اوپر محترم ابن داود بھائی نے جو عربی خبر پوسٹ کی اسکی دو تین سطروں کا ترجمہ پیش خدمت ہے
لكن مجلة تنظيم الدولة الاسلامية الذي يسيطر على مساحات من اراضي العراق وسوريا يعيش فيها نحو عشرة ملايين شخص قالت ان من يغادر أرضه يرتكب "كبيرة من الكبائر"
تنظیم داعش جو اس وقت عراق اور شام کے وسیع رقبہ پر قابض ہے جہاں کروڑوں کی آبادی ہے،اس تنظیم کے ترجمان مجلہ کا کہنا ہے کہ جو آدمی اپنی زمین کو چھوڑ کر(دوسرے ملک ) جائے گا ،وہ کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوگا ؛
وأضافت "فلتعلموا أن ترك دار الاسلام الى دار الكفر طوعا كبيرة من الكبائر لانه طريق يؤدي الى الكفر وباب يتيح لأبنائنا وأحفادنا ترك الاسلام واعتناق المسيحية أو الالحاد أو التحرر."
اور مزید کہا کہ آگاہ رہو :دار الاسلام کو چھوڑ کر دار الکفر میں جانا کبیرہ گناہ ہے کیونکہ یہ راستہ کفر تک لے جانے والا ۔۔اور اپنی اولاد کو ترک اسلام کی راہ پر ڈالنے کے مترادف ہے۔۔اور اس طرح عیسائیت و الحاد کا طوق خود اپنے گلے ڈالنا ہے
وقالت ان الهجرة الى اراضي المسيحيين تعرض الابناء والاحفاد الى "خطر الزنا والشذوذ والمخدرات والخمور."
تنظیم کا مزید یہ کہنا ہے کہ عیسائی ممالک میں جانا،اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو زنا و بے حیائی ،اور شراب نوشی کیلئے پیش کرنا ہے،
دولتہ اسلامیہ کی خبرہے یا نہیں اس سے قطعہ نظر کیا دارلکفر کی طرف ہجرت جائز ہے؟
: اپنے ملك كى بجائے وہ يورپى ممالك ميں دين پر زيادہ عمل كر سكتا ہے، تو كيا اس پر ہجرت كرنا لازم ہے؟
ميں ايك مغربى ملك ميں سكونت پذير ہوں، اور الحمد للہ بغير كسى تنگى اور ركاوٹ كے دينى احكام پر عمل كر سكتا ہوں، ميں نے آپ كى ويب سائٹ پر كچھ احاديث كا مطالعہ كيا ہے جو كفار كے درميان بود و باش اختيار كرنے اور كفار ممالك ميں رہنے سے منع كرتى ہيں.
اب ميں بہت زيادہ حيران و پريشان ہوں كہ آيا ميں اپنے ملك واپس پلٹ جاؤں يا اسى ملك ميں باقى رہوں، يہ علم ميں رہے كہ اگر ميں اپنے ملك واپس جاؤں تو دينى احكام پر عمل كرنے كى بنا پر مجھے بہت سى تنگى اور ركاوٹوں اور اذيتوں كا سامنا كرنا ہوگا، اور ميں وہاں عبادت كرنے ميں اتنى آزادى حاصل نہيں كرسكوں گا جتنى يہاں مجھے حاصل ہے.
ميرى گزارش ہے كہ ميرے سوال كا جواب عنائت فرمائيں اور اس ملك ميں رہنے كا حكم بيان كريں، خاص كر اب تو مسلمان ملك بھى كسى دوسرے ملك سے مختلف نہيں رہے، جہاں دينى شعائر كا التزام كيا جاتا ہو ؟
الحمد للہ:
اصل بات تو يہى ہے كہ مسلمان شخص كے ليے مشركوں اور كافروں كے درميان رہنا جائز نہيں، اس حكم پر بہت سى قرآنى آيات اور احاديث بھى دلالت كرتى ہيں، اور صحيح نظر بھى اسى كى غماز ہے:
كتاب اللہ سے دلائل:
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
{جو لوگ اپنى جانوں پرظلم كرنے والے ہيں جب فرشتے ان كى روح قبض كرتے ہيں تو پوچھتے ہيں، تم كس حال ميں تھے؟
يہ جواب ديتے ہيں كہ ہم اپنى جگہ كمزور اور مغلوب تھے، فرشتے كہتے ہيں كيا اللہ تعالى كى زمين كشادہ نہ تھى كہ تم ہجرت كر جاتے؟
يہى لوگ ہيں جن كا ٹھكانا جہنم ہے، اور وہ پہنچنے كى بہت برى جگہ ہے} النساء ( 97 ).
سنت نبويہ سے دليل:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ميں ہر اس مسلمان سے برى ہوں جو مشركوں كے درميان رہتا ہے"
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2645 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اسے صحيح ابو داود ميں صحيح كہا ہے.
اور صحيح نظر اور غور كرنے سے بھى يہ معلوم ہوتا ہے كہ:
مشركوں اور كافروں كے مابين رہنے والا مسلمان شخص بہت سے اسلامى شعائر اور ظاہرى عبادات پر عمل پيرا نہيں ہو سكتا، اس كے ساتھ ساتھ اسے اپنے آپ كو فتنہ و فساد كے سامنے بھى پيش كرنا پڑے گا، كيونكہ ان ممالك ميں جو فحاشى اور بے حيائى و بے پردگى ظاہر ہے اور ان ممالك كا قانون اس فحاشى اور بدكارى كا محافظ بھى ہے، تو مسلمان كو كوئى حق نہيں اور نہ ہى اس كے شايان شان ہے كہ وہ اپنے آپ كو اس طرح كے فتنوں اور آزمائشوں ميں ڈالے.
يہ تو اس وقت ہے جب ہم كتاب اللہ اور سنت نبويہ كے دلائل كى طرف نظر دوڑائيں اور اسلامىاور كفار ممالك كى جانب نظر نہ دوڑائيں، ليكن اگر ہم اسلامى ممالك كى طرف فى الواقع نظر دوڑائيں تو ہم سائل كےقول ( اور خاص كر اسلامى ممالك بھى اسلامى احكام كا التزام كرنے ميں دوسرے ممالك سے بہت زيادہ مختلف نہيں رہے ) كى موافقت نہيں كرتے، كيونكہ يہ عمومى طور پر كہنا صحيح نہيں، كيونكہ سارى اسلامى حكومتيں شريعت اسلاميہ كے احكام لاگو كرنے اور اس كا التزام كرنے ميں ايك جيسى نہيں، بلكہ ان ميں فرق ہے، بلكہ ايك ہى ملك كے اندر علاقوں اور شہروں كے اعتبار سے اختلاف پايا جاتا ہے.
اور پھر سارے كفار ممالك بھى فحاشى و عريانى اور بے حيائى اور اخلاقى طور پر ايك جيسے نہيں، بلكہ وہ بھى اس ميں ايك دوسرے سے مختلف ہيں.
لھذا اسلامى ممالك كا ايك دوسرے سے مختلف ہونا، اور كفريہ ممالك كا بھى ايك دوسرے سے مختلف ہونے كو ديكھتے ہوئے.
اور پھر اسے بھى مدنظر ركھتے ہوئے كہ ہر مسلمان شخص اس كى استطاعت نہيں ركھتا كہ كسى بھى اسلامى ملك ميں جا كر رہائش اختيار كرلے كيونكہ ويزوں اور اقامہ وغيرہ كے سخت قوانين پائے جاتے ہيں،
اور اسے بھى مد نظر ركھتے ہوئے كہ ہو سكتا ہے مسلمان شخص كچھ اسلامى ممالك ميں اسطرح دينى معاملات اور احكام پر عمل نہ كر سكتا ہو جس طرح وہ بعض يورپى اور كفريہ ممالك ميں بعض اسلامى شعائر يا سارے اسلامى شعائر پر عمل كر سكتا ہے.
يہ سب كچھ ديكھتے ہوئے اب ايك عام حكم صادر كرنا اور ايسا حكم لگانا جو سب ممالك اور سب اشخاص كے ليے عام ہو ايسا حكم مشكل ہے، بلكہ يہ كہا جا سكتا ہے:
ہر مسلمان شخص كى حالت خاص ہے، اور اس كے ليے حكم بھى خاص ہو گا، اور ہر آدمى اپنے آپ كا محاسبہ كرے، اگر تو اس كے ليے ان اسلامى ممالك ميں جہاں وہ رہ سكتا ہے دين پر عمل كرنا كفار ممالك سے زيادہ آسان اور ممكن ہے تو پھر اس كے ليے كفريہ ممالك ميں رہنا جائز نہيں ہے.
اور اگر معاملہ اس كے برعكس ہو يعنى وہ اسلامى ملك كى بجائے كفريہ ملك ميں زيادہ آسانى سے دين پر عمل كر سكتا ہے تو پھر ايك شرط كے ساتھ اسے كفريہ ملك ميں رہنا جائز ہو گا: كہ اسے اپنے آپ پر اتنا كنٹرول ہو كہ وہ وہاں پائى جانے والى بے حيائى اور فحاشى وبدكارى اور فتنوں سے شرعى وسائل كے ساتھ محفوظ رہ سكے.
اس كى تائيد ميں ہم اہل علم كے اقوال درج كرتے ہيں:
اس مسئلہ كى متعلق شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے دريافت كيا گيا تو ان كا جواب تھا:
جيسا كہ اوپر بيان كيا جا چكا ہے كہ ممالك كے مختلف ہونے كو مدنظر ركھتے ہوئے يہ مسئلہ سب سے مشكل مسائل ميں سے ہے، اور اس ليے بھى كہ كفار كے ممالك ميں بسنے والے بعض مسلمان اگر اپنے ممالك واپس جائيں تو انہيں تنگ كيا جائےگا اور انہيں سزائيں دى جائيں گى اور ان كے دين ميں انہيں آزمائش ميں ڈالا جائےگا، جبكہ وہ كفريہ ممالك ميں اس سے امن ميں ہيں.
پھر اگر ہم انہيں يہ كہيں كہ: كفار كے درميان تمہارا رہنا حرام ہے، تو پھر وہ كونسا اسلامى ملك ہے جو انہيں قبول كرے اور ان كا استقبال كرے، اور انہيں اپنے ملك ميں بسنے كى اجازت دے؟!
شيخ رحمہ اللہ تعالى كى كلام كا معنى يہى ہے.
زكريا انصارى شافعى رحمہ اللہ تعالى اپنى كتاب" اسنى المطالب" ميں كہتے ہيں:
اگر دين كا اظہار كرنے سے عاجز ہو تو استطاعت ركھنے والے پر دار كفر سے دار اسلام كى طرف ہجرت كرنى واجب ہے. اھـ
ديكھيں: اسنى المطالب ( 4 / 207 ).
اور ابن عربى مالكى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
دار الحرب سےنكل كر دار الاسلام جانے كو ہجرت كہا جاتا ہے، اور يہ نبى صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں فرض تھى، ان كے بعد بھى ہر اس شخص كے ليے جارى ہے جو اپنے نفس كا خطرہ محسوس كرے. اھـ
ماخوذ از: نيل الاوطار ( 8 / 33 ).
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى مندرجہ ذيل حديث كى شرح ميں كہتے ہيں:
" ميں مشركوں كے درميان رہنے والے ہر مسلمان شخص سے برى ہوں"
حافظ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اسے اس پر محمول كيا جائےگا جو اپنے دين كے متعلق خوفزدہ ہو. اھـ
ديكھيں: فتح البارى شرح حديث نمبر ( 2825 ).
اور الموسوعۃ الفقھيۃ ميں ہے:
دار الحرب ہر وہ جگہ اور ٹكڑا ہے جس ميں كفريہ احكام ظاہر ہوں.
دارالحرب كے متعلقہ احكام ميں ہجرت بھى شامل ہے:
فقھاء كرام نے دارالحرب سے ہجرت كے معاملہ ميں لوگوں كو تين اقسام ميں تقسيم كيا ہے:
پہلى قسم:
جس پر ہجرت واجب ہے:
يہ وہ شخص ہے جو ہجرت كرنے پر قادر ہو، اور دارالحرب ميں رہتے ہوئے اپنے دين كو ظاہر نہ كر سكتا ہو، اور اگر يہ عورت ہو اور اس كا كوئى محرم نہ ہو تو اگر وہ راستہ كو اپنے ليے پرامن سمجھے اور خطرہ نہ محسوس كرتى ہو، يا راستے ميں دارالحرب ميں رہنے سے كم خطرہ ہو...
دوسرى قسم:
جس پر ہجرت نہيں ہے:
وہ شخص جو ہجرت كرنے سے عاجز ہو، يا تو بيمارى كى بنا پر، يا پھر دار الكفر ميں رہائش ركھنے پر مجبور كيا گيا ہو، يا كمزور ہو مثلا عورتوں اور بچوں كى طرح، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
{مگر كمزور مرد اور عورتيں اور بچے جو حيلہ كرنے كى استطاعت نہيں ركھتے، اور نہ ہى وہ كوئى راہ پاتے ہيں}.
تيسرى قسم:
جس كے ليے ہجرت كرنى جائز ہے واجب نہيں:
يہ وہ شخص ہے جو ہجرت كرنے پر قادر ہے اور دارالحرب ميں دينى شعائر كا اظہار بھى كرسكتا ہے، تو ايسے شخص كے ليے ہجرت كرنى جائز اور مستحب ہے تا كہ وہ جہاد كر سكے، اور مسملمانوں كى تعداد ميں كثرت كا باعث بنے. اھـ
اختصار كے ساتھ
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 20 / 206 )
اور مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے:
اور مسلمان كے ليے ايك شركيہ ملك سے دوسرے شركيہ ملك كى طرف ہجرت كرنا بھى كم شر كا باعث ہو گى، جيسا كہ بعض مسلمانوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے حكم سے مكہ مكرمہ سے حبشہ كى طرف ہجرت كى. اھـ
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العليمۃ والافتاء ( 12 / 50 ).
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ مسلمانوں كى اصلاح فرمائے اور ان كے حالات درست فرمائے.
واللہ اعلم .
http://islamqa.info/ur/13363