• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

داڑھی نامہ

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,030
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
پانچواں جواب:
علم حدیث کا اصول ہے کہ جب راوی کا عمل اپنی روایت کردہ حدیث کے خلاف ہو تو اس کے عمل کو رد کردیا جائے گا اور اس کی روایت کو قبول کیا جائے گا مطلب روایت کا اعتبار کیا جائے گا راوی کے عمل کا اعتبار نہیں ہوگا۔لہٰذا اس اصول کی کسوٹی پر بھی عبداللہ بن عمر اور ان کے ہم نوا صحابہ کا عمل قابل رد ہے کیونکہ ان کا فعل ان ہی کی روایت کردہ حدیث کے خلاف ہے۔اس اصول کی روشنی میں کسی اہل حدیث کے پاس داڑھی کاٹنے کا جوازباقی نہیں رہتاکیونکہ اس سے محدثین کا اصول بے معنی ہوجاتا ہے اور مذہبی اصولوں کی پاسداری نہ کرنے کی صورت میں کسی شخص کے پاس یہ حق نہیں رہتا کہ اس مذہب سے نسبت یا تعلق کا دعویٰ کرے۔ البتہ صرف احناف عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے فعل کا اعتبار کرتے ہوئے اپنی داڑھی کاٹنے کا حق رکھتے ہیں کیونکہ ان کا مذہبی اصول یہ ہے کہ جب راوی اپنی روایت کی خلاف ورزی کرے تو اس کی روایت منسوخ ہوگی اور اس کا عمل اس روایت کا ناسخ ہوگا۔اس کو مد نظر رکھتے ہوئے احناف کا داڑھی کاٹنے کا عمل ان کے مذہب کے مطابق درست نظر آتا ہے۔ اپنے اس اصول کا سب سے بڑا فائدہ حنفیوں نے رفع الیدین کے مسئلہ میں اٹھایا ہےجہاں ایک ضعیف موقوف روایت میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے رفع الیدین نہ کرنے کے عمل کو سنداً صحیح مان کر بخاری کی راویت کو منسوخ قرار دے دیا جس کے راوی عبداللہ بن عمر ہیں اور دعویٰ کیاکہ راوی کا عمل اپنی روایت کے خلاف ہونے کی وجہ سے صحیح بخاری کی رفع الیدین کرنے والی بنیادی حدیث منسوخ ہے۔
اہل حدیثوں کے مذہب میں تو داڑھی تراشنے کی کوئی گنجائش نہیں ملتی اس لئے اگرکوئی اہل حدیث حنفی مذہب کے اصولوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے داڑھی کوتصرف کی نیت سے ہاتھ لگاتا ہےکہ اسے کاٹے گا یا تراشے گا تو اس کے لئے ضروری ہے کہ نبی ﷺ کی داڑھی بڑھانے کے حکم پر مشتمل حدیث کو منسوخ تسلیم کرے اور یہ عقیدہ رکھے کہ ایک مشت سے زائد داڑھی رکھنا حرام اور ناجائز ہے کیونکہ یہ منسوخ پر عمل ہے جبکہ ناسخ کو چھوڑ کر منسوخ پر عمل کسی طور درست نہیں۔عجیب بات ہے کہ جب مسئلہ اپنے مطلب کا ہو تو بعض اہل حدیث اندھے ، بہرے اور گونگے بن جاتے ہیں اور یہ دیکھے بغیر کہ مسئلہ کا قائل وفاعل کون ہے اپنے فائدے کے لئے اغیار کی زبان بولنے لگتے ہیں ان کے شبہات اور دلائل سے اپنا موقف ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں چناچہ داڑھی کے باب میں جو اکثر تاویلات، شبہات وغیرہ پیش کئے جاتے ہیں یا تو ان کے ڈانڈے احناف کے ہاں ملتے ہیں یا اہل تشیع کے ہاں اس کا سراغ و سرا پایاجاتا ہے۔ ویسے تو اہل حدیثوں کے نزدیک یہ دونوں گروہ گمراہ ہیں لیکن اپنی مطلب برآوری کے لئے ان کے در کی کاسہ لیسی میں کوئی حرج نہیں کیونکہ کسی کو یہ اطلاع دینے کی ضرورت ہی نہیں کہ اہل حدیث ہوتے ہوئے بھی اپنے دفاع یا اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لئے ہم جو کچھ پیش کررہے ہیں وہ حنفیوں اور شیعوں سے مستعار لیا ہوا ہے۔
بہر کیف احناف کا یہ خود ساختہ اصول غلط ہے اوراہل حدیث علماءاسے ہمیشہ سے رد کرتے آئے ہیں۔حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’وألزم به بعضهم من أطلق من الحنفية القائلين أن الصحابي إذا روي عن النبى صلى اللّٰه عليه وسلم حديثا وصح عنه ثم صح عنه العمل بخلافه أن العمل بما ر أى لا بما روي لأن عائشة صح عنها أن لا اعتبار بلبن الفحل ذكره مالك فى الموطأ وسعيد بن منصور فى السنن وأبو عبيد فى كتاب النكاح بإسناد حسن وأخذ الجمهور ومنهم الحنفية بخلاف ذالك وعملوا بروايتها فى قصة أخي أبي القعيس وحرموه بلبن الفحل فكان يلزمهم على قاعدتهم أن يتبعوا عمل عائشة ويعرضوا عن روايتها ولو كان روي هذا الحكم غير عائشة لكان لهم معذرة لكنه لم يروه غيرها وهو الزام قوي ‘‘
احناف میں سے جن لوگوں نے علی الاطلاق یہ کہا ہے کہ جب ایک صحابی کوئی حدیث روایت کرے اور وہ سنداً اس سے ثابت ہو ، پھر اسی صحابی سے یہ بھی ثابت ہو کہ اس نے اس کے خلاف عمل کیا ہے تو اعتبار صحابی کے عمل وفتویٰ کا ہوگا نہ کہ صحابی کی روایت کردہ حدیث کا ۔اس اصول کا رد بعض اہل علم نے یہ الزامی جواب دیتے ہوئے کیا ہے .........احناف کو دیا گیا یہ الزامی جواب بہت قوی اور مضبوط ہے ۔[فتح الباری لابن حجر، ط المعرفۃ:۹؍۱۵۲]
احناف کے برعکس اہل حدیث کا اس تعلق سے جو اصول اور قاعدہ ہے اسے بیان کرتے ہوئے کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ رقمطراز ہیں: جب قرآن اور صحیح حدیث سے ایک مسئلہ ثابت ہوجائے تو اسی کو لیا جائے گا اس کے خلاف کسی بھی امتی کا قول نہیں لیا جاسکتا کیونکہ قرآن و حدیث وحی ہے جس میں غلطی کا امکان نہیں ہے جبکہ امتی کے قول میں غلطی کا امکان ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ امتی نے حالات یا کسی مصلحت کے سبب نص کے خلاف فتویٰ دیا ہوجس میں وہ معذورہوں ۔حتیٰ کہ کوئی صحابی ایک حدیث روایت کریں اور خود اس کے خلاف فتویٰ دیں تو بھی ان کی روایت کردہ حدیث ہی کو لیا جائے گا نہ کہ اس کے خلاف ان کے فتویٰ کو ، کیونکہ ان کے اس طرح کے فتویٰ میں بھی مذکورہ احتمالات ہوسکتے ہیں۔ (ماہنامہ اہل السنۃ، بمبئی، شمارہ اگست2020، مضمون’’ راوی کی روایت اور اس کے فتویٰ کا تعارض)
اسی طرح محمد ابراہیم ربانی حفظہ اللہ اپنی تحریر مُسَمّیٰ’’داڑھی بڑھانا ہی مشروع ومسنون ہے‘‘ میں لکھتے ہیں: سیدناعبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کےعمل سے ان کی بیان کردہ حدیث میں تخصیص کرنا زیادتی ہے کیونکہ ابن عمر کا یہ عمل اپنی بیان کردہ حدیث سے متصادم ہے اس صورت میں اصول فقہ کے قاعدہ ’’الاعتبار بروایۃ الراوی لابرأیہ‘‘ راوی کی بیان کردہ روایت کا ہی اعتبار ہوگا نہ کہ راوی کی رائے کا۔(فتح الباری ۲؍۹۷)کے پیش نظر روایت ہی کو لیاجائیگا۔(ماہنامہ مجلہ دعوت اہل حدیث، شمارہ اپریل 2017)
جماعت اہل حدیث میں بعض احباب ایسے بھی ہیں جو ضرورت سے زیادہ محقق ہیں یا یوں کہیں کہ وہ تحقیق کےہیضہ میں مبتلا ہیں ایسے مہربان، مذہب اہل حدیث کے کسی کلیے قاعدے اور منہجی اصولوں کو نہیں مانتے جب تک ان کے سامنے اس کی دلیل پیش نہ کی جائے لہٰذا اپنی مریضانہ طبیعت کے تحت وہ ہر قاعدہ اور اصول کی دلیل طلب کرتے ہیں اورساتھ ہی اس کی معقول وجہ بھی دریافت کرتے ہیں ، ایسے مریضوں کی خدمت میں عرض ہے کہ محدثین کا اصول کہ’’ جب راوی کا عمل اپنی روایت کردہ حدیث کے خلاف ہو تو اس کے عمل کو رد کردیا جاتا ہے اور اس کی روایت کو قبول کیا جاتا ہے‘‘اس کی بنیادی وجہ یا دلیل جس کی طرف کفایت اللہ سنابلی نے بھی اشارہ کیا ہے ،یہ ہے کہ حدیث چونکہ وحی الہٰی کے تابع ہے اس لئے اس میں غلطی کا احتمال نہیں جبکہ صحابی چونکہ نبی کی طرح معصوم عن الخطاء نہیں اس لئے اس کے فعل میں غلطی کا امکان سو فیصد ہے۔اس لئے عمل صحابی اور حدیث میں سےصرف اس چیز کو قبول کیا جائے گا جس کی صحت اور درستگی کا کامل یقین ہو اور وہ صرف حدیث ہے۔بس فیصلہ ہوگیا کہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کا فعل چونکہ ان کی روایت کردہ حدیث کے مفہوم کے خلاف ہے اس لئے حدیث کا اعتبار کیا جائے گا اور عمل صحابی قابل رد ہوگا۔وہ لوگ جو ابن عمر کے داڑھی کاٹنے کے فعل کو ابن عمر کی روایت کردہ حدیث کا فہم اور شرح مان کر سینے سے لگائے بیٹھے ہیں ان کے دوغلے پن کو طشت ازبام کرنے کے لئے سوال ہے کہ کیا ہر جگہ آپ روای کے عمل کو اس کی روایت کردہ حدیث کا فہم ہی تسلیم کرتے ہیں یا آپ کایہ خود ساختہ اصول دوسری جگہوں پرنظریہ ضرورت کے تحت تبدیل ہوجاتا ہے؟ چلئے بعض مثالوں کی روشنی میں ان لوگوں کے دوہرے معیار کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : ’’ امرنا رسول الله ﷺ بسبع، ونهانا عن سبع نهانا عن: خواتيم الذهب، وعن آنية الفضة، وعن المياثر، والقسية، والإستبرق، والديباج، والحرير‘‘
ہمیں رسول اللہ ﷺ نے سات باتوں کا حکم دیا اور سات باتوں سے منع فرمایا: ’’آپ نے ہمیں سونے کی انگوٹھی سے، چاندی کے برتن سے، ریشمی زین سے، قسی، استبرق، دیبا اور حریر نامی ریشم کے استعمال سے منع فرمایا ‘‘۔ (صحیح بخاری، كِتَاب اللِّبَاسِ،بَابُ خَوَاتِيمِ الذَّهَبِ)
اس حدیث سے واضح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مرد کو سونے کی انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا ہے،اس کے باوجود اس روایت کے راوی براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے سونے کی انگوٹھی پہننا ثابت ہے۔(مصنف ابن ابی شیبہ ج۶ص:۶۷،الرقم:۲۵۱۵۱،دار الفکر وسندہ حسن ،مسند احمد ۴؍۲۹۴)
کیا فرماتے ہیں احباب؟ کیا یہاں بھی وہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی طرح براء بن عازب رضی اللہ عنہ کے سونےکی انگوٹھی پہننے کو ان کی روایت کردہ حدیث کا فہم تسلیم کریں گے اور اس بنا پر مرد کے لئے کم ازکم سونے کی انگوٹھی کو حلال قرار دیں گے یاباطل پرستوں کی طرح یہاں ان کے لینے اور دینے کے باٹ شعیب علیہ السلام کی قوم کی طرح الگ الگ ہوجائیں گے؟
عائشہ صدیقہ سے روایت ہے: ’’أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهَا وَعِنْدَهَا رَجُلٌ، فَكَأَنَّهُ تَغَيَّرَ وَجْهُهُ، كَأَنَّهُ كَرِهَ ذَلِكَ، فَقَالَتْ: إِنَّهُ أَخِي، فَقَالَ: انْظُرْنَ مَنْ إِخْوَانُكُنَّ، فَإِنَّمَا الرَّضَاعَةُ مِنَ المَجَاعَةِ‘‘ نبی ﷺ میرے ہاں تشریف لائے اور میرے پاس ایک شخص کو دیکھ کر آپ کا چہرہ انور متغیر ہو گیا ۔گویا آپ نے اس کابرا منایا تو عرض کیا کہ حضرت ! یہ تو میرا رضاعی بھائی ہے ،تو آپﷺ نے فرمایا تم غور کرو کہ کون کون آپ کے رضاعی بھائی ہیں ۔ کیونکہ صرف اس رضاعت سے حرمت ثابت ہوتی ہے جس سے شیر خوار بچے کی بھوک دور ہو جاتی ہے۔(صحیح بخاری، بَابُ مَنْ قَالَ لاَ رَضَاعَ بَعْدَ حَوْلَيْنِ)
اس حدیث کو روایت کرنے کے باوجود جس سے صراحت کے ساتھ ثابت ہے کہ رضاعت صرف بچے ہی کی معتبر ہے اور وہ بھی قرآن کی رو سے صرف دو سال کے اندر اندر،عائشہ صدیقہ کا رجحان اور نظریہ بلوغت کے بعد بھی رضاعت کے قائم اور صحیح ہونے کا ہےحتی کہ اماں عائشہ تمام عمر بالغ کی رضاعت کا فتویٰ دیا کرتی تھیں ۔کیا عبداللہ بن عمر کے داڑھی کاٹنے کو ان کی روایت کردہ حدیث کی تشریح اور مفہوم قرار دینے والا کوئی شخص عائشہ صدیقہ کے فتویٰ کو ان کی روایت کردہ حدیث کا فہم اور تشریح سمجھنے کے لئے تیار ہے؟ یہاں سالم رضی اللہ عنہ کے واقعہ سے کوئی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو کیونکہ تمام امہات المومنین بجز عائشہ رضی اللہ عنہااس بات پر متفق تھیں کہ بڑی عمر کی رضاعت کا معاملہ سالم رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص تھا اس لئے کوئی اسے بلوغت کی رضاعت کے لئے دلیل نہیں بناسکتا۔مذکورہ دو مثالوں کی روشنی میں ان لوگوں کو اپنے گریبانوں میں جھانک کر اپنا جائزہ لینا چاہیے جو براء بن عازب اور عائشہ صدیقہ کے عمل اور فتویٰ کو تو قبول نہیں کرتے لیکن کسی نامعلوم دلیل اور سبب کی بنا پر عبداللہ بن عمر کے فعل کو ان کی روایت کی تعبیر مان کر داڑھی کاٹنے کے لئے دلیل بنا لیتے ہیں۔ انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ یا تو مرد کے لئے بھی سونے کی انگوٹھی کے مشروع ہونے اور بڑی عمر میں رضاعت کے قائم ہونےکو تسلیم کیا جائے یا پھر دوسری صورت میں عبداللہ بن عمر کے داڑھی کاٹنے کے فعل کو بھی محدثین کے اصول(جب روای کا فتویٰ یا عمل اپنی ہی روایت کی گئی حدیث کے مخالف ہوگا تو اسے قبول نہیں کیا جائے گا) کو صحیح مانتےہوئے رد کردیا جائے۔ یہ مشورہ بشرط انصاف و عدل ہے اور اگر عدل کی نیت و ارادہ نہ ہو تو پھر جو چاہے کرو۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,030
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
چھٹا جواب:
راقم السطور کے نزدیک نبی ﷺ کے حکم کےبرخلاف بعض صحابہ کے داڑھی ترشوانے کا یہ چھٹا اور آخری جواب، تاویل اور تطبیق ہی سب سے مضبوط اور قرین حق ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا حکم کچھ اور ہے جبکہ صحابہ کا داڑھی کاٹنے کا عمل کچھ اور ہےیعنی نبی ﷺ کے حکم اور صحابہ کے عمل کے دائرے علیحدہ علیحدہیں انہیں آپس میں خلط ملط کرنے سے احتراز برتنا چاہیے ۔ یاد رکھیں کہ داڑھی کاٹنے کا عمل داڑھی بڑھانے کے حکم سے کوئی تعلق ہی نہیں رکھتااس لئے اس عمل کے مرتکب صحابہ پر اعتراض یا تنقید کا کسی کو حق نہیں پہنچتا۔
اس سلسلے میں سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ صحابہ کرام کا داڑھی کاٹنے کا فعل مخصوص ایام یعنی صرف حج اور عمرے سے متعلق ہےیعنی بعض صحابہ کاداڑھی ترشوانا عام نہیں بلکہ ایک خاص عمل ہےجبکہ نبی ﷺ کا داڑھی بڑھانے کا حکم عام ہےاور عام حکم خاص حکم سے رد نہیں ہوتابلکہ عام حکم کو عام عمل سے ہی رد کیا جاسکتا ہے چونکہ داڑھی کی احادیث کے راویان صحابہ عام حالت میں داڑھی سے چھیڑ چھاڑ نہیں کرتے تھے اس لئے حقیقت میں انہیں داڑھی بڑھانے کے حکم کا مخالف یا انکاری نہیں کہا جاسکتا۔ اگر سچ پوچھیں تو نبی کریم ﷺ کے حکم کے مخالف اور دشمن اصل میں وہی لوگ ہیں جوگھر بیٹھے ہر ہفتے یا ہر مہینے داڑھی کٹوا رہے ہوتے ہیں کیونکہ نہ تو یہ رسول اللہﷺ کا حکم یا طریقہ ہے اور نہ ہی کسی صحابی سے ایسا کرنا ثابت ہے۔
اگرچہ داڑھی کے موضوع پر موجودتمام تردلائل اس دعویٰ کا ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ احادیث سے صرف داڑھی رکھنا فرض نہیں بلکہ داڑھی کو معاف کردینا فرض ثابت ہوتاہے اوراصولاً ایک مشت کے بعد داڑھی کٹوانا اس فرض کا انکار ہے ۔لیکن اس کے ساتھ صحابہ کو اس الزام سے معاف رکھناچاہیےکہ انہوں نے ایک مشت کے بعد داڑھی ترشوا کر داڑھی کو معاف کرنے کے حکم کے خلاف ورزی کی ہے کیونکہ جن صحابہ سے حج و عمرہ کے موقع پر داڑھی کے ساتھ تصرف کا ثبوت ملتا ہے وہ تمام صحابہ بھی حج اور عمرہ کے علاوہ داڑھی کو معاف رکھتے تھے۔اس دعویٰ کی صحیح اور مضبوط ترین دلیل تو یہی ہے جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے کہ : ’’وكان ابنُ عمرَ إذا حجَّ أو اعتمَرَ قبَضَ على لحيتِه، فما فضَلَ أخذَه‘‘ ابن عمررضی اللہ عنہ جب حج یاعمرہ کرتے تو مٹھی سے زائد داڑھی کاٹ لیتے تھے۔ (صحیح بخاری، کتاب اللباس)
یہاں داڑھی کاٹنے کے لئے حج اور عمرے کی تخصیص خودہی بتارہی ہے کہ داڑھی تراشنے کا یہ عمل عام حالات میں نہیں ہوتا تھا وگرنہ پھر خاص طور پر حج اور عمرے کے ذکر کا یہاں کوئی معنی اور مقصد نہیں بنتا۔مثال کے طور پر اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ وہ شادی بیاہ کے موقع پر پینٹ کوٹ زیب تن کرتا ہے تو وہ صرف یہی ایک بات نہیں کررہا ہوتا بلکہ اس کے ساتھ ایک اور بات کہہ رہا ہوتا ہے جو کہ پہلی بات میں پوشیدہ ہوتی ہے اور یہ کہ وہ شادی بیاہ کے علاوہ پینٹ کوٹ نہیں پہنتااسی طرح چار صحابہ کے بارے میں یہ بیان ہونا کہ وہ حج اور عمرے کے موقع پر قبضہ سے زائد داڑھی کو کاٹ لیتے تھےکا معنی یہ ہے کہ وہ حج اور عمرے کے علاوہ داڑھی میں کاٹ چھانٹ نہیں کرتے تھے۔یہ بات نہایت سہل ہے اور اسے سمجھنے کے لئے زیادہ ذہانت کی ضرورت نہیں اور نہ ہی دماغ کے گھوڑے دوڑانے کی کوئی حاجت ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کچھ لوگوں کو عقل سے اتنابھی حصّہ نہیں ملا کہ وہ اس سادہ سی بات کوبھی سمجھ سکیں چناچہ ایسے لوگوں کی تسلی کے لئے یہ روایت پیش خدمت ہے:
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ’’كنا نعفي السبال إلا في حج او عمرة‘‘ہم حج و عمرہ کے سوا ہمیشہ داڑھیوں کو لٹکتا رہنے دیتے تھے۔ (سنن ابی داؤ د:4201)
اگرچہ یہ روایت سنداً کمزور ہے لیکن اس کا متن قوی اور درست ہے کیونکہ اس متن کے مفہوم کو سنداً صحیح روایت سے تقویت ملتی ہے ۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہ روایت بطور دلیل پیش نہیں کی گئی بلکہ اس کا متن چونکہ بخاری کی مذکور ہ بالا روایت کے مفہوم ہی کی تصدیق و تائید کرتا ہے اس لئے اسے بطور شاہد نقل کیا گیا ہے۔فن حدیث کا یہ اصول ہے کہ اگر کوئی مسئلہ کسی صحیح روایت سے ثابت ہوجائے تو اسے تقویت دینے کے لئے اسی مفہوم کی ضعیف روایات کو بھی پیش کیا جاسکتاہے۔ بطور فائدہ عرض ہے کہ شارح ابوداؤ دمحترم عمر فاروق سعیدی حفظہ اللہ نے اس ضعیف حدیث کے فوائد و مسائل لکھتے ہوئے بڑے منفرد انداز میں داڑھی کاٹنے کے ناجائز ہونے کا استدلال کیا ہے۔ عمرفاروق سعیدی رقمطراز ہیں: یعنی حج اور عمرہ میں ہم کچھ کاٹ لیا کرتے تھے، اس کے علاوہ کسی اور موقع پر ہم ایسا نہیں کرتے تھے، لیکن یہ روایت ہی صحیح نہیں ہے۔اس لئے حج اور عمرہ کے مو قع پر بھی داڑھی کا کاٹنا جائز نہیں ہے۔( سنن ابوداؤ د (اردو)، جلد چہارم،کتاب الترجل،صفحہ 231، طبع دارالسلام)
شارح بخاری مولانا محمد داؤ د راز رحمہ اللہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے داڑھی کاٹنے کے فعل کے متعلق لکھتے ہیں: بعض لوگوں نے اس سے داڑھی کٹوانے کی دلیل لی ہےجو صحیح نہیں ہے۔ اول تو یہ خاص حج سے متعلق ہے۔ دوسرے ایک صحابی کا فعل ہےجو صحیح حدیث کے مقابلے پر حجت نہیں ہےلہٰذا صحیح یہی ہوا کہ داڑھی کے بال نہ کٹوائے جائیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔(صحیح بخاری ، جلد ہفتم،لباس کا بیان،صفحہ 376)
اس سے واضح ہوتا ہے کہ شارحین حدیث نے بھی عبداللہ بن عمر کے فعل سے یہی سمجھا ہے کہ وہ صرف حج اور عمرے کے موقع پر ہی ایساکرتے تھے اور عام دنوں میں اپنی داڑھی کو کتربیونت سے معاف رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ داڑھی کاٹنے والے دیگر صحابہ بھی عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ ہی کی طرح حج اور عمرے کے علاوہ داڑھی کو نہیں کاٹتے تھے۔ ایک اور روایت سے بھی اس بات کا ثبوت حاصل ہوتا ہےچناچہ عثمان بن عبداللہ بن ابی رافع رحمہ اللہ سے روایت ہے: ’’انہ رای ابا سعید الخدری، وجابربن عبداللہ، وعبداللہ بن عمرو، وسلمۃ بن الاکوع، وابا اسیدالبدری، ورافع بن خدیج، وانس بن مالک یا خذون من الشّوارب کاخذ الحلق، ویعفون اللّحی‘‘ بلاشبہ انہوں نے سات صحابہ کرام کو دیکھا، ابوسعید خدری، جابر بن عبداللہ، عبداللہ بن عمرو، سلمہ بن اکوع، ابو اسید بدری، رافع بن خدیج اور انس بن مالک یہ مونچھیں کاٹتے تھے گویا کہ مونڈنے کے مشابہ ہیں اور داڑھیوں کو بڑھاتے تھے۔ (المعجم الکبیر للطبرانی،241/1، حاشیہ:668، مجمع الزوائد، 166/5، حاشیہ: 8840)
ّاس روایت میں ہماری دلیل یہ ہے کہ تابعی عثمان بن عبداللہ نے اپنی زندگی میں سات صحابہ کرام کو دیکھا اور وہ ان کے بارے میں گواہی دیتے ہیں کہ وہ سات کے سات داڑھی میں کاٹ چھانٹ نہیں کرتے تھے بلکہ داڑھی کو اس کے حال پر چھوڑ دیتے تھے اور بڑھنے دیتے تھے لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس سات اصحاب کی فہرست میں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں اور وہ ان چار صحابہ میں سے ایک ہیں جن کے متعلق ثابت ہے کہ وہ حج اور عمرے کے موقع پر اپنی داڑھی کاٹتے تھے ۔اس سے اظہر من الشمس ہے عثمان بن عبداللہ رحمہ اللہ نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو ان کی عام زندگی میں دیکھا جبکہ حج اور عمرے کے موقع پر نہیں دیکھااور چونکہ یہ صحابی بھی دیگر صحابہ کی طرح حج اور عمرے کے علاوہ داڑھی میں قطع وبرید نہیں کرتے تھے اس لئے تابعی نے یہ گواہی دی کہ وہ دوسرے صحابہ کر طرح داڑھی بڑھاؤ کے حکم نبویﷺ پر عمل پیرا تھے۔ پس واضح ہوگیا کہ جو صحابہ حج اور عمرے کے وقت مٹھی سے زائد داڑھی کاٹتے تھے اور دیگر ایام میں داڑھی کو اسکے حال پر چھوڑ دیتے تھے۔ والحمدللہ
آخر میں اس دعویٰ کی واضح اور صریح دلیل پیش خدمت ہے:
تابعی جلیل جناب عطا بن ابی رباح رحمہ اللہ داڑھی کاٹنے والے صحابہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں: ’’كَانُوا يُحِبُّونَ أَنْ يُعْفُوا اللِّحْيَةَ إِلَّا فِي حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ‘‘ وہ حج اور عمرے کے علاوہ داڑھی کو معاف کرنا پسند کرتے تھے ۔ (مصنف ابن ابي شيبة:الرقم: 25482، وسندہ صحیح)
دلائل سے اب یہ واضح ہوجانے کے بعد کہ عبداللہ بن عمر، ابوہریرہ ، عبداللہ بن عباس اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم وغیرہ بھی عام دنوں میں نبی کریم ﷺ کے حکم کے عین مطابق داڑھی کو اس کی حالت پر چھوڑ دیتے تھے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ آخر حج اور عمرے کے موقع پر ایسا کیوں کرتے تھے ؟ اس کی وجہ راقم کی نظر میں یہی ہے کہ یہ ان صحابہ کااپنافہم اور ذاتی اجتہاد تھاجس کی بنا پر ان کا عمل بھی دوسروں سے جدا اور مختلف تھا۔ محمد رفیق طاہر حفظہ اللہ لکھتے ہیں: رہا سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا عمل تو وہ انکا ذاتی عمل ہے، جو دین میں حجت نہیں ہے۔ بالخصوص جبکہ وہ اللہ اور اسکے رسول ﷺ کے صریح حکم سے موافقت نہیں رکھتا۔( داڑھی کی واجب مقدار ،rafiqtahir.com)
پس عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے دیگر ہمنوا تین صحابہ کےداڑھی کو لمبائی میں معمولی سا تراش لینے کا تعلق ہر گز نبی ﷺ کی داڑھی بڑھائو کے حکم پر مشتمل اس حدیث سے نہیں ہے جسے خود ابن عمر رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے بلکہ اس کا تعلق مناسک حج کے ساتھ ہے اور اس کے لئے یہ صحابہ قرآن کی مندرجہ ذیل آیت سے استدلال کرتے تھے: ’’لَتَدۡخُلُنَّ الۡمَسۡجِدَ الۡحَرَامَ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ اٰمِنِیۡنَ ۙ مُحَلِّقِیۡنَ رُءُوۡسَکُمۡ وَ مُقَصِّرِیۡنَ ۙ لَا تَخَافُوۡنَ‘‘اگر اللہ نے چاہا تو ضرور بالضرورمسجدحرام میں داخل ہو گے امن و امان کے ساتھ، اپنے سر منڈوائے ہوئے اور بال کتروائے ہوئے (اس حال میں کہ) تم خوفزدہ نہیں ہو گے۔ (سورہ الفتح، آیت27)
قرآن کی اس آیت سے اجتہاد کرتے ہوئے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ حج و عمرہ کے لئے مکہ میں داخل ہوکر سر منڈوا لیتے تھے اس کے بعد صرف داڑھی مونچھوں کے بال بچتے تھے جنھیں یہ صحابہ کتروا کر اس آیت قرآنی پر عمل کرتے تھے۔علامہ عینی حنفی، عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کے داڑھی کاٹنے کے فعل کی توجیہ بیان کرتے ہوئےلکھتے ہیں :
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ حج کے موقع پر سر کو منڈاتے یعنی سر کا حلق کراتے اور جتنی داڑھی قبضہ سے زائد ہوتی اس کو کاٹ دیتے تو گویا وہ ’’مُحَلِّقِینَ رُؤُسَکُمْ وَ مُقَصِّرِینَ‘‘ (الفتح:۲۷)کو جمع کرتے تھے، یعنی وہ سر کا حلق کراتے اور داڑھی کو قبضہ سے زائد ہونے پر کاٹتے۔ (نعم الباری فی شرح صحیح البخاری، جلدثانی عاشر(۱۲)، صفحہ414)
اور یہی بات صحیح بخاری کے دیگر شارحین جیسے امام کرمانی رحمہ اللہ نے بھی بیان فرمائی ہے، لکھتے ہیں: ’’لعل ابن عمرارادالجمع بین الحلق والتقصیرفی النسک فحلق راسہ کلہ وقصر من لحیتہ لیدخل فی عموم قولہ تعالیٰ: مُحَلِّقِینَ رُؤُسَکُمْ وَ مُقَصِّرِینَ۔ وخص ذلک من عموم قولہ: وفروا اللحی فحملہ علی حالۃغیرالنسک‘‘شاید کہ ابن عمر نے حج میں حلق اور تقصیر دونوں کو جمع کیا، اور اپنے سارے سر کو مونڈ لیا، اور اپنی داڑھی سے کچھ کاٹ لیا، تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے قول کے عموم میں شامل ہوجائیں: ’’اپنے سروں کو مونڈنے والے اورکٹوانے والے۔‘‘اور اللہ تعالیٰ کے قول کے عموم سے خاص ہے’’داڑھیوں کووافر کرو۔‘‘ چناچہ انہوں نے اسے حج کے علاوہ کسی حالت پر محمول کیا ہے۔(فتح الباری، ۱۰/۲۵۰)
ابن عمررضی اللہ عنہ داڑھی کاٹنے کو امور حج میں شامل سمجھتے تھے اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ وہ حلق کرواتے وقت ایسا کرتے تھے، امام مالک رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: ’’وَحَدَّثَنِي عَنْ مَالِك، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، كَانَ إِذَا حَلَقَ فِي حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ أَخَذَ مِنْ لِحْيَتِهِ وَشَارِبِهِ‘‘ نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ جب حج یا عمرہ میں حلق کرتے تواپنی داڑھی اور مونچھوں کے بال بھی کاٹتے۔(الموطا، جلد دوم، صفحہ 195)
اھم بات یہ ہے کہ عبداللہ بن عمر سمیت بقیہ تین صحابہ کا داڑھی کاٹنے کو حج کے امور میں سے ایک امر سمجھنا مبنی بر خطاء تھاکیونکہ کسی کے نزدیک بھی داڑھی کاٹنا مناسک حج کا حصّہ نہیں ہےچناچہ حافظ ابوسمیعہ محمود تبسم اس حدیث کی شرح میں، ابن عمررضی اللہ عنہ کے اجتہاد کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اہل علم میں سے کسی کے نزدیک بھی داڑھی کے بال کاٹناامور حج میں شامل نہیں ہے۔ (الموطا، جلد دوم، صفحہ 195)
امام شافعی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’واحب الی لو اخذ من لحیتہ، وشاربیہ حتی یضع من شعرہ شیئا للہ و ان لم یفعل فلا شیئ علیہ لان النسک انما ھو فی الراس لافی اللحیۃ‘‘ اگر وہ (حاجی) اپنی داڑھی اور مونچھوں کے بال کاٹ لے تو یہ میرے نزدیک پسندیدہ ہے، اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے، کیوں کہ مناسک حج میں سرشامل ہے، داڑھی کا مناسک حج سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ الام للشافعی،۲/۲۳۲ ۔(یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 228،229)
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا شمار بھی ان صحابہ میں ہوتا ہے جو حج و عمرے کے موقع پر داڑھی کترتے تھےاور وہ اسے قرآن کا حکم سمجھتے تھے کہ قربانی کرنے کے بعد سر کے بالوں کے ساتھ ساتھ داڑھی کے مشت سے زیادہ بالوں کو بھی کاٹا جائے گا،اس کی دلیل سیدنا عبد اللہ بن عباس کی مندرجہ ذیل توضیح اور تشریح ہے:
’’ حدَّثنا مُحَمَّد بن إِسْحَاق السِّنْدي قَالَ: حَدثنَا عَلِي بن خَشْرَم عَن عِيسَى عَن عبد الْملك عَن عَطاءِ عَن ابْن عَبَّاس فِي قَوْله: {ثُمَّ لْيَقْضُواْ تَفَثَهُمْ} (الْحَج: 29) قَالَ: التَّفَثُ الحَلْق والتّقصير والأخذُ من اللّحية والشّارب والإبط، والذّبْح وَالرَّمْي‘‘
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے اللہ تعالی کے اس فرمان{ثُمَّ لْيَقْضُواْ تَفَثَهُمْ}کی تفسیر اس طرح منقول ہے:تفث سے مراد حلق،تقصیر اور داڑھی،مونچھ اوربغلوں کے بال کاٹنا ، قربانی اور رمی کرنا ہے۔(زللغة لمحمد بن أحمد (المتوفى: 370هـ)190/14 ) ،وسندہ صحیح)
ابن عباس رضی اللہ عنہ کی یہ تفسیران کتابوں میں بھی صحیح سند کے ساتھ موجود ہے:
عن ابن عباس أنه قال:(التفث الحلق والتقصير والرمي والذبح والأخذ من الشارب واللحية ونتف الإبط وقص الإظفار(معانی القرآن للنحاس: 4/400)سندہ صحیح)
ثنا هشيم، قال: أخبرنا عبد الملك بن ابی سلیمان، عن عطاء، عن ابن عباس، أنه قال، في قوله: {ثُمَّ لْيَقْضُواْ تَفَثَهُمْ} قال: التفث: حلق الرأس، وأخذ من الشاربين، ونتف الإبط، وحلق العانة، وقصّ الأظفار، والأخذ من العارضين، ورمي الجمار، والموقف بعرفة والمزدلفة. (تفسیر الطبری:612/18،سندہ صحیح)
أَبُو بَكْرٍ ابن ابی شیبة قَالَ: نا عبد الله ابْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: ’’التَّفَثُ الرَّمْيُ، وَالذَّبْحُ، وَالْحَلْقُ، وَالتَّقْصِيرُ، وَالْأَخْذُ مِنَ الشَّارِبِ وَالْأَظْفَارِ وَاللِّحْيَةِ (مصنف ابن ابی شیبة:429/3،15673سندہ صحيح)
گویا کہ سیدناعبد اللہ بن عباس کے نزدیک قربانی کرنے کے بعد سر منڈوایا جائے گا، یاسر کے کچھ بال کاٹے جائیں گے،اس کے ساتھ ساتھ داڑھی کے مشت سے زائد بال،مونچھ کے بال اور زیر ناف بال بھی کاٹے جائیں گے،رمی،جانور ذبح کرنااور ناخن کاٹنا وغیرہ بھی تفث میں شامل ہے۔
علامہ وحیدالزماں حیدرآبادی عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کے حج اور عمرے کے موقع پر داڑھی تراشنے کا سبب اور وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: عبداللہ بن عمر جب حج کرتے اور حج سے فارغ ہو کر احرام کھولتے تو اپنی داڑھی کو مٹھی میں لیتے اور جتنی مٹھی سے زیادہ ہوتی اس کو کتر ڈالتے۔ شاید ان کے نزدیک احرام کھولتے وقت سر اور داڑھی دونوں کا قصر کرنا ضروری ہوگا اور دوسری حدیث میں جو ہے کہ داڑھیوں کو چھوڑ دو اس کو انھوں نے حج کے سوا اور حالتوں سے خاص رکھا ہوگا۔(لغات الحدیث، جلد سوم، کتاب ’’ق‘‘صفحہ 9)
اگرچہ یہ وحیدالزماں حیدرآبادی کا تخمینہ، اندازہ اور رائے ہے لیکن متعلقہ دلائل کودیکھتے ہوئے ان کی یہ رائے ہی صواب اور حق ہے کیونکہ نصوص و براہین اسی کی تصدیق و تائیدکرتے ہیں۔بہرحال یہ بات ثابت ہوجانے کے بعد کہ جو چار صحابہ قبضہ سے زائد داڑھی کاٹتے تھے تو وہ اسے حج کے ضروری ارکان میں سے ایک رکن سمجھتے تھے کس قدر ناانصافی کی بات ہے کہ یہ کہاجائے کہ وہ نبی کریم ﷺ کے داڑھی بڑھاؤ کے حکم کی مخالفت کرتے تھے کیونکہ نبی مکرم ﷺ کا حکم مطلق ہے جبکہ صحابہ کا عمل حج و عمرے کے ساتھ مقید ہے ،نبی ﷺ کا حکم عام ہے جبکہ ان چار صحابہ کا عمل خاص ہے۔اس میں ضد اور اختلاف تو کہیں بھی نہیں ہے۔ تضاد اور مخالفت تو تب ہوتی جب اللہ کے رسول ﷺ کے کسی خاص حکم کے مقابلے پر کوئی خاص عمل کیا جاتاجو اس سے مختلف ہوتا یا رسول اللہ ﷺ کے عام حکم سے ہٹ کرکوئی اور عام عمل کیاجاتا جو اس کے الگ ہوتا۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ مذکورہ چاروں صحابہ نے رسول اللہ ﷺ کے عام حکم داڑھی کو چھوڑ دو پر پوری طرح عمل کرتے ہوئے عام حالات میں داڑھی کو اس کے حال پر چھوڑے رکھا۔جبکہ اپنے اجتہاد کی بناپرخاص حج اور عمرے کے موقع پر داڑھی تراشنے کو حکم ربی سمجھا اور اس پر قرآنی آیات سے دلیل پکڑی۔ان حقائق کو دیکھتے ہوئے عرض ہے کہ جو لوگ صحابہ کے اس اجتہادی عمل کو درست سمجھتے ہیں اور اس سلسلے میں ان کی اتباع اور پیروی کرنا چاہتے ہیں تو ان کے لئےشرعاً صرف اتنی ہی گنجائش نکلتی ہے کہ وہ داڑھی کو اس کے حال پر باقی رہنے دیں البتہ حج اور عمرہ کرتے وقت اگر ایک مشت سے زائد بال کتروالیں تو جائز ہے جبکہ اس سے تجاوز ان کے لئے کسی صورت حلال نہیں۔
حالت حضر میں داڑھی کٹوانے والے حضرات اس معاملے میں کسی کی پیروی نہیں کرتے بلکہ انہوں نے ایک ایسا مذہب ایجاد کیا ہے جس کی بنا شیطان کی وحی پرہے۔ مثال کے طور پریہ حضرات عرض یعنی سائیڈوں سے بھی داڑھی کٹواتے ہیں لیکن اس کا شرعی ثبوت ان کے پاس نہیں ہےایک ضعیف روایت ہے کہ نبی ﷺ اپنی داڑھی کے طول وعرض سے بال لیتے تھے لیکن بوجہ ضعف یہ ان کی دلیل نہیں بن سکتی۔ اس کے علاوہ یہ لوگ داڑھی سے متصل گردن اور اسکے ساتھ گالوں کے بال بھی مونڈواتے ہیں جسے رائج اصطلاح میں خط بنوانا کہتے ہیں اس کے لئے صحیح دلیل ہونا تو درکنار کوئی ضعیف یا موضوع روایت بھی نہیں ہے۔ لے دے کےصرف لمبائی میں ان کا داڑھی کٹوانا عبداللہ بن عمر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم وغیرہ کے فعل سے بظاہر مطابقت رکھتا ہوا معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقت میں یہ اس معاملے میں بھی ان سےاپناایک الگ طریقہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ ذکر کردہ صحابہ صرف حج و عمرے کے موقع پر یہ فعل کرتے تھے لیکن اس معاملے میں ان صحابہ کی پیروی کا دعویٰ کرنے والے یہ جھوٹے پوراسال دن رات داڑھیاں کٹواتے پھرتےہیں۔ صحابہ کے ایک محدود اور مخصوص موقع پر کئے جانے والے عمل کو انہوں نے اپنے طور پر لامحدود اور عام کردیا پھر یہ کس طرح صحابہ کے نقش پا پر چلنے والے کہلائے جاسکتے ہیں؟اورحد تو یہ ہے داڑھی تراشنے والے صحابہ اسے مناسک حج کا حصّہ سمجھتے ہوئے ایسا کرتے تھے لیکن اس معاملے میں ان صحابہ کی قدم بہ قدم پیروی کرنےوالےلوگ اسے مناسک حج میں شامل ہی نہیں سمجھتےیعنی انہوں نے صحابہ کے فعل کوتو من وعن تسلیم کرلیا لیکن ان صحابہ کی دلیل کو رد کردیا پھر کس منہ سے یہ داڑھی کاٹتے اور اپنے فعل کی نسبت ان صحابہ کی جانب کرتے ہیں جن کی دلیل سے یہ اتفاق ہی نہیں کرتے۔ کیا یہ دوغلے پن کی معراج نہیں ہے؟!خواہشات نفسانی کے پیچھے لگنے کے بجائے یا تو ان لوگوں کو صحابہ کی دلیل کو بھی قبول کرلینا چاہیے یا پھر ان کے فعل کو بھی رد کردینا چاہیے۔پھرایک مشت داڑھی کو ناپنے کے سلسلے میں بھی یہ صحابہ کی مخالفت کرتے ہیں ۔ یہ تھوڈی سے داڑھی کو ناپ کر ایک مشت کے بعد داڑھی صاف کروالیتے ہیں جبکہ صحابہ تھوڈی سے کچھ فاصلے سے اپنی داڑھی کو قبضے میں لے کر اضافی بالوں کو کترتے تھے۔پروفیسر ڈاکٹر عبدالکبیر محسن رقمطراز ہیں: ابن تین نے ابن عمر سے اس منقول کے ظاہر کا انکار کیا لکھتے ہیں یہ نہیں مراد کہ بس وہ مٹھی بھر ہی داڑھی رکھتے تھے بلکہ مراد یہ ہے کہ پکڑ کر جو اکا دکا بال آگے نکلے ہوتے انہیں کاٹ دیتے تو وہ تھوڈی کے نیچے اپنی چار انگلیوں کے ساتھ ملتصق کرکے پکڑتے تو اس سے نیچے کے بالوں کو کاٹ دیتے تاکہ داڑھی کا طول متساوی ہوجائے۔ (توفیق الباری شرح صحیح بخاری،صفحہ 568،569)
اثر مذکورہ سے معلوم ہوا کہ طول سے بھی داڑھی کاٹتے وقت صحابہ مبالغہ نہیں کرتے تھے بلکہ صرف چند بال ہی کاٹتے تھے تاکہ ایک واجبی سی ترتیب قائم ہوجائے مگر آج کے مسلمان تو انتہائی بے دردی سے لمبائی میں بھی ایسے بال کاٹتے ہیں کہ قینچی کی پہنچ سے ایک بال بھی بچ نہیں پاتااور گھنی داڑھی کی صورت میں بلامبالغہ سینکڑوں بال کٹتے ہیں۔ توکہاں اکا دکا بال اور کہاں سینکڑوں بالوں کی ناحق قربانی! پس ایسی عجیب وغریب داڑھی رکھ کر موجودہ مسلمانوں کا صحابہ کرام کے مبارک چہروں سے مشابہت کا دعویٰ دجل اور فریب ہے۔ کئی لحاظ سے یہ عجمیوں اور اہل کتاب ہی کی نقل ہےچاہے لاکھ اسے شریعت سے جوڑا جائے۔
 
Last edited:

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,030
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
دشمنان طویل اللحیہ:
عوام الناس کے دلوں سے داڑھی کی عظمت اور اہمیت گھٹانے اور ختم کرنے کے لئے ہردور میں لمبی اور شرعی داڑھی سے خوفزدہ ایک مخصوص فکر و نظر رکھنے والے افراد کی جانب سے منظم پروپیگنڈا کیا گیا ہے۔ اس پروپیگنڈا کی کامیابی اور اسلامی معاشرے میں اس کی اثر پذیری کا ایک طویل عرصہ سے درد دل رکھنے والے مشاہدہ کررہے ہیں۔ یہ اثرات اس قدر گہرے اور مضبوط ہیں کہ ان کی اثر انگیزی کسی طرح کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی اور لوگ اس کے جادوئی حصار سے باہر ہی نہیں نکل پا رہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ لمبی داڑھی سے ڈراتے ڈراتے اس مخصوص طبقے نے نوجوانوں کے دلوں میں داڑھی ہی سےلا تعلقی اور بے زاری پیدا کردی ہے۔ اس خاص طبقہ میں صرف باطل پرست اور فرقہ پرست مولوی حضرات ہی شامل نہیں جو بیچارے ہر معاملےاور ہر مسئلہ کو اپنے مذہبی اصولوں کی عینک سے دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں پھر چاہے ان اصولوں کی زد میں قرآن و حدیث کی نصوص ہی کیوں نہ آرہی ہوں انہیں قطعاً اس کی پرواہ نہیں ہوتی کیونکہ انہیں ہر حال میں اپنے مذہب کا عَلم ہی بلند رکھنا ہوتاہے۔اب چونکہ یہ مولوی حضرات لمبی داڑھی کو بدصورتی کی علامت سمجھتے ہیں اس لئے ان کا لمبی داڑھی کی مذمت کرنا اور لمبی داڑھی کے متعلق خوف و ہراس پھیلانا عقل میں آتا ہے۔ حیرت تو ان بڑے اور نامی گرامی علماء پر ہوتی ہے جو کتاب سنت کے داعی ہیں لیکن داڑھی سے گریز کے ماحول کو تخلیق کرنے اورایسی خلاف شرع سوچ کو پروان چڑھانے میں ان کا بھی ہاتھ ہے۔ دانستہ نہ سہی لیکن نادانستگی ہی میں سہی یہ اہل حق علماء بھی اس خلاف سنت فکر و سوچ پر مشتمل پروپیگنڈا کا حصّہ رہے ہیں اور اس کی آبیاری کرتے رہے ہیں۔
علامہ ابن جوزی نے اہل عقل کی تعلیم وتادیب اور خبرداری کے لئے احمقوں کی حماقتوں پر ایک کتاب لکھی ہے تاکہ اگر پڑھنےوالوں میں تھوڑی سی بھی عقل ہوتو وہ ان حماقتوں کے نقصان سے بچ سکیں۔اس کتاب میں علامہ صاحب نے احمق کا تعارف اور پہچان دو طریقوں سےکروائی ہے ایک یہ کہ احمق اپنے شمائل یعنی حلیےسے اپنی پہچان کرواتا ہےاور دوسرا اپنی مخصوص چال ڈھال، عادات اور گفتگو اس کی حماقت کو آشکار کرتی ہے چناچہ حلیے کے تحت انہوں نے خصوصی طورپر داڑھی کے متعلق نبی کریم ﷺ کے حکم کہ اسے چھوڑ دو اور معاف کرو وغیرہ کو احمق کی ایک بنیادی نشانی کے طور پر پیش کیا ہے۔نعوذباللہ من ذالک
علامہ ابن جوزی احمق کی صفات بتاتے ہوئے لکھتے ہیں: تورات میں لکھا ہےداڑھی دماغ سے نکلتی ہے، تو جس کی داڑھی زیادہ لمبی ہوتی ہے تو اس کا دماغ کم ہوجاتا ہے اور جس کا دماغ کم ہو تو اس کی عقل کم ہو جاتی ہے، اور جس کی عقل کم ہوتی ہے وہ احمق ہوتا ہے۔ بعض حکماء فرماتے ہیں: لمبی گھنی داڑھی حماقت ہے، جس کی داڑھی لمبی ہوجاتی ہےتو اس کی حماقت زیادہ ہوجاتی ہے۔ (احمقوں کی دنیا، صفحہ 54)
اس کلام کے مردود اور باطل ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اس میں گھنی داڑھی کو بھی وجہ حماقت قرار دیا گیا ہے جبکہ صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کی داڑھی گھنی تھی۔ ہشام بن حبیش بن خویلد سے روایت ہے کہ امِّ معبد کہتی ہیں : وفي لحيته كثاثة ’’نبی کریم ﷺ کی داڑھی مبارک گھنی تھی ۔‘‘ (المستدرک للحاکم :۳؍۹،۱۱،وسندہ حسن)
علامہ ابن جوزی صرف حماقت کی تہمت تک محدود نہیں رہے بلکہ لمبی داڑھی والے کی کردار کشی پر بھی اتر آئے۔ اپنی تائید میں علامہ صاحب احنف بن قیس کا قول نقل کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: جب آپ کسی شخص کو دیکھیں بڑی کھوپڑی اور لمبی داڑھی والا ہے۔ تو اس پر بے شرم ہونے کا حکم لگادیں اگرچہ وہ امیہ بن عبدالشمس ہی کیوں نہ ہو۔ (احمقوں کی دنیا، صفحہ 54)
سوچئے جب عوام میں اتنے مقبول اور معروف علماء داڑھی جیسی سنت کے بارے میں ایسی ہرزہ سرائی کریں گے تو کیوں ان کی یہ نامسعود اور بذات خود احمقانہ کوشش مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو متاثر کرکے داڑھی سے دور کرنے کا سبب نہیں بنے گی؟ ہمارے خیال میں تو علامہ ابن جوزی اپنے تئیں خود کو عقل مند سمجھ کر دوسروں کو حماقت سے بچانے کی کوشش میں خود ہی بہت بڑی حماقت کا شکار ہوئے ہیں۔ عبرت کا مقام ہے کہ علامہ جوزی نے کئی لوگوں کا تذکرہ کرکے جنھیں اپنی بلند ہمتی اور عقل پربڑا ناز تھااور دعویٰ عقلمندی تھا۔ ا نکے عقل وخرد کے دعویٰ کو کھوکھلا اور غلط قرار دے کر پھر اپنے بلند حوصلہ اور عقل مند ہونے کا دعویٰ پیش کیاہےچناچہ علامہ موصوف اپنی بلند اور عالی ہمت کا فخریہ انداز میں تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: انسان کے لیے سب سے بڑی ابتلاء اس کی بلند ہمتی ہے اس لیے کہ جس کی ہمت بلند ہوتی ہے وہ بلند سے بلند مراتب کا انتخاب کرتا ہے پھر کبھی زمانہ مساعد نہیں ہوتا، کبھی وسائل مفقود ہوتے ہیں تو ایسا شخص ہمیشہ کوفت میں رہتا ہے، مجھے بھی اللہ تعالیٰ نے بلند حوصلہ عطا فرمایا ہے اور اس کی وجہ سے میں بھی تکلیف میں ہوں......(احمقوں کی دنیا، صفحہ 19)
یاد رہے کہ بلند حوصلہ ہونا عقلمندوں کا خصوصی وصف ہے یہی وجہ ہے کہ علامہ موصوف تکلیف اور مشقت کے باوجود بلند ہمتی سے محرومی نہیں چاہتےاور مزید لکھتے ہیں:
لیکن میں یہ بھی نہیں کہتا کہ کاش مجھے یہ بلند حوصلہ نہ عطا ہوتا اس لیے کہ زندگی کا پورا لطف بے فکری، بے عقلی اور بے حسی کے بغیر نہیں اور صاحب عقل یہ گوارا نہیں کرسکتا کہ اس کی عقل کم کردی جائے اور زندگی کا لطف بڑھا دیا جائے......(احمقوں کی دنیا، صفحہ 19)
پھر اس کے بعد ان بعض لوگوں کا جنھیں اپنی عقلمندی پر ناز بلکہ دعویٰ ہے پہلے اجمالاً پھر کسی قدر تفصیلاً تذکرہ کرنے کے بعد ان کے دعویٰ عقل کو غیر حقیقی اور فریب قرار دیتے ہیں لہٰذا رقمطراز ہیں: میں نے کئی آدمیوں کو دیکھا کہ وہ اپنی بلند ہمتی کا بڑی اہمیت سے ذکر کرتے ہیں لیکن غور کیا تو معلوم ہوا کہ ان کی ساری بلند ہمتی صرف ایک ہی صنف اور شعبہ میں ہے، اس کے علاوہ دوسرے شعبوں میں (جو بعض اوقات ان کے شعبہ سےزیادہ اہم ہوتے ہیں) ان کو اپنی کمی یا پستی کی کوئی پرواہ نہیں۔ (احمقوں کی دنیا، صفحہ 19)
وہ بعض لوگ جو اپنی عقل و خرد کے گن گاتے تھے انہیں بے عقل اور احمق ثابت کرنے کے بعد علامہ ابن جوزی اپنی عقل مندی اور بلند حوصلگی کا دعویٰ یوں پیش کرتے ہیں: بھلا اس عالی ہمتی کا مقابلہ وہ لوگ کیا کرسکتے ہیں جن کو صرف دنیا مطلوب ہےپھر میری خواہش یہ بھی ہے کہ دنیا کا حصول اس طرح ہو کہ میرے دین پر آنچ نہ آئے اور وہ بالکل محفوظ ہو اور نہ میرے علم و عمل پر کچھ اثر پڑے۔(احمقوں کی دنیا، صفحہ 21)
دوسروں کے مقابلے میں علامہ ابن جوزی کے اپنے عقل مند اور بلند ہمت ہونے کے اس دعویٰ اور بیان کے برعکس موصوف نےآغاز کتاب ہی میں اس بری طرح ٹھوکر کھائی ہےکہ ان کا اپنا دعویٰ بھی محل نظر ٹھہرا۔ ظاہر ہے جو خالق کائنات کی قائم کردہ فطرت لمبی داڑھی کو جو سراسر حکمت اور عقل مندی ہے بے وقوفی کی علامت اور نشان ٹھہرائے اس سے بڑھ کر بے وقوف اور احمق اور کون ہوسکتا ہے؟ راقم امام موصوف کے متعلق جتنا بھی حسن ظن رکھ لے لیکن انہیں داڑھی بڑھاؤ کے حکم پر مبنی احادیث سے بے خبری یا ان کی اسناد میں شبہ لاحق ہونے کا فائدہ نہیں دے سکتا کیونکہ وہ کوئی عام عالم نہیں تھے جن کی نظر سے بنیادی مسائل پر مبنی روایات تک مخفی رہ جاتیں۔ ان کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ محدث بھی تھےچناچہ ’’کتاب الموضوعات‘‘ انہی کی تصنیف ہے جس میں ایسی موضوع احادیث کو یکجا کیا گیا ہے جس سے علامہ جوزی کے دور کے متصوفین اور متبدعین اپنی بدعات کے لئے بنیادیں فراہم کرتے تھے۔ گویا کہ علامہ صاحب فن حدیث سے بھی خوب واقفیت رکھتے تھے۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی اپنی کتاب ’’تاریخ دعوت و عزیمت‘‘ میں علامہ ابن جوزی کےاپنی ذات سے متعلق ایک دعویٰ کے بارے میں لکھتے ہیں: حدیث میں ایسا بلند پایہ رکھتے تھے کہ دعویٰ سے کہتے تھے کہ ہر حدیث کے متعلق کہہ سکتا ہوں صحیح ہے یا حسن یا محال ہے۔ (بحوالہ احمقوں کی دنیا، صفحہ 17)
علامہ ابن جوزی نے لمبی داڑھی کو احمق شخص کی نشانی اور پہچان ثابت کرنے کے لئے کئی لوگوں کے اقوال اپنی تائید میں نقل کئے ہیں ـ جیسے مدائنی کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ انہوں نے ایک بے وقوف شخص کی حماقت کاواقعہ بیان کرتے ہوئے کہا: اور یہ لقمہ دینے والا شخص لمبی داڑھی والا تھا۔ (احمقوں کی دنیا، صفحہ 143)
علامہ جوزی لکھتے ہیں: میں نے ایک لمبی داڑھی والے کو دیکھا گدھے پرسوار ہےاور اس کو ماررہا ہےمیں نے کہا نرمی کرو جانور ہےکہنے لگا جب اس میں چلنے کی طاقت نہیں تھی تو یہ گدھا کیوں بنا۔ (احمقوں کی دنیا، صفحہ 213)
علامہ صاحب رقمطراز ہیں: ابو العباس کہتے ہیں میں نے ایک لمبی داڑھی والے شخص سے پوچھا آج کون سا دن ہے؟ اس نے کہا خدا کی قسم مجھے پتہ نہیں، میں یہاں کا باشندہ نہیں ہوں میں تو دیر العاقول کا ہوں۔ (احمقوں کی دنیا، صفحہ 216)
ابن جوزی نے لکھا: ابو عثمان الحافظ کہتے ہیں فرارہ بصرہ والوں پر مظالم ڈھانے والا تھا، وہ اللہ کی مخلوق میں سب سے لمبی داڑھی والا اور کم عقل تھا۔(احمقوں کی دنیا، صفحہ 124)
ابن جوزی مزید لکھتے ہیں: ابوالعنبس نے کہا ایک لمبی داڑھی والا احمق شخص ہمارا پڑوسی تھاوہ محلّہ کی مسجد میں قیام کیا کرتا تھا مسجد کی دیکھ بھال کرتا اور اس میں اذان دیتا اور نماز پڑھاتا وہ اکثر لمبی سورتوں سے نماز پڑھاتا......دوسرے دن جب وہ نماز پڑھانے آگے بڑھا تو الحمد پڑھنے کے بعد بہت دیر تک سوچتا رہا (کہ کون سی سورت پڑھوں)تو مقتدیوں میں سے ایک نے چیخ کر کہا تم سورہ عبس کے متعلق کیا کہتے ہو؟ تو کوئی نہیں بولا سوائے ایک شخص کے جو کم عقل اور لمبی داڑھی والا تھا اس نے کہا اس امام کو سر کے بل الٹا کرکے کہو کہ یہی سورت پڑھے۔ (احمقوں کی دنیا، صفحہ 143)
حیرت ہے کوئی عالم و محدث کیسےایک ایسے فعل کو حماقت کی نشانی کے طور پر پیش کرسکتا ہے جو فعل (لمبی داڑھی)صحیح اور ناقابل تردید نصوص سے پایہ ثبوت کو پہنچ چکا ہو؟ ایسی بے عقلی کی تو ایک عام اور کم علم مسلمان سے بھی توقع نہیں کی جاسکتی کجا یہ کہ ایک عالم دین سے اس نامعقول حرکت کا ظہور ہو۔حقیقت یہ ہے کہ لمبی داڑھی کو حماقت کی دلیل کے طور پر پیش کرنے والے خود بہت بڑے احمق ہیں اور یہ حماقت ان کی اخروی مفاد کے لئے بھی زہر قاتل ہے کیونکہ اس میں اسلامی شعار کازبردست استہزا اور تضحیک پائی جاتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ حماقت، بے وقوفی اور کم عقلی اصل میں عجز ہے اورحدیث کے مطابق عجز کا تعلق تقدیر سے ہے۔ گویا کہ اگر کوئی بے وقوف ہے تواس میں اسکا کوئی اختیار نہیں بلکہ وہ اپنی تقدیر کے آگے بے بس اور مجبور ہے۔لہٰذا اگر کوئی احمق ہے تو وہ لمبی داڑھی کٹوا کر عقل مند نہیں ہوسکتا۔حدیث ملاحظہ فرمائیں: حَدَّثَنِي عَبْدُ الْأَعْلَی بْنُ حَمَّادٍ قَالَ قَرَأْتُ عَلَی مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ و حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ عَنْ مَالِکٍ فِيمَا قُرِئَ عَلَيْهِ عَنْ زِيَادِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ طَاوُسٍ أَنَّهُ قَالَ أَدْرَکْتُ نَاسًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُونَ کُلُّ شَيْئٍ بِقَدَرٍ قَالَ وَسَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کُلُّ شَيْئٍ بِقَدَرٍ حَتَّی الْعَجْزِ وَالْکَيْسِ أَوْ الْکَيْسِ وَالْعَجْزِ
عبدالاعلی بن حماد مالک بن انس، قتیبہ بن سعید مالک زیادہ بن سعید عمرو بن مسلم حضرت طاؤس سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ کے متعدد صحابہ سے ملاقات کی ہے وہ کہتے تھے ہر چیز تقدیر سے وابستہ ہے اور میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ نے فرمایا ہر چیز تقدیر سے وابستہ ہے یہاں تک کہ عجز اور قدرت یا قدرت اور عجز۔(صحیح مسلم، تقدیر کا بیان،حدیث نمبر6751 )
پس لمبی داڑھی والے کو بے وقوف کہنے والے یہ لوگ خود احمقوں کے احمق ہیں کیونکہ بے وقوفی اور حماقت کا تعلق لمبی داڑھی سے نہیں بلکہ تقدیر کے ساتھ ہے۔
لمبی داڑھی اور حماقت کا چولی دامن کا ساتھ ہے اس پر علامہ ابن جوزی کا عقیدہ ایساغیر متزلزل تھاکہ ان کا یہی نظریہ اور موقف بن گیا تھاکہ جس کی داڑھی لمبی ہوگی وہ ضرور ہی بےوقوف ہوگااور اسے ثابت کرنے کے لئے انہوں نے اپنے حق میں مختلف علماء وفضلاء کے اقوال نقل کئے ہیں، ایک جگہ لکھتے ہیں: جاحظ کہتے ہیں کہ میں نے ابوسعید بصری کو دعا مانگتے دیکھا یہ بھی لمبی داڑھی والا احمق تھا یوں دعا مانگ رہا تھا: یا رباہ سیداہ مولاہ یا جبرائیل یا اسرافیل و یا میکائیل یا کعب الاحبار یا اویس القرنی و بحق محمد و جرجیس۔ تجھ پر لازم ہے کہ ان کے وسیلہ سے امت پر آٹے کی ارزانی فرما۔ (احمقوں کی دنیا، صفحہ 174،175)
ہارون الرشید نے پہلے شخص کو دروازے میں داخل ہوتے دیکھا تو اس کی ناف تک لمبی اور بغلوں تک چوڑی داڑھی ہے، چلنے میں جلد بازی کرتا ہے اور ادھر ادھر دیکھ رہا ہے یہ دیکھ کر ہارون الرشید نے کہا رب کعبہ کی قسم یہ شخص احمق ہے۔ (احمقوں کی دنیا، صفحہ 234)
ابوالعیناء کہتے ہیں مجھ سے جاحظ رحمہ اللہ نے بیان کیا میرا ایک بہت ہی بیوقوف پڑوسی تھا، اس کی داڑھی لمبی تھی ، ایک دن اس کی بیوی اس سے کہنے لگی، تیری لمبی داڑھی تیری حماقت کی دلیل ہے، اس نے کہا جو کسی کو عار دلاتا ہے اس کو بھی اس کے بدلہ میں عار دلایا جاتا ہے۔ (احمقوں کی دنیا، صفحہ 182)
ابو عثمان جاحظ کہتے ہیں یحییٰ بن جعفر نے بتایا کہ میرا ایک فارسی پڑوسی تھا اس کی اتنی لمبی داڑھی تھی کہ میں نے اتنی لمبی داڑھی کسی کی نہیں دیکھی تھی وہ ساری رات روتا رہتا تھا، ایک دن اس کے رونے سے میں جاگ گیا اور میں نے بڑی بری حالت میں رات گزاری، وہ سسکیاں لیتا اور سر اور سینے کو مارتا اور کتاب اللہ کی ایک آیت بار بار دہراتا، جب میں نے اس کو اس مصیبت میں دیکھا میں نے دل میں کہا میں اس کو ضرور وہ آیت سناؤ ں گا جس نے اس کو قتل کیا اور میری نیند اڑادی چناچہ میں نے اسے سنایا: ویسئلونک عن المحیض قل ھو اذی۔ ’’اسے پیغمبر! آپ سے حیض کے متعلق پوچھتے ہیں کہو کہ وہ گندگی ہے۔‘‘ تو میں سمجھ گیا کہ لمبی داڑھی ٖحماقت کی ایسی علامت ہے جو کبھی غلط ہو ہی نہیں سکتی۔ (احمقوں کی دنیا، صفحہ 173،174)
علامہ ابن جوزی کا ان خبروں اور واقعات پر کوئی اعتراض نہ کرنابلکہ اسے اپنی حمایت میں نقل کرنا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ وہ بھی ہارون الرشید، جاحظ اور یحییٰ بن جعفر کی طرح لمبی داڑھی کو حماقت کی یقینی علامت سمجھتے تھے پھر اس کاناقابل تردید ثبوت یہ بھی ہے کہ ابن جوزی نے خود بھی جگہ جگہ لمبی داڑھی کو بے وقوفی کی نشانی کے طور پر ذکر کیا ہے۔ انا للہ واناالیہ راجعون! علامہ ابن جوزی کے یہ افکار و خیالات صرف ان تک یا ان کے زمانے تک محدود نہیں رہے بلکہ زمانہ در زمانہ سفر کرتے رہے خصوصاً احناف کے ہاں ان افکار کو بڑائی پذیرائی نصیب ہوئی۔مولانا قاری محمد طیب دیوبندی لمبی داڑھی کو حماقت کے ساتھ جہالت کی بھی علامت بتاتے ہوئے لکھتے ہیں: ڈاڑھی کے بارے میں طبع سلیم کوئی ایسی حد بندی ضرور چاہتی ہے جس کے تحت ڈاڑھی نہ اتنی گھٹے کہ اس پر لٹکی ڈاڑھی کا اطلاق نہ ہو جو مامور بہ ہے اور نہ اتنی بڑھے کہ حدتمسخر و استہزاء میں آجائے جو جہل و حمق کی علامت ہے۔(ڈاڑھی کی شرعی حیثیت مع ڈاڑھی کا فلسفہ، صفحہ 46)
’’حضرت تھانوی کے پسندیدہ واقعات‘‘ نامی کتاب سے اشرف علی تھانوی کا یہ پسندیدہ واقعہ ملاحظہ فرمائیں: ایک احمق نے کسی کتاب میں پڑھا کہ جس شخص کی داڑھی لمبی اور سر چھوٹا ہو وہ بیوقوف ہوتا ہے۔ اس کو شبہ ہوا آئینہ میں چہرہ مبارک دیکھا اپنی صورت پر حماقت کی علامت کو منطبق پایا اس کو درستی کی فکر ہوئی قینچی وغیرہ تلاش کی کچھ نہ ملا مجبور ہوکر داڑھی کو چراغ کے سامنے کردیا کیوں کہ سر تو بڑا کر نہیں سکتے۔ داڑھی کو چھوٹا کرنے لگے، جتنی داڑھی باقی رکھنا تھی اس کو مٹھی میں لے لیا باقی کو جلانے کے واسطے چراغ پر رکھنا تھا ، کہ آگ کی لپٹ سے ہاتھ علیحدہ ہوگیا اور داڑھی کا صفایا ہوگیا۔ (بحوالہ احمقوں کی دنیا، صفحہ 257)
افسوس کہ جب علماء کی جہالت کا یہ عالم ہے کہ شریعت کے حکم بڑی داڑھی کو بے وقوفی کی ظاہری علامت قرار دےکر دین کے ساتھ استہزاء اور ٹھٹھا کررہے ہیں تو جاہل تو بے چارے مفت ہی میں بدنام ٹھہرے۔
خلفائے راشدین کی شاندار انتظامی صلاحیتوں کا ایک زمانہ معترف ہے، ان کا انصاف، خداخوفی ، عقل مندی اور معاملہ فہمی مسلم اور شک و شبہ سے بالاتر ہے حالانکہ مذکورہ بالا تمام صلاحیتیں کسی کم عقل یا بے وقوف میں ہرگز جمع نہیں ہوسکتیں، ان اعلیٰ صلاحیتوں کا حامل ہونا بذات خود ان کے دانا اور عقل مند ہونے کی دلیل ہے۔سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ،سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ،سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے متعلق روایات میں آتا ہے کہ یہ سب لمبی اور بڑی داڑھی والے تھے۔ جیسے ابو رجاء العطاردی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’کان عمر طویلاً جسیماً، اصلع اشعر شدید الحمرۃ، کثیر السّبلۃ‘‘ عمر رضی اللہ عنہ لمبے جسم والے تھے، سر پر بال بہت زیادہ تھے جبکہ سامنے سے بال جھڑے ہوئے تھے، بہت سرخ رنگ والے اور زیادہ داڑھی والے تھے۔(الاصابۃفی تمییز الصحابۃ، ۴/۴۸۴، وقال ابن حجر عن ھذہ الروایۃ: واخرج ابن ابی الدنیا بسند صحیح)
سیدنا عبداللہ بن شداد فرماتے ہیں: ’’رایت عثمان بن عفان یوم الجمعۃ علی المنبر، علیہ ازار عدنی غلیظ، ثمنہ اربعۃ دراھم او خمسۃ، وریطۃ کوفیۃممشقۃ، ضرب اللحم، طویل اللحیۃ، حسن الوجہ‘‘ میں نے جمعہ کے دن منبر پر عثمان رضی اللہ عنہ کو دیکھا، انہوں نے موٹا عدنی ازار باندھ رکھا تھا جو چار یا پانچ درھم قیمت کا تھا، اور کوفی کنگھی دار چادر زیب تن کر رکھی تھی، پرگوشت، لمبی داڑھی والے خوب رو تھے۔ (المعجم الکبیر للطبرانی، ۱/۸۵، ح:۹۲)
امام سیوطی لکھتے ہیں: ’’وکان علی شیخا سمیناً، اصلع، کثیر الشّعر، ربعۃً الی القصر عظیم البطن، عظیم اللحیۃ جدًا، قد ملات مابین منکبیہ بیضاء کانّھا قطن، آدم شدید الادمۃ‘‘ علی رضی اللہ عنہ موٹے تازے، کشادہ پیشانی، گھنے بالوں، چھوٹے قد، بھرے پیٹ، بہت بڑی داڑھی والے تھے، کندھوں کے درمیان (بالوں کی) سفیدی بھری ہوئی تھی گویا کہ روئی ہو، گہرے گندمی رنگ والے تھے۔ (تاریخ الخلفاء للسیوطی ۱/۱۳۰)
پس علامہ ابن جوزی کا گھڑا ہوا اصول کہ لمبی داڑھی حماقت کی نشانیوں میں سے ایک بڑی نشانی ہے باطل و مردود ہوا۔ اگر حقیقتاً لمبی داڑھی بے وقوفی اور احمق پن کی پہچان ہوتی تو’’عظیم اللحیۃ ‘‘ اور ’’طویل اللحیۃ‘‘ کے سبب خلفائے راشدین بھی عقل مند نہ ہوتے حالانکہ اگر سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے احوال پر نظر کی جائے تو حماقت اور بے وقوفی تو انہیں چھو کر بھی نہیں گزری بلکہ ان جیسی ذہانت اور عقل مندی شاید ہی کسی کو نصیب ہوئی ہو۔ کسی ریاست کے معاملات چلانے کے لئے عام لوگوں سے زیادہ عقل و فہم درکار ہوتی ہے اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جس طرح ایک وسیع و عریض علاقہ پر پھیلی ہوئی خلافت کے انتظام چلائے ان کی لمبی داڑھی کی وجہ سے ان کی عقل پر انگلی اٹھانا یا ان کے فہم و تدبیر کی صلاحیتوںکو شک کی نگاہ سے دیکھنا خود اپنے آپ میں ایک بڑی حماقت ہے۔ عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی ذہانت اور فطانت کا یہ عالم تھا کہ ان کے بنائے گئے اصول و قواعد سے آج تک کفار استفادہ کررہے ہیں۔ پس واضح ہوا کہ علامہ ابن جوزی اور ان کے ہم خیال خود بہت بڑے احمق، پاگل اور بے وقوف ہیں جو لمبی داڑھی کو احمق کی صفت بتاتے اور سمجھتے ہیں۔حافظ عبدالمنان نورپوری رحمہ اللہ نےبھی اس نظریے پر کڑی اور سخت تنقید کرکے علامہ ابن جوزی کے ہم خیال لوگوں کی عقل خوب ٹھکانے لگائی ہے چناچہ’’بیوقوف کون؟‘‘ کی سرخی لگاکر نورپوری لکھتے ہیں: پھر یہ داڑھی منڈوانے والے جن کی لمبی داڑھی دیکھتے ہیں ان کو بیوقوف اور کم عقل کہیں گے۔ جی جس کی جتنی لمبی داڑھی ہوگی اتنا ہی وہ بے وقوف اور کم عقل ہوگا نعوذباللہ من ذالک......آپ ﷺ کا حلیہ بیان کرنے والوں نےیہی بیان کیا ہےکہ آپ ﷺ کی داڑھی مبارک گھنی تھی اور بڑی خوبصورت تھی جو سینے کو ڈھانپ لیتی تھی اور خلفائے راشدین رضوان اللہ عنہم اجمعین کی داڑھی بھی بڑی گھنی تھی۔ کیا خیال ہےپھر کہ وہ بے وقوف اور کم عقل ہی تھے؟ نعوذ باللہ من ذالک۔ اس بے غیرت اور بے حیا نے سوچا ہی نہیں کہ میں جو بات کررہا ہوں اس کی زد کہاں پڑتی ہے۔ اگر داڑھی والے بے وقوف ہیں تو پھر قرآن مجید میں آرہا ہےموسی علیہ السلام کے بھائی ہارون علیہ السلام کی داڑھی تھی......ان کی داڑھی تھی اور یہ اللہ کے پیغمبر تھےاور ادھر ان لوگوں کا خیال دیکھو جو اپنے خیال کو روشن خیال کہتے ہیں کہ داڑھیوں والے بے وقوف ہیں۔ استغفراللہ کوئی عقل کی بات کہو۔ کبھی کہیں گے جی لمبی داڑھیوں والوں کی عقل ٹخنوں میں ہوتی ہے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ (مقالات نورپوری،صفحہ 288،289)
آخر میں ایک صحابی کا تذکرہ پیش سماعت ہے جو صحابہ کرام میں سب سے زیادہ طویل اور لمبی داڑھی والے تھے لیکن اس کے باوجود کسی نے ان کی عقل پر سوال نہیں اٹھایا۔ ابن الکلبی رحمہ اللہ نے کہا: ’’ذُوُاللَّحْیَۃِ شُرَیْحُ بْنُ عَامِرِبْنِ عَوْفِ بْنِ کَعْبِ بْنِ ابِیْ بَکْرِ بْنِ کِلَابِ، وَلَمْ یَصِفْہُ بِغَیْرِ ذَلِکَ‘‘ شریح بن عامر بن عوف بن کعب بن ابی بکر بن کلاب داڑھی والے تھے، اس کے علاوہ انہوں نے ان کا کوئی اور وصف بیان نہیں کیا۔(سیر اعلام النبلاء۲ ۴۷/)
زبیر بن خالد مرجالوی حفظہ اللہ اس روایت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اس سے بالکل واضح ہےکہ شریح بن عامر رضی اللہ عنہ کی داڑھی بہت زیادہ لمبی تھی، اسی لیے تو انہیں داڑھی والا کہا جاتا تھا۔ (یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 73)
بعض کم فہم یہ سمجھنے سے بالکل قاصر اور عاجز ہیں کہ اگر شریح بن عامررضی اللہ عنہ کو داڑھی والا لقب ملا تو اس سے یہ مطلب کیسے نکلتا ہے کہ ضرور ہی ان کی داڑھی لمبی ہوگی اس کا اس کے علاوہ بھی مطالب ہوسکتے ہیں جیسے ان کی داڑھی دوسروں کے مقابلے میں بہت ہی چھوٹی ہو یا پھران کے بالوں کی ساخت یا رنگ عام داڑھیوں سے مختلف ہو اس لئے انہیں داڑھی والا کہہ کر پکارا جاتا ہو۔ اس کے جواب میں راقم کہتا ہے کہ بعض الناس کے بیان کردہ یہ تمام مطالب غلط اور جہالت پر مبنی ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ کسی وصف کی بنا پر اگر کسی کو کوئی لقب ملتا ہے تو اس کا مطلب اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا کہ ملقب ہونے والے شخص میں وہ وصف دوسروں سے زیادہ ہے۔ ایسی صورتحال میں ہمیشہ زیادتی ،کثرت اور بہتات کے معنی ہی لیے جاتے ہیں اس کے برعکس تکثیر ، کمی اور کوتاہی کے معنی لینا ناانصافی اورزیادتی ہے۔آئیے اس کو بعض مثالوں سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جیسےسیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ان کےاندر پائے جانے والے وصف سچائی اور صداقت کی بنا پر صدیق کا لقب ملا تو کیا اس کا مطلب یہ تھا کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے علاوہ باقی صحابہ کرام صداقت کے وصف سے محروم تھےیا ا س کا واحد مطلب یہ تھا کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس وصف میں دیگر صحابہ سے بہت زیادہ بڑھے ہوئے تھے؟ یقیناً یہ آخری مطلب ہی درست تھا۔سخاوت کی خوبی اورمادہ بہت سے صحابہ میں موجود تھا لیکن کیا وجہ ہے کہ’’غنی‘‘ کا لقب صرف سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ ہی کے نصیب میں آیا؟ کیا یہ سچ نہیں کہ سخی تو بہت سے صحابہ تھے لیکن عثمان رضی اللہ عنہ سخاوت میں سب سے اونچے مقام پر فائز تھے اسی لئے انہیں اس لقب کے لئے منتخب کیا گیا۔اسی طرح شجاعت اور بہادری ہر صحابی کا وصف تھااس کے باوجود بھی شجاعت کی بنا پرخالدبن ولیدرضی اللہ عنہ کو’’ سیف اللہ‘‘ کا لقب ملنے کا کیا مطلب تھا؟ اس کا صرف ایک ہی مطلب تھا وہ یہ کہ وہ شجاعت میں باقی صحابہ سے بڑھ کر تھے اسی طرح داڑھی تو تمام ہی صحابہ کی تھی لیکن ان میں صرف ایک صحابی شریح بن عامر کو داڑھی والا کہنے کا صرف یہی مطلب ہے کہ ان کی داڑھی باقی تمام صحابہ سے بڑی اور لمبی تھی ورنہ انہیں داڑھی والا کہہ کر داڑھی والے صحابہ سے ممتاز کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو بے شمار القابات سے ملقب کیا گیا ۔ آپ ہر لقب کو راقم کے بیان کردہ قاعدہ پر پرکھ کر دیکھ لیں اس کا ایک ہی نتیجہ برآمد ہوگا وہ یہ کہ جب بھی کوئی ایسا وصف کسی کے لئے بطور پہچان یا لقب استعمال ہوگا جس وصف میں دوسرے بھی اس کے ساتھ شریک ہوں تو اس کا مطلب صرف یہ ہوگا کہ ملقب کیا جانے والا شخص اس وصف میں دوسروں سے بہت آگے یا بڑھ کر ہے۔اس کے علاوہ اس کے کوئی اور معنی نہیں ہوسکتے۔واللہ اعلم
علامہ ابن جوزی کے نزدیک تولمبی داڑھی صرف عقل و خردکی کمی ہی کا باعث تھی لیکن حافظ عمران الہٰی صاحب نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئےاسے یعنی لمبی داڑھی کو راوی کے غیرثقہ ہونے کی علامت اور اس کےساتھ جرح کا بھی سبب قرار دے دیا،یوں لمبی داڑھی والے کی کردار کشی کرتے ہوئے اسے اسلامی معاشرے کا ایک بدنام اور قابل طعن فرد بنا ڈالا ، چناچہ حافظ عمران الہٰی رقمطراز ہیں: میں نے بعض کتابوں میں پڑھا ہے کہ زیادہ لمبی داڑھی والے شخص سے کئی محدثین روایت نہیں لیتے تھے، گویا ان کے نزدیک یہ ایک قسم کی جرح تھی،امام ذہبی نے میزان الاعتدال میں خالد الطحان کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’وقیل لخالد الطحان دخلت الکوفۃ فلم لم تکتب عن مجالد قال لانہ کان طویل اللحیۃ‘‘ جناب خالد طحان سے پوچھا گیا کہ آپ کوفے میں تشریف لائے ہیں اور آپ نے مجالد سے کچھ نہیں لکھا؟ انھوں نے اس کا جواب یہ دیا: میں نے اس سے کوئی چیز(حدیث) اس لیے نہیں لکھی کیونکہ اس کی داڑھی بہت زیادہ لمبی تھی......بعض علماء نے اچھی داڑھی کو راوی کے عادل ہونے کی علامت قرار دیا ہے، جیسا کہ خطیب بغدادی رقم طراز ہیں: ’’ولو رایت لحیتہ وخضابہ وھیئتہ لعرفت انہ ثقۃ لان حسن الھیاۃ مما یشترک فیہ العدل والمجروح‘‘۔ (مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 238 تا240)
غور فرمائیں کہ حافظ عمران الہٰی کے نزدیک لمبی داڑھی چوری، خیانت، جھوٹ اور بے ایمانی جیسے جرائم کا متبادل ہے تب ہی تو جس طرح جھوٹ بولنا فن حدیث میں جرح ہے جس طرح چوری اور خیانت جیسے اخلاق رذیلہ کسی سے روایت لینے میں مانع ہیں اسی طرح لمبی داڑھی ایسی جرح اور نقص ہے کہ یہ جس راوی میں پائی جائے اس سے روایت نہیں لی جاتی۔یہ دشمنان طویل اللحیۃ کی شدت پسندی اور نفرت ہے جو انہیں اس حد تک لے گئی ہےکہ انہوں نے شریعت سازی کرتے ہوئے لمبی داڑھی کو ایک ایسا عیب بنا دیا ہے جوان کے نزدیک معاشرے میں طعن و تشنیع کا موجب ہےبلکہ لمبی داڑھی والے کی گواہی بھی قابل قبول نہیں گویا کہ وہ ایک ایسا مجرم ہے جس کی معاشرے میں کوئی وقعت اور عزت نہیں۔ایسامعلوم ہوتا ہے کہ حافظ عمران الہٰی جیسے لوگوں کا ذہنی رجحان لمبی داڑھی کے فسق ہونے کا ہے۔
داڑھی کو اس کے حال پر چھوڑ دینے کے نبوی حکم سے ڈرانے کے لئے لوگوں نے عجیب و غریب قصّے بھی مشہور کر رکھے ہیں۔ ایسا ہی ایک ناقابل یقین واقعہ مکررملاحظہ فرمائیں، وحیدا الزماں حیدرآبادی صاحب رقمطراز ہیں: یزید الرشک ایک شخص کا لقب ہے جو تقسیم اراضی میں بڑا ماہر تھا۔ کہتے ہیں کہ اس کی داڑھی اتنی لمبی تھی کہ ایک بچھو اس میں گھس گیا اور تین دن تک وہیں رہا لیکن اس کو خبر نہ ہوئی۔(لغات الحدیث، جلد دوم، مادہ ’’س‘‘، صفحہ 80)
مسلم نوجوانوں کے دلوں سے داڑھی کی قدر ختم کرنے میں بہت بڑا کردار صوفیوں کا بھی ہےجو تقویٰ کے نام پرداڑھی منڈوانے کا مشورہ دے کرلوگوں کی ذہن سازی کرتے ہیں کہ شریعت میں داڑھی کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے، اگر رکھو تو بھی درست اور اگر کٹوا دو تو بھی کوئی گناہ یا حرج نہیں ہے۔شیخ فرید الدین عطار اپنے ایک ’’ولی اللہ‘‘ ابوالحسن خرقانی کا غم میں داڑھی کاٹ ڈالنے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: جب آپکی بیوی نے لڑکے کا سر دروازے پر دیکھا تو شفقت مادری کی وجہ سے بے چین اور روتے پیٹتے ہوئے اپنے بال کاٹ کر لڑکے کے سر پر ڈال دئیے اور انسانی تقاضے کے طور پر حضرت ابوالحسن کو بھی اپنے صاحبزادے کے قتل کا رنج ہوا اور آپ نے بھی داڑھی کے بال اپنے صاحبزادے پر ڈالتے ہوئے بیوی سے کہا کہ یہ بیج ہم تم دونوں نے مل کر بویا تھااور تم نے اپنے بال کاٹ کر اور میں نے اپنی داڑھی کاٹ کر بال اس کے سر پر ڈال دئیے اس طرح ہم دونوں برابر ہوگئے۔ (تذکرۃ اولیاء، صفحہ 322)
صوفیوں کے اولیاء اللہ میں سے ایک ولی کی اس حرکت سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے ہاں داڑھی کی کیا حیثیت و اہمیت ہے۔ صوفیوں نےغم میں اپنے مختلف بال کاٹنے کا یہ طریقہ ہندوؤ ں سے متاثر ہوکر اختیار کیا ہے۔ڈاکٹر عشرت جہاں ہاشمی صاحبہ اس بابت لکھتی ہیں: ہندوؤ ں میں موت کی رسموں کے سلسلے میں ایک رسم یہ بھی ہے کہ میت کا بڑا بیٹا اپنی چار ابروکی منڈوائی یا صفائی کروادیتا ہے۔ یہ دہلی اور لکھنو کے بانکوں کی ایک ادا بھی رہی ہے کہ وہ چار ابروں کا صفایا کروادیں۔ (اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ، صفحہ 141)
عام لغات کے مطابق چار ابرو سے مراد سر، بھنویں، داڑھی اور مونچھوں کے بال ہیں اور ان چاروں جگہوں کے بال منڈوا دینا ڈاکٹر عشرت جہاں ہاشمی صاحبہ کے مطابق ایک زمانے میں دہلی اور لکھنوں کے مسلمانوں نوجوانوں میں بطور فیشن بھی رائج رہا ہے جو کہ ظاہر ہے کہ ہندوؤ ں کی تقلید کا نتیجہ ہے۔صوفیوں میں بھی ایک فرقہ ایسا ہے جو ہر وقت اپنے چار ابرو صاف رکھتا ہے اور وہ بھی اس سلسلے میں ہندوؤں کا ہی مقلد ہے کیونکہ اسلام میں داڑھی مونڈنے کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ کی زبانی صوفیوں کے ملامتی فرقے کا تزکیہ نفس کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں جو ریاکاری سے بچنے اور عاجزی و انکساری پیدا کرنے کے لئے داڑھی منڈوا دینے کو ضروری خیال کرتاہے کیونکہ ان کی دانست میں اس کے بغیر تصوف کے اعلیٰ درجات اور مقامات تک پہنچنا محال ہے۔بایزید بسطامی صوفی کے حوالے سے عبدالرحمٰن کیلانی لکھتے ہیں: آپ کا ایک مرید ۳۰ سال آپ کی خدمت میں رہاوہ رات کو نہ کبھی سوتا اور نہ ہی کبھی روزہ چھوڑتا تھا، مگر باطنی علوم اس پر منکشف نہ ہوتے تھے۔ آخر تنگ آکر حضرت شیخ سے اس بات کی شکایت کی تو بایزید نے فرمایا’’تم تین سو سال بھی لگے رہوتو یہ علم حاصل نہ کرسکوگے۔‘‘ مرید نے پوچھا: ’’اس کا کوئی علاج؟‘‘ فرمایا’’علاج تو ہے، مگر تم کر نہ سکو گے۔‘‘ جب مرید نے اصرار کیاتو آپ نے علاج یہ بتلایا کہ’’اپنی داڑھی اور سر منڈوادو، گوڈری پہن لو، باداموں کا ایک کشکول ہاتھ میں لے کراپنے گرد بچوں کو جمع کرواور کہو جو بچہ مجھے ایک گھونسہ مارے گا، اسے ایک بادام دوںگا۔ اسی طرح گلی گلی پھرو۔ مرید نے کہا:’’ سبحان اللہ کیا علاج ہے؟‘‘بایزید نے کہا’’تیرا سبحان اللہ کہنا بھی شرک ہے، کیونکہ تو یہ کلمہ اپنی پاکیزگی بیان کرنے کے لئے کہہ رہا ہے۔‘‘ مرید نے کہا’’مجھ سے یہ علاج نہیں ہوسکتا کوئی اور بات بتلائیے۔‘‘ بایزید نے کہا’’اگر یہ علاج نہیں کرسکتاتو تیرا کوئی علاج نہیں۔‘‘(احیاء العلوم،ص۳۵۸،ج۴، مصنّفہ امام غزالی، بحوالہ شریعت وطریقت، صفحہ352)
یہ صوفی وہ لوگ ہیں جو خود کو عام مسلمانوں سے بڑااور برتر مسلمان سمجھتے ہیںلیکن مذہب کے نام پر اسلام کےدیگر احکامات کے ساتھ داڑھی جیسے شعار پر ڈاکہ ڈالتے زرا نہیں شرماتےاور اپنے ایجاد کردہ تزکیہ نفس کے طریقوں کے لئے داڑھی کی قربانی کو معمولی اور ارزاں سمجھتے ہیں۔ اب چونکہ مسلمانوں کی اکثریت یا تو اسی فرقے سے تعلق رکھتی ہے یا ان سے متاثر ہے اس لئے ممکن ہی نہیں کہ عام لوگوں کے دلوں میں داڑھی کی وہ اہمیت پیدا ہوسکے جو شریعت نے اس شعار کی مقرر کی ہے۔پس مسلمانوں کو داڑھی سے دور کرنےاور ان کے دلوںسے داڑھی کی قدر کم کرنے میں بہت بڑا کردار ان شیطان صفت صوفیوں کا بھی ہے۔
اب جبکہ ان تصوف کے مارے لوگوں کا ذکر چل ہی نکلا ہے تو موضوع کی مناسبت سے عرض ہے کہ یہ صوفیاء بھی اپنی طرز کی عجیب ہی مخلوق ہیں انہوں نے اللہ کی داڑھی ہونے کا انوکھا اور حیران کن دعویٰ کردیا، شیخ فرید الدین عطار ایک صوفی ابوالحسن نوری کے ترجمے میں لکھتے ہیں: کسی کو آپ نے دوران نماز داڑھی سے شغل کرتے ہوئے دیکھ کر فرمایا کہ اپنا ہاتھ خدا کی داڑھی سے دور رکھو یہ کلمہ سن کر بعض لوگوں نے خلیفہ سے شکایت کرتے ہوئے بتایا کہ یہ کلمہ کفر ہے اور جب خلیفہ نے آپ سے سوال کیا کہ تم نے یہ جملہ کیوں کہا؟ فرمایا کہ جب بندہ خود خدا کی ملکیت ہے تو اس کی داڑھی بھی خدا کی ملک ہے۔ یہ جواب سن کر خلیفہ نے کہا کہ خدا کا شکر ہے میں نے آپ کو قتل نہیں کیا۔ (تذکرۃ الاولیاء، صفحہ 236،237)
ابوالحسن نوری صوفی کا خلیفہ وقت کو دیا گیا یہ جواب اصلی نہیں تھا بلکہ اپنی جان بچانے کا ایک حلیہ تھا اسکے باوجود بھی یہ جواب غیر منطقی اور غلط تھاکیونکہ جب بندہ پورا کا پورا خدا کی ملکیت ہےتو صرف داڑھی کو خدا کی داڑھی کہنا اس دعویٰ کی نفی کرتا ہے اس لئے کہ خدا کی ملکیت ہونے کی وجہ سے ہاتھ بھی خدا ہی کی ملک ہے اس لئے یوں کہنا چاہیے تھا کہ ’’خدا کا ہاتھ خدا کی داڑھی سے دور رکھو‘‘لیکن ابوالحسن نوری کے جملے سےثابت ہوتا ہے کہ ہاتھ خدا کی ملک نہیں صرف داڑھی خدا کی ملک ہے کیونکہ ہاتھ کی نسبت ’’اپنا ہاتھ ‘‘ کہہ کراس شخص کی طرف کی گئی جبکہ داڑھی کی نسبت’’ خدا کی داڑھی ‘‘ کہہ کر اللہ کی طرف کی گئی۔ بہرحال یہ تو ایک اعتراض تھاحقیقت یہ ہے کہ یہ صوفیوں کے بنیادی عقیدے ’’وحدت الوجود‘‘ کا کرشمہ ہےجس کی رو سے ہر شے اورہر مخلوق خالق کائنات کی ذات کا مظہر اور پرتوہے یعنی کائنات میں جو کچھ نظر آرہا ہے وہ اصل میں خود اللہ ہے کیونکہ ہر ذرے میں ذات باری تعالیٰ سرایت کئے ہوئے ہےپس اس عقیدے کے اعتبار سے چونکہ انسان حقیقت میں انسان نہیں بلکہ خدا ہے اس لئے انسان کی داڑھی کو خدا کی داڑھی کہا گیا ہے۔
 
Last edited:

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,030
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
ہمارے محاورے اور داڑھی:
اسلامی معاشرے اور ماحول میں کی جانے والی روزمرہ گفتگو میں بھی داڑھی کا تذکرہ محاوروں کی صورت میں ہمیں سننے کو ملتا ہے اگرچہ داڑھی کے تقدس اور اہمیت کے پیش نظر یہ تذکرہ ذکر خیر یا اچھے معنوں میں ہونا چاہیے تھا لیکن مقام افسوس ہے کہ دین سے دوری اور داڑھی سے بے زاری کے باعث مسلمانوں کی زبانوں پر گردش کرنے والے یہ محاورات برے معنوں میں مستعمل ہیں۔ڈاکٹر عشرت جہاں ہاشمی صاحبہ لکھتی ہیں: ہمارے یہاں مذاہب نے اپنی اپنی جو وضع قطع رکھنا چاہی اور اپنے ماننے والےطبقات میں اس کو رائج کیا لباس کی وضع قطع کے علاوہ داڑھی کو بھی ایک سماجی حیثیت حاصل ہے۔داڑھی عزت و وقار اور بڑی حد تک تقدس کی علامت ہے۔ اسی لیے ’’داڑھی پکڑنا‘‘اور ’’داڑھی میں ہاتھ ڈالنا‘‘ بے عزتی کی بات سمجھی جاتی ہے۔ اور کسی کو ذلیل کرنے کے لیے کہا جاتا ہے کہ میں تیری داڑھی کا ایک ایک بال کردوں گااس سے ہم اپنے ماحول کی تہذیبی قدروں کو سمجھ سکتے ہیں۔ داڑھی نوچ لینے کے بھی یہی معنی ہیں جو ’’بال بال کردینے‘‘ کے ہیں، یعنی بے عزتی کرناہے۔ (اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ،صفحہ 184)
ایک مسلمان کی ظاہری وضع قطع میں سب سے زیادہ معزز اور محترم چیز اس کی داڑھی ہےاور اسی چیز کا فائدہ اٹھاتے ہوئے باریش شخص پر اپنا شدید غصہ اتارنے کے لئے اور اسے حد درجہ بے عزت کرنے کے لئے ’’داڑھی میں پیشاب کرنا‘‘ جیسا گھٹیا محاورہ بھی جہلاء کی زبانوں پربلا تکلف آجاتا ہےجس میں ایک مسلمان کی بے عزتی سے کہیں زیادہ داڑھی جیسے اسلامی شعار کی تضحیک، توہین اور بے ادبی پائی جاتی ہےجو کہ ناقض اسلام ہونے کی وجہ سے واضح کفر ہے۔ذکرکردہ یہ محاورہ اس قدر نامناسب ہے کہ اس کو منہ پر لاتے ہوئے خوف خدا رکھنے والے کی زبان جلتی ہے اور اسے صفحہ قرطاس پر منتقل کرتے ہوئے لکھاری کا قلم کانپتا ہےاسی لئے محاوروں کے موضوع پر مشتمل کتابوں میں اس کا اندراج نہیں ملتا کیونکہ یہ شرمناک اور کفریہ محاورہ جاہلوں میں سینہ در سینہ منتقل ہوا ہے۔ اس محاورے کا عملی مظاہرہ چشم فلک نے افغانستان میں دیکھا۔ طالبان نے اپنے دور اقتدار میں مسلمان عورتوں پر پردہ اور مردوں پر داڑھی رکھنے کی پابندی عائد کی تھی لیکن جب بزور جبر طالبان کی حکومت کا خاتمہ ہواتو آزادی ملتے ہی بعض بدبختوں نے داڑھی منڈوا کر باقاعدہ اس پر پیشاب کیا اور اس اسلامی شعار سے اپنی نفرت کا اظہار کیا اور اس پابندی کے خلاف احتجاج ریکارڈکروایا جو طالبان نے ان پر لگا رکھی تھی۔مولانا زبیر احمد صدیقی دیوبندی لکھتے ہیں: تبلیغی جماعت کے نامور مقرر مولانا طارق جمیل صاحب طالبان کی طرف سے شریعت کے بزور طاقت نفاذپر تنقیدکرتے ہوئے کہتے ہیں: ان سے کیا خطاء ہوئی؟ساری دنیا سے دشمنی مول لی اور دوسرا کیا کیاکہ ’’شریعت‘‘ کو عوام پر زبردستی مسلط کردیا۔ تو حکمت اور بصیرت کے بغیر اٹھا ہوا قدم خودبخود واپس ہوجاتا ہے۔ سارے عالم سےلڑائی مول لے لی ۔ سارے عالم کو دشمن بنالیا، عوام کو بھی دشمن بنالیا، زبردستی ان (پرشرعی نظام)کو ٹھونس دیا(مثلاً) داڑھی نہیں منڈانا، کتنے لوگ بدبخت تھےکہ جنہوں نے افغانستان سے ہجرت کی اور داڑھی منڈا کر اس پر پیشاب کیا۔(الدّین النّصیحۃ،صفحہ 133)
دین کا واجبی اور برائے نام علم رکھنے والے کی داڑھی سے متعلق کیا ذہنیت ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ جب کسی ایسے شخص کو داڑھی رکھنے پر نصیحت کی جائے یا ترغیب و ترہیب دی جائے جو داڑھی کو پسند نہیں کرتا تووہ داڑھی کو ایک غیر اہم چیز ثابت کرنے کے لئے یہ جاہلانہ محاورہ کہ ’’داڑھی تو شیطان کی بھی ہے‘‘ کہہ دیتا ہے۔اس سے مراد یہ ہوتی ہےکہ داڑھی رکھنے یانہ رکھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور نہ ہی داڑھی متقی، پرہیزگار یا اچھے مسلمان کی اکلوتی علامت ہے کیونکہ شیطان بھی داڑھی کا حامل ہے جوکہ شر، برائیوں، خرابیوں اور خباثتوں کا مجموعہ و ملغوبہ ہے۔اناللہ واناالیہ راجعون
داڑھی پراس کے علاوہ بھی کئی محاورات ہیں لیکن اکثراچھے معنوں سے خالی ہیں جیسے ایک محاورہ ’’پیٹ میں داڑھی ہونا‘‘ ہے جو اس وقت بولا جاتا ہے جب بچہ اپنی عمر سے بڑھ کر بات کرے اور کسی لڑکے کی چالاکی کو بیان کرنے کے لئے بھی اس محاورے کا استعمال کیا جاتا ہےجبکہ ہمارے معاشرے میں چالاکی کا شمار بری اور قابل نفرت صفت میں ہوتا ہے۔اسی طرح’’ چور کی داڑھی میں تنکا‘‘ والے محاورے کا حال ہے کہ داڑھی کا ذکر خصوصی طور پر چور کے ساتھ کرکے داڑھی کے مقام و مرتبہ کو گھٹانے کی دانستہ کوشش کی گئی ہے۔ داڑھی والوں کو بدنام کرنے اور انہیں کمتر، پست کردار اورغیراخلاقی حرکات میں ملوث ثابت کرنے کے لئے ایک محاورہ’’چوری کرے داڑھی والا، پکڑا جائے مونچھوں والا‘‘ بھی ہے حالانکہ یہ محاورہ’’چوری کرے مونچھوں والا‘‘ بھی ہوسکتا تھالیکن داڑھی والے کو خاص طور پر نشانہ بنا کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہےداڑھی والوں کے مقابلے میں داڑھی منڈے بہتراور اچھے لوگ ہوتے ہیں۔ محاوروں میں داڑھی کے اس خاص استعمال سے ایک جانب تو نام نہاد مسلمانوں کی معاشرتی نفسیات کا علم ہوتا ہے کہ خود تو داڑھی رکھتے نہیں اور جو رکھتا ہے اپنا غصہ نکالنے کے لئے اس کی داڑھی ہی کو نشانہ بناتے ہیں حالانکہ اس سنت کو چہرے پر سجانے والے کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے ناکہ ایک بری مثال قائم کرکے ان لوگوں کی بھی حوصلہ شکنی کی جائے جو مستقبل قریب یا بعید میں داڑھی رکھنے کا ارادہ کئے بیٹھے ہیں اور دوسری جانب اس سے اسلام دشمنوں کی سازش طشت ازبام ہوتی ہےکہ انہوں نے مسلمانوں کو کمزور اور دین سے دور کرنے کے لئے ہر اس اسلامی کردار اور شعار کو ہدف بنایا ہے جس کی اہمیت مسلمانوں کے دل ودماغ میں رچی بسی بلکہ خمیر میں گندھی ہوئی ہے اور اس کا بہترین اور آسان طریقہ ان کرداروں اور شعار کو لطیفوں اور محاوروں میں استعمال کرنا ہے۔ داڑھی کا احوال تو اپنے ملاحظہ فرمالیا اب اسلامی معاشرے کے ایک خاص کردار ’’مولوی‘‘ کا حال بھی معلوم کرلیں۔ مسلمانوں میں زمانہ قدیم سے ایک مولوی کا مقام و مرتبہ بہت بلند رہا ہے یا یوں کہیں کہ مولوی مسلمانوں کی زندگی کا جزو لاینفک ہے۔ میت کا نماز جنازہ پڑھانا ہو ۔ نومولود کے کان میں اذان دینی ہو ، نکاح کا اہم ترین معاملہ ہو یا دیگر زندگی کے معاملات ہر موقع ہر قدم بلکہ قدم قدم پر مولوی کی ضرورت پڑتی ہے ۔ مولوی کے بغیر اسلامی معاشرے کا تصور ادھورا اور نامکمل ہے۔کفار اور اسلام بے زاروں نے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کی خاطر مسلمانوں کے دلوں سے مولوی کے ناگزیر کردار کوکم اور محدودکرنے اور اس کے مرتبہ اور مقام کو گھٹانے اور ختم کرنے کے لئے جان بوجھ کر ایسے لطیفے گھڑے اور پھیلائے جن میں مولویوں کا تذکرہ مسخرے پن کے ساتھ کیا گیا ہےجو بے ادبی اور ہتک عزت کو شامل ہے۔ اس طرح کے لطیفے سن سن کراور اپنی زبانوں پر لاکر ایک عام آدمی کو مولوی پر زبان درازی کی ہمت اور جرات ملی اور مولوی کے معاشرتی رتبے میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ۔ یہ مولوی کے ساتھ ایک مسلمان کے رشتہ میں دراڑ ڈالنے اور عام آدمی کو اسلام سے دور کرنے کی منظم سازش تھی جس میں سازشی عناصر توقع سے زیادہ کامیاب ہوئے ۔ آج جس کسی کا دل چاہتا ہے مولوی پر برسنا اور دشنام طراز ی کرنا شروع کردیتا ہے۔ لوگوں کا ذہن ایسا بن گیا ہے جیسے معاشرے میں پھیلی ہوئی تمام برائیوں، مشکلات اور پریشانیوں کا سبب غریب مولوی ہی ہے اور جب کرپشن کی بات زیر بحث آئے تو اکثر لوگوں کی جانب سے سیاستدانوں جوکہ خرد برد اور کرپشن کا استعارہ بن چکے ہیں کو نظر اندازکرکے مولوی بیچارے کو سب سے زیادہ کرپٹ قرار دیا جاتا ہے۔اگر سچ پوچھیں تو فی زمانہ مولوی کی تحقیر فیشن بن چکی ہےاگر آج کے دور میں آپ خود کو روشن خیال اور پڑھا لکھا ظاہر کرنا چاہتے ہیں تو اس کا آسان اور سہل طریقہ یہ ہے کہ مولوی پر تنقید کریں، اسکی شان میں گستاخی کریں اوراسے جی بھر کر برابھلا کہیں۔ اس کے ساتھ شرط یہ ہے کہ آپ کا چہرہ ’’مبارک‘‘ داڑھی سے بے نیاز ہونا چاہیے اور خود کو سوٹ بوٹ میں ملبوس کرنا سونے پر سہاگہ ہے کیونکہ شلوار قمیض عموماً مولوی حضرات کا لباس ہے۔ اس پریکٹس اور ترکیب پر عمل پیرا ہونے سے عام لوگ آپ کو علم وفضل کی حامل شخصیت سمجھنے لگیں گے۔
عام طور پر عوام الناس دینی راہنمائی کرنے والی مذہبی شخصیات و کردار کو مولوی سمجھتے ہیں جبکہ اصل میں یہ ایک خطاب ہے جو ماضی میں انتہائی قابل علمی شخصیت کو عطاء کیا جاتا تھا جو اس شخصیت کے مقام و مرتبہ اورعزت و احترام میں چار چاند لگا دیتا تھا لیکن کفار کے موثر اور کاری وار کے بعد آج کوئی شخص اپنے نام کے ساتھ مولوی کا خطاب لگانا پسند نہیں کرتا کہ معاشرے میں اس لفظ کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا۔ قدرت اللہ شہاب اس صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ایک زمانے میں ملاّ اور مولوی کے القابات علم و فضل کی علامت ہوا کرتے تھے۔ لیکن سرکار انگلشیہ کی عملداری میں جیسے جیسے ہماری تعلیم اور ثقافت پر مغربی اقدار کا رنگ و روغن چڑھتا گیا، اسی رفتار سے ملا اور مولوی کا تقدس بھی پامال ہوتا گیا۔ رفتہ رفتہ نوبت بایں جا رسید کہ یہ دونوں تعظیمی اور تکریمی الفاظ تضحیک و تحقیر کی ترکش کے تیر بن گئے۔ داڑھیوں والے ٹھوٹھ اور ناخواندہ لوگوں کو مذاق ہی مذاق میں ملا کا لقب ملنے لگا۔ کالجوں، یونیورسٹیوں اور دفتروں میں کوٹ پتلون پہنے بغیر دینی رجحان رکھنے والوں کو طنز و تشنیع کے طور پر مولوی کہا جاتا تھا۔ مسجدوں کے پیش اماموں پر جمعراتی، شبراتی، عیدی، بقر عیدی اور فاتحہ درود پڑھ کر روٹیاں توڑنے والے قل اعوذئے ملاؤ ں کی پھبتیاں کسی جانے لگیں۔ (شہاب نامہ، صفحہ 240،241)
بعینہ اسی طرح داڑھی جیسے اسلامی شعار کا بھی محاوروں میں صرف برائی اور بے کردارلوگوں کی پہچان کے طورپر تذکرہ کرکے اسے اسلامی معاشرے میں اس طرح فروغ دیا گیا کہ یہ محاورے زبان زد عام ہوئے اور یوں مسلمانوں کے دلوں سے داڑھی کی خصوصی اہمیت کو ختم کرنے کی ایک کامیاب کوشش کی گئی۔
 
Last edited:

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,030
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
ماشاء اللہ ،بہت خوب ۔۔۔۔ خزاک اللہ خیرا۔اللہ تعالیٰ آپ کے علم و عمل میں مزید اضافہ فرمائے آمین ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ!
حوصلہ افزائی کرنے کا بہت بہت شکریہ۔ مجھے بہت خوشی ہوگی اگر آپ مضمون مکمل ہونے کے بعد تھوڑا واضح تبصرہ کرکے بتاسکیں کہ یہ تحریر اس موضوع پر لکھی گئی لاتعداد تحریروں سے کس طرح مختلف ہے یا پھر آپ کو اس میں کیا اچھا لگا۔ آپ کے تبصرے کا شدت سے انتظار رہے گا۔ جزاک اللہ خیرا
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,030
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
حلیق علمائے کرام کی نظرمیں:
ویسے تو ہمارے ماحول و معاشرے میں داڑھی کے مسئلہ کو بہت معمولی نوعیت کےمسئلہ کے طور پر لیا جاتا ہے لیکن علمائے کرام نے داڑھی منڈوانے پر بہت سخت قسم کے فتوے عائد کئے ہیں جس سے اس مسئلہ کی سنگینی اور اہمیت نیز عوام کی اس سلسلے میں لاپرواہی اور جہالت کا اندازہ کیا جاسکتاہے۔
پروفیسر حافظ عبداللہ بہاولپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں: الغرض، اہل حدیث ہونے کے لئے سر سے پائوں تک اہل حدیث ہونا ضروری ہے۔ صورت بھی اہل حدیث کی ہو، سیرت بھی اہل حدیث کی۔ داڑھی منڈا کر کافروں سے مشابہت کرنا اہل حدیثی کو بھٹہ لگانے والی بات ہے۔ اللہ فرماتا ہے: { يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِى السِّلْمِ كَآفَّـةً}[2:البقرۃ:208] اے ایمان کا دعویٰ کرنے والو پورے پورے اسلام میں داخل ہوجائو۔ کفر کا کوئی رنگ تم پر نہ ہو۔ اسلام کے رنگ میں بالکل رنگے جائو۔ ادھورا اسلام اللہ کے ہاں بالکل مقبول نہیں۔ (رسائل بہاولپوری، صفحہ 586)
گویا کہ عبداللہ بہاولپوری رحمہ اللہ کے نزدیک داڑھی منڈے کا اہل حدیث ہونا تو دور کی بات ایسا شخص مذہب اہل حدیث کو بدنام کرنے اور نقصان پہنچانے والا ہے اور داڑھی جیسی سنت سے اعراض کرکے کفر کے رنگ میں رنگنے کی وجہ سے اس کا اسلام اور ایمان بھی ناقص ہے۔

مفتی محمد عبیداللہ خان عفیف حفظہ اللہ نے تو داڑھی منڈے کو فاسق، واجب شرعی کا تارک، نافرمان اور گستاخ رسول تک قرار دیا ہے چناچہ مفتی صاحب رقمطراز ہیں:
خلاصہ بحث یہ کہ داڑھی چونکہ امور دینیہ میں سے ایک شعار، تمام پیغمبروں کی سنت دائمہ اور ثابتہ ہونے کے ساتھ ساتھ ہماری شریعت میں اس کا رکھنا اور بڑھانا واجب شرعی ہے۔ لہٰذا اس کو منڈانے والا، ترشوانےوالااور انگریزی حجامت والا چونکہ واجب شرعی کا تارک ہے ، لہٰذا ایسے فاسق اور نافرمان اور گستاخ رسول کو فرائض اور نوافل (تراویح وغیرہ) کاامام مقرر کرنا اللہ تعالی ٰ اور رسول اللہ ﷺکے واضح احکام وفرامین کی کھلی نافرمانی ہے اور داڑھی کے چوروں کی حوصلہ افزائی بھی ہے جو کہ مزید برآں جرم عظیم ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت دے اور سنت رسول کی پوری پوری پابندی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین! (فتاویٰ محمدیہ،صفحہ 446)
مفتی محمد عبیداللہ کا داڑھی منڈے کو گستاخ رسول کہنا کتاب وسنت کی نصوص کی روشنی میں ہےناکہ کسی ذاتی عناد اور دشمنی کی بنا پر انہوں نے حلیق پر اتنا سخت فتویٰ لگایا ہے۔داڑھی مونڈنے والے کو یہی سوچ کرڈر جانا چاہیے کہ اگر مفتی عبیداللہ کا یہ اجتہاد و استدلال درست ہوا تو اس کا کیا بنے گا۔

مفتی رشید احمد صاحب سے جب سود خور اور داڑھی منڈے کی اذان کے بارے میں سوال ہوا توانہوں نے جواب دیتے ہوئے لکھا: دونوں فاسق ہیں،اس لئے دونوں میں سے کسی کو بھی اذان کہنے کی اجازت نہیں، دونوں گناہ بہت بڑے ہیں، سود کی لعنت تو ظاہر ہے، اسی طرح داڑھی منڈانا اور کٹانا بھی بہت بڑا گناہ ہے، بلکہ یہ علانیۃً شریعت مطہرہ کی توہین اور بغاوت ہےحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ علانیۃً گناہ کرنے والا لائق عفو نہیں’’کل امّتی معافی الّا المجاھرین‘‘حضرات فقہا رحمہم اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ رمضان میں علانیۃًکھانے والا واجب القتل ہے، داڑھی منڈانے اور کٹانے والا تو رمضان میں علانیۃًکھانے والے سے بھی زیادہ مجرم ہے، اس کو تو چند ہی لوگ دیکھتے ہیں اور کسی ایک وقت میں، مگر داڑھی کٹانے والا ایسا بے حیاء ہےکہ ہمیشہ شب و روزسب کے سامنے شریعت سے بغاوت کا اظہار کررہا ہے، اللہ تعالیٰ خوف آخرت عطا فرمائے، آمین، (احسن الفتاویٰ،جلددوم،صفحہ 288)
داڑھی منڈے کے متعلق مفتی رشیداحمد صاحب کا فتویٰ دوسرے علماء سے مختلف ہے انہوں نے حلیق کو ناقابل معافی اور قابل گردن زدنی قرار دیا ہے جوکہ دلائل کی رو سے صحیح معلوم ہوتا ہے۔

علامہ وحیدالزماں حیدرآبادی نے ایک حدیث سے استدلال کرتے ہوئے داڑھی منڈوں کو دجال کے ساتھی قرار دیا ہے۔ مولانا حدیث پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں: دجال کے ساتھیوں کی مونچھیں گائے کی سینگوں کی طرح ہوں گی یعنی خم دار،سخت اور لمبی۔(لغات الحدیث، جلد دوم، مادہ ’’ص‘‘، صفحہ 125)
اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا رقمطراز ہیں: مترجم کہتا ہےہمارے زمانے میں معلوم نہیں مسلمانوں پر کیا آفت آئی ہےکہ اکثر نوجوانوں نے نصاریٰ اورہنود کی وضع اختیار کرلی ہےداڑھی منڈاتے اور مونچھیں بڑھاتے ہیں۔ اور ترکوں نے تو عموماً یہی طریقہ اختیار کیا ہےجو دجال کے ساتھیوں کا ہوگا۔ اسلام کی وضع تو یہ ہے کہ داڑھی چھوڑ دی جائےاور مونچھیں کتروائیں جائیں۔(لغات الحدیث، جلد دوم، مادہ ’’ص‘‘، صفحہ 125)

شیخ بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ نے داڑھی کے حلق کو کفر اور شرک میں داخل کیا ہے۔ حافظ عبدالمنان نورپوری لکھتے ہیں: شیخ بدیع الدین راشدی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے: کہ ایک عقیدے کا شرک اور کفر ہےاور ایک قول کا شرک اور کفر ہےاور ایک عمل کا شرک اور کفر ہےاور ایک صورت وشکل کا شرک اور کفر ہےپہلے تین شرک وکفرآپ سمجھتے ہی ہیں۔ (عقیدے کا شرک وکفر، قول کا شرک وکفر، عمل کا شرک وکفر)۔ صورت وشکل کاشرک و کفرداڑھی منڈوانااور کتروانا ہے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:(( مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ))’’جو کسی قوم سے مشابہت کرتا ہےفرمایاوہ ان میں سے ہی ہے‘‘۔(مقالات نورپوری،صفحہ 287)
چونکہ داڑھی مونڈنا اور کاٹنا یا کتروانا کفار اور مشرکین کا فعل ہے جس سے نبی کریم ﷺ نے منع فرمایا ہے اس لئے داڑھی مونڈنا اور کترنا مشرکین اور کفار کی مشابہت ہے اور ازروئے حدیث کافروں اور مشرکوں کی مشابہت اختیار کرنے والا بھی انہیں میں سے ہے یعنی ایک لحاظ سےکافر اور مشرک ہی ہے۔اسی لئے بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ نے داڑھی کو کاٹنے و تراشنے کو کفروشرک کہا ہے۔ وَاللہُ اَعلَم

داڑھی بمقابلہ مرد:
داڑھی مرد کے چہرے پر باربار آکر اسے احساس دلاتی ہے کہ تم ایک مرد ہولیکن مرد داڑھی کو ہر بارمونڈ کر اسے یہ یقین دلانے کی کوشش کرتا ہے کہ تم غلط جگہ پر آئی ہو میں مرد نہیں ہوں۔ بیچارے دونوں ہی اپنی عادت سے مجبور ہیں داڑھی مرد کے چہرے پر آنے سے باز نہیں آتی اور نہ ہی نام نہاد مرد اسے مونڈنے سے باز آتا ہے۔ داڑھی اور مرد کے درمیان یہ جنگ یونہی جاری رہتی ہے اور اکثر داڑھی کی جیت اور فتح ہوتی ہے کیونکہ بعض مرد اپنی زندگی کے آخری دور یا ایام میں اپنے دعویٰ سے دستبردار ہوکر داڑھی کے دعویٰ کے آگے اپنا سر تسلیم خم کردیتے ہیں ۔ داڑھی باربار ان کے چہرے پر آکر اپنی مستقل مزاجی سے بالآخر ان کو ان کے مرد ہونے کا احساس دلانے میں کامیاب ہو ہی جاتی ہےاور وہ بڑھاپے ہی میں سہی داڑھی کو قبول کرلیتے ہیں اس کے برعکس کچھ بدنصیب داڑھی کو شکست دے کر مخنثوں اور عورتوں کی مشابہت والے چہرے کے ساتھ ہی دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔شاید مردوں کی اس لاپرواہی اور بے نیازی کا سبب ان کا داڑھی کے اس عظیم مقام اور اس کی بہت سے زیادہ اہمیت سے ناواقف و جاہل ہونا ہےجو اسلام نے اسے عطاء کی ہے۔عام مسلمان اسے دین کاکوئی اضافی حکم اور معمولی سی چیز سمجھے بیٹھے ہیں جب کہ حقیقی واقعہ یہ ہے کہ داڑھی فطرت ہونے کی وجہ سے قبل از اسلام بھی موجود تھی لیکن جب اسلام آیا تو شارع نے داڑھی کے محض فطرت ہونے کو کافی نہیں سمجھابلکہ نہ صرف اس کا حکم برقرار رکھا بلکہ اس کو فرض قرار دے کر اس کی اہمیت و حیثیت میں اس قدر اضافہ کیا کہ اسے فطرت سے بلند مقام پر فائز کردیا۔ شاید کہ اگر داڑھی کے فطرت ہونے کو کافی سمجھا جاتا اور کوئی اضافی حکم نہ دیا جاتا تو آج فطرت سے بغاوت کے نتیجے میں کوئی مسلمان بھی داڑھی بردار نہ ہوتا۔ غالباً اسی لئے شریعت نے مرد کی اس پہچان کو اتنی اہمیت دی کہ مستقبل میں چاہے جتنے بھی بدترین حالات ہوجائیں اور شیاطین الناس چاہے فطرت کو جتنا بھی بدل ڈالیں لیکن کم ازکم اسلام کے ماننے والے فطرت کی صحیح شکل کو برقرار رکھیں۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ اسلام کے نام لیوائوں نے بھی من حیث القوم فطرت کو بدلنے والوں کے عزائم اور منصوبوں کو اپنے عمل سے آگے بڑھایا ہےاور بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ خواتین کا دل کلین شیوڈ پر آتا ہے اور وہ داڑھی والے چہرے کو ناپسند کرتی ہیں۔ ان بدترین حالات میں بھی امید کی کرن موجود ہے اور دنیا فطرت کے شیدائیوں سے بالکل خالی نہیں ہوئی فی زمانہ دین کو سمجھنے والی خواتین اور مرد موجود ہیں اورلوگوں کا دینی شعور بھی ماضی کے مقابلے میں نسبتاً بہتر ہے اور نہ صرف بغیر کسی جبر کے اپنی خوشی اور شوق سےداڑھی رکھنے والے نوجوان موجود ہیں بلکہ داڑھی کو پسند کرنے والی خواتین بھی موجو دہیں اگرچہ ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے لیکن خراب اوربرےحالات میں بھی یہ صورتحال حوصلہ افزاء ضرور ہے وگرنہ آج سے صرف چالیس پچاس پہلے لوگوں کی دینی شعار سے بے رغبتی کا عالم یہ تھاکہ داڑھی رکھ کر کسی سرکاری نوکری کا حصول ممکن نہ تھا ، لوگ داڑھی والےمرد سے اپنی بیٹی بیاہنے کو تیار نہ تھےاور نوجوانوں کے داڑھی رکھنے پر ان کی ہر ممکن حوصلہ شکنی کی جاتی تھی۔کراچی سے تعلق رکھنے والے جناب فرید اشرف غازی صاحب اپنے مضمون ’’قرآن و حدیث کی روشنی میں داڑھی کی شرعی حیثیت اور مقدار !‘‘ میں لکھتے ہیں: جولوگ داڑھی سے نفرت کرتے ہیں یا اسے حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں یا ان کے عزیز واقارب میں سے اگر کوئی داڑھی رکھنا چاہے تو اسے روکتے ہیں یا بعض لوگ دولہا کو اس بات پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ پہلے اپنی داڑھی منڈائے پھر اس کی شادی کی جائے گی اور اسی طرح بہت سی عورتیں بھی اپنے بیٹوں اور شوہروں کو داڑھی رکھنے پر طعنہ زنی کرتی ہیں یا ان سے اپنی یہ خواہش ظاہر کرتی ہیں کہ وہ اپنی داڑھی منڈوادیں ا وربہت سی عورتیں اپنے مردوں کو مجبور بھی کرتی ہیں تووہ درحقیقت اپنے بیٹوں اور شوہروں کے چہروں کورسول اﷲ ﷺ کے چہرے جیسا دیکھنا پسند نہیں کرتیں۔اس قسم کے تمام مردوں اور عورتوں کو اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیے۔ (hamariweb.com/articles/84084)
یاد رہے کہ داڑھی نہ رکھنا مردانگی کی مکمل نفی ہے کیونکہ داڑھی کا مرادنگی سے تعلق ازلی اور ابدی ہےیہ بات فطرت سے بھی ثابت ہے دین سے بھی اور طبّی لحاظ سے بھی ۔ داڑھی سے متعلق ’’قرآن و حدیث کی روشنی میں داڑھی کی شرعی حیثیت اور مقدار !‘‘ نامی مضمون میںجناب فرید اشرف غازی صاحب لکھتے ہیں:
داڑھی کے بالوں میں قوت مردانگی ہوتی ہے، داڑھی کا تعلق مرد کی قوت اور مادہ منویہ سے ہوتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ عورتوں کے چہرے پر داڑھی نہیں آتی اور نابالغ بچہ اور ہیجڑہ کو جس میں مادہ منویہ نہیں ہوتا اس کو بھی داڑھی نہیں آتی بلکہ اگر کسی مرد کی داڑھی ہو اور اس کے فوطے نکال دیئے جائیں تواس کی داڑھی خود بخود جھڑ جاتی ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ داڑھی کا تعلق براہ راست مرد کی قوت مردانگی سے ہے۔ (hamariweb.com/articles/84084)
 
Last edited:

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,030
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
داڑھی کے متعلق مختلف پریشان کن نظریات:
جماعت اہل حدیث کا مشہور و معروف اور مقبول مذہب داڑھی کو اس کے حال پر چھوڑ دینے کا ہےاسکے برعکس ایک مشت داڑھی کا موقف غیرمقبول ہے جسے جماعت کی عمومی سطح پر کوئی پذیرائی نہیں ملی۔ اور یہی وجہ ہے کہ جماعت اہل حدیث میں جو گنے چنے علماء اس موقف کے حامل و حامی ہیں وہ عام حالات میں یا عوام کے سامنے اس موقف کی تشہیر سے احتیاط برتتے ہیں۔ اسی سبب سے ایک عام اہل حدیث کو اس بات کا علم نہیں کہ ان کی اپنی جماعت میں کچھ علماء کا مذہب ایک مشت کے بعد داڑھی کی کترو بیونت کے جائز ہونے کا بھی ہے، اس مسئلہ کی تحقیق سے قبل خود راقم الحروف بھی کسی ایسے نظریے سے قطعاً ناواقف اور لاعلم تھا، اب چونکہ داڑھی کے مسئلہ پر تحقیق کے دوران بہت سے نئے نظریات اور عجیب و غریب موقف سامنے آئے ہیں تو راقم ان کا ذکر کرنا اور علمی لحاظ سے ان کا جائزہ لینا ضروری سمجھتا ہے۔ تو چلئے اس کا آغاز کرتے ہیں:

پہلانظریہ:
’’داڑھی کے متعلق جتنی بھی روایات ذخیرہ احادیث میں موجود ہیں ان تمام میں داڑھی کا حکم اہل کفر کی مخالفت کے ساتھ مشروط ہےیعنی جہاں بھی داڑھی کا تذکرہ ہوا ہے یوں ہوا ہے کہ داڑھی بڑھاؤ مشرکین کی مخالفت کرو، داڑھی بڑھاؤ عیسائیوں کی مخالفت کرو اور داڑھی بڑھاؤ مجوسیوں کی مخالفت کرو۔ کہیں بھی کسی بھی حدیث میں کافروں کے مخالفت کے بغیر داڑھی رکھنے کا مطلقاً حکم نہیں دیا گیا۔ چناچہ ان تمام روایات پر غوروفکر سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل حکم داڑھی رکھنے کا نہیں ہے بلکہ اصل چیز اہل کفر کی مخالفت ہے گویا داڑھی رکھنا فرض نہیں ہے بلکہ اس باب میں کفار کی مخالفت ضروری ہے۔‘‘
اس نظریے کے رد میں عرض ہے کہ ابن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: أحْفُوا الشَّوَارِبَ وأَعْفُوا اللِّحَى ’’مونچھیں تراشو ائو داڑھیاں بڑھاؤ‘‘۔(صحیح بخاری، کتاب اللباس)
اس حدیث میں مطلقاً داڑھی بڑھانے کا حکم دیا گیا ہے اور کفار کی مشابہت کا نام و نشان بھی نہیں ہےاس سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار کی داڑھی میں مخالفت ایک اضافی یا ثانوی حیثیت کا حکم رکھتی ہے اور اصل چیز داڑھی بڑھانا ہے۔اس کے علاوہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مذکورہ بالا حدیث صحیح بخاری میں ابن عمر رضی اللہ عنہ ہی سے روایت کردہ حدیث ’’مشرکین کی مخالفت کرو مونچھیں کٹائوداڑھی بڑھاؤ ‘‘کا ایک ٹکڑا ہے تو اسے اپنی غلط فہمی دور کرلینی چاہیے اور یہ جان لینا چاہیے کہ یہ دو مختلف احادیث ہیں اگرچہ ان دونوں روایات کے بنیادی راوی عبداللہ بن عمر ہی ہیں لیکن ان کی سند ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہے جو انہیں دو علیحدہ حیثیت کی الگ احادیث بناتی ہیں۔ اس سے ایک اہم بات یہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ اگر اصل کام مشرکین کی مخالفت ہی ہوتا تو عبداللہ بن عمر اس روایت کوبھی مشرکین کی مخالفت کے تذکرے کے بغیر ہر گز روایت نہ کرتے۔ لیکن صرف داڑھی بڑھائو کے حکم کے ساتھ روایت کرنا بتاتا ہے کہ داڑھی میں اصل کفار کی مخالفت نہیں بلکہ اصل داڑھی کو معاف کرنا ہے۔
مسلم شریف میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ: ’’أَمَرَ بِإِحْفَاءِ الشَّوَارِبِ، وَإِعْفَاءِ اللِّحْيَةِ‘‘ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ مونچھیں کٹوائیں اور داڑھی بڑھائیں۔ (صحیح مسلم)
یہاں بھی حدیث کے الفاظ یہ اعلان کررہے ہیں کہ اسلام کا اصل حکم داڑھی رکھنے کا ہے جبکہ مشرکین و مجوس کی مخالفت کی حیثیت ایک اضافی حکم کی ہے۔ اگر داڑھی کے بجائے اصل مشرکین کی مخالفت ہوتی تو حدیث کے الفاظ ہوتے کہ داڑھی کے معاملے میں ہمیں مجوس ، اہل کتاب اور مشرکین کی مخالفت کا حکم دیا گیاہے۔
عبیداللہ بن عتبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ’’جَاءَ رَجُلٌ مِنَ الْمَجُوسِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَحَلَقَ لِحْيَتَهُ، وَأَطَالَ شَارِبَهُ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا هَذَا؟» قَالَ: هَذَا فِي دِينِنَا، قَالَ: «فِي دِينِنَا أَنْ نَجُزَّ الشَّارِبَ، وَأَنْ نُعْفِيَ اللِّحْيَةَ‘‘ مجوس کا ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اس کی داڑھی مونڈھی ہوئی تھی اور مونچھیں بڑھائی ہوئی تھیں آپ(ﷺ) نے اس سے پوچھا یہ کیا ہے۔ اس نے کہا یہی ہمارا دین ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا لیکن ہمارے دین میں یہ حکم ہے کہ ہم اپنی مونچھیں کم کریں اور داڑھی بڑھائیں ‘‘ ( مصنف ابن ابی شیبہ حدیث نمبر 25502 )
یہاں رسول اللہ ﷺ نے داڑھی بڑھانے کو دین کہا ہے اور دین کسی اضافی حکم یا کفار کی مخالفت کا محتاج نہیں ہوتا۔
ام المومنین عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عَشْرٌ مِنَ الْفِطْرَةِ قَصُّ الشَّارِبِ وَ إِعْفَائُ اللِّحْيَةِ وَالسِّوَاكُ وَاسْتِنْشَاقُ الْمَائِ وَ قَصُّ الأَظْفَارِ وَ غَسْلُ الْبَرَاجِمِ وَ نَتْفُ الإِبِطِ وَ حَلْقُ الْعَانَةِ وَ انْتِقَاصُ الْمَائِ قَالَ زَكَرِيَّا قَالَ مُصْعَبٌ وَ نَسِيتُ الْعَاشِرَةَ إِلاَّ أَنْ تَكُونَ الْمَضْمَضَةَ زَادَ قُتَيْبَةُ ’’دس باتیں پیدائشی سنت یا فطرت میں سےہیں۔ (۱) مونچھیں کترنا (۲) داڑھی بڑھانا۔ (۳) مسواک کرنا (۴) ناک میں پانی ڈالنا (۵) ناخن کاٹنا (۶)پوروں کا دھونا (کانوں کے اندر اور ناک اور بغل اور رانوں کا دھونا) (۷) بغل کے بال اکھیڑنا(۸) زیر ناف بال لینا (۹)پانی سے استنجاء کرنا۔‘‘ (یا شرمگاہ پر وضو کے بعد تھوڑا سا پانی چھڑک لینا) ۔ مصعب نے کہا کہ میں دسویں بات بھول گیا ، شاید کلی کرنا ہو۔ (صحیح مسلم)
اس کے علاوہ اگر صحیح مسلم میں وارد شدہ اس حدیث پر غوروفکر کیا جائے کہ جس میں دس چیزوںبشمول داڑھی کو فطرت میں داخل بتایا گیا ہے اس حدیث سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے داڑھی رکھنے کا تعلق مشرکین یا مجوسیوں کی مخالفت سے نہیں ہے اگر داڑھی رکھنے کی علت محض کفار کی مخالفت ہوتی تو اس حدیث میں ’’داڑھی بڑھانا‘‘ کے بجائے ’’کفار کی مخالفت میں داڑھی بڑھانا‘‘ کے الفاظ ہوتے جبکہ کفار کی مخالفت کا حکم ایک اضافی حکم ہےاصل حکم نہیں ہے۔ جب بھی کوئی مسلمان نبی ﷺ کی منشاء و حکم کے مطابق داڑھی رکھے گا تو کفار کی مخالفت خود بخود ہوجائے گی اور وہ دوہرے اجر کا مستحق ہوگا ایک سنت کے مطابق داڑھی رکھنے کا اور دوسرا کفار کی مخالفت کا۔اگر ہم داڑھی رکھنے کو اصل قرار دیں تو اس سے حدیث کے دوسرے حکم یعنی کفار کی مخالفت پر از خود عمل ہوجاتا ہے جبکہ اگر بعض جہلاء کی طرح کفار کی مخالفت کو اصل قرار دیا جائے تو داڑھی رکھنے کے حکم سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے کیونکہ جب اصل مشرکین کی مخالفت ہے تو ان کے داڑھی رکھنے کی صورت میں ایک مسلمان کو داڑھی صاف کروانا پڑے گی ایسی صورت میں حدیث کے صرف ایک حکم پر عمل ممکن ہوسکے گا اسی سے اندازہ لگا یا جاسکتا ہے کہ پہلی بات زیادہ قرین قیاس اور اتباع کے قریب تر ہے کہ داڑھی کو بڑھایا جائے تاکہ کفار کی مخالفت ہوجائے ۔اس سے یہ نقطہ بھی برآمد ہوتا ہےکہ مشرکین کی مخالفت داڑھی بڑھانےکے ساتھ مشروط ہے۔ اگر کسی نے داڑھی نہیں بڑھائی تو مشرکین کی مخالفت نہیں ہوگی اور اس کے علاوہ یعنی داڑھی کٹوانا اور مونڈنا چاہے کم ہو یا زیادہ ان کی مشابہت ہے جو کہ اسلام میں حرام ہے کیونکہ جب مخالفت نہیں ہوگی تو پھر مشابہت ہوگی۔
متذکرہ صحیح مسلم کی حدیث کے حوالے سے راقم کے کان میں ایک انتہائی مضحکہ خیز اور جاہلانہ استدلال یہ پڑا کہ داڑھی بڑھانا یا رکھنا فرض یا واجب نہیں ہے اگر یہ واجب ہوتی تو داڑھی کے علاوہ یہ تمام نو کے نوافعال بھی فرض ہوتے جنھیں فطرت کہا گیا ہے جبکہ ہم جانتے ہیں ان میں سے کوئی بھی فعل فرض نہیں ہے لہٰذا ثابت ہوا کہ داڑھی بھی فرض یا واجب نہیں ہے۔ اس کے جواب میں راقم یہ عرض کرے گا کہ کسی چیز یا فعل کا فطرت میں داخل ہونا اسے فرض نہیں بناتا بلکہ اس کے بارے میں اللہ کے رسول ﷺ کا حکم اسے دائرہ وجوب میں لاتا ہے ۔ یہ بات رسول اللہ ﷺ بھی بخوبی جانتے تھے اس لئے نبی کریم ﷺ نے مسواک جو کہ فطری امور میں شامل ہے کے بارے میں فرمایا کہ اگر مجھے امت کے مشقت میں مبتلا ہونے کا ڈر نہ ہوتا تو میں تمھیں ہر نماز کے ساتھ مسواک کا حکم دیتا ۔حدیث ملاحظہ ہو:
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لولا ان اشق على امتي لامرتهم بالسواك عند كل صلاة ’’اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ میں اپنی امت کو مشقت میں ڈال دوں گا تو میں انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کا حکم دیتا۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الطہارت،صحیح بخاری ، کتاب الجمعہ)
اس حدیث سے واضح اور یقینی ہے کہ اگر رسول اللہ ﷺ مسواک کے بارے میں ایسا حکم دے دیتے جیسا کہ ان کی خواہش تھی تو پھر ہر نماز کے ساتھ مسواک امت پر فرض ہوجاتی لیکن مسواک کرنا اس لئے فرض نہیں کہ شارع نے اس کا حکم نہیں دیا۔اب چونکہ کئی احادیث میں نبی کریم ﷺ نے صاف صاف داڑھی بڑھانے کا حکم فرمایا ہے اور کہیں اس بارے میں کوئی رعایت یا گنجائش نہیں دی تو یہ حکم داڑھی جو کہ فطری امور میں سے ایک امر ہے کے فرض اور واجب ہونے کی سب سے بڑی اور واضح دلیل ہے بلکہ دلیل قاطع ہے۔
اس حدیث اور اس سلسلے کی دیگر احادیث میں اہم نقطہ یہ ہے کہ کسی بھی حدیث میں نہ تو داڑھی رکھنے کا حکم دیا گیا ہے اور نہ ہی فطرت کے ضمن میں داڑھی رکھنا بیان کیا گیا ہےبلکہ ہر جگہ داڑھی بڑھانے کا حکم دیا گیا ہے اور فطرت بھی داڑھی بڑھانے کو قرار دیا گیا ہے ناکہ داڑھی رکھنے کو۔لہٰذا داڑھی بڑھانے کا صاف اور سیدھا مطلب ہوا کہ داڑھی نہ کاٹنا اورچونکہ داڑھی کاٹنا داڑھی بڑھانے کی خلاف ورزی ہے اس لئے داڑھی کاٹنے والا مسلمان نبی کریم ﷺ کی کھلی مخالفت کرکے خود کوہرگز متبع سنت نہیں کہلاوا سکتا اورنہ ہی اپنے اس غلط عمل کے لئے عبداللہ بن عمر اور ابوہریرہ جیسے صحابہ کے دامن میں پناہ نہیں لے سکتا ہےکیونکہ وہ عام حالات میں داڑھیاں نہیں کاٹتے تھے جبکہ آج کا مسلمان ہر جمعہ یا پندرہ دن میں داڑھی کٹوا لیتا ہے جبکہ حج اور عمرے کی نوبت یا تو اس کی زندگی میں آتی ہی نہیں یا پھر ایک یا دو مرتبہ ہی آتی ہے۔ لہٰذا ایسا مسلمان صحابہ کی اتباع بھی نہیں کرتا وگرنہ وہ صرف حج و عمرہ کے موقع پر اپنی داڑھی کٹواتا اور اسکے علاوہ داڑھی کو معاف رکھتابلکہ درحقیقت اس سلسلے میں وہ اپنے نفس کی پیروی کرتا ہے۔

دوسرا نظریہ:
’’یہ نظریہ دراصل پہلے نظریے کا ہی نتیجہ اور تکملہ ہے اور اس سے جڑا ہے جو کچھ یوں ہے کہ چونکہ مسلمانوں پر داڑھی کے معاملے میں کافروں کی مخالفت کو فرض قرار دیا گیا ہے اس لئے کسی بھی زمانے میں داڑھی رکھتے وقت اہل کفر کی داڑھیوں کی حالت کو دیکھا جائے گا اگر ان کی داڑھی چھوٹی ہے تو لمبی داڑھی رکھنا فرض ہوگا۔ اگر کسی زمانے میں کفار داڑھی مونڈتے ہیں تو اس زمانے میں مسلمانوں کے لئے برائے نام داڑھی رکھ لینا پس چہرے پر اس قدر بال کہ جسے عرف میں داڑھی کہا جاسکے حدیث کے حکم کی تعمیل کہلائے گا کیونکہ اصل چیز تو کافروں کی ضد تھی جسے ان کی مخالفت کے ذریعے پورا کرلیا گیا۔ اسی طرح اگر کسی زمانے میں کفار مناسب داڑھی رکھنے والے ہوں تو ان کے خلاف کرنے کے لئے مسلمانوں کوپنی داڑھی منڈوانا ہوگی تاکہ حدیث کے حکم’’ کفار کی مخالفت کرو‘‘پر عمل کیا جاسکے۔‘‘
داڑھی کی مخالفت کے حکم سے ایسا مطلب نکالنا عقل اور نقل دونوں کے خلاف ہے۔نبی کریم ﷺ نے اپنی امت کوہر ہر معاملے میں اہل کتاب کی مخالفت کا حکم دیا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر پاگل اور جاہل یہود و نصاریٰ سے مخالفت کے اپنے اپنے نظریات پیش کرنے لگے ۔ مثال کے طور پرجب تک طب نے ترقی نہیں کی تھی تب تک عیسائی ختنہ نہیں کرتے تھے اور ختنہ شدہ ہونا صرف اہل عرب یا مسلمانوں کی پہچان تھی ایسی صورت میں عیسائی اور مسلمان مردوں کے درمیان ایک بنیادی اور اہم امتیاز پایا جاتا تھاجو مشہور و معروف تھا لیکن موجودہ دور میں صورتحال مختلف ہوچکی ہے کہ عیسائیوں کی اکثریت طبی نقطہ نگاہ سے اب ختنہ کی قائل ہوچکی ہے عین ممکن ہے آگے جاکر عیسائیوں کا مسلمانوں سےیہ دیرینہ امتیاز ہی ختم ہوجائے اور ہر عیسائی ختنہ شدہ ہو ۔ تو کیا پھر عیسائیوں سے مخالفت کے حکم پر عمل کرنے کے لئے مسلمان ختنہ کروانا چھوڑ دیں گے؟ کیونکہ بدلے ہوئے حالات میں مخالفت کی یہی ایک صورت باقی رہ جاتی ہے کہ اگر عیسائی ختنہ شدہ ہوں تو مسلمان ختنہ کی اسلامی رسم سے دستبردار ہوجائیں تاکہ ان کے اور مسلمانوں کے درمیان مخالفت قائم رہے۔ یقیناً کوئی بھی اس حل سے اتفاق نہیں کرے گاکہ مخالفت کے چکر میں ہم اپنی صحیح اور فطری چیزوں کو چھوڑ دیں ،اس بنیاد پر کہ مخالف اپنی اصل سے ہٹ گیا ہے تو مسلمان بھی اپنی اصل سے ہٹ جائے تاکہ ان کی مخالفت کے حکم نبویﷺ پر عمل کیا جاسکے۔لہٰذامخالفت کے ضمن میں جب ختنہ والا حل ناقابل قبول ہے تو داڑھی والا نظریہ کس طرح قابل فہم ہوسکتا ہے کہ دونوں معاملات میں حکم ایک ہی ہے کہ ’’مخالفت کرو‘‘۔
راقم السطور کی ذاتی رائے یہ ہے کہ مخالفت والے احکامات کا تعلق اللہ کے رسول ﷺ کے مبارک دور سے ہےاس دور میں جو صورت مخالفت کی نکلتی تھی یعنی جسے نبی ﷺ نے اختیارفرمایا یا اس کاحکم دیا وہی صورت قیامت تک رہے گی ۔ اس لئے چاہے مشرکین و مجوس کی زمانے کے لحاظ سے داڑھی کی ہیت تبدیل بھی ہوتی رہے تو اس سے حکم نبوی ﷺ میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی اور خصوصاً اس لئے بھی کہ وحی کا سلسلہ منقطع ہوچکا ہے اس لئے نبی ﷺ نے جو حکم جس طرح دیا ہے اس پر قیامت تک اسی طرح عمل کیا جائے گا۔ البتہ اجتہادی مسائل کا معاملہ علیحدہ ہےلیکن داڑھی کے معاملے میں کفار کی مخالفت کا معاملہ اجتہادی نہیں بلکہ توفیقی ہےکیونکہ اس پر نص موجود ہے جس میں مخالفت کا طریقہ کار بھی واضح کیا گیا ہے۔اب جیسے عاشورہ کے روزے کے متعلق جب نبی ﷺ کو معلوم ہوا کہ یہ روزہ یہودی بھی رکھتے ہیں تو ان کی مخالفت کے لئے نبی ﷺ نے عاشورہ کے ساتھ ایک اور روزہ رکھنے کی خواہش کا اظہار فرمایاچناچہ اپنے نبی ہی کی اتباع میں مسلمان بھی عاشورہ کی نو تاریخ کو یہ مخالفت والا روزہ رکھتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی بدعقل یہ 9تاریخ کاروزہ رکھنے سے پہلے یہودیوں کی تحقیق شروع کردے کہ آیا آج کی تاریخ میں یہودی عاشورہ کا روزہ رکھتے ہیں یا نہیں کیونکہ ان عقل پرستوں کی نظر میں مخالفت کا روزہ اسی وقت مخالفت متصور ہوگا جب یہودی آج بھی اصل روزہ رکھنے کا اہتمام کرتے ہوں وگرنہ مخالفت کس بات کی؟ تو اس کی عقل پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے اس لئے کہ شریعت نے ہمیں ایسی کسی تحقیق کا یاا یسی مشقت میں پڑنےکا مکلف نہیں بنایا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ دین تبدیل ہوجاتے ہیں اس دین کے پیروکاروں کے مزاج اور حالات بدل جاتے ہیں بجز اسلام کے کہ اسلام تو آج بھی وہی ہے جو چودہ سو سال پہلے تھا لیکن اسلام کے پیروکار بدل گئے ہیں اکثر مسلمانوں نے اسلامی طریقوں کو چھوڑ دیا ہے یا تبدیل کردیا ہے یا پھر پرانے احکامات کی جگہ بدعات کی صورت میں اپنی مرضی کے نئے احکامات لے آئے ہیں یہ تو اس دین کے پیروکاروں کا حال ہے جبکہ ان کا دین قیامت تک تبدیل نہیں ہوگا لیکن یہود و نصاریٰ جنہوں نے اپنے ساتھ اپنے دین کو بھی بدل ڈالا ۔ بہت مشکل ہے کہ وہ آج بھی قبل اسلام کی دس عاشورہ کی اپنی مذہبی رسم کو ماضی ہی کی طرح نبھاتے آرہے ہوں۔قرین قیاس یہی ہے کہ یہودی آج یہ روزہ نہیں رکھتے ہوں گے یا ان کی اکثریت اسے ترک کرچکی ہوگی یا ہوسکتا ہے کہ وہ آئندہ اسے ترک کردیں۔ تو کیا اس سے مخالفت میں رکھا جانے والا نو تاریخ کا روزہ بے معنی ہوجائے گا؟ ہرگز نہیں! بلکہ روز قیامت تک یہ اضافی روزہ رکھنا یہودیوں کی مخالفت ہی رہے گا اور اس پر روزہ دار کو یہودیوں کی مخالفت کے اجر کے ساتھ اپنے نبی کی اتباع کا ثواب بھی ملے گا۔
اس معاملے کو ایک اور زاویے سے اس طرح سمجھیں کہ مجوس میں کچھ لوگ داڑھی مونڈنے والے بھی تھے ان میں سے دو افراد نبی کریم ﷺ کے سامنے بھی آئے تھے اس کے علاوہ ان میں چھوٹی داڑھی رکھنے والے بھی تھے ان افراد کو بھی اللہ کے رسول ﷺ نے دیکھاتھالیکن دونوں طرح کے مجوس کو دیکھ کر نبی ﷺ نے صرف ایک حکم دیا کہ مجوس کی مخالفت کرو اور داڑھی بڑھاؤ حالانکہ داڑھی منڈوں کی مخالفت تو چھوٹی داڑھی یاایک مشت داڑھی سے بھی ہوجاتی ہے اس کے لئے لمبی داڑھی کی حاجت نہیں۔ اس سے ایک بات تو سمجھ میں آجاتی ہے کہ نبی ﷺ کا حکم ایک ہے یعنی داڑھی بڑھاؤ اور اسی میں مجوس کی مخالفت ہے اب چاہے وہ داڑھی مونڈیں یا چھوٹی داڑھی رکھیں یا لمبی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔کیونکہ ہمیں اللہ کے رسول ﷺ نے صرف مخالفت کا حکم نہیں دیا بلکہ اس مخالفت کی صورت بھی بتائی ہے اس لئے وہ مخالفت اسی وقت درست تصور کی جائے گی جب اس سلسلے میں ہم نبی ﷺ کے حکم کردہ طریقے کو تسلیم کریں گے۔ اگر تو نبی ﷺ صرف اتنا فرماتے کہ داڑھی کے معاملے میں مجوس کی مخالفت کرو تب کسی کو اپنی من مرضی کا اختیار حاصل ہوسکتا تھا کہ وہ مخالفت سے پہلے مجوس کی داڑھی کا حال معلوم کرلیتا اور اگر وہ لمبی داڑھی والے ہوتے تو خود چھوٹی داڑھی رکھ کر ان کی مخالفت کرلیتا اور اگر وہ چھوٹی داڑھی رکھتے تو خود لمبی داڑھی رکھ کر یا داڑھی مونڈ کر مخالفت کے حکم پر عمل پیرا ہوجاتا لیکن حدیث میں مکمل وضاحت آجانے کے بعد اب کوئی اپنی مرضی نہیں کرسکتاچناچہ داڑھی کے متعلق یہ دوسرا نظریہ گوز شتر سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔
پس یہ قیمتی اصول یاد رکھنے کا ہے کہ کسی معاملے میں جس حد تک رسول اللہ ﷺ نے گنجائش دی ہو ،بس اسی حد تک اس گنجائش سے فائدہ اٹھایاجاسکتا ہے جبکہ شرعاً کسی معاملے میں گنجائش نہ نکلتی ہو تو وہاں خود ساختہ نظریات کے ذریعہ خود سے گنجائش پیدا نہیں کی جاسکتی۔ پس چونکہ داڑھی کے معاملے میں نبی ﷺ نے اپنی امت کی راہنمائی فرمادی ہے اور یہ بھی بتا دیا ہے کہ مجوس اور مشرکین کی مخالفت داڑھی کو بڑھا کر کرنی ہے اس لئے جہلاء حضرات کفار کی مخالفت کوفرض قرار دے کر اور اس کو اصل اصول بنا کر اس طرح کے گستاخانہ اور مضحکہ خیز نظریات کے ذریعہ امت کو گمراہ نہیں کرسکتے۔
قاری کے علم میں اضافہ کے لئے عرض ہے کہ ’’دوسرا نظریہ‘‘ کے عنوان کے تحت جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ فرضی باتیں نہیں بلکہ دنیائے اسلام میں بہت لوگ جن میں علماء بھی شامل ہیں ایسے ہیں جو اس پر عمل پیرا ہیں۔بطور نمونہ عرض ہے کہ مصر اور سوڈان کے اکثر علماء داڑھی منڈے ہیں اس کی وجہ ان کے نزدیک یہ ہے کہ چونکہ فی زمانہ اہل کتاب، مجوس، مشرکین وغیرہ کے علماء بھی داڑھی بردار ہیں جبکہ نبی ﷺ کا حکم ان کے بارےمیں مخالفت کا ہےنیز مسلمان دہشت گردوں اور خوارج نے بھی داڑھیاں رکھی ہوئی ہیں اس لئے حدیث کے مطابق ان کی مخالفت اور ان سے امتیاز کے لئے داڑھی نہ رکھناہی شریعت پر عمل ہےاور فی زمانہ اس کی ضرورت اس لئے بھی بڑھ جاتی ہے کہ داڑھی رکھنے سے مبادا انہیں بھی دہشت گرد یاخارجی نہ سمجھ لیا جائے۔ان عقل وخرد سے عاری اور تفقہ دین سے کورے نام نہاد اہل علم کو کوئی یہ بتادے کہ خارجی فتنے کے عروج کا وقت خیرالقرون کا دور ہے جب صحابہ کرام کثیر تعداد میں موجود تھے۔ لیکن کسی ایک صحابی نے بھی ان ضال اور گمراہ فرقے سے امتیاز کے لئے اپنی داڑھی نہیں منڈوائی اب جبکہ خوارج زوال کا شکار اور کمزور ہیں تو ان سے الگ دکھنے کے لئےخوشی خوشی دینی شعار کی قربانی دے دینا اسلامی احکامات کے ساتھ کفر، ٹھٹھا اور مذاق ہے۔اصل میں تو یہ علماء داڑھی صاف کروا کر کفار کی موافقت کی شکل میں ان کی تقلید اور پیروی کررہے ہیں لیکن شرعی حکم کفار خصوصاً اہل کتاب کی مخالفت کرو کی غلط تاویل کرکے اسے ایک پردے اور آڑ کے طور پر استعمال کررہے ہیں تاکہ سادہ لوح مسلمان اس فریب اور دھوکے کا شکار ہوجائیں کہ یہ علماء داڑھیاں منڈوا کر بھی شریعت ہی کےایک اہم حکم کی بجاآوری کررہے ہیں۔ان نام نہاد علماء کا یہ عمل اس قدر واہیات اور گھٹیا ہے کہ اسے غلط ثابت کرنے کے لئے طویل مباحث میں پڑنے اور لمبے چوڑے دلائل دینے کی چنداں ضرورت نہیں کیونکہ ایک عام مسلمان کے پاس بھی اتنا دینی شعور اور علم تو ضرور ہی موجود ہے کہ وہ ان علماء کے فعل کے غلط ہونے کو اپنے واجبی علم کی روشنی میں جانچ سکیں اور ان کے دھوکے کو پہچان سکیں۔
سوشل میڈیا پر گردش کرتی ایک ویڈیو میں جب راقم نے ان برائے نام داڑھی رکھنے والے اور داڑھی منڈے مصری اور سوڈانی علماء کو دیکھا تو ان کے چہروں پر برستی پھٹکار کی وجہ سے انہیں آنکھ بھر کرنہ دیکھ سکا، سچ تو یہ ہے کہ دینی غیرت نے گوارا ہی نہیں کیا کہ ان قبیح ،بدصورت اور لعنتی شکلوں کو بغوردیکھا جائے۔ اگر داڑھی منڈے یہ لوگ اہل علم کے بجائے عام فاسق فاجر مسلمان ہوتے تو بھی ایک حد تک قابل قبول تھاکہ نظریں ایسے چہروں کو دیکھنے کی عادی ہوچکی ہیں لیکن ان کا تعلق اہل جبہ وقبہ و دستار سے ہونا یعنی ان کا علماء میں سے ہونا عام فاسقوں کی بنسبت ان کی پھٹکار میں بہت زیادہ اضافہ کررہا تھا جس کی وجہ سے یہ قابل دیدارہی نہیں تھے۔
 
Last edited:
شمولیت
جون 07، 2015
پیغامات
207
ری ایکشن اسکور
41
پوائنٹ
86
السلام علیکم ورحمۃ اللہ!
حوصلہ افزائی کرنے کا بہت بہت شکریہ۔ مجھے بہت خوشی ہوگی اگر آپ مضمون مکمل ہونے کے بعد تھوڑا واضح تبصرہ کرکے بتاسکیں کہ یہ تحریر اس موضوع پر لکھی گئی لاتعداد تحریروں سے کس طرح مختلف ہے یا پھر آپ کو اس میں کیا اچھا لگا۔ آپ کے تبصرے کا شدت سے انتظار رہے گا۔ جزاک اللہ خیرا
وعلیکم السلام برادر محترم۔جی ان شاء اللہ ضرور۔جزاک اللہ خیرا
 
Top