے اور اسلامی نظام حیات سے پہلوتہی کرنے والے اسلامی معاشرہ کے افراد بن کر نہیں رہ سکتے۔ انہیں ذلت و رسوائی کے ساتھ جزیہ ادا کرکے اپنے رہنے کے لئے جواز پیدا کرنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کے لئے اولاد ثابت کرنے کے عقیدہ کی تردید ہے اور بتایا گیا ہے کہ کسی مذہبی رہنما کو اتنا تقدس نہیں دیا جاسکتا کہ اللہ کی بجائے اسی کو معبود بنالیا جائے اور عبادت سے مراد احکام کی پابندی ہے۔ مذہبی رہنمائوں کے احکام اسی وقت تک قابل عمل ہیں جب تک وہ قوم کو آسمانی وحی کی روشنی میں رہنمائی فراہم کرتے رہیں۔ اس کے بعد مال و دولت اور سونے چاندی میں اللہ کے احکام کی ادائیگی نہ کرنے والوں کے لئے وعید ہے کہ سونا چاندی جہنم میں تپاکر انہیں داغا جائے گا۔ پھر مہینوں اور تاریخوں میں تبدیلی کرکے حرام کو حلال کرنے کی کافرانہ حرکت پر تنبیہ کی گئی ہے۔ پھر جہاد کے لئے نہ نکلنے پر وعید بیان کی ہے اور دردناک عذاب کا پیغام دیا گیا ہے اور اس اٹل حقیقت کا اعلان ہے کہ اسلام ہمیشہ غالب رہے گا اور کفر کو اللہ نے مغلوب کرنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ تبوک کے پرمشقت اور طویل جہادی سفر میں شریک نہ ہونے والے منافقین نے امام المجاہدین صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی مجاہدین پر مختلف اعتراض اٹھائے تھے۔ کوئی کہتا تھا کہ خوبصورت رومی عورتوں کی وجہ سے ہم بدنظری کے فتنہ میں پڑسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جہاد سے انکار بڑا فتنہ ہے، جس میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ کوئی جہاد کے لئے چندہ اور صدقات جمع کرنے پر اعتراض کرتا، کوئی حضور علیہ السلام کی گستاخی کرتے ہوئے کہتا کہ یہ سنی سنائی باتوں پر عمل کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ چندہ پر اعتراض کرنے والوں کو اگر اس میں سے ’’مال‘‘ مل جائے تو ان کا سارا اعتراض ختم ہوجائے گا اور سنی سنائی باتوں کے حوالہ سے فرمایا کہ وہ اللہ سے سنی ہوئی باتوں پر عمل کرتے ہیں اور ایمان و رحمت کے پھیلانے اور بدی کے راستہ میں رکاوٹ پیدا کرنے والے ہیں۔ ان کے لئے باغات اور نہریں ہیں، جن میں ہمیشہ رہیں گے۔ کفار و منافقین کے خلاف جہاد جاری رکھنے کا دوٹوک اعلان کیا گیا ہے۔ ایک شخص نے حضور علیہ السلام سے دعاء کرائی کہ اللہ مجھے مال و دولت دے تو میں فی سبیل اللہ خرچ کروں گا۔ جب اس کے پاس بہت مال و دولت ہوگیا تو اس نے زکوٰۃ دینے سے بھی انکار کردیا۔ اس کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ سے صدقہ و خیرات کا عہد و پیمان کرتے ہیں اور جب اللہ انہیں عطاء کردے تو وہ بخل کرتے ہیں اور صدقہ سے انکار کردیتے ہیں۔ منافقین کو ہمیشہ کے لئے مسترد کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ اگر ستر مرتبہ بھی ان کے لئے معافی کی درخواست کریں گے تو اللہ تعالیٰ ہرگز انہیں معاف نہیں کریں گے۔ گرمی اور راستہ کی مشقت کا بہانہ بناکر یہ لوگ جہاد میں شریک نہیں ہوئے اور رسول اللہ کی مخالفت کرکے خوش ہورہے ہیں۔ ان سے کہہ دو کہ جہنم کی گرمی بہت سخت ہے اور جہاد پر نہ جانے کی وجہ سے تمہیں جہنم میں جانا پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو منافقین کا جنازہ پڑھنے اور ان کی قبروں پر جاکر دعاء مغفرت کرنے سے منع کردیا، نبی پیغمبرانہ تقاضوں کے مطابق مسلمانوں کے لئے نرم دل ہیں اور نبی کے گستاخوں اور دل آزاری کرنے والوں کے لئے دردناک عذاب تیار ہے۔ ایمان والے کبھی جہاد سے نہیں بھاگتے۔ جہاد سے راہِ فرار تو بے ایمان اور کافر ہی اختیار کرتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ ہم بھی جہاد کے لئے نکلنے کو تیار ہیں۔ تیاری کا مطلب تو یہ ہے کہ تربیت اور اسلحہ کے ساتھ تیار ہوں (جبکہ ان لوگوں نے ایسی کوئی تیاری نہیں کی)۔ ان منافقین کو بدعملی اور دوغلی پالیسی کے پیش نظر آئندہ بھی جہاد کے سفر میں شریک نہیں کیا جائے گا۔
آپ نے انہیں جہاد سے پیچھے رہ جانے پر معافی دے دی ہم اس بات پر آپ کو معاف کررہے ہیں ورنہ آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا تاکہ مخلص ایمان والے اور منافق سامنے آجاتے۔ پھر زکوٰۃ و صدقات کے مستحقین کی آٹھ اقسام کو بیان کیا ہے کہ فقراء، مساکین، زکوٰۃ وصول کرنے والے عامل، مؤلفۃ القلوب، غلاموں کو آزاد کرانے، قرض دار، مسافر اور جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ پھر منافقین کے متعلق بتایا کہ برائی کی نشر و اشاعت اور نیکی کے راستہ میں رکاوٹ ہیں ان کے لئے جہنم کی سزا ہے جبکہ مؤمنین ایک دوسرے کے دوست، نیکی پھیلانے والے ہیں جبکہ منافقین نے جہاد کے مقابلہ میں گھروں میں رہنے کو ترجیح دے کر نسوانیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگادی ہے۔ اگر کوئی شرعی معذور، غربت و مسکنت کا شکار جہاد سے پیچھے رہ گیا تو کوئی حرج نہیں ہے کچھ لوگ سواری طلب کرنے کے لئے حضور علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے، آپ کے پاس سواری کا انتظام نہ پاکر ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے کہ وہ سواری نہ ہونے کی وجہ سے جہاد کے عظیم الشان عمل سے محروم ہوجائیں گے۔ اللہ نے ان کی تعریف کی اور صاحبِ حیثیت کے سفر خرچ کی گنجائش رکھنے کے باوجود جہاد کے لئے نہ جانے پر مذمت کی گئی ہے۔




اہم پوائنٹس اور عمل کی باتیں

✍غنیمت ھو یا بیت المال میں کوئی اور مال سب اللہ کا ھے ۔ہر مال اللہ کے بتائے ھوئے طریقے کے مطابق تقسیم کرنا ھے ۔

✍مال غنیمت کا پانچواں حصہ اللہ اور رسول کے لئے اور باقی 4 مجاھدین کے لیئے ھیں ۔

✍بعض اوقات تکلیف دہ چیز میں بھی بھلائی ھوتی ھے ۔کامیابی کے لئے ثابت قدمی اور اللہ کا ذکر کرنا ضروری ھے ۔

✍گناھوں ،ناشکری اور دین سے دوری کی بنا پر نعمتیں چھن جاتی ھیں ۔

✍مسلم ھو یا غیر مسلم خیانت کسی کے ساتھ نہیں کر سکتے ۔کیونکہ یہ گناہ ھے اور اللہ کو ناپسند ھے ۔

✍جنگ کے لیئے بھرپور تیاری رکھنا ۔دین میں اپنا مال خرچ کرنا اسکا پوراپورا بدلہ لوٹایا جائے گا ۔

✍نبیؐ کی پیروی کرنے والے اہل ایمان کے ساتھ اللہ کی مدد ھوتی ھے ۔

✍جتنا صبر زیادہ ھوگا اتنی مدد زیادہ آئے گی ۔مدد صبر کے ساتھ اور کشادگی تنگی کے ساتھ ھے ۔

✍ہجرت وجہاد کرنے والے سچے مومن ہیں ،ان کے لئے بخشش اور عمدہ رزق ھے ۔

✍سورۃ التوبہ کے آغاز میں بسم اللہ نہیں ۔نبیؐ نے نہیں لکھوائی کیونکہ اللہ نے نازل نہیں کی ۔بسم اللہ امن کی علامت ھے اور اس سورۃ میں اہل شرک سے امان اٹھائی جارہی ھے ۔

✍اللہ اور رسول کا مشرکوں سے کوئی تعلق نہیں ،توبہ کر لو تو نجات ورنہ دردناک عذاب ھے ۔

✍مساجد کی آبادکاری مشرکین کا کام نہیں ۔نماز زکواۃ ادا کرنے والے اور اللہ سے ڈرنے والے اہل ایمان کا کام ھے ۔

✍اللہ ،رسول اور اسکی راہ میں جہاد کرنا سب سے زیادہ محبوب ھو دیگر چیزیں ضرورت کے تحت ھوں ۔جی رھے ھوں جینا مرنا سب ۔میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی

✍غزوہ تبوک میں سبکو نکلنے کا حکم دیا گیا ۔جنگ نہیں ھوئی مگر سب کی آزمائش ھوگی ۔

✍ دنیا کی حیثیت سمندر میں ڈبو کر نکالی جانے والی انگلی پر لگے پانی جتنی ھے ،فرمان نبویؐ کے مطابق دنیا کا قلیل بھی گدلا ھے ۔

✍جو پہنچا ۔وہ ھمارے لئے لکھاجا چکا تھا ۔تقدیر پر ایمان لانا لازمی ھے کہ ہر شخص کو اسکے مقدر کا ملتا ھے

✍مصارف زکواۃ۔۔۔ فقراٰء ،مساکین ،زکاۃ کے ملازمین ۔تالیف قلب کے لئے ،گردن آزاد کرنے میں ۔قرض دار ،فی سبیل اللہ ۔مسافر ھیں

آیئے اللہ کے دین کی سربلندی کے لئے اپنا مال ،جان اور صلاحیتیں صرف کریں
 

نسرین فاطمہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 21، 2012
پیغامات
1,281
ری ایکشن اسکور
3,232
پوائنٹ
396
خلاصہ قرآن


پارہ نمر11 (يَعْتَذِرُونَ)

اس پارہ کی ابتداء میں ان لوگوں کا تذکرہ ہے جو اپنے نفاق کی وجہ سے تبوک کے سفر جہاد میں حضور علیہ السلام کے ساتھ شریک نہیںہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ عذر بیان کریں گے اور قسمیں کھا کر اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے۔ آپ ان کی بات کا اعتبار نہ کریں۔ یہ لوگ چاہیں گے کہ آپ صرفِ نظر کرکے ان سے راضی ہوجائیں۔ آپ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں، اگر آپ ان سے راضی ہو بھی گئے تو اللہ ایسے نافرمانوں سے کبھی راضی نہیں ہوں گے۔ دیہاتیوں میں بھی دونوں قسم کے لوگ ہیں۔ کفر و نفاق میں پختہ کار اور اللہ کے نام پر خرچ کرنے کو جرمانہ سمجھنے اور مسلمانوں پر تکلیف و مشکلات کا انتظار کرنے والے اور توحید و قیامت پر ایمان کے ساتھ اللہ کے نام پر پیسہ لگا کر خوش ہونے والے۔ یہ اللہ کے قرب اور رحمت کے مستحق ہیں۔ دین میں پہل کرنے والے اور نیکی میں سبقت لے جانے والے انصارو مہاجرین اور ان کے متبعین کے لئے جنت کی دائمی نعمتوں کی خوشخبری اور عظیم کامیابی کی نوید ہے۔ اور ایسے لوگوں کی تعریف کی گئی ہے جو اپنی غلطیوں کے اعتراف کے ساتھ نیک اعمال سر انجام دینے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی توبہ اللہ تعالیٰ ضرور قبول فرماتے ہیں۔ اس کے بعد مسجد ضرار کا تذکرہ ہے۔ قبا کے مخلص مسلمانوں نے مسجد بنا کر اللہ کی عبادت اور اعمالِ خیر کی طرح ڈالی تو کافروں نے ان کے مقابلہ میں فتنہ و فساد کے لئے ایک مرکز بنا کر اسے مسجد کا نام دیا۔ انہیں خفیہ طور پر عیسائیوں کی سرپرستی حاصل تھی۔ یہ لوگ حضور علیہ السلام کو بلا کر افتتاح کرانا چاہتے تھے تاکہ مسلمانوں کی نگاہ میں مسجد مقدس بن جائے اور وہ در پردہ اس مسجد کے ذریعہ مسلمانوں میں انتشار اور فساد پھیلانے کی سازشیں کرتے رہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک سے واپسی پر اس مسجد کے افتتاح کی حامی بھری جس پر اللہ نے آپ کو منع کردیا اور اس مسجد کو گرانے کا حکم دیا۔ اللہ کے نبی نے اسے مسجد ضرار (مسلمانوں کو نقصان پہنچانے والی مسجد) قرار دے کر بعض صحابہ کو بھیجا اور اسے آگ لگا کر جلانے اور پیوند زمین کرنے کا حکم دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر اسلامی معاشرہ میں فتنہ و فساد برپا کرنے کے لئے کوئی مسجد بھی تعمیر کی جائے تو اس کا تقدس تسلیم نہیں کیا جائے گا اور یہ بھی واضح ہوا کہ یہود و نصاریٰ مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے اور فرقہ واریت کو ہوا دینے کے لئے مذہبی رنگ میں کوشاں رہتے ہیں اور ایسی کارروائیوں کی سرپرستی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مسجد قبا اور اس میں جمع ہونے والے مخلصین کی تعریف فرمائی اور ان کی ظاہری و باطنی طہارت کے جذبہ کو سراہا۔
مسلمانوں کی مجاہدانہ کارروائیوں کو اللہ کے ساتھ تجارت قرار دے کر بتایا کہ جنت کی قیمت میں اللہ نے اہل ایمان کی جانیں خریدلی ہیں۔ یہ لوگ کافروںکو قتل کرتے ہیں اور خود بھی مرتبہ شہادت پر فائز ہوتے ہیں۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ ان کی مزید خوبیاں یہ ہیں کہ یہ توبہ کرنے والے، عبادت گزار، اللہ کی تعریف کرنے والے، روزہ رکھنے والے، رکوع سجدہ کرنے والے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والے اور اللہ کی حدود کے محافظ ہیں۔ ایسے مسلمان بشارت کے مستحق ہیں، مسلمانوں کو منع کیا کہ مشرکین کے لئے استغفار نہ کریں۔ غزوہ تبوک میں شرکت سے تین مخلص مسلمان بھی بغیر کسی عذر کے پیچھے رہ گئے تھے۔ پچاس دن تک ان کا مقاطعہ کیا گیا، ان سے بات چیت اور لین دین بند رکھا گیا پھر ان کی توبہ قبول فرما کر ان کے تذکرہ کو قرآن کریم کا حصہ بنادیا گیا۔ اس سے جہاد فی سبیل اللہ کی عظمت اور پیچھے رہ جانے والے مخلصین کی سچی توبہ کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ سچائی کو ہر حال میں اپنانے کی تلقین ہے اورکسی بھی حال میں نبی کا ساتھ نہ چھوڑنے کی تاکید ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ کے دوران بھوک پیاس اور تھکن برداشت کرنے اور مال خرچ کرنے کی فضیلت کا بیان ہے۔ عام حالات میں جہاد کے فرض کفایہ ہونے کا بیان ہے۔کافروں کے ساتھ مقابلہ میں کسی قسم کی سستی اور نرمی اختیار کرنے کی ممانعت ہے۔ قرآن کریم کی تائید کا بیان ہے کہ اہل ایمان کے ایمان میں اضافہ اور ترقی کا باعث ہے جبکہ منافقین کے نفاق اور بغض میں اضافہ کرتا ہے۔ سورت کے آخر میں حضور علیہ السلام کی عظمت و فضیلت کا بیان ہے کہ وہ عظیم الشان رسول مسلمانوں کی تکلیف سے رنجیدہ ہوتے ہیں اور انہیں فائدہ پہنچانے کے خواہاں رہتے ہیں۔ اللہ کی وحدانیت کے اعلان کے ساتھ ہی عرش عظیم کے رب پر توکل کی تعلیم پر سورت کا اختتام ہوتا ہے۔

سورہ یونس
مکی سورت ہے۔ ایک سو نو آیتوں اور گیارہ رکوع پر مشتمل ہے۔ حروف مقطعات سے آغاز ہے اور قرآن کریم کے حکیمانہ کلام ہونے کا بیان ہے اور منکرین قرآن کی ذہنیت کی نشاندہی کی ہے کہ وہ محض اس لئے اسے تسلیم نہیں کرتے کہ یہ ایک انسان پر کیوں نازل ہوا۔ پھر توحید باری تعالیٰ اور آسمان و زمین میں اس کی قدرت کے مظاہر کا بیان ہے۔ اس کے بعد قیامت کا تذکرہ اور اس بات کی وضاحت کہ دنیا کا سارا نظام ایمان اور اعمال صالحہ والوں کو جزا دینے اور کافروں کو کھولتے ہوئے پانی اور دردناک عذاب کی سزا دینے کے لئے وضع کیا گیا ہے۔ چاند اور سورج رات اور دن کی روشنی اور ماہ و سال کے حساب کے لئے بنائے گئے ہیں۔ دن رات کے آنے جانے میں اللہ کی قدرت کی نشانیاں موجود ہیں۔ جس طرح لوگ خیر کے لئے جلدی مچاتے ہیں ایسے ہی اگر شر کو بھی اللہ تعالیٰ جلدی نازل کردیتے تو دنیا کا سارا نظام ختم ہوجاتا، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ کافروں پر عذاب اتارنے میںجلدی نہیںکرتے۔ انسان کا مزاج ہے کہ جب تکلیف میں مبتلا ہو تو اٹھتے بیٹھتے اللہ کو یاد کرتا رہتا ہے اور جیسے ہی تکلیف ہٹا دی جائے ویسے ہی اللہ کو یتا ہے جیسے کسی مشکل میں کبھی پکارا ہی نہ تھا۔ پہلی قوموں کے گناہوں پر ان کی گرفت کی گئی پھر اللہ نے تمہیں ان کی جگہ دی تاکہ تمہارے اعمال کو دیکھ کر ان کے مطابق تمہارے مستقبل کا فیصلہ کریں۔
منکرین آخرت کوجب ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو یہ اس میں تبدیلی اور ترمیم و تنسیخ کا مطالبہ کرتے ہیں، آپ کہہ دیں کہ یہ تبدیلی میرے اختیار میں نہیں ہے۔ میں وحی کا پابند ہوں۔ تم دیکھ چکے ہو کہ چالیس سال کا طویل عرصہ میں نے تمہیں قرآن نہیں سنایا کیونکہ اللہ کا حکم نہیں آیا تھا۔ اب سنانے کا حکم آگیا ہے اس لئے سنا رہا ہوں میں اپنی طرف اگر کسی قسم کی ترمیم و تنسیخ کرنے لگا تو مجھے بڑے دن کے عذاب کا خطرہ ہے، تمہارے معبودان باطل تمہیں کوئی نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتے، نہ ہی اللہ کے سامنے کسی قسم کی سفارش کرسکتے ہیں۔ کفر کے اندھیرے میں تمام لوگ متحد نظر آتے ہیں جیسے ہی ایمان کی روشنی آتی ہے تو اختلاف کرنے لگ جاتے ہیں۔ جب ہم تکلیف کے بعد انہیں راحت دیتے ہیں تو یہ اپنی فطری کجروی کے باعث شر ارتوں پر اتر آتے ہیں، آپ انہیں بتادیجئے کہ ہمارے فرشتے سب کچھ لکھ رہے ہیں اور اللہ بہت جلدی تمہاری بدعملی پر سزا دے سکتے ہیں۔ بحر و بر میں اللہ کے حکم پر تمام نقل و حرکت ہوتی ہے۔ باد بانی کشتیاں ہوا کے زور پر تمہیں منزل مقصود تک لے جائیں تو تم خوش ہوتے ہو اور شرک میںمبتلارہتے ہو اور طغیانی میں پھنس کر بادِ مخالف کی زد پر آجائیں تو مایوس ہوکر اللہ سے مدد طلب کرنے لگتے ہو۔ جیسے ہی اللہ نجات دیتے ہیں تم پھر شرک میں مبتلا ہوجاتے ہو۔ دنیا کی فانی اور عارضی زندگی کی مثال ایسی ہے جیسے بارش برسے اور کھیتیاں لہلہانے لگیں او رکسان خوش ہونے لگیں اسی اثنا میں کوئی آفت آکر اسے اس طرح تباہ کرکے رکھ دے کہ جیسے کچھ تھا ہی نہیں۔ غور و فکر کرنے والوں کے لئے ہم ایسی ہی آیات کو واضح کرتے ہیں۔ اللہ جنت کی طرف بلاتے ہیں۔ نیک و صالح لوگوں کے لئے بہترین بدلہ، ان کے چہروں پر ذلت و رسوائی یا کدورت نہیں چھائے گی اور گناہ گاروں کو ان کے گناہ کا بدلہ ملے گا۔ ان کے چہروں پر ذلت اور سیاہی چھا رہی ہوگی۔ ہم قیامت میں ان سب کو جمع کرکے پوچھیں گے تو یہ اپنے معبودان باطل کا انکارکریں گے اور ان کے معبود انکار کرتے ہوئے کہیں گے کہ یہ ہماری عبادت نہیں کرتے تھے۔ وہاں ان لوگوں کو اپنے اعمال کے غلط ہونے کا پتہ چل جائے گا۔ پھر اللہ کی قدرت کے دلائل اور ہدایت و ضلالت کے اللہ کی مشیت کے تابع ہونے کا بیان ہے۔ قرآن کریم کی حفاظت کا تذکرہ ہے کہ ایسا کلام کوئی شخص اپنے طور پر گھڑ نہیں سکتا۔ اگر تم میں ہمت ہے تو ایسی ایک سورت ہی بناکر دکھادو۔ اگر یہ لوگ جھٹلاتے ہیں تو ان پر جبر نہیں کیا جائے گا۔ آپ انہیں کہہ دیجئے کہ تمہارے اعمال کا بدلہ تمہیں ملے گا اور میرے اعمال کا بدلہ مجھے ملے گا۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتے۔ ہر قوم کے پاس اللہ کا پیغام پہنچانے والا بھیجا گیا ہے۔ اگر اللہ کا عذاب اچانک آجائے تو پھر جلدی مچانے والے کیا کریں گے۔ ظالموں سے کہا جائے گا کہ اب دائمی عذاب کا مزہ چکھ لو۔ یہ لوگ سوال کرتے ہیں کہ کیا یہ سب باتیں سچی ہیں؟ آپ کہئے میرے رب کی قسم یہ تمام برحق اور سچ ہے۔ تم اس عذاب کی ہولناکی سے بچنے کے لئے تمام دنیا کے خزانے فدیہ میں دینے کی تمنا کرو گے۔ عذاب دیکھ کر تم پر ندامت چھا جائے گی مگر اس وقت انصاف کیا جائے گا کسی پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔
اے انسانو! تمہارے رب کی طرف سے وعظ و نصیحت کا پیغام آگیا۔ اس میں شفا اور ہدایت و رحمت ہے۔ اللہ کے فضل و رحمت پر ایمان والوں کو خوشیاں منانی چاہئیں۔ یہ اس سے بہت بہتر ہے جسے یہ لوگ جمع کررہے ہیں تم کسی حالت میں ہو کوئی بھی عمل کرو اللہ اس پر گواہ ہیں کوئی چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی آسمان و زمین کے اندر اللہ سے پوشیدہ نہیں رہ سکتا۔ اللہ کے دوستوں پر کوئی اندیشہ و غم نہیں ہوگا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان اور تقویٰ والے ہیں دنیا و آخرت میں ان کے لئے بشارت ہے۔ اللہ کی بات بدلی نہیں جاسکتی یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ اس کے بعد اللہ کی قدرت کا بیان اور اولاد کے باطل عقیدہ کی تردید ہے۔ پھر نوح علیہ السلام کے واقعہ کا اختصار کے ساتھ تذکرہ کہ انہوںنے اپنی قوم کے متکبر سرداروںکے مقابلہ میں اللہ پر توکل کیا اور اللہ کا پیغام سنانے کے عوض کوئی تنخواہ طلب نہیں کی، اللہ نے انہیں اپنے پیروکاروں کے ساتھ کشتی میں بچالیا اور مخالفین کو طوفان میں غرق کرکے عبرتناک انجام سے دوچار کردیا۔پھر موسیٰ و ہارون کو فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس بھیجنے کا تذکرہ۔ انہوںنے متکبرانہ انداز میں جھٹلایا۔ موسیٰ علیہ السلام نے معجزات دکھائے۔ انہوںنے اسے جادو قرار دے کر مقابلے کے لئے اس دور کے بڑے جادوگر بلالئے۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ تمہارا جادو میرے معجزہ کے مقابلے میں ناکام ہوکر رہے گا۔ موسیٰ علیہ السلام نے بددعا کی جس پر اللہ نے فرعون اور اس کے لشکر کو غرق کرنے کا فیصلہ کردیا۔ فرعون نے غرق ہوتے وقت کلمہ پڑھا۔ اللہ نے اسے رد کردیا کہ زندگی بھر گناہ اور فساد مچا کر اب مرتے وقت ایمان لاتے ہو۔ حالت نزع کا ایمان قبول نہیں۔ البتہ انسایت کی عبرت کے لئے فرعون کے جسد خاکی کو باقی رکھ کر دنیا کو بتایا گیا کہ اتنا بڑا مقتدر اور متکبر بادشاہ کس طرح بے بس اور ذلت کی موت کا شکار ہوا۔ پھر یونس علیہ السلام اور انکی قوم کا تذکرہ کہ ان کی نافرمانیوں پر عذاب آگیا اور آیا ہوا عذاب کبھی نہیں ٹلتا مگر ان کی الحاح و زاری پر اللہ نے عذاب ٹال دیا۔ کسی کو زبردستی اللہ ہدایت نہیں دیتے انسان کی چاہت اور اپنے اندر تبدیلی کا فیصلہ ضروری ہے۔ کفرو شرک سے برأت کا اظہار اور دین حنیف پر غیر متزلزل اعتماد کا اعلان کرنے کی تلقین ہے اور بتایا گیا کہ نفع نقصان اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ہدایت کا پیغام انسانیت کے لئے آچکا ہے جو اسے اختیار کرے گا اپنا نفع کرے گا اور جو اس سے منکر ہوگا اپنا نقصان کرے گا۔وحی کی اتباع اور ثابت قدمی کی تلقین پر سورت کا اختتام کیا گیا ہے۔
سورہ ہود
مکی سورت ہے، اس میں ایک سو تئیس آیتیں اور دس رکوع ہیں۔ اس سورت میں رسالت کا موضوع مرکزی موضوع کی حیثیت رکھتا ہے۔ دوسرے انبیاء کے علاوہ قوم عاد، ان میں مبعوث کئے گئے نبی حضرت ہود علیہ السلام کا تذکرہ ہے اس لئے سورت کا نام ’’ہود‘‘ رکھا گیا۔ ابتداء میں قرآن کریم کی حقانیت کا بیان ہے کہ یہ مفصل اور پر حکمت کتاب ہے پھر توحید باری تعالیٰ کا بیان اور توبہ و استغفار کی تلقین کے ساتھ آخرت کے یوم احتساب کا تذکرہ اور محاسبہ کے عمل کی یاددہانی ہے اور اللہ کے علم کی وسعت و شمول کا بیان کہ وہ خفیہ و علانیہ ہر چیز کو جانتا ہے اور سینوں کے تمام بھید اس کے علم میں ہیں۔

اہم پوائنٹس اور عمل کی باتیں

منافقین کا عزر قابل قبول نہیں کیونکہ ان کے پاس جہاد میں شرکت نہ کرنے کے صرف بہانے ہیں ۔حقیقی عذر نہیں ۔

تقریبا 82 افراد کے بارے میں ناموں کے ساتھ نبیؐ کوخبر دی گئ کہ یہ پکے مومن ہیں ۔

مہاجر و انصار میں سب سے پہلے سبقت کرنے والے اور اخلاص کے ساتھ ان کی پیروی کرنے والون کے لئے رضی اللہ عنہم ورضو عنہ کی خوشخبری ھے ۔ان کے لئے خاص جنتیں ھیں

جن کے اعمال صالح اور غیر صالح ملے جلے ھیں وہ صدقہ دے کر اپنی تطہیر کروایئں ۔

مسجد صرف اللہ کی رضا کے لئے بنانا تا کہ اجر ملے ۔اخلاص کے بغیر کوئی عمل قبول نہیں ۔

جان ومال سے اللہ کی راہ میں قتال کا بدلہ جنت ھے ۔

خاص مومن توبہ کرنے والے ،عبادت کرنے والے ،اللہ کی تعریف کرنے والے ،روزہ رکھنے والے ،سیاحت کرنے والے ،رکوع و سجود کرنے والے ،نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے والے ،حدود کی حفاظت کرنے والے ھیں ۔

3 صحابہ کے سستی دکھانے پر معاشرتی بائیکاٹ کی شکل میں اللہ کی گرفت ھوئی ،50 دن بعد توبہ قبول ھوئی ۔فرض کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کرنی ۔نیکی کا جو موقع ملے سستی کر کے نہیں گنوانا ۔

علم دین کی خدمت کے لئے بھی کچھ لوگوں کو نکلنا ھے ۔دین میں سمجھ بوجھ حاصل کرنا اور اپنے علاقوں میں جاکر لوگوں کو برے کاموں سے بچانے کی کوشش کرنا اور اللہ سے ڈرنے کی تعلیم دینا ھے ۔

نبیؐ کی تڑپ مومنوں کے لئے انکی تکلیف پر دکھی ،ھدایت کے لئے حریص اور شفیق ومہربان تھے ۔

اللہ پر بھروسے کے لئے دعا ۔۔ حسبی اللہ لا الہ الا ھو علیہ توکلت وھو رب العرش العظیم ۔

اللہ کے ھاں ایسے کسی سفارشی کا وجود نہیں جسے نفع ونقصان کا مالک سمجھ کر دعایئں کی جاتی ھیں ۔

قرآن کا علم اور اس پر عمل مومنین کے لئے تمام بیماریوں سے شفاء ھے ۔اس لئے کتاب اللہ سے علاج کرنا ھے ۔

قرآن کا ملنا اللہ کا فضل ،رحمت اور ہر نعمت سے بہتر ھے اس لئے اس پر خوش ھونا ھے ۔

اولیاء اللہ اللہ کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرنے والے ،خوف وغم سے بے نیاز لوگ ھوتے ھیں ۔

جادو قرآن کا مقابلہ نہیں کرسکتا کیونکہ قرآن حق اور جادو باطل ھے ۔

موت کے وقت کا اسلام قبول نہیں ،فرعون نے ڈوبتے ھوئے اقرار کیا مگر کہا گیا ۔۔ کیا اب؟

فرعون کے بدن کو بچا کر بعد میں آنے والوں کے لئے عبرت کی مثال بنا دیا گیا ۔

خالص ھو کر اللہ کی عبادت پر جمے رھنا اور دین میں شک کرنے والوں کی پرواہ نہ کرنا ۔

اللہ کے علاوہ کوئی نفع ونقصان نہیں دے سکتا اس لئے کسی اور سے دعا نہ کرنا ۔

استغفار کے فوائد ، گناھوں کی معافی ،رزق کی فراوانی اور فضل کا ملنا ھے ۔

❤آئیے اپنی غلطیوں کا احساس کر کے اللہ سے توبہ استغفار کریں ❤
 

نسرین فاطمہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 21، 2012
پیغامات
1,281
ری ایکشن اسکور
3,232
پوائنٹ
396
بسمﷲ الرحمان الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

خلاصہ قرآن

پارہ نمر12 (وَمَا مِن دَآبَّةٍ)
ابتداء میں تمام مخلوقات کی معیشت کا مسئلہ حل کرتے ہوئے اعلان کیا زمین پر چلنے والے تمام جانوروں کی روزی اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی عارضی اورمستقل قیام گاہ کو جانتا ہے۔ چھ دن میں آسمان و زمین پیدا کرکے انسان کو دنیا میں بھیجا تاکہ بہتر سے بہتر عمل کرنے والے کو منتخب کیا جاسکے۔ اللہ کے یہاں مقدار کی کثرت کی بجائے ’’معیار کا حسن‘‘ مطلوب ہے۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد دوبارہ انسان زندہ کئے جائیں گے تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ مردوں کو زندہ کرنا تو جادو کے عمل سے ہی ممکن ہوسکتا ہے اور ہم اگر ان کی نافرمانیوں پر مصلحت کے پیش نظر عذاب نہیں اتارتے تو یہ کہتے ہیں کہ آپ کے عذاب موعود کو کس نے روک لیا ہے وہ آتا کیوں نہیں ہے؟ آپ ان سے کہئے کہ عذاب کی جلدی نہ مچائیں جس دن ہم نے عذاب اتار دیا تو تم اسے روکنے کی طاقت نہیں رکھو گے۔ یہ انسانی نفسیات ہے کہ اسے خوشحالی کے بعد اگر کچھ تنگی آجائے تو مایوس ہوجاتا ہے اور اگر تکلیف کے بعد راحت مل جائے تو اپنے گناہوں کو بھول کر اترانے اور تکبر کرنے لگتا ہے۔ اچھے انسان وہ ہیں جو دین پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعمال صالحہ پر کاربند رہیں۔ ان کافروں کے بیجا مطالبات سے آپ پریشان نہ ہوں اور محض اس لئے وحی الٰہی سے دستبردار نہ ہوں کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس نبی پر خزانے کیوں نہیں نازل ہوتے یا اس کی حفاظت کے لئے فرشتے اس کے ساتھ کیوں نہیں رہتے؟ ایسے مطالبات کا شریعت کی پابندی کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ یہ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن اللہ کا کلام نہیں ہے بلکہ محمد علیہ السلام نے یہ کلام خود بنایا ہے، اگر یہ اپنے دعویٰ میں سچے ہیں تو یہ بھی چند سورتیں بناکر دکھادیں۔ قرآن کریم جیسی سورتیں بنانے سے ان کا عاجز آجانا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ قرآن اللہ کا نازل کردہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ انسانوں کا ایسا کلام بنانے سے عاجز آجانا اس کی حقانیت کا داخلی ثبوت ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے مثال دے کر بتایا کہ قرآن کریم کو تسلیم کرنے والا اپنی بصارت کے تقاضے پورے کررہا ہے، اس لئے وہ بینا ہے اور نہ تسلیم کرنے والا اپنی بصارت کے تقاضے پورے نہیں کرتا اس لئے وہ نابینا ہے اور قرآن پر ایمان لانے والا اپنی سماعت کے تقاضے پورے کرتا ہے اس لئے وہ سننے والا ہے اور ایمان نہ لانے والا اپنی سماعت کے تقاضے پورے نہیں کرتا اس لئے وہ بہرا ہے اور یہ لوگ آپس میں کبھی برابر نہیں ہوسکتے۔ اس کے بعد حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی قوم کا سبق آموز واقعہ بیان ہوا ہے۔ نوح علیہ السلام نے قوم کو توحید و رسالت کی بات سمجھائی اور نہ ماننے کی صورت میں انہیں درد ناک عذاب کی وعید سنائی۔ قوم میں اونچی سوسائٹی کے لوگ، سردار اور ارباب اقتدار کہنے لگے کہ آپ ہمارے جیسے عام انسان ہیں اور آپ کا ساتھ دینے والے معاشرہ کے نچلے طبقے کے لوگ ہیں، دنیا کے اعتبار سے آپ کے اندر وہ کون سی خوبی ہے جس کی بنیاد پر ہم آپ پر ایمان لائیں۔ ہمیں تو آپ جھوٹے معلوم ہوتے ہیں۔ حضرت نوح علیہ السلام نے جواب دیا کہ ہدایت کے لئے مفادات اور مال و دولت کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ دلائل اور رحمت خداوندی درکار ہوتی ہے اور یہ نعمت ہمیں حاصل ہے۔ پھر داعی الی اللہ کے لئے کچھ ضوابط بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ میں دین کے نام پر مالی مفادات کا طلبگار نہیں ہوں اور دین میں سب غریب و امیر برابر ہیں، لہٰذا میں غریبوں کو محض غربت کی بنیاد پر اپنے آپ سے جدا نہیںکرسکتا۔ میں نہ تو مال و دولت کے خزانوں کا دعوے دار ہوں نہ ہی غیب دانی کا دعویٰ کرتا ہوں نہ ہی فرشتہ ہونے کا مدعی ہوں اور غریب مسلمان جنہیں تم حقیر سمجھتے ہو صرف تمہیں خوش کرنے کے لئے میں یہ بھی نہیں کہتا کہ انہیں اللہ تعالیٰ کوئی اجرو ثواب نہیں دیں گے، اللہ کا معاملہ تو نیت اور عمل کے ساتھ ہوتا ہے اور وہ سردار جو اقتدار اور مال کے نشہ میں بدمست ہورہے تھے اور اپنی طاقت اور پیسہ کے زور پر انہوںنے پورا معاشرہ یرغمال بنایا ہوا تھا، ہٹ دھرمی اور عناد کا مظاہرہ کرتے ہوئے عذاب کا مطالبہ کرنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کو بتادیا کہ چند مخلص ایمان والوں کے علاوہ باقی قوم ضلالت و گمراہی کے لاعلاج مرض میں مبتلا ہوچکی ہے لہٰذا ان پر عذاب آکر رہے گا آپ کشتی بنانا شروع کردیں اور ان لوگوں کی کسی قسم کی سفارش نہ کریں۔ نوح علیہ السلام کشتی بناتے رہے اور قوم کے گمراہ لوگ ان کا مذاق اڑاتے رہے۔ اللہ تعالیٰ چونکہ نافرمانوں کو غرق کرنے کا فیصلہ فرماچکے تھے لہٰذا حکم دیا کہ ہر جانور کا ایک جوڑا اور تمام اہل ایمان کو کشتی میں سوار کرلو۔ آسمان سے پانی برسنے لگا اور زمین سے پانی ابلنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے سفینۂ نوح سیلاب کے پانی میں پہاڑ کی مانند تیرتی ہوئی نظر آنے لگی۔ کشتی کے سواروں کے علاوہ باقی سب غرق ہوگئے، نوح علیہ السلام کا نافرمان بیٹا بھی نہ بچ سکا۔ ایمان سے محرومی کی وجہ سے باپ کی نبوت بھی اس کے کسی کام نہ آسکی۔ اللہ تعالیٰ نے واضح کردیا کہ اسلامی معاشرہ کے اجزائے ترکیبی قوم، وطن یا نسبی رشتہ داری نہیں بلکہ ایمان اور اعمال صالحہ ہیں، ایک نبی امی کا اس تاریخی واقعہ کو بیان کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ نبی برحق ہیں لہٰذا ایمان والوں کو صبر و استقامت کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ بہتر انجام متقیوں کے لئے ہے۔ اس کے بعد حضرت ہود علیہ السلام کا واقعہ ہے جنہوں نے اپنے دور کی ’’سپر پاور‘‘ قومِ عاد سے ٹکرلی تھی۔ یہ قوم ڈیل ڈول اور جسمانی طاقت میں بہت زیادہ تھی، ان کا دعویٰ تھا کہ دنیا میں ہم سے طاقت ور کوئی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا انہیں سوچنا چاہئے کہ جس اللہ نے انہیں بنایا ہے وہ یقینا ان سے زیادہ طاقتور ہے۔ ہود علیہ السلام نے قوم کو توحید کا پیغام سنایا اور اپنی غلطیوں کا اعتراف کرکے معافی مانگنے کی ترغیب دی اور بتایا کہ تم اگر توبہ و استغفار کرلوگے تو اللہ تمہیں معاشی اعتبار سے خود کفیل کردے گا اور بارش برسا کر تمہاری کھیتیوں کو سیراب کردے گا اور تمہاری طاقت و قوت میں مزید اضافہ کردے گا، قوم نے ایمان لانے کی بجائے مذاق اڑانا شروع کردیا، کہنے لگے، ہم تمہاری باتوں کو مان کر اپنے بتوں کو نہیں چھوڑ سکتے۔ ہمارے بتوں نے تم پر اثر انداز ہوکر تمہارا دماغ خراب کردیا ہے تبھی تم اس قسم کی بہکی بہکی باتیں کرتے ہو۔ حضرت ہود علیہ السلام نے ان کی باتوں پر مشتعل ہونے کی بجائے انہیں بتادیا کہ وہ بھی اللہ پر ایمان سے دستبردار نہیں ہوں گے اور اللہ کی طاقت و قوت کا اعتراف کرتے ہوئے ان پر بھروسہ اور توکل میں اضافہ کردیں گے اور پھر قوم کو اللہ کے حکم سے یہ وعید بھی سنادی کہ اگر تم باز نہ آئے تو میرا رب تمہیں ہلاک کرکے تمہاری جگہ کسی دوسری قوم کو اس سرزمین کا مالک بنا دے گا اور تم اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکو گے۔ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ ہماری رحمت کا مظہر تھا کہ ہم نے حضرت ہود اور ان پر ایمان لانے والوں کو عذاب سے بچالیا۔ قوم کی ہٹ دھرمی اور آیات خداوندی کا انکار اور اللہ کے فرستادہ رسول کی نافرمانی نے انہیں تباہ و ہلاک کرکے رکھ دیا۔ یہ ضدی اور عناد پرست قومِ عاد تھی جن پر عذاب آیا اور دنیا و آخرت میں لعنت کے مستحق قرار پائے۔ یہ سب قومِ عاد کے کفر کا نتیجہ تھا۔ حضرت ہود کی قوم ’’عاد‘‘ اللہ کی رحمت سے دور قرار دے دی گئی۔ اس کے بعد قوم ثمود کا تذکرہ ہے کہ صالح علیہ السلام نے انہیں پیغامِ توحید دیا اور انہیں غیر اللہ کی عبادت سے باز رہنے کی تلقین فرمائی۔ انہیں بتایا کہ تمہیں اللہ نے ہی پیدا کیا اور زمین میں آباد کیا اس اللہ کے سامنے توبہ و استغفار کرلو مگر وہ لوگ باز نہ آئے۔ بلکہ کہنے لگے کہ صالح! ہمیں تو آپ سے بڑی توقعات تھیں مگر آپ نے تو ہمارے آباء و اجداد کی ہی مخالفت شروع کردی اور ہمیں تو آپ کی نبوت میں شک ہے۔ ہم آپ کی نبوت کا اقرار صرف اس صورت میں کریں گے جب آپ سامنے والی پہاڑی سے اونٹنی نکالیں جو فوراً ہی بچہ دیدے۔ حضرت صالح نے فرمایا: میری قوم میں تو دلائل کی بنیاد پر توحید کی دعوت دے رہا ہوں اور تم بیجا مطالبات کررہے ہو میں تمہارے کہنے سے اللہ کی رحمت کو نہیں چھوڑوں گا ورنہ میری مدد کون کرے گا۔ تمہارے مطالبہ کے مطابق یہ رہی اونٹنی۔ اب تم اسے اللہ کی نشانی سمجھ کر حق کو تسلیم کرلو اور اس اونٹنی کو نقصان نہ پہنچائو ورنہ تم پر عذاب خداوندی بہت جلد آجائے گا۔ ان لوگوں نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ کر اسے مارڈالا جس پر انہیںتین دن کی مہلت دے کر ذلت آمیز عذاب کا نشانہ بنادیا گیا۔ جبریل علیہ السلام نے زور دار چیخ ماری جس کی دہشت سے ان کے کلیجے پھٹ گئے اور وہ اوندھے منہ گر کر ایسے ختم ہوئے کہ ان کا نام و نشان بھی باقی نہ بچا۔ جب ہمارا عذاب آیا تو ہم نے حضرت صالح اور ان کے ساتھیوں کو اپنی رحمت کے ساتھ اس دن کی رسوائی سے بچالیا۔
اس کے بعد ابراہیم اور لوط علیہما لسلام کا تذکرہ ہے کہ ہمارے فرشتے قاصد بن کر انسانی شکل میں ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئے۔ ابراہیم علیہ السلام نے ان کی مہمانی کے طور پر بچھڑا ذبح کرکے بھونا اور انہیں کھانے کی دعوت دی۔ مگر انہوںنے کھانے میں کسی رغبت کا مظاہرہ نہیں کیا تو ابراہیم علیہ السلام سمجھے کہ یہ لوگ کہیں دشمنی کی وجہ سے کھانے سے گریز نہ کررہے ہوں، لہٰذا ان سے خوف زدہ ہوگئے تو انہوںنے بتادیا کہ ہمارے نہ کھانے کی وجہ دشمنی نہیں ہے بلکہ ہم فرشتے ہیں اس لئے نہیں کھارہے۔ ہم تو قوم لوط کے لئے عذاب کے احکام لے کر آئے ہیں۔ہم راستہ میں آپ کو اولاد کی خوشخبری دینے آئے ہیں۔ اللہ تمہیں اسحاق نامی بیٹا اور یعقوب نامی پوتا عطا فرمائیں گے۔ ان کی بیوی قریب ہی کھڑی ہوئی یہ گفتگو سن رہی تھیں۔ عورتوں کے انداز گفتگو میں اپنے چہرہ پر دوہتڑ مارتی ہوئی کہنے لگیں کہ میں بانجھ او رمیرا شوہر بڑھاپے کی آخری عمر میں ہے۔ ہمارے ہاں کیسے اولاد ہوسکتی ہے۔ فرشتوں نے کہا اس میں تعجب اور حیرانی کی کون سی بات ہے۔ اللہ تمہارے گھرانے پر اپنی رحمتیں اور برکتیں اتارنا چاہتے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام بڑے ہی نرم دل تھے اس خوشخبری کو سن کر لوط علیہ السلام کی قوم کی سفارش کرنے لگے۔ فرشتوں نے کہا کہ ان کی ہلاکت کا اٹل فیصلہ ہوچکا ہے، آپ اس میں مداخلت نہ کریں۔ جب فرشتے لوط علیہ السلام کے پاس خوبصورت لڑکوں کے روپ میں پہنچے تو وہ لوگ ’’اِغلام بازی‘‘ کے شوق میں جمع ہوکر لوط علیہ السلام سے نووارد مہمانوں کو اپنے حوالہ کرنے کا مطالبہ کرنے لگے، حضرت لوط نے انہیں بہت سمجھایا کہ مجھے مہمانوں کے سامنے رسوا نہ کرو مگر وہ اپنے بیجا مطالبہ پر بضد رہے تو مہمانوںنے کہا: اے لوط! آپ پریشان نہ ہوں۔ ہم انسان نہیں فرشتے ہیں اور عذاب کا حکمنامہ لے کر آئے ہیں، اس لئے یہ لوگ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔انہیں صرف ایک رات کی مہلت ہے، آپ فوراً یہاں سے نکلنے کا بندوبست کرکے چلے جائیں۔ آپ کی بیوی چونکہ اس مجرم قوم کے ساتھ شریک ہے لہٰذا وہ بھی نہیں بچ سکے گی۔ جب ہمارا عذاب آیا تو انہیں الٹ پلٹ کر رکھ دیا گیا اور ان پر نشان زدہ پتھروں کی بارش کرکے انہیں تباہ کردیا گیا۔ پھر قوم مدین کی حضرت شعیب علیہ السلام کے ساتھ کٹ حجتی کا تذکرہ کرکے ان کی ہلاکت کا تذکرہ ہے۔ اس کے بعد موسیٰ و فرعون کے واقعہ کا اختصار کے ساتھ تذکرہ، پھر جنت و جہنم کا ذکر اور آخر میں دعوت الی اللہ کا کام کرنے والوں کے لئے کچھ سنہری اصول (۱)استقامت کا مظاہرہ۔ (۲)حدود کی پابندی۔ (۳)ظالموں کی حمایت سے دست کشی۔ (۴)صبح و شام عبادت میں مشغولی۔ (۵)صبر کا دامن نہ چھوڑنے کی تلقین۔ اگر قوم میں اصلاح کی جدوجہد کرنے والے افراد پیدا ہوجائیں تو وہ ہلاکت سے بچ سکتی ہے۔

سورہ یوسف
مکی سورت ہے جو ایک سو گیارہ آیات اور بارہ رکوع پر مشتمل ہے۔ یہ منفرد سورت ہے جس میں صرف ایک ہی واقعہ بیان ہوا ہے۔ یوسف علیہ السلام کے واقعہ کو قرآن کریم نے ’’احسن القصص‘‘ بہترین واقعہ قرار دیا ہے۔ اس میں انسانی زندگی کے ہر پہلو کو اجاگر کیا گیا ہے اور اپنوں کے مظالم اور ان کے مقابلہ میں اللہ کی مدد کا منظر دکھا کر حضور علیہ السلام کو اپنی قوم کے مظالم کے مقابلہ میں نصرت خداوندی حاصل ہونے کی بشارت ہے۔ سورت کے شروع میں قرآن کریم کی حقانیت کا بیان ہے۔ پھر یوسف علیہ السلام کے خواب کا ذکر ہے کہ انہوںنے گیارہ ستارے اور چاند اور سورج کو اپنے سامنے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا جس کی تعبیر واضح تھی کہ ان کے گیارہ بھائی اور والدین ان کے سامنے جھکیں گے اور ان سب کے درمیان یوسف علیہ السلام کو امتیازی مقام حاصل ہوگا۔ اس خواب کے بعد بھائیوں نے حسد کرنا شروع کردیا اور یوسف علیہ السلام کے قتل کا پروگرام بناکر اپنے والد کو راضی کرکے جنگل میں لے گئے۔ انہیں کنویں میں پھینک کر کپڑوں کو کسی جانور کے خون سے آلودہ کرکے والد کو بتادیا کہ ہم جنگل میں کھیلتے رہے اور بھائی کو بھیڑیا کھاگیا۔ یعقوب علیہ السلام ان کی سازش کو سمجھ گئے اور یوسف علیہ السلام کے فراق میں پریشان رہنے لگے اور دن رات روتے رہے۔ ایک تجارتی قافلہ نے کنویں سے یوسف علیہ السلام کو نکال کر مصر کے بازار میں فروخت کردیا۔ یوسف علیہ السلام کی خوبصورتی کے چرچے پھیل گئے، بادشاہ نے انہیں خرید کر اپنا منہ بولا بیٹا قرار دے دیا اور اس طرح یوسف کنویں سے نکل کر شاہی محل میں رہنے لگے۔ شاہ مصر کی بیوی حسنِ یوسف پر ریجھ گئی اور انہیں ’’دعوت گناہ‘‘ دینے لگی، یوسف نے اپنی عفت و عصمت کی حفاظت کی۔ شوہر کو معلوم ہونے پر اس عورت نے بدکاری کا الزام لگادیا۔ اللہ نے اسی کے خاندان کے بچے سے حضرت یوسف کی بے گناہی کی شہادت دلوا کر انہیں باعزت بری کروادیا۔ جب مصر کی عورتوں نے بادشاہ کی بیوی پر ملامت کی تو اس نے حسن یوسف کا مظاہرہ کرنے کے لئے عورتوں کی دعوت کرکے یوسف علیہ السلام کو سامنے بلوایا۔ تمام عورتیں حسن یوسف کو دیکھ کر مبہوت ہوکر رہ گئیں اور پھلوں کو کاٹتے ہوئے اپنے ہاتھ بھی کاٹ بیٹھیں اور ان کے حسن کی تعریف کرکے انہیں دعوت گناہ دینے لگیں۔ یوسف علیہ السلام نے گناہ پر قید کو ترجیح دی اور بادشاہِ وقت نے اپنی عزت بچانے کی خاطر انہیں قید کردیا۔ یوسف علیہ السلام جیل میں بھی تبلیغ و تعلیم کے فریضہ سے غافل نہ رہے۔ دو قیدیوں نے خواب دیکھا یوسف علیہ السلام نے تعبیر دی جو حرف بہ حرف صحیح نکلی۔ ایک قیدی قتل ہوا دوسرا رہا ہوکر بادشاہ کا خادم بنا بادشاہ نے خواب دیکھا، اس خادم نے یوسف علیہ السلام سے تعبیر پوچھی انہوںنے بتایا کہ سات موٹی تگڑی گائیوں کو دبلی پتلی گائیوں کا کھانا اور سات خشک بالیوں کا تروتازہ بالیوں کو، مستقبل میں سات سالہ قحط کا اشارہ ہے۔ قحط کا مقابلہ کرنے کا طریقہ بھی بیان کردیا۔ بادشاہ نے تعبیر سے متاثر ہوکر رہائی کا فیصلہ کیا مگر یوسف علیہ السلام نبوت کے دامن کو داغدار ہونے سے بچانے کے لئے تحقیقات کا مطالبہ کیا جس پر انہیں بے گناہ قرار دے کر رہائی ملی اور شاہ مصر نے اپنی کابینہ میں شامل کرنے کا اعلان کردیا۔
اہم نکات اور کرنے کے کام

مخلوقات میں سے ہر ایک کا رزق اللہ کے ذمہ ھے ۔ذندگی اور مرنے کے بعد کا ٹھکانہ اللہ کے علم میں ھے ۔

زندگی میں نہ کوئی نعمت راحت ھے اور نہ کوئی مصیبت سزا ھے بلکہ ھر حال میں امتحان ھے /سب امتحان ھے ۔

تمہارے کہنے کے مطابق اگر نبیؐ کا گھڑا ھوا ھے تو 10 سورتیں بنا لاو جو ناممکن ھے کیونکہ قرآن اللہ کا کلام ھے ۔

جنت کے حصول کے لئے ایمان اور عمل صالح کے ساتھ عاجزی اختیار کرنی ھے ۔

نوح ؑ کا بیٹا بھی طوفان سے بچ نہ سکا ۔ہر ایک کوخود اپنے لئے نیک عمل کرنا ھے ۔

ابراھیم ؑ کو بیٹے کی خوشخبری دی گئی ۔خوش ھوئے مگر قوم لوط کی فکر لگ گئی ۔کیونکہ وہ بہت دردمند تھے ۔

کبیرہ گناہ ،حرام کام ،نبیؐ نے اپنی امت پر سب سے زیادہ اس عمل کے اندیشے کا ذکر کیا ۔

فرعون دنیا میں جس قوم کا لیڈر تھا ،جہنم کی طرف جاتے ھوئے بھی اسکی قیادت کرے گا ۔

بد بخت آگ میں چیخ وپکار کریں گے ،خوش بخت نہ ختم ھونے والی نعمتوں کے ساتھ جنت میں ھوں گے ۔

جب کوئی گناہ ھوجائے تو نیکی کریں جو اس کو مٹا دے گا ۔خواہ لا الہ الا اللہ کہنا ھو ۔

یہود نے نبیِؐ کا امتحان لینے کے لئے یوسفؑ کے قصے کے بارے میں پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے پورا واقعہ ایک ھی بار نازل فرما کر اپنے رسول کی تائید کی اور اسے بہترین قصہ قرار دیا۔

یوسفؑ نے خواب دیکھا جو اللہ کے ھاں ان کے بلند مقام کی نشانی تھا ۔سچا خواب نبوت کے اجزاء میں سے 46واں حصہ ھے ۔اچھا خواب صرف اسکو سنایا جائے جس سے محبت ھو یا جو خیر خواہ ھو ۔

حسد دل کی بیماری اور انتہائی منفی جذبہ ھے ۔قتل پر آمادہ کر سکتا ھے ۔ایمان و حسد ایک دل میں اکٹھے نہیں ھو سکتے ۔کسی کی نعمت پر حسد کی بجائے اللہ سے اسکا فضل مانگنا چاہیے ۔

برادران یوسف قتل کے درپے ھو گئے ۔اندھے کنویئں میں ڈال کر والد کے سامنے روئے پیٹے اور جھوٹا بہانہ کیا ۔

حضرت یعقوبؑ آزمائش آنے پر صبر کی تصویر بن گئے ۔شدید غم میں بھی اخلاق کی بلندی پر دکھائی دئیے ۔

عزیز مصر کی بیوی نے یوسفؑ کو بہکانے کی کوشش کی ۔عورت کے فتنے سے بچنے والا عرش کے سائے میں ھو گا ۔

ایمان والوں کو اللہ کی نافرمانی کی بجائے قید خانہ قبول ھے ۔

یوسفؑ نے قید خانے میں بلند اخلاق کا ثبوت دیا ۔جس کی وجہ سے محسن اور صدیق کہلائے ۔

خواب کی تعبیر بتا کر بادشاہ کے مقرب بنے تو عزیز کی بیوی نے انکے کردار کی پاکیزگی کا اعتراف کیا ۔

♦آیئے برائیوں کو نیکیوں سے بدل کر اپنے نامہ اعمال کی بہتری کی کوشش کریں ♦
 

اوصاف احمد

مبتدی
شمولیت
فروری 21، 2017
پیغامات
1
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
18
اسلام علیکم ورحمۃ اللہ ۔
خلاصہ قرآن اہم نکات کے ساتھ: ماشاءاللہ بہت عمدہ اور سلیس انداز میں قرآن پاک کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے اللہ اپکو بہت ہی جزاء خیر عطاء فرماۓ مگر اس میں صرف 12 پاروں کا خلاصہ ہے کیا ہی اچھا ہوتا اگر مکمل قرآن کا خلاصہ اپلوڈ کر دیا جاۓ،آپ سےدرخواست ہے کہ مکمل خلاصہ اپلوڈ کر دیں،جزاک اللہ
 
شمولیت
نومبر 10، 2014
پیغامات
8
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
47
خلاصہ قرآن


پارہ نمبر09 ( قَالَ الْمَلَأُ)

آٹھویں پارے کے آخر میں حضرت شعیب علیہ السلام کا یہ مقولہ تھا کہ آسمانی نظام کو تسلیم کرنے والی اور انکار کرنے والی مؤمن و منکر دو جماعتیں بن چکی ہیں۔ اب خدائی فیصلہ کا انتظار کرو۔ نویں پارہ کی ابتداء میں ان کی قوم کے سرداروں کی دھمکی مذکور ہے کہ آپ اور آپ کے ساتھی اپنے خیالات سے تائب ہوکر اگر ہمارے طریقہ پر نہ لوٹے تو ہم آپ لوگوں کو ملک بدر کئے بغیر نہیں چھوڑیں گے۔ اہل ایمان نے اس کے جواب میںکہا کہ ہمیں اللہ نے ملتِ کفر سے نجات دے کر ملتِ اسلامیہ سے وابستہ ہونے کی نعمت سے سرفراز کیا ہے تو ہم کیسے غلط راستہ کی طرف لوٹ سکتے ہیں۔ ہم اللہ سے دعاء گو ہیںکہ وہ ہمارے اورتمہارے درمیان دوٹوک فیصلہ کرکے حق کو غالب کردے۔ چنانچہ بڑی شدت کا زلزلہ آیا اور حضرت شعیب علیہ السلام کی نبوت کے منکر اس طرح تباہ ہوگئے کہ ان کا نام و نشان بھی باقی نہ بچا اور مؤمنوں کو اللہ تعالیٰ نے عافیت کے ساتھ بچالیا جس پر حضرت شعیب علیہ السلام نے فرمایا کہ میںنے تو قوم کی خیرخواہی کرتے ہوئے اپنے رب کا پیغام پہنچادیا تھا مگر اسے تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے یہ لوگ تباہ ہوگئے اب ان پر میں کیسے رحم کھاسکتا ہوں؟ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ضابطہ بیان کردیا کہ خوشحالی اور تنگدستی کن حالات میں عذاب خداوندی کا مظہر ہوتی ہے اور کن حالات میں اللہ کی طرف سے ابتلاء و آزمائش ہوتی ہے۔ اگر اچھے یا برے حالات کی تبدیلی اعمال میں بہتری پیدا کرکے اللہ کا قرب نصیب کردے تو یہ تبدیلی امتحان ہے اور اللہ کی رضا کا باعث ہے اور اگر اعمال صالحہ میں ترقی نہ ہو بلکہ وہی سابقہ صورتحال رہے یا نافرمانیوں میں اور اضافہ ہوجائے تو یہ تبدیلی عذاب ہے اور اللہ کی ناراضگی اور غضب کا موجب ہے۔ اللہ کے عذاب سے کبھی بھی مطمئن نہیں ہونا چاہئے وہ صبح و شام کسی وقت بھی اچانک آسکتا ہے۔ ہم ان تباہ شدہ بستیوں کے حالات اس لئے سنارہے ہیں کہ انبیاء و رسل کی آمد کے باوجود بھی ان لوگوں نے اپنے اعمال میں بہتری پیدا نہ کرکے اپنے آپ کو عذاب الٰہی کا مستحق ٹھہرالیا۔ جس کی وجہ سے اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگاکر ان کا نام و نشان مٹاکر رکھ دیا۔
اس کے بعد معرکہ خیر و شر کا مشہور واقعہ ’’قصۂ موسیٰ و فرعون‘‘ کا بیان ہے جو آیت ۱۰۳ سے ۱۰۶ تک پھیلا ہوا ہے اور اس میں بعض جزئیات کو بہت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ قرآن کریم میں باربار دہرائے جانے والے واقعات میں سے ایک ہے اور جتنی تفصیل اس واقعہ کی بیان کی گئی ہے، اتنی کسی دوسرے واقعہ کی تکرار کے ساتھ تفصیل بیان نہیں ہوئی ہے۔ یوں تو اکثر سورتوں میں کسی نہ کسی انداز میں اس کا حوالہ مل جاتا ہے مگر سورہ بقرہ، اعراف، طٰہٰ اور قصص میں مختلف پہلوئوں سے اس واقعہ کو زیادہ اجاگر کیا گیا ہے۔ اس میں خیر کی بھرپور نمائندگی حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کرتے ہیں جبکہ شر کی بھرپور نمائندگی فرعون، ہامان، قارون اور یہودی قوم کرتی ہے۔ یہ لوگ اقتدار اعلیٰ، نوکر شاہی، سرمایہ داری کے نمائندہ ہیں۔ سورہ الاعراف میں فرعون اور قوم یہود کے ساتھ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلہ کو بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ہم نے اپنی آیات دے کر موسیٰ علیہ السلام کو فرعون اور اس کے حمایتیوں کی طرف بھیجاانہوں نے ان آیات کو ٹھکراکر فساد برپا کیا۔ آپ دیکھیں ان مفسدین کو کیسے عبرتناک انجام سے دوچار ہونا پڑا۔ موسیٰ علیہ السلام جب رسول کی حیثیت سے فرعون کے پاس تشریف لے گئے اور انہوں نے بنی اسرائیل کی آزادی کا مطالبہ کیا تو اس نے معجزہ دکھانے کا مطالبہ کیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے ’’عصا کا اژدھا‘‘ اور ’’ہاتھ کو چمکتا‘‘ ہوا بناکر دکھادیا۔ فرعون نے اسے ’’جادو‘‘ قرار دے کر مقابلہ کے لئے ’’جادوگر‘‘ بلوالئے۔ انہوں نے رسیوں اور لکڑیوں سے سانپ بنائے۔ موسیٰ علیہ السلام کے عصا کا اژدھا ان سب کو نگل گیا۔ جادوگر چونکہ اپنے فن کے ماہر تھے وہ سمجھ گئے کہ یہ جادو نہیں بلکہ نبی کا معجزہ ہے۔ وہ مسلمان ہوکر سجدہ ریز ہوگئے۔ فرعون نے یہ کہہ کر کہ موسیٰ جادوگروں کا استاد ہے۔ یہ چھوٹے شاگرد ہیں انہوں نے سازباز کرکے یہ ڈراما رچایا ہے اس نے سب جادوگروں کے ہاتھ پائوں کاٹ کر انہیں سولی پر چڑھادیا وہ مرتے مرگئے مگر ایمان سے منحرف نہیں ہوئے۔ موسیٰ علیہ السلام نبی تھے، فرعون ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکا مگر بنی اسرائیل پر اس نے عرصۂ حیات تنگ کردیا۔ مظالم سے تنگ آکر قوم نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا: آپ کی نبوت تسلیم کرنے سے پہلے بھی ہم ستائے جارہے تھے آپ کے آنے کے بعد اس میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ مظالم پہلے سے بڑھ گئے۔ موسیٰ علیہ السلام نے انہیں حکم دیا کہ اپنے گھروں میں ہی قبلہ رو ہوکرنماز اور صبر کی مدد سے اللہ کی مدد کو اپنی طرف متوجہ کرو۔ دنیا میں آزمائش کے طور پر اللہ جسے چاہیں اقتدار پر فائز کریں، لیکن آخرت میں متقیوں کو بہتر انجام ملے گا۔پھر اللہ تعالیٰ نے فرعونیوں پر مختلف عذاب مسلط کئے۔ قحط سالی اور سبزیوں اور پھلوں کی قلت کا عذاب آیا۔ جب انہیں کوئی فائدہ پہنچتا تو وہ کہتے کہ ہماری ’’حسن تدبیر‘‘ کا کرشمہ ہے اور جب انہیں کوئی نقصان یا تکلیف پہنچتی تو اسے موسیٰ علیہ السلام اور ان کے مؤمن ساتھیوں کی نحوست قرار دیتے اور کہتے کہ ہم پر اپنا جادو آزمانے کے لئے تم بڑے سے بڑا معجزہ دکھادو ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے۔ ان پر اللہ نے طوفان، مکڑی، جوئوں، مینڈکوں اور خون کا پے در پے عذاب بھیجا مگر وہ تکبر کے ساتھ اپنے جرائم میں بڑھتے ہی چلے گئے۔ جب ان پر عذاب کی کوئی شکل ظاہر ہوتی تو وہ جھوٹے عہد و پیمان کرکے موسیٰ علیہ السلام سے دعاء کرالیتے، مگر عذاب کے ختم ہوتے ہی پھر نافرمانیوں پر اتر آتے۔ ہماری آیات سے غفلت برتنے اور جھٹلانے کا ہم نے انتقام لے کر انہیں سمندر میں غرق کردیا۔ ہم نے دنیا میں کمزاور ضعیف سمجھی جانے والی قوم کو ان کے محلات، باغات اور اقتدار کا وارث بنادیا اور بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنے کی خاطر کتاب دینے کے لئے حضرت ہارون کو جانشین قرار دے کر حضرت موسیٰ علیہ السلام ’’کوہِ طور‘‘ پر ریاضت کرنے کے لئے بلائے گئے، جہاں وہ چالیس روز تک مقیم رہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں شرف ہمکلامی بخشا اور تورات عطا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ سے ہمکلامی کا ایسا مزہ تھا کہ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کی زیارت کی درخواست کردی۔ اللہ تعالیٰ نے پہاڑ پر تجلی کی جس کی تاب نہ لاکر پہاڑ ریزہ ریزہ ہوگیا، جس سے ثابت ہوا کہ انسان اپنے دنیاوی قویٰ کے ساتھ اللہ کی زیارت نہیں کرسکتا۔
موسیٰ علیہ السلام کی عدم موجودگی میں قوم شرک میں مبتلا ہوکر بچھڑے کی پوجا کرنے لگی۔ موسیٰ علیہ السلام واپس آکر قوم پر بہت ناراض ہوئے، بھائی ہارون کو بھی ڈانٹا اور پھر تواضع کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے لئے، اپنے بھائی کے لئے اور پوری قوم کے لئے معافی طلب کرتے ہوئے مغفرت، رحمت اور ہدایت کی دعا مانگی۔ اللہ نے فرمایا میری رحمت کے مستحق وہ لوگ ہوں گے جو صدقہ و خیرات کا اہتمام کریں۔ تقویٰ اور ایمان کو اختیار کریں اور نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم جن کا تذکرہ ان کی کتابوںتورات اور انجیل میں ہے اور وہ انہیں امر بالمعروف ، نہی عن المنکر کرتے ہیں، ان کی خودساختہ پابندیوں کو ان پر سے ختم کرکے ان کے گناہوں کے بوجھ سے انہیں آزاد کراتے ہیں، ان پر ایمان لاکر ان کی مدد و نصرت کریں تویہ لوگ کامیابی سے ہمکنار ہوجائیں گے۔ پھر حضور علیہ السلام کی رسالت کی عمومیت کو بیان کیا کہ آپ تمام انسانیت کے لئے نبی بن کر تشریف لائے ہیں۔ پھر بنی اسرائیل پر مزید احسانات کا تذکرہ فرمایا کہ بارہ قبیلوں کے لئے پتھر سے بارہ چشمے جاری کئے۔ بادل کا سائبان اور من و سلویٰ کی خوراک عطاء کی۔ بیت المقدس میں داخلہ کے لئے جہاد کا حکم دیا اور مخالفت پر آسمانی عذاب کے مستحق قرار پائے۔ پھر سمندر کے کنارے بسنے والوں کا تذکرہ جنہوں نے سنیچر کا دن عبادت کے لئے مقرر کیا، مگر اس کی پابندی کرنے کی بجائے اس دن شکار میں مشغول ہوگئے، جس کی وجہ سے ذلت آمیز عذاب میں مبتلا ہوکر بندروں کی شکل میں مسخ ہوگئے۔ پھر پہاڑ سروں پر معلق کرکے بنی اسرائیل سے میثاق لینے کا تذکرہ ہے کہ اتنے اہتمام کے باوجود بھی انہوں نے پابندی نہیں کی۔ پھر پوری انسانیت سے لئے جانے والے ’’عہد ألست‘‘ کا تذکرہ ہے جو عالم ارواح میں آدم علیہ السلام کی پشت سے تمام روحوں کو ’’بھوری چیونٹیوں‘‘ کی شکل میں نکال کر لیا گیا۔ تمام روحوں نے اللہ کی ربوبیت کا اقرار کیا، مگر دنیا میں آکر بہت سے لوگ اس سے منحرف ہوگئے۔ پھر ایک اسرائیلی عالم کا تذکرہ جس نے اپنی بیوی کے بہکاوے میں آکر مالی مفادات کے لئے اللہ کی آیات کی غلط تعبیر و تشریح کی، اسے کتے کی مانند بناکر اس کی زبان سینے تک لٹکادی گئی اور وہ کتے کی طرح ہانپتا ہوا جہنم رسید ہوگیا۔ جسے اللہ ہدایت دیں وہی ہدایت یافتہ بن سکتا ہے اور جسے اللہ گمراہ کردیں وہ خسارے میں ہے۔
جنات اور انسانوں میں جو لوگ اپنے دل و دماغ اور آنکھ اور کان کا صحیح استعمال کرکے توحید باری تعالیٰ کو نہ مانیں وہ لوگ گمراہی میں جانوروں سے بھی بدتر ہیں ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ اللہ کو اس کے اسماء حسنیٰ کے ساتھ یاد کیا جائے۔ ملحدین کے خودساختہ نام اللہ کے لئے استعمال نہ کئے جائیں۔ پھر قیامت کا تذکرہ کہ وہ اچانک کسی بھی وقت آجائے گی۔ اس کا علم اللہ کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ہے۔ پھر نبی سے اعلان کروایا گیا ’’میں اپنے لئے بھی نفع نقصان کا مالک نہیں ہوں۔ اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو مجھ پر کبھی کوئی تکلیف نہ آتی اور تمام بھلائیاں میں اپنے لئے جمع کرلیتا۔ میں تو اہل ایمان کو ڈرانے اور خوشخبری سنانے کے لئے آیا ہوں‘‘ پھر قدرتِ خداوندی کے بیان کے لئے ایک جان آدم علیہ السلام سے انسانی تخلیق کا تذکرہ اور پھر ازدواجی زندگی کے فائدہ کا بیان کہ اس کا مقصد زوجین کا ایک دوسرے کے ذریعہ سکون حاصل کرنا ہے۔ پھر شرک کی مذمت کہ ایسے کمزوروں کو اللہ کا شریک بناتے ہیں جو دوسروں کو تو کیا پیدا کریں گے خود اپنی پیدائش میں اللہ کے محتاج ہیں۔ جن بتوں کو یہ اپنا معبود سمجھتے ہیں وہ چلنے پھرنے اور دیکھنے سننے سے بھی محروم ہیں۔ جو اپنی مدد نہ کرسکیں وہ دوسروں کی کیا مدد کریں گے؟ ایک داعی الی اللہ کو اخلاق فاضلہ کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا ’’عفو و درگزر کرتے ہوئے نیکی کا حکم دیتے رہیں، اگر کبھی شیطان کے اثرات سے کوئی نازیبا حرکت سرزد ہوجائے تو اللہ کی پناہ میں آکر تقویٰ اور نصیحت کو اختیار کرلینا چاہئے۔ اتباع اور پیروی کے لئے وحی الٰہی کا ہونا ضروری ہے۔ جب قرآن پڑھاجائے تو توجہ سے سنیں اور صبح و شام اللہ کو یاد کرتے رہیں۔ اللہ کے برگزیدہ بندے اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے۔ وہ اس کی تسبیح و تحمید کرتے ہوئے اس کے حضور سجدہ ریز رہتے ہیں۔

سورہ الانفال
انفال کے معنیٰ مال غنیمت کے ہیں، اس سورہ میں غنیمت کے احکام کا بیان ہے۔ اس میں غزوہ بدر کا تفصیلی تذکرہ ہے اس لئے بعض مفسرین نے اسے سورہ بدر بھی کہا ہے۔ پچھتر آیات اور دس رکوعات پر مشتمل یہ مدنی سورہ ہے۔
اس سورہ میں چھ مرتبہ یا ایہا الذین اٰمنوا کہہ کر خطاب کرتے ہوئے یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ دیئے جانے والے احکام پر عمل ایک مسلمان کے ایمان کا اولین تقاضا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں یہ لوگ مال غنیمت کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ مال غنیمت اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہے وہ جس طرح چاہے اس کی تقسیم کا حکم جاری کرے۔ پھر کامل ایمان والوں کی صفات، اللہ کے ذکر سے متاثر ہونا، کلام اللہ کو سن کر دلوں کا نرم ہوجانا اور اللہ پر توکل کرنا مذکور ہے۔ پھر بدر کے ابتدائی مرحلہ کا تذکرہ ہے کہ نکلتے وقت تمہارے بعض لوگ پوری طرح تیار نہ ہونے کی وجہ سے جہاد پر آمادہ نہیں تھے۔ لیکن جب نبی کے ساتھ مل کر کافروں سے مقابلہ کے لئے میدان میں آگئے تو اللہ نے فرشتے اتا رکر تمہاری مدد فرمائی۔ کافر قتل اور زخمی ہوئے اور میدان سے راہِ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوئے۔ مجاہدین کی عظمت کا بیان ہے کہ تم نے جو کافر قتل اور گرفتار کئے یا ان پر تیر برسائے تو درحقیقت وہ اللہ نے سب کچھ کیا۔ پھر بتایا کہ میدان جہاد سے بھاگنے والے کا ٹھکانہ جہنم ہے البتہ اگر مزید تیاری کرکے دوبارہ حملہ آور ہونے کے ارادے سے پیچھے ہٹا ہے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اللہ اور اسکے رسول کا جب بھی کوئی حکم آئے تو اس پر عمل کرنے میں تاخیر نہ کریں اس میں تمہاری حیات کا راز مضمر ہے۔ کافر لوگ نبی کو گرفتار یا قتل کرنا چاہتے ہیں یا انہیں علاقہ بدر کرنے کے لئے کوشاں ہیں مگر ان کی سازشیں کبھی کامیاب نہیں ہوں گی اور ان کی سازشوں کا توڑ کرتے رہیںگے۔ اسلام کا راستہ روکنے کے لئے کافر اپنا مال خرچ کررہے ہیں مگر اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ یہ جتنا مال چاہیں خرچ کردیں آخر کار انہیں اپنا مال ضائع ہونے پر حسرت اور افسوس ہی ہوگا۔ دشمنان اسلام کو یہ پیغام دے دو کہ اگر وہ اسلام دشمن ہتھکنڈوں سے باز آجائیں تو انہیں معافی مل سکتی ہے ورنہ پہلی قوموں کی گرفت، نظام دنیا کے سامنے موجود ہے۔ قتال فی سبیل اللہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک دنیا سے فتنہ و فساد ختم ہوکر دین اسلام کا نظام پوری دنیا پر غالب نہ آجائے۔

اہم پوائنٹس اور عمل کی باتیں
ناپ تول میں کمی کرنا ۔شعیب ؑ کی نصیحت کا کوئی اثر نہ لینا نتیجہ زلزلے نے انہیں آلیا ۔

بڑے عذاب سے قبل تنگی اور خوشحالی کے ذریعے امتحان لیا جاتا ھے تا کہ اللہ کے آگے عاجزی اختیار کی جائے ۔

حالت امن ایک امتحان ھے ۔امن میں ھوتے ھوئے اللہ کو بھول جانا استدراج ھے ۔جسکی پکڑ سخت ھے ۔

معجزات موسیٰ یعنی عصا کا اژدھا بن جانا اور ھاتھ کا سفید چمکتا ھوا نکلنا حق کی دلیل کے طور پر دئیے گئے ۔

فرعون کے جادوگروں نے حق کو پہچان کر فورا قبول کر لیا اور اس پر جم گئے ۔

ال فرعون کی آزمائشیں مثلا قحط ، پھلوں کی کمی ،طوفان ،ٹڈیاں ،جوئیں ، مینڈک اور خون کا بھیجنا ۔عذاب ٹالنے کے لیئے ہر دفعہ ایمان لانے کا وعدہ کرنا مگر عذاب ٹلتے ھی پھر خلاف ورزی کرنا ۔

بت پرستی کی نفسیات یہ ھے کہ بتوں کے گرد موجود زیب وزینت سے متاثر ھر کر انسان انکی پرستش کرنے لگتا ھے برخلاف اس کے اللہ کی ہستی نگاہ سے اوجھل ھے اور کوئی ظاہری کشش نہیں اس لیئے اسکی عبادت پر یکسو ھونا مشکل لگتا ھے ۔

حق سے انکار اور لوگوں کو حقیر جاننا تکبر کہلاتا ھے ۔رائی کے دانے کے برابر تکبر کرنے والا شخص جنت میں نہ جا سکے گا ۔

اللہ کی وسیع رحمت متقی ،زکواۃ دینے والوں اور آیات پر ایمان لانے والوں کے لئے ھے ۔

کامیابی کا راز نبی امی کا مقام پہچاننے ،انکی تائید کرنے اور ان پر نازل کردہ کتاب کی پیروی کرنے میں ھے ۔

حالات کچھ بھی ہوں اللہ کی کتاب کو نہیں چھوڑنا ۔کیونکہ نجات اسی میں ھے ۔

سب روحوں سے اللہ کے رب ھونے کا اقرار لیا گیا تا کہ وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ ھمیں تو علم ھی نہ تھا ۔

دین کا علم آنے کے بعد دین چھوڑ کر دنیا کی طرف لپک پڑنا کتے کی طرح کا لالچ ھے ۔

دل ۔کان ۔آنکھ سے حق کو نہ سمجھنے اور قبول نہ کرنے والوں کی اکثریت جہنم میں ھو گی ۔

نبیؐ کو غیب کا علم نہیں تھا ۔اگر علم ھوتا تو آپؐ کو کوئی تکلیف نہ پہنچ سکتی اور آپؐ بروقت پیش بندی کر لیتے ۔

اللہ کے سوا کسی کو نہیں پکارنا کیونکہ باقی سب اللہ کے بندے ھیں اور کچھ قدرت نہیں رکھتے ۔

درگزر کے ساتھ بھلائی کا حکم دینا اور جاھلوں سے الجھنے کے بجائے اعراض کرنا چاھیے ۔

قران پڑھا جا رھا ھو تو خاموش رہنا اور غور سے سننا آداب قران میں سے ھے ۔

تعلقات کی اصلاح دنیا بھر کے مال و متاع سے بہتر ھے اس لئے مال کی خاطر لڑنے سے بچنا ۔

مومن وہ ھیں جن کے دل ذکر الہٰی سے ہل جائیں ،ایمان بڑھ جائے ۔نماز قائم کریں ،اللہ کے راستے میں خرچ کریں ۔

متقی بننے کا فائدہ یہ ھوگا کہ دل میں میزان حاصل ھو گی اور گناہ معاف ھونگے ۔

اللہ ھی سچا دوست ھے ۔نعم المولیٰ ونعم النصیر۔

♻آئیے دنیا کے اس امتحان میں کامیابی کے لئے اللہ سے مدد طلب کریں۔۔
خلاصہ قرآن مکمل اپ لوڈ کر دیں
 
Top