• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خلافت و ملوکیت از مولانا مودودی

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
اس کتاب سے متعلق ایک دھاگہ میں درج ذیل گفتگو ہوئی :
http://forum.mohaddis.com/threads/معلومات.29524/#post-232538

سوال از: @علی معاویہ بھائی بھائی
بندہ کی ایک مودودی فکر کے آدمی سے بات چل رہی ہے اسکا کہنا ہے کہ سعودیہ کے تمام علماء کرام نے مودودی صاحب کی کتاب " خلافت و ملوکیت " پر تصدیق کر رکھی ہے کیا یہ بات درست ہے؟ اور یہی بدنام زمانہ کتاب سعودیہ کی تمام یونیورسٹیوں میں اور مدینہ یونیورسٹی میں پڑھائی جاتی ہے ؟ برائے مہربانی ارجنٹلی اسکا جواب مرحمت فرمائیں ۔ اس شخص نے ایک ویڈیو شیخ غامدی صحب کی پوسٹ کی ہے کہ جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ہم نے دین مودودی صاحب کی کتابوں سے سیکھا ہے اور مودودی صاحب ہمارے امام ہیں

جواب: از @اسحاق سلفی
" خلافت و ملوکیت " کا عربی میں ترجمہ کافی عرصہ پہلے کویت سے شائع ہوچکا ہے ،
لیکن ابھی تک یہ کتاب ہماری معلومات کی حد تک کسی جامعہ کے نصاب میں شامل نہیں ؛
اور سعودیوں کیلئے مودودی صاحب کی کتاب اپنی جامعات میں شامل کرنا اس لئے بھی مشکل کہ سعودی علماء
مصر کے اخوان المسلمین کے سخت خلاف ہیں
اور مودودی صاحب کا اخوان المسلمون سے فکری تعلق اور سید قطب کی کتابوں سے عقیدت
سعودی حکومت اور علماء سے مخفی نہیں ؛؛؛؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سعودی علماء کے موقف کو جاننے کیلئے آپ نیٹ پر (ضلالات المودودي )لکھ کر سرچ کریں

جواب از: یوسف ثانی:
شنید ہے کہ سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ اور سعودی شاہی خاندان میں ایک غیر تحریری معاہدہ ہوا تھا جس کی رو سے سے جماعت اسلامی کے نظم کو مملکت سعودی عرب میں ”کام“ کرنے کی اجازت دی گئی تھی، بشرطیکہ جماعت عربی اسپیکنگ مقامی باشندوں (بشمول سعودیوں) میں کام نہ کرے۔ اور جماعت نے یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ ہم صرف اردو اسپیکنگ باشندوں (پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش) میں ہی کام کریں گے۔ تب سے اب تک جماعت کی وہاں بیشتر چھوٹے بڑے شہروں میں مختلف ناموں سے تنظیمیں قائم ہیں۔ جماعتی حلقوں کے مطابق ”خلافت و ملوکیت“ تو غالباً سعودیہ میں ”بین“ ہے۔ البتہ مولانا کی بہت سے کتب کا وہاں عربی میں ترجمہ ہوچکا ہے اور کئی ایک وہاں کی جامعات کے نصاب میں شامل ہیں یا شامل رہی ہیں۔ سعودیہ میں جماعت کا نظم وہاں مقیم ”اردو اسپیکنگ“ کا باقاعدگی سے ہفت روزہ اور ماہانہ اجلاس منعقد کرتا ہے۔ ماہانہ لاکھوں ریال کا چندہ جمع کرکے پاکستان بھیجتا ہے اور پاکستانی اسکولوں اور مراکز کے علاوہ سعودی جامعات میں بھی کھلے عام تنظیمی اور تربیتی نشستیں منعقد کرتا ہے۔

کوئی پاؤ صدی قبل جب میں سعودی آرامکو میں ملازم تھا، تب ایسی بہت سی نشستوں اور پروگراموں کا عینی شاہد بھی تھا۔ ان پروگراموں کی باتصویر رپورٹنگ پاکستان کے قومی اخبارات میں بھی شائع ہوتی تھیں اور یہ اخبارات سعودی عرب میں بھی عام دستیاب تھیں۔ بھارت میں جب بابری مسجد شہید کی گئی تو اس کے خلاف سعودیہ میں جماعت اسلامی نے متعدد پروگرام منعقد کئے جس میں بابری مسجد کو ڈھانے کی ویڈیوز دکھلائی گئیں۔ ایسا ہی ایک پروگرام دمام کے ایک پاکستانی اسکول میں بھی منعقد ہوا تھا۔ جس میں یہ احقر بھی شریک تھا۔ اسکول کا احاطہ شرکاء سے بھرا ہوا تھا اور لوگ اسکول کے وسیع احاطے سے باہر بھی موجود تھے۔ اتنا بڑا اجتماع مقامی سعودی انتظامیہ کی مرضی اور اجازت کے بغیر منعقد ہی نہیں ہوسکتا تھا۔

اخوان المسلمین سے سعودی عرب کے کشیدہ تعلقات کے باوجود سعودیہ کے مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کے ساتھ عموماً اچھے تعلقات رہے ہیں۔ (مخصوص ایشوز پر اختلاف رائے کے باجود) مولانا کی ”علمی خدمات“ کے عوض انہیں سعودی عرب کا سرکاری شاہ فیصل ایوارڈ بھی مل چکا ہے ۔

لہٰذا یہ تاثر قطعی غلط ہے کہ جماعت اسلامی اور مولانا مودودی کے بارے میں سعودی مملکت مجموعی طور پر منفی رائے رکھتی ہے۔ اگر وہاں کے بعض حلقوں میں مولانا یا جماعت اسلامی کے بارے میں کوئی منفی رائے موجود بھی ہے تو کیا خود پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔ انہیں تحریک پاکستان کا مخالف نہیں کہا جاتا۔ کیا ایوب خان کے دور میں مولانا کو ختم نبوت پر کتابچہ لکھنے کے جرم میں پھانسی کی سزا نہیں سنائی گئی۔ اور سعودیہ ہی کی مداخلت پر یہ پھانسی منسوخ نہیں ہوئی۔ مولانا نے معافی مانگ کر اس سزا سے بچنے کا سرکاری آپشن رد نہیں کیا۔ کیا پاکستان میں ایک مودودی سو یہودی کے نعرے نہیں لگتے۔ کیا پاکستان میں ”فتنہ مودودیت“ کے موضوع پر کتابیں نہیں لکھی گئیں۔ ۔ ۔ ۔ اور پاکستان میں جماعت اسلامی سمیت کون سی مذہبی یا دینی جماعت ایسی ہے، جس کے خلاف بہت کچھ ایسا نہیں کہا گیا، جو جماعت اسلامی کے خلاف کہا جاتاہے۔ علماء کے حلقوں میں بھی اور اس حلقے سے باہر سیاسی و سماجی حلقوں میں بھی۔ کیا پاکستان بھر میں جماعت اسلامی کے اپنے دارلعلوم نہیں ہیں، جن سے فارغ التحصیل علما کا ”اپنا حلقہ“ موجود نہیں ہے۔

خلافت و ملوکیت ایک ”متنازعہ کتاب“ ہے، نہ کہ ”بدنام زمانہ“۔ اس کتاب کے بعض مندرجات سے ”علمی اختلاف“ رائے تو کیا جاسکتا ہے لیکن اس علمی اختلاف کی بنیاد پر اسے ”بدنام زمانہ“ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ کتاب بنیادی طور پر ”خلافت“ کے حق میں اور ملوکیت (بادشاہت) کے خلاف ہے۔ چونکہ سعودیہ میں ”بادشاہی نظام“ قائم ہے، لہٰذا وہاں اس کتاب کا ”بین“ ہونا، سمجھ سے باہر نہیں ہے۔ بلکہ یہ کتاب تو اس اعتبار سے مولانا کے ”حق “ میں جاتی ہے کہ سعودیہ سے ”دوستانہ مراسم“ کے باجود انہوں نے ”سعودی شاہی نطام“ کے خلاف بھی کتاب لکھنے کی ”جرات“ کی۔ مجھے اس کتاب کو پڑھے ہوئے کئی عشرے گذر چکے ہیں، لہٰذا میں اس کے جملہ مندرجات پر اس وقت کوئی ”مستند تبصرہ“ کرنے سے قاصر ہوں۔
حوالہ
 
Last edited:

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
کتاب کے مندرجات پر اعتراضات کا جواب کتاب کے آخر میں صفحہ 299 اور اس آگے موجود ہے۔ ابتدائی دو صفحات ملاحظہ کیجئے اور بقیہ صفحات آن لائن پڑھ کر اپنی رائے دیجئے۔
KM-1.GIF

KM-2.GIF
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
اس کتاب اور اس کے موضوعات پر دلچسپی رکھنے والے اہل علم حضرات اگر چاہیں تو اس کتاب پر اس کے متن کے حوالہ ساتھ اپنی رائے یا تنقید پیش کرسکتے ہیں۔ اس سے یقیناً عام قارئین کے علم میں اضافہ ہوگا۔
 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
320
پوائنٹ
127
یہ کہنا کہ ۔ خلافت و ملوکیت ۔۔ سعودی عرب کی جامعات یا جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں داخل نصاب ہے یہ انتہائی غلط ہے اور یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ سورج کے چہرے پر غبار ہے ۔اسی طرح یہ بھی غلط ہے کہ اس کتاب پر سعودی علماء کے تصدیقات ہیں ۔یہ کتاب واقدی جیسے کذاب شخص کے غلط سلط روایتوں کا مجموعہ ہے اور یہی کتاب ہے جس نے عثمان غنی جیسے جلیل القدر صحابی کی عظیم شخصیت کو مجروح کرنے کی ناپاک کوشش کی ہے ،
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
سعودی عرب کی معروف جامعات کے نصاب اور اس میں شامل کتابیں ، تقریبا آن لائن موجود ہیں ، اگر کسی کا دعوی ہے کہ مولانا مودودی کی کوئی کتاب کسی یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہے تو انہیں باحوالہ بات کرنی چاہیے ۔
میرے علم کے مطابق مولانا کی کوئی کتاب ایسی نہیں جو سعودی عرب کی کسی یونیورسٹی کے کسی بھی مرحلہ کے نصاب سے مناسبت یا مطابقت رکھتی ہو ۔
پاکستانی جامعات میں اردو دان طبقہ کے لیے اگر کسی جگہ متعین ہے تو الگ بات ہے ، اور یہ کوئی بعید بات بھی نہیں ۔
مولانا کی تصانیف کے عربی تراجم بھ شاید سعودی علماء نے نہیں کیے ، ہاں شیخ ربیع بن ہادی وغیرہ جیسے علماء موجود ہیں جنہوں نے مودودی صاحب کی کتابوں پر رد لکھے ہیں ۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
پاکستان کے نامور اسکالر اور جماعت اسلامی پاکستان کے بانی مولانا سید ابو الاعلی مودودی کو بھی ان کی عالم اسلام کے لئے خدمات پر انہیں پہلا شاہ فیصل ایوارڈ دیا جا چکا ہے۔العربیہ ڈاٹ نیٹ
اب یہ مجھے نہیں معلوم کہ ”عالم اسلام کے لئے خدمات“ سے شاہ فیصل ایوارڈ منتظمین کی کیا مراد ہے؟ سیاسی خدمات، سماجی خدمات، ادبی خدمات، ”تصنیفی خدمات“ یا کچھ اور؟ اگر مراد تصنیفی خدمات ہی ہے (جیسا کہ غالب گمان ہے) تو کیا انہوں نے ان تصانیف کو دیکھے اور پرکھے بغیر ان پر ایوارڈ دے دیا؟ یا ان تصانیف کو بحیثیت مجموعی ”پسند“ کر کے ان پر ایوارڈ دیا۔ مولانا کی بیشتر تصانیف کا تعلق چونکہ ”اسلامیات“ سے ہے، لہٰذا یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ شاہ فیصل ایوارڈ کے منتظمین کے نزدیک مولانا کے ”اسلامی نظریات اور تصانیف“ خلاف اسلام یا اسلام سے دور ہرگز نہیں ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو مملکت سعودیہ اپنے اس بین الاقوامی ایوارڈ کا آغاز مولانا مودودی رحمہ اللہ سے ہرگز نہ کرتی۔ واضح رہے کہ بھارت کے ڈاکٹر ذاکر نائیک کو 2015 کا شاہ فیصل ایوارڈ بھی ”اسلامی خدمات“ پر ہی دیا گیا ہے۔

نوٹ: یہ سطور صرف ”معلومات عامہ“ کے لئے تحریر کی گئی ہیں۔ وگرنہ یہ خاکسار مولانا یا جماعت اسلامی کا سرکاری یا غیر سرکاری ”وکیل“ ہر گز نہیں ہے۔ مسکراہٹ
 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
320
پوائنٹ
127
چونکہ مولانا مودودی نے اسلامی حکومت کے قیام کے نام پر ایسی ہوا کھڑی کر رکھی تھی کہ اچھے اچھے علماء انکے فیور میں آگئے تھے لیکن بعد میں جیسے جیسے حقائق منکشف ہوتے گئے لوگ ان سے الگ ہوتے گئے مولانا وحیدالدین خان نے انسے اور مولانا امین اصلاحی سے ایسے ایسے سوالات کئے کہ دونوں سے کوئی جواب نہیں بن پڑااسپر وحیدالدین خان صاحب نے ۔تعبیر کی غلطی۔کے نام سے ایک بہترین کتاب تیار کردی جو ہر ایک صاحب علم کے پڑھنے کے لائق ہے اس سے جماعت اسلامی اور مودودی کے نظریات کا کھل کر پتہ چلتا ہے مودودی صاحب نے اسلام فہمی میں منہج سلف سے ہٹ کر اپنے عقل پر زیادہ اعتماد کیا ہے ان کے یہاں توحید و شرک کی وضاحت اس طرح ہرگز نہیں ہے جس طرح قرآن نے کیا ہے یا جس طرح سلف صالح نے کیا ہے حدیث کے باب میں انہوں نے مستشرقین پر مکمل اعتماد کیااسی کے نتیجہ میں حدیث کو شکوک و شبہات کی نگاہ سے دیکھا اسی لئے مولانا ثناءاللہ امرتسری رح نے انکے شبہات کا جواب دیا جو خطاب بمودودی کے نام سے شائع ہوچکی ہے بہر حال ان سے بنیادی تسامحات ہوئے ہیں شاہ فیصل ایوارڈ میں انکی علمی شہرت اور مولانا مسعود عالم ندوی کے کردار کا زیادہ دخل ہے ۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
مولانا مودودی اور جماعت اسلامی پر سب سے زیادہ اعتراضات سن پچاس، ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں ہوئے۔ جن میں سے بعض کے جوابات دئے گئے اور بعض پر خاموشی اختیار کی گئی۔ اس کے بعد ان اختلافات اور مخالفت کی شدت میں کمی ہی ہوئی، کوئی ایسی نئی بات رد میں نہیں کی گئی، جن سے مولانا اور ان کی جماعت نئے سرے سے ”متنازعہ“ بن جاتی۔ گویا ان اختلافات کی گرد ہٹنے کے بعد 1979 میں سید ابوالاعلیٰ مودودی کو پہلا شاہ فیصل ایوارڈ دیا گیا۔ جبکہ 1990 میں نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان پروفیسر خورشید احمد کو بھی شاہ فیصل ایوارڈ دیا گیا۔

چونکہ مولانا مودودی نے اسلامی حکومت کے قیام کے نام پر ایسی ہوا کھڑی کر رکھی تھی کہ اچھے اچھے علماء انکے فیور میں آگئے تھے لیکن بعد میں جیسے جیسے حقائق منکشف ہوتے گئے لوگ ان سے الگ ہوتے گئے
کیا یہ ”سارا عمل“ 1979 سے پہلے پہلے ”اختتام پذیر“ نہیں ہوگیا؟ کیا سعودی عرب کی حکومت اور وہاں کے علماء اتنے ہی ”بے خبر“ تھے کہ انہیں 1979 تک (جو مولانا کا سال وفات بھی ہے) مولانا کے ”علمی و عملی کاموں“ کی ”حقیقت“ سے ”بے خبر“ ہی رہے اور انہیں پتہ ہی نہ چل سکا کہ:

مودودی صاحب نے اسلام فہمی میں منہج سلف سے ہٹ کر اپنے عقل پر زیادہ اعتماد کیا ہے ان کے یہاں توحید و شرک کی وضاحت اس طرح ہرگز نہیں ہے جس طرح قرآن نے کیا ہے یا جس طرح سلف صالح نے کیا ہے حدیث کے باب میں انہوں نے مستشرقین پر مکمل اعتماد کیااسی کے نتیجہ میں حدیث کو شکوک و شبہات کی نگاہ سے دیکھا
اور انہوں نے ”عالم بے خبری“ میں سب سے پہلے مولانا مودودی کو عالم اسلام کے اتنے بڑے انٹرنیشنل ایوارڈ سے نوازا۔ مزید ”جہالت“ یہ دکھلائی کہ دس سال بعد 1990 میں اسی جماعت کے نائب امیر کو بھی ایوارڈ سے نواز دیا۔ کاش متذکرہ بالا حقیقت سے کوئی آج بھی (بے خبر) سعودی علماء اور حکومت کو آگاہ کردے تاکہ وہ اپنے ان دونوں ایوارڈز کی اجرائی سے ”رجوع“ کرسکیں۔ یا کم از اپنی ”بے خبری“ کا اعتراف ہی کرسکیں۔

یا تو یہ تسلیم کیجئے کہ مولانا اور جماعت اسلامی کی ”سرپرستی“ کرنے والے سعودی علماء اور سعودی حکومت آج بھی ان کی ”اصلیت“ سے بے خبر ہی ہیں۔ یا یہ تسلیم کیجئے کہ اگر وہ ان کی سرپرستی فرماتے ہیں تو یہ لوگ کم از کم دین اسلام سے بہت دووووور نہیں ہیں یا پھر یہ تسلیم کیجئے کہ مولانا اور جماعت کی طرح سعودی علما اور ان کی حکومت بھی ۔ ۔ ۔ (آگے لکھنے سے میرا قلم قاصر ہے) ۔ حضور کچھ تو ”تسلیم“ کی خو ڈالئے۔ یہ کیا کہ (سعودیہ کی ”میری“ سرپرستی تو) میٹھا میٹھا ہڑپ اور (مودودی اور جماعت کی سرپرستی) کڑوا کڑوا تھو ہو۔

مانو نہ مانو جان جہاں، اختیار ہے
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں​
 
Top