شیخ الاسلام ابن تیمیہ ، اور انہیں کے بقول امام بخاری ابراہم الحربی اور دیگر اہل علم ، نیز علامہ ابن حزم ، امام ابن عدی ، امام ابن الجوزی نے اس روایت کو ضعیف کہا ہے بلکہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس کے بعض حصہ کو موضوع قرار دیا ہے ، اسی طرح ابن عدی نے بھی اس کے بعض حصہ کو موضوع کہا ہے۔
یادرہے کہ اس روایت کے کثرت طرق سے تضعیف کرنے والے بھی آگاہ تھے بلکہ امام زیلعی رحمہ اللہ نے تو پوری صراحت کے ساتھ کہا:
وَكَمْ مِنْ حَدِيثٍ كَثُرَتْ رُوَاتُهُ وَتَعَدَّدَتْ طُرُقُهُ، وَهُوَ حَدِيثٌ ضَعِيفٌ؟ كَحَدِيثِ: الطَّيْرِ . وَحَدِيثِ الْحَاجِمِ وَالْمَحْجُومِ وَحَدِيثِ: مَنْ كُنْت مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ ، بَلْ قَدْ لَا يُزِيدُ الْحَدِيثَ كَثْرَةُ الطُّرُقِ إلَّا ضَعْفًا [نصب الراية للزيلعي: 1/ 360]۔
اس کے برعکس دیگر اہل علم نے اسے صحیح یا حسن کہا ہے حتی کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس کے بعض ٹکڑے کو متواتر کہا ہے جو کسی بھی صورت میں درست نہیں زیادہ سے زیادہ اس روایت کے صحت کی امید کی جاسکتی ہے لیکن ذاتی طور مجھے اس کی بھی امید نہیں کیونکہ اس حدیث کا مفہوم اسلام کے اصولوں سے متصادم ہے جیساکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کہا لیکن محض تصادم کی بات کسی حدیث کی تضعیف کے لئے کافی نہیں ہے بلکہ اصول حدیث کے مطابق بھی اس میں علتیں ہونی چاہیں بصورت دیگرحدیث کو صحیح مانا جائے گا اوراس کی تاویل کی جائے گا۔
میں سردست ذاتی طور پر اس روایت کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتا لیکن شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے جو کچھ کہا میرا دل اسی پر مطمئن ہے ، کبھی طویل فرصت ملی تو اس کے سارے طرق کو جمع کرکے فریقین کے دلائل پر غورکیا جائے گا۔
بہرحال اگر مولی علی والی روایت ضعیف ہے تو سارا مسئلہ ختم اور اگر صحیح ہے تو ولایت سے مراد امارت نہیں ہے جیساکہ اہل تشیع کا کہنا ہے بلکہ اس کا مطلب محبت ہے ۔
کفایتاللہصاحبکامراسلہکیکاپی
http://forum.mohaddis.com/threads/مولا-علی.5625/شیخ الاسلام ابن تیمیہ ، اور انہیں کے بقول امام بخاری ابراہم الحربی اور دیگر اہل علم ، نیز علامہ ابن حزم ، امام ابن عدی ، امام ابن الجوزی نے اس روایت کو ضعیف کہا ہے بلکہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس کے بعض حصہ کو موضوع قرار دیا ہے ، اسی طرح ابن عدی نے بھی اس کے بعض حصہ کو موضوع کہا ہے۔
یادرہے کہ اس روایت کے کثرت طرق سے تضعیف کرنے والے بھی آگاہ تھے بلکہ امام زیلعی رحمہ اللہ نے تو پوری صراحت کے ساتھ کہا:
وَكَمْ مِنْ حَدِيثٍ كَثُرَتْ رُوَاتُهُ وَتَعَدَّدَتْ طُرُقُهُ، وَهُوَ حَدِيثٌ ضَعِيفٌ؟ كَحَدِيثِ: الطَّيْرِ . وَحَدِيثِ الْحَاجِمِ وَالْمَحْجُومِ وَحَدِيثِ: مَنْ كُنْت مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ ، بَلْ قَدْ لَا يُزِيدُ الْحَدِيثَ كَثْرَةُ الطُّرُقِ إلَّا ضَعْفًا [نصب الراية للزيلعي: 1/ 360]۔
اس کے برعکس دیگر اہل علم نے اسے صحیح یا حسن کہا ہے حتی کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس کے بعض ٹکڑے کو متواتر کہا ہے جو کسی بھی صورت میں درست نہیں زیادہ سے زیادہ اس روایت کے صحت کی امید کی جاسکتی ہے لیکن ذاتی طور مجھے اس کی بھی امید نہیں کیونکہ اس حدیث کا مفہوم اسلام کے اصولوں سے متصادم ہے جیساکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کہا لیکن محض تصادم کی بات کسی حدیث کی تضعیف کے لئے کافی نہیں ہے بلکہ اصول حدیث کے مطابق بھی اس میں علتیں ہونی چاہیں بصورت دیگرحدیث کو صحیح مانا جائے گا اوراس کی تاویل کی جائے گا۔
میں سردست ذاتی طور پر اس روایت کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتا لیکن شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے جو کچھ کہا میرا دل اسی پر مطمئن ہے ، کبھی طویل فرصت ملی تو اس کے سارے طرق کو جمع کرکے فریقین کے دلائل پر غورکیا جائے گا۔
بہرحال اگر مولی علی والی روایت ضعیف ہے تو سارا مسئلہ ختم اور اگر صحیح ہے تو ولایت سے مراد امارت نہیں ہے جیساکہ اہل تشیع کا کہنا ہے بلکہ اس کا مطلب محبت ہے ۔