كلمة حق أريد بها الباطل
الحب لله والبغض في الله کہہ آپ صحابہ کرام کو گالیاں نکالتے ہیں:
اللہ تعالیٰ نے ہمیں صحابہ کرام کو برا بھلا کہنے کا نہیں بلکہ ان کیلئے استغفار کا حکم دیا ہے۔ سورۃ الحشر میں اللہ تعالیٰ نے تین گروہوں کا ذکر خیر فرمایا ہے ہے۔ 1۔ سب سے پہلے مہاجرین کا
﴿ للفقراء الذين أخرجوا ۔۔۔ ﴾، 2۔ پھر انصار کا:
﴿ والذين تبوءوا الدار والإيمان من قبلهم ۔۔۔ ﴾، 3۔ اور پھر ان لوگوں کا جو ان کے بعد آئے، جو اپنے سے پہلے گزرنے والوں کیلئے استغفار کرتے ہیں:
﴿ والذين جاءوا من بعدهم ۔۔۔ ﴾
پہلے دو گروہ تو گزر چکے، ہم ان میں کسی طور شامل نہیں ہو سکتے، لیکن کم از کم ہم تیسرے گروہ میں تو شامل ہو سکتے ہیں کہ
مہاجرین اور انصار (صحابہ کرام) کیلئے کم از کم دعائے مغفرت ہی کردیں، کجا یہ کہ ان پر سب وشتم کریں!
نبی کریمﷺ کو بھی اپنے ساتھیوں کے بارے میں استغفار کا حکم دیا گیا:
﴿ فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا اللَّـهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ۗ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ وَمَثْوَاكُمْ ١٩ ﴾ ۔۔۔ سورة محمد
﴿ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ ۖ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ ١٥٩ ﴾ ۔۔۔ سورة آل عمران
شرح عقیدہ طحاویہ میں ہے:
مَنْ أضلُّ ممن يكون في قلبه غِلٌ على خِيار المؤمنين، وسادات أولياء الله تعالى بعد النبيين؟ بل قد فضَلَهم اليهود، والنصارى بخصلة؛ قيل لليهود: من خير أهل ملتكم؟ قالوا: أصحاب موسى، وقيل للنصارى: من خير أهل ملتكم؟ قالوا: أصحاب عيسى، وقيل للرافضة: من شر أهل ملتكم؟ قالوا: أصحاب محمد!! ولم يستثنوا منهم إلا القليل، وفيمن سبوهم من هو خير ممن استثنوهم بأضعاف مضاعفة.
’’اس شخص سے بڑھ کر گمراہ کون ہوسکتا ہے جس کے دل میں سب سے بہتر مسلمانوں (صحابہ کرام) کے بارے میں کینہ وبغض ہو جو انبیائے کرام کے بعد تمام اولیاء اللہ کے بھی سردار ہیں۔ صحابہ کرام کو برا بھلا کہنے والوں سے تو یہودی اور عیسائی بھی ایک اعتبار سے بہتر ہیں کہ جب یہودیوں سے کہا جاتا ہے کہ تم میں سے سب سے بہتر کون ہیں؟ تو وہ کہتے ہیں: سیدنا موسیٰ کے صحابہ۔ اسی طرح جب عیسائیوں سے کہا جاتا ہے کہ تم میں سے سب سے بہتر کون ہیں؟ تو وہ کہتے ہیں کہ سیدنا عیسیٰ کے صحابہ۔ اور جب رافضہ سے پوچھا جاتا ہے کہ تم میں سے سب سے بدتر کون ہیں؟ تو وہ کہتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کے صحابہ! اور وہ ان میں چند کے علاوہ کسی کو بھی مستثنیٰ نہیں کرتے۔ حالانکہ جنہیں وہ گالیاں نکالتے ہیں وہ ان سے جنہیں وہ مستثنیٰ قرار دیتے ہیں سے بدرجہا افضل ہیں۔‘‘
امام مالک رافضہ کے بارے میں فرماتے ہیں:
إنما هؤلاء أقوام أرادوا القدح في النبي عليه الصلاة والسلام فلم يمكنهم ذلك فقدحوا في أصحابه، حتى يقال: رجل سوء، ولو كان رجلا صالحا لكان أصحابه صالحين ۔۔۔ الصارم المسلول: ص580
’’یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے نبی کریمﷺ کی مذمت کرنا چاہی، جب ان کیلئے یہ ممکن نہ ہوا تو انہوں نے نبی کریمﷺ کے ساتھیوں کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ حتی کہ کہا جاتا ہے: برا آدمی۔ اگر یہ اچھا شخص ہوتا تو لازماً اس کے ساتھی بھی اچھے ہوتے۔‘‘
دنیا میں کوئی ایسا مذہب بتاؤ، جس میں کسی کو گالیاں دینا باعث فضیلت اور ایمان کا حصہ ہو سوائے رافضہ کے۔ جن کے ہاں اپنے نبی کریمﷺ کے ساتھیوں کو برا بھلا کہنا ان کے غلیظ ایمان کا حصہ ہے۔