• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خلافت: ایک سعی ٔ ناکام

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
امت کا سب سے بڑا مسٔلہ تو شرک و بدعات کا خاتمہ اور توحید کی بالادستی ہی ہونا چاہئے تھا ۔
لیکن امت اسے پس پشت ڈال کر دیگر مسائل کو حل کرنے میں لگی ہوئی ہے۔
دشمنوں کی چیرا دستی اور اپنوں کی ظلم وزیادتی اور ناانصافی سے نجات ۔۔۔ یہ رہے دو بڑے مسائل ہیں جن کا حل مسلمان خلافت خلافت میں ڈھونڈ رہے ہیں۔
محترم اجمل خان صاحب -

شرک و بدعت کی بیخ کنی کے ساتھ ساتھ خلافت کے نظام کی سعی ہرمسلمان پر لازم و ملزوم ہے- ورنہ ہم اہل سلف میں اور صوفیوں کے نظریات میں کوئی فرق نہیں رہے گا - جو کہتے ہیں کہ پہلے اپنے نفس سے جہاد کرو - پھر جہاد فی سبیل الله کے لئے نکلنا-
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
85
معاف فرمائیے گا مگر جہاں شرک و بدعت کا توڑ ضروری ہے، وہیں اللہ کے حکم کو قائم کرنا بھی اسی طرح اہم ہے۔ اسی طرح دین کے تمام عناصر کے لیے سعی کرنا ہو گی۔ اگر کوئی دلوں کی اصلاح کا کام بہتر کر سکتا ہے تو وہ وہی کرے۔ اگر کوئی کسی کو حلال حرام کی تمیز سکھا سکتا ہے تو کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کفار خلافت کے نام سے لرزتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ خلافت کی سعی کرنے والے آپ کو اس بات پر convince کرتے ہوئے ملیں کہ گٹر بھی بند ہوا تو اس کی وجہ خلافت کی غیر موجودگی ہے، تو یہ خاصی عجیب بات ہو گی۔
اللہ ہمیں تکبر کے اس مقام پر پہنچنے سے بچائے جہاں ہمیں اپنے فہم کے علاوہ ہر مسلمان کا فہم یا اس کی محنت یا اس سے بھی بڑھ کر اس کا خلوص ہیچ نظر آئے۔
برادر محترم ! آپ کی ساری باتوں سے متفق ہوں سوائے حقیقت یہ ہے کہ یہ کفار خلافت کے نام سے لرزتے ہیں۔
یہ صرف ہم مسلمان اپنے آپ کو دھوکا دینے کیلئے کہتے ہیں۔ اب دشمنوں کے دلوں میں ہمارا ڈر نہیں بلکہ ہم مسلمانوں کے دلوں میں اسلام دشمنوں کا ڈر ہے‘ جس کے بارے میں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
قریب ہے کہ (گمراہ) قومیں تمہارے خلاف اس طرح یلغار کریں گی جس طرح کھانے والے کھانے کھانے پہ ٹوٹ پڑتے ہیں ۔
کسی نے عرض کیا: اس روز ہماری تعداد کم ہونے کی وجہ سے ایسا ہوگا؟
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: نہیں ، بلکہ اس روز تم زیادہ ہو گے، لیکن تم سیلاب کی جھاگ کی طرح ہو گے، اللہ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہاری ہیبت نکال دے گا اور تمہارے دل میں وہن ڈال دے گا۔‘‘
کسی نے عرض کیا، اللہ کے رسول: ’’ وہن کیا ہے؟ ‘‘
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: دنیا سے محبت اور موت سے نفرت۔ . (رواه أبو داود ۴۲۹۷)



آج کفار ہم سے بالکل نہیں ڈرتے‘ کفار نہ ہی ’ جہاد ‘ سے ڈرتے ہیں اور نہ ہی ’ خلافت ‘ سے بلکہ انہوں نے اپنی عیاری سے جہاد اور خلافت وغیرہ کو گالی بنا دیا ہے۔مسلمانوں کا یہودیوں سے بھی بڑا دشمن انگریز ہیں۔ انہوں نے سارے مسلمانوں پر حکومت کی اور پھر سمٹ کر اپنے ملک کے ہو رہے لیکن انکی ریشہ دوانیاں آج بھی جاری ہے۔ انگریز مسلمان دشمنی میں سب سے پہلے ہمارے علماؤں کو بدنام کیا اور آج عام مسلمانوں کے دلوں میں مولویوں کی جو قدر ہے سب کو معلوم ہے۔
انگریز مسلمانوں کے رگ رگ سے واقف ہیں اسلئے امریکہ ہو‘ یہود یا ہنود مسلمانوں کے خلاف کچھ کرنے سے پہلے ان سے مشورہ اور مدد ضرور لیتے ہیں۔
اس دور میں اسلام دشمنوں نے بہت گھناؤنا کھیل کھیلا ہے اور وہ یہ ہے کہ پہلے طالبان وغیرہ بنا کر خودکش حملوں کے ذریعے ’جہاد‘ کو گالی بنایا اور اب ’ داعش کے ذریعے ’خلافت ‘ کو گالی بنانے کا کام کر رہا ہے۔
لہذا وہ دن دور نہیں جب عام مسلمان ’ جہاد ‘ اور ’ خلافت ‘ کو بھی اسی طرح گالی سمجھیں گے جس طرح ’ مولویوں ‘ کو سمجھتے ہیں۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
85
محترم اجمل خان صاحب -

شرک و بدعت کی بیخ کنی کے ساتھ ساتھ خلافت کے نظام کی سعی ہرمسلمان پر لازم و ملزوم ہے- ورنہ ہم اہل سلف میں اور صوفیوں کے نظریات میں کوئی فرق نہیں رہے گا - جو کہتے ہیں کہ پہلے اپنے نفس سے جہاد کرو - پھر جہاد فی سبیل الله کے لئے نکلنا-
محترم محمد علی جواد بھائی ! آپ سے متفق ہوں کہ ہم اہل سلف میں اور صوفیوں میں فرق ہونا چاہئے۔
لیکن جہاں تک خلافت کا تعلق ہے‘ خلافت تو اللہ کا عطیہ ہوتا ہے۔
جب اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار کے حامل کوئی امت وجود میں آتی ہے تو اللہ اپنی رحمت سے انہیں خلافت عطا کرتا ہے۔
قرآن اور تاریخ سے یہی ثابت ہے کہ انبیاء علیہم السلاۃ و السلام کی ساری کی ساری جدو جہد بندوں میں اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار کےپیدا کرنا ہوتا تھا۔
پھر جب اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار کے حامل بندوں سے ایک امت بن جاتی تو اللہ اپنی رحمت سے انہیں خلافت عطا کرتا۔ یہاں ایک بات اور نوٹ کرلیں کہ یہ اوصافِ حمیدہ صرف ایک خلیفہ کے اندر ہی نہیں بلکہ امت کی اکثریت میں ہونی چاہئے کیونکہ حکومت صرف ایک فرد سے نہیں چلتی۔
اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار میں کمی آتے ہی خلافت چھین لی جاتی۔
قومِ نوحؑ ( جو کشتی میں سوار ہوئے تھے)‘ قوم عاد‘ قوم ثمود میں انبیاء علیہم السلاۃ و السلام کی محنت کے نتیجے میں جب اللہ کو مطلوب مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار کے حامل بندوں سے امتیں بنی تو اللہ نے ان میں سے ہر امت کو خلافت عطا کیا اور ایمان‘ اعتقاد اور کردار میں بگاڑ پیدا ہوتے ہی خلافت چھین لی گئی۔

بنی اسرائیل میں حضرت داؤد علیہ السلاۃ و السلام کو اللہ نے خلافت سے نوازا اور یہ خلافت حضرت سلیمان علیہ السلاۃ و السلام تک قائم رہا۔
جیسا کہ قرآن میں ہے:
يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ ۔۔۔﴿٢٦سورة ص

’’ اے داؤد(ع)! ہم نے تم کو زمین میں خلیفہ مقرر کیا ہے ۔۔۔‘‘
وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ ۖ ۔۔۔۔سورة النمل
’’ اور داؤدؑ کا وارث سلیمانؑ ہوا۔۔۔‘‘
لیکن حضرت سلیمان کے بعد یہودیوں میں اسی طرح فساد برپا ہوا جس طرح امتِ مسلمہ میں حضرت عثمان غنی اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کے ادوار میں فساد شروع ہوا تھا اور بالکل ایک جیسے وجوہات کے بنا پر یہودیوں سے اور مسلمانوں سے خلافت رخصت ہوئی۔
نصرانیوں میں نظام خلافت کی کوئی تاریخ نہیں ملتی۔
حضرت سلیمان علیہ السلاۃ و السلام کے بعد جب ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و اٰلیہ و سلم نے اپنی انتھک محنت سے اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار کے حامل افراد سے اس امتِ مسلمہ کو وجود میں لایا تو اللہ نے اپنے وعدے کے مطابق اس امت کو خلافت عطا کیا‘ (اللہ کے وعدے کا ذکر میرے اصل مضمون میں ہے)۔
پھر جب قتلِ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے امت میں فساد پیدا ہوا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں شرک اور فرقہ پرستی وجود میں آیا‘ تو اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار میں کمی ہونا شروع ہوئی اورامت سے خلافت رخصت ہوئی۔ یہی اللہ کی سنت ہے جو کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔
وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّـهِ تَبْدِيلًا ﴿٢٣﴾ سورة الفتح

رسولِ کریم ﷺ نے بھی اپنے بعد صرف تیس سال تک امت میں خلافت رہنے کی پیشن گوئی کی تھی:
"نبوت والی خلافت تیس سال رہے گی پھر جسے اللہ چاہے گا (اپنی) حکومت دے گا۔ سعید رحمة اللہ علیہ نے کہا: سفینہ رضی اللہ عنہ نے مجھے کہا: شمار کرو، ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دو سال اور عمر رضی اللہ عنہ کے دس سال اور عثمان رضی اللہ عنہ کے بارہ سال اور علی رضی اللہ عنہ کے اتنے (یعنی چھ سال)"
http://magazine.mohaddis.com/shumara/249-nov-1995/2745-khilafat-rashda-tees-sal-hadees-tehqiq

نبی کریم ﷺ کے فرمان کے مطابق ٹھیک تیس سال تک خلافت رہی اور اب تک دوبارہ بحال نہیں ہوئی۔ بے شمار لوگوں نے کوششیں کی‘ بے شمار لوگوں نےجہاد کئے اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا لیکن آج تک خلافت نہ آنی تھی نہ آئی۔۔۔
وجہ کیا ہے‘ وجہ بس ایک ہی ہے کہ تیس سال کے بعد آج تک امت ’’ اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار ‘‘ کی حامل نہیں بنی۔
امت میں جو لوگ نظامِ خلافت کیلئے کوشاں ہیں‘ انہیں صرف اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار کی حامل امت کی تشکیلِ نو کی کوششیں کرنی چاہئے جس کے بغیر صرف نعروں سے‘ یا جہاد سے یا خروج سے نظامِ خلافت نہیں آئے گی۔
اوپر میں نے ذکر کیا ہے کہ نصرانیوں میں نظام خلافت کی کوئی تاریخ نہیں ملتی اور نہ ہی قرآن میں ایسا کچھ آیا ہے جبکہ ہر رسول کے دور میں نبوت والی خلافت قائم ہونی لازمی ہے اور ان شاء اللہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی یہ صرف حاصل ہوگا۔
جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ اس امت میں نزول فرمائیںگے‘ شرک و بدعات کا خاتمہ کریں گے‘ سارے فرقے ختم ہونگے‘ اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار کی حامل ایک امت بنائیں گے‘اور نبوت والی خلافت قائم کریں گے۔
ہم اپنے اندر اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار پیدا کریں تاکہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہمارے وقت میں ہو تو ہم ان کا ساتھ دینے والے ہوں ورنہ ہم ان اوصاف کو اپنے آئندہ آنے والے نسلوں میں منتقل کرتے رہیں کہ جب بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہو اور انہیں امت کی ایسے افراد مل جائیں جو دنیا سے یہودیوں کو ختم کرکے خلافت قائم کرنے میں ان کی مدد کریں۔ (واللہ تعالیٰ اعلم)
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
محترم اجمل خان صاحب -

شرک و بدعت کی بیخ کنی کے ساتھ ساتھ خلافت کے نظام کی سعی ہرمسلمان پر لازم و ملزوم ہے- ورنہ ہم اہل سلف میں اور صوفیوں کے نظریات میں کوئی فرق نہیں رہے گا - جو کہتے ہیں کہ پہلے اپنے نفس سے جہاد کرو - پھر جہاد فی سبیل الله کے لئے نکلنا-
برادر محترم ! آپ کی ساری باتوں سے متفق ہوں سوائے حقیقت یہ ہے کہ یہ کفار خلافت کے نام سے لرزتے ہیں۔
یہ صرف ہم مسلمان اپنے آپ کو دھوکا دینے کیلئے کہتے ہیں۔ اب دشمنوں کے دلوں میں ہمارا ڈر نہیں بلکہ ہم مسلمانوں کے دلوں میں اسلام دشمنوں کا ڈر ہے‘ جس کے بارے میں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
قریب ہے کہ (گمراہ) قومیں تمہارے خلاف اس طرح یلغار کریں گی جس طرح کھانے والے کھانے کھانے پہ ٹوٹ پڑتے ہیں ۔
کسی نے عرض کیا: اس روز ہماری تعداد کم ہونے کی وجہ سے ایسا ہوگا؟
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: نہیں ، بلکہ اس روز تم زیادہ ہو گے، لیکن تم سیلاب کی جھاگ کی طرح ہو گے، اللہ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہاری ہیبت نکال دے گا اور تمہارے دل میں وہن ڈال دے گا۔‘‘
کسی نے عرض کیا، اللہ کے رسول: ’’ وہن کیا ہے؟ ‘‘
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: دنیا سے محبت اور موت سے نفرت۔ . (رواه أبو داود ۴۲۹۷)



آج کفار ہم سے بالکل نہیں ڈرتے‘ کفار نہ ہی ’ جہاد ‘ سے ڈرتے ہیں اور نہ ہی ’ خلافت ‘ سے بلکہ انہوں نے اپنی عیاری سے جہاد اور خلافت وغیرہ کو گالی بنا دیا ہے۔مسلمانوں کا یہودیوں سے بھی بڑا دشمن انگریز ہیں۔ انہوں نے سارے مسلمانوں پر حکومت کی اور پھر سمٹ کر اپنے ملک کے ہو رہے لیکن انکی ریشہ دوانیاں آج بھی جاری ہے۔ انگریز مسلمان دشمنی میں سب سے پہلے ہمارے علماؤں کو بدنام کیا اور آج عام مسلمانوں کے دلوں میں مولویوں کی جو قدر ہے سب کو معلوم ہے۔
انگریز مسلمانوں کے رگ رگ سے واقف ہیں اسلئے امریکہ ہو‘ یہود یا ہنود مسلمانوں کے خلاف کچھ کرنے سے پہلے ان سے مشورہ اور مدد ضرور لیتے ہیں۔
اس دور میں اسلام دشمنوں نے بہت گھناؤنا کھیل کھیلا ہے اور وہ یہ ہے کہ پہلے طالبان وغیرہ بنا کر خودکش حملوں کے ذریعے ’جہاد‘ کو گالی بنایا اور اب ’ داعش کے ذریعے ’خلافت ‘ کو گالی بنانے کا کام کر رہا ہے۔
لہذا وہ دن دور نہیں جب عام مسلمان ’ جہاد ‘ اور ’ خلافت ‘ کو بھی اسی طرح گالی سمجھیں گے جس طرح ’ مولویوں ‘ کو سمجھتے ہیں۔
دور جدید میں اہل مغرب نے سیاسی میدان میں جمہوریت کی روایت قائم کر دی ہے۔ مسلم ممالک میں اس روایت کو بالعموم اختیار نہیں کیا گیا اور زیادہ تر مسلم ممالک میں بادشاہت یا فوجی آمریت کا نظام قائم ہے۔ حالیہ تبدیلیوں کے نتیجے میں دنیا میں سیاسی بیداری پیدا ہو رہی ہے اور مسلم ممالک آہستہ آہستہ جمہوری نظام کی طرف جا رہے ہیں۔ بہت سے مسلم ممالک میں لولی لنگڑی جمہوریت قائم ہو چکی ہے۔ بعض مسلم ممالک جیسے ملائشیا میں جمہوری نظام کامیابی سے چل رہا ہے۔

میڈیا کی بڑھتی ہوئی آزادی کے باعث آمرانہ قوتوں کی معاشرے پر گرفت مسلسل کمزور ہو رہی ہے۔ حکمرانوں کے احتساب کی روایت بھی آہستہ آہستہ طاقت پکڑ رہی ہے۔ اس سب کے باوجود اس معاملے میں مسلم ممالک ابھی مغربی ممالک سے سالوں پیچھے ہیں اور انہیں مغربی ممالک کے جمہوری نظام تک پہنچنے کے لئے کئی عشرے درکار ہیں۔

ہماری رائے میں دینی اور اخلاقی نقطہ نظر سے یہ ایک نہایت ہی مثبت تبدیلی ہے۔ اسلام نے معاشرے میں اجتماعیت کی جو بنیاد پیش کی ہے وہ صرف اور صرف شورائیت ہے یعنی معاشرے کا پورا نظام مشورے سے چلایا جائے۔ قرآن مجید میں اہل ایمان کی صفات کو بیان کرتے ہوئے ارشاد باری تعالی ہے:

وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ۔ (الشوری 42:38)

اور وہ لوگ جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، اپنے معاملات مشورے سے چلاتے ہیں اور ہم نے انہیں جو رزق دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

سید ابوالاعلی مودودی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں۔

"أَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ کا قاعدہ خود اپنی نوعیت اور فطرت میں پانچ باتوں کا تقاضا کرتا ہے:

· اول یہ کہ اجتماعی معاملات جن لوگوں کے حقوق اور مفاد سے تعلق رکھتے ہوں انہیں اظہار رائے کی پوری آزادی حاصل ہو اور وہ اس بات سے پوری طرح باخبر رکھے جائیں کے ان کے معاملات فی الواقع کس طرح چلائے جا رہے ہیں، اور انہیں اس امر کا بھی پورا حق حاصل ہو جو کہ اگر وہ اپنے معاملات کی سربراہی میں کوئی غلطی یا خامی یا کوتاہی دیکھیں تو اس پر ٹوک سکیں، احتجاج کر سکیں، اور اگر اصلاح ہوتی نہ دیکھیں تو سربراہ کاروں کو بدل سکیں۔ لوگوں کا منہ بند کر کے اور ان کے ہاتھ پاؤں کس کر اور ان کو بے خبر رکھ کر ان کے اجتماعی معاملات چلانا صریح بددیانتی ہے جسے کوئی شخص بھی أَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ کے اصول کی پیروی نہیں مان سکتا۔

· دوم یہ کہ اجتماعی معاملات کو چلانے کی ذمہ داری جس شخص پر بھی ڈالنی ہو اسے لوگوں کی رضامندی سے مقرر کیا جائے۔ یہ رضامندی، ان کی آزادانہ رضامندی ہو۔ جبر اور تخویف سے حاصل کی ہوئی، یا تحریص اور اطماع سے خریدی ہوئی، یا دھوکے اور فریب اور مکاریوں سے کھسوئی ہوئی رضامندی درحقیقت رضامندی نہیں ہے۔ ایک قوم کا صحیح سربراہ وہ نہیں ہوتا، جو ہر ممکن طریقہ سے کوشش کر کے اس کا سربراہ بنے، بلکہ وہ ہوتا ہے جس کو لوگ اپنی خوشی اور پسند سے اپنا سربراہ بنائیں۔

· سوم یہ کہ سربراہ کار کو مشورہ دینے کے لیے بھی وہ لوگ مقرر کیے جائیں جن کو قوم کا اعتماد حاصل ہو، اور ظاہر بات ہے کہ ایسے لوگ کبھی صحیح معنوں میں حقیقی اعتماد کے حامل قرار نہیں دیے جا سکتے جو دباؤ ڈال کر، یا مال سے خرید کر، یا جھوٹ اور مکر سے کام لے کر، یا لوگوں کو گمراہ کر کے نمائندگی کا مقام حاصل کریں۔

· چہارم یہ کہ مشورہ دینے والے اپنے علم اور ایمان و ضمیر کے مطابق رائے دیں، اور اس طرح کے اظہار رائے کی، انہیں پوری آزادی حاصل ہو۔ یہ بات جہاں نہ ہو، جہاں مشورہ دینے والے کسی لالچ یا خوف کی بنا پر، یا کسی جتھہ بندی میں کسے ہوئے ہونے کی وجہ سے خود اپنے علم اور ضمیر کے خلاف رائے دیں، وہاں درحقیقت خیانت اور غداری ہوگی نہ کہ أَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ کی پیروی۔

· پنجم یہ کہ جو مشورہ اہل شوری کے اجماع (اتفاق رائے) سے دیا جائے، یا جسے ان کے جمہور (اکثریت) کی تائید حاصل ہو، اسے تسلیم کیا جائے۔ کیونکہ اگر ایک شخص یا ایک ٹولہ سب کی سننے کے بعد اپنی من مانی کرنے کا مختار ہو تو مشاورت بالکل بے معنی ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالی یہ نہیں فرما رہا ہے کہ "ان کے معاملات میں ان سے مشورہ لیا جاتا ہے" بلکہ یہ فرما رہا ہے کہ "ان کے معاملات آپس کے مشورے سے چلتے ہیں"۔ اس ارشاد کی تعمیل محض مشورہ لے لینے سے نہیں ہو جاتی، بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ مشاورت میں اجماع یا اکثریت کے ساتھ جو بات طے ہو اسی کے مطابق معاملات چلیں۔" (تفہیم القرآن ج 4 ص 510)

ایک صحیح جمہوری نظام میں یہ پانچوں شرائط پوری ہوتی ہیں جس کا تقاضا أَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ کی یہ آیت کرتی ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جمہوریت کی طرف یہ قدم نہایت ہی مثبت تبدیلی ہے۔

آزادی رائے

موجودہ دور آزادی رائے اور آزادی اظہار کا دور ہے۔ اہل مغرب نے اس قدر کو اپنے معاشروں میں اس قدر ترقی یافتہ بنا لیا ہے کہ اس کے نتیجے میں وہاں بالعموم کھل کر ہر معاملے میں اپنی رائے کا اظہار کیا جا سکتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے ہاں بالخصوص مذہبی معاملات میں بعض لوگ اس آزادی کا غلط استعمال کر لیتے ہیں اور دوسروں کے جذبات کی دل آزاری کا باعث بنتے ہیں۔

قدیم مسلم معاشرے میں آزادی اظہار اپنے عروج پر تھی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کھلے عام ہر معاملے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے۔ یہاں تک کہ خلیفہ پر بھی کھلی تنقید کی جاتی۔ بنو امیہ کے دور میں ایک مخصوص دائرے کے علاوہ تقریباً یہی صورتحال رہی۔ بنو عباس کے دور سے مسلمانوں کے ہاں انسان کے اس حق پر حدود و قیود عائد ہونا شروع ہوئیں۔ موجودہ دور میں مسلم معاشروں کی بڑی تعداد اس حق سے محروم ہے۔ اکثر مقامات پر تو حکومت کی جانب سے پابندیاں عائد ہیں لیکن بعض ممالک جیسے پاکستان میں حکومت کی طرف سے تو کوئی خاص پابندیاں نہیں لیکن بہت سے ایسے پریشر گروپ موجود ہیں جو اہل علم کو آزادی اظہار کا حق دینے کو تیار نہیں اور اپنے مسلک یا نظریات کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو خاموش کر دینے کے لئے کمربستہ رہتے ہیں۔

اگرچہ آزادی اظہار کے معاملے میں بھی مسلم ممالک مغربی ممالک سے بہت پیچھے ہیں لیکن ان میں سے اکثر کے ہاں بھی یہ حق دینے کا سلسلہ اور فکر کو آزاد کرنے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ جمہوریت کی طرح اس معاملے میں انہیں عالمی معیار تک پہنچنے کے لئے کئی عشرے درکار ہوں گے۔

بعض لوگ اظہار رائے کی اس آزادی کا غلط استعمال کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں دوسروں کی دل آزاری کا باعث بنتے ہیں۔ یہ طرز عمل درست نہیں تاہم اس سے آزادی اظہار کے اس حق کی نفی نہیں ہوتی۔ قرآن مجید میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ "لا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ" یعنی "دین میں کوئی جبر نہیں"۔ ہر شخص کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ جس نقطہ نظر کو حق سمجھے، اسے اختیار کر لے کیونکہ قرآن مجید نے حق کو بالکل واضح کر دیا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو آزادی رائے کی یہ قدر بالکل مثبت تبدیلی ہے البتہ اس کا غلط استعمال برا ہے۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
محترم محمد علی جواد بھائی ! آپ سے متفق ہوں کہ ہم اہل سلف میں اور صوفیوں میں فرق ہونا چاہئے۔
لیکن جہاں تک خلافت کا تعلق ہے‘ خلافت تو اللہ کا عطیہ ہوتا ہے۔
جب اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار کے حامل کوئی امت وجود میں آتی ہے تو اللہ اپنی رحمت سے انہیں خلافت عطا کرتا ہے۔
قرآن اور تاریخ سے یہی ثابت ہے کہ انبیاء علیہم السلاۃ و السلام کی ساری کی ساری جدو جہد بندوں میں اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار کےپیدا کرنا ہوتا تھا۔
پھر جب اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار کے حامل بندوں سے ایک امت بن جاتی تو اللہ اپنی رحمت سے انہیں خلافت عطا کرتا۔ یہاں ایک بات اور نوٹ کرلیں کہ یہ اوصافِ حمیدہ صرف ایک خلیفہ کے اندر ہی نہیں بلکہ امت کی اکثریت میں ہونی چاہئے کیونکہ حکومت صرف ایک فرد سے نہیں چلتی۔
اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار میں کمی آتے ہی خلافت چھین لی جاتی۔
قومِ نوحؑ ( جو کشتی میں سوار ہوئے تھے)‘ قوم عاد‘ قوم ثمود میں انبیاء علیہم السلاۃ و السلام کی محنت کے نتیجے میں جب اللہ کو مطلوب مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار کے حامل بندوں سے امتیں بنی تو اللہ نے ان میں سے ہر امت کو خلافت عطا کیا اور ایمان‘ اعتقاد اور کردار میں بگاڑ پیدا ہوتے ہی خلافت چھین لی گئی۔

بنی اسرائیل میں حضرت داؤد علیہ السلاۃ و السلام کو اللہ نے خلافت سے نوازا اور یہ خلافت حضرت سلیمان علیہ السلاۃ و السلام تک قائم رہا۔
جیسا کہ قرآن میں ہے:
يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ ۔۔۔﴿٢٦سورة ص

’’ اے داؤد(ع)! ہم نے تم کو زمین میں خلیفہ مقرر کیا ہے ۔۔۔‘‘
وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ ۖ ۔۔۔۔سورة النمل
’’ اور داؤدؑ کا وارث سلیمانؑ ہوا۔۔۔‘‘
لیکن حضرت سلیمان کے بعد یہودیوں میں اسی طرح فساد برپا ہوا جس طرح امتِ مسلمہ میں حضرت عثمان غنی اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کے ادوار میں فساد شروع ہوا تھا اور بالکل ایک جیسے وجوہات کے بنا پر یہودیوں سے اور مسلمانوں سے خلافت رخصت ہوئی۔
نصرانیوں میں نظام خلافت کی کوئی تاریخ نہیں ملتی۔
حضرت سلیمان علیہ السلاۃ و السلام کے بعد جب ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و اٰلیہ و سلم نے اپنی انتھک محنت سے اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار کے حامل افراد سے اس امتِ مسلمہ کو وجود میں لایا تو اللہ نے اپنے وعدے کے مطابق اس امت کو خلافت عطا کیا‘ (اللہ کے وعدے کا ذکر میرے اصل مضمون میں ہے)۔
پھر جب قتلِ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے امت میں فساد پیدا ہوا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں شرک اور فرقہ پرستی وجود میں آیا‘ تو اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار میں کمی ہونا شروع ہوئی اورامت سے خلافت رخصت ہوئی۔ یہی اللہ کی سنت ہے جو کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔
وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّـهِ تَبْدِيلًا ﴿٢٣﴾ سورة الفتح

رسولِ کریم ﷺ نے بھی اپنے بعد صرف تیس سال تک امت میں خلافت رہنے کی پیشن گوئی کی تھی:
"نبوت والی خلافت تیس سال رہے گی پھر جسے اللہ چاہے گا (اپنی) حکومت دے گا۔ سعید رحمة اللہ علیہ نے کہا: سفینہ رضی اللہ عنہ نے مجھے کہا: شمار کرو، ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دو سال اور عمر رضی اللہ عنہ کے دس سال اور عثمان رضی اللہ عنہ کے بارہ سال اور علی رضی اللہ عنہ کے اتنے (یعنی چھ سال)"
http://magazine.mohaddis.com/shumara/249-nov-1995/2745-khilafat-rashda-tees-sal-hadees-tehqiq

نبی کریم ﷺ کے فرمان کے مطابق ٹھیک تیس سال تک خلافت رہی اور اب تک دوبارہ بحال نہیں ہوئی۔ بے شمار لوگوں نے کوششیں کی‘ بے شمار لوگوں نےجہاد کئے اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا لیکن آج تک خلافت نہ آنی تھی نہ آئی۔۔۔
وجہ کیا ہے‘ وجہ بس ایک ہی ہے کہ تیس سال کے بعد آج تک امت ’’ اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار ‘‘ کی حامل نہیں بنی۔
امت میں جو لوگ نظامِ خلافت کیلئے کوشاں ہیں‘ انہیں صرف اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار کی حامل امت کی تشکیلِ نو کی کوششیں کرنی چاہئے جس کے بغیر صرف نعروں سے‘ یا جہاد سے یا خروج سے نظامِ خلافت نہیں آئے گی۔
اوپر میں نے ذکر کیا ہے کہ نصرانیوں میں نظام خلافت کی کوئی تاریخ نہیں ملتی اور نہ ہی قرآن میں ایسا کچھ آیا ہے جبکہ ہر رسول کے دور میں نبوت والی خلافت قائم ہونی لازمی ہے اور ان شاء اللہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی یہ صرف حاصل ہوگا۔
جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ اس امت میں نزول فرمائیںگے‘ شرک و بدعات کا خاتمہ کریں گے‘ سارے فرقے ختم ہونگے‘ اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار کی حامل ایک امت بنائیں گے‘اور نبوت والی خلافت قائم کریں گے۔
ہم اپنے اندر اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار پیدا کریں تاکہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہمارے وقت میں ہو تو ہم ان کا ساتھ دینے والے ہوں ورنہ ہم ان اوصاف کو اپنے آئندہ آنے والے نسلوں میں منتقل کرتے رہیں کہ جب بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہو اور انہیں امت کی ایسے افراد مل جائیں جو دنیا سے یہودیوں کو ختم کرکے خلافت قائم کرنے میں ان کی مدد کریں۔ (واللہ تعالیٰ اعلم)
منحترم اجمل صاحب -

میں آپ کی اسس بات سے کافی حد تک متفق ہوں -ہم لوگوں بحیثیت امّت محمدی اپنے کردار اور ایمان و اعتقاد کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے - تب ہی ہم دنیا میں ایک منظم نظام خلافت قائم کرسکتے ہیں - لیکن ہمیں یہ بات ملحوظ خاطر رکھنے ضروری ہے کہ ایک چیز ہوتی ہے الله کی مشیت اور ایک ہوتی انسان کی کوشش- الله کی مشیت کے تحت تو خلافت کے وہی لوگ حق دار ٹہریں گے یا ٹھہرے تھے جو اپنے ایمان اور اعتقاد میں پکے مومن تھے- لیکن الله کے نزدیک پکا مومن بھی وہی ہوتا ہے جو پہلے طاغوت کا انکار کرتا ہے اور پھر حق کا اثبات کرتا ہے - کلمہ طیبہ لا الہٰ الااللہ - ہمیں اسی بات کی تعلیم دیتا ہے کہ پہلے ہر قسم کے طاغوت کی نفی کی جائے اور پھر ایک الہٰ کا اثبات کیا جائے - تمام باطل نظام جو حکمرانی کے زمن میں دنیا میں وجود میں آے ان کا انکار کردیا جائے - چاہے جمہوریت، آمریت ہو، کمویونزم، کیپٹلزم ہو یا کوئی اور باطل نظام - سب طاغوت کی ایک قسم ہیں اور ایک مومن کو قابل قبول نہیں -٠ ان نظاموں کو تسلیم کرنا ہی شرک اکبر ہے -قرآن میں الله کا فرمان ہے کہ :

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَنْ يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلَالًا بَعِيدً سوره النساء

(اے نبی) کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ جو (کتاب) تم پر نازل ہوئی اور جو (کتابیں) تم سے پہلے نازل ہوئیں ان سب پر ایمان رکھتے ہیں اور چاہتے یہ ہیں کہ اپنا مقدمہ طاغوت (سرکش) کے پاس لے جا کر فیصلہ کرائیں- حالانکہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ اس سے اعتقاد نہ رکھیں اور شیطان (تو یہ) چاہتا ہے کہ ان کو بہکا کر رستے سے دور ڈال دے-

بدقسمتی سے ہمارے سادہ لوح اہل سلف صرف قبر پرستی، غیر الله سے مانگنے یا اس کی نظرو نیاز کو ہی شرک سمجھتے ہیں- حقیقت یہ ہے کہ یہ اعمال شرک کی اقسام میں سے چند ایک اقسام ہیں - جب کہ باطل نظاموں کو اسلامی نظام پر فوقیت دینا یا اس کو تسلیم کرنا بھی شرک اکبر بلکہ کفر اکبر ہے- نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم صرف قبر پرستی یا اصنام پرستی کو ختم کرنے کے لئے معبوث نہیں ہوے تھے - بلکہ الله کے حکم سے تمام باطل نظاموں کی تنقیص اور ان کو ختم کرنے کے لئے معبوث ہوے تھے-

اور الله نے آپ صل الله علیہ و آ له وسلم کی امّت کی فلاح کے لئے نظام خلافت کو ہی چنا- اس میں کوئی شک نہیں کہ قرون اولیٰ کو چھوڑ کر بعد کے ادوار میں باوجود نظام خلافت مسلمانوں میں ایک نظام کے طور پر موجود ہونے کے - لوگوں میں عیش پرستی اور دنیا پرستی کی بنا پر یہ نظام کمزور سے کمزور ہوتا چلا گیا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اس تاریخی حقیقت کو سامنے رکھ کر خلافت کے نظام کا ہی ماطلقا انکار کردیں اور جمہوریت کے کفر بواح ہونے کے باوجود اس کو نہ صرف بادل نا خواستہ تسلیم کرلیں بلکہ اس کو "خلافت: ایک سعی ناکام" کے نام پر زبردستی اس کو مشرف با اسلام کرنے کی کوشش کرنا شروع کردیں - جیسے ہمارے ہاں کی اکثر دینی جماعتیں بھی سیکولر جماعتوں کے دلفریب دام اور نعروں میں آکر آجکل یہی گل کھلاتی پھر رہی ہیں اور لوگوں کو یہی دھوکہ دیتی پھر رہی ہیں- کہ ہماری ہاں جمہوریت أَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ کے تحت عین اسلامی اصولوں پر استوار ہے- جب کے یہ عقل کے اندھے یہ نہیں جانتے کہ جمہوریت کا مطلب ہی یہی ہے کہ ہر معامله چاہے دینی ہو یا غیر دینی فیصلہ "جمہور" کا ہی مانا جائے گا- جب کہ أَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ کا مطلب تو یہ ہے کہ کسی معاملے کا فیصلہ مشوره سے کیا جائے - لیکن مشوره لینے والا اس بات کا پابند نہیں کہ وہ ہر صورت مشورہ دینے والے کی بات پر عمل کرے گا- وہ جب چاہے مشورے کو رد کرسکتا ہے -اس کی کئی مثالیں خود نبی کریم صل الله علیہ و آله وسلم اور صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کے دور میں موجود رہیں- کہ جمہور کے مشورے کو رد کرکے فرد واحد کا فیصلہ مانا گیا- جب کہ مروجہ جمہوریت میں حرف آخر فیصلہ جمہور یعنی اکثریت کا ہوتا ہے- چاہے معامله کسی اسلامی قانون کے نفاذ کا ہی کیوں نہ ہو- پارلیمنٹ جب چاہے اس کو کالعدم قرا دے سکتی ہے - اور یہی کفر ہے -قران میں الله کا واضح فرمان ہے -

وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ سوره المائدہ ٤٤
اور جو بھی الله کے نازل کردہ احکامات کے مطابق حکم نہ دیں تو ایسے ہی لوگ کافر ہیں-

لیکن ہمارے نام نہاد مسلمان ان واضح آیات ربّانی کے باوجود یہود و نصاریٰ کی ترویج و تبلیغ سے متاثر جمہوریت کے غلاظت کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بناے ہوے ہیں- اور اس غلاظت سے نکلنا تو دور کی بات اس کوباطل قرار دینا بھی اپنے لئے جرم سمجھتے ہیں- اور پھر تان ٹوٹتی ہے تو اس بات پر کہ "خلافت: ایک سعی ناکام" ہے-

کیا ہمیں الله کا یہ فرمان یاد نہیں کہ :
الله اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جو خود اپنی حالت بدلنے کے لئے کوشاں نہ ہوں-

الله سب کو عمل کی توفیق عطا فرماے (آمین)-
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
کسی کہنے والے کا کہنا ہے

خلافت کا وجود و احیاء بلا شبہ بنیادی ضرورت ہے ۔لیکن اس کا کیا جائے ،کہ جب سے ہمارے سر خلافت کی چھت سے محروم
ہوئے ،ہر بو الہوس نے حسن پرستی شعار کی۔۔کے مصداق ،یاتو تکفیری فکر کےنمائندے خلافت کو کیش کراتے پھرتے ہیں
یا تصوف کے مریض بےچارے اس ۔جان جہاں ۔کو اپنی دکان کا بورڈ بنائے بیٹھے ہیں ۔
اور معتدل فکر صرف ۔۔آہ ۔۔کرکے رہ جاتے ہیں ۔
:
جزاک اللہ محترم بھائی آپ کی بھائی درست ہے مگر اگر اسکو تھوڑا سا بدل دیا جائے اور آپکی بات پر غور کیا جائے تو زیادہ درست بات یہ ہو گی کہ

مسئلہ یہ نہیں کہ جب سے خلافت گئی ہے تو یہ خلافت لانے کا ہتھیار تکفیری یا صوفی لوگوں نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے اور اس کا اس طرح استعمال کر رہے ہیں جس طرح کہاوت ہے کہ بندر کے ہاتھ میں حجام کا استرا آئے تو وہ سارے لوگوں کو زخمی کرے گا کیونکہ وہ حجام نہیں

بلکہ آج زیادہ گھمبیر مسئلہ یہ ہو چکا ہے کہ جب حجام اپنا استرا اپنے ہاتھ میں نہ رکھیں گے اور ادھر ادھر رکھ دیں گے تو کوئی نہ کوئی بندر تو اٹھا ہی لے گا اب مجبورا جن لوگوں نے استرے کا کام کروانا ہو گا وہ تو اس بندر کے پاس استرا دیکھ کر اسکے پاس ہی جائیں گے اب بھی اگر حجام کو شعور نہ آئے اور وہ اپنا استرا اس بندر سے واپس لے کر اپنے ہاتھ میں نہ رکھے تو پھر کیا خیال ہے زیادہ قصور وار نہ تو بندر ہو گا نہ اسکے پس جانے والے بلکہ جو حجام اپنے ہاتھ میں استرا نہیں لے رہا وہی کام جاننے کے باوجود اسکو نہ کرنے کی وجہ سے مورد الزام ٹھرے گا

پس آج جب ہم اہل علم نے اس شریعت کے نافذ کرنے کا اللہ کی طرف سے فرض اپنے ہاتھ میں نہیں لیا ہوا اور اس شریعت کے نفاذ کو وقعت ہی نہیں دے رہے بلکہ اسی طاغوتی نظام کو عین اسلام سمجھ کر اس پر صبر کیے ہوئے ہیں یا کوئی اگر کہتا ہے کہ ہم شریعت لانا چاہتے ہیں تو وہ ہتھیار ہی غلط منتخب کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ الیکشن کے ذریعے ہی شریعت نافذ ہو جائے گی جو ایک عام انسان کو بھی درست نہیں لگتا تو پھر کوئی بھی اس پر اعتبار نہیں کرتا اور متبادل لوگوں کو تلاش کرتا ہے چاہے بندر ملے یا کوئی اور
محترم بھائی انتہائی معذرت کے ساتھ میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ ان تکفیریوں اور صوفی بندروں کو چھوڑ کر ہم اہل علم میں سے کون ہے جو علی الاعلان یہ بات میڈیا پر کرے کہ ہمارے حکمران شریعت کے رکھوالے نہیں بلکہ شرک کے رکھوالے ہیں (یہ باتیں پہلے کی جاتی تھیں اب ختم ہو گئی ہیں)
بھلا مجھے یہ بتائیں شریعت کا سب سے پہلا حکم جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی دیا گیا قم فانذر والا حکم ہی ہے ناں کہ علی ہجویری کے دربار پر جا کر توحید کی دعوت دو اگرچہ وہ دعوت انتہائی حکمت سے ہو اور کسی سے زبر دستی نہ کی جائے اب اگر یہ نبیوں والا پہلا کام کرنے میں دربار لاہور پر جاوں اور انتہائی بے ضرر طریقے سے توحید کی دعوت دوں تو تمام مشرکین مجھے مارنے لگ جائیں گے حالانکہ اس ملک میں سونامی نکالنے اور ڈی چوک میں اپنے مطالبات رکھنے کی عدالتوں نے آزادی دی ہوئی ہے اور اگر حکومت ان پر سختی کرتی ہے تو عدالتیں فورا نوٹس لیتی ہیں مگر میری انتہائی حکمت سے توحید کی دعوت دینے پر مشرکین میرا جواب دلائل سے دینے کی بجائے مجھے مارنے لگ جائیں تو اس وقت پولیس میری پشتیبان بنے گی یا مشرکین کی یعنی مجھے بند کرے گی اور دہشت گردی کا مقدمہ چلائے گی یا ان مشرکین کے خلاف مقدمہ چلائے گی
محترم بھائی یہ بھی یاد رکھیں کہ میں آپ کو ایسا نہیں سمجھ رہا آپ تو الحمد للہ اس بات کو سمجھتے ہیں میں تو اپنے بڑوں کی بات کر رہا ہوں کہ جب وہ لوگوں کو یہ بات کلیئر نہ کریں گے تو توگ اطمینان ڈھونڈنے کے لئے غلط لوگوں کا شکار تو ہوں گے
محترم بھائی یہاں ایک اور بات بھی لکھ دوں کہ پاکستان کی حقیقی حالت لوگوں کو بیان کرنا ایک علیحدہ مسئلہ ہے اور پاکستان میں خانہ جنگی شروع کر دینا ایک علیحدہ مسئلہ ہے پہلی چیز اسلام میں عین مطلوب ہے اور دوسری چیز اسلام میں عین منع ہے بلکہ میری اوپر وضاحت کے بعد یہ بات کہنا بھی مناسب ہو گا کہ پہلی کو واضح کرنے سے ہی دوسری بات پر کنٹرول کیا جا سکے گا یعنی جو لوگ ٹھوس دلائل اپنے سامنے رکھتے ہیں کہ یہاں پاکستان میں شرک والوں کی اجارہ داری ہے اور یہ نظام شرک کا پشتی بان ہے توحید کا نہیں تو جب انکے سامنے اسکے خلاف کوا سفید والی بات کی جاتی ہے اور سارے مل کر انکو اسی پر قائل کرنا چاہتے ہیں تو وہ اس سے اتنے متنفر ہو جاتے ہیں کہ جب بھی کہیں انکو اپنی بات کی تائید کرنے والا ملتا ہے تو اسکے گرویدہ ہو جاتے ہیں اور انکی باقی غلطیاں ہی بھول جاتے ہیں جیسا کہ حیاتی اور مماتی میں جب بہت اختلاف ہوا اور مماتی کم تھے تو ان مماتیوں کو اپنی بات کی تائید کرنے والے اگر عذاب قبر کا انکار کرنے والے بھی ملے تو انہوں نے ان عذاب قبر کا انکار کرنے والوں کو اپنا بنا لیا اور حیاتیوں کو درست نہ کہا محترم @خضر حیات اس کی اصلاح کر دیں جزاک اللہ خیرا
باقی اگلی فرصت میں اپنے محترم بھائی اجمل خان کی باتوں کی وضاحت کروں گا اللہ آپ سب کا حامی و ناصر ہو امین
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
محترم اجمل خان بھائی میں پہلے آپ کی پوسٹوں سے آپکی کچھ باتوں کو یہاں نقل کرنا چاہتا ہوں پھر اسی تناظر میں آپ سے فیض لوں گا ان شاءاللہ


خلافت وہی نظامِ حکومت ہے جہاں عملی طور پر کائنات کا حاکمِ اعلیٰ اللہ کو مانتے ہوئے قرآن و سنت کی روشنی میں شریعت کا نفاذ ہو اور سب کیلئے یکساں ہو۔
دستور ِپاکستان کی بنیاد بھی یہی ہے لیکن عملی طور پر نہیں ‘ منافقت کے ساتھ۔
یعنی آپ کے نزدیک
1۔خلافت اس نظام حکومت کو کہتے ہیں جس میں شریعت نفاذ ہو
2۔پاکستان کے نظام حکومت میں ظاہری طور پر اور لکھا ہوا یہی ہے کہ شریعت کے خلاف کچھ نہیں ہو گا مگر یہ صرف منافقت سے لکھا ہوا ہے اس لکھنے میں منافقانہ طور پر ایسے الفاظ اور ایسی شقیں استعمال کی گئی ہین کہ جس سے اسکا عملا نافذ ہونا ناممکن ہو چکا ہے

امت کا سب سے بڑا مسٔلہ تو شرک و بدعات کا خاتمہ اور توحید کی بالادستی ہی ہونا چاہئے تھا ۔
لیکن امت اسے پس پشت ڈال کر دیگر مسائل کو حل کرنے میں لگی ہوئی ہے۔
دشمنوں کی چیرا دستی اور اپنوں کی ظلم وزیادتی اور ناانصافی سے نجات ۔۔۔ یہ رہے دو بڑے مسائل ہیں جن کا حل مسلمان خلافت خلافت میں ڈھونڈ رہے ہیں۔
یعنی آپ کے نزدیک

3۔شریعت کے نفاذ میں پہلی چیز توحید کا نفاذ ہے یعنی خلافت کے حامل اسلامی ملک میں توحید کی دعوت دینے کی آزادی ہونا بلکہ حکومت کا کام ہی یہی ہونا لازم ہے

قرآن و سنت کی روشنی میں
ہم ہر کلمہ پڑھنے ولے اور سلام کرنے والے کو مسلمان سمجھتے ہیں‘ اس کے باقی اعمال بعد میں دیکھے جائیں گے۔
ہم اپنے اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ سے محبت کرتے ہیں اور اس محبت کا تقاضہ ہے کہ اگر کوئی کلمہ گو ہونے کے باوجود شرک‘ بدعات‘ زندقہ یا کفریہ اعمال میں ملوث ہو تو اسے مشرک‘ بدعتی‘ زندیق اور کافر تصور کیا جائے لیکن اس پر یہ فتویٰ لگانا جس کا کام ہے وہ لگائے۔
یعنی آپ کے نزدیک
4۔ہمیں ہر کلمہ گو کو پہلے مسلمان ہی سمجھنا چاہئے جب تک اس سے کوئی کفریہ یا شرکیہ عمل سرزد نہیں ہوتا
5۔اگر کفریہ عمل کسی سے سرزد ہو جائے تو اسکو مشرک وغیرہ تصور کیا جائے گا
6۔البتہ فتوی لگانا علماء کا کام ہے تو وہ ہی کفر کا فتوی لگائیں گے

اب آگے ان چھ نمبروں کے حوالے سے میں بات آپ سے سمجھنا چاہوں گا جو آپ نے پہلی پوسٹ میں کہی تھی جس پر مجھے کچھ ابہام ہوا تھا تو اسکی آپ سے وضآحت چاہیے
میرا سوال یہ ہے کہ پہلی پوسٹ میں آپ نے خلافت کے لئے سعی کرنے والوں کے طریقہ کار کو غلط کہ ہے کہ انکو خلافت کی کوشش نہیں کرنی چاہیے بلکہ کچھ اور کرنا چاہیے اسکی وضاحت درکار ہے کہ جب شریعت کا نفاذ تو خلافت ہی کر سکتی ہے کیونکہ آپ کے نزدیک نمبر 1 میں جو شریعت نافذ کرے وہی خلافت ہو گی اور یہ حکومت کر سکتی ہے تو پھر میرا سوال ہے کہ ہم اگر شریعت کے نفاذ کے لئے خلافت کی کوشش نہ کریں تو کیا طریقہ ہو گا یہ میرا موقف نہیں صرف وضآحت چاہئے تاکہ بات آگے چل سکے
اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر دے امین
 
Last edited:

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
محترم اجمل خان بھائی میں پہلے آپ کی پوسٹوں سے آپکی کچھ باتوں کو یہاں نقل کرنا چاہتا ہوں پھر اسی تناظر میں آپ سے فیض لوں گا ان شاءاللہ


یعنی آپ کے نزدیک
1۔خلافت اس نظام حکومت کو کہتے ہیں جس میں شریعت نفاذ ہو
2۔پاکستان کے نظام حکومت میں ظاہری طور پر اور لکھا ہوا یہی ہے کہ شریعت کے خلاف کچھ نہیں ہو گا مگر یہ صرف منافقت سے لکھا ہوا ہے اس لکھنے میں منافقانہ طور پر ایسے الفاظ اور ایسی شقیں استعمال کی گئی ہین کہ جس سے اسکا عملا نافذ ہونا ناممکن ہو چکا ہے


یعنی آپ کے نزدیک

3۔شریعت کے نفاذ میں پہلی چیز توحید کا نفاذ ہے یعنی خلافت کے حامل اسلامی ملک میں توحید کی دعوت دینے کی آزادی ہونا بلکہ حکومت کا کام ہی یہی ہونا لازم ہے



یعنی آپ کے نزدیک
4۔ہمیں ہر کلمہ گو کو پہلے مسلمان ہی سمجھنا چاہئے جب تک اس سے کوئی کفریہ یا شرکیہ عمل سرزد نہیں ہوتا
5۔اگر کفریہ عمل کسی سے سرزد ہو جائے تو اسکو مشرک وغیرہ تصور کیا جائے گا
6۔البتہ فتوی لگانا علماء کا کام ہے تو وہ ہی کفر کا فتوی لگائیں گے

اب آگے ان چھ نمبروں کے حوالے سے میں بات آپ سے سمجھنا چاہوں گا جو آپ نے پہلی پوسٹ میں کہی تھی جس پر مجھے کچھ ابہام ہوا تھا تو اسکی آپ سے وضآحت چاہیے
میرا سوال یہ ہے کہ پہلی پوسٹ میں آپ نے خلافت کے لئے سعی کرنے والوں کے طریقہ کار کو غلط کہ ہے کہ انکو خلافت کی کوشش نہیں کرنی چاہیے بلکہ کچھ اور کرنا چاہیے اسکی وضاحت درکار ہے کہ جب شریعت کا نفاذ تو خلافت ہی کر سکتی ہے کیونکہ آپ کے نزدیک نمبر 1 میں جو شریعت نافذ کرے وہی خلافت ہو گی اور یہ حکومت کر سکتی ہے تو پھر میرا سوال ہے کہ ہم اگر شریعت کے نفاذ کے لئے خلافت کی کوشش نہ کریں تو کیا طریقہ ہو گا یہ میرا موقف نہیں صرف وضآحت چاہئے تاکہ بات آگے چل سکے
اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر دے امین
اگر پورے پاکستان کی عوام توحید پرست بھی ہو جاے تو پھر بھی خلافت کا قیام
ممکن نہیں کیونکہ خلافت پوری امت کے لیے ہوتی ہے۔نہ کےپاکستان کے لیے
پہلے پوری امت کے ایک ایک فرد کو اکٹھا کر نا ہو گا
وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّلَا يَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِيْنَ اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّكَ۔۔۔[ھود ۔۔۱۱۸۔۱۱۹]
"اگر آپ کا پروردگار چاہتا تو سب لوگوں کو ایک ہی راہ پر ایک گروہ کر دیتا۔ وہ تو برابر اختلاف کرنے والے ہی رہیں گے بجز ان کے جن پر آپ کا رب رحم فرمائے"
پوری امت تو کبھی ایک دن کے لئے بھی متفق نہیں ہوئی اور نہ کبھی متفق ہوگی سوائے انکے جن پر اللہ رحم کرے ۔اس لیے خلافت قا
ئم کرنا ناممکن ہے
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
85
منحترم اجمل صاحب -

میں آپ کی اسس بات سے کافی حد تک متفق ہوں -ہم لوگوں بحیثیت امّت محمدی اپنے کردار اور ایمان و اعتقاد کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے - تب ہی ہم دنیا میں ایک منظم نظام خلافت قائم کرسکتے ہیں - لیکن ہمیں یہ بات ملحوظ خاطر رکھنے ضروری ہے کہ ایک چیز ہوتی ہے الله کی مشیت اور ایک ہوتی انسان کی کوشش- الله کی مشیت کے تحت تو خلافت کے وہی لوگ حق دار ٹہریں گے یا ٹھہرے تھے جو اپنے ایمان اور اعتقاد میں پکے مومن تھے- لیکن الله کے نزدیک پکا مومن بھی وہی ہوتا ہے جو پہلے طاغوت کا انکار کرتا ہے اور پھر حق کا اثبات کرتا ہے - کلمہ طیبہ لا الہٰ الااللہ - ہمیں اسی بات کی تعلیم دیتا ہے کہ پہلے ہر قسم کے طاغوت کی نفی کی جائے اور پھر ایک الہٰ کا اثبات کیا جائے - تمام باطل نظام جو حکمرانی کے زمن میں دنیا میں وجود میں آے ان کا انکار کردیا جائے - چاہے جمہوریت، آمریت ہو، کمویونزم، کیپٹلزم ہو یا کوئی اور باطل نظام - سب طاغوت کی ایک قسم ہیں اور ایک مومن کو قابل قبول نہیں -٠ ان نظاموں کو تسلیم کرنا ہی شرک اکبر ہے -قرآن میں الله کا فرمان ہے کہ :

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَنْ يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلَالًا بَعِيدً سوره النساء

(اے نبی) کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ جو (کتاب) تم پر نازل ہوئی اور جو (کتابیں) تم سے پہلے نازل ہوئیں ان سب پر ایمان رکھتے ہیں اور چاہتے یہ ہیں کہ اپنا مقدمہ طاغوت (سرکش) کے پاس لے جا کر فیصلہ کرائیں- حالانکہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ اس سے اعتقاد نہ رکھیں اور شیطان (تو یہ) چاہتا ہے کہ ان کو بہکا کر رستے سے دور ڈال دے-

بدقسمتی سے ہمارے سادہ لوح اہل سلف صرف قبر پرستی، غیر الله سے مانگنے یا اس کی نظرو نیاز کو ہی شرک سمجھتے ہیں- حقیقت یہ ہے کہ یہ اعمال شرک کی اقسام میں سے چند ایک اقسام ہیں - جب کہ باطل نظاموں کو اسلامی نظام پر فوقیت دینا یا اس کو تسلیم کرنا بھی شرک اکبر بلکہ کفر اکبر ہے- نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم صرف قبر پرستی یا اصنام پرستی کو ختم کرنے کے لئے معبوث نہیں ہوے تھے - بلکہ الله کے حکم سے تمام باطل نظاموں کی تنقیص اور ان کو ختم کرنے کے لئے معبوث ہوے تھے-

اور الله نے آپ صل الله علیہ و آ له وسلم کی امّت کی فلاح کے لئے نظام خلافت کو ہی چنا- اس میں کوئی شک نہیں کہ قرون اولیٰ کو چھوڑ کر بعد کے ادوار میں باوجود نظام خلافت مسلمانوں میں ایک نظام کے طور پر موجود ہونے کے - لوگوں میں عیش پرستی اور دنیا پرستی کی بنا پر یہ نظام کمزور سے کمزور ہوتا چلا گیا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اس تاریخی حقیقت کو سامنے رکھ کر خلافت کے نظام کا ہی ماطلقا انکار کردیں اور جمہوریت کے کفر بواح ہونے کے باوجود اس کو نہ صرف بادل نا خواستہ تسلیم کرلیں بلکہ اس کو "خلافت: ایک سعی ناکام" کے نام پر زبردستی اس کو مشرف با اسلام کرنے کی کوشش کرنا شروع کردیں - جیسے ہمارے ہاں کی اکثر دینی جماعتیں بھی سیکولر جماعتوں کے دلفریب دام اور نعروں میں آکر آجکل یہی گل کھلاتی پھر رہی ہیں اور لوگوں کو یہی دھوکہ دیتی پھر رہی ہیں- کہ ہماری ہاں جمہوریت أَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ کے تحت عین اسلامی اصولوں پر استوار ہے- جب کے یہ عقل کے اندھے یہ نہیں جانتے کہ جمہوریت کا مطلب ہی یہی ہے کہ ہر معامله چاہے دینی ہو یا غیر دینی فیصلہ "جمہور" کا ہی مانا جائے گا- جب کہ أَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ کا مطلب تو یہ ہے کہ کسی معاملے کا فیصلہ مشوره سے کیا جائے - لیکن مشوره لینے والا اس بات کا پابند نہیں کہ وہ ہر صورت مشورہ دینے والے کی بات پر عمل کرے گا- وہ جب چاہے مشورے کو رد کرسکتا ہے -اس کی کئی مثالیں خود نبی کریم صل الله علیہ و آله وسلم اور صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کے دور میں موجود رہیں- کہ جمہور کے مشورے کو رد کرکے فرد واحد کا فیصلہ مانا گیا- جب کہ مروجہ جمہوریت میں حرف آخر فیصلہ جمہور یعنی اکثریت کا ہوتا ہے- چاہے معامله کسی اسلامی قانون کے نفاذ کا ہی کیوں نہ ہو- پارلیمنٹ جب چاہے اس کو کالعدم قرا دے سکتی ہے - اور یہی کفر ہے -قران میں الله کا واضح فرمان ہے -

وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ سوره المائدہ ٤٤
اور جو بھی الله کے نازل کردہ احکامات کے مطابق حکم نہ دیں تو ایسے ہی لوگ کافر ہیں-

لیکن ہمارے نام نہاد مسلمان ان واضح آیات ربّانی کے باوجود یہود و نصاریٰ کی ترویج و تبلیغ سے متاثر جمہوریت کے غلاظت کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بناے ہوے ہیں- اور اس غلاظت سے نکلنا تو دور کی بات اس کوباطل قرار دینا بھی اپنے لئے جرم سمجھتے ہیں- اور پھر تان ٹوٹتی ہے تو اس بات پر کہ "خلافت: ایک سعی ناکام" ہے-

کیا ہمیں الله کا یہ فرمان یاد نہیں کہ :
الله اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جو خود اپنی حالت بدلنے کے لئے کوشاں نہ ہوں-

الله سب کو عمل کی توفیق عطا فرماے (آمین)-
محترم محمد علی جواد صاحب ! آپ کی باتوں سے اتفاق ہے۔لیکن مجھے نام نہاد مسلمان ثابت کرنے میں آپ نے بہت جلدی کی۔
میں نے کب خلافت کے نظام کا ہی مطلقا انکار کیا ہے اور جمہوریت یا کسی بھی طاغوتی نظام کو اسلام کا حصہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ میں نے تو صرف یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہمیں اپنے آپ کو سدھارنا ہے۔ جس دن ہم میں اللہ کو مطلوب اوصاف حمیدہ پیدا ہو جائے گا اور فرقہ واریت کا خاتمہ ہوجائے گا‘ اللہ کی رحمت سے نظام خلاف وجود میں آئے گا۔ خلافت قائم ہونے کیلئے ضروری ہے کہ اللہ کو مطلوب اوصاف حمیدہ کے حامل بندوں کا وجود اور فرقہ واریت کا خاتمہ۔ اس بارے میں میری ایک بلاگ ہے جس کا لنک دے رہا ہو اور آج اس فورم پر بھی پوسٹ کرتے ہیں‘ ایڈمن اپروبھ کرے
http://karachi4.blogspot.com/2014/09/ham-aur-hamaray-hukmaran.html
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
85
محترم اجمل خان بھائی میں پہلے آپ کی پوسٹوں سے آپکی کچھ باتوں کو یہاں نقل کرنا چاہتا ہوں پھر اسی تناظر میں آپ سے فیض لوں گا ان شاءاللہ


یعنی آپ کے نزدیک
1۔خلافت اس نظام حکومت کو کہتے ہیں جس میں شریعت نفاذ ہو
2۔پاکستان کے نظام حکومت میں ظاہری طور پر اور لکھا ہوا یہی ہے کہ شریعت کے خلاف کچھ نہیں ہو گا مگر یہ صرف منافقت سے لکھا ہوا ہے اس لکھنے میں منافقانہ طور پر ایسے الفاظ اور ایسی شقیں استعمال کی گئی ہین کہ جس سے اسکا عملا نافذ ہونا ناممکن ہو چکا ہے


یعنی آپ کے نزدیک

3۔شریعت کے نفاذ میں پہلی چیز توحید کا نفاذ ہے یعنی خلافت کے حامل اسلامی ملک میں توحید کی دعوت دینے کی آزادی ہونا بلکہ حکومت کا کام ہی یہی ہونا لازم ہے



یعنی آپ کے نزدیک
4۔ہمیں ہر کلمہ گو کو پہلے مسلمان ہی سمجھنا چاہئے جب تک اس سے کوئی کفریہ یا شرکیہ عمل سرزد نہیں ہوتا
5۔اگر کفریہ عمل کسی سے سرزد ہو جائے تو اسکو مشرک وغیرہ تصور کیا جائے گا
6۔البتہ فتوی لگانا علماء کا کام ہے تو وہ ہی کفر کا فتوی لگائیں گے

اب آگے ان چھ نمبروں کے حوالے سے میں بات آپ سے سمجھنا چاہوں گا جو آپ نے پہلی پوسٹ میں کہی تھی جس پر مجھے کچھ ابہام ہوا تھا تو اسکی آپ سے وضآحت چاہیے
میرا سوال یہ ہے کہ پہلی پوسٹ میں آپ نے خلافت کے لئے سعی کرنے والوں کے طریقہ کار کو غلط کہ ہے کہ انکو خلافت کی کوشش نہیں کرنی چاہیے بلکہ کچھ اور کرنا چاہیے اسکی وضاحت درکار ہے کہ جب شریعت کا نفاذ تو خلافت ہی کر سکتی ہے کیونکہ آپ کے نزدیک نمبر 1 میں جو شریعت نافذ کرے وہی خلافت ہو گی اور یہ حکومت کر سکتی ہے تو پھر میرا سوال ہے کہ ہم اگر شریعت کے نفاذ کے لئے خلافت کی کوشش نہ کریں تو کیا طریقہ ہو گا یہ میرا موقف نہیں صرف وضآحت چاہئے تاکہ بات آگے چل سکے
اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر دے امین
میری ایک بلاگ ہے‘ اسے پڑھ لیجئے:
http://karachi4.blogspot.com/2014/09/ham-aur-hamaray-hukmaran.html
 
Top