• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

داعش نے یورپ کی طرف نقل مکانی کو گناہ کبیرہ قرار دیدیا

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
اوپر محترم ابن داود بھائی نے جو عربی خبر پوسٹ کی اسکی دو تین سطروں کا ترجمہ پیش خدمت ہے

لكن مجلة تنظيم الدولة الاسلامية الذي يسيطر على مساحات من اراضي العراق وسوريا يعيش فيها نحو عشرة ملايين شخص قالت ان من يغادر أرضه يرتكب "كبيرة من الكبائر"
تنظیم داعش جو اس وقت عراق اور شام کے وسیع رقبہ پر قابض ہے جہاں کروڑوں کی آبادی ہے،اس تنظیم کے ترجمان مجلہ کا کہنا ہے کہ جو آدمی اپنی زمین کو چھوڑ کر(دوسرے ملک ) جائے گا ،وہ کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوگا ؛
وأضافت "فلتعلموا أن ترك دار الاسلام الى دار الكفر طوعا كبيرة من الكبائر لانه طريق يؤدي الى الكفر وباب يتيح لأبنائنا وأحفادنا ترك الاسلام واعتناق المسيحية أو الالحاد أو التحرر."
اور مزید کہا کہ آگاہ رہو :دار الاسلام کو چھوڑ کر دار الکفر میں جانا کبیرہ گناہ ہے کیونکہ یہ راستہ کفر تک لے جانے والا ۔۔اور اپنی اولاد کو ترک اسلام کی راہ پر ڈالنے کے مترادف ہے۔۔اور اس طرح عیسائیت و الحاد کا طوق خود اپنے گلے ڈالنا ہے
وقالت ان الهجرة الى اراضي المسيحيين تعرض الابناء والاحفاد الى "خطر الزنا والشذوذ والمخدرات والخمور."
تنظیم کا مزید یہ کہنا ہے کہ عیسائی ممالک میں جانا،اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو زنا و بے حیائی ،اور شراب نوشی کیلئے پیش کرنا ہے،
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
جس طرح کفار اور ان کے فرنٹ لائن کے اتحادیوں نے پہلے کئ پروپیگینڈے کیے تھے ، ان ہی سلسلے کی یہ ایک کڑی ہے ۔
کبھی کہتے تھے کہ تراویح کی نماز پر کبھی نمازعید پر پابندی کا اور کبھی یہ کہ دولۃ الاسلامیہ میں دھڑوں میں تقسیم ہوگئ ، کبھی کہا کہ محاذپر مشرکین کی عورتوں سے پسپائی ،وغیرہ ۔
کیا یہ خبر سچ ہیں
داعش کا عراق میں داڑھی منڈوانے پر سزائے موت کا اعلان
ویب ڈیسک منگل 15 ستمبر 2015

داعش نے موصل میں داڑھی منڈوانے یا اسے چھوٹا کرنے پر کوڑے مارنے کی سزا مقرر کی تھی فوٹو: فائل

بغداد: داعش نے عراق میں اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں داڑھی منڈوانے یا اسے چھوٹا کرنے پر کوڑوں کی سزا کو سزائے موت میں تبدیل کردیا ہے۔

عرب ویب سائیٹ ’’العربیہ‘‘ کے مطابق عراق میں داعش کی جانب سے شہریوں میں تقسیم کے گئے پمفلٹس میں کہا گیا ہے کہ کوئی شخص داڑھی نہیں منڈوا سکتا اور نہ ہی کسی کو داڑھی کو چھوٹی کرنے کی اجازت ہے۔ لوگ داڑھی کے معاملے میں “داعش” کے باریش جنگجوؤں کی پیروی کریں۔ جس طرح ان کی داڑھیاں سینے تک پہنچ رہی ہیں۔ ہر شہری کی داڑھی بھی اسی طرح لمبی ہونی لازمی ہے۔ ایسا نہ کرنے والے شخص کو “استرے” سے ذبح کردیا جائے گا۔

واضح رہے کہ داعش نے موصل میں داڑھی منڈوانے یا اسے چھوٹا کرنے پر کوڑے مارنے کی سزا مقرر کی تھی
۔
قل موتوابغیظکم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

radebatil

مبتدی
شمولیت
ستمبر 17، 2015
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
2
اوپر محترم ابن داود بھائی نے جو عربی خبر پوسٹ کی اسکی دو تین سطروں کا ترجمہ پیش خدمت ہے

لكن مجلة تنظيم الدولة الاسلامية الذي يسيطر على مساحات من اراضي العراق وسوريا يعيش فيها نحو عشرة ملايين شخص قالت ان من يغادر أرضه يرتكب "كبيرة من الكبائر"
تنظیم داعش جو اس وقت عراق اور شام کے وسیع رقبہ پر قابض ہے جہاں کروڑوں کی آبادی ہے،اس تنظیم کے ترجمان مجلہ کا کہنا ہے کہ جو آدمی اپنی زمین کو چھوڑ کر(دوسرے ملک ) جائے گا ،وہ کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوگا ؛
وأضافت "فلتعلموا أن ترك دار الاسلام الى دار الكفر طوعا كبيرة من الكبائر لانه طريق يؤدي الى الكفر وباب يتيح لأبنائنا وأحفادنا ترك الاسلام واعتناق المسيحية أو الالحاد أو التحرر."
اور مزید کہا کہ آگاہ رہو :دار الاسلام کو چھوڑ کر دار الکفر میں جانا کبیرہ گناہ ہے کیونکہ یہ راستہ کفر تک لے جانے والا ۔۔اور اپنی اولاد کو ترک اسلام کی راہ پر ڈالنے کے مترادف ہے۔۔اور اس طرح عیسائیت و الحاد کا طوق خود اپنے گلے ڈالنا ہے
وقالت ان الهجرة الى اراضي المسيحيين تعرض الابناء والاحفاد الى "خطر الزنا والشذوذ والمخدرات والخمور."
تنظیم کا مزید یہ کہنا ہے کہ عیسائی ممالک میں جانا،اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو زنا و بے حیائی ،اور شراب نوشی کیلئے پیش کرنا ہے،
دولتہ اسلامیہ کی خبرہے یا نہیں اس سے قطعہ نظر کیا دارلکفر کی طرف ہجرت جائز ہے؟
: اپنے ملك كى بجائے وہ يورپى ممالك ميں دين پر زيادہ عمل كر سكتا ہے، تو كيا اس پر ہجرت كرنا لازم ہے؟

ميں ايك مغربى ملك ميں سكونت پذير ہوں، اور الحمد للہ بغير كسى تنگى اور ركاوٹ كے دينى احكام پر عمل كر سكتا ہوں، ميں نے آپ كى ويب سائٹ پر كچھ احاديث كا مطالعہ كيا ہے جو كفار كے درميان بود و باش اختيار كرنے اور كفار ممالك ميں رہنے سے منع كرتى ہيں.
اب ميں بہت زيادہ حيران و پريشان ہوں كہ آيا ميں اپنے ملك واپس پلٹ جاؤں يا اسى ملك ميں باقى رہوں، يہ علم ميں رہے كہ اگر ميں اپنے ملك واپس جاؤں تو دينى احكام پر عمل كرنے كى بنا پر مجھے بہت سى تنگى اور ركاوٹوں اور اذيتوں كا سامنا كرنا ہوگا، اور ميں وہاں عبادت كرنے ميں اتنى آزادى حاصل نہيں كرسكوں گا جتنى يہاں مجھے حاصل ہے.
ميرى گزارش ہے كہ ميرے سوال كا جواب عنائت فرمائيں اور اس ملك ميں رہنے كا حكم بيان كريں، خاص كر اب تو مسلمان ملك بھى كسى دوسرے ملك سے مختلف نہيں رہے، جہاں دينى شعائر كا التزام كيا جاتا ہو ؟

الحمد للہ:

اصل بات تو يہى ہے كہ مسلمان شخص كے ليے مشركوں اور كافروں كے درميان رہنا جائز نہيں، اس حكم پر بہت سى قرآنى آيات اور احاديث بھى دلالت كرتى ہيں، اور صحيح نظر بھى اسى كى غماز ہے:

كتاب اللہ سے دلائل:

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

{جو لوگ اپنى جانوں پرظلم كرنے والے ہيں جب فرشتے ان كى روح قبض كرتے ہيں تو پوچھتے ہيں، تم كس حال ميں تھے؟

يہ جواب ديتے ہيں كہ ہم اپنى جگہ كمزور اور مغلوب تھے، فرشتے كہتے ہيں كيا اللہ تعالى كى زمين كشادہ نہ تھى كہ تم ہجرت كر جاتے؟

يہى لوگ ہيں جن كا ٹھكانا جہنم ہے، اور وہ پہنچنے كى بہت برى جگہ ہے} النساء ( 97 ).

سنت نبويہ سے دليل:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ميں ہر اس مسلمان سے برى ہوں جو مشركوں كے درميان رہتا ہے"

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2645 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اسے صحيح ابو داود ميں صحيح كہا ہے.

اور صحيح نظر اور غور كرنے سے بھى يہ معلوم ہوتا ہے كہ:

مشركوں اور كافروں كے مابين رہنے والا مسلمان شخص بہت سے اسلامى شعائر اور ظاہرى عبادات پر عمل پيرا نہيں ہو سكتا، اس كے ساتھ ساتھ اسے اپنے آپ كو فتنہ و فساد كے سامنے بھى پيش كرنا پڑے گا، كيونكہ ان ممالك ميں جو فحاشى اور بے حيائى و بے پردگى ظاہر ہے اور ان ممالك كا قانون اس فحاشى اور بدكارى كا محافظ بھى ہے، تو مسلمان كو كوئى حق نہيں اور نہ ہى اس كے شايان شان ہے كہ وہ اپنے آپ كو اس طرح كے فتنوں اور آزمائشوں ميں ڈالے.

يہ تو اس وقت ہے جب ہم كتاب اللہ اور سنت نبويہ كے دلائل كى طرف نظر دوڑائيں اور اسلامىاور كفار ممالك كى جانب نظر نہ دوڑائيں، ليكن اگر ہم اسلامى ممالك كى طرف فى الواقع نظر دوڑائيں تو ہم سائل كےقول ( اور خاص كر اسلامى ممالك بھى اسلامى احكام كا التزام كرنے ميں دوسرے ممالك سے بہت زيادہ مختلف نہيں رہے ) كى موافقت نہيں كرتے، كيونكہ يہ عمومى طور پر كہنا صحيح نہيں، كيونكہ سارى اسلامى حكومتيں شريعت اسلاميہ كے احكام لاگو كرنے اور اس كا التزام كرنے ميں ايك جيسى نہيں، بلكہ ان ميں فرق ہے، بلكہ ايك ہى ملك كے اندر علاقوں اور شہروں كے اعتبار سے اختلاف پايا جاتا ہے.

اور پھر سارے كفار ممالك بھى فحاشى و عريانى اور بے حيائى اور اخلاقى طور پر ايك جيسے نہيں، بلكہ وہ بھى اس ميں ايك دوسرے سے مختلف ہيں.

لھذا اسلامى ممالك كا ايك دوسرے سے مختلف ہونا، اور كفريہ ممالك كا بھى ايك دوسرے سے مختلف ہونے كو ديكھتے ہوئے.

اور پھر اسے بھى مدنظر ركھتے ہوئے كہ ہر مسلمان شخص اس كى استطاعت نہيں ركھتا كہ كسى بھى اسلامى ملك ميں جا كر رہائش اختيار كرلے كيونكہ ويزوں اور اقامہ وغيرہ كے سخت قوانين پائے جاتے ہيں،

اور اسے بھى مد نظر ركھتے ہوئے كہ ہو سكتا ہے مسلمان شخص كچھ اسلامى ممالك ميں اسطرح دينى معاملات اور احكام پر عمل نہ كر سكتا ہو جس طرح وہ بعض يورپى اور كفريہ ممالك ميں بعض اسلامى شعائر يا سارے اسلامى شعائر پر عمل كر سكتا ہے.

يہ سب كچھ ديكھتے ہوئے اب ايك عام حكم صادر كرنا اور ايسا حكم لگانا جو سب ممالك اور سب اشخاص كے ليے عام ہو ايسا حكم مشكل ہے، بلكہ يہ كہا جا سكتا ہے:

ہر مسلمان شخص كى حالت خاص ہے، اور اس كے ليے حكم بھى خاص ہو گا، اور ہر آدمى اپنے آپ كا محاسبہ كرے، اگر تو اس كے ليے ان اسلامى ممالك ميں جہاں وہ رہ سكتا ہے دين پر عمل كرنا كفار ممالك سے زيادہ آسان اور ممكن ہے تو پھر اس كے ليے كفريہ ممالك ميں رہنا جائز نہيں ہے.

اور اگر معاملہ اس كے برعكس ہو يعنى وہ اسلامى ملك كى بجائے كفريہ ملك ميں زيادہ آسانى سے دين پر عمل كر سكتا ہے تو پھر ايك شرط كے ساتھ اسے كفريہ ملك ميں رہنا جائز ہو گا: كہ اسے اپنے آپ پر اتنا كنٹرول ہو كہ وہ وہاں پائى جانے والى بے حيائى اور فحاشى وبدكارى اور فتنوں سے شرعى وسائل كے ساتھ محفوظ رہ سكے.

اس كى تائيد ميں ہم اہل علم كے اقوال درج كرتے ہيں:

اس مسئلہ كى متعلق شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے دريافت كيا گيا تو ان كا جواب تھا:

جيسا كہ اوپر بيان كيا جا چكا ہے كہ ممالك كے مختلف ہونے كو مدنظر ركھتے ہوئے يہ مسئلہ سب سے مشكل مسائل ميں سے ہے، اور اس ليے بھى كہ كفار كے ممالك ميں بسنے والے بعض مسلمان اگر اپنے ممالك واپس جائيں تو انہيں تنگ كيا جائےگا اور انہيں سزائيں دى جائيں گى اور ان كے دين ميں انہيں آزمائش ميں ڈالا جائےگا، جبكہ وہ كفريہ ممالك ميں اس سے امن ميں ہيں.

پھر اگر ہم انہيں يہ كہيں كہ: كفار كے درميان تمہارا رہنا حرام ہے، تو پھر وہ كونسا اسلامى ملك ہے جو انہيں قبول كرے اور ان كا استقبال كرے، اور انہيں اپنے ملك ميں بسنے كى اجازت دے؟!

شيخ رحمہ اللہ تعالى كى كلام كا معنى يہى ہے.

زكريا انصارى شافعى رحمہ اللہ تعالى اپنى كتاب" اسنى المطالب" ميں كہتے ہيں:

اگر دين كا اظہار كرنے سے عاجز ہو تو استطاعت ركھنے والے پر دار كفر سے دار اسلام كى طرف ہجرت كرنى واجب ہے. اھـ

ديكھيں: اسنى المطالب ( 4 / 207 ).

اور ابن عربى مالكى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

دار الحرب سےنكل كر دار الاسلام جانے كو ہجرت كہا جاتا ہے، اور يہ نبى صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں فرض تھى، ان كے بعد بھى ہر اس شخص كے ليے جارى ہے جو اپنے نفس كا خطرہ محسوس كرے. اھـ

ماخوذ از: نيل الاوطار ( 8 / 33 ).

اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى مندرجہ ذيل حديث كى شرح ميں كہتے ہيں:

" ميں مشركوں كے درميان رہنے والے ہر مسلمان شخص سے برى ہوں"

حافظ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اسے اس پر محمول كيا جائےگا جو اپنے دين كے متعلق خوفزدہ ہو. اھـ

ديكھيں: فتح البارى شرح حديث نمبر ( 2825 ).

اور الموسوعۃ الفقھيۃ ميں ہے:

دار الحرب ہر وہ جگہ اور ٹكڑا ہے جس ميں كفريہ احكام ظاہر ہوں.

دارالحرب كے متعلقہ احكام ميں ہجرت بھى شامل ہے:

فقھاء كرام نے دارالحرب سے ہجرت كے معاملہ ميں لوگوں كو تين اقسام ميں تقسيم كيا ہے:

پہلى قسم:

جس پر ہجرت واجب ہے:

يہ وہ شخص ہے جو ہجرت كرنے پر قادر ہو، اور دارالحرب ميں رہتے ہوئے اپنے دين كو ظاہر نہ كر سكتا ہو، اور اگر يہ عورت ہو اور اس كا كوئى محرم نہ ہو تو اگر وہ راستہ كو اپنے ليے پرامن سمجھے اور خطرہ نہ محسوس كرتى ہو، يا راستے ميں دارالحرب ميں رہنے سے كم خطرہ ہو...

دوسرى قسم:

جس پر ہجرت نہيں ہے:

وہ شخص جو ہجرت كرنے سے عاجز ہو، يا تو بيمارى كى بنا پر، يا پھر دار الكفر ميں رہائش ركھنے پر مجبور كيا گيا ہو، يا كمزور ہو مثلا عورتوں اور بچوں كى طرح، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

{مگر كمزور مرد اور عورتيں اور بچے جو حيلہ كرنے كى استطاعت نہيں ركھتے، اور نہ ہى وہ كوئى راہ پاتے ہيں}.

تيسرى قسم:

جس كے ليے ہجرت كرنى جائز ہے واجب نہيں:

يہ وہ شخص ہے جو ہجرت كرنے پر قادر ہے اور دارالحرب ميں دينى شعائر كا اظہار بھى كرسكتا ہے، تو ايسے شخص كے ليے ہجرت كرنى جائز اور مستحب ہے تا كہ وہ جہاد كر سكے، اور مسملمانوں كى تعداد ميں كثرت كا باعث بنے. اھـ

اختصار كے ساتھ

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 20 / 206 )

اور مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے:

اور مسلمان كے ليے ايك شركيہ ملك سے دوسرے شركيہ ملك كى طرف ہجرت كرنا بھى كم شر كا باعث ہو گى، جيسا كہ بعض مسلمانوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے حكم سے مكہ مكرمہ سے حبشہ كى طرف ہجرت كى. اھـ

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العليمۃ والافتاء ( 12 / 50 ).

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ مسلمانوں كى اصلاح فرمائے اور ان كے حالات درست فرمائے.

واللہ اعلم .
http://islamqa.info/ur/13363
 

radebatil

مبتدی
شمولیت
ستمبر 17، 2015
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
2
: ہجرت والے ملك كے واجبى اوصاف

وہ كونسى واجبى شروط ہيں جن كى بنا پر كوئى ملك دار الحرب يا دار الكفر بنتا ہے ؟

الحمد للہ:

ہر وہ ملك جس كے حكمران اور ذمہ داران اور كنٹرول ركھنے والے اس ملك ميں اللہ تعالى كى حدود كا نفاذ كريں، اور اپنى رعايا پر شريعت اسلاميہ كو نافذ كرتے ہوں، اور اس ميں رعايا شريعت اسلاميہ كے واجب كردہ امور سرانجام دينے كى استطاعت ركھے تو اسے دارالاسلام كہا جاتا ہے.

لھذا وہاں بسنے والے مسلمان نيكى و بھلائى كے كاموں اس ملك كے حكمرانوں كى اطاعت و فرمانبردارى كريں، اور انہيں نصيحت كريں اور ان كى خير خواہى كريں، اور ملك كے امور چلانے ميں ان كے ممد و معاون ثابت ہوں اور انہيں جو علمى اور عملى قوت دى گئى ہے اس كے ساتھ ملك كى خدمت كريں، اور وہاں بود وباش اختيار كريں، اور وہاں سے اسلامى ملك كے علاوہ كہيں اور منتقل نہ ہوں، تو اس ميں ان كى حالت بہتر اور افضل ہو گى.

يہ نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى ہجرت اور اس كے ايك اسلامى مملكت بن جانے كے بعد مدينہ كى طرح ہے، اور فتح مكہ كے بعد مكہ مكرمہ كى طرح؛ كيونكہ وہ فتح ہوجانےاور اس كے امور مسلمانوں كے ہاتھ آجانےسے دارالاسلام بن گيا، حالانكہ پہلے دارالحرب تھا اور وہاں بسنے والے مسلمانوں پر ہجرت كى قدرت ركھنے پر وہاں سے ہجرت كرنا واجب تھا.

اور ہر وہ ملك جہاں كے حكمران اور ذمہ داران اور كنٹرول ركھنے والے افراد اس ميں حدود اللہ كا نفاذ نہ كريں، اور وہاں كى رعايہ پر اسلامى شريعت كا نفاذ نہ كرتےہوں، اور نہ ہى وہاں بسنے والا مسلمان شعائر اسلام پر عمل كرنے كى طاقت ركھتا ہو؛ تو وہ دار الكفر ہے.

اس كى مثال فتح سے قبل مكہ كى ہے، كہ وہ دار الكفر تھا، اور اسى وہ ممالك جہاں كے بسنے والے اسلام كى طرف منسوب ہوتے ہيں، وہاں كے حكمران اللہ تعالى كے نازل كردہ قوانين نافذ نہيں كرتے، اور نہ ہى مسلمانوں كو دينى شعائر پر عمل كرنے كى قوت حاصل ہے، تو وہاں سے ہجرت كرنا واجب ہے تا كہ وہ اپنے دين كو بچا كر فتنوں سے فرار ہوں، اور ايسے ملك ميں جا كر بس جائيں جہاں اسلامى قوانين لاگوہيں، اور اپنے اوپر شرعى واجبات كى ادائيگى كى طاقت بھى ركھتے ہوں.

اور جو كوئى ہجرت نہ كر سكے اور ہجرت كرنے سے عاجز ہو، چاہے وہ مرد ہو يا عورت يا بچہ وہ معذور ہے، اور دوسرے ملكوں ميں بسنے والے مسلمانوں كو چاہيے كہ وہ اس ملك كو دار الكفر سے دارالاسلام بدلنے كى كوشش كريں اور اسے كفر سے بچائيں.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمانہ ہے:

جو لوگ اپنى جانوں پر ظلم كرنے والے ہيں جب فرشتے ان كى روح قبض كرتے ہيں تو پوچھتے ہيں، تم كس حال ميں تھے؟ يہ جواب ديتے ہيں كہ ہم اپنى جگہ كمزور و ناتواں اور مغلوب تھے، فرشتے كہتے ہيں كيا اللہ تعالى كى زمين كشادہ نہ تھى كہ تم ہجرت كر جاتے؟ يہى لوگ ہيں جن كا ٹھكانہ جہنم ہے اور وہ پہنچنے كى بہت برى جگہ ہے، مگر جو مرد اور عورتيں اور بچے بے بس ہيں جنہيں نہ تو كسى چارہ كار كى طاقت ہے اور نہ كسى راستے كا علم ہے، بہت ممكن ہے كہ اللہ تعالى ان سے درگزر كرے، اور اللہ تعالى درگزر كرنے والا معاف فرمانےوالا ہے النساء ( 97 - 99 ).

اورايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:

{بھلا كيا وجہ ہے كہ تم اللہ تعالى كى راہ ميں اور ان ناتواں اور كمزور مردوں، اور عورتوں، اور ننھے ننھے بچوں كے چھٹكارے كے ليے جہاد نہ كرو؟ جو يوں دعائيں مانگ رہے ہيں كہ اے اللہ ہمارے پروردگار ان ظالموں كى بستى سے ہميں نجات دے، اور ہمارے ليے خود اپنے پاس سے حمائتى مقرر فرما، اور ہمارے ليے خاص اپنے پاس سے مددگار بنا} النساء ( 75 ).

ليكن جو مسلمان اس ملك ميں دينى شعائر پر عمل كرنے اور ان كا اظہار كرنے كى استطاعت ركھتے ہوں، اور حكمران اور ذمہ داران پر حجت قائم كر سكتے ہوں، اور ان كے معاملات كى اصلاح كرنے كى استطاعت ركھيں، اور ان كى سيرت كو راہ راست پر لا سكتے ہوں، تو ان كے ليے ان كے درميان رہنا مشروع اور جائز ہے؛ كيونكہ اميد ہے كہ وہاں رہنے ميں ان كى اصلاح اور انہيں دعوت و تبليغ ہو گى، ليكن اس كے ساتھ اسے ان فتنوں سے محفوظ رہنا ہوگا.

واللہ اعلم .
http://islamqa.info/ur/3225
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
داعش نے یورپ کی طرف نقل مکانی کو گناہ کبیرہ قرار دیدیا
این این آئی پير 14 ستمبر 2015

ہجرت کرنیوالوں کا انجام سمندر میں ڈوبنے والے شامی بچے جیسا ہوگا، داعش کا انگریزی جریدے میں بیان فوٹو: فائل

بیروت: شدت پسند گروپ داعش نے شام سے یورپ اوردوسرے ملکوں کی طرف ہجرت کرنے والے شہریوں کوسنگین نتائج کی دھمکی دیتے ہوئے ان کی نقل مکانی کو گناہ کبیرہ قرار دیا ہے۔

عرب ٹی وی کے مطابق داعش کے انگریزی زبان میں شائع ہونے والے آن لائن جریدہ ’’دابق‘‘میں شائع ایک مضمون میں ترکی کے ساحل سے ملنے والی شامی بچے کی لاش کی تصویر کے ساتھ ایک مضمون میں پناہ گزینوں کوخبردار کیا گیا ہے کہ وہ ملک چھوڑ کر نہ جائیں ورنہ ان کاانجام بھی سمندر میں ڈوب کر جاں بحق ہونے والے ایلان کردی کی طرح خوفناک ہوگا۔

واضح رہے کہ شام میں جاری خانہ جنگی کے باعث لاکھوں افراد دوسرے ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہیں جب کہ دوسرے ممالک میں پناہ لینے کے دوران تارکین وطن کی کئی کشتیاں ڈوبنے سے سیکڑوں افراد جان کی بازی بھی ہار چکے ہیں
۔
لَا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ فِى ٱلۡبِلَـٰدِ (١٩٦) مَتَـٰعٌ۬ قَلِيلٌ۬ ثُمَّ مَأۡوَٮٰهُمۡ جَهَنَّمُ‌ۚ وَبِئۡسَ ٱلۡمِهَادُ (١٩٧)
(آل عمران)
" (اے رسول) کافروں کا شہروں میں چلنا پھرنا تمہیں دھوکا نہ دے ۔ (یہ دنیا کا) تھوڑا سا فائدہ ہے پھر (آخرت میں) تو ان کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ بری جگہ ہے ۔"


الترمذی نے اپنی سنن میں جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ :

((عَنْ جَرِیرِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعَثَ سَرِیَّۃً إِلَی خَثْعَمٍ فَاعْتَصَمَ نَاسٌ بِالسُّجُودِ فَأَسْرَعَ فِیہِمْ الْقَتْلَ فَبَلَغَ ذَلِکَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَ لَہُمْ بِنِصْفِ الْعَقْلِ وَقَالَ أَنَا بَرِیءٌ مِنْ کُلِّ مُسْلِمٍ یُقِیمُ بَیْنَ أَظْہُرِ الْمُشْرِکِینَ قَالُوا یَا رَسُولَ اللَّہِ وَلِمَ قَالَ لَا تَرَایَا نَارَاہُمَا))
(سنن الترمذی،ج۶،ص۱۳۸،رقم :۱۵۳۰۔سنن ابی داود،ج۷،ص۲۳۷،رقم :۲۲۷۴)


’’نبی ﷺ نے خثعم قبیلے کی طرف ایک دستہ بھیجا، تو ان لوگوں نے سجدوں میں پناہ لی، تو وہ جلدی سے قتل کردیئے گئے، تو جب یہ خبر نبی تک پہنچی، تو آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے اُن کے لیئے آدھی دیت ادا کرنے کا حکم دیا اور فرمایا:’’میں ہر اُس مسلمان سے بری ہوں کہ جو مشرکوں کے درمیان رہتا ہے‘‘صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا، کیوں یا رسول اللہﷺ؟ آپ ﷺ نے فرمایا:’’کیونکہ انہیں اتنے فاصلے پر ہونا چاہیے تھا کہ انہیں ایک دوسرے کی آگ نظر نہ آتی‘‘۔


ایک اورروایت جوکہ حضرت سمرۃ بن جندب رضی اللہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا:
(( لَا تُسَاکِنُوا الْمُشْرِکِینَ وَلَا تُجَامِعُوہُمْ فَمَنْ سَاکَنَہُمْ أَوْ جَامَعَہُمْ فَہُوَ مِثْلُہُمْ))
(سنن الترمذی،ج۶،ص۱۳۸،رقم الحدیث:۱۵۳۰)
’’مشرکوں کے ساتھ رہائش اختیار نہ کرو اور نہ اُنکے ساتھ اکھٹے ہو۔ سو جو کوئی اُنکے ساتھ رہتا ہے یا اُن کے ساتھ اختلاط کرتا ہے، تو وہ اُنہی کی مانند ہے‘‘۔

سیدنا عبداللہ بن عمر رضیہ اللہ رسول اللہ ﷺ سے مروی ایک حدیث کو بیان فرماتے ہیں :

(( کَانَ اِذَا أَنْزَلَ اللّٰہُ بِقَوْمٍ عَذَابًا أَصَابَ الْعَذَابَ مَنْ کَانَ فِیْھِمْ ثُمَّ بُعِثُوْا عَلٰی أَعْمَالِھِمْ ))
(صحیح البخاری،ج۲۲،ص۳،رقم الحدیث:۶۵۷۵۔صحیح مسلم،ج۱۴،ص۴۵،رقم الحدیث:۵۱۲۷)

’’جب اللہ تعالیٰ کسی قوم پر عذاب نازل کرتاہے تو عذاب ان سب لوگوں پر آتا ہے جو ا س قوم میں شامل ہوتے ہیں۔پھر ان کو ان کے اعمال کے مطابق اٹھایاجائے گا ۔(اگر کوئی ان میں نیک ہوگا تو ثواب کاحقدار ٹھہرے گاجو باقی ہوں گے وہ عذاب میں مبتلاکیے جائیں گے)‘‘۔

 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
شوق سے اور مجبوری کی حالت میں غیر مسلموں کے ملک کی طرف سفر اور ہجرت کرنے میں بہت فرق ہیں -

اور ان لوگوں نے ظلم کی انتہاء کر دی ہے اور لوگ ان کی ظلم سے اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں -
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ سوره ہود ١١٣
اوران کی طرف مت جھکو جو ظالم ہیں ورنہ تمہیں بھی (دوزخ کی ) آگ چھوئے گی اور الله کے سوا تمہارا کوئی مددگار نہیں ہوگا اور پھر کہیں سے مدد نہ پاؤ گے-
 
Last edited by a moderator:

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

1۔ شوق سے اور مجبوری کی حالت میں غیر مسلموں کے ملک کی طرف سفر اور ہجرت کرنے میں بہت فرق ہیں -

2- اور ان لوگوں نے ظلم کی انتہاء کر دی ہے اور لوگ ان کی ظلم سے اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں -
شامیوں پر اس وقت کے حالت کی پیش نظر یورپ کی طرف نقل مکانی پر اوپر لکھی گئی دونوں باتوں سے میں اتفاق نہیں کرتا۔

1۔ یہ لوگ شوق سے ہی ان ممالک کا رخ کر رہے ہیں کیونکہ جان بچانے کی غرض سے قریبی مسلم ممالک میں کیوں نہیں قیام کر رہے ان مسلم ممالک کو کراس کر کے یورپ کی طرف کیوں؟

2۔ داعش کے خوف کو استعمال کر کے یورپ بھاگنے والے سب مسلمان ہیں داعش نے تو انہیں چھوا تک نہیں اور نہ ہی مسلماںوں کو اس سے وہاں کوئی خطرہ ھے۔

والسلام
 
Top