علم حدیث کا معمولی طالب بھی جانتاہے کہ جن راویوں نے حدیث کی روایت کی ہے، وہ اگرغلط عقیدہ کے بھی پیرو ہیں تو بھی ان کے غلط عقیدہ کی وجہ سے روایت ترک نہیں کی جاتی،کتنے خارجی اورکتنے شیعی اور کتنے دیگر گمراہ فرقہ اورعقیدہ کے افراد کتب حدیث کی روایتوں میں موجود ہیں،
افسوس :
آپ نے تصوف کی اندھی عقیدت کے دفاع میںصوفیاء کی پیش کردہ مجہول حکایتوں کو اور محدثین کی مسانید کو برابر کردیا
دوسرے لفظوں میں بالاسناد احادیث بھی محض حکایات صوفی کی سطح کی چیز ہیں ، العیاذ باللہ
اگر شرابِ تصوف کا خمار کبھی کم ہو تو اس نکتہ پر غور فرمایئے گا کہ یہ جو آپ احادیث کی کتب و اسانید میں خارجی ، شیعہ وغیرہ بتانے کے قابل ہوئے تو کس بنیاد پر ؟
یہی نا کہ احادیث کی اسانید موجود و مدون ہیں ، اور اسماء الرجال کا منظم و مرتب علم میسر ہے ،
جس کے سبب ہم بھی آج صحیح و ضعیف کی پہچان اور صدق و کذب کی تفریق کرسکتے ہیں ،
اب دوسری طرف آپ ( اخبار الاخیار ) کو دیکھئے
جو گیارھویں صدی ہجری میں مرتب کی گئی اور اس میں پانچ ، چھ سو سال پہلے حالات و واقعات کو بغیر کسی سند اور کسی کتاب کا حوالہ دئے بغیر بالجزم بیان کردیئے گئے ،
ہر واقعہ کے شروع میں صرف یہ لکھ دیا کہ
( حکایت ہے ) جیسے ہمارے علاقے میں شیعہ ذاکرین
( آواز آئی ) کے الفاظ استعمال کرتے ہیں ، اور ایک گروہ والے
( بزرگ فرماتے ہیں ) کی گڑتی دیتے ہیں ،
مقصد سب کا ایک ہی ہوتا ہے کہ :
بیٹا ! اس بات کی تحقیق کیلئے نہ ہمارے پاس کوئی سلسلہ سند ہے ، نہ کوئی دوسرا اس کی حقیقت تک پہنچ سکتا ہے ،
آپ اس مجہول طریقہ حکایات کو مسانید محدثین کی مثل سمجھتے ہیں ، جرات ہے آپ کی !
یا پھر کبھی حدیث پڑھی ، سنی ہی نہیں ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دراصل پاک و ہند کے تقلیدی مکتب والوں کا یہ اکلوتا ہتھکنڈہ ہے جو وہ اکثر استعمال میں لاتے ہیں
کہ جب ان کے لٹریچر کی کوئی کمزوری اور خامی انہیں دکھائی جائے تو جواب میں بے دھڑک احادیث کے ذخیرہ پر ہاتھ صاف کرتے ہیں ، اور خاص کر صحیحین تو ہدف اول ہوتی ہیں ،
جیسے کسی عالم نے ھدایہ کی ضعیف احادیث پر کتاب شائع تو جواب میں ایک تقلیدی نے گالیوں کے سود سمیت احادیث صحیحین کو ہدف طعن بنا ڈالا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کے ہم مسلک نواب صدیق حسن خان کے صاحبزادے نواب نورالحسن خان صاحب کو شیخ عبدالقادرجیلانی سے خاص لگائو تھا اس لئے وہ دنیا جہان میں کہیں سے بھی شیخ عبدالقادرجیلانی کے تعلق سے کوئی بھی کتاب ہوتی
آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے ، نواب نورالحسن کا شمار اہل حدیث علماء میں نہیں ہوتا ،
ماحول کے اسیر ایک عامی کے احوال کسی کیلئے دلیل اور وجہ الزام نہیں بن سکتے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیگر سوانح نگاروں نے کیاکچھ لکھاہے اور شیخ عبدالقادرجیلانی کاتذکرہ کبھی فرصت ملے تو ذہبی کے سیراعلام النبلاء میں بھی پڑھی لیجئے
جی مطمئن رہیں پہلے بھی سیر اعلام پیش نظر رہتی ہے ، اور ان شاء اللہ آئندہ بھی پڑھ ’’ ہی ‘‘ لوں گا ۔
لیکن ہمیں سیر الاعلام میں شیخ ؒ کے متعلق اخبار الاخیار جیسی حکایات نظر نہیں آئیں ،
اور شیخ جیلانی رحمہ اللہ کے متعلق دیگر کتب بالخصوص انکی اپنی غنیہ کا اہتمام بھی ہے ،
اور سیر اعلام النبلاء ہی نہیں الحمد للہ علامہ ذھبی کی دیگر کتب پڑھنے کا اشتیاق بھی ہے
خاص کر ان کی کتاب
’’ العلوللعلی العظیم ‘‘ بڑی عقیدت سے پڑھتا ہوں
لیکن کچھ ’’ بزرگ ‘‘ امام الذہبی ؒ کی اس کتاب سے ناراض ناراض سے لگتے ہیں ؛
اور اس سے گریز کا اصرار فرماتے ہیں ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کی اس طویل تحریر میں ایک بھی ایسی معتبر بات ،حوالہ نہیں ہے جس سے ثابت ہو کہ اخبارالاخیار غیرمعتبر اورغیرمستند کتاب ہے،کسی کتاب کو مستند اورغیرمستند قراردینے میں محض اپنی ذاتی رائے کو کام میں نہ لائیں، تاریخ وسیر کے ماہرین سے بھی تھوڑی مدد لے لیاکریں،
آپ ہی تاریخ و سیر کے ان ماہرین کی نشاندہی فرمادیں ، تاکہ ( اخبار الاخیار ) پر اعتبار کیلئے ان سے مدد لی جاسکے ، لیکن براہ کرم ایسے ’’ ماہرین ‘‘ ہوں جو صرف ( مشہور ہے ) اور ( حکایت ہے ) کی گردان نہ کرتے ہوں ،
تاکہ ہم ان سے جناب خضرعلیہ السلام کی مجلس گیلانی میں حاضری اور اس کے اوپر پرواز کے متعلق ماہرانہ رائے معلوم کرسکیں ،