- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
ارطغرل ڈرامہ اور جامعۃ الرشید، کراچی کا فتوی
حافظ محمد زبیر
ترکی کے معروف ڈرامہ ارطغرل کے بارے دار الافتاء، جامعۃ الرشید، کراچی کا ایک فتوی سوشل میڈیا پر وائرل ہوا کہ جس میں اس ڈرامے کو دیکھنے کا جواز نقل ہوا تھا بشرطیکہ خواتین کی تصاویر سے غض بصر کیا جائے۔ بعد ازاں دار الافتاء، جامعۃ الرشید ہی کی طرف سے ایک اور تحریر بھی عام کی گئی کہ جس میں یہ بیان ہوا کہ پہلے والا فتوی اگرچہ لکھ لیا گیا تھا لیکن دار الافتاء کے اہم ذمہ داران کی نظر سے نہیں گزرا تھا۔ اور دار الافتاء کے ایک طالب علم نے بغیر اجازت اس کی امیج لے کر سوشل میڈیا پر ڈال دیا لہذا حتمی فتوی بعد والا ہے کہ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ موسیقی اور مرد وزن کے اختلاط دو وجوہات کی بنا پر اس ڈرامے کو دیکھنا جائز نہیں ہے۔
میں ڈرامہ نہیں دیکھتا اور نہ ہی ارطغرل ڈرامہ دیکھا ہے اور نہ ہی دیکھنے کا شوق ہے البتہ انباکس میں کبھی کوئی دو چار منٹ کا کلپ بھیج دے تو دیکھ لیتا ہوں۔ لیکن ڈرامے کے بارے مجھے یہ کہنا ہے کہ ماڈرن ڈرامہ چار چیزوں کا مجموعہ ہے۔ ان میں سے ایک اسٹوری ہے، دوسرا کردار ہیں، تیسرا ویڈیو تصویر ہے اور چوتھا بیک گراؤنڈ میوزک ہے۔ جہاں تک اسٹوری کا معاملہ ہے تو اگر تو وہ دینی مقاصد کو پورا کرنے والی ہے تو اس میں حرج نہیں بلکہ معاشرے کی اصلاح کے لیے ایسی اسٹوریز کا لکھنا اور عام کرنا ضروری اور دینی فریضہ ہے۔
دوسری چیز ویڈیو تصویر ہے تو اس میں بھی حرج نہیں کہ اکثر علماء اس کے جواز کے قائل ہیں جبکہ مقاصد تربیتی، اصلاحی اور دینی ہوں۔ تیسری چیز کردار ہیں۔ تو کیا کسی ڈرامے میں کوئی خاتون کردار ہو سکتا ہے؟ تو اس پر ہم کافی پہلے گفتگو کر چکے کہ دنیا میں کئی ایک کامیاب (hit) موویز اور ڈرامے ایسے موجود ہیں کہ جن میں خاتون کا کردار نہیں ہے۔ کسی زمانے میں ایکشن انگلش مووی ریمبو۔1 دیکھی تھی کہ جس میں خاتون کا کردار اتنا ہی ہے کہ شاید بیس تیس سیکنڈ کے دو سین ہوں گے۔ اور ان کا بھی اصل مووی سے کوئی تعلق نہیں یعنی وہ اسٹوری کے کردار نہیں تھے۔ تو اگر ڈرامہ میں خاتون کا باقاعدہ کردار نہ ہو اور کسی عورت کے چہرے کو فوکس نہ کیا جائے جیسا کہ چلتا پھرتا ہجوم دکھایا گیا ہے اور اس میں مردوں کے علاوہ کچھ بچے اور عورتیں بھی ہیں تو اس مغلوب پہلو کو قابل برداشت کہا جا سکتا ہے۔
چوتھی چیز بیک گراؤنڈ میوزک ہے۔ ایک بات تو یہ ذہن میں رکھیں کہ میوزک اور بیک گراؤنڈ میوزک دونوں کا حکم ایک نہیں۔ میوزک میں مقصود میوزک ہوتا ہے لہذا وہ تو منع ہے ہی لیکن بیک گراؤنڈ میوزک میں مقصود میوزک نہیں ہوتا بلکہ وہ اسٹوری میں جان ڈالنے کے لیے ایک اضافی افیکٹ ہوتا ہے۔ یہ بیک گراؤنڈ میوزک اب بہت عام ہو چکا جیسا کہ آپ کی موبائل ٹونز میں بھی ہے اور نیوز میں بھی چل رہا ہوتا ہے تو کیا نیوز سننا حرام ہے؟ نہیں، ہم یہ نہیں کہیں گے کہ نیوز سننا حرام ہے البتہ یہ کہیں گے کہ اس کا بیک گراؤنڈ میوزک ختم یا تبدیل کریں۔ اسی طرح ہم ڈرامے میں بھی کہیں گے کہ اس کا بیک گراؤنڈ میوزک ختم یا تبدیل کریں کہ آلاتی میوزک (instrumental music) کے ذریعے انسانی طبیعت پر اثر ڈالا جاتا ہے۔ اور اس اثر کی وجہ سے آپ وہاں لازما روتے ہیں جہاں آپ کو رلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس رونے کی وجہ سے آپ انفعالی موڈ (passive mode) میں چلے جاتے ہیں اور ڈائریکٹر جو چاہتا ہے، آپ کے ذہن میں انڈیل دیتا ہے کیونکہ آپ کے فلٹرز کام کرنا بند کر چکے ہوتے ہیں۔
تو خلاصہ یہ ہے کہ اگر ڈرامے کی اسٹوری تربیتی، اصلاحی اور دینی مقاصد کو پورا کرنے والی ہو، اس میں عورت کا کردار نہ ہو یا نہ ہونے کے برابر ہو، اور اس میں بیک گراؤنڈ میوزک آلاتی نہ ہو بلکہ فطری اور نیچرل ہو جیسا کہ پرندوں کی آوازیں، دف جیسے آلات کی آوازیں، انسانوں کی سریلی آوازیں تو اس ڈرامہ کو دیکھنے میں حرج نہیں ہے۔ اور جو لوگ پہلے سے ہی ڈرامہ دیکھتے ہیں تو انہیں تو ارطغرل دیکھنے میں بھی حرج نہیں ہے بلکہ بہتر ہے کہ وہ دوسرے ڈرامے دیکھنے کی بجائے یہ دیکھیں۔ تو فتوی، جو دیکھ رہا ہے اور جو نہیں دیکھ رہا، دونوں کے لیے ایک نہیں ہونا چاہیے کیونکہ جو ڈرامہ دیکھ رہا ہے، اس کے لیے یہ فتوی بے کار ہے تو اسے کسی لیول پر لے کر آئیں کہ کم از کم واہیات اور فحش ڈراموں سے کسی سنجیدہ اور تاریخی ڈرامے کی طرف آ جائے۔ بیانیے اصل میں تین ہیں، نفس مطمئنہ کے لیے الگ، نفس لوامہ کے لیے الگ اور نفس امارہ کے لیے الگ۔ یہ بات بہت پہلے ایک مقام پر ہم تفصیل سے کر چکے ہیں۔
Last edited: