• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دجال مدینہ کے مشرق میں کسی جزیرے میں قید ہے کیا یہ حدیث صحیح ہے

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
@اسحاق سلفی بھائی بات کہاں سے کہاں نکل گئی - آئیں ٹاپک پر آتے ہیں -

میں نے آپ سے

حاكم المطيري کی تحقیق جو اس
کتاب میں ہے
٢٠٠٩ چھپی ہے جس میں اس روایت کو معلول کہا گیا ہے اس میں اس کے تمام طرق جمع کیے گئے ہیں

اس پر سوال کیا تھا - آپ نے جواب دیا کہ
حاکم المطیری بے چارہ کیا چیز ہے محض ایک دکتورہ کا حامل پروفیسر ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہی سوال فضيلة الشيخ محمد بن صالح العثيمين سے بھی ہوا- اب ان کا جواب بھی پڑھ لیں -

سئل فضيلة الشيخ: ذكرتم في الفتوى السابقة رقم “147”: أن الدجال غير موجود الآن، وهذا الكلام ظاهره يتعارض مع حديث فاطمة بنت قيس في الصحيح، عن قصة تميم الداري، فنرجو من فضيلتكم التكرم بتوضيح ذلك؟ .
فأجاب بقوله: ذكرنا هذا مستدلين بما ثبت في الصحيحين، عن النبي – صلى الله عليه وآله وسلم -، قال: «إنه على رأس مائة سنة لا يبقى على وجه الأرض ممن هو عليها اليوم أحد» .
فإذا طبقنا هذا الحديث على حديث تميم الداري صار معارضا له؛ لأن ظاهر حديث تميم الداري أن هذا الدجال يبقى حتى يخرج، فيكون معارضا لهذا الحديث الثابت في الصحيحين، وأيضا فإن سياق حديث تميم الداري في ذكر الجساسة في نفسي منه شيء، هل هو من تعبير الرسول – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أو لا


شیخ محمد بن صالح العثيمين سے سوال ہوا : اپ نے ذکر کیا کہ دجال ابھی موجود نہیں ہے اور اپ کا کلام حدیث فاطمہ بنت قیس سے معارض ہے جو صحیح میں ہے روایت کیا ہے قصہ تمیم الداری کا پس ہم اپ کی توضیح اس پر چاہتے ہیں

پس شیخ نے جواب دیا : ہم نے ذکر کیا جو دلیل کرتا ہے صحیح میں ثابت قول ہے نبی صلی الله علیہ وسلم سے کہ ١٠٠ سال کے پورا ہونے پر زمین پر کوئی زندہ نہ رہے گا – پس جب اس حدیث کو تمیم داری کی حدیث پر رکھتے ہیں تو یہ اس سے متعارض ہے جو صحیحین میں ثابت ہے اور ساتھ ہی اس حدیث میں جاسوس کا ذکر ہے جس سے دل میں چیز ہے کہ یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تعبیر تھی بھی یا نہیں



دوسری طرف


[SIZE=6]@محمد عامر یونس[/SIZE] بھائی
شیخ محمد صالح المنجد کا فتویٰ لکھ رہے ہیں -

کیا خضر علیہ السلام ابھی تک دنیا میں زندہ ہیں!

کیا خضرعلیہ السلام دنیا میں آج تک زندہ ہیں ، اورکیا وہ قیامت تک زندہ ہی رہيں گے ؟

الحمد للہ

شیخ شنقیطی رحمہ اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں :
خضر علیہ السلام کے بارہ میں صالحین کی حکایات کا شمار نہیں ، اوران کا یہ دعوی کہ الیاس اورخضر علیہ السلام ہرسال حج کرتے ہیں ، اوران سے بعض دعائيں بھی روایت کی جاتی ہیں یہ سب کچھ معروف ہے ، اس کے قائلین کی سب سندیں بہت ہی زيادہ ضعیف ہیں ۔
اس لیے کہ ان میں غالب طورپران لوگوں سے حکایات ہیں جن کے بارہ میں گمان ہے کہ وہ صالح قسم کے لوگ تھے ، اوریا پھر وہ خوابوں کے قصے ہیں ، اورانس رضي اللہ تعالی عنہ وغیرہ سے کچھ مرفوع احادیث بھی ہيں جو سب کی سب ضعیف ہیں اورپایہ ثبوت نہیں پہنچتیں اور نہ ہی ان سے حجت قائم ہوسکتی ہے ۔
اس مسئلہ میں دلائل کے ساتھ جوبات مجھے راجح معلوم ہوئ ہے کہ خضر علیہ السلام زندہ نہیں بلکہ وفات پاچکے ہیں ، اس کے کئ ایک دلائل ہيں جن میں سے چند ایک ذکر کیا جاتا ہے :


پہلی دلیل :
اللہ تبارک وتعالی کے اس فرمان کا ظاہر :
{ آپ سے قبل ہم نے کسی انسان کوبھی ہیشگی نہیں دی ، کیا اگرآپ فوت ہوگۓ تووہ ہمیشہ کے لیے رہ جائيں گے } الانبیاء ( 34 ) ۔

دوسری دلیل :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( اے اللہ اگر تواہل اسلام کی اس چھوٹی سی جماعت کوہلاک کردے گا توزمین میں تیری عبادت نہیں ہوگي ) صحیح مسلم ۔

تیسری دلیل :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ زمین پرجو بھی آج کی رات موجود ہے وہ سوبرس بعد باقی نہیں رہے گا ۔

توبالفرض اگر اس وقت خضر علیہ السلام زندہ بھی تھے تواس سوبرس سے زيادہ زندہ نہیں رہے ۔

امام مسلم رحمہ اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ عبداللہ بن عمررضي اللہ تعالی عنہما نے بیان کیا کہ :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں ایک رات ہمیں عشاء کی نماز پڑھائ‏ اورسلام پھیرنے کے بعد فرمانے لگے :
تم اپنی آج کی اس رات کویاد رکھو ، بلاشبہ جوبھی آج روۓ زمین پرموجود ہے وہ سوبرس بعد اس زمین پر باقی نہیں رہے گا ۔
عبداللہ بن عمررضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ لوگوں کونبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کلمہ کوسمجھنے میں غلطی لگ گئ جس میں وہ اس سوبرس کے متعلق باتیں کرنے لگے ہیں ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تویہ فرمایا کہ جوآج اس زمین پرزندہ ہے وہ سوبرس بعد زندہ نہیں رہے گا ، اس سے مراد تویہ تھا کہ وہ صحابہ کادورگزر جاۓ گا ۔۔۔ ۔


چوتھی دلیل :

اگرخضرعلیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےزمانے تک زندہ ہوتے توپھروہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے والوں میں ہوتے اوران کی مدد وتعاون کرتے اوران کے ساتھ مل کر جھاد وقتال کرتے اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب جن وانس کی طرف مبعوث کیے گۓ ہیں ۔
واللہ اعلم .


دیکھیں اضواء البیان للشنقیطی رحمہ اللہ ( 4 / 178- 183 ) ۔


اب جن دلائل کی بنیاد پر کہا جا رہا ہے کہ خضر فوت ہوئے کیا انہی کی بنیاد پر حدیث جساسہ کو قبول کیا جا سکتا ہے

کیا شیخ محمد صالح المنجد کے فتویٰ کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ خضر علیہ السلام زندہ ہیں -

لیکن

اب ایک حدیث جو صحیح مسلم میں موجود ہے - اس میں ابو اسحاق إبراهيم بن سفيان جو صحیح مسلم کے ایک راوی ہیں ان کے مطابق خضر زندہ ہیں اور دجال جس شخص کو قتل نہ کر سکے گا وہ خضر ہوں گے


دجال کے وصف اور اس مدینہ کی حرمت اور اس کا مومن کو قتل اور زندہ کرنے کے بیان میں

راوی: عمرو ناقد حسن حلوانی عبد بن حمید عبد یعقوب ابن ابراہیم بن سعد ابوصالح ابن شہاب عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ ابوسعید خدری

حَدَّثَنِي عَمْرٌو النَّاقِدُ وَالْحَسَنُ الْحُلْوَانِيُّ وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ وَأَلْفَاظُهُمْ مُتَقَارِبَةٌ وَالسِّيَاقُ لِعَبْدٍ قَالَ حَدَّثَنِي و قَالَ الْآخَرَانِ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ وَهُوَ ابْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ صَالِحٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ قَالَ حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا حَدِيثًا طَوِيلًا عَنْ الدَّجَّالِ فَکَانَ فِيمَا حَدَّثَنَا قَالَ يَأْتِي وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْهِ أَنْ يَدْخُلَ نِقَابَ الْمَدِينَةِ فَيَنْتَهِي إِلَی بَعْضِ السِّبَاخِ الَّتِي تَلِي الْمَدِينَةَ فَيَخْرُجُ إِلَيْهِ يَوْمَئِذٍ رَجُلٌ هُوَ خَيْرُ النَّاسِ أَوْ مِنْ خَيْرِ النَّاسِ فَيَقُولُ لَهُ أَشْهَدُ أَنَّکَ الدَّجَّالُ الَّذِي حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثَهُ فَيَقُولُ الدَّجَّالُ أَرَأَيْتُمْ إِنْ قَتَلْتُ هَذَا ثُمَّ أَحْيَيْتُهُ أَتَشُکُّونَ فِي الْأَمْرِ فَيَقُولُونَ لَا قَالَ فَيَقْتُلُهُ ثُمَّ يُحْيِيهِ فَيَقُولُ حِينَ يُحْيِيهِ وَاللَّهِ مَا کُنْتُ فِيکَ قَطُّ أَشَدَّ بَصِيرَةً مِنِّي الْآنَ قَالَ فَيُرِيدُ الدَّجَّالُ أَنْ يَقْتُلَهُ فَلَا يُسَلَّطُ عَلَيْهِ
قَالَ أَبُو إِسْحَقَ يُقَالُ إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ هُوَ الْخَضِرُ عَلَيْهِ السَّلَام


عمرو ناقد حسن حلوانی عبد بن حمید عبد یعقوب ابن ابراہیم بن سعد ابوصالح ابن شہاب عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ایک دن ہم سے دجال کے متعلق ایک لمبی حدیث بیان کی اسی حدیث کے درمیان ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ وہ آئے گا لیکن مدینہ کی گھاٹیوں میں داخل ہونا اس پر حرام ہوگا وہ مدینہ کے قریب بعض بنجر زمینوں تک پہنچے گا پس ایک دن اس کی طرف ایک ایسا آدمی نکلے گا جو لوگوں میں سے سب سے افضل یا افضل لوگوں میں سے ہوگا وہ بزرگ اس سے کہے گا میں گواہی دیتا ہوں کہ تو وہی دجال ہے جس کے بارے میں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث بیان کی تھی تو دجال کہے گا اگر میں اس آدمی کو قتل کر دوں اور پھر اسے زندہ کروں تو تمہاری کیا رائے ہے پھر بھی تم میرے معاملہ میں شک کرو گے وہ کہیں گے نہیں تو وہ اسے قتل کرے گا پھر اسے زندہ کرے گا تو وہ آدمی کہے گا جب اسے زندہ کیا جائے گا اللہ کی قسم مجھے تیرے بارے میں اب جتنی بصیرت ہے اتنی پہلے نہ تھی پھر دجال اسے دوبارہ قتل کرنے کا ارادہ کرے گا لیکن اس پر قادر نہ ہوگا

ابواسحاق نے کہا، کہا جاتا ہے کہ وہ آدمی حضرت خضر علیہ السلام ہوں گے۔


اب @ابن داوود بھائی اصل حقیقت کیا ہے - آپ کا جواب یہی ہو گا -

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مجھے یہ گمان کیوں ہوتا کہ @وجاہت صاحب نور اللہ شوستری کی روحانی اولاد میں سے ہیں!
اب ایک بات اور بھی تحقیق کر لیں یہی حدیث جو صحیح مسلم کی میں نے اوپر پیش کی ہے یہ آپ کے محدث فورم کے احادیث کے سافٹ ویئر میں موجود ہے - لیکن وہاں اس کی عربی نہیں -
لنک

http://mohaddis.com/View/Muslim/7375

اب اس حدیث میں عربی کے یہ الفاظ

قَالَ أَبُو إِسْحَقَ يُقَالُ إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ هُوَ الْخَضِرُ عَلَيْهِ السَّلَام

کہاں ہیں

talaq yafta.png

اور موسۃ القرآن والحدیث ابن منیر سوفٹ وئیر ورژن 3.4.2.2a میں اس کا الٹ کیا گیا - وہاں عربی موجود ہے لیکن اس کا ترجمہ نہیں

لنک

http://islamicurdubooks.com/Sahih-Muslim/Sahih-Muslim-.php?hadith_number=7375

اب اس حدیث میں اردو ترجمہ

ابواسحاق نے کہا، کہا جاتا ہے کہ وہ آدمی حضرت خضر علیہ السلام ہوں گے۔

کہاں ہے

789.png

لیکن میں آپ کی طرح کسی پر تقیہ کا الزام نہیں لگاؤں گا - لیکن میرے بھائی بندے کو دوسروں کی طرف انگلی ٹھانے سے پہلے یہ سوچنا چاہیے کہ اگر ایک انگلی دوسرے کی طرف اشارہ کر رہی ہے تو تین اپنی طرف بھی اشارہ کر رہی ہوتی ہیں -


 
Last edited:

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

مجھے تو یہ وجاہت صاحب
Lovelly all times
کا ہی کوئی ورژن لگتے ہیں.....

میرا رب اللہ ہے.
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
متفق تماما
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
کسی کو بلا تحقیق ”رافضی یا ناصبی “ نہ کہا جائے ۔اگر کوئی شخص ایمانداری سے بتاتا ہے کہ وہ ”رافضی یا ناصبی “ نہیں ہے تو اس کی بات کا اعتبار کیا جانا چاہیے۔شخصیات کی بجائے ”نظریات “ کو نشانۂ تنقید بنا یا جائے تو بہتر ہے۔
مجھے یہ گمان کیوں ہوتا کہ @وجاہت صاحب نور اللہ شوستری کی روحانی اولاد میں سے ہیں!
یہ الفاظ اہل ِ علم حضرات کو قطعاً زیب نہیں دیتے ۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اب @ابن داوود بھائی اصل حقیقت کیا ہے - آپ کا جواب یہی ہو گا -
میرا جواب کیا ہوگا، اس پر تخیلاتی گھوڑے نہ دوڑائیں، یہ ہوگا یا وہ ہوگا کو چھوڑئیے!
الحمدللہ! اللہ کی توفیق سے میں اپنے علم سے آگے بڑھ کر کسی معاملہ میں اٹکل کے گھوڑے دوڑانے سے گزیز کرتا ہوں، اور جب کسی معاملہ میں کچھ بیان کرتا ہوں، تو اسے اچھی طرح سمجھ لینے کے بعد!
اور میں ان اشکالات کو جو حدیث کی فہم سے متعلق مجھے لاحق ہوتے ہیں، انہیں شیوخ سے سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں، نہ کہ ان اشکالات میں دیگر کو بھی مبتلا کروں!
ابواسحاق نے کہا، کہا جاتا ہے کہ وہ آدمی حضرت خضر علیہ السلام ہوں گے۔
آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ مرفوع کا موقوف و مقطوع سے تقابل کرکے گمان کرتے ہو کہ آپ نے تضاد ثابت کردیا!
اور یہاں تو مجہول لوگوں کا قول ہے!
علم الحدیث کی بنیادی تعلیم ہی حاصل کرلیں!
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم وعلیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
لیکن میں آپ کی طرح کسی پر تقیہ کا الزام نہیں لگاؤں گا - لیکن میرے بھائی بندے کو دوسروں کی طرف انگلی ٹھانے سے پہلے یہ سوچنا چاہیے کہ اگر ایک انگلی دوسرے کی طرف اشارہ کر رہی ہے تو تین اپنی طرف بھی اشارہ کر رہی ہوتی ہیں -
صارفین کے مراسلے ان پر گواہ ہیں!
آپ کے مراسلے آپ پر گواہ ہیں!
میرے مراسلے مجھ پر گواہ ہیں!
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
@ وجاہت ابواسحاق نے کہا، کہا جاتا ہے کہ وہ آدمی حضرت خضر علیہ السلام ہوں گے۔
اور ویسے بھی یہ حدیث کا حصہ نہیں ہے بلکہ ابواسحاق کا قول ہے اور انہوں نے بھی مجہول سے "کہا جاتا ہے" کہا ہے ۔ حدیث کا مرفوع حصہ یہاں ختم ہوتا ہے ۔
‏‏‏‏‏‏فلا يسلط عليه
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
اور ویسے بھی یہ حدیث کا حصہ نہیں ہے بلکہ ابواسحاق کا قول ہے اور انہوں نے بھی مجہول سے "کہا جاتا ہے" کہا ہے ۔ حدیث کا مرفوع حصہ یہاں ختم ہوتا ہے ۔
میری پاس صحیح مسلم کے عربی میں بغیر ترجمہ کے تین نسخے ۔۔ اوراردو ترجمہ کے ساتھ تین مختلف اداروں کی مطبوعہ موجود ہے
اردو ترجمہ کے تینوں نسخوں میں یہ بات نہیں ۔
ایک نسخہ مکتبہ رحمانیہ لاہور کا دیوبندی ترجمہ کے ساتھ ہے، اس میں بھی ابواسحاق کا خضر علیہ السلام والا قول موجود نہیں ،
دوسرا نسخہ دارالسلام کا پانچ جلدوں میں ہے اس میں بھی یہ جناب خضر والی بات نہیں ،
اور تیسرا نسخہ علامہ وحید الزمان کے ترجمہ کے ساتھ نعمانی کتب خانہ کا شائع کردہ ہے اس میں یہ بات نہیں ،

اگر وقت ملا تو ۔ان شاء اللہ۔ کل عربی کے تینوں نسخ دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں،
 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
السلام علیکم وعلیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

صارفین کے مراسلے ان پر گواہ ہیں!
آپ کے مراسلے آپ پر گواہ ہیں!
میرے مراسلے مجھ پر گواہ ہیں!
سب سے بڑا گواہ ہمارا الله ہے
 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

میرا جواب کیا ہوگا، اس پر تخیلاتی گھوڑے نہ دوڑائیں، یہ ہوگا یا وہ ہوگا کو چھوڑئیے!
الحمدللہ! اللہ کی توفیق سے میں اپنے علم سے آگے بڑھ کر کسی معاملہ میں اٹکل کے گھوڑے دوڑانے سے گزیز کرتا ہوں، اور جب کسی معاملہ میں کچھ بیان کرتا ہوں، تو اسے اچھی طرح سمجھ لینے کے بعد!
اور میں ان اشکالات کو جو حدیث کی فہم سے متعلق مجھے لاحق ہوتے ہیں، انہیں شیوخ سے سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں، نہ کہ ان اشکالات میں دیگر کو بھی مبتلا کروں!

آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ مرفوع کا موقوف و مقطوع سے تقابل کرکے گمان کرتے ہو کہ آپ نے تضاد ثابت کردیا!
اور یہاں تو مجہول لوگوں کا قول ہے!
علم الحدیث کی بنیادی تعلیم ہی حاصل کرلیں!
یہاں کیا جواب ہو گا آپ کا ؟؟؟؟؟


سوال فضيلة الشيخ محمد بن صالح العثيمين سے ہوا-

سئل فضيلة الشيخ: ذكرتم في الفتوى السابقة رقم “147”: أن الدجال غير موجود الآن، وهذا الكلام ظاهره يتعارض مع حديث فاطمة بنت قيس في الصحيح، عن قصة تميم الداري، فنرجو من فضيلتكم التكرم بتوضيح ذلك؟ .
فأجاب بقوله: ذكرنا هذا مستدلين بما ثبت في الصحيحين، عن النبي – صلى الله عليه وآله وسلم -، قال: «إنه على رأس مائة سنة لا يبقى على وجه الأرض ممن هو عليها اليوم أحد» .
فإذا طبقنا هذا الحديث على حديث تميم الداري صار معارضا له؛ لأن ظاهر حديث تميم الداري أن هذا الدجال يبقى حتى يخرج، فيكون معارضا لهذا الحديث الثابت في الصحيحين، وأيضا فإن سياق حديث تميم الداري في ذكر الجساسة في نفسي منه شيء، هل هو من تعبير الرسول – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أو لا


شیخ محمد بن صالح العثيمين سے سوال ہوا : اپ نے ذکر کیا کہ دجال ابھی موجود نہیں ہے اور اپ کا کلام حدیث فاطمہ بنت قیس سے معارض ہے جو صحیح میں ہے روایت کیا ہے قصہ تمیم الداری کا پس ہم اپ کی توضیح اس پر چاہتے ہیں

پس شیخ نے جواب دیا : ہم نے ذکر کیا جو دلیل کرتا ہے صحیح میں ثابت قول ہے نبی صلی الله علیہ وسلم سے کہ ١٠٠ سال کے پورا ہونے پر زمین پر کوئی زندہ نہ رہے گا – پس جب اس حدیث کو تمیم داری کی حدیث پر رکھتے ہیں تو یہ اس سے متعارض ہے جو صحیحین میں ثابت ہے اور ساتھ ہی اس حدیث میں جاسوس کا ذکر ہے جس سے دل میں چیز ہے کہ یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تعبیر تھی بھی یا نہیں



دوسری طرف


@محمد عامر یونس بھائی
شیخ محمد صالح المنجد کا فتویٰ لکھ رہے ہیں -

کیا خضر علیہ السلام ابھی تک دنیا میں زندہ ہیں!

کیا خضرعلیہ السلام دنیا میں آج تک زندہ ہیں ، اورکیا وہ قیامت تک زندہ ہی رہيں گے ؟

الحمد للہ

شیخ شنقیطی رحمہ اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں :
خضر علیہ السلام کے بارہ میں صالحین کی حکایات کا شمار نہیں ، اوران کا یہ دعوی کہ الیاس اورخضر علیہ السلام ہرسال حج کرتے ہیں ، اوران سے بعض دعائيں بھی روایت کی جاتی ہیں یہ سب کچھ معروف ہے ، اس کے قائلین کی سب سندیں بہت ہی زيادہ ضعیف ہیں ۔
اس لیے کہ ان میں غالب طورپران لوگوں سے حکایات ہیں جن کے بارہ میں گمان ہے کہ وہ صالح قسم کے لوگ تھے ، اوریا پھر وہ خوابوں کے قصے ہیں ، اورانس رضي اللہ تعالی عنہ وغیرہ سے کچھ مرفوع احادیث بھی ہيں جو سب کی سب ضعیف ہیں اورپایہ ثبوت نہیں پہنچتیں اور نہ ہی ان سے حجت قائم ہوسکتی ہے ۔
اس مسئلہ میں دلائل کے ساتھ جوبات مجھے راجح معلوم ہوئ ہے کہ خضر علیہ السلام زندہ نہیں بلکہ وفات پاچکے ہیں ، اس کے کئ ایک دلائل ہيں جن میں سے چند ایک ذکر کیا جاتا ہے :


پہلی دلیل :
اللہ تبارک وتعالی کے اس فرمان کا ظاہر :
{ آپ سے قبل ہم نے کسی انسان کوبھی ہیشگی نہیں دی ، کیا اگرآپ فوت ہوگۓ تووہ ہمیشہ کے لیے رہ جائيں گے } الانبیاء ( 34 ) ۔

دوسری دلیل :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( اے اللہ اگر تواہل اسلام کی اس چھوٹی سی جماعت کوہلاک کردے گا توزمین میں تیری عبادت نہیں ہوگي ) صحیح مسلم ۔

تیسری دلیل :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ زمین پرجو بھی آج کی رات موجود ہے وہ سوبرس بعد باقی نہیں رہے گا ۔

توبالفرض اگر اس وقت خضر علیہ السلام زندہ بھی تھے تواس سوبرس سے زيادہ زندہ نہیں رہے ۔

امام مسلم رحمہ اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ عبداللہ بن عمررضي اللہ تعالی عنہما نے بیان کیا کہ :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں ایک رات ہمیں عشاء کی نماز پڑھائ‏ اورسلام پھیرنے کے بعد فرمانے لگے :
تم اپنی آج کی اس رات کویاد رکھو ، بلاشبہ جوبھی آج روۓ زمین پرموجود ہے وہ سوبرس بعد اس زمین پر باقی نہیں رہے گا ۔
عبداللہ بن عمررضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ لوگوں کونبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کلمہ کوسمجھنے میں غلطی لگ گئ جس میں وہ اس سوبرس کے متعلق باتیں کرنے لگے ہیں ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تویہ فرمایا کہ جوآج اس زمین پرزندہ ہے وہ سوبرس بعد زندہ نہیں رہے گا ، اس سے مراد تویہ تھا کہ وہ صحابہ کادورگزر جاۓ گا ۔۔۔ ۔


چوتھی دلیل :

اگرخضرعلیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےزمانے تک زندہ ہوتے توپھروہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے والوں میں ہوتے اوران کی مدد وتعاون کرتے اوران کے ساتھ مل کر جھاد وقتال کرتے اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب جن وانس کی طرف مبعوث کیے گۓ ہیں ۔
واللہ اعلم .


دیکھیں اضواء البیان للشنقیطی رحمہ اللہ ( 4 / 178- 183 ) ۔


اب جن دلائل کی بنیاد پر کہا جا رہا ہے کہ خضر فوت ہوئے کیا انہی کی بنیاد پر حدیث جساسہ کو قبول کیا جا سکتا ہے

کیا شیخ محمد صالح المنجد کے فتویٰ کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ خضر علیہ السلام زندہ ہیں -
 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
اور ویسے بھی یہ حدیث کا حصہ نہیں ہے بلکہ ابواسحاق کا قول ہے اور انہوں نے بھی مجہول سے "کہا جاتا ہے" کہا ہے ۔ حدیث کا مرفوع حصہ یہاں ختم ہوتا ہے ۔
‏‏‏‏‏‏فلا يسلط عليه

میری پاس صحیح مسلم کے عربی میں بغیر ترجمہ کے تین نسخے ۔۔ اوراردو ترجمہ کے ساتھ تین مختلف اداروں کی مطبوعہ موجود ہے
اردو ترجمہ کے تینوں نسخوں میں یہ بات نہیں ۔
ایک نسخہ مکتبہ رحمانیہ لاہور کا دیوبندی ترجمہ کے ساتھ ہے، اس میں بھی ابواسحاق کا خضر علیہ السلام والا قول موجود نہیں ،
دوسرا نسخہ دارالسلام کا پانچ جلدوں میں ہے اس میں بھی یہ جناب خضر والی بات نہیں ،
اور تیسرا نسخہ علامہ وحید الزمان کے ترجمہ کے ساتھ نعمانی کتب خانہ کا شائع کردہ ہے اس میں یہ بات نہیں ،

اگر وقت ملا تو ۔ان شاء اللہ۔ کل عربی کے تینوں نسخ دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں،

کوئی بات نہیں @اسحاق سلفی بھائی ابھی آپ کو مل جایے گی - یہاں دیکھ لیں -

یہاں بھی

لنک

http://islamport.com/k/mtn/1210/8679.htm

112 - (2938) حدثني عمرو الناقد، والحسن الحلواني، وعبد بن حميد - وألفاظهم متقاربة، والسياق لعبد، قال: حدثني، وقال الآخران: حدثنا - يعقوب وهو ابن إبراهيم بن سعد - حدثنا أبي، عن صالح، عن ابن شهاب، أخبرني عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، أن أبا سعيد الخدري، قال: حدثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما حديثا طويلا عن الدجال، فكان فيما حدثنا، قال: " §يأتي، وهو محرم عليه أن يدخل نقاب المدينة، فينتهي إلى بعض السباخ التي تلي المدينة، فيخرج إليه يومئذ رجل هو خير الناس - أو من خير الناس - فيقول له: أشهد أنك الدجال الذي حدثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم حديثه، فيقول الدجال: أرأيتم إن قتلت هذا، ثم أحييته، أتشكون في الأمر؟ فيقولون: لا، قال فيقتله ثم يحييه، فيقول حين يحييه: والله ما كنت فيك قط أشد بصيرة مني الآن - قال: فيريد الدجال - أن يقتله فلا يسلط عليه "، قال أبو إسحاق: «يقال إن هذا الرجل هو الخضر عليه السلام»،
__________


[شرح محمد فؤاد عبد الباقي]

[ ش (نقاب المدينة) أي طرقها وفجاجها وهو جمع نقب وهو الطريق بين جبلين (قال أبو إسحاق) أبو إسحاق هذا هو إبراهيم بن سفيان راوي الكتاب عن مسلم وكذا قال معمر في جامعه في إثر هذا الحديث كما ذكره ابن سفيان وهذا تصريح منه بحياة الخضر عليه السلام وهو الصحيح]


اس حدیث کے حاشیہ میں جو یہ لکھا ہوا ہے


ش (نقاب المدينة) أي طرقها وفجاجها وهو جمع نقب وهو الطريق بين جبلين (قال أبو إسحاق) أبو إسحاق هذا هو إبراهيم بن سفيان راوي الكتاب عن مسلم وكذا قال معمر في جامعه في إثر هذا الحديث كما ذكره ابن سفيان وهذا تصريح منه بحياة الخضر عليه السلام وهو الصحيح


قال ابو اسحاق، یہ ابو اسحاق ابراہیم بن سفیان ہیں مسلم کی کتاب کے راوی اور ایسا ہی معمر کا کہنا ہے اپنی جامع معمر میں اس حدیث کے اثر میں جیسا ابن سفیان نے ذکر کیا اور یہ ت صریح ہے خضر کی زندگی پر اور یہ صحیح ہے


يه الفاظ محقق محمد فؤاد عبد الباقي کے ہیں

الكتاب: المسند الصحيح المختصر بنقل العدل عن العدل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم

المؤلف: مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشيري النيسابوري (المتوفى: 261هـ)

المحقق: محمد فؤاد عبد الباقي

الناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت

عدد الأجزاء: 5

[ترقيم الكتاب موافق للمطبوع، وهو ضمن خدمة التخريج، ومتن مرتبط بشرح النووي والسيوطي]

بعض @ابن داود بھائی جیسے لوگ کہتے ہیں کہ ابو اسحاق نے مجہول لوگوں کا قول بیان کیا ہے لیکن امام مسلم جو ایک عالم تھے انہوں نے ان مجھول لوگوں کا قول نقل کر کے صحیح مسلم کو داغدار نہیں کر دیا اور ایک محدث اس قول کو نقل نہیں کر رہا ایسا ہی محدث معمر بن راشد نے اپنی کتاب جامع میں ذکر کیا ہے

قَالَ مَعْمَرٌ: «وَبَلَغَنِي أَنَّهُ يُجْعَلُ عَلَى حَلْقِهِ صَفِيحَةٌ مِنْ نُحَاسٍ، وَبَلَغَنِي أَنَّهُ الْخَضِرُ الَّذِي يَقْتُلُهُ الدَّجَّالُ ثُمَّ يُحْيِيهِ»

اور اسی قول کو بغوی نے نقل کیا ہے

علم الحدیث کی بنیادی تعلیم حاصل کرنے والے مختلف محدثین ابو اسحاق ، معمر بن راشد ، امام مسلم، بغوی، محمد فواد عبد الباقی وغیرہ اس روایت کے تحت اس جملے کو لکھے جا رہے ہیں اس کی شرح کو قبول کر رہے ہیں کہ یہ خضر ہوں گے کا کیا مطلب ہے ؟ ظاہر یہ قول درجہ قبولیت اختیار کر گیا تھا لہذا ان کو نام لے کر بتانے کی ضرورت نہیں تھی کہ ہم میں سے کون کون اس کا قائل ہے

جو علماء اس قول کے قائل ہیں کہ خضر علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں وہ ترجمہ کرتے وقت صحیح مسلم میں ان الفاظ کا ترجمہ نہیں کرتے - وجہ @ابن داود بھائی ہی بتا سکتے ہیں -


واضح رہے کہ راقم خود خضر علیہ السلام کی وفات کا قول قبول کرتا ہے-

اور اگر یہاں ترجمہ کی کوئی غلطی ہو تو امید ہے کہ @اسحاق سلفی بھائی اس کی تصحیح فرمائیں گے -
 
Top