غیرمستند ہونے کی کوئی مستند دلیل؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
سیرت و سوانح میں کسی کتاب کے مستند ہونے کا مطلب ہےکہ:
مصنف کتاب خود صحیح العقیدہ اور صاحب بصیرت شخصیت ہے ، اور جن ذرائع سے کسی کے حالات پیش کئے ہیں وہ بھی ثقہ و معتبر ہیں ،
اسماء رجال الحدیث کے مصنفین و مرتبین کو اور ان کی کتب دیکھ لیجئے ،شاید سمجھ آجائے
امام احمد بن حنبلؒ سے لے کر امام الذھبی اور علامہ ابن حجرؒ تک جن عظیم اور صاحب نظر حضرات نے سیر و تراجم پر داد تحقیق دی
اسی تحقیق پر علم حدیث و سیرت پر قائم ہے ، اس پر آج بھی امت بلاشبہ ناز کرتی ہے ،
محض رطب و یابس ( اور ہر سنی سنائی بات جمع و مرتب کرکے اعتبار و استناد کی مہر نہیں لگائی جاسکتی
امام اعظم و اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ :
عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «كفى بالمرء كذبا أن يحدث بكل ما سمع» صحیح مسلم
کہ بندہ کے جھوٹا ہونے کیلئے یہی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی کو آگے بیان کرے ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو اس بنیاد پر ( اخبارالاخیار ) کے چند مقامات دیکھتے ہیں :
شیخ عبدالحق نے اخبار الاخیار جناب شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے احوال سے شروع کی ہے،
اور ایسے ایسے عجیب حالات و واقعات لکھے ہیں جن کو دیکھ کے لگتا ہے معاذاللہ شیخ رحمہ اللہ کوئی جوگی اور سادھو تھے ،
شیخ ؒعبدالقادرؒ کی پہلی حالت یہ لکھی ہے کہ وہ فرماتے ہیں : میں پچیس سال عراق کے صحراؤں ، بیابانوں میں اس حال میں گشت کرتا رہا کہ نہ میں کسی کو پہچانتا تھا ، نہ کوئی مجھے پہچانتا تھا ،
صرف رجال الغیب اور جن میرے پاس آتے اور راہ حق کی تعلیم پاتے ۔
اور فرماتے ہیں :
میں نے چالیس سال تک فجر کی نماز عشاء کے وضوء سے پڑھی ،
اور پندرہ سال تک یہ حال رہا کہ نماز عشاء کے بعد قرآن مجید اس طرح شروع کرتا کہ ایک پاؤں پر کھڑا ہوجاتا اور ایک ہاتھ سے دیوار کی میخ پکڑلیتا اور اسی حال میں ساری رات قرآن مجید پڑھتا حتی کہ صبح ہوجاتی اور قرآن ختم کرلیتا ۔
آگے شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی مجالس وعظ کے احوال لکھتے ہوئے شیخ عبدالحق فرماتے ہیں :
یہ بات تو بہت مشہور ہے کہ :
ان کی مجلس وعظ میں تمام انبیاء و اولیاء جو زندہ تھے اپنے جسموں کے ساتھ اور جو فوت ہو چکے تھے وہ اپنی روحوں کے ساتھ موجود ہوتے
اسی طرح آپ کی تربیت و تائید کیلئے حضور اکرم ﷺ بھی خود تجلی فرماتے ،
علی ھذا اکثر اوقات حضرت خضر علیہ السلام بھی آپ کی مجلس میں شب باشی کی نصیحت فرماتے ، اور فرماتے جو اپنی کامیابی چاھتا ہے اسے مجلس قادری میں ہمیشہ رہنا چاہیئے ۔
اور ایک روز تو کمال ہی ہوگیا ، شیخ رحمہ اللہ وعظ فرمارہے تھے کہ اچانک ہوا میں اڑنے لگے ، تھوڑا اڑنے کے بعد فرمایا : اے اسرائیلی !
ذرا ٹھہرو اور ایک محمدی کا وعظ سنو ،
جب واپس اپنی جگہ آئے تو لوگوں نے دریافت کیا کہ کیا معاملہ تھا ؟
فرمایا : ابوالعباس خضر ہماری مجلس کے اوپر سے تیزی کے ساتھ جارہے تھے تو میں ان کے پاس گیا اور کہا کہ ہماری مجلس سے اس تیزی کے ساتھ
نہ جائے بلکہ ہمارا کچھ وعظ سن کر جایئے ۔
(اخبارالاخیار صفحہ۴۳ )
گویا شیخ عبدالقادر رحمہ اللہ کو سیدنا موسی علیہ السلام پر بھی برتری دے دی ، کیونکہ جناب موسی کو جناب خضر سے ملاقات کیلئے کھانا پینا اور خادم
ساتھ لے کر بحری سفر کی لمبی تکلیف برداشت کرکے اور راستہ کا پتا اللہ تعالی سے پوچھ کے جانا پڑا ،
اور خضر کے یہاں پہنچ کر ان سے التماس کرنا پڑی ،
اور یہاں خضر علیہ السلام نہ صرف خود تشریف لاتے ہیں بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی بلا بلا کر شیخ کا مرید بنا رہے ۔سبحان اللہ
سب بآواز بلند نعرہ لگاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فلاں زندہ باد ،، فلاں مردہ باد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اخبار الاخیار کے ذیل کے اقتباس کو دیکھئے ، جس میں جناب عبدالقادر گیلانی ؒ
کو انبیاء کا ہم پلہ اور ہم مثل قرار دیا گیا ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں تک پہنچ کر ہمت جواب دے گئی ، فی الحال مزید نہیں لکھا جارہا ، اگر وقت ملا تو پیش کردوں گا۔
پہلے بھی ایک کتاب پر کام جاری ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔