• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

داعش خلافت: بدعت و شرک کے نام پر خانہ کعبہ، مسجد النبوی، مسجد الحرام اور ہر متبرک جگہ کی تباہی

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
ارسلان بھائی اس کی بات کی بھی وضاحت کردیں کہ جو لوگ ’’ خانہ کعبہ کے غلاف اور دیواروں کو جیساکہ وفا صاحبہ نے اوپر بار بار ایک تصویر دی ہوئی ہے کو چھوتے ہیں ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟ ‘‘
اس کا جواب وفا صاحبہ نے بتکرار نہ ملنے کا شکوہ کیا ہے(حالانکہ اس کا جواب بھائیوں نے اوپر دے دیا ہوا ہے ) ، اس لیے اس حوالے سے ایک دفعہ اپنا نقطہ نظر واضح کردیں ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
ارسلان بھائی اس کی بات کی بھی وضاحت کردیں کہ جو لوگ ’’ خانہ کعبہ کے غلاف اور دیواروں کو جیساکہ وفا صاحبہ نے اوپر بار بار ایک تصویر دی ہوئی ہے کو چھوتے ہیں ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟ ‘‘
اس کا جواب وفا صاحبہ نے بتکرار نہ ملنے کا شکوہ کیا ہے(حالانکہ اس کا جواب بھائیوں نے اوپر دے دیا ہوا ہے ) ، اس لیے اس حوالے سے ایک دفعہ اپنا نقطہ نظر واضح کردیں ۔
دیکھیں اسلام نے جس چیز پر سب سے زیادہ اہمیت دی ہے وہ ہے اللہ کی عبادت (يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ۔۔۔سورة البقرة) اور جس طریقے کو زیادہ اہمیت دی ہے وہ ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ (وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّـهِ۔۔۔سورة النساء) اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا : (فَلْيَعْبُدُوا رَبَّ هَـٰذَا الْبَيْتِ ﴿٣۔۔۔سورة قريش)
غور کیجئے یہاں خانہ کعبہ کے رب اللہ تعالیٰ کی عبادت کی بات ہو رہی ہے ناکہ خانہ کعبہ کی، خانہ کعبہ ایک پتھر ہے ایک قبلہ ہے جس کی طرف رخ کر کے مسلمانوں نے اللہ کی عبادت کرنی ہے اور یہ قبلہ بھی کسی انسان نے مقرر نہیں کیا بلکہ یہ بھی اسی گھر کے رب کی طرف سے مقرر کیا گیا ہے۔(وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ۔۔۔سورة البقرة)

اب اگر کسی کے پاس خانہ کعبہ کی دیواروں کو چھونے، برکت حاصل کرنے، اور اس کے وسیلے سے دعا مانگنے کی بابت کوئی دلیل قرآن و حدیث سے ہو تو وہ پیش کر دے ہم اپنے موقف پر نظرثانی کر لیتے ہیں، اگر نہیں ہے اور محض قیاس آرائیاں ہیں تو پھر اپنے مخالفین کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنی اصلاح کی طرف توجہ دیں۔

خلاصہ
خلاصہ یہ ہے کہ اگر کوئی خانہ کعبہ کو مشکل کشا، حاجت روا، یا بلائیں ٹالنے والا پتھر سمجھ کر اسے چھوتا ہے یا اس کے وسیلے سے دعا مانگتا ہے تو ایسا شخص مشرک ہے اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ خانہ کعبہ کا وسیلہ دے کر دعا مانگنے سے گریز کیا جائے اور واضح انداز سے اللہ کو ڈائریکٹ پکارا جائے جیسا کہ اللہ کا حکم بھی ہے۔

ہاں خانہ کعبہ کو چھونا اور چومنا اگر کسی عقیدے کے تحت نہیں، محض ایک محبت کا اظہار ہے کہ اللہ کے گھر کو ہاتھ لگایا جائے یا قریب سے دیکھا جائے اور اس سے کسی عقیدے کی خرابی وابستہ نہ ہو تو میرے خیال میں اس سے کوئی حرج نہیں ہوتا، لیکن یہ بھی میرا صرف ایک موقف ہے اگر یہ موقف بھی کتاب و سنت کے خلاف ثابت ہو جائے تو یہ بھی رد ہے۔
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
خانہء کعبہ پہ حملہ کرنا داعش کا نہیں,شیعہ حزب الشیطان کا عزم ہے

خانہء کعبہ پہ حملہ کرنا داعش کا نہیں,حزب الشیطان کا عزم ہے -
شیعوں کی دہشت گرد تنظیم حزب اللہ (حزب الشیطان) کا پلید کتا اپنے ناپاک عزائم کا اظہار کرتے ہوئے کہہ رہا ہے:

"ہم نے ایک لشکر تیار کرلیا ہے- ہم عنقریب حرمین شریفین میں نماز اداء کریں گے انشاءاللہ-"

اینکرمین: "میں سمجھ نہیں سکا اس سے آپ کی کیا مراد ہے کہ آپ عنقریب حرمین شریفین میں نماز اداء کریں گے؟ کیا اس سے آپ کی مراد یہ ہے کہ آپ لوگ حرمین شریفین پہ حملہ کریں گے؟"

حزب الشیطان کا کتا: "ہم سعودی عرب کے ملحد و بے دین اور کافرانہ نظام کو تہس نہس کریں گے اور ان کو بھی ختم کریں گے جو فوجی طاقت پیدا کررہے ہیں اور اسلام اور نبی کے باغی ہیں اور امریکہ اور اسرائیل کی بھرپور تائید کرتے ہیں-"

اینکرمین: "آپ لوگ کیوں ان سے جنگ کریں گے؟"

حزب الشیطان کا کتا: "میں نے کہا ناں! امام مہدی(سلمہ اللہ) کا ظہور قریب ہے اور وہ عنقریب آئیں گے انشاءاللہ اور ہم ان کے ساتھ سعودیہ کا رخ کریں گے اور سعودیہ کو آذاد کرائیں گے-"
.............******--------------******..............
مسلمانو! یقین رکھو! اللہ سبحانہ و تعالی عاجز نہیں ہے کہ کوئ کافر و ملحد کعبۃاللہ پہ قابض ہو جائے, اللہ کے حبیب (صلی اللہ علیہ وسلم) کے منبر کی عظمت کھو نہیں گئ ہے کہ کوئ کافر نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے منبر پر براجمان ہو جائے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ شیعہ کافر حرمین شریفین کے اماموں پہ کفر کے فتوے لگا کر حملہ کرنا چاہتا ہے-

مسلمانو! اللہ کے گھر اور اس کے محبوب (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سرزمین کے محافظ بن جاؤ ! ہم نے شیعوں کے کالے عزائم سے آپ کو آگاہ کر دیا ہے اب اس سچ کو دیگر مسلمانوں تک پہچانا آپ کی بھی ذمہ داری ہے- یاد رہے! ایرانی شیعہ کافروں نے 1987 میں بھی خانہء کعبہ پر حملہ کرنے کی عملی کوشش کی تھی


 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
اس میں خانہ کعبہ پر حملے کی بات کہیں بھی نہیں ہے ۔ نہ عربی تقریر کے اندر اور نہ ہی اردو تحریر میں ۔ بلکہ ان کا ارادہ سعودی عرب پر حملہ کرنا اور حرمین سعودیوں کے قبضے سے چھڑانا ہے ۔ اللہم اجعل تدبیرہم تدمیرہم ۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
اس میں خانہ کعبہ پر حملے کی بات کہیں بھی نہیں ہے ۔ نہ عربی تقریر کے اندر اور نہ ہی اردو تحریر میں ۔ بلکہ ان کا ارادہ سعودی عرب پر حملہ کرنا اور حرمین سعودیوں کے قبضے سے چھڑانا ہے ۔ اللہم اجعل تدبیرہم تدمیرہم ۔
آمین یا رب العامین
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
یہ وہ لوگ ہیں جو خود پر ہزار قتل معاف رکھتے ہیں۔
آج تک میرے 110 مراسلوں کے بعد میرے کتنے سوالوں کا جواب دیا ہے جو اپنی ہر پوسٹ میں لکھتے ہیں کہ "میرے سوالوں کا جواب دو"؟؟؟ کیا اپنی یہ منافقتیں (ڈبل سٹینڈرڈز) نظر آتے ہیں؟

کیا تصویر دیکھ کر کچھ یاد آیا؟



اگر آنکھیں کھلی رکھی ہوتیں تو وہ سینکڑوں روایات بھی نظر آ جاتیں جسکے تحت یہ عقیدہ معاویہ ابن ابی سفیان کا ہی نہیں، بلکہ جمیع صحابہ اور بذاتِ خود رسول (ص) کا تھا کہ جو چیز شعائر اللہ سے مس ہو گئی، وہ متبرک ہو گئی۔


ہاں، اپنی حد تک ۔ اگر کوئی بشری غلطی نہ ہوئی ہو تو۔

السلام علیکم-

رمضان میں تھوڑا مصروف تھا -آپ کے سوال کا جواب جو ابھی تک آپ کو نہیں مل رہا تھا وہ یہاں موجود ہے -

خانہ کعبہ کی دیوار کے ساتھ سینہ اور چہرہ لگانا

یعقوب بن ابراہیم، ہشیم، عبدالملک، عطاء، اسامۃ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ خانہ کعبہ میں داخل ہوا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خداوند قدوس کی تعریف بیان فرمائی پھر تکبیر اور تہلیل کہا اور خانہ کعبہ کے سامنے والی دیوار کی جانب تشریف لے گئے اور اپنا سینہ اپنے رخسار اور دونوں ہاتھ اس پر رکھ کر تکبیر و تہلیل کی اور دعا مانگی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تمام کونوں میں جا کر اس طریقہ سے کیا پھر باہر آ گئے اور دروازہ پر پہنچ کر قبلہ کی جانب رخ کر کے فرمایا کہ یہ قبلہ ہے یہ قبلہ ہے۔
 

وفا

مبتدی
شمولیت
جولائی 15، 2014
پیغامات
48
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
18
السلام علیکم-

رمضان میں تھوڑا مصروف تھا -آپ کے سوال کا جواب جو ابھی تک آپ کو نہیں مل رہا تھا وہ یہاں موجود ہے -

خانہ کعبہ کی دیوار کے ساتھ سینہ اور چہرہ لگانا

یعقوب بن ابراہیم، ہشیم، عبدالملک، عطاء، اسامۃ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ خانہ کعبہ میں داخل ہوا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خداوند قدوس کی تعریف بیان فرمائی پھر تکبیر اور تہلیل کہا اور خانہ کعبہ کے سامنے والی دیوار کی جانب تشریف لے گئے اور اپنا سینہ اپنے رخسار اور دونوں ہاتھ اس پر رکھ کر تکبیر و تہلیل کی اور دعا مانگی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تمام کونوں میں جا کر اس طریقہ سے کیا پھر باہر آ گئے اور دروازہ پر پہنچ کر قبلہ کی جانب رخ کر کے فرمایا کہ یہ قبلہ ہے یہ قبلہ ہے۔
سوال: آپ اس روایت کو بطور جواز پیش کر رہے ہیں۔ تو کیا آپکے مطابق یہ روایت "صحیح" ہے۔
 
Last edited:

وفا

مبتدی
شمولیت
جولائی 15، 2014
پیغامات
48
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
18
محدث فتویٰ کمیٹی کا فتوی
اصول: جو چیز رسول (ص) سے مس ہو گئی، وہ متبرک ہو گئی
http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/3108/0/

سوال:
حضرت اسماء (رض) نے ایک جبہ نکالا اور کہا: "یہ رسول اللہ کا جبہ ہے، یہ جبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات تک ان کے پاس تھا اس کے بعد میں نے اس پر قبضہ کرلیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس جبہ کو پہنتے تھے، ہم اس جبہ کو دھو کر اس کا پانی بیماروں کو پلاتے ہیں اور اس جبہ سے ان کے لیے شفا طلب کرتے ہیں۔"(صحیح مسلم، جلد نمبر:٣، حدیث:٥٣٧٦) اس حدیث کی اصل حقیقت کیا ہے
جواب:
یہ حدیث صحیح ہے اور مسلم شریف میں موجود ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس امت کے لئے باعث برکت تھی۔ آپ جس چیز کو چھو لیتے تھے ،اللہ تعالی اس میں برکت فرما دیتے تھے۔

سوا سو مراسلوں کے بعد بھی آپ اس اصول کے منکر تھے۔

آپ سے یہ سوال بھی کیا گیا تھا:

اصول یہ تھا کہ جو چیز بھی متبرک ہو، اسے وسیلہ بنایا جا سکتا ہے اور یہ چیز نہ تو بدعت ہے اور نہ ہی شرک۔
یہ روایت دیکھئے:۔
مسند احمد بن حنبل (مسند انس ابن مالک):

12480 حدثنا روح بن عبادة، حدثنا حجاج بن حسان، قال كنا عند أنس بن مالك فدعا بإناء وفيه ثلاث ضباب حديد وحلقة من حديد فأخرج من غلاف أسود وهو دون الربع وفوق نصف الربع فأمر أنس بن مالك فجعل لنا فيه ماء فأتينا به فشربنا وصببنا على رءوسنا ووجوهنا وصلينا على النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
ترجمہ:
’’ہم حضرت انس رضی اللہ عنہ کے پاس تھے کہ آپ نے ایک برتن منگوایا جس میں لوہے کے تین مضبوط دستے اور ایک چھلا تھا۔ آپ نے اسے سیاہ غلاف سے نکالا، جو درمیانے سائز سے کم اور نصف چوتھائی سے زیادہ تھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے حکم سے اس میں ہمارے لیے پانی ڈال کر لایا گیا تو ہم نے پانی پیا اور اپنے سروں اور چہروں پر ڈالا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھا۔‘‘

شریعت فقط اللہ اور اسکے رسول کی بتائی ہوئی چیز کا نام ہے کیونکہ جبرئیل فقط اللہ کے رسول (ص) تک وحی لاتے تھے۔
مگر یہاں صحابہ اپنے اجتہاد سے اس پیالے سے برکت حاصل کرنے کے لیے پانی بھی پی رہے ہیں، اور پھر اپنے اجتہاد سے اس پانی کو اپنے سروں اور چہروں پر بھی ڈال رہے ہیں ، اور پھر اپنے اجتہاد سے رسول (ص) پر درود بھی پڑھ رہے ہیں۔

ادھر آپ حضرات کی حالت یہ ہے کہ ہم اگر اذان کے بعد درود پڑھ لیں تو آپکی طرف سے بدعت ضلالہ کے فتووں کے پہاڑ کھڑے ہو جاتے ہیں۔

کیا صحابہ کو اس "توفیقی" اور "غیر توفیقی" کا علم نہیں تھا؟ یا پھر صحابہ آپکے مقابلے میں درست تھے اور انہیں اس عام اصول کا علم تھا کہ جو چیز بھی رسول (ص) سے مس ہو گئی، وہ اس سے تبرک کر سکتے ہیں۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
محدث فتویٰ کمیٹی کا فتوی
اصول: جو چیز رسول (ص) سے مس ہو گئی، وہ متبرک ہو گئی
http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/3108/0/

سوال:
حضرت اسماء (رض) نے ایک جبہ نکالا اور کہا: "یہ رسول اللہ کا جبہ ہے، یہ جبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات تک ان کے پاس تھا اس کے بعد میں نے اس پر قبضہ کرلیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس جبہ کو پہنتے تھے، ہم اس جبہ کو دھو کر اس کا پانی بیماروں کو پلاتے ہیں اور اس جبہ سے ان کے لیے شفا طلب کرتے ہیں۔"(صحیح مسلم، جلد نمبر:٣، حدیث:٥٣٧٦) اس حدیث کی اصل حقیقت کیا ہے
جواب:
یہ حدیث صحیح ہے اور مسلم شریف میں موجود ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس امت کے لئے باعث برکت تھی۔ آپ جس چیز کو چھو لیتے تھے ،اللہ تعالی اس میں برکت فرما دیتے تھے۔

سوا سو مراسلوں کے بعد بھی آپ اس اصول کے منکر تھے۔

آپ سے یہ سوال بھی کیا گیا تھا:

اصول یہ تھا کہ جو چیز بھی متبرک ہو، اسے وسیلہ بنایا جا سکتا ہے اور یہ چیز نہ تو بدعت ہے اور نہ ہی شرک۔
یہ روایت دیکھئے:۔
مسند احمد بن حنبل (مسند انس ابن مالک):

12480 حدثنا روح بن عبادة، حدثنا حجاج بن حسان، قال كنا عند أنس بن مالك فدعا بإناء وفيه ثلاث ضباب حديد وحلقة من حديد فأخرج من غلاف أسود وهو دون الربع وفوق نصف الربع فأمر أنس بن مالك فجعل لنا فيه ماء فأتينا به فشربنا وصببنا على رءوسنا ووجوهنا وصلينا على النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
ترجمہ:
’’ہم حضرت انس رضی اللہ عنہ کے پاس تھے کہ آپ نے ایک برتن منگوایا جس میں لوہے کے تین مضبوط دستے اور ایک چھلا تھا۔ آپ نے اسے سیاہ غلاف سے نکالا، جو درمیانے سائز سے کم اور نصف چوتھائی سے زیادہ تھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے حکم سے اس میں ہمارے لیے پانی ڈال کر لایا گیا تو ہم نے پانی پیا اور اپنے سروں اور چہروں پر ڈالا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھا۔‘‘

شریعت فقط اللہ اور اسکے رسول کی بتائی ہوئی چیز کا نام ہے کیونکہ جبرئیل فقط اللہ کے رسول (ص) تک وحی لاتے تھے۔
مگر یہاں صحابہ اپنے اجتہاد سے اس پیالے سے برکت حاصل کرنے کے لیے پانی بھی پی رہے ہیں، اور پھر اپنے اجتہاد سے اس پانی کو اپنے سروں اور چہروں پر بھی ڈال رہے ہیں ، اور پھر اپنے اجتہاد سے رسول (ص) پر درود بھی پڑھ رہے ہیں۔

ادھر آپ حضرات کی حالت یہ ہے کہ ہم اگر اذان کے بعد درود پڑھ لیں تو آپکی طرف سے بدعت ضلالہ کے فتووں کے پہاڑ کھڑے ہو جاتے ہیں۔

کیا صحابہ کو اس "توفیقی" اور "غیر توفیقی" کا علم نہیں تھا؟ یا پھر صحابہ آپکے مقابلے میں درست تھے اور انہیں اس عام اصول کا علم تھا کہ جو چیز بھی رسول (ص) سے مس ہو گئی، وہ اس سے تبرک کر سکتے ہیں۔
اس بات کا تو کوئی منکر نہیں ہے، کہ حدیث میں جس چیز کے تبرک ہونے کا ذکر آیا ہے وہ صحیح ہے، اصل بات تو یہ ہے کہ ہر چیز جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مس ہو جائے وہ متبرک بن جاتی ہے اور اس کی تعظیم فرض ہو جاتی ہے، اس بات کی کتاب و سنت سے دلیل چاہئے، یہ حدیث تو آپ نے پہلے بھی پوسٹ کی تھی، اس وقت بھی میرا یہی جواب تھا، کیا کھجور کا تنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مس نہیں ہوا تھا، پھر بعد میں صھابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین نے اس تنے کو ہاتھ لگا کر تبرک حاصل کیوں نہیں کیا؟

دوسری بات جو آپ نے کی ہے ، وہ آپ کا من گھڑت فہم کے سوا کچھ نہیں، صھابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین نے جو تبرک حاصل کیا وہ جائز تبرک تھا، اور اس سے عقیدے کی کوئی خرابی نہیں آتی تھی، لیکن آپ نے اس سے بدعت کے جائز ہونے کا مفہوم کشید کر لیا جو کہ سراسر غلط ہے، بدعت کے متعلق صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کا طرزِ عمل تو یہ تھا:
امام دارمی بیان کرتے ہیں کہ ھم سے حکم بن مبارک نے بیان کیا، حکم بن مبارک کہتے ھیں کہ ھم سے عمروبن یحی نے بیان کیا،عمروبن یحی کہتے ھیں کہ میں نے اپنے باپ سے سنا،وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ھیں کہ انھوں نے فرمایا
"ھم نمازفجرسے پہلے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے دروازہ پر بیٹھ جاتے،اورجب وہ گھر سے نکلتے توان كے ساتھ مسجد روانہ ہوتے،ایک دن کا واقعہ ہے کہ ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ آئے اور کہا کیا ابوعبدالرحمن (عبداللہ بن مسعود) نکلے نہیں ؟ھم نے جواب دیا نہیں،یہ سن كر وہ بھی ساتہ بیٹھ گئے،یہاں تک ابن مسعود باہرنکلے،اورھم سب ان کی طرف کھڑے ہو گئے تو ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ ان سے مخاطب ہوئے اور کہا : ائے ابوعبدالرحمن ! میں ابھی ابھی مسجد میں ایک نئی بات دیکھ آ رہا ھوں،حالانکہ جوبات میں نے دیکھی وہ الحمد للہ خیر ہی ھے،ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ کونسی بات ھے؟ ابوموسی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگرزندگی رہی توآپ بھی دیکھ لیں گئے،کہا وہ یہ بات ھے کہ کچھ لوگ نمازكے انتظارميں مسجد کے اندرحلقہ بنائے بیٹھے ھیں،ان سب كے ہاتوں ميں كنكرھیں،اورہرحلقے میں ایک آدمی متعین ھے جو ان سے کہتا ہے کہ سو100 بار اللہ اکبر کہو،توسب لوگ سو بار اللہ اکبر کہتے ھیں،پھرکہتا ہے سو بار لاالہ الااللہ کہو توسب لوگ لاالہ الااللہ کہتے ہیں ،پھرکہتا ہے کہ سوبارسبحان اللہ کہو توسب سوبارسبحان اللہ کہتے ہیں-ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھرآپ نے ان سے کیا کہا ،ابوموسی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ آپ کی رائے کے انتظارمیں میں نے ان سے کچھ نہیں کہا؟ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ نے ان سے یہ کیوں نہیں کہ دیا کہ آپنے اپنے گناہ شمارکرو،اورپھراس بات کا ذمہ لےلیتے کہ ان کی کوئی نیکی بھی ضائع نہیں ہوگی- یہ کہ کرابن مسعود رضی اللہ عنہ مسجد کی طرف روانہ ہوئے اورھم بھی ان کے ساتھ چل پڑے،مسجد پہنچ کرابن مسعود رضی اللہ عنہ نے حلقوں میں سے ایک حلقے کے پاس کھڑے ہوکرفرمایا: تم لوگ کیا کررہے ہو! یہ کنکریاں ہیں جن پرھم تسبیح وتہلیل کررہے ہیں ،ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:اس کی بجائے تم اپنے اپنے گناہ شمارکرو،اورمیں اس بات کا ذمہ لیتا ہوں کہ تمھاری کوئی نیکی پھی ضائع نہیں ہوگی، تمھاری خرابی ھے اے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! ابھی توتمھارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کثیرتعداد میں موجود ہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےچھوڑے ہوئے کپڑے نہیں پھٹے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے برتن نہیں ٹوٹے اورتم اتنی جلدی ہلاکت کا اشکارہوگئے،قسم ہے اس ذات کی جسکے ہاتھ میں میری جان ہے! یا توتم ایسی شریعت پر چل رہے ہوجونبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت ھے -- نعوذوباللہ -- بہترھے،یا گمراہی کا دروازہ کھول رہے ہو-انھوں نے کہاائے ابوعبدالرحمن ! اللہ کی قسم اس عمل سے خیر کے سوا ھماراکوئی اورمقصدنہ تھا-ابن مسعود نے فرمایا ایسے کتنے خیرکے طلبگار ھیں جوخیرتک کبھی پہنچ ہی نہیں پاتے- چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ھم سے ایک حدیث بیان فرمائی کہ ایسی ايك قوم ايسى ہو گی جوقرآن پڑھے گی،مگرقرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا- اللہ کی قسم ! کیا پتہ کہ ان میں سے زیادہ ترشائد تمھیں میں ھوں- یہ باتیں کہ کرابن مسعود رضی اللہ عنہ ان کے پاس سے واپس چلے آئے- عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان حلقوں کے اکثرلوگوں کو ھم نے دیکھا کہ نہروان جنگ میں وہ خوارج کے شانہ بشانہ ھم سے نیزہ زنی کررہے تھے۔
سنن دارمی


قارئین حضرات! غور کیجئے وہ لوگ اللہ کی کبریائی ، اللہ کی تسبیح اور اللہ کی وحدانیت کے کلمے پڑھ رہے تھے اور ایک ایک بار نہیں بلکہ سو سو بار پڑھ رہے تھے، لیکن صحابی نے ان کے اس عمل کو ہلاکت گردانا اور صحابہ کرام کی کثیر جماعت کی موجودگی میں اس عمل کو بدعت جانا، پھر آگے سنئے انہوں نے بھی وہی کہا کہ ہم تو اس عمل سے خیر کے سوا کچھ نہیں چاہتے تو صحابی نے اس عمل کو خیر قرار نہیں دیا۔ وفا صاحبہ ہمیں بتانا پسند کریں گی کہ:
  • وہ لوگ جو پڑھ رہے تھے کیا وہ افضل چیز نہیں تھی؟
  • صحابی نے اس ذکر کو ہلاکت کیوں کہا؟
  • کیا وہ لوگ اس عمل کو خیر کے لئے نہیں کر رہے تھے یا دین کو بگاڑنے کی خاطر کر رہے تھے؟
  • کیا صحابی نے ان کی خیر کی نیت سن کر بھی رخصت دے دی یا ان کو کسی قسم کی کوئی خیر نہ ملنے کی طرف توجہ دلائی؟

ہم لوگوں کا یہ حال کہیں نہیں ہے کہ اذان کے بعد درود پڑھ لو تو بدعۃ الضلالۃ کے فتویٰ لگائیں، اذان کے بعدمسنون درود ہے جو احادیث سے ثابت ہے اور ایک دعا بھی ہے اور اس پر فضیلت بھی ہے۔ ہمارا جو اعتراض ہے وہ اذان سے پہلے خود ساختہ درود پڑھنے پر ہے، وہ نہ تو کسی حدیث سے ثابت ہے اور نہ ہی کسی صحابی کا اس پر عمل ہے، اگر آپ سمجھتی ہیں کہ اس پر دلیل ہے تو پیش کریں ورنہ آپ جان بوجھ کر بدعت کی مرتکب ہیں۔ اور دوسری بات آپ لوگ جو صلوۃ و سلام پڑھتے ہیں اس سے بھی آپ لوگوں کا مشرکانہ عقیدہ جھلکتا ہے۔ہم اس بات سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔
 
Top