داڑھی کے متعلق مختلف پریشان کن نظریات:
جماعت اہل حدیث کا مشہور و معروف اور مقبول مذہب داڑھی کو اس کے حال پر چھوڑ دینے کا ہےاسکے برعکس ایک مشت داڑھی کا موقف غیرمقبول ہے جسے جماعت کی عمومی سطح پر کوئی پذیرائی نہیں ملی۔ اور یہی وجہ ہے کہ جماعت اہل حدیث میں جو گنے چنے علماء اس موقف کے حامل و حامی ہیں وہ عام حالات میں یا عوام کے سامنے اس موقف کی تشہیر سے احتیاط برتتے ہیں۔ اسی سبب سے ایک عام اہل حدیث کو اس بات کا علم نہیں کہ ان کی اپنی جماعت میں کچھ علماء کا مذہب ایک مشت کے بعد داڑھی کی کترو بیونت کے جائز ہونے کا بھی ہے، اس مسئلہ کی تحقیق سے قبل خود راقم الحروف بھی کسی ایسے نظریے سے قطعاً ناواقف اور لاعلم تھا، اب چونکہ داڑھی کے مسئلہ پر تحقیق کے دوران بہت سے نئے نظریات اور عجیب و غریب موقف سامنے آئے ہیں تو راقم ان کا ذکر کرنا اور علمی لحاظ سے ان کا جائزہ لینا ضروری سمجھتا ہے۔ تو چلئے اس کا آغاز کرتے ہیں:
پہلانظریہ:
’’داڑھی کے متعلق جتنی بھی روایات ذخیرہ احادیث میں موجود ہیں ان تمام میں داڑھی کا حکم اہل کفر کی مخالفت کے ساتھ مشروط ہےیعنی جہاں بھی داڑھی کا تذکرہ ہوا ہے یوں ہوا ہے کہ داڑھی بڑھاؤ مشرکین کی مخالفت کرو، داڑھی بڑھاؤ عیسائیوں کی مخالفت کرو اور داڑھی بڑھاؤ مجوسیوں کی مخالفت کرو۔ کہیں بھی کسی بھی حدیث میں کافروں کے مخالفت کے بغیر داڑھی رکھنے کا مطلقاً حکم نہیں دیا گیا۔ چناچہ ان تمام روایات پر غوروفکر سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل حکم داڑھی رکھنے کا نہیں ہے بلکہ اصل چیز اہل کفر کی مخالفت ہے گویا داڑھی رکھنا فرض نہیں ہے بلکہ اس باب میں کفار کی مخالفت ضروری ہے۔‘‘
اس نظریے کے رد میں عرض ہے کہ ابن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: أحْفُوا الشَّوَارِبَ وأَعْفُوا اللِّحَى ’’مونچھیں تراشو ائو داڑھیاں بڑھاؤ‘‘۔(صحیح بخاری، کتاب اللباس)
اس حدیث میں مطلقاً داڑھی بڑھانے کا حکم دیا گیا ہے اور کفار کی مشابہت کا نام و نشان بھی نہیں ہےاس سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار کی داڑھی میں مخالفت ایک اضافی یا ثانوی حیثیت کا حکم رکھتی ہے اور اصل چیز داڑھی بڑھانا ہے۔اس کے علاوہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مذکورہ بالا حدیث صحیح بخاری میں ابن عمر رضی اللہ عنہ ہی سے روایت کردہ حدیث ’’مشرکین کی مخالفت کرو مونچھیں کٹائوداڑھی بڑھاؤ ‘‘کا ایک ٹکڑا ہے تو اسے اپنی غلط فہمی دور کرلینی چاہیے اور یہ جان لینا چاہیے کہ یہ دو مختلف احادیث ہیں اگرچہ ان دونوں روایات کے بنیادی راوی عبداللہ بن عمر ہی ہیں لیکن ان کی سند ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہے جو انہیں دو علیحدہ حیثیت کی الگ احادیث بناتی ہیں۔ اس سے ایک اہم بات یہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ اگر اصل کام مشرکین کی مخالفت ہی ہوتا تو عبداللہ بن عمر اس روایت کوبھی مشرکین کی مخالفت کے تذکرے کے بغیر ہر گز روایت نہ کرتے۔ لیکن صرف داڑھی بڑھائو کے حکم کے ساتھ روایت کرنا بتاتا ہے کہ داڑھی میں اصل کفار کی مخالفت نہیں بلکہ اصل داڑھی کو معاف کرنا ہے۔
مسلم شریف میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ: ’’أَمَرَ بِإِحْفَاءِ الشَّوَارِبِ، وَإِعْفَاءِ اللِّحْيَةِ‘‘ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ مونچھیں کٹوائیں اور داڑھی بڑھائیں۔ (صحیح مسلم)
یہاں بھی حدیث کے الفاظ یہ اعلان کررہے ہیں کہ اسلام کا اصل حکم داڑھی رکھنے کا ہے جبکہ مشرکین و مجوس کی مخالفت کی حیثیت ایک اضافی حکم کی ہے۔ اگر داڑھی کے بجائے اصل مشرکین کی مخالفت ہوتی تو حدیث کے الفاظ ہوتے کہ داڑھی کے معاملے میں ہمیں مجوس ، اہل کتاب اور مشرکین کی مخالفت کا حکم دیا گیاہے۔
عبیداللہ بن عتبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ’’جَاءَ رَجُلٌ مِنَ الْمَجُوسِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَحَلَقَ لِحْيَتَهُ، وَأَطَالَ شَارِبَهُ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا هَذَا؟» قَالَ: هَذَا فِي دِينِنَا، قَالَ: «فِي دِينِنَا أَنْ نَجُزَّ الشَّارِبَ، وَأَنْ نُعْفِيَ اللِّحْيَةَ‘‘ مجوس کا ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اس کی داڑھی مونڈھی ہوئی تھی اور مونچھیں بڑھائی ہوئی تھیں آپ(ﷺ) نے اس سے پوچھا یہ کیا ہے۔ اس نے کہا یہی ہمارا دین ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا لیکن ہمارے دین میں یہ حکم ہے کہ ہم اپنی مونچھیں کم کریں اور داڑھی بڑھائیں ‘‘ ( مصنف ابن ابی شیبہ حدیث نمبر 25502 )
یہاں رسول اللہ ﷺ نے داڑھی بڑھانے کو دین کہا ہے اور دین کسی اضافی حکم یا کفار کی مخالفت کا محتاج نہیں ہوتا۔
ام المومنین عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عَشْرٌ مِنَ الْفِطْرَةِ قَصُّ الشَّارِبِ وَ إِعْفَائُ اللِّحْيَةِ وَالسِّوَاكُ وَاسْتِنْشَاقُ الْمَائِ وَ قَصُّ الأَظْفَارِ وَ غَسْلُ الْبَرَاجِمِ وَ نَتْفُ الإِبِطِ وَ حَلْقُ الْعَانَةِ وَ انْتِقَاصُ الْمَائِ قَالَ زَكَرِيَّا قَالَ مُصْعَبٌ وَ نَسِيتُ الْعَاشِرَةَ إِلاَّ أَنْ تَكُونَ الْمَضْمَضَةَ زَادَ قُتَيْبَةُ ’’دس باتیں پیدائشی سنت یا فطرت میں سےہیں۔ (۱) مونچھیں کترنا (۲) داڑھی بڑھانا۔ (۳) مسواک کرنا (۴) ناک میں پانی ڈالنا (۵) ناخن کاٹنا (۶)پوروں کا دھونا (کانوں کے اندر اور ناک اور بغل اور رانوں کا دھونا) (۷) بغل کے بال اکھیڑنا(۸) زیر ناف بال لینا (۹)پانی سے استنجاء کرنا۔‘‘ (یا شرمگاہ پر وضو کے بعد تھوڑا سا پانی چھڑک لینا) ۔ مصعب نے کہا کہ میں دسویں بات بھول گیا ، شاید کلی کرنا ہو۔ (صحیح مسلم)
اس کے علاوہ اگر صحیح مسلم میں وارد شدہ اس حدیث پر غوروفکر کیا جائے کہ جس میں دس چیزوںبشمول داڑھی کو فطرت میں داخل بتایا گیا ہے اس حدیث سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے داڑھی رکھنے کا تعلق مشرکین یا مجوسیوں کی مخالفت سے نہیں ہے اگر داڑھی رکھنے کی علت محض کفار کی مخالفت ہوتی تو اس حدیث میں ’’داڑھی بڑھانا‘‘ کے بجائے ’’کفار کی مخالفت میں داڑھی بڑھانا‘‘ کے الفاظ ہوتے جبکہ کفار کی مخالفت کا حکم ایک اضافی حکم ہےاصل حکم نہیں ہے۔ جب بھی کوئی مسلمان نبی ﷺ کی منشاء و حکم کے مطابق داڑھی رکھے گا تو کفار کی مخالفت خود بخود ہوجائے گی اور وہ دوہرے اجر کا مستحق ہوگا ایک سنت کے مطابق داڑھی رکھنے کا اور دوسرا کفار کی مخالفت کا۔اگر ہم داڑھی رکھنے کو اصل قرار دیں تو اس سے حدیث کے دوسرے حکم یعنی کفار کی مخالفت پر از خود عمل ہوجاتا ہے جبکہ اگر بعض جہلاء کی طرح کفار کی مخالفت کو اصل قرار دیا جائے تو داڑھی رکھنے کے حکم سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے کیونکہ جب اصل مشرکین کی مخالفت ہے تو ان کے داڑھی رکھنے کی صورت میں ایک مسلمان کو داڑھی صاف کروانا پڑے گی ایسی صورت میں حدیث کے صرف ایک حکم پر عمل ممکن ہوسکے گا اسی سے اندازہ لگا یا جاسکتا ہے کہ پہلی بات زیادہ قرین قیاس اور اتباع کے قریب تر ہے کہ داڑھی کو بڑھایا جائے تاکہ کفار کی مخالفت ہوجائے ۔اس سے یہ نقطہ بھی برآمد ہوتا ہےکہ مشرکین کی مخالفت داڑھی بڑھانےکے ساتھ مشروط ہے۔ اگر کسی نے داڑھی نہیں بڑھائی تو مشرکین کی مخالفت نہیں ہوگی اور اس کے علاوہ یعنی داڑھی کٹوانا اور مونڈنا چاہے کم ہو یا زیادہ ان کی مشابہت ہے جو کہ اسلام میں حرام ہے کیونکہ جب مخالفت نہیں ہوگی تو پھر مشابہت ہوگی۔
متذکرہ صحیح مسلم کی حدیث کے حوالے سے راقم کے کان میں ایک انتہائی مضحکہ خیز اور جاہلانہ استدلال یہ پڑا کہ داڑھی بڑھانا یا رکھنا فرض یا واجب نہیں ہے اگر یہ واجب ہوتی تو داڑھی کے علاوہ یہ تمام نو کے نوافعال بھی فرض ہوتے جنھیں فطرت کہا گیا ہے جبکہ ہم جانتے ہیں ان میں سے کوئی بھی فعل فرض نہیں ہے لہٰذا ثابت ہوا کہ داڑھی بھی فرض یا واجب نہیں ہے۔ اس کے جواب میں راقم یہ عرض کرے گا کہ کسی چیز یا فعل کا فطرت میں داخل ہونا اسے فرض نہیں بناتا بلکہ اس کے بارے میں اللہ کے رسول ﷺ کا حکم اسے دائرہ وجوب میں لاتا ہے ۔ یہ بات رسول اللہ ﷺ بھی بخوبی جانتے تھے اس لئے نبی کریم ﷺ نے مسواک جو کہ فطری امور میں شامل ہے کے بارے میں فرمایا کہ اگر مجھے امت کے مشقت میں مبتلا ہونے کا ڈر نہ ہوتا تو میں تمھیں ہر نماز کے ساتھ مسواک کا حکم دیتا ۔حدیث ملاحظہ ہو:
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لولا ان اشق على امتي لامرتهم بالسواك عند كل صلاة ’’اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ میں اپنی امت کو مشقت میں ڈال دوں گا تو میں انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کا حکم دیتا۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الطہارت،صحیح بخاری ، کتاب الجمعہ)
اس حدیث سے واضح اور یقینی ہے کہ اگر رسول اللہ ﷺ مسواک کے بارے میں ایسا حکم دے دیتے جیسا کہ ان کی خواہش تھی تو پھر ہر نماز کے ساتھ مسواک امت پر فرض ہوجاتی لیکن مسواک کرنا اس لئے فرض نہیں کہ شارع نے اس کا حکم نہیں دیا۔اب چونکہ کئی احادیث میں نبی کریم ﷺ نے صاف صاف داڑھی بڑھانے کا حکم فرمایا ہے اور کہیں اس بارے میں کوئی رعایت یا گنجائش نہیں دی تو یہ حکم داڑھی جو کہ فطری امور میں سے ایک امر ہے کے فرض اور واجب ہونے کی سب سے بڑی اور واضح دلیل ہے بلکہ دلیل قاطع ہے۔
اس حدیث اور اس سلسلے کی دیگر احادیث میں اہم نقطہ یہ ہے کہ کسی بھی حدیث میں نہ تو داڑھی رکھنے کا حکم دیا گیا ہے اور نہ ہی فطرت کے ضمن میں داڑھی رکھنا بیان کیا گیا ہےبلکہ ہر جگہ داڑھی بڑھانے کا حکم دیا گیا ہے اور فطرت بھی داڑھی بڑھانے کو قرار دیا گیا ہے ناکہ داڑھی رکھنے کو۔لہٰذا داڑھی بڑھانے کا صاف اور سیدھا مطلب ہوا کہ داڑھی نہ کاٹنا اورچونکہ داڑھی کاٹنا داڑھی بڑھانے کی خلاف ورزی ہے اس لئے داڑھی کاٹنے والا مسلمان نبی کریم ﷺ کی کھلی مخالفت کرکے خود کوہرگز متبع سنت نہیں کہلاوا سکتا اورنہ ہی اپنے اس غلط عمل کے لئے عبداللہ بن عمر اور ابوہریرہ جیسے صحابہ کے دامن میں پناہ نہیں لے سکتا ہےکیونکہ وہ عام حالات میں داڑھیاں نہیں کاٹتے تھے جبکہ آج کا مسلمان ہر جمعہ یا پندرہ دن میں داڑھی کٹوا لیتا ہے جبکہ حج اور عمرے کی نوبت یا تو اس کی زندگی میں آتی ہی نہیں یا پھر ایک یا دو مرتبہ ہی آتی ہے۔ لہٰذا ایسا مسلمان صحابہ کی اتباع بھی نہیں کرتا وگرنہ وہ صرف حج و عمرہ کے موقع پر اپنی داڑھی کٹواتا اور اسکے علاوہ داڑھی کو معاف رکھتابلکہ درحقیقت اس سلسلے میں وہ اپنے نفس کی پیروی کرتا ہے۔
دوسرا نظریہ:
’’یہ نظریہ دراصل پہلے نظریے کا ہی نتیجہ اور تکملہ ہے اور اس سے جڑا ہے جو کچھ یوں ہے کہ چونکہ مسلمانوں پر داڑھی کے معاملے میں کافروں کی مخالفت کو فرض قرار دیا گیا ہے اس لئے کسی بھی زمانے میں داڑھی رکھتے وقت اہل کفر کی داڑھیوں کی حالت کو دیکھا جائے گا اگر ان کی داڑھی چھوٹی ہے تو لمبی داڑھی رکھنا فرض ہوگا۔ اگر کسی زمانے میں کفار داڑھی مونڈتے ہیں تو اس زمانے میں مسلمانوں کے لئے برائے نام داڑھی رکھ لینا پس چہرے پر اس قدر بال کہ جسے عرف میں داڑھی کہا جاسکے حدیث کے حکم کی تعمیل کہلائے گا کیونکہ اصل چیز تو کافروں کی ضد تھی جسے ان کی مخالفت کے ذریعے پورا کرلیا گیا۔ اسی طرح اگر کسی زمانے میں کفار مناسب داڑھی رکھنے والے ہوں تو ان کے خلاف کرنے کے لئے مسلمانوں کوپنی داڑھی منڈوانا ہوگی تاکہ حدیث کے حکم’’ کفار کی مخالفت کرو‘‘پر عمل کیا جاسکے۔‘‘
داڑھی کی مخالفت کے حکم سے ایسا مطلب نکالنا عقل اور نقل دونوں کے خلاف ہے۔نبی کریم ﷺ نے اپنی امت کوہر ہر معاملے میں اہل کتاب کی مخالفت کا حکم دیا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر پاگل اور جاہل یہود و نصاریٰ سے مخالفت کے اپنے اپنے نظریات پیش کرنے لگے ۔ مثال کے طور پرجب تک طب نے ترقی نہیں کی تھی تب تک عیسائی ختنہ نہیں کرتے تھے اور ختنہ شدہ ہونا صرف اہل عرب یا مسلمانوں کی پہچان تھی ایسی صورت میں عیسائی اور مسلمان مردوں کے درمیان ایک بنیادی اور اہم امتیاز پایا جاتا تھاجو مشہور و معروف تھا لیکن موجودہ دور میں صورتحال مختلف ہوچکی ہے کہ عیسائیوں کی اکثریت طبی نقطہ نگاہ سے اب ختنہ کی قائل ہوچکی ہے عین ممکن ہے آگے جاکر عیسائیوں کا مسلمانوں سےیہ دیرینہ امتیاز ہی ختم ہوجائے اور ہر عیسائی ختنہ شدہ ہو ۔ تو کیا پھر عیسائیوں سے مخالفت کے حکم پر عمل کرنے کے لئے مسلمان ختنہ کروانا چھوڑ دیں گے؟ کیونکہ بدلے ہوئے حالات میں مخالفت کی یہی ایک صورت باقی رہ جاتی ہے کہ اگر عیسائی ختنہ شدہ ہوں تو مسلمان ختنہ کی اسلامی رسم سے دستبردار ہوجائیں تاکہ ان کے اور مسلمانوں کے درمیان مخالفت قائم رہے۔ یقیناً کوئی بھی اس حل سے اتفاق نہیں کرے گاکہ مخالفت کے چکر میں ہم اپنی صحیح اور فطری چیزوں کو چھوڑ دیں ،اس بنیاد پر کہ مخالف اپنی اصل سے ہٹ گیا ہے تو مسلمان بھی اپنی اصل سے ہٹ جائے تاکہ ان کی مخالفت کے حکم نبویﷺ پر عمل کیا جاسکے۔لہٰذامخالفت کے ضمن میں جب ختنہ والا حل ناقابل قبول ہے تو داڑھی والا نظریہ کس طرح قابل فہم ہوسکتا ہے کہ دونوں معاملات میں حکم ایک ہی ہے کہ ’’مخالفت کرو‘‘۔
راقم السطور کی ذاتی رائے یہ ہے کہ مخالفت والے احکامات کا تعلق اللہ کے رسول ﷺ کے مبارک دور سے ہےاس دور میں جو صورت مخالفت کی نکلتی تھی یعنی جسے نبی ﷺ نے اختیارفرمایا یا اس کاحکم دیا وہی صورت قیامت تک رہے گی ۔ اس لئے چاہے مشرکین و مجوس کی زمانے کے لحاظ سے داڑھی کی ہیت تبدیل بھی ہوتی رہے تو اس سے حکم نبوی ﷺ میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی اور خصوصاً اس لئے بھی کہ وحی کا سلسلہ منقطع ہوچکا ہے اس لئے نبی ﷺ نے جو حکم جس طرح دیا ہے اس پر قیامت تک اسی طرح عمل کیا جائے گا۔ البتہ اجتہادی مسائل کا معاملہ علیحدہ ہےلیکن داڑھی کے معاملے میں کفار کی مخالفت کا معاملہ اجتہادی نہیں بلکہ توفیقی ہےکیونکہ اس پر نص موجود ہے جس میں مخالفت کا طریقہ کار بھی واضح کیا گیا ہے۔اب جیسے عاشورہ کے روزے کے متعلق جب نبی ﷺ کو معلوم ہوا کہ یہ روزہ یہودی بھی رکھتے ہیں تو ان کی مخالفت کے لئے نبی ﷺ نے عاشورہ کے ساتھ ایک اور روزہ رکھنے کی خواہش کا اظہار فرمایاچناچہ اپنے نبی ہی کی اتباع میں مسلمان بھی عاشورہ کی نو تاریخ کو یہ مخالفت والا روزہ رکھتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی بدعقل یہ 9تاریخ کاروزہ رکھنے سے پہلے یہودیوں کی تحقیق شروع کردے کہ آیا آج کی تاریخ میں یہودی عاشورہ کا روزہ رکھتے ہیں یا نہیں کیونکہ ان عقل پرستوں کی نظر میں مخالفت کا روزہ اسی وقت مخالفت متصور ہوگا جب یہودی آج بھی اصل روزہ رکھنے کا اہتمام کرتے ہوں وگرنہ مخالفت کس بات کی؟ تو اس کی عقل پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے اس لئے کہ شریعت نے ہمیں ایسی کسی تحقیق کا یاا یسی مشقت میں پڑنےکا مکلف نہیں بنایا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ دین تبدیل ہوجاتے ہیں اس دین کے پیروکاروں کے مزاج اور حالات بدل جاتے ہیں بجز اسلام کے کہ اسلام تو آج بھی وہی ہے جو چودہ سو سال پہلے تھا لیکن اسلام کے پیروکار بدل گئے ہیں اکثر مسلمانوں نے اسلامی طریقوں کو چھوڑ دیا ہے یا تبدیل کردیا ہے یا پھر پرانے احکامات کی جگہ بدعات کی صورت میں اپنی مرضی کے نئے احکامات لے آئے ہیں یہ تو اس دین کے پیروکاروں کا حال ہے جبکہ ان کا دین قیامت تک تبدیل نہیں ہوگا لیکن یہود و نصاریٰ جنہوں نے اپنے ساتھ اپنے دین کو بھی بدل ڈالا ۔ بہت مشکل ہے کہ وہ آج بھی قبل اسلام کی دس عاشورہ کی اپنی مذہبی رسم کو ماضی ہی کی طرح نبھاتے آرہے ہوں۔قرین قیاس یہی ہے کہ یہودی آج یہ روزہ نہیں رکھتے ہوں گے یا ان کی اکثریت اسے ترک کرچکی ہوگی یا ہوسکتا ہے کہ وہ آئندہ اسے ترک کردیں۔ تو کیا اس سے مخالفت میں رکھا جانے والا نو تاریخ کا روزہ بے معنی ہوجائے گا؟ ہرگز نہیں! بلکہ روز قیامت تک یہ اضافی روزہ رکھنا یہودیوں کی مخالفت ہی رہے گا اور اس پر روزہ دار کو یہودیوں کی مخالفت کے اجر کے ساتھ اپنے نبی کی اتباع کا ثواب بھی ملے گا۔
اس معاملے کو ایک اور زاویے سے اس طرح سمجھیں کہ مجوس میں کچھ لوگ داڑھی مونڈنے والے بھی تھے ان میں سے دو افراد نبی کریم ﷺ کے سامنے بھی آئے تھے اس کے علاوہ ان میں چھوٹی داڑھی رکھنے والے بھی تھے ان افراد کو بھی اللہ کے رسول ﷺ نے دیکھاتھالیکن دونوں طرح کے مجوس کو دیکھ کر نبی ﷺ نے صرف ایک حکم دیا کہ مجوس کی مخالفت کرو اور داڑھی بڑھاؤ حالانکہ داڑھی منڈوں کی مخالفت تو چھوٹی داڑھی یاایک مشت داڑھی سے بھی ہوجاتی ہے اس کے لئے لمبی داڑھی کی حاجت نہیں۔ اس سے ایک بات تو سمجھ میں آجاتی ہے کہ نبی ﷺ کا حکم ایک ہے یعنی داڑھی بڑھاؤ اور اسی میں مجوس کی مخالفت ہے اب چاہے وہ داڑھی مونڈیں یا چھوٹی داڑھی رکھیں یا لمبی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔کیونکہ ہمیں اللہ کے رسول ﷺ نے صرف مخالفت کا حکم نہیں دیا بلکہ اس مخالفت کی صورت بھی بتائی ہے اس لئے وہ مخالفت اسی وقت درست تصور کی جائے گی جب اس سلسلے میں ہم نبی ﷺ کے حکم کردہ طریقے کو تسلیم کریں گے۔ اگر تو نبی ﷺ صرف اتنا فرماتے کہ داڑھی کے معاملے میں مجوس کی مخالفت کرو تب کسی کو اپنی من مرضی کا اختیار حاصل ہوسکتا تھا کہ وہ مخالفت سے پہلے مجوس کی داڑھی کا حال معلوم کرلیتا اور اگر وہ لمبی داڑھی والے ہوتے تو خود چھوٹی داڑھی رکھ کر ان کی مخالفت کرلیتا اور اگر وہ چھوٹی داڑھی رکھتے تو خود لمبی داڑھی رکھ کر یا داڑھی مونڈ کر مخالفت کے حکم پر عمل پیرا ہوجاتا لیکن حدیث میں مکمل وضاحت آجانے کے بعد اب کوئی اپنی مرضی نہیں کرسکتاچناچہ داڑھی کے متعلق یہ دوسرا نظریہ گوز شتر سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔
پس یہ قیمتی اصول یاد رکھنے کا ہے کہ کسی معاملے میں جس حد تک رسول اللہ ﷺ نے گنجائش دی ہو ،بس اسی حد تک اس گنجائش سے فائدہ اٹھایاجاسکتا ہے جبکہ شرعاً کسی معاملے میں گنجائش نہ نکلتی ہو تو وہاں خود ساختہ نظریات کے ذریعہ خود سے گنجائش پیدا نہیں کی جاسکتی۔ پس چونکہ داڑھی کے معاملے میں نبی ﷺ نے اپنی امت کی راہنمائی فرمادی ہے اور یہ بھی بتا دیا ہے کہ مجوس اور مشرکین کی مخالفت داڑھی کو بڑھا کر کرنی ہے اس لئے جہلاء حضرات کفار کی مخالفت کوفرض قرار دے کر اور اس کو اصل اصول بنا کر اس طرح کے گستاخانہ اور مضحکہ خیز نظریات کے ذریعہ امت کو گمراہ نہیں کرسکتے۔
قاری کے علم میں اضافہ کے لئے عرض ہے کہ ’’دوسرا نظریہ‘‘ کے عنوان کے تحت جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ فرضی باتیں نہیں بلکہ دنیائے اسلام میں بہت لوگ جن میں علماء بھی شامل ہیں ایسے ہیں جو اس پر عمل پیرا ہیں۔بطور نمونہ عرض ہے کہ مصر اور سوڈان کے اکثر علماء داڑھی منڈے ہیں اس کی وجہ ان کے نزدیک یہ ہے کہ چونکہ فی زمانہ اہل کتاب، مجوس، مشرکین وغیرہ کے علماء بھی داڑھی بردار ہیں جبکہ نبی ﷺ کا حکم ان کے بارےمیں مخالفت کا ہےنیز مسلمان دہشت گردوں اور خوارج نے بھی داڑھیاں رکھی ہوئی ہیں اس لئے حدیث کے مطابق ان کی مخالفت اور ان سے امتیاز کے لئے داڑھی نہ رکھناہی شریعت پر عمل ہےاور فی زمانہ اس کی ضرورت اس لئے بھی بڑھ جاتی ہے کہ داڑھی رکھنے سے مبادا انہیں بھی دہشت گرد یاخارجی نہ سمجھ لیا جائے۔ان عقل وخرد سے عاری اور تفقہ دین سے کورے نام نہاد اہل علم کو کوئی یہ بتادے کہ خارجی فتنے کے عروج کا وقت خیرالقرون کا دور ہے جب صحابہ کرام کثیر تعداد میں موجود تھے۔ لیکن کسی ایک صحابی نے بھی ان ضال اور گمراہ فرقے سے امتیاز کے لئے اپنی داڑھی نہیں منڈوائی اب جبکہ خوارج زوال کا شکار اور کمزور ہیں تو ان سے الگ دکھنے کے لئےخوشی خوشی دینی شعار کی قربانی دے دینا اسلامی احکامات کے ساتھ کفر، ٹھٹھا اور مذاق ہے۔اصل میں تو یہ علماء داڑھی صاف کروا کر کفار کی موافقت کی شکل میں ان کی تقلید اور پیروی کررہے ہیں لیکن شرعی حکم کفار خصوصاً اہل کتاب کی مخالفت کرو کی غلط تاویل کرکے اسے ایک پردے اور آڑ کے طور پر استعمال کررہے ہیں تاکہ سادہ لوح مسلمان اس فریب اور دھوکے کا شکار ہوجائیں کہ یہ علماء داڑھیاں منڈوا کر بھی شریعت ہی کےایک اہم حکم کی بجاآوری کررہے ہیں۔ان نام نہاد علماء کا یہ عمل اس قدر واہیات اور گھٹیا ہے کہ اسے غلط ثابت کرنے کے لئے طویل مباحث میں پڑنے اور لمبے چوڑے دلائل دینے کی چنداں ضرورت نہیں کیونکہ ایک عام مسلمان کے پاس بھی اتنا دینی شعور اور علم تو ضرور ہی موجود ہے کہ وہ ان علماء کے فعل کے غلط ہونے کو اپنے واجبی علم کی روشنی میں جانچ سکیں اور ان کے دھوکے کو پہچان سکیں۔
سوشل میڈیا پر گردش کرتی ایک ویڈیو میں جب راقم نے ان برائے نام داڑھی رکھنے والے اور داڑھی منڈے مصری اور سوڈانی علماء کو دیکھا تو ان کے چہروں پر برستی پھٹکار کی وجہ سے انہیں آنکھ بھر کرنہ دیکھ سکا، سچ تو یہ ہے کہ دینی غیرت نے گوارا ہی نہیں کیا کہ ان قبیح ،بدصورت اور لعنتی شکلوں کو بغوردیکھا جائے۔ اگر داڑھی منڈے یہ لوگ اہل علم کے بجائے عام فاسق فاجر مسلمان ہوتے تو بھی ایک حد تک قابل قبول تھاکہ نظریں ایسے چہروں کو دیکھنے کی عادی ہوچکی ہیں لیکن ان کا تعلق اہل جبہ وقبہ و دستار سے ہونا یعنی ان کا علماء میں سے ہونا عام فاسقوں کی بنسبت ان کی پھٹکار میں بہت زیادہ اضافہ کررہا تھا جس کی وجہ سے یہ قابل دیدارہی نہیں تھے۔