کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
داعش! پس منظر و پیش منظر اور پاکستان
کالم: محمد الطاف قمر، 22 نومبر 2014
*۔۔۔ "داعش نے امریکی امدادی رضا کار اور 18 شامی فوجیوں کے سر قلم کر دیئے"
*۔۔۔ "عراقی فورسز سے جھڑپ ، داعش کے 72 جنگجو ہلاک ، 6 گاڑیاں تباہ"
*۔۔۔ "داعش نے 40 ٹرک ڈرائیوروں اور کاروباری افراد کو اغوا کر لیا"
*۔۔۔ "داعش کا مقابلہ کرنے کے لئے خواتین نے تنظیم قائم کر دی"
*۔۔۔ "نتن یاہو کی داعش کے خلاف جنگ میں تعاون کی یقین دہانی"
*۔۔۔ "اوباما کا داعش کے خلاف بشار الاسد سے اتحاد نہ کرنے کا فیصلہ"
*۔۔۔ "پاکستان کو داعش سے خطرہ نہیں ، ترجمان پاک فوج"
داعش کے بارے میں یہ ایک ہی دن (17 نومبر 2014ء) پاکستان کے ایک ہی قومی روزنامے میں چھپنے والی خبروں کی سرخیاں ہیں ۔ جبکہ اس سے ایک روز قبل اسی اخبار کی چند ایک سرخیاں یوں تھیں ،
*۔۔۔ "کوبانی اور بیجی میں داعش کے خلاف اہم کامیابیاں ، جنگجو پسپا"
*۔۔۔ "امریکہ اور ترکی داعش کے خلاف لڑنے والے 2 ہزار شامی باغیوں کو تربیت دیں گے"
*۔۔۔ "داعش سے جنگ اب پلٹا کھانے لگی ، امریکی فوجی سربراہ کا دعویٰ"
*۔۔۔ "سیکیورٹی اداروں نے داعش کے سٹکر لگانے والوں کے خلاف گرینڈ آپریشن کی تیاری مکمل کرلی"
اس سلسلے کی سب سے اہم ترین خبر اور سب سے اہم ترین بیان پاکستان کے سپہ سالار اعلیٰ جنرل راحیل شریف کا آج کا یہ اعلان ہے کہ
*۔۔۔ "پاکستان اور افغانستان پر داعش کا سایہ بھی نہیں پڑنے دیں گے"
داعش کیا ہے ؟
اس کا پس منظر کیا ہے؟
اس کے عزائم کیا ہیں؟
اور اسے اس قدر اہمیت کیوں دی جارہی ہے؟
زیر نظر مضمون میں اس پر کسی قدر روشنی ڈالی گئی ہے۔ یوں تو روزنامہ "پاکستان" میں کچھ عرصہ قبل ملک کے نامور کالم نگار اور عسکری موضوعات پر ڈیڑھ درجن کتابوں کے مصنف اور ماہر عسکریات کرنل غلام جیلانی خان داعش پر نہایت جامع اور مدلّل مضامین لکھ چکے ہیں، لیکن تشنگی ابھی باقی ہے، چنانچہ میں نے کرنل صاحب کی دی ہوئی معلومات کو دہرائے بغیر کچھ مزید معلومات عوام سے شیئر کرنے کی کوشش کی ہے۔
عالمی منظر نامے میں داعش
(دولت اسلامیہ فی العراق و الشام) یا
(ISIS (Islamic State of Iraq and Syria
جو اب دولت اسلامیہ، یعنی (IS (Islamic State میں ڈھل گئی ہے ، ایک دھماکے کے ساتھ وارد ہوئی ہے، جس کا سربراہ ابو بکر البغدادی ہے ۔ ایک سال قبل تک کچھ خاص لوگوں کے سوا کسی نے اس تنظیم کا نام بھی نہ سنا تھا اور نہ ہی کوئی اس کے سربراہ کو جانتا تھا، لیکن آج یہ تنظیم عراق اور شام کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے لئے حیرت ، دہشت اور خوف کی علامت بن گئی ہے ۔ داعش نے القاعدہ کی کوکھ سے جنم لیا ہے ۔ اس کا پس منظر کچھ اس طرح ہے کہ 90ء کی دہائی میں ایک اُردن نژاد جنگجو ابو مُعصب الزرقاوی اپنے کچھ دیگر جنگجو ساتھیوں کے ساتھ جہاد میں حصہ لینے کے لئے افغانستان آیا۔ اُس کے ساتھیوں میں ایک جنگجو ابوبکر البغدادی بھی تھا ۔یہ گروہ القاعدہ اور طالبان کے ساتھ مل کر افغانستان میں سات آٹھ سال تک ملکی اور غیر ملکی فوجیوں کے خلاف لڑتا رہا ۔ اِسی دوران 2001ء میں امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور دیگر اداروں پر حملہ ہوا، جس کے جواب میں امریکہ افغانستان پر چڑھ دوڑا اور طالبان کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا ۔
القاعدہ اور طالبان کے جنگجو اِدھر اُدھر بکھر گئے ۔ ان میں سے بہت سارے پاکستان میں گھس آئے، جبکہ کچھ واپس اپنے ملکوں میں چلے گئے، جن میں ابو مُعصب الزرقاوی اور ابوبکر البغدادی بھی شامل تھے ۔ واپس آ کر ابومُعصب نے 2002 میں شمالی عراق میں ایک جہادی تنظیم ’’التوحید والجہاد‘‘ کے نام سے قائم کی۔
2003 میں امریکہ نے عراق پر بھی حملہ کر دیا اور صدام حکومت کا تختہ اُلٹ دیا ۔ صدام کے حامیوں اور کچھ دیگر جنگجو گروپوں نے امریکی قابض فوجوں اور اُس کی پروردہ عراقی حکومت کے خلاف مزاحمت شروع کر دی۔
اسی دوران 2004ء میں ابو مُعصب نے عراق میں القاعدہ کا ونگ قائم کر دیا جسے ’’القاعدہ عراق‘‘ یا ’’القاعدہ سینٹرل‘‘کا نام دیا گیا ۔ امریکہ اور عراقی افواج کا القاعدہ کے عراقی ونگ اور دیگر جنگجوؤں سے مقابلہ چلتا رہا ۔
اِسی دوران 2006ء میں ابو مُعصب الزرقاوی ایک ہوائی حملے میں مارا گیا اور اس گروہ کی کمان ابوبکر البغدادی کے ہاتھ میں آ گئی ۔ ابوبکر البغدادی نے امریکی غلبہ کے ساتھ ساتھ عراق کی شیعہ گورنمنٹ کو بھی اپنے نشانے پر رکھ لیا اور عراق کے تمام سُنی جنگجوؤں کو ساتھ ملانا شروع کر دیا ۔صدرصدام کے حامی گروہ بھی جو سب سُنی تھے اس کے ساتھ آ ملے۔ ان سب کو شکایت تھی کہ عراق کی نئی حکومت نے ملک کو شیعہ سٹیٹ بنا کر رکھ دیا ہے اور سُنیوں کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔
2010ء میں ابوبکر البغدادی نے اپنے زیر کنٹرول علاقوں کو ’’دولت اسلامیہ فی العراق‘‘ (ISI) کا نام دیا اور ایک سُنی ریاست کے طور پر اسے پورے عراق پر پھیلانے کی جدوجہد شروع کر دی۔ القاعدہ کی مرکزی قیادت نے عراقی ونگ کے القاعدہ کے اصل مقاصد سے اس انحراف کو پسند نہ کیا اور ISI اور القاعدہ کے درمیان عدم تعاون کی فضاء بننا شروع ہو گئی۔
2011ء میں امریکی افواج عراق سے نکل گئیں۔ اِسی دوران شام میں صدر بشار الاسد کے خلاف باغیانہ تحریکیں چل پڑیں ، ملک میں خانہ جنگی شروع ہو گئی اور ملک شام عالمی طاقتوں کا اُکھاڑا بن گیا۔ روس ، ایران اور چند دیگر ممالک بشار الاسد کی پشت پر کھڑے ہو گئے، جبکہ امریکہ اور دیگر تمام عرب ممالک اس کے خلاف ۔ اس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ابوبکر البغدادی نے شام میں بھی مداخلت کا منصوبہ بنایا اور اپنے ایک کمانڈر ابو محمد الجولانی کی کمان میں ایک جہادی گروپ ’’النصرہ‘‘ کے نام سے کھڑا کر کے اُسے شام میں ISI کا ایجنڈہ آگے بڑھانے پر معمور کر دیا ۔
مصدقہ ذرائع کے مطابق امریکہ نے ہی بشار الاسد کا تختہ اُلٹنے کی کوششوں میں سے ایک کوشش کے طور پر داعش کو شام میں کاروائیاں کرنے پر اُکسایا اور اُسی کے کہنے پر شام میں النصرہ کھڑی کی گئی۔
امریکہ نے داعش کی بھرپور پشت پناہی کی، لیکن داعش کے عزائم واضح ہونے اور سعودی عرب، اسرائیل ، عراق اور دیگر ممالک جو داعش کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں کی پرزور مخالفت پر امریکہ نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ، بلکہ خود داعش کے خلاف فوجی کاروائی کا آغاز کر دیا اور اس کے لئے کُردوں اور یزیدیوں پر داعش کے مظالم کو وجہ جواز بنایا، لیکن درپردہ اس کی ایک اور وجہ عراق و شام کے تیل کے ذخائر کو داعش کے کنٹرول میں جانے سے روکنا تھا، جس کے بارے میں مغرب بہت متفکر ہے۔ اب تو امریکہ نے البغدادی کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر لگا رکھی ہے۔ البغدادی بہرحال اپنے ایجنڈے پر آگے بڑھتا رہا۔ اُس نے اپریل 2013ء میں اپنی مجوزہ ریاست کی حدود میں توسیع کرتے ہوئے ملک شام کو بھی اس میں شامل کر لیا اور مجوزہ ریاست کا نام دولت اسلامیہ فی العراق (ISI) سے بدل کر دولت اسلامیہ فی العراق و الشام (ISIS) یا داعش رکھ دیا ۔
فروری 2014ء میں ابوبکر البغدادی نے داعش کو القاعدہ سے مکمل طور پر الگ کر لیا اور ایک دوسرے سے تعاون ختم کردیا ۔
فروری 2014ء سے ستمبر 2014ء تک داعش کے جنگجوؤں نے برق رفتاری سے پیش قدمی کرتے ہوئے عراق اور شام کے وسیع علاقے کو فتح کر لیا، جن میں موصل ، تکریت، رواہ، فلوجہ ، رمادی ، رطبہ ، قائم، رَقّعہ، ولید، تربیل، بیجی ، کوبانی ، تل افار، بعقوبہ وغیرہ شامل ہیں، جبکہ بغداد چند کلومیٹر کے فاصلے پر رہ گیا ۔ عددی طور پر داعش عراقی افواج سے زیادہ مضبوط نہ ہے ۔ امریکی سی آئی اے کے مطابق داعش کے لشکریوں کی تعداد 20 سے 30 ہزار ہے، جبکہ عراقی افواج کی عددی قوت اڑھائی لاکھ ہے۔ اُسے ٹینکوں، طیاروں ،ہیلی کاپٹروں اور زیادہ بہتر ہتھیار اور گولہ بارود کے ساتھ ساتھ پولیس کی مدد بھی میسر ہے، لیکن عراقی افواج انتشار اور پژمُردگی کا شکار ہیں ۔ موصل پر قبضہ کے وقت داعش کے آٹھ سو جنگجوؤں کے مقابلے میں عراق کے تیس ہزار فوجی بھاگ کھڑے ہوئے ۔ داعش کے زیر قبضہ شہروں میں تیل کے کنوئیں اور تیل صاف کرنے والے کارخانے بھی واقع ہیں، جن پر اب داعش کا قبضہ ہے اور وہ اسے باقاعدہ دوسرے ممالک کو برآمد کرتا ہے۔ یوں وہ اپنے لئے وسائل خود اپنے زیر قبضہ علاقوں سے مہیا کرتا ہے یا متحارب حکومتوں اور گروہوں سے چھینتا ہے ۔ عالمی ذرائع کے مطابق داعش اب تک عراق کے 25 تا 30 فیصد اور شام کے 10 تا 15 فیصد علاقہ پر کنٹرول حاصل کر چکا ہے ۔ یہ علاقہ اسرائیل اور لبنان کے کل رقبہ سے زیادہ ہے ۔
جولائی 2014ء میں موصل میں ابوبکر البغدادی نے پہلی بار منظر عام پر آ کر دولت اسلامیہ فی العراق و شام (داعش) پر اپنی خلافت کا اعلان کر دیا اور ’’خلیفہ ابراہیم‘‘ کا لقب اختیار کر لیا۔ اُس نے تمام عالم اسلام کو اپنی بیعت کی دعوت دی ۔ اس رونمائی پر پہلی دفعہ دنیا نے ابوبکر البغدادی کا چہرہ اورُ حلیہ دیکھا ۔
اپنی ان کامیابیوں کے بعد داعش نے ایک قدم اور آگے بڑھ کر دولت اسلامیہ (Islamic State) یا IS قائم کرنے کو اپنا مطمع نظر بنا لیا اور اُس کا اعلان کر دیا۔ داعش کے رہنماؤں کے مطابق مجوزہ ’’دولت اسلامیہ‘‘ ایک عالمگیر اسلامی ریاست ہو گی جو اُن تمام ممالک یا علاقوں پر مشتمل ہو گی، جہاں کبھی بھی مسلمانوں کی حکمرانی رہی ہے ۔ داعش کی طرف سے جاری کردہ نقشہ کے مطابق اس اسلامی ریاست میں پورا جنوبی ایشیاء ، پورا مشرق وسطیٰ ، پورا مڈل ایسٹ ، مصر، لیبیا، مراکش، الجزائر، نائیجیریا ، تیونس، سوڈان ، حبشہ اور سپین ، پورا جنوبی یورپ اور پورا مشرقی اور مغربی تُرکستان شامل ہیں۔
داعش نے مجوزہ دولت اسلامیہ کی حد بندی کر کے اسے بارہ صوبوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ پاکستان، ہندوستان ، بنگلہ دیش، افغانستان ، ایران ، مشرقی اور مغربی ترکستان اور تمام وسط ایشائی ریاستوں کو صوبہ خراسان ، مصر اور حبشہ کو انہی ناموں سے الگ الگ صوبہ، جبکہ شمالی افریقہ کے باقی تمام ممالک کو صوبہ مغرب ، سپین کو صوبہ اُندلس ، پورے مڈل ایسٹ کو یمن ، حجاز، عراق ، شام ، کردستان کے نام سے الگ الگ صوبہ جبکہ مشرقی یورپ کی تمام بلقانی ریاستوں کو دو الگ الگ صوبے بنا دیا گیا ہے ۔ داعش نے آئندہ پانچ سال میں یہ خلافت یا ریاست قائم کرنے کا ہدف متعین کر رکھا ہے ۔ عراق اور شام پر مکمل فتح حاصل کر لینے کے بعد داعش کے جنگجو باقی ممالک کی طرف متوجہ ہوں گے، بلکہ اُنہوں نے اس سمت میں کام شروع بھی کر دیا ہے ۔ اُنہوں نے لبنان اور اسرائیل کی سرحدوں پر چھیڑ چھاڑ کی کوشش کی ہے ۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ مختلف جگہوں سے داعش کی پسپائی بھی شروع ہو چکی ہے ۔
داعش کا طرز حکمرانی اور طریقہ جنگ انتہائی بہیمانہ ہے ۔ اپنے ساتھ اتفاق نہ رکھنے والوں کو انتہائی بے دردی سے قتل کرتے ہیں اور اکثر درجنوں اور سینکڑوں لوگوں کو جس میں بچے بوڑھے اور عورتیں شامل ہوتی ہیں اجتماعی طور پر موت کی گھاٹ اُتار دیتے ہیں۔ یزیدی فرقے کے سینکڑوں لوگوں کو مرتد قرار دے کر بے دردی سے قتل کر چکے ہیں، حالانکہ وہ زمانہ قدیم سے ایک الگ مذہب ہے، وہ کبھی دائرہ اسلام میں داخل نہیں ہوئے اور نہ ہی وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں۔ اس وقت ہزاروں یزیدی عراق اور شام کی سرحدی پہاڑیوں پر بے یارو مددگار انتہائی برے حال میں پناہ لئے بیٹھے ہیں ۔ کُرد جنہوں نے شمال مشرقی عراق میں اپنی ایک نیم خود مختار حکومت قائم کر رکھی ہے، جب داعش کی پیش قدمی کی مزاحمت کی تو قابو آ جانے والے کردوں کو جنگی قیدی بنانے کی بجائے اُن کی گردنیں اُڑا دی گئیں ۔ بے شمار غیر ملکی صحافیوں اور امدادی کارکنوں اور رضاکاروں کو بھی قابو آنے پر اُن کی گردنیں اُڑا دی گئیں ۔ سفاکی کی انتہا یہ ہے کہ اجتماعی قتل اور گردنیں اُڑانے کی فلمیں بنا کر میڈیا پر جاری کر دی جاتی ہیں، جنہیں کوئی کمزور دل انسان دیکھ ہی نہیں سکتا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کٹّر سُنی ہونے کا دعویٰ رکھنے کے باوجود اور ایک عالمگیر سُنی ریاست قائم کرنے کا ہدف متعین کر کے چلنے والوں نے حضرت شیث ؑ ، حضرت شعیب ؑ ، حضرت یونس ؑ ، حضرت اویس قرنیؓ، حضرت زینب بنت علیؓ ، حضرت خالد بن ولیدؓ جیسی ہستیوں کے مزارات کو بموں سے اُڑا دیا، جبکہ سُنی تو ایسی ہستیوں اور اُن کے مزارات کا بے حد احترام کرتے ہیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ عراق و شام اور اُس کے اردگر د کی تمام مسلم حکومتیں، خواہ وہ شیعہ ہیں یا سُنی، ان سے متنفر اور اُن کے خلاف صف آرا ہو گئی ہیں۔ اُن کی مجوزہ دولت اسلامیہ کے تصور اور اُس کے نقشہ نے باقی تمام مسلم ریاستوں کو بھی اُن کے بارے میں متفکر کر دیا ہے ۔
داعش کی باز گشت اب پاکستان میں بھی سنائی دینے لگی ہے ۔ اگرچہ اس کے بارے میں پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی کا بیان سردست یہی ہے کہ بطور تنظیم داعش کی پاکستان کے کسی علاقے میں موجودگی کی تصدیق نہیں ہوئی ، پاک فوج کا کہنا بھی کچھ اسی طرح ہے اور پنجاب پولیس کے افسران بھی یہی کہتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے سابق وزیر داخلہ رحمان ملک کا یہ بیان بھی اخبارات کی زینت بن چکا ہے کہ داعش کے 500 جنگجو پاکستان میں داخل ہو چکے ہیں ۔کالعدم تحریک طالبان کے کئی ذیلی گروپوں نے داعش کی حمایت اور اُس کے خلیفہ ابوبکر البغدادی کی بیعت کا اعلان کر دیا ہے ۔ کراچی ، لاہور، ملتان ، بہاولپوروغیرہ میں دیواروں پر داعش کے حق میں چاکنگ بھی دیکھی گئی ہے اور کہیں کہیں داعش کے جھنڈے بھی دکھائی دیئے ہیں ،جس کے ذمہ داروں کی کھوج براری جاری ہے ۔
متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما الطاف حسین نے تو بڑے واضح الفاظ میں پاکستان کو داعش کے خطرے سے آگاہ کر دیا ہے ۔ ان کی بات کو آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ سردست پاکستان میں داعش کا کوئی تنظیمی ڈھانچہ قائم نہیں ہوا ، اور نہ ہی یہاں اُس کی اپنے نام سے کوئی سرگرمی دیکھنے میں آئی ہے ، لیکن یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ ضروری نہیں کہ داعش کے عراقی جنگجو ہی پاکستان آ کر اپنی تنظیم کا ڈھانچہ کھڑا کریں اور اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھائیں ۔ کسی بھی تنظیم کے ہم خیال لوگ کسی بھی جگہ اکٹھے ہو کر خود ہی اپنے آپ کو اُس تنظیم کا حصہ بنا لیتے ہیں ، اپنے میں سے ہی اپنا کوئی سربراہ مقرر کر لیتے ہیں اور تنظیم کے ایجنڈے پر کام شروع کر دیتے ہیں ۔ مرکزی تنظیم سے رابطے اور تعلقات بعد میں اپنی کارکردگی اور وفاداری کی بنیاد پر اُستوار ہو جاتے ہیں ۔ پاکستان میں تحریک طالبان اور کئی دوسرے جہادی گروہ جن کی مرکزیت اور طاقت ضرب عضب کے بعد بکھر گئی ہے، کسی اور طاقتور گروہ کے جھنڈے تلے دوبارہ سے اکٹھے ہونے کے لئے بے چین ہیں ۔ ایک عالمگیر اسلامی خلافت (جو ممکن ہے یا نہیں ،یہ الگ بات ہے)کا تصور ایسے جنگجوؤں کے لئے اُن تمام تصورات اور قیادتوں سے کہیں زیادہ دلکش اور ولولہ انگیز ہے جن سے وہ اب تک وابستہ رہے ہیں۔ آج ہی کے "روزنام پاکستان" میں یہ خبر چھپی ہے کہ لاہور میں دیواروں وغیرہ پر سٹیکرز اور اشتہارات لگانے اور چاکنگ کرنے والے کچھ افراد کو پولیس نے ڈھونڈ نکالا ہے، جنہوں نے اعتراف کیا ہے کہ اُنہوں نے یہ کام ایک کالعدم تنظیم کی طرف سے بھاری معاوضے کے عوض کیا ہے۔ ان حالات میں حکومت پاکستان اور اُس کے سیکیورٹی اداروں کو داعش کے خطرے کو کسی طرح بھی نظر انداز یا آسان نہیں لینا چاہئے۔
اس ضمن میں پاکستان کے چیف اف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کا یہ پالیسی اعلان کہ ’’پاکستان اور افغانستان پر داعش کا سایہ بھی نہیں پڑنے دیں گے‘‘ نہایت اہم اور خوش آئند ہے ۔ اُنہوں نے پاکستانیوں کی دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے اور طریقۂ علاج کا بھی کُھلا اشارہ دے دیا ہے ۔ بحیثیت سپہ سالار اعلیٰ پاکستان اُنہیں حالات و واقعات اوردرپیش خطرات کا ادراک ہم سب سے زیادہ ہے ۔ اُن کا عزم اور ارادہ تشویش میں مبتلا پاکستانی قوم کے لئے بے حد حوصلہ افزاء ہے ۔
ح