عید میلاد النبیﷺ کی شرعی حیثیت
ڈاکٹر فضل الرحمن المدنی
جامعہ محمدیہ منصورہ، مالیگاؤں
الحمد للہ کفیٰ وسلام علی عبادہ الذین اصطفیٰ ، امابعد!
ربیع الاول کا مہینہ وہ مہینہ ہے ،جس میں آقائے نامدار، تاجدار مدینہ ،احمد مجتبیٰ محمد مصطفی ﷺ کی ولادت با سعادت ہوئی،اس اعتبار سے یقیناً یہ مہینہ خوشی ومسرت کا مہینہ ہے لیکن اسی مہینہ میں آپﷺ کا انتقال بھی ہوا ،اس اعتبار سے یہ مہینہ ایک طرح سے غم کا مہینہ ہے ۔ اس واسطے ہمیں اپنی رائے اور مرضی سے کچھ کرنے کے بجائے کتاب وسنت اور عمل صحابہ کی روشنی میں دیکھنا چا ہئے کہ اس مہینہ میں جو بہت سے مسلمان عید میلاد النبی اور بارہ وفات مناتے ہیں ان کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اگر ان کا ثبوت کتاب وسنت سے ہو تو انہیں منا نا چا ہئے اور اگر کتاب وسنت وغیرہ ادلہ شرعیہ سے ان کا ثبوت نہ ہو تو بلا کسی تردد کے انھیں ترک کر دینا چا ہئے۔
اسلام ایک جامع اور مکمل دین ہے
اللہ جل شانہ نے انسانوں کی رہنمائی کے لئے بہت سے انبیاء ورسل کو مبعوث فرمایا اور سب سے آخر میں ان کی ہدایت ورہنمائی اور ان کو ایک جامع اور مکمل نظام حیات عطا کر نے کے لئے سید المرسلین وخاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کو مبعوث فرمایا، جنہوں نے تیئس سال کی مدت میں اللہ کے پیغام کو مکمل طور سے ہم تک پہونچا دیا اور اِنس وجن کے لئے جتنی بھی مفید اور بہتر چیزیں تھیں اور جن جن چیزوں میں ان کی مصلحت اور بھلائی تھی اور دنیا و آخرت میں ان کا فائدہ تھا۔ان تمام چیزوں کو کھول کھول کر بیان کر دیا۔اور جن جن چیزوں میں ان کا نقصان تھا اور دنیا یا دین میں ان کے لئے جو چیزیں مضر تھیں ان سب سے لو گوں کو متنبہ کر دیا۔کیونکہ اللہ جل شانہ کی جانب سے تمام انبیاء کو اس کی ذمہ داری سونپی گئی تھی ، جیسا کہ رسو ل اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
”إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَبِىٌّ قَبْلِى إِلاَّ كَانَ حَقًّا عَلَيْهِ أَنْ يَدُلَّ أُمَّتَهُ عَلَى خَيْرِ مَا يَعْلَمُهُ لَهُمْ وَيُنْذِرَهُمْ شَرَّ مَا يَعْلَمُهُ لَهُمْ “ (انظر صحیح مسلم:3/1473 ]١٨٤٤[) وسنن ابن ماجہ :2/1306 (٣٩٥٦) مجھ سے پہلے جتنے بھی انبیاء آئے ان پر واجب تھا کہ اپنی امت کی رہنمائی ہر اس چیز کی جانب کریں جس کے بارے میں انھیں معلوم ہو کہ اس میں ان کے لئے خیر اور بھلائی ہے۔اور انھیں ہر اس چیز سے ڈرائیں جس کے بارے میں انھیں معلوم ہو کہ اس میں ان کے لئے برائی اور نقصان ہے۔
ٌ اور طبرانی میں بسند صحیح مروی ہے کہ رسو ل اللہﷺ نے فر ما یا:
”مَا تَرَكْتُ شَيْئًا مِمَّا أَمَرَكُمُ اللَّهُ بِهِ إِلاَّ وَقَدْ أَمَرْتُكُمْ بِهِ وَلاَ تَرَكْتُ شَيْئًا مِمَّا نَهَاكُمُ اللَّهُ عَنْهُ إِلاَّ وَقَدْ نَهَيْتُكُمْ عَنْهُ“(السنن الكبرى للبيہقي :7/ 76، السلسلۃ الصحيحۃ :4/ 302)جتنے بھی امور اللہ کی رضا وقربت کا ذریعہ تھے وہ سب میں نے تمہیں بتا دئیے ہیں اور جتنے بھی امور اللہ سے دوری اور اس کی نا راضگی کا ذریعہ تھے ان سب سے ہم نے تمہیں روک دیا ہے۔(ضعیف وموضوع روایات: ص ٩)
اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺنے اپنی امت کو عبادات ،معاملات ،عقائد اور اخلاق وعادات وغیرہ تمام امور کے متعلق اللہ کے احکام کو تفصیل کے ساتھ بتا دیا۔
اور یہ ایک نا قابل انکار حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تعلیم و تبلیغ کی جو ذمہ داری آپﷺپر ڈالی تھی اس کو آپ نے مکمل طور سے ادا فر ما یا اور چھوٹی بڑی تمام مفید چیزوں کے بارے میں امت کو بتایاحتی کہ غیر مسلم حضرات صحابہ کرام ؓ سے کہا کر تے تھے :
”قَدْ عَلَّمَكُمْ نَبِيُّكُمْ كُلَّ شَىْءٍ حَتَّى الْخِرَاءَةَ “تمہارے نبی نے تو تمہیں ہر چیز کی تعلیم دی ہے حتی کہ قضائے حاجت کا طریقہ بھی بتا دیا ہے،
حضرت سلمان فارسیؓ سے کسی نے یہی بات کہی تو انھوں نے فر مایا:
”أَجَلْ لَقَدْ نَهَانَا أَنْ نَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةَ لِغَائِطٍ أَوْ بَوْلٍ أَوْ أَنْ نَسْتَنْجِىَ بِالْيَمِينِ أَوْ أَنْ نَسْتَنْجِىَ بِأَقَلَّ مِنْ ثَلاَثَةِ أَحْجَارٍ أَوْ أَنْ نَسْتَنْجِىَ بِرَجِيعٍ أَوْ بِعَظْمٍ“
ہاں ہمارے رسول اللہ(ﷺ )نے ہم کو سب چیزوں کی تعلیم دی ہے اور قضائے حاجت کے آداب کے سلسلہ میں بھی ہمیں بتایا ہے،آپ نے ہمیں پیشاب وپاخانہ کرتے وقت قبلہ کی طرف رخ کر نے سے منع فرمایا ،اور ہمیں حکم دیا کہ داہنے ہاتھ سے استنجا نہ کریں،اور تین پتھر سے کم سے استنجا نہ کریں ،اور جانوروں کی مینگنی اورہڈی سے استنجا نہ کریں ۔(رواہ مسلم واصحاب السنن الاربعۃ ، انظر صحیح مسلم: 1/223 ]٢٦٢[ وسنن ابی داؤد:1/17 ] ٧[)وسنن الترمذی:1/24 ] ١٦ [وسنن النسائی:1/8 ] ٤١[ وابن ماجہ:1/115 ] ٣١٦ [)
بہر حال اللہ تعالیٰ نے اس امت کو ایک ایسا جامع اور مکمل دین عطا فرمایا جس میں کوئی نقص نہیں ،جیسا کہ ارشاد باری ہے:﴿
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ﴾ (المآئدة:٣)
ترجمہ : آج ہم نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کر دیا ہے اور تم پر اپنی نعمتیں تمام کر دی ہیں اور تمہارے لئے اسلام کو بطوردین پسند کر لیا ہے۔
رسول اللہ ﷺنے مکمل دین امت تک پہنچا دیا
رسول اللہ ﷺنے اپنی امت کی خیر خواہی اور دین کی تبلیغ میں کوئی کوتاہی نہیں کی،بلکہ پوری دیانت داری سے اس فریضہ کو ادافرمایا، حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے جو عظیم الشان خطبہ ارشاد فرمایا اس میں آپ نے لوگوں سے تین مرتبہ پوچھا:” أَلاَ هَلْ بَلَّغْتُ، أَلاَ هَلْ بَلَّغْتُ ، أَلاَ هَلْ بَلَّغْتُ “اے لوگو بتاؤ کیا میں نے اللہ کے دین کو تم تک پہونچا دیاہے؟لوگو! کیا میں نے تبلیغ ورسالت کے حق کو ادا کر دیا ہے؟لوگو!کیا میں نے اپنی ذمہ داری ادا کردی ہے؟لوگوں نے کہا’’نَعَمْ‘‘ ہاں،تو آپ نے اللہ کو گواہ بناتے ہوئے فرمایا:”اللَّهُمَّ اشْهَدْ ثَلاَثًا“اے اللہ تو گواہ رہ،اے اللہ تو گواہ رہ،اے اللہ تو گواہ رہ ۔ (انظر صحیح البخاری : 5/223سنن ابن ماجہ:2/1015 ] ٣٠٥٥ [)
کتاب وسنت سے عید میلاد کا ثبوت نہیں
اب جب کہ آپ نے جان لیا کہ رسول اللہ ﷺ کی دنیا سے رحلت سے پہلے یہ دین مکمل ہو چکا ہے اور اس میں کوئی کمی نہیں رہ گئی اور رسول اللہﷺ نے بھی اس دین کو امت تک پوری امانتداری سے پہونچا دیا اور صحابہ کرام اور اللہ تعالیٰ کو اس پر گواہ بھی بنالیا ہے،تو آئیے دیکھیں کہ اس مہینے میں بعض لوگ جو عید میلاد النبی منانے کا اہتمام کر تے ہیں اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
آپ قرآن کریم کا از ابتداء تا انتہاء بغور مطالعہ کر جائیے، آپ کو کسی آیت میں عید میلاد النبی کا تذکرہ اور ثبوت نہیں ملے گا،رسول اللہ ﷺ کی تیئیس سالہ زندگی کی سیرت مبارکہ اور آپ کے اقوال،اعمال اور تقریرات کا جائزہ لے لیجئے،آپ تفسیر ،حدیث اور سیرت کی کسی معتبر کتاب میں صحیح سند سے یہ نہیں پا سکتے کہ رسول اللہ ﷺنے اپنے زندگی میں اپنی ولادت کی مناسبت سے ربیع الاول میں کبھی کوئی عید یا جشن منایا ہے،یا اپنے جاں نثار صحابہ کرام کو اس کا حکم دیا یا ترغیب دی ہے۔
اگر عید میلاد النبی کی کوئی شرعی حیثیت ہو تی،اس کی کوئی فضیلت ہو تی،اس کا کوئی اجرو ثواب ہو تا تو جیسے اللہ اور اس کے رسول ﷺنے رمضان المبارک اور شب قدر کے فضائل کو بیان فرمایا ویسے ربیع الاول کے فضائل بھی بیان فرماتے۔
جیسے آپ ﷺنے رمضان المبارک میں نماز تراویح،تلاوت قرآن کریم،شب بیداری وغیرہ عبادات کا اہتمام فرمایا اسی طرح ربیع الاول میں عید میلاد النبی کا اہتمام فرماتے۔
جیسے آپ نے ذی الحجہ، محرم اور شعبان کے فضائل کو بیان کیا اور ان مہینوں کے خصوصی ایام اور ان کی فضیلت والی عبادتوں کی جانب امت کی توجہ دلائی،اس مہینہ کی فضیلتوں کو بھی آپ بیان فرماتے۔
اگر اس ماہ میں عید میلاد النبی منانے،اس کا جلوس نکالنے اور چراغاں کر نے میں کوئی اجرو ثواب ہوتا، ان کی کوئی اہمیت ہوتی تو آپ ضرور بیان فرماتے۔لیکن جب نبیﷺ سے ان چیزوں کا ثبوت نہیں تو اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ شریعت اسلامیہ میں ان کی کوئی اہمیت نہیں اور جو لوگ ان کو شرعی امور اور اجر و ثواب کا کام بتاتے ہیں گویا کہ وہ زبان حال سے کہتے ہیں کہ دین اسلام ناقص تھا اس کو ہم مکمل کررہے ہیں اور رسول اللہﷺ نے بہت سے اجروثواب کے کام کو امت کو نہیں بتایا،اب ہم بتا رہے ہیں،حالانکہ ایسا سوچنا بھی ایمان واسلام کے منافی ہے۔اور اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے: ﴿وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا﴾(الحشر :7) جو رسول نے تم کو دیا ہے اس کو لے لو اور جس سے انھوں نے منع فرمایا ہے اس سے باز آجاؤ۔
آپ جانتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے عید میلاد نہیں منائی اور نہ صحابہ کرام کو اس کی ترغیب دی، نہ کسی کو اس کا حکم دیا۔اس لئے یہ آپ کا عطا کر دہ نہیں۔لہذا جو لوگ اس کا اہتمام کرتے ہیں وہ رسول اللہﷺ کے طریقے کوچھوڑ کر ایک نئی چیز کو دین میں داخل کرتے ہیں ۔ حالانکہ کتاب وسنت میں اس کی سخت ممانعت ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾(النور:63)
جو لوگ رسول اللہﷺ کے فرمان اور حکم کی مخالفت کر تے ہیں انھیں ڈرنا چاہئے،وہ کسی فتنہ اور آزمائش میں مبتلا کر دئے جائیں گے یا انھیں درد ناک عذاب لاحق ہو گا ۔
ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا﴾(الاحزاب :21)
ا لبتہ تمہارے لئے رسول اللہﷺ کی حیات مبارکہ میں بہترین اسوہ اور نمونہ ہے، اس کیلئے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتا ہے اور اللہ کا بکثر ت ذکر کرتا ہے۔
دین میں نئی چیز داخل کرنا ممنوع
رسول اللہﷺنے فرمایا:”مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ“ (انظرصحیح البخاری:5/301 ] ٢٦٩٧ [،وصحیح مسلم:3/1343 ] ١٧١٨ [ ،ومسند احمد:6/270) جس نے ہمارے اس دین میں کسی نئی چیز کو ایجاد کیا،جو اس میں سے نہیں ہے تو اس کی یہ نئی ایجاد کردہ چیز مردود اور ناقبل قبول ہے۔
ایک د وسری حدیث میں آپ نے فرمایا:”فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِى وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ“ (سنن أبی داود : 5/ 14-15]4607[ ,سنن الترمذ ی : 5/ 44] ٢٦٧٦ [ وقال: حديث حسن صحيح، وسنن ابن ماجہ:1/16 ] ٤٢[)
تم میری سنت اور طریقے کو لازم پکڑو اور میرے بعد میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کے طریقے کو لازم پکڑو،اس کو اچھی طرح تھام لو،اور دانتوں سے دبا کر خوب مضبوطی سے پکڑے رہو،اور دین میں نئی پیدا کردہ چیزوں سے دور رہو، اسواسطے کہ دین میں ہر نئی ایجاد کردہ چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
بدعات ومحدثات کی قباحتیں،برائیاں اور گناہ اس قدر ہیں اور یہ انسان کے دین و ایمان کے لئے اس قدر نقصان دہ ہیں کہ رسول اللہﷺعموماً اپنے ہر خطبہ میں ان کے بیان کر نے کا اہتمام فرماتے تھے اور ہمیشہ اپنے خطبۂ مبارکہ میں فرماتے: ”أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ وَخَيْرُ الْهُدَى هُدَى مُحَمَّدٍ وَشَرُّ الأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ “الحدیث (صحيح مسلم:2/592]867[، ابن ماجہ :1/17 ]45[)
بیشک سب سے بہترین بات اللہ کی کتاب ہے اور سب سے بہترین طریقہ حضرت محمد(ﷺ) کا طریقہ ہے اور تمام امور میں سب سے بُری وہ چیز یں ہیں جو دین میں نئی نکالی گئی ہوں اور دین میں نکالی گئی ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی نار جہنم میں لے جانے والی ہے۔
صحابہ کرام نے عید میلاد النبی نہیں منائی ، کیوں؟
صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین جنہیں رسول اللہﷺ کے فر امین وارشادات کا سب سے زیادہ علم تھا اور جو آپﷺ سے سب سے زیادہ محبت کر نے والے اور شریعت اسلامیہ کی سب سے زیادہ پابندی کر نے والے تھے۔انھوں نے کبھی بھی عید میلاد النبیﷺ کا اہتمام نہیں کیا،نہ کبھی عید میلاد النبی کا جلوس نکالا،نہ بارہ ربیع الاول کو چراغاں کیا اور نہ کوئی جشن منایا، کیوں؟کیا ان کے دور میں ربیع الاول کا مہینہ نہیں آیا؟یا آپ کی ولادت کی تاریخ نہیں آئی؟یا ان کو آج کے عید میلاد النبیﷺ منانے والوں کی طرح رسول اللہﷺ سے عقیدت ومحبت نہیں تھی؟یا بخیلی اور دنیاوی کا موں میں مشغولیت کی وجہ سے انھوں نے یہ جشن نہیں منا یا؟حاشا وکلا، ایسا ہرگز نہیں تھا۔صحابہ کرام سے زیادہ آپﷺ سے محبت کر نے والا کو ئی نہیں ،انھوں نے تو آپ سے اپنی جان ،اپنے والدین اور اہل وعیال سے بھی زیادہ محبت کی ، فرمان نبوی: ’’ لاَ يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ‘‘(انظر صحیح البخاری :۱؍۵۸ ]۱۵ [ ،صحیح مسلم:۱ ؍۷ ۶]۷۰[)تم میں سے کوئی اس وقت تک مو من نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والد اور اولاد اور سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ ہمیشہ ان کے مدنظر رہا۔
حضرت علی اپنی جان کی پرواہ نہ کر تے ہوئے شب ہجرت آپ کے بسترپر سوئے۔حضرت ابو بکر نے سفر ہجرت میں جس طرح آپ کا ساتھ دیا اور غار ثور میں آپ کے عیش وآرام کا انتظام کیا،غزوۂ احد وغیرہ میں صحابہ کرام نے جس طرح آپ پراپنی فدائیت کا مظاہرہ کیا ، اورصلح حدیبیہ کے مو قع پر آپ سے ان کی محبت واطاعت اور قر بانی وفدائیت کے جو عجیب مناظر دیکھنے میں آئے، جس کا آپ کے مخالفین اہل مکہ نے بھی اعتراف کیا وہ سب تاریخ وسیرت کی کتا بوں میں محفوظ ہیں۔اسی طرح حضرت ابوبکر،حضرت عثمان اور دیگر ذی ثروت صحابہ کرام نے مالی قربانی کے جو نمونے پیش کئے ہیں وہ بھی تاریخ کے صفحات میں زریں حروف سے لکھے ہوئے ہیں ۔
یہاں سوال پیدا ہو تا ہے کہ آپ کے ان فدا کار وجاں نثار صحابہ کرام نے آپ کا جشن ولادت (عید میلاد النبیﷺ)کیوں نہیں منا یا ؟ حالانکہ حضرت ابو بکروعمر آپ کے خسر تھے، حضرت عثمان اور حضرت علی آپ کے داماد تھے ۔حضرت فاطمہ آپ کی صاحبزادی تھیں، حضرت عائشہ اور حفصہ وغیرہ آپ کی ازدواج مطہرات تھیں۔حضرت حسن اور حسین آپ کے نواسے تھے۔
کیا ان میں سے کسی کو بھی آپﷺ سے ویسی محبت نہیں تھی جیسی محبت آج عید میلاد النبیﷺ منانے والوں کو ہے؟یا یہ کہ انھوں نے اس کو بد عت اور غیر شرعی امر سمجھ کر اس سے احتراز کیا اور چونکہ رسول اللہﷺ نے نہ کبھی اپنی ولادت کا جشن منایا تھا،نہ کسی کو اس کی تر غیب دی تھی،نہ اس کی جانب کوئی اشارہ کیا تھا اس واسطے ﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ﴾(الاحزاب :21) پر عمل کر تے ہوئے انھوں نے اس طرح کے جشن کا اہتمام نہیں کیا۔یقینا آخری بات ہی درست ہے،اس واسطے جب عہد نبوی،عہد خلفاء راشدین، عہد صحابہ وتابعین اور عہد ائمہ اربعہ میں اس کاوجودنہیں تھا اور خیر القرون کے مسلمانوں اور ہمارے اسلاف کرام نے اسے کبھی نہیں منایا تو یقیناً یہ بدعت ہے۔ اس سے تمام مسلمانوں کو اجتناب کرنا چاہئے۔
آج جو لوگ بارہ ربیع الاول کو جشن میلاد النبیﷺ منانے اور اس رات کو خوب چراغاں کرنے اور جلوس نکالنے وغیرہ کی مسلمانوں کو ترغیب دیتے ہیں اور اخبارات واشتہارات اور دیگر وسائل اعلام کے ذریعہ اس کا اعلان کر تے ہیں،انھیں یہ ثابت کر نا چاہئے کہ سرکار دو عالمﷺ نے بھی اس کا اسی طرح اعلان کیا اور مسلمانوں کو اس کی ترغیب دی ہے۔اور آپﷺ نے اور آپ کے صحابہ کرام نے یہ جشن منایا ہے۔
عید میلاد کی ایجاد فاطمیوں نے کی
یقین جانئے کہ اس کا ثبوت رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام سے ہر گز ہر گز پیش نہیں کیا جاسکتا،کیونکہ اسے سب سے پہلے فاطمیوں نے ایجاد کیا جو شیعہ تھے اور اپنے عقیدے کی بگاڑ اور اہل سنت والجماعت کی مخالفت میں مشہورومعروف تھے۔بعض لوگوں نے کہا کہ اس کا موجدملا عمر بن محمد ہے اور اس کی ابتداء تکمیل دین کی کئی صدیوں کے بعد ٦٠٤ ھ میں ہوئی، اس کے بعد اس کی ترویج عراق کے شہر اربل کے ایک عیاش، اور فضول خرچ حاکم ابو سعید علی بن سبکتگین کے ذریعہ ہوئی جو مظفر الدین کے نام سے مشہور تھا۔
بہر حال اس کی ایجاد خیرالقرون کے بہت بعد ہوئی اور اس کی کوئی فضیلت کتاب وسنت میں وارد نہیں ہے،اور نہ اس میں کوئی اجروثواب ہی ہے۔
عید میلاد کے نقصانات
صرف یہی نہیں کہ عید میلاد النبی کا کوئی ثبوت اور فا ئدہ نہیں اوراس کی فضیلت اور اجر وثواب میں کوئی نص شرعی نہیں،بلکہ اس کے بہت سے دینی ودنیاوی نقصانات ہیں ۔جن میں سے چند یہ ہیں:
(١) بدعت کا ارتکاب :اس کو کرنے والے ایک بدعت کا ارتکاب کرتے ہیں اور بدعت کے بارے میں رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ ‘‘ (انظر صحیح مسلم:۲؍ ۵۹۲ ] ۸۶۷[،ابن ماجہ:١٧١ ]٤٥ [)
ہر بدعت ،ضلالت وگمراہی ہے اورہر ضلالت نار جہنم میں داخل کر نے والی ہے۔
اسی واسطے علامہ احمد بصری اپنی کتاب ”قول معتمد“میں فرماتے ہیں:” قد اتفق علماء المذاهب الاربعة علی ذم العمل به“چاروں مذاہب کے علماء عمل میلاد کی مذمت پر متفق ہیں۔
(٢) عیسائیوں کی مشابہت :یہ لوگ عیسائیوں کی مشابہت اختیار کرنے والے ہیں،کیونکہ جس طرح عیسائی حضرت عیسیٰ کی ولادت کی تاریخ کو کرسمس ڈے مناتے ہیں اسی طرح یہ لوگ رسول اللہﷺ کی تاریخ ولادت کو عید میلاد النبیﷺ مناتے ہیں،حالانکہ رسول اللہﷺ نے یہودونصاریٰ اورمشرکین واعاجم کی مشابہت اختیار کر نے سے روکتے ہوئے فرمایا: ’’ مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ ‘‘ (انظر مسند احمد:۲؍۵۰، سنن ابی داود:۴؍۳۱۴ ]۱ ۴۳[)
جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہیں میں سے ہے۔
اوراللہ تعالیٰ فرماتا ہے:﴿ وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا﴾ (النساء:١١٥)
اور جو ہدایت کے واضح ہو جانے کے بعد رسول اللہﷺ کا خلاف کرے گا اور غیر مومنوں کا طریقہ اختیار کرے گا ہم اس کو اسی راہ پر جانے دیں گے جس کو اسلام سے اعراض کر کے اس نے اختیار کیا ہے اور پھر اس کو جہنم میں داخل کردیں گے جو بہت بُرا ٹھکانہ ہے۔
(٣) رسول اللہﷺ کی شان میں مبالغہ آرائی: عید میلاد النبی کی مجلسوں میں عموماً رسول اللہﷺ کی شان میں مبالغہ آرائی کی جاتی ہے اور آپ کو ایسے اوصاف سے متصف کیا جاتا ہے جن کا کوئی ثبوت نہیں ۔بلکہ ان میں بہت سی شرکیہ اور کفریہ باتیں کہی جاتیں ہیں اور نبوت ورسالت کے مرتبہ سے اٹھا کر آپﷺ کو الوہیت وربوبیت کے مقام پر فائز کیا جاتا ہے اور آپ سے مختلف چیزوں کے لئے درخواست اور دعاء کی جاتی ہے،حالانکہ رسول اللہﷺ نے اس سے بڑی سختی سے منع کرتے ہوئے فرمایا ہے: لاَ تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ فَقُولُوا عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُه ‘‘ (انظرصحیح البخاری: ۶؍۴۷۸ ] ۳۴۴۵[)، ومسنداحمد :۱؍۲۳-۲۴، وسنن الدارمی:۲؍۳۲۰)
جیسے نصاریٰ نے عیسٰی بن مریم کے بارے میں مبالغہ آرائی کی اور ان کا درجہ حد سے زیادہ بڑھایا اس طرح تم لوگ میرا مرتبہ حد سے زیادہ نہ بڑھانا،میرے بارے میں مبالغہ آرائی نہ کرنا،میں اللہ کا ایک بندہ ہوں،اس واسطے مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہی کہنا۔اسی کو علامہ حالی اپنے الفاظ میں یوں کہا ہے
تم اوروں کے مانند دھوکا نہ کھانا کسی کو خدا کا نہ بیٹا بنانا
مری حد سے رتبہ نہ میرا بڑھانا بڑھا کر بہت تم نہ مجھ کوگھٹانا
سب انسان ہیں جس طرح واں سر فگندہ اسی طرح ہوں میں بھی اک اس کا بندہ
ایک دوسری حدیث میں آپ نے فرمایا:”إِيَّاكُمْ وَالْغُلُوَّ فِي الدِّينِ ، فَإِنَّمَا أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمُ الْغُلُوُّ فِي الدِّينِ‘‘(انظر مسند احمد:۱؍۲۱۵،۳۴۷، النسائی:۲؍۴۲ ] ۳۰۵۹[،ابن ماجہ:۲؍۱۰۰۸ ] ۳۰۲۹[)
تم لوگ دین میں غلو کرنے سے اجتناب کرنا، اس واسطے کہ تم سے پہلی امتوں کو غلو فی الدین نے ہی ہلاک کیا۔
مگر افسوس کہ مسلمانوں نے آپ کے اس حکم کو پس پشت ڈالدیا اور یہو دونصاریٰ کے طریقے پر چلتے ہوئے غلو فی الدین کے مرتکب ہوئے اور رسول اللہﷺ کی شان میں مبالغہ آرائی اور حد سے تجاوز کرنے لگے۔ اس طرح اپنی ہلاکت وبربادی کا سامان خود تیار کرنے لگے ۔