- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
مصر کے ایک شیخ محمد احمد اسماعیل المقدم ہیں ، ان ہوں نے داڑھی کے موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے ’’اللحية لماذا ‘‘ یعنی ’’ داڑھی کس لیے ؟ ‘‘ اس کے صفحہ نمبر 19کے حاشیہ میں لکھتے ہیں :
ومما ينبغى التنبه إليه أن المشركين الموجودين فى زمن النبى - صلى الله عليه وسلم - كانوا ذوى لحى "انظر صحيح مسلم الحديث (1800) "، لأن العرب لم تترك زينة اللحى لا في الجاهلية ولا فى الإسلام، وقد أقرهم الإسلام عليها، ولعلهم توارثوها من دين إبراهيم عليه السلام، وكان الغربيون يعفون لحاهم إلى أن أشاع الملك بطرس ملك روسيا حلق اللحية فى أوربا فى أول القرن السابع عشر، ومنهم تسربت إلى المسلمين هده السنة السيئة فيما بعد. أما كيفية مخالفة المشركين مع إعفائهم لحاهم فى زمنه - صلى الله عليه وسلم - فبقص الشارب، وأخذ ما طال عن الشفة، أو بتوفير اللحى إذا كانوا يقصرونها، فالمخالفة هنا فى وصف الفعل، أما إذا حلقوا لحاهم، فنحن نخالفهم فى أصل الفعل بإعفاء اللحى.
یہ بات علم میں ہونی چاہیے کہ نبوی دور میں موجود مشرکین بھی داڑھیاں رکھا کرتے تھے جیساکہ صحیح مسلم کے اندر آیا ہے ، کیونکہ اہل عرب نے جاہلیت اور اسلام دونوں میں داڑھی جیسی خوبصورتی کو اختیار کیا ، اسلام نے بھی اسی بات کو برقرار رکھا ، اور شاید یہ ملت ابراہیمی سے منقول شعار ہے ۔ اہل مغرب بھی داڑھیاں رکھا کرتے تھے ، لیکن 17 صدی کی ابتدا میں روس کے بادشاہ بطرس کے زمانے میں یورپ کے اندر داڑھیاں منڈوانے والی وبا پھیلائی گئی ، اور اسی سے یہ خصلت ذمیمہ مسلمانوں میں منتقل ہوگئی ۔
جب مشرکین بھی داڑھی رکھتے تھے تو ان کی مخالفت مونچھیں منڈوانے سے ہوجاتی ہے ، یا اگر وہ داڑھیاں چھوٹی کرتے تھے تو مسلمانوں کے داڑھیاں بڑھانے سے ہوجاتی ہے ، سو یہاں مخالفت داڑھی رکھنے کے انداز میں ہوگی ۔۔۔
ومما ينبغى التنبه إليه أن المشركين الموجودين فى زمن النبى - صلى الله عليه وسلم - كانوا ذوى لحى "انظر صحيح مسلم الحديث (1800) "، لأن العرب لم تترك زينة اللحى لا في الجاهلية ولا فى الإسلام، وقد أقرهم الإسلام عليها، ولعلهم توارثوها من دين إبراهيم عليه السلام، وكان الغربيون يعفون لحاهم إلى أن أشاع الملك بطرس ملك روسيا حلق اللحية فى أوربا فى أول القرن السابع عشر، ومنهم تسربت إلى المسلمين هده السنة السيئة فيما بعد. أما كيفية مخالفة المشركين مع إعفائهم لحاهم فى زمنه - صلى الله عليه وسلم - فبقص الشارب، وأخذ ما طال عن الشفة، أو بتوفير اللحى إذا كانوا يقصرونها، فالمخالفة هنا فى وصف الفعل، أما إذا حلقوا لحاهم، فنحن نخالفهم فى أصل الفعل بإعفاء اللحى.
یہ بات علم میں ہونی چاہیے کہ نبوی دور میں موجود مشرکین بھی داڑھیاں رکھا کرتے تھے جیساکہ صحیح مسلم کے اندر آیا ہے ، کیونکہ اہل عرب نے جاہلیت اور اسلام دونوں میں داڑھی جیسی خوبصورتی کو اختیار کیا ، اسلام نے بھی اسی بات کو برقرار رکھا ، اور شاید یہ ملت ابراہیمی سے منقول شعار ہے ۔ اہل مغرب بھی داڑھیاں رکھا کرتے تھے ، لیکن 17 صدی کی ابتدا میں روس کے بادشاہ بطرس کے زمانے میں یورپ کے اندر داڑھیاں منڈوانے والی وبا پھیلائی گئی ، اور اسی سے یہ خصلت ذمیمہ مسلمانوں میں منتقل ہوگئی ۔
جب مشرکین بھی داڑھی رکھتے تھے تو ان کی مخالفت مونچھیں منڈوانے سے ہوجاتی ہے ، یا اگر وہ داڑھیاں چھوٹی کرتے تھے تو مسلمانوں کے داڑھیاں بڑھانے سے ہوجاتی ہے ، سو یہاں مخالفت داڑھی رکھنے کے انداز میں ہوگی ۔۔۔