! عمار کو ایک باغی جماعت مارے گی ‘ یہ تو انہیں اللہ کی (اطاعت کی) طرف دعوت دے رہا ہو گا لیکن وہ اسے جہنم کی طرف بلا رہے ہوں گے۔[/CENTER]
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،،،،
پیارے مختلف بہانے اور حیلے بازیاں کرکے صحابہ کرام
رضوان اللہ علیہم اجمعین پر طعن اور تبرا کرنے والے اس وقت دو گروہ ہیں پاکستان میں خصوصا،،، ایک تو گروہ ایسا ہے کہ جو خود کو اہل حدیث ہونے کا دعویٰ کرتا ہے جبکہ صحابہ کے معاملے میں کم از کم وہ اہل حدیث نہیں رہ گئے۔ اور یہ وہ گروہ ہے جو بابا اسحاق فیصل آبادی کے مقلدین میں سے ہے۔ اگر آپ بھی بابا اسحاق کے مقلدین میں سے ہیں تو برا نہ محسوس کرنا میں انہیں اسحاق کی بجائے عام طور پر آئزک بلاتا ہوں۔
اور دوسرا گروہ اپنے آپ کو شیعان علی کہلوانے والے رافضیوں کا ہے، اور ان کو صحابہ کرام
رضوان اللہ علیہم اجمعین سے کیا بغض وعناد ہے،،،، حقیقت یہ ہے کہ یہ یہودیت کے تارو پود ہے اور عبد اللہ بن سبأ کا وہ بیج ہے جو اس نے مسلمانوں کے اندر اختلاف اور تفرقہ کے لیے بویا تھا،،، اور یہ بیج آج تک جیسے اصل فصل میں لا یعنی جڑی بوٹیاں اگ آتی ہیں یہ بھی اگتا چلا آ رہا ہے اور کچھ عرصہ سے تو کچھ زیادہ ہی پنپتا جا رہا ہے۔
میں باری باری دونوں طبقوں کے لیے جواب دینے کی کوشش کرتا ہوں،،،، امید ہے قابل قدر افاقہ ہو گا،،، اس پوسٹ پر پہلے بھی ایک صاحب ایسی ہی نظریات لے کر اپنی بد باطنی کا اظہار کر رہے تھے مگر شاید اب وہ تھک کر گھر جا بیٹھے ہیں،،، لیکن واللہ محبان صحابہ ان شاء اللہ العزیز ہر دور میں کھڑے ہوتے رہیں گے اور ان کی طرف اٹھائی جانے والی ہر انگشت بد باطن کو روکتے رہیں گے۔
اگر تو آپ باب جی اسحاق کے مقلدین میں سے ہیں تو آپ کو جاننا چاہیے:
باغی کا مطلب وہ نہیں ہوتا جو آپ نے لیا ہے،،،، اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ تھوڑا سا کہیں سے علم حاصل کر لیں اور عربی زبان وادب کے بارے میں سیکھ لیں۔۔۔۔ صحابہ ایک دوسرے سے بات کرنے کے دوران میں کبھی ایسا ہوتا کہ دوسرے کی بات سے اختلاف ہوتا تو اس کو کہہ دیتے کہ
’’کذبت‘‘ ۔۔۔ کیا آپ اس لفظ سے صرف یہی مطلب لو گے کہ ’’تم نے جھوٹ بولا۔‘‘ واللہ ایسا مطلب لینے والا ایک کنویں کے مینڈک کی طرح ہے جو کنویں سے باہر نہیں نکل سکتا۔ ۔۔۔ اس لفظ کو جب گفتگو کے دوران کسی سے ایسا بولتے تھے تو اس کا مطلب یہ لیا جاتا تھا کہ مخاطب کو بولا گیا ہے کہ ’’تم غلطی پر ہو۔‘‘ نہ کے صحابہ ایسے ایک دوسرے کو گستاخانہ اور بے ادبانہ طریقہ سے مخاطب کرتے۔۔۔ یہ تو تربیت نبوی کے بالکل برعکس ہوتا اگر ایسا کچھ مطلب لیا گیا ہوتا تو۔
اسی طرح ظاہری معانی کو مراد لیتے ہوئے ایک اور مثال دوں گا پھر میں اپنی بات آگے چلاؤں گا۔۔۔
صحیح البخاری میں سیدنا ابوبکرؓ کے حوالے سے ایک حدیث مذکور ہے جس میں انہوں نے حدیبیہ کے موقعہ پر مکہ سے آئے ہوئے مندوب کو
’’امصص بظر اللات‘‘ کہہ دیا تھا۔۔۔۔ اب یہاں شیعہ اور دیگر بد فطرت لوگ یہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابوبکرؓ نے اس کو گالی دی اور پھر یہ ہوا بھی نبی کریمﷺ کی موجودگی میں۔۔۔۔ واللہ نبی کریمﷺ اپنے اصحاب کو بدکلامی کی کبھی اجازت نہیں دیتے اور حقیقت میں یہ بدکلامی نہیں ہے۔۔۔۔ اس کے اصل معانی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔۔۔۔ یہ ٹھیک ہے کہ بہت سے اجل علماء نے اس کا ترجمہ وہی کیا ہے جو عام طور پر کیا جاتا ہے۔۔۔ مگر انبیاء کے علاوہ کوئی کتنا بڑا عالم وپرہیزگار ومتقی ہو اس سے امکان رکھا جا سکتا ہے کہ وہ غلطی کرے گا۔ ایسے ہی کسی دوسری زبان کو نہ سمجھنے والے کسی بھی فرد سے اصل مغز کلام کو سمجھنے میں غلطی لگ سکتی ہے اور وہ اس کا ترجمہ غلطی سے کر سکتا ہے جبکہ حقائق کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔
ہمارے ہاں ہندوؤں میں عرصہ دراز سے بتوں کی شرمگاہوں کی پوجا کا عمل جاری وساری ہے،،،، اسی کی دیکھا دیکھی آج کل بد قسمتی سے پاکستان میں بھی ایک پیر صاحب کے دربار پر اولاد کے لیے ایک متبرک لکڑی کے عضو کا استعمال شروع ہو چکا ہے۔۔۔۔ ہندوؤں کا ساتھ چھوڑنے کے باوجود ان کی رسومات جان نہیں چھوڑ رہیں۔
ہندوؤں میں بتوں کے ان اعضاء کو بہت احترام دیا جاتا ہے اور متبرک سمجھتے ہوئے ’’مس‘‘ کیا جاتا ہے اور ان کو چھو کر محسوس کر کے ان سے دعائیں التجائیں کرتے ہیں۔۔۔۔۔ اور یہی گندا فعل ان مکہ کے کفار میں بھی تھا جو لات کو متبرک سمجھتے تھے،،،، اس کو احساس تبرک میں چھوتے اور ان کو احترام دیتے اور بزرگ خیال کرتے تھے۔۔۔۔
میں سمجھتا ہوں کہ سیدنا ابوبکر کے الفاظ
’’امصص بظر اللات‘‘ کا اتنا ہی مقصد ہے کہ انہوں نے مندوب مخالف کی کسی بات پر یہ کہا ہے کہ
’’جا کر اپنے لات کے عضو کی پوجا کر۔‘‘
کہنے کا مقصد یہ تھا کہ جو لوگ ایک بت کی شرمگاہ کی پوجا کرتے ہیں بھلا موحدین اسلام سے جنگ کرنے کی صلاحیت کیسے ان میں ہو گی اور وہ کیسے ان کا مقابلہ کر پائیں گے جن میں ایسی خرافات کا وجود نہیں ہے۔
تو پیارے اگر تم تھوڑا غور کرو تو تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ اس جگہ جہاں اللہ کے پاک نبیؑ نے
تقتلہ الفئۃ الباغیۃ
کے لفظ استعمال کیے ہیں۔۔۔ اس کے معانی کیا ہو سکتے ہیں۔۔۔۔ اگر آپ علم حدیث اور عربی کے بارے میں کچھ سیکھا پڑھا ہوتا تو یقیناً آپ سمجھ سکتے تھے کہ یہ لفظ کسی اور معانی میں بھی ہو سکتا ہے،،،، صحیح البخاری کے بہت بڑے شارح جناب حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ ہیں ان کی رائے دیکھتے ہیں کہ وہ اس روایت کے بارے میں کیا کہتے ہیں اور کس کو قصور وار ٹھہراتے ہیں:
فالمراد بالدعاء إلى الجنة: دعاء إلى سببها وهو طاعة الإمام. وكذلك كان عمار يدعوهم إلى طاعة علي وهو الإمام الواجب الطاعة إذ ذاك، وكانوا هم يدعون إلى خلاف ذلك لكنهم معذورون للتأويل الذي ظهر لهم ». انتهى كلامه [فتح الباري 1/542].
جنت کی طرف بلانے سے مراد یہ ہے کہ اس کے اصل سبب کی طرف دعوت دی اور وہ اطاعت امام (امیر) ہے۔ اور ایسا ہی تھا جبکہ سیدنا عمارؓ سیدنا علیؓ کی اطاعت کی طرف دعوت دیتے جبکہ فی زمانہ وہی واجب الاطاعت امام تھے۔ اور وہ (اصحاب معاویہ) اس کے الٹ تھے۔ (وہ بھی اپنی سمجھ کے مطابق کچھ ایسے ہی مقصد کی طرف دعوت دیتے تھے۔)
کہتے ہیں:
فالجواب أنهم كانوا ظانين أنهم كانوا يدعون إلى الجنة، وهم مجتهدون لا لوم عليهم في اتباع ظنونهم
اس کا جواب یہی ہے کہ ’’ان کا بھی دعویٰ تھا کہ وہ جنت کی طرف بلا رہے ہیں،،، انہوں نے بھی اجتہاد کیا۔ ان دونوں فریقین کے اجتہاد کی بنا پر کسی پر ملامت نہیں کی جا سکتی۔
یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں فریق اپنے اپنے اجتہاد کے مطابق ایک ایسے رستے کی طرف دعوت دے رہے تھے جس کو وہ صحیح سمجھتے تھے لہٰذا دونوں میں سے کسی بھی فریق کو غلط قرار نہیں دیا جا سکتا۔
اب یہاں ہم کو دیکھنا ہے کہ کیا دونوں فریق حق پر تھے؟؟ تو چلتے ہیں کہ دیکھیں کہ نبی کریمﷺ کی جناب سے جس طرح سیدنا عمار بن یاسر کے حوالے سے پیشگوئی ہے اور اور ایسی پیش گوئی ہے جو اس طرح کی نشاندہی کرے؟؟؟
آئیے صحیح مسلم،، کتاب الزکاۃ کی روایت ملاحظہ فرمائیں:
عَنْ أَبِى سَعِيدٍ الْخُدْرِىِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « تَمْرُقُ مَارِقَةٌ عِنْدَ فُرْقَةٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ يَقْتُلُهَا أَوْلَى الطَّائِفَتَيْنِ بِالْحَقِّ ».
اس روایت میں نبی کریمﷺ کا خوارج کے بارے میں فرمان ہے کہ ’’حق پر چلنے والی دو جماعتوں میں سے ایک جماعت انہیں قتل کرے گی۔‘‘
اور یہ فضیلت سیدنا علیؓ کے نصیب میں آئی کہ انہوں نے نہروان والے دن خوارج کو قتل کیا۔
اب مجھ کو کوئی یہ بتلا دے مہربانی کر کے کہ اس وقت دو جماعتیں،،، دو گروہ مسلمانوں کے کون سے تھے جو حق پر تھے؟؟؟
میں بابا جی اسحاق کے مقلدین سے دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ کیا وہ سیدنا امیر معاویہ کے ساتھیوں کے مقابلہ میں خارجیوں کو دوسرا گروہ قرار دینا چاہتے ہیں؟؟؟
اب یہاں میں آپ کو وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ لفظ ’’باغیہ‘‘ سے یہاں کیا مراد لی جا سکتی ہے:
فئۃ باغیۃ سے یہاں مراد ہے کہ ایسی وہ جماعت جو سیدنا عثمانؓ کے خون کا مطالبہ کرے گی، تو اس میں لفظ
’’بغی‘‘ بغاوت کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا بلکہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کا مطالب کرنے والے کے معنی میں استعال ہو گا جو کہ ہرگز ہرگز مذموم نہیں ہو سکتا۔
اگر آپ کو
فئۃ باغیۃ کا معنی ’’مطالبہ کرنے والا گروہ‘‘ کرنے میں کوئی اختلاف ہے تو مہربانی کریں اور کسی اچھی ڈکشنری میں تھوڑی مغز ماری کر لیں آپ کو وہاں سے بغی کے معانی مل جائیں گے کیا کیا ہوتے ہیں۔
یہاں میں آپ سے ایک چھوٹی سی گزارش اور کرنا چاہوں گا کہ قرآن کی آیت
وإن طائفتان من المؤمنين أقتتلوا فأصلحوا بينهما ،
پر بھی تھوڑا غور فرما لیں۔۔۔۔ اس میں بھی واضح ہے کہ جب مومنوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں اصلاح کرواؤ۔۔۔۔۔۔ اور یقیناً دونوں جماعتیں مومن ہیں۔۔۔ اجتہادی غلطی کس جماعت کو ہوئی،،، ہم کسی کو بھی کچھ کہنے کی سکت نہیں رکھتے وہ اصحاب رسول ہیں اور ہم ان کی خاک پا کے برابر بھی نہیں ہیں۔
اب میں کچھ تھوڑے سے الفاظ ان حضرات سے کہنا چاہتا ہوں جو رافضیت کی تاروپود سے تعلق رکھتے ہیں:
میرا سوال ہے رافضیت کے ان علمبرداروں سے جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ دوسرا گروہ کفر پر تھا، گمراہ تھا یا جو بھی ان کا دعویٰ ہے اس کے حوالے سے میرا ان سے مطالبہ ہے کہ وہ مجھ کو بتلائیں سیدنا علیؓ نے ایک دن خطبہ میں فرمایا:
أصبحنا نقاتل إخواننا في الإسلام على ما دخل فيه من الزيغ والإعوجاج والشبهة
’’میرے ساتھیو! ہم اپنے مسلمان بھائیوں سے لڑ رہے ہیں اور یہ اس وجہ سے ہے کہ ہم میں کچھ غلط فہمیاں، شبہات اور کدورتیں آگئی ہیں۔‘‘
میرا سوال سیدنا علیؓ کے نام لیواؤں سے یہ ہے کہ اگر وہ مسلمان نہ تھے،،، تو پھر نعوذ باللہ کیا سیدنا علیؓ نے جھوٹ بولا ہے ان لوگوں کے بارے میں؟؟؟؟ جب سیدنا علی کرم اللہ وجہہ جیسی ہستی امیر معاویہ کے ہمراہیان کو مسلمان کہہ رہے ہیں تو تم لوگوں کو کیا ایسی رکاوٹ ہے کہ باقی تمام اصحاب رسول ودیگر مسلمانوں کو مسلمان نہیں سمجھتے اور ان پر تبرا کرتے ہیں۔
یہاں آپ رافضیوں سے ایک اور بات عرض کرتا چلوں،،،، آپ کے معصوم امام جناب امام جعفر صاحب نے بھی کچھ فرمایا ہے امیر معاویہ، یزید بن معاویہ اور مروان کے بارے میں وہ وہ بھی آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں،،،، اگر یہ سب جھوٹ ہے تو پھر یہ جھوٹ تو آپ ہی کے ائمہ نے بولا ہے ہمارا اس میں کیا دوش؟؟؟
امام
یعقوب کلینی صاحب نے اپنی مشہور زمانہ کتاب
الکافی کی پہلی جلد میں باب باندھا ہے:
باب مَا أَمَرَ النَّبِيُّ ( صلى الله عليه وآله ) بِالنَّصِيحَةِ لِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَ اللُّزُومِ لِجَمَاعَتِهِمْ وَ مَنْ هُمْ
نبی کریمﷺ نے ائمہ المسلمین کی خیر خواہی اور ان کا ساتھ دینے اور پھر جماعت کو اپنائے رکھنے کے بارے میں کیا فرمایا ہے؟
جناب والا یہ تو باب تھا اس کے بعد پہلی ہی حدیث میں جناب امام ابوعبداللہ جعفر صاحب بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے مسجد خیف میں خطبہ میں بیان فرمایا:
نَضَّرَ اللهُ عَبْداً سَمِعَ مَقَالَتِي فَوَعَاهَا وَ حَفِظَهَا وَ بَلَّغَهَا مَنْ لَمْ يَسْمَعْهَا فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ غَيْرُ فَقِيهٍ وَ رُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ ثَلَاثٌ لَا يُغِلُّ عَلَيْهِنَّ قَلْبُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِخْلَاصُ الْعَمَلِ لِلَّهِ وَ النَّصِيحَةُ لِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَ اللُّزُومُ لِجَمَاعَتِهِمْ فَإِنَّ دَعْوَتَهُمْ مُحِيطَةٌ مِنْ وَرَائِهِمْ الْمُسْلِمُونَ إِخْوَةٌ تَتَكَافَأُ دِمَاؤُهُمْ.
اللہ اس بندے کے چہرے کو روشن کرے جس نے میری بات سنی اور اس کو یاد کیا محفوظ کیا اور آگے ان کو بیان کیا جنہوں نے نہیں سنا، کبھی فقہ کو حاصل کرنے والا فقیہ نہیں ہوتا اور کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ فقہ کی بات کو لے جانے والا اپنے سے زیادہ فقیہ کو بات پہنچا دیتا ہے۔ تین چیزیں ایسی ہیں کہ کسی مسلم کے دل کو اس میں سے کچھ بھی چھپانا نہیں چاہیے، اللہ کے لیے خلوص نیت سے عمل، ائمہ المسلمین کے لیے خیر خواہی، اور مسلمانوں کی جماعت کو لازم پکڑے رہنا۔ کیونکہ ان کی دعوت اپنے بعد آنے والے مسلمانوں کو احاطہ کیے ہوتی ہے، تمام مسلمان آپس میں سب کے خون برابر ہیں ۔
اور پیارے!... اس پہلی روایت کے بعد دوسری روایت ایک لمبی روایت ہے جس میں پھر سے اس روایت کو اسی معنی میں دہرایا ہے اور ساتھ میں دیگر تفاصیل ہیں اور ان میں سے ایک مزے دار بات یہ ہے کہ امام جعفر صاحب نے ائمۃ المسلمین کون ہیں کہہ کر تین افراد کے نام لیے ہیں۔۔۔۔۔
فَقُلْتُ لَهُ ثَلَاثٌ لَا يُغِلُّ عَلَيْهِنَّ قَلْبُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِخْلَاصُ الْعَمَلِ لِلَّهِ قَدْ عَرَفْنَاهُ وَ النَّصِيحَةُ لِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ مَنْ هَؤُلَاءِ الْأَئِمَّةُ الَّذِينَ يَجِبُ عَلَيْنَا نَصِيحَتُهُمْ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ وَ يَزِيدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ وَ مَرْوَانُ بْنُ الْحَكَمِ
تو میں نے کہا کہ تین چیزیں ہیں جن کو کسی مسلم کا دل چھپا نہیں سکتا، الله کے لیے خالص ہو کر کام کرنا جس کو ہم نے پہچان لیا... اور ائمۃ المسلمین کے لیے خیر خواہی چاہنا... اور وہ ائمہ کون ہیں جن کی خیر خواہی ہم پر واجب ہے... تو وہ معاویہ بن ابوسفیان.... یزید بن معاویہ اور مروان بن الحکم ہیں۔
اگر آپ شیعہ ہیں تو یہ تو آپ کے گھر کی خبر ہے اس کو تو مان جائیں۔۔۔۔۔
الکافی کا پیج سکین حاضر خدمت ہے طبع ایران ہے یہ کتاب
الشیعۃ | Facebook
فی الحال میں یہی عرض کرنا چاہتا ہوں اس کے بعد اللہ نے چاہا تو دیکھیں گے کہ آپ دونوں میں سے کس ’’تار‘‘ کے ’’پود‘‘ ہیں۔
وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ