محمد فیض الابرار
سینئر رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2012
- پیغامات
- 3,039
- ری ایکشن اسکور
- 1,234
- پوائنٹ
- 402
یعنی حب علی نہیں بغض معاویہ کا فارمولا نظر آ رہا ہے
وعلیکم السلامالسلام علیکم -
سعودی علماء ابن عباس رضی الله عنہ کے قول کی بنیاد پر کعبہ کے دروازے اور حجر اسود کی درمیانی جگہ کو ملتزم کہتے ہیں - لیکن فتوے میں دی گئی اس سے متعلق روایات ضعیف ہیں -کہ نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم نے صرف ملتزم کو چوما اور اپنا سینہ مبارک وہاں سے مس کیا وغیرہ -بہر حال یہ ایک اجتہادی مسلہ ہے -صحابہ میں بھی اس معمالے میں اختلاف ہوا تھا -کہ نبی کریم صل الله علیہ وسلم نے پورے کعبہ کو التزام کیا یا صرف حجر اسود اور باب کعبہ کی درمیانی جگہ کو التزام کیا -
معاویہ بن ابی سفیان رضی الله عنہ کا عمل اجتہادی تھا - (واللہ ا علم)
معذرت کے ساتھ، مگر آپ لوگوں کو اس کا احساس تک نہیں ہے کہ آپ نے شریعت میں دہرے معیار جاری کر رکھے ہیں۔السلام علیکم -
معاویہ بن ابی سفیان رضی الله عنہ کا عمل اجتہادی تھا - (واللہ ا علم)
اس طویل مراسلے میں آپ انہیں باتوں کی تکرار کر رہے ہیں کہ جنکا جواب میں اس تھریڈ کئی بار تفصیل سے دے چکی ہوں (مثلاً اس مراسلے میں حجر اسود کے متعلق آپکے اٹھائے گئے نکات کا پہلے ہی جواب دیا جا چکا ہے اور ساتھ میں مزید کئ احادیث کو بطور ثبوت مزید پیش کیا گیا جنکا جواب ہنوز آپ لوگوں کے سر پر باقی تھا اور ابھی تک ویسے کا ویسا ہی باقی ہے)۔میرے مضمون ::: برکت اور تبرک ::: سے ایک اقتباس پیش خدمت ہے :
::::::: ناجائز تبرک ::::::ایسے مقامات جہاں حرام و نا جائز کام ہوتے ہوں ، وہاں برکت نہیں ہوتی ، خواہ وہ کام اِسلام کے نام پر کیے جاتے ہوں ، یا ، بزرگوں اور نیک لوگوں سے عقیدت کے نام پر کیے جاتے ہوں ،
جیسا کہ عموماً کچھ واقعتا نیکو کار إِیمان والوں، اور اکثر نام نہاد نیک اور ولی نُما لوگوں کی قبروں اور مزاروں پر کیے جاتے ہیں ، اور لوگ اُن قبروں اور مزاروں کو متبرک سمجھتے ہیں اور اُن قبروں میں دفن کیے گئے مُردوں سے برکت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ،
اللہ تبارک و تعالیٰ اور اُس کے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے خبر کے بغیر کسی شخصیت ، کسی مُقام ، کسی چیز کے بارے میں یہ خیال رکھنا کہ وہ برکت والی ہے ، بالکل غلط اور ناجائز ہے ،
اگر کسی شخصیت ، مُقام یا چیز میں سے اللہ کے دِین اورمُسلمانوں کو دینی اوردُنیاوی فائدہ ملتا ہو ، جیسا کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والا کوئی مُسلمان ،ذاتی آراء اور فلسفے اور علم الکلام وغیرہ کا بِگار لگائے بغیر دِین کی تعلیم دینے والا کوئی عالم ، اللہ کی راہ میں اپنی جان ، مال ، عِلم ، وقت کے ذریعے جِہاد کرنے والا کوئی مجاھد ، وغیرہ ،
تو ایسے لوگوں کو با برکت سمجھنا دُرُست ہے ، اور اُن سے تبرک حاصل کرنے کا طریقہ اُس خیر کو حاصل کرنے کی کوشش ہے جو خیر اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ اُن کے ذریعے اپنے بندوں تک پہنچاتا ہے ، نہ کہ اُن لوگوں کے جسموں اور اُن سے متعلق چیزوں کو چھونے ، چُومنے چاٹنے یا اپنے ساتھ لگانے لپٹانے وغیرہ سے وہ برکت حاصل کی جا سکتی ہے ، یہ سب کام ناجائز ہیں ، ایسا کرنے کی کوئی دلیل ہمیں اللہ کی کتاب کریم اور اُس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت شریفہ میں نہیں ملتی ،
یہاں ایک بات پھر دہراتا چلوں کہ نبیوں اور رُسولوں علیھم السلام کا معاملہ باقی تمام تر اِنسانوں سے الگ تھا ، کہ نبیوں اور رُسولوں علیھم السلام کی ذاتوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے مستقل برکت عطاء فرمائی گئی تھی ، جو کہ اُن کے عِلاوہ کسی اور کو عطاء نہیں ہوئی ، لہذا انبیا ء اور رُسل علیھم السلام کے مبارک وطاہر اجسام سے برکت حاصل کرنے کو کسی غیر نبی ، اور غیر رسول کے اجسام یا اُن سے متعلق چیزوں سے برکت حاصل کرنے کی دلیل بنانا قطعاً غلط ہے بلکہ حماقت ہے ۔
مختلف چیزوں اور مقامات کو بذات خود مستقل طور پر با برکت ، متبرک سمجھنے کے بارے میں کئ فلسفے ملتے ہیں ، اُن میں سے ایک حجر اسود کے بارے میں بھی ہے ، جن کے بارے میں مجھے چند روز پہلے خبر ملی ، میں نے اُن کا مطالعہ کیا ،
حجر اسود کے بارے میں کافی عرصہ پہلے کچھ باتیں میں نے اپنی کتاب""" عُمرہ اور حج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے طریقے پر """ میں لکھی تھیں ، چند روز پہلے ملی پڑھی ہوئی معلومات کی وجہ سے میری بیان کردہ سابقہ معلومات میں کچھ اضافے ساتھ انہیں یہاں لکھ رہا ہوں ، کیونکہ یہ براہ راست اِس مضمون کے موضوع سے متعلق ہیں، بغور مطالعہ فرمایے :::
کچھ لوگ ، اپنے غلط عقائد ، جن کی کوئی صحیح دلیل انہیں نہ تو اللہ کی کتاب کریم قران حکیم سے میسر ہے ، اور نہ ہی اللہ کے خلیل ، اللہ کے آخری رسول ، اللہ کی طرف سے آخری معصوم ، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ تعلیمات سے ، اور نہ رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے ،
جی ، تو کچھ لوگ جو اِسلام سے منسوب بھی ہیں ، اپنے غلط عقائد کو دُرست دِکھانے کے لیے غلط حرکات کرتے رہتے ہیں ، چند روز پہلے ایک بھتیجے نے ایسی ہی حرکات میں سے ایک حرکت کے بارے میں بتایا ،
جِس کے ذریعے کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دُوسرے بلا فصل خلیفہ اور ہمارے یعنی مؤمنین کے دُوسرے بلا فصل أمیر عُمر الفاروق رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ کے، حَجر اسود کے بارے میں فرمائے گئے ایک فرمان مُبارک کو ، رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے چوتھے بلا فصل خلیفہ اور ہمارے یعنی مؤمنین کےچوتھے بلا فصل أمیر علی رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ سے منسوب ایک قول کے مُطابق غلط دِکھانے کی کوشش کی ،
پہلے تو حِجر اسود کے بارے میں کچھ معلومات ذِکر کرتا ہوں ، جو اِن شاء اللہ فائدہ مند ہوں گی ، اور ہم مؤمنین اہل سُنّت و الجماعت کے عقائد کو واضح کرنے والی ہیں ، یہ معلومات تقریبا ً دس سال پہلے میں نے """ عُمرہ اور حج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے طریقے پر """ میں درج کی تھیں ، و للہ الحمد ،
""""" ::::::: حجرءِأسود کی ، اور اُس کو چُھونے کی بڑی فضیلت ہے ،
جیسا کہ حَجر اسود، اور رُکن الیمانی کے بارے میں ہمارے محبوب ،خلیل اللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے یہ بھی اِرشاد فرمایا
(((((إِنَّ مَسْحَهُمَا يَحُطَّانِ الْخَطِيئَةَ :::اِن دونوں کو چُھونا ،(اللہ کی مشیئت اور حکم سے) خطاؤں کو مٹاتا ہے))))) سُنن النسائی/ حدیث /2932کتاب مناسک الحج/باب134،إمام اللابانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا،
اور حِجر اسود کے بارے میں یہ بھی اِرشاد فرمایا ہے کہ(((((نَزَلَ الْحَجَرُ الأَسْوَدُ مِنَ الْجَنَّةِ وَهُوَ أَشَدُّ بَيَاضًا مِنَ اللَّبَنِ فَسَوَّدَتْهُ خَطَايَا بَنِى آدَمَ ::: کالا پتھر (حَجر اسود) جنّت سے اترا تو ہوہو دُودھ سے زیادہ سُفید تھا ، لیکن اُسے آدم کی اولاد کی غلطیوں نے کالا کر دِیا)))))سُنن الترمذی/ حدیث 959 ،/886کتاب الحج/باب49 مَا جَاءَ فِى فَضْلِ الْحَجَرِ الأَسْوَدِ وَالرُّكْنِ وَالْمَقَامِ،إمام اللابانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا،
صحیح ابن خزیمہ /حدیث /2733کتاب المناسک/باب182 کی روایت میں """دودُھ کی جگہ، برف ذِکر ہے"""، اِس روایت کو ڈاکٹر شیخ محمد مصطفیٰ الاعظمی نے حَسن قرار دِیا ہے ،
اور حَجر اسود کے بارے میں یہ خبر بھی عنایت فرمائی ہے کہ (((((وَاللَّهِ لَيَبْعَثَنَّهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَهُ عَيْنَانِ يُبْصِرُ بِهِمَا وَلِسَانٌ يَنْطِقُ بِهِ يَشْهَدُ عَلَى مَنِ اسْتَلَمَهُ بِحَقٍّ :::اللہ کی قسم ، یقینا ً اللہ قیامت والے دِن اُسے (یعنی حَجرِ اسود)کو (اِس طرح)لائے گا کہ اُس کی دو آنکھیں ہوں گی جِس سے وہ دیکھے گا ، اور بولنے والے ز ُبان ہو گی (اور)وہ ہر اُس شخص کے بارے میں گواہی دے گا جِس نے حق کے ساتھ اُسے چُھویا ہوگا)))))سُنن الترمذی/ حدیث 959 ،/877کتاب الحج/باب113 مَا جَاءَ فِى الْحَجَرِ الأَسْوَد،إمام اللابانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا،صحیح ابن خزیمہ/حدیث 2733،/2736کتاب المناسک/باب184،185،إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے کہا پہلی روایت صحیح لغیرہ ، اور دوسری صحیح ، مُستدرک الحاکم /حدیث/1680اول کتاب المناسک،مُسنداحمد /حدیث190۔
:::::: حجر اسود، اور اُسے چُھونے چُومنے کے بارے میں أہم باتیں ::::::
معزز قارئین ، یقیناً حجر اسود کی بڑی فضیلت ہے ، اور عمرے اور حج کے طواف میں اُسے دُرست عقیدے اور طریقے سے چُھونے کا،اِن شاء اللہ قیامت والے دِن فائدہ بھی ہو گا ،
لیکن یہ معاملہ کہیں زیادہ اہم ہے کہ یہ سب کام سُنّت کے درجے میں ہیں اور کِسی مُسلمان کو اذیت پُہنچانا حرام ہے لہذا اِس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ حجرءِ أسود کو چُھونے اور چُومنے کی سُنّت پر عمل کرتے ہوئے کِسی حرام کام کا شکار نہ ہو جائیں ،اور ہمیشہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالی نے اور اُس کے نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے دُوسروں کو تکلیف دینے سے باز رہنے کا حُکم دِیا ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے حج کے مناسک کی ادائیگی کے دوران خاص طور پر یہ حکم فرمایا گیا کہ کسی کو تکلیف نہ پہنچائی جائے،
اور یہ بھی کہ یہ جو احادیث شریفہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ قیامت والے دِن اِس حجر اسود کو بولنے کی طاقت عطاء فرمائے گا، اور وہ ہر اُس شخص کے بارے میں میں گواہی دے گا جِس نے دُرُست عقیدے اور طریقے کے مطابق اُسے چُھویا ہو گا ،
تو اِن احادیث شریفہ میں سے کسی بھی طور یہ سبق یا دلیل نہیں ملتی کہ حجر اسود بذات خود کوئی متبرک چیز ہے ، یا بذات خود کسی کو کوئی فائدہ یا نقصان پہنچا سکتا ہے ، جیسا کہ کچھ لوگ برکت ، تبرک اور متبرکات وغیرہ کو خود ساختہ فلسفوں کے مطابق سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ کالا پتھر بذات خود ایک با برکت چیز ہے اور اس کو تبرکاً چھونا چاہیے ، اور یہ کسی کو کوئی فائدہ یا نقصان پہنچا سکتا ہے ،
حق بات وہی ہے جو اللہ کے ایک سچے ولی اور انبیاء اور رسولوں کے بعد بلند ترین رتبے والوں میں سے دُوسرے نمبر والے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دُوسرے بلا فصل خلیفہ ، اور اِیمان والوں کے دوسرے بلا فصل أمیر عُمر الفاروق رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ نے اِرشاد فرمایا کہ :::
"""إِنِّى لأَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ لاَ تَضُرُّ وَلاَ تَنْفَعُ ، وَلَوْلاَ أَنِّى رَأَيْتُ النَّبِىَّ - صلى الله عليه وسلم يُقَبِّلُكَ مَا قَبَّلْتُكَ::: میں یہ خوب جانتا ہوں کہ تُم ایک پتھر ہو اور نہ کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہو نہ کوئی نقصان ، اور اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہیں چُومتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تُمہیں نہیں چُومتا"""،(صحیح البخاری/کتاب الحج/باب 50 ما ذُکِر فی الحَجر الاسود)،
دُوسری روایت میں ہے کہ""" وَاللَّهِ إِنِّى لأَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ لاَ تَضُرُّ وَلاَ تَنْفَعُ ، وَلَوْلاَ أَنِّى رَأَيْتُ النَّبِىَّ - صلى الله عليه وسلم - اسْتَلَمَكَ مَا اسْتَلَمْتُكَ ::: اللہ کی قسم میں یہ خوب جانتا ہوں کہ تُم ایک پتھر ہو اور نہ کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہو نہ کوئی نقصان ، اور اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہیں چُھوتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تُمہیں نہیں چُھوتا"""(صحیح البخاری/کتاب الحج/باب 57 الرمل فی الحج و العمرۃ)،
میرے إِیمان والے مؤمن بھائیو، اور مؤمنات بہنو، خوب اچھی طرح سے سمجھ رکھیے کہ ہمارے دوسرے بلا فصل خلیفہ اور أمیر رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ نے اپنے اِس حق فرمان میں ہمیں یہ سمجھایا ہے کہ اِن چیزوں اور اِن مقامات میں اپنی کوئی صلاحیت یا برکت نہیں ، اور نہ ہی کسی بھی چیز کے بارے میں نفع مند یا نقصان دہ ہونے کی بات کو اللہ یا اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے خبر کے بغیر مانا جا سکتا ہے ،
اورچونکہ حِجر اسود کے بارے میں اُس کے با برکت ہونے ، یا کسی طور فائدہ مند یا نقصان دہ ہونے کی کوئی خبر نہیں اِس لیے یہ حق اعلان فرمایا کہ اللہ کی قسم میں یہ خوب جانتا ہوں کہ تُم ایک پتھر ہو اور نہ کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہو نہ کوئی نقصان ، اور اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہیں چُھوتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تُمہیں نہیں چُھوتا،
اور نبی اکرم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے صِرف اتنا اور وہی کام کیا جو اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے کِیا تھا ، اپنی طرف سے کوئی فلسفے بنا کر کسی چیز یا کام کو کوئی ایسا مُقام یا رُتبہ نہیں دِیا جِس کی قران کریم اور صحیح حدیث شریف میں سے کوئی دلیل نہ ہو ،"""""
کسی نے ، ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دُوسرے بلا فصل خلیفہ اور ہمارے دُوسرے بلا فصل أمیر عُمر الفاروق رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ کے اِس منقولہ بالا فرمان مبارک کو غلط،دِکھانے کے کوشش میں ایک مضمون لکھ مارا اور اُس مضمون کے آغاز میں یہ روایت نقل کی کہ :::
""" عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: حَجَجْنَا مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ فَلَمَّا دَخَلَ الطَّوَافَ اسْتَقْبَلَ الْحَجَرَ، فَقَالَ: " إِنِّي أَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ، وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبَّلَكَ مَا قَبَّلْتُكَ ثُمَّ قَبَّلَهُ "
فَقَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، إِنَّهُ يَضُرُّ وَيَنْفَعُ، قَالَ: بِمَ؟ قَالَ بِكِتَابِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ: وَأَيْنَ ذَلِكَ مِنْ كِتَابِ اللهِ؟، قَالَ: قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: **وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ** ، الیٰ قولہ:بَلَى، خَلَقَ اللهُ آدَمَ وَمَسَحَ عَلَى ظَهْرِهِ فَقَرَّرَهُم بِأَنَّهُ الرَّبُّ وَأَنَّهُمُ الْعَبِيدُ، وَأَخَذَ عُهُودَهُمْ، وَمَوَاثِيقَهُمْ وَكَتَبَ ذَلِكَ فِي رَقٍّ(فی رق: و الرق بالفتح : الجلد یکتب فیہ و الکسر لغۃ قلیلۃ و قرأبھا بعضھم فی قولہ تعالی:"فی رق منشور". انتھی۔(1/321)المصباح المنیر۔ب) وَكَانَ لِهَذَا الْحَجَرِ عَيْنَانِ وَلِسَانانٌ، فَقَالَ : افْتَحْ فَاكَ، فَفَتَحَ فَاهُ فَألْقَمَهُ ذَلِكَ الرَّقُّ، فَقَالَ: اشْهَدْ لِمَنْ وَافَاكَ بالْمُوَافَاةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَإِنِّي أَشْهَدُ لَسَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " يُؤْتَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِالْحَجَرِ الْأَسْوَدِ وَلَهُ لِسَانٌ ذَلْقٌ يَشْهَدُ لِمَنْ يَسْتَلِمُهُ بِالتَّوْحِيدِ "، فَهُوَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ يَضُرُّ وَيَنْفَعُ، فَقَالَ عُمَرُ: أَعُوذُ بِاللهِ أَنْ أَعِيشَ فِي قَوْمٍ لَسْتُ فِيهِمْ يَا أَبَا الحَسَنٍ"""،
اور اس روایت کے غلط حوالہ جات دیتے ہوئے اِس روایت کوامام بخاری رحمہُ اللہ کی تاریخ میں منقول لکھا ، اور اس کے علاوہ یہ بھی لکھ مارا کہ اسے ترمذی ، نسائی ، طبرانی ،امام بیہقی اور امام حاکم نے روایت کیا ہے ،
لیکن کوئی تفصیلی حوالہ نہیں دِیا ، اِس قِسم کے مجھول حوالہ جات دیکھ کر ہی بات کی دُرُستگی اور سچائی کا انداز ہو جاتا ہے ، پھر بھی ہم اِس قول کو چھان بین کے نتائج کا مطالعہ کرتے ہیں ، تا کہ اِن شاء اللہ قارئین کرام کسی دھوکہ دہی کا شِکار نہ ہو سکیں ،
قارئین کرام ، یہ قول مجھے تو امیرا لمؤمنین فی الحدیث ، امام محمد بن اِسماعیل البخاری کی تاریخ الکبیر ، تاریخ الاوسط ، اور تاریخ الصغیر میں کہیں نہیں مل سکا ،
اور اسی طرح یہ قول سُنن الترمذی ،سُنن النسائی ، معجم الکبیر للطبرانی، معجم الاوسط للطبرانی ، معجم الصغیر للطبرانی میں کہیں دریافت نہیں ہو سکا ، بلکہ اِن کتابوں میں رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دُوسرے بلا فصل خلیفہ اور ہمارےدُوسرے بلا فصل أمیر عُمر الفاروق رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ کا وہی قول مذکور و منقول ہے جس میں ہمیں صحیح عقیدے کا درس دِیا گیا ہے ،
جی یہ منقولہ بالا روایت ،امام البیہقی رحمہُ اللہ نے """شعب الایمان / کتاب المناسک /باب 3فضیلۃ الحجر السود،والمقام، والاستلام والطواف بالبیت ،و السعی بین الصفا و المروۃ"""، میں روایت کی ہے ،
اور اِمام الحاکم رحمہُ اللہ نے """المستدرک علی الصحیحین /حدیث /1682اول کتاب المناسک، میں سے حدیث 73 """ میں روایت کی ہے ،
إِمام البیہقی رحمہُ اللہ کی روایت کی سند یہ ہے :
""" أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَى الْعَدْلُ، مِنْ أَصْلِ كِتَابِهِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ صَالِحٍ الْكَيْلِينِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ أَبِي عُمَرَ الْعَدَنِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ الْعَمِّيُّ، عَنْ أَبِي هَارُونَ الْعَبْدِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ"""،
اور إِمام الحاکم رحمہُ اللہ کی روایت کی سند یہ ہے :
""" أَخْبَرْنَاهُ أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَى الْعَدْلُ، مِنْ أَصْلِ كِتَابِهِ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ صَالِحٍ الْكِيلِينِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ أَبِي عَمْرٍو الْعَدَنِيُّ، ثنا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ الْعَمِّيُّ، عَنْ أَبِي هَارُونَ الْعَبْدِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ"""،
غور فرمایے قارئین کرام ، دُونوں کی سند تقریبا ایک ہی ہے ، بس إِمام الحاکم کی سند کے آغاز میں ایک راوی زیادہ ہے ، اور دونوں کی سند میں """ابو ھارون العبدی """نامی راوی مشترک ہے ، جس کا پوار نام """عمارۃ بن جوین ، ابو ھارون العبدی """ ہے ،
اس راوی کو محدثین کرام نے """غیر قوی ، یعنی نا قابل اعتماد، اور جھوٹا اور شیعی """ قرار دِیا ہے ،
خود إِمام البیھقی رحمہُ اللہ نے """ شعب الایمان""" میں یہ روایت ذِکر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ :::
""" قَالَ الشَّيْخُ أَحْمَدُ: " أَبُو هَارُونَ الْعَبْدِيُّ غَيْرُ قَوِيٍّ ::: شیخ احمد کا کہنا ہے کہ ابو ھارون العبدی مضبوط (یعنی قابل اعتماد )نہیں ہے"""،
::::::: اِمام العینی رحمہُ اللہ نے """عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری /کتاب الحج/باب ما ذُکِر فی الحجر الاسود """میں کہا ہے کہ """ وفي سنده أبو هارون عمارة بن جوين ضعيف:::اِس کی سند میں ابو ھارون بن جوین ہے جو ضعیف ہے"""،
::::::: امام السیوطی رحمہُ اللہ نے بھی """شرح النسائی/حدیث2938""" کی شرح میں مستدرک الحاکم کی اِس روایت کو """ضعیف """قرار دِیا ہے ، خیال رہے کہ یہ روایت """سُنن النسائی """میں نہیں ہے ، بلکہ امام السیوطی رحمہُ اللہ نے اسےسُنن النسائی کی شرح میں مستدرک الحاکم کے حوالے سے مختصراً ذکر کیا ہے ،
::::::: اس روایت کے بارے میں امام حافظ ابن العربی المالکی رحمہُ اللہ نے """عارضۃ الاحوذی بشرح صحیح الترمذی/ابواب الحج/باب فضل الحجر الاسود""" میں کہا کہ """ لیس لہ اصل ولا فصل فلا تشغلوا بہ لحضہ:::اِس روایت کی کوئی اصل نہیں لہذا اس میں خود کو مشغول مت کرو"""،
اِس کے علاوہ دیکھیے :::
امام شمس الدِین الذھبی رحمہُ اللہ کی"""ديوان الضعفاء والمتروكين وخلق من المجهولين وثقات فيهم لين ،ترجمہ رقم3000"""،
اور امام ابن سعد کی """طبقات الکبریٰ /ترجمہ رقم 3190"""،
اور تفصیلی معلومات کے لیے دیکھیے اِمام شمس الدِین الذھبی رحمہُ اللہ کی """ میزان الاعتدال / ترجمہ رقم 6018"""،
لہذا سند کے اعتبار سے یہ روایت ناقابل اعتبار اور نا قابل حجت ہے ، اور یوں بھی اس میں جو کچھ امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ سے منسوب کیا گیا ہے وہ کسی عام سے مؤمن سے متوقع نہیں ، چہ جائیکہ امیر المؤمین علی رضی اللہ عنہ ُ کے بارے میں اُسے مانا جائے ،
یہ روایت اُن لوگوں کی کاروائی ہے جو ہر معاملے میں امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہُ کو امیر المؤمنین عمر الفاروق سے اعلیٰ دِکھانا چاہتے ہیں ، لیکن شاید انہیں یہ یاد نہیں رہتا کہ اس روایت میں علی رضی اللہ عنہ ُ نے عمر الفاروق رضی اللہ عنہ ُ کو امیر المؤمنین مانا ہے ، مگر علی رضی اللہ عنہ ُ کی محبت اور شیعیت کا راگ الاپنے والے عمر الفاروق رضی اللہ عنہ ُ کو امیر المؤمنین نہیں مانتے اور اپنی اس باطل ضِد کو دُرُست دکھانے کے لیے اپنے ہی امام رضی اللہ عنہ ُ کو بھی """ تقیہ """ کرنے والے بنانے پر لگ جاتے ہیں ، ولا حول ولا قوۃ الا باللہ،
خیر ، اِس وقت میرا موضوع لوگوں امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ اور اُن کے اہل خانہ و اولاد سے نام نہادمحبت نہیں ، بلکہ اُس غلط روایت کی حقیقت واضح کرنا ہے جِسے لوگ اپنے باطل عقائد کی دلیل بنانے کی کوشش کرتے ہیں ،
آخر میں گذارش ہے کہ ، جو کچھ ہمارے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دُوسرے بلا فصل خلیفہ ، ہمارے دُوسرے بلا فصل أمیر عُمر الفاروق نے اپنے اِس قول میں اِرشاد فرمایا ہے ،اُس کی جو شرح میں نے اپنی کتاب میں سے اقتباس کے طور پر پیش کی ہے ، تقریباً وہی کچھ امام البیہقی رحمہُ اللہ نے بھی اپنی """شعب الایمان"""میں اِسی کمزور سند والی کمزور نا قابل حجت روایت کے بعد اِن الفاظ میں لکھی ہے کہ :::
""" قَالَ الشَّيْخُ أَحْمَدُ: " أَبُو هَارُونَ الْعَبْدِيُّ غَيْرُ قَوِيٍّ فَإِنْ صَحَّ فَأَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ كَانَ قَدْ عَبَدَ الْحَجَرَ فَحِينَ أَهْوَى إِلَى الرُّكْنِ كَأَنَّهُ هَابَ مَا كَانَ عَلَيْهِ فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَتَبَرَّأَ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سِوَى اللهِ تعالى وَأَخْبَرَهُ بِأَنَّهُ حَجَرٌ لَا يَضُرُّ وَلَا يَنْفَعُ يُرِيدُ مَا كَانَ عَلَى هَيْئَتِهِ حَجَرًا وَإِنَّهُ إِنَّمَا يَقَبِّلُهُ مُتَابَعَةً لِلسُّنَّةِ،
وَقَوْلُ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: إنَّهُ يَضُرُّ وَيَنْفَعُ يُرِيدُ بِهِ إِذَا خَلَقَ اللهُ تَعَالَى فِيهِ حَيَاةً وَأَذِنَ لَهُ فِي الشَّهَادَةِ وَذَلِكَ أَنَّهُ يَعْلَمُ بِخَبَرِ الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ عِنْدَهُ فِي ذَلِكَ خَبَرٌ فَأَخْبَرَ بِهِ فَقَبَّلَهُ عُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا :::شیخ احمد کا کہنا ہے کہ ، ابو ھارون العبدی مضبوط (یعنی قابل اعتماد)نہیں ،اگر یہ (بات)صحیح ثابت ہوتی ہو تو (پھر اِس کا مفہوم یہ ہے کہ)أمیر المؤمنین عُمر رضی اللہ عنہ ُ چونکہ( اِسلام سے پہلے اِس کالے) پتھر کی عبادت کرتے تھے، پس جب وہ (حجر اسودوالے)کونے کے پاس پہنچے تو اِسلام سے پہلے والے زمانے میں اُن پر پائے جانے والےخیالات کی وجہ سے (دوسروں کے لیے عقائد میں غلطی کا)اندیشہ محسوس کیالہذا اللہ تعالیٰ کے عِلاوہ ہر چیز سےبری الذمہ ہوتے ہوئے یہ خبر دِی کہ یہ حجر اسود تو محض ایک پتھر ہے ، اپنے پتھر ہونے کی صُورت اور کیفیت میں کسی کو کوئی فائدہ یا نقصان نہیں پہنچا سکتا ،اور وہ اِس پتھر کو صِرف (نبی اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم )کی سُنّت کی پیروی کرتے ہوئے چُوم رہے ہیں،
اور امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ کا فرمان کہ یہ پتھر نقصان اور فائدہ دیتا ہے تو اُن کی مُراد یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اِس پتھر کو زندگی دے گا اور اِسے گواہی دینے کی اجازت دے گا (تو یہ پتھر فائدہ یا نقصان دینے والا ہوجائے گا)اور یہ بات انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی خبر کے ذریعے جانی ، اور اِس معاملے کے بارے یہ خبر اُن(یعنی أمیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ)کے پاس تھی لہذا اُنہوں نے یہ خبر (أمیر المؤمنین) عُمر( رضی اللہ عنہ ُ) کو دِی تو اُنہوں نے (یعنی أمیر المؤمنین عُمر رضی اللہ عنہ ُ)نے حِجر اسود کو چُوما ، اللہ اُن دونوں پر راضی ہوا"""
لہذا یہ واضح ہے اور الحمد للہ صدیوں پہلے کے أئمہ کرام رحمہم اللہ کے بیان سے واضح ہے کہ ہمارے أمیر المؤمنین عُمر الفاروق یہ حجر اسود کے بارے میں کہا ہوا قول توحید خالص کا ایک سبق ہے ، اور کسی بھی چیز کی کسی فضیلت کی بنا پر اُس چیز کے لیے اُس فضیلت سے بڑھ کچھ بھی اور ماننے کو غلط ثابت کرنے والا ہے ، پس مُبارک اور متبرک وہی چیز ، مُقام یا لوگ مانے جا سکتے ہیں جِس کے بارے میں اُن کے با برکت ، مُبارک یا متبرک ہونے کی خبر اللہ تبارک و تعالیٰ یا اُس کے خلیل محمد رسول اللہ صلی علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے ثابت ہو ،
محترم قارئین ، دیکھ لیجیے کہ اگر اس روایت کو دُرست بھی مان لیا جائے تو بھی صدیوں پہلے ہمارے أئمہ کرام رحمہم اللہ کی طرف سے اِس میں ہمارے دونوں أمیروں کی بہترین فقہ اور خالص توحیدی عقیدے کے مطابق شرح پیش کی جا چکی ہے ، جو کسی بھی قِسم کے غلط عقیدے کو رد کرنے والی ہے ، وللہ الحمد ،
اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو حق پہچاننے ، جاننے ، ماننے ، اپنانے اور اُس پر عمل پیرا رہتے ہوئے مرنے کی توفیق عطاء فرمائے، والسلام علیکم ۔
میرے مضمون ::: برکت اور تبرک ::: سے ایک اقتباس پیش خدمت ہے :
::::::: ناجائز تبرک ::::::ایسے مقامات جہاں حرام و نا جائز کام ہوتے ہوں ، وہاں برکت نہیں ہوتی ، خواہ وہ کام اِسلام کے نام پر کیے جاتے ہوں ، یا ، بزرگوں اور نیک لوگوں سے عقیدت کے نام پر کیے جاتے ہوں ،
جیسا کہ عموماً کچھ واقعتا نیکو کار إِیمان والوں، اور اکثر نام نہاد نیک اور ولی نُما لوگوں کی قبروں اور مزاروں پر کیے جاتے ہیں ، اور لوگ اُن قبروں اور مزاروں کو متبرک سمجھتے ہیں اور اُن قبروں میں دفن کیے گئے مُردوں سے برکت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ،
اللہ تبارک و تعالیٰ اور اُس کے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے خبر کے بغیر کسی شخصیت ، کسی مُقام ، کسی چیز کے بارے میں یہ خیال رکھنا کہ وہ برکت والی ہے ، بالکل غلط اور ناجائز ہے ،
اگر کسی شخصیت ، مُقام یا چیز میں سے اللہ کے دِین اورمُسلمانوں کو دینی اوردُنیاوی فائدہ ملتا ہو ، جیسا کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والا کوئی مُسلمان ،ذاتی آراء اور فلسفے اور علم الکلام وغیرہ کا بِگار لگائے بغیر دِین کی تعلیم دینے والا کوئی عالم ، اللہ کی راہ میں اپنی جان ، مال ، عِلم ، وقت کے ذریعے جِہاد کرنے والا کوئی مجاھد ، وغیرہ ،
تو ایسے لوگوں کو با برکت سمجھنا دُرُست ہے ، اور اُن سے تبرک حاصل کرنے کا طریقہ اُس خیر کو حاصل کرنے کی کوشش ہے جو خیر اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ اُن کے ذریعے اپنے بندوں تک پہنچاتا ہے ، نہ کہ اُن لوگوں کے جسموں اور اُن سے متعلق چیزوں کو چھونے ، چُومنے چاٹنے یا اپنے ساتھ لگانے لپٹانے وغیرہ سے وہ برکت حاصل کی جا سکتی ہے ، یہ سب کام ناجائز ہیں ، ایسا کرنے کی کوئی دلیل ہمیں اللہ کی کتاب کریم اور اُس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت شریفہ میں نہیں ملتی ،
یہاں ایک بات پھر دہراتا چلوں کہ نبیوں اور رُسولوں علیھم السلام کا معاملہ باقی تمام تر اِنسانوں سے الگ تھا ، کہ نبیوں اور رُسولوں علیھم السلام کی ذاتوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے مستقل برکت عطاء فرمائی گئی تھی ، جو کہ اُن کے عِلاوہ کسی اور کو عطاء نہیں ہوئی ، لہذا انبیا ء اور رُسل علیھم السلام کے مبارک وطاہر اجسام سے برکت حاصل کرنے کو کسی غیر نبی ، اور غیر رسول کے اجسام یا اُن سے متعلق چیزوں سے برکت حاصل کرنے کی دلیل بنانا قطعاً غلط ہے بلکہ حماقت ہے ۔
مختلف چیزوں اور مقامات کو بذات خود مستقل طور پر با برکت ، متبرک سمجھنے کے بارے میں کئ فلسفے ملتے ہیں ، اُن میں سے ایک حجر اسود کے بارے میں بھی ہے ، جن کے بارے میں مجھے چند روز پہلے خبر ملی ، میں نے اُن کا مطالعہ کیا ،
حجر اسود کے بارے میں کافی عرصہ پہلے کچھ باتیں میں نے اپنی کتاب""" عُمرہ اور حج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے طریقے پر """ میں لکھی تھیں ، چند روز پہلے ملی پڑھی ہوئی معلومات کی وجہ سے میری بیان کردہ سابقہ معلومات میں کچھ اضافے ساتھ انہیں یہاں لکھ رہا ہوں ، کیونکہ یہ براہ راست اِس مضمون کے موضوع سے متعلق ہیں، بغور مطالعہ فرمایے :::
کچھ لوگ ، اپنے غلط عقائد ، جن کی کوئی صحیح دلیل انہیں نہ تو اللہ کی کتاب کریم قران حکیم سے میسر ہے ، اور نہ ہی اللہ کے خلیل ، اللہ کے آخری رسول ، اللہ کی طرف سے آخری معصوم ، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ تعلیمات سے ، اور نہ رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے ،
جی ، تو کچھ لوگ جو اِسلام سے منسوب بھی ہیں ، اپنے غلط عقائد کو دُرست دِکھانے کے لیے غلط حرکات کرتے رہتے ہیں ، چند روز پہلے ایک بھتیجے نے ایسی ہی حرکات میں سے ایک حرکت کے بارے میں بتایا ،
جِس کے ذریعے کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دُوسرے بلا فصل خلیفہ اور ہمارے یعنی مؤمنین کے دُوسرے بلا فصل أمیر عُمر الفاروق رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ کے، حَجر اسود کے بارے میں فرمائے گئے ایک فرمان مُبارک کو ، رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے چوتھے بلا فصل خلیفہ اور ہمارے یعنی مؤمنین کےچوتھے بلا فصل أمیر علی رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ سے منسوب ایک قول کے مُطابق غلط دِکھانے کی کوشش کی ،
پہلے تو حِجر اسود کے بارے میں کچھ معلومات ذِکر کرتا ہوں ، جو اِن شاء اللہ فائدہ مند ہوں گی ، اور ہم مؤمنین اہل سُنّت و الجماعت کے عقائد کو واضح کرنے والی ہیں ، یہ معلومات تقریبا ً دس سال پہلے میں نے """ عُمرہ اور حج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے طریقے پر """ میں درج کی تھیں ، و للہ الحمد ،
""""" ::::::: حجرءِأسود کی ، اور اُس کو چُھونے کی بڑی فضیلت ہے ،
جیسا کہ حَجر اسود، اور رُکن الیمانی کے بارے میں ہمارے محبوب ،خلیل اللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے یہ بھی اِرشاد فرمایا
(((((إِنَّ مَسْحَهُمَا يَحُطَّانِ الْخَطِيئَةَ :::اِن دونوں کو چُھونا ،(اللہ کی مشیئت اور حکم سے) خطاؤں کو مٹاتا ہے))))) سُنن النسائی/ حدیث /2932کتاب مناسک الحج/باب134،إمام اللابانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا،
اور حِجر اسود کے بارے میں یہ بھی اِرشاد فرمایا ہے کہ(((((نَزَلَ الْحَجَرُ الأَسْوَدُ مِنَ الْجَنَّةِ وَهُوَ أَشَدُّ بَيَاضًا مِنَ اللَّبَنِ فَسَوَّدَتْهُ خَطَايَا بَنِى آدَمَ ::: کالا پتھر (حَجر اسود) جنّت سے اترا تو ہوہو دُودھ سے زیادہ سُفید تھا ، لیکن اُسے آدم کی اولاد کی غلطیوں نے کالا کر دِیا)))))سُنن الترمذی/ حدیث 959 ،/886کتاب الحج/باب49 مَا جَاءَ فِى فَضْلِ الْحَجَرِ الأَسْوَدِ وَالرُّكْنِ وَالْمَقَامِ،إمام اللابانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا،
صحیح ابن خزیمہ /حدیث /2733کتاب المناسک/باب182 کی روایت میں """دودُھ کی جگہ، برف ذِکر ہے"""، اِس روایت کو ڈاکٹر شیخ محمد مصطفیٰ الاعظمی نے حَسن قرار دِیا ہے ،
اور حَجر اسود کے بارے میں یہ خبر بھی عنایت فرمائی ہے کہ (((((وَاللَّهِ لَيَبْعَثَنَّهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَهُ عَيْنَانِ يُبْصِرُ بِهِمَا وَلِسَانٌ يَنْطِقُ بِهِ يَشْهَدُ عَلَى مَنِ اسْتَلَمَهُ بِحَقٍّ :::اللہ کی قسم ، یقینا ً اللہ قیامت والے دِن اُسے (یعنی حَجرِ اسود)کو (اِس طرح)لائے گا کہ اُس کی دو آنکھیں ہوں گی جِس سے وہ دیکھے گا ، اور بولنے والے ز ُبان ہو گی (اور)وہ ہر اُس شخص کے بارے میں گواہی دے گا جِس نے حق کے ساتھ اُسے چُھویا ہوگا)))))سُنن الترمذی/ حدیث 959 ،/877کتاب الحج/باب113 مَا جَاءَ فِى الْحَجَرِ الأَسْوَد،إمام اللابانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا،صحیح ابن خزیمہ/حدیث 2733،/2736کتاب المناسک/باب184،185،إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے کہا پہلی روایت صحیح لغیرہ ، اور دوسری صحیح ، مُستدرک الحاکم /حدیث/1680اول کتاب المناسک،مُسنداحمد /حدیث190۔
:::::: حجر اسود، اور اُسے چُھونے چُومنے کے بارے میں أہم باتیں ::::::
معزز قارئین ، یقیناً حجر اسود کی بڑی فضیلت ہے ، اور عمرے اور حج کے طواف میں اُسے دُرست عقیدے اور طریقے سے چُھونے کا،اِن شاء اللہ قیامت والے دِن فائدہ بھی ہو گا ،
لیکن یہ معاملہ کہیں زیادہ اہم ہے کہ یہ سب کام سُنّت کے درجے میں ہیں اور کِسی مُسلمان کو اذیت پُہنچانا حرام ہے لہذا اِس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ حجرءِ أسود کو چُھونے اور چُومنے کی سُنّت پر عمل کرتے ہوئے کِسی حرام کام کا شکار نہ ہو جائیں ،اور ہمیشہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالی نے اور اُس کے نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے دُوسروں کو تکلیف دینے سے باز رہنے کا حُکم دِیا ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے حج کے مناسک کی ادائیگی کے دوران خاص طور پر یہ حکم فرمایا گیا کہ کسی کو تکلیف نہ پہنچائی جائے،
اور یہ بھی کہ یہ جو احادیث شریفہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ قیامت والے دِن اِس حجر اسود کو بولنے کی طاقت عطاء فرمائے گا، اور وہ ہر اُس شخص کے بارے میں میں گواہی دے گا جِس نے دُرُست عقیدے اور طریقے کے مطابق اُسے چُھویا ہو گا ،
تو اِن احادیث شریفہ میں سے کسی بھی طور یہ سبق یا دلیل نہیں ملتی کہ حجر اسود بذات خود کوئی متبرک چیز ہے ، یا بذات خود کسی کو کوئی فائدہ یا نقصان پہنچا سکتا ہے ، جیسا کہ کچھ لوگ برکت ، تبرک اور متبرکات وغیرہ کو خود ساختہ فلسفوں کے مطابق سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ کالا پتھر بذات خود ایک با برکت چیز ہے اور اس کو تبرکاً چھونا چاہیے ، اور یہ کسی کو کوئی فائدہ یا نقصان پہنچا سکتا ہے ،
حق بات وہی ہے جو اللہ کے ایک سچے ولی اور انبیاء اور رسولوں کے بعد بلند ترین رتبے والوں میں سے دُوسرے نمبر والے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دُوسرے بلا فصل خلیفہ ، اور اِیمان والوں کے دوسرے بلا فصل أمیر عُمر الفاروق رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ نے اِرشاد فرمایا کہ :::
"""إِنِّى لأَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ لاَ تَضُرُّ وَلاَ تَنْفَعُ ، وَلَوْلاَ أَنِّى رَأَيْتُ النَّبِىَّ - صلى الله عليه وسلم يُقَبِّلُكَ مَا قَبَّلْتُكَ::: میں یہ خوب جانتا ہوں کہ تُم ایک پتھر ہو اور نہ کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہو نہ کوئی نقصان ، اور اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہیں چُومتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تُمہیں نہیں چُومتا"""،(صحیح البخاری/کتاب الحج/باب 50 ما ذُکِر فی الحَجر الاسود)،
دُوسری روایت میں ہے کہ""" وَاللَّهِ إِنِّى لأَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ لاَ تَضُرُّ وَلاَ تَنْفَعُ ، وَلَوْلاَ أَنِّى رَأَيْتُ النَّبِىَّ - صلى الله عليه وسلم - اسْتَلَمَكَ مَا اسْتَلَمْتُكَ ::: اللہ کی قسم میں یہ خوب جانتا ہوں کہ تُم ایک پتھر ہو اور نہ کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہو نہ کوئی نقصان ، اور اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہیں چُھوتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تُمہیں نہیں چُھوتا"""(صحیح البخاری/کتاب الحج/باب 57 الرمل فی الحج و العمرۃ)،
میرے إِیمان والے مؤمن بھائیو، اور مؤمنات بہنو، خوب اچھی طرح سے سمجھ رکھیے کہ ہمارے دوسرے بلا فصل خلیفہ اور أمیر رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ نے اپنے اِس حق فرمان میں ہمیں یہ سمجھایا ہے کہ اِن چیزوں اور اِن مقامات میں اپنی کوئی صلاحیت یا برکت نہیں ، اور نہ ہی کسی بھی چیز کے بارے میں نفع مند یا نقصان دہ ہونے کی بات کو اللہ یا اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے خبر کے بغیر مانا جا سکتا ہے ،
اورچونکہ حِجر اسود کے بارے میں اُس کے با برکت ہونے ، یا کسی طور فائدہ مند یا نقصان دہ ہونے کی کوئی خبر نہیں اِس لیے یہ حق اعلان فرمایا کہ اللہ کی قسم میں یہ خوب جانتا ہوں کہ تُم ایک پتھر ہو اور نہ کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہو نہ کوئی نقصان ، اور اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہیں چُھوتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تُمہیں نہیں چُھوتا،
اور نبی اکرم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے صِرف اتنا اور وہی کام کیا جو اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے کِیا تھا ، اپنی طرف سے کوئی فلسفے بنا کر کسی چیز یا کام کو کوئی ایسا مُقام یا رُتبہ نہیں دِیا جِس کی قران کریم اور صحیح حدیث شریف میں سے کوئی دلیل نہ ہو ،"""""
کسی نے ، ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دُوسرے بلا فصل خلیفہ اور ہمارے دُوسرے بلا فصل أمیر عُمر الفاروق رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ کے اِس منقولہ بالا فرمان مبارک کو غلط،دِکھانے کے کوشش میں ایک مضمون لکھ مارا اور اُس مضمون کے آغاز میں یہ روایت نقل کی کہ :::
""" عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: حَجَجْنَا مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ فَلَمَّا دَخَلَ الطَّوَافَ اسْتَقْبَلَ الْحَجَرَ، فَقَالَ: " إِنِّي أَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ، وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبَّلَكَ مَا قَبَّلْتُكَ ثُمَّ قَبَّلَهُ "
فَقَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، إِنَّهُ يَضُرُّ وَيَنْفَعُ، قَالَ: بِمَ؟ قَالَ بِكِتَابِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ: وَأَيْنَ ذَلِكَ مِنْ كِتَابِ اللهِ؟، قَالَ: قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: **وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ** ، الیٰ قولہ:بَلَى، خَلَقَ اللهُ آدَمَ وَمَسَحَ عَلَى ظَهْرِهِ فَقَرَّرَهُم بِأَنَّهُ الرَّبُّ وَأَنَّهُمُ الْعَبِيدُ، وَأَخَذَ عُهُودَهُمْ، وَمَوَاثِيقَهُمْ وَكَتَبَ ذَلِكَ فِي رَقٍّ(فی رق: و الرق بالفتح : الجلد یکتب فیہ و الکسر لغۃ قلیلۃ و قرأبھا بعضھم فی قولہ تعالی:"فی رق منشور". انتھی۔(1/321)المصباح المنیر۔ب) وَكَانَ لِهَذَا الْحَجَرِ عَيْنَانِ وَلِسَانانٌ، فَقَالَ : افْتَحْ فَاكَ، فَفَتَحَ فَاهُ فَألْقَمَهُ ذَلِكَ الرَّقُّ، فَقَالَ: اشْهَدْ لِمَنْ وَافَاكَ بالْمُوَافَاةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَإِنِّي أَشْهَدُ لَسَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " يُؤْتَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِالْحَجَرِ الْأَسْوَدِ وَلَهُ لِسَانٌ ذَلْقٌ يَشْهَدُ لِمَنْ يَسْتَلِمُهُ بِالتَّوْحِيدِ "، فَهُوَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ يَضُرُّ وَيَنْفَعُ، فَقَالَ عُمَرُ: أَعُوذُ بِاللهِ أَنْ أَعِيشَ فِي قَوْمٍ لَسْتُ فِيهِمْ يَا أَبَا الحَسَنٍ"""،
اور اس روایت کے غلط حوالہ جات دیتے ہوئے اِس روایت کوامام بخاری رحمہُ اللہ کی تاریخ میں منقول لکھا ، اور اس کے علاوہ یہ بھی لکھ مارا کہ اسے ترمذی ، نسائی ، طبرانی ،امام بیہقی اور امام حاکم نے روایت کیا ہے ،
لیکن کوئی تفصیلی حوالہ نہیں دِیا ، اِس قِسم کے مجھول حوالہ جات دیکھ کر ہی بات کی دُرُستگی اور سچائی کا انداز ہو جاتا ہے ، پھر بھی ہم اِس قول کو چھان بین کے نتائج کا مطالعہ کرتے ہیں ، تا کہ اِن شاء اللہ قارئین کرام کسی دھوکہ دہی کا شِکار نہ ہو سکیں ،
قارئین کرام ، یہ قول مجھے تو امیرا لمؤمنین فی الحدیث ، امام محمد بن اِسماعیل البخاری کی تاریخ الکبیر ، تاریخ الاوسط ، اور تاریخ الصغیر میں کہیں نہیں مل سکا ،
اور اسی طرح یہ قول سُنن الترمذی ،سُنن النسائی ، معجم الکبیر للطبرانی، معجم الاوسط للطبرانی ، معجم الصغیر للطبرانی میں کہیں دریافت نہیں ہو سکا ، بلکہ اِن کتابوں میں رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دُوسرے بلا فصل خلیفہ اور ہمارےدُوسرے بلا فصل أمیر عُمر الفاروق رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ کا وہی قول مذکور و منقول ہے جس میں ہمیں صحیح عقیدے کا درس دِیا گیا ہے ،
جی یہ منقولہ بالا روایت ،امام البیہقی رحمہُ اللہ نے """شعب الایمان / کتاب المناسک /باب 3فضیلۃ الحجر السود،والمقام، والاستلام والطواف بالبیت ،و السعی بین الصفا و المروۃ"""، میں روایت کی ہے ،
اور اِمام الحاکم رحمہُ اللہ نے """المستدرک علی الصحیحین /حدیث /1682اول کتاب المناسک، میں سے حدیث 73 """ میں روایت کی ہے ،
إِمام البیہقی رحمہُ اللہ کی روایت کی سند یہ ہے :
""" أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَى الْعَدْلُ، مِنْ أَصْلِ كِتَابِهِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ صَالِحٍ الْكَيْلِينِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ أَبِي عُمَرَ الْعَدَنِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ الْعَمِّيُّ، عَنْ أَبِي هَارُونَ الْعَبْدِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ"""،
اور إِمام الحاکم رحمہُ اللہ کی روایت کی سند یہ ہے :
""" أَخْبَرْنَاهُ أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَى الْعَدْلُ، مِنْ أَصْلِ كِتَابِهِ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ صَالِحٍ الْكِيلِينِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ أَبِي عَمْرٍو الْعَدَنِيُّ، ثنا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ الْعَمِّيُّ، عَنْ أَبِي هَارُونَ الْعَبْدِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ"""،
غور فرمایے قارئین کرام ، دُونوں کی سند تقریبا ایک ہی ہے ، بس إِمام الحاکم کی سند کے آغاز میں ایک راوی زیادہ ہے ، اور دونوں کی سند میں """ابو ھارون العبدی """نامی راوی مشترک ہے ، جس کا پوار نام """عمارۃ بن جوین ، ابو ھارون العبدی """ ہے ،
اس راوی کو محدثین کرام نے """غیر قوی ، یعنی نا قابل اعتماد، اور جھوٹا اور شیعی """ قرار دِیا ہے ،
خود إِمام البیھقی رحمہُ اللہ نے """ شعب الایمان""" میں یہ روایت ذِکر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ :::
""" قَالَ الشَّيْخُ أَحْمَدُ: " أَبُو هَارُونَ الْعَبْدِيُّ غَيْرُ قَوِيٍّ ::: شیخ احمد کا کہنا ہے کہ ابو ھارون العبدی مضبوط (یعنی قابل اعتماد )نہیں ہے"""،
::::::: اِمام العینی رحمہُ اللہ نے """عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری /کتاب الحج/باب ما ذُکِر فی الحجر الاسود """میں کہا ہے کہ """ وفي سنده أبو هارون عمارة بن جوين ضعيف:::اِس کی سند میں ابو ھارون بن جوین ہے جو ضعیف ہے"""،
::::::: امام السیوطی رحمہُ اللہ نے بھی """شرح النسائی/حدیث2938""" کی شرح میں مستدرک الحاکم کی اِس روایت کو """ضعیف """قرار دِیا ہے ، خیال رہے کہ یہ روایت """سُنن النسائی """میں نہیں ہے ، بلکہ امام السیوطی رحمہُ اللہ نے اسےسُنن النسائی کی شرح میں مستدرک الحاکم کے حوالے سے مختصراً ذکر کیا ہے ،
::::::: اس روایت کے بارے میں امام حافظ ابن العربی المالکی رحمہُ اللہ نے """عارضۃ الاحوذی بشرح صحیح الترمذی/ابواب الحج/باب فضل الحجر الاسود""" میں کہا کہ """ لیس لہ اصل ولا فصل فلا تشغلوا بہ لحضہ:::اِس روایت کی کوئی اصل نہیں لہذا اس میں خود کو مشغول مت کرو"""،
اِس کے علاوہ دیکھیے :::
امام شمس الدِین الذھبی رحمہُ اللہ کی"""ديوان الضعفاء والمتروكين وخلق من المجهولين وثقات فيهم لين ،ترجمہ رقم3000"""،
اور امام ابن سعد کی """طبقات الکبریٰ /ترجمہ رقم 3190"""،
اور تفصیلی معلومات کے لیے دیکھیے اِمام شمس الدِین الذھبی رحمہُ اللہ کی """ میزان الاعتدال / ترجمہ رقم 6018"""،
لہذا سند کے اعتبار سے یہ روایت ناقابل اعتبار اور نا قابل حجت ہے ، اور یوں بھی اس میں جو کچھ امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ سے منسوب کیا گیا ہے وہ کسی عام سے مؤمن سے متوقع نہیں ، چہ جائیکہ امیر المؤمین علی رضی اللہ عنہ ُ کے بارے میں اُسے مانا جائے ،
یہ روایت اُن لوگوں کی کاروائی ہے جو ہر معاملے میں امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہُ کو امیر المؤمنین عمر الفاروق سے اعلیٰ دِکھانا چاہتے ہیں ، لیکن شاید انہیں یہ یاد نہیں رہتا کہ اس روایت میں علی رضی اللہ عنہ ُ نے عمر الفاروق رضی اللہ عنہ ُ کو امیر المؤمنین مانا ہے ، مگر علی رضی اللہ عنہ ُ کی محبت اور شیعیت کا راگ الاپنے والے عمر الفاروق رضی اللہ عنہ ُ کو امیر المؤمنین نہیں مانتے اور اپنی اس باطل ضِد کو دُرُست دکھانے کے لیے اپنے ہی امام رضی اللہ عنہ ُ کو بھی """ تقیہ """ کرنے والے بنانے پر لگ جاتے ہیں ، ولا حول ولا قوۃ الا باللہ،
خیر ، اِس وقت میرا موضوع لوگوں امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ اور اُن کے اہل خانہ و اولاد سے نام نہادمحبت نہیں ، بلکہ اُس غلط روایت کی حقیقت واضح کرنا ہے جِسے لوگ اپنے باطل عقائد کی دلیل بنانے کی کوشش کرتے ہیں ،
آخر میں گذارش ہے کہ ، جو کچھ ہمارے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دُوسرے بلا فصل خلیفہ ، ہمارے دُوسرے بلا فصل أمیر عُمر الفاروق نے اپنے اِس قول میں اِرشاد فرمایا ہے ،اُس کی جو شرح میں نے اپنی کتاب میں سے اقتباس کے طور پر پیش کی ہے ، تقریباً وہی کچھ امام البیہقی رحمہُ اللہ نے بھی اپنی """شعب الایمان"""میں اِسی کمزور سند والی کمزور نا قابل حجت روایت کے بعد اِن الفاظ میں لکھی ہے کہ :::
""" قَالَ الشَّيْخُ أَحْمَدُ: " أَبُو هَارُونَ الْعَبْدِيُّ غَيْرُ قَوِيٍّ فَإِنْ صَحَّ فَأَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ كَانَ قَدْ عَبَدَ الْحَجَرَ فَحِينَ أَهْوَى إِلَى الرُّكْنِ كَأَنَّهُ هَابَ مَا كَانَ عَلَيْهِ فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَتَبَرَّأَ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سِوَى اللهِ تعالى وَأَخْبَرَهُ بِأَنَّهُ حَجَرٌ لَا يَضُرُّ وَلَا يَنْفَعُ يُرِيدُ مَا كَانَ عَلَى هَيْئَتِهِ حَجَرًا وَإِنَّهُ إِنَّمَا يَقَبِّلُهُ مُتَابَعَةً لِلسُّنَّةِ،
وَقَوْلُ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: إنَّهُ يَضُرُّ وَيَنْفَعُ يُرِيدُ بِهِ إِذَا خَلَقَ اللهُ تَعَالَى فِيهِ حَيَاةً وَأَذِنَ لَهُ فِي الشَّهَادَةِ وَذَلِكَ أَنَّهُ يَعْلَمُ بِخَبَرِ الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ عِنْدَهُ فِي ذَلِكَ خَبَرٌ فَأَخْبَرَ بِهِ فَقَبَّلَهُ عُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا :::شیخ احمد کا کہنا ہے کہ ، ابو ھارون العبدی مضبوط (یعنی قابل اعتماد)نہیں ،اگر یہ (بات)صحیح ثابت ہوتی ہو تو (پھر اِس کا مفہوم یہ ہے کہ)أمیر المؤمنین عُمر رضی اللہ عنہ ُ چونکہ( اِسلام سے پہلے اِس کالے) پتھر کی عبادت کرتے تھے، پس جب وہ (حجر اسودوالے)کونے کے پاس پہنچے تو اِسلام سے پہلے والے زمانے میں اُن پر پائے جانے والےخیالات کی وجہ سے (دوسروں کے لیے عقائد میں غلطی کا)اندیشہ محسوس کیالہذا اللہ تعالیٰ کے عِلاوہ ہر چیز سےبری الذمہ ہوتے ہوئے یہ خبر دِی کہ یہ حجر اسود تو محض ایک پتھر ہے ، اپنے پتھر ہونے کی صُورت اور کیفیت میں کسی کو کوئی فائدہ یا نقصان نہیں پہنچا سکتا ،اور وہ اِس پتھر کو صِرف (نبی اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم )کی سُنّت کی پیروی کرتے ہوئے چُوم رہے ہیں،
اور امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ کا فرمان کہ یہ پتھر نقصان اور فائدہ دیتا ہے تو اُن کی مُراد یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اِس پتھر کو زندگی دے گا اور اِسے گواہی دینے کی اجازت دے گا (تو یہ پتھر فائدہ یا نقصان دینے والا ہوجائے گا)اور یہ بات انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی خبر کے ذریعے جانی ، اور اِس معاملے کے بارے یہ خبر اُن(یعنی أمیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ)کے پاس تھی لہذا اُنہوں نے یہ خبر (أمیر المؤمنین) عُمر( رضی اللہ عنہ ُ) کو دِی تو اُنہوں نے (یعنی أمیر المؤمنین عُمر رضی اللہ عنہ ُ)نے حِجر اسود کو چُوما ، اللہ اُن دونوں پر راضی ہوا"""
لہذا یہ واضح ہے اور الحمد للہ صدیوں پہلے کے أئمہ کرام رحمہم اللہ کے بیان سے واضح ہے کہ ہمارے أمیر المؤمنین عُمر الفاروق یہ حجر اسود کے بارے میں کہا ہوا قول توحید خالص کا ایک سبق ہے ، اور کسی بھی چیز کی کسی فضیلت کی بنا پر اُس چیز کے لیے اُس فضیلت سے بڑھ کچھ بھی اور ماننے کو غلط ثابت کرنے والا ہے ، پس مُبارک اور متبرک وہی چیز ، مُقام یا لوگ مانے جا سکتے ہیں جِس کے بارے میں اُن کے با برکت ، مُبارک یا متبرک ہونے کی خبر اللہ تبارک و تعالیٰ یا اُس کے خلیل محمد رسول اللہ صلی علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے ثابت ہو ،
محترم قارئین ، دیکھ لیجیے کہ اگر اس روایت کو دُرست بھی مان لیا جائے تو بھی صدیوں پہلے ہمارے أئمہ کرام رحمہم اللہ کی طرف سے اِس میں ہمارے دونوں أمیروں کی بہترین فقہ اور خالص توحیدی عقیدے کے مطابق شرح پیش کی جا چکی ہے ، جو کسی بھی قِسم کے غلط عقیدے کو رد کرنے والی ہے ، وللہ الحمد ،
اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو حق پہچاننے ، جاننے ، ماننے ، اپنانے اور اُس پر عمل پیرا رہتے ہوئے مرنے کی توفیق عطاء فرمائے، والسلام علیکم ۔
آمین