وجاہت
رکن
- شمولیت
- مئی 03، 2016
- پیغامات
- 421
- ری ایکشن اسکور
- 44
- پوائنٹ
- 45
@اسحاق سلفی بھائی بات کہاں سے کہاں نکل گئی - آئیں ٹاپک پر آتے ہیں -
میں نے آپ سے
حاكم المطيري کی تحقیق جو اس
سئل فضيلة الشيخ: ذكرتم في الفتوى السابقة رقم “147”: أن الدجال غير موجود الآن، وهذا الكلام ظاهره يتعارض مع حديث فاطمة بنت قيس في الصحيح، عن قصة تميم الداري، فنرجو من فضيلتكم التكرم بتوضيح ذلك؟ .
فأجاب بقوله: ذكرنا هذا مستدلين بما ثبت في الصحيحين، عن النبي – صلى الله عليه وآله وسلم -، قال: «إنه على رأس مائة سنة لا يبقى على وجه الأرض ممن هو عليها اليوم أحد» .
فإذا طبقنا هذا الحديث على حديث تميم الداري صار معارضا له؛ لأن ظاهر حديث تميم الداري أن هذا الدجال يبقى حتى يخرج، فيكون معارضا لهذا الحديث الثابت في الصحيحين، وأيضا فإن سياق حديث تميم الداري في ذكر الجساسة في نفسي منه شيء، هل هو من تعبير الرسول – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أو لا
شیخ محمد بن صالح العثيمين سے سوال ہوا : اپ نے ذکر کیا کہ دجال ابھی موجود نہیں ہے اور اپ کا کلام حدیث فاطمہ بنت قیس سے معارض ہے جو صحیح میں ہے روایت کیا ہے قصہ تمیم الداری کا پس ہم اپ کی توضیح اس پر چاہتے ہیں
پس شیخ نے جواب دیا : ہم نے ذکر کیا جو دلیل کرتا ہے صحیح میں ثابت قول ہے نبی صلی الله علیہ وسلم سے کہ ١٠٠ سال کے پورا ہونے پر زمین پر کوئی زندہ نہ رہے گا – پس جب اس حدیث کو تمیم داری کی حدیث پر رکھتے ہیں تو یہ اس سے متعارض ہے جو صحیحین میں ثابت ہے اور ساتھ ہی اس حدیث میں جاسوس کا ذکر ہے جس سے دل میں چیز ہے کہ یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تعبیر تھی بھی یا نہیں
کیا شیخ محمد صالح المنجد کے فتویٰ کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ خضر علیہ السلام زندہ ہیں -
اب ایک حدیث جو صحیح مسلم میں موجود ہے - اس میں ابو اسحاق إبراهيم بن سفيان جو صحیح مسلم کے ایک راوی ہیں ان کے مطابق خضر زندہ ہیں اور دجال جس شخص کو قتل نہ کر سکے گا وہ خضر ہوں گے
دجال کے وصف اور اس مدینہ کی حرمت اور اس کا مومن کو قتل اور زندہ کرنے کے بیان میں
راوی: عمرو ناقد حسن حلوانی عبد بن حمید عبد یعقوب ابن ابراہیم بن سعد ابوصالح ابن شہاب عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ ابوسعید خدری
حَدَّثَنِي عَمْرٌو النَّاقِدُ وَالْحَسَنُ الْحُلْوَانِيُّ وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ وَأَلْفَاظُهُمْ مُتَقَارِبَةٌ وَالسِّيَاقُ لِعَبْدٍ قَالَ حَدَّثَنِي و قَالَ الْآخَرَانِ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ وَهُوَ ابْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ صَالِحٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ قَالَ حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا حَدِيثًا طَوِيلًا عَنْ الدَّجَّالِ فَکَانَ فِيمَا حَدَّثَنَا قَالَ يَأْتِي وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْهِ أَنْ يَدْخُلَ نِقَابَ الْمَدِينَةِ فَيَنْتَهِي إِلَی بَعْضِ السِّبَاخِ الَّتِي تَلِي الْمَدِينَةَ فَيَخْرُجُ إِلَيْهِ يَوْمَئِذٍ رَجُلٌ هُوَ خَيْرُ النَّاسِ أَوْ مِنْ خَيْرِ النَّاسِ فَيَقُولُ لَهُ أَشْهَدُ أَنَّکَ الدَّجَّالُ الَّذِي حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثَهُ فَيَقُولُ الدَّجَّالُ أَرَأَيْتُمْ إِنْ قَتَلْتُ هَذَا ثُمَّ أَحْيَيْتُهُ أَتَشُکُّونَ فِي الْأَمْرِ فَيَقُولُونَ لَا قَالَ فَيَقْتُلُهُ ثُمَّ يُحْيِيهِ فَيَقُولُ حِينَ يُحْيِيهِ وَاللَّهِ مَا کُنْتُ فِيکَ قَطُّ أَشَدَّ بَصِيرَةً مِنِّي الْآنَ قَالَ فَيُرِيدُ الدَّجَّالُ أَنْ يَقْتُلَهُ فَلَا يُسَلَّطُ عَلَيْهِ
قَالَ أَبُو إِسْحَقَ يُقَالُ إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ هُوَ الْخَضِرُ عَلَيْهِ السَّلَام
عمرو ناقد حسن حلوانی عبد بن حمید عبد یعقوب ابن ابراہیم بن سعد ابوصالح ابن شہاب عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ایک دن ہم سے دجال کے متعلق ایک لمبی حدیث بیان کی اسی حدیث کے درمیان ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ وہ آئے گا لیکن مدینہ کی گھاٹیوں میں داخل ہونا اس پر حرام ہوگا وہ مدینہ کے قریب بعض بنجر زمینوں تک پہنچے گا پس ایک دن اس کی طرف ایک ایسا آدمی نکلے گا جو لوگوں میں سے سب سے افضل یا افضل لوگوں میں سے ہوگا وہ بزرگ اس سے کہے گا میں گواہی دیتا ہوں کہ تو وہی دجال ہے جس کے بارے میں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث بیان کی تھی تو دجال کہے گا اگر میں اس آدمی کو قتل کر دوں اور پھر اسے زندہ کروں تو تمہاری کیا رائے ہے پھر بھی تم میرے معاملہ میں شک کرو گے وہ کہیں گے نہیں تو وہ اسے قتل کرے گا پھر اسے زندہ کرے گا تو وہ آدمی کہے گا جب اسے زندہ کیا جائے گا اللہ کی قسم مجھے تیرے بارے میں اب جتنی بصیرت ہے اتنی پہلے نہ تھی پھر دجال اسے دوبارہ قتل کرنے کا ارادہ کرے گا لیکن اس پر قادر نہ ہوگا
ابواسحاق نے کہا، کہا جاتا ہے کہ وہ آدمی حضرت خضر علیہ السلام ہوں گے۔
اب @ابن داوود بھائی اصل حقیقت کیا ہے - آپ کا جواب یہی ہو گا -
لیکن میں آپ کی طرح کسی پر تقیہ کا الزام نہیں لگاؤں گا - لیکن میرے بھائی بندے کو دوسروں کی طرف انگلی ٹھانے سے پہلے یہ سوچنا چاہیے کہ اگر ایک انگلی دوسرے کی طرف اشارہ کر رہی ہے تو تین اپنی طرف بھی اشارہ کر رہی ہوتی ہیں -
میں نے آپ سے
حاكم المطيري کی تحقیق جو اس
کتاب میں ہے
٢٠٠٩ چھپی ہے جس میں اس روایت کو معلول کہا گیا ہے اس میں اس کے تمام طرق جمع کیے گئے ہیں
اس پر سوال کیا تھا - آپ نے جواب دیا کہ
یہی سوال فضيلة الشيخ محمد بن صالح العثيمين سے بھی ہوا- اب ان کا جواب بھی پڑھ لیں -حاکم المطیری بے چارہ کیا چیز ہے محض ایک دکتورہ کا حامل پروفیسر ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سئل فضيلة الشيخ: ذكرتم في الفتوى السابقة رقم “147”: أن الدجال غير موجود الآن، وهذا الكلام ظاهره يتعارض مع حديث فاطمة بنت قيس في الصحيح، عن قصة تميم الداري، فنرجو من فضيلتكم التكرم بتوضيح ذلك؟ .
فأجاب بقوله: ذكرنا هذا مستدلين بما ثبت في الصحيحين، عن النبي – صلى الله عليه وآله وسلم -، قال: «إنه على رأس مائة سنة لا يبقى على وجه الأرض ممن هو عليها اليوم أحد» .
فإذا طبقنا هذا الحديث على حديث تميم الداري صار معارضا له؛ لأن ظاهر حديث تميم الداري أن هذا الدجال يبقى حتى يخرج، فيكون معارضا لهذا الحديث الثابت في الصحيحين، وأيضا فإن سياق حديث تميم الداري في ذكر الجساسة في نفسي منه شيء، هل هو من تعبير الرسول – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أو لا
شیخ محمد بن صالح العثيمين سے سوال ہوا : اپ نے ذکر کیا کہ دجال ابھی موجود نہیں ہے اور اپ کا کلام حدیث فاطمہ بنت قیس سے معارض ہے جو صحیح میں ہے روایت کیا ہے قصہ تمیم الداری کا پس ہم اپ کی توضیح اس پر چاہتے ہیں
پس شیخ نے جواب دیا : ہم نے ذکر کیا جو دلیل کرتا ہے صحیح میں ثابت قول ہے نبی صلی الله علیہ وسلم سے کہ ١٠٠ سال کے پورا ہونے پر زمین پر کوئی زندہ نہ رہے گا – پس جب اس حدیث کو تمیم داری کی حدیث پر رکھتے ہیں تو یہ اس سے متعارض ہے جو صحیحین میں ثابت ہے اور ساتھ ہی اس حدیث میں جاسوس کا ذکر ہے جس سے دل میں چیز ہے کہ یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تعبیر تھی بھی یا نہیں
یہاں
شیخ محمد صالح المنجد کا فتویٰ لکھ رہے ہیں -
کیا خضر علیہ السلام ابھی تک دنیا میں زندہ ہیں!
کیا خضرعلیہ السلام دنیا میں آج تک زندہ ہیں ، اورکیا وہ قیامت تک زندہ ہی رہيں گے ؟
الحمد للہ
شیخ شنقیطی رحمہ اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں :
خضر علیہ السلام کے بارہ میں صالحین کی حکایات کا شمار نہیں ، اوران کا یہ دعوی کہ الیاس اورخضر علیہ السلام ہرسال حج کرتے ہیں ، اوران سے بعض دعائيں بھی روایت کی جاتی ہیں یہ سب کچھ معروف ہے ، اس کے قائلین کی سب سندیں بہت ہی زيادہ ضعیف ہیں ۔
اس لیے کہ ان میں غالب طورپران لوگوں سے حکایات ہیں جن کے بارہ میں گمان ہے کہ وہ صالح قسم کے لوگ تھے ، اوریا پھر وہ خوابوں کے قصے ہیں ، اورانس رضي اللہ تعالی عنہ وغیرہ سے کچھ مرفوع احادیث بھی ہيں جو سب کی سب ضعیف ہیں اورپایہ ثبوت نہیں پہنچتیں اور نہ ہی ان سے حجت قائم ہوسکتی ہے ۔
اس مسئلہ میں دلائل کے ساتھ جوبات مجھے راجح معلوم ہوئ ہے کہ خضر علیہ السلام زندہ نہیں بلکہ وفات پاچکے ہیں ، اس کے کئ ایک دلائل ہيں جن میں سے چند ایک ذکر کیا جاتا ہے :
پہلی دلیل :
اللہ تبارک وتعالی کے اس فرمان کا ظاہر :
{ آپ سے قبل ہم نے کسی انسان کوبھی ہیشگی نہیں دی ، کیا اگرآپ فوت ہوگۓ تووہ ہمیشہ کے لیے رہ جائيں گے } الانبیاء ( 34 ) ۔
دوسری دلیل :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( اے اللہ اگر تواہل اسلام کی اس چھوٹی سی جماعت کوہلاک کردے گا توزمین میں تیری عبادت نہیں ہوگي ) صحیح مسلم ۔
تیسری دلیل :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ زمین پرجو بھی آج کی رات موجود ہے وہ سوبرس بعد باقی نہیں رہے گا ۔
توبالفرض اگر اس وقت خضر علیہ السلام زندہ بھی تھے تواس سوبرس سے زيادہ زندہ نہیں رہے ۔
امام مسلم رحمہ اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ عبداللہ بن عمررضي اللہ تعالی عنہما نے بیان کیا کہ :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں ایک رات ہمیں عشاء کی نماز پڑھائ اورسلام پھیرنے کے بعد فرمانے لگے :
تم اپنی آج کی اس رات کویاد رکھو ، بلاشبہ جوبھی آج روۓ زمین پرموجود ہے وہ سوبرس بعد اس زمین پر باقی نہیں رہے گا ۔
عبداللہ بن عمررضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ لوگوں کونبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کلمہ کوسمجھنے میں غلطی لگ گئ جس میں وہ اس سوبرس کے متعلق باتیں کرنے لگے ہیں ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تویہ فرمایا کہ جوآج اس زمین پرزندہ ہے وہ سوبرس بعد زندہ نہیں رہے گا ، اس سے مراد تویہ تھا کہ وہ صحابہ کادورگزر جاۓ گا ۔۔۔ ۔
چوتھی دلیل :
اگرخضرعلیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےزمانے تک زندہ ہوتے توپھروہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے والوں میں ہوتے اوران کی مدد وتعاون کرتے اوران کے ساتھ مل کر جھاد وقتال کرتے اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب جن وانس کی طرف مبعوث کیے گۓ ہیں ۔
واللہ اعلم .
دیکھیں اضواء البیان للشنقیطی رحمہ اللہ ( 4 / 178- 183 ) ۔
اب جن دلائل کی بنیاد پر کہا جا رہا ہے کہ خضر فوت ہوئے کیا انہی کی بنیاد پر حدیث جساسہ کو قبول کیا جا سکتا ہے
کیا خضر علیہ السلام ابھی تک دنیا میں زندہ ہیں!
کیا خضرعلیہ السلام دنیا میں آج تک زندہ ہیں ، اورکیا وہ قیامت تک زندہ ہی رہيں گے ؟
الحمد للہ
شیخ شنقیطی رحمہ اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں :
خضر علیہ السلام کے بارہ میں صالحین کی حکایات کا شمار نہیں ، اوران کا یہ دعوی کہ الیاس اورخضر علیہ السلام ہرسال حج کرتے ہیں ، اوران سے بعض دعائيں بھی روایت کی جاتی ہیں یہ سب کچھ معروف ہے ، اس کے قائلین کی سب سندیں بہت ہی زيادہ ضعیف ہیں ۔
اس لیے کہ ان میں غالب طورپران لوگوں سے حکایات ہیں جن کے بارہ میں گمان ہے کہ وہ صالح قسم کے لوگ تھے ، اوریا پھر وہ خوابوں کے قصے ہیں ، اورانس رضي اللہ تعالی عنہ وغیرہ سے کچھ مرفوع احادیث بھی ہيں جو سب کی سب ضعیف ہیں اورپایہ ثبوت نہیں پہنچتیں اور نہ ہی ان سے حجت قائم ہوسکتی ہے ۔
اس مسئلہ میں دلائل کے ساتھ جوبات مجھے راجح معلوم ہوئ ہے کہ خضر علیہ السلام زندہ نہیں بلکہ وفات پاچکے ہیں ، اس کے کئ ایک دلائل ہيں جن میں سے چند ایک ذکر کیا جاتا ہے :
پہلی دلیل :
اللہ تبارک وتعالی کے اس فرمان کا ظاہر :
{ آپ سے قبل ہم نے کسی انسان کوبھی ہیشگی نہیں دی ، کیا اگرآپ فوت ہوگۓ تووہ ہمیشہ کے لیے رہ جائيں گے } الانبیاء ( 34 ) ۔
دوسری دلیل :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( اے اللہ اگر تواہل اسلام کی اس چھوٹی سی جماعت کوہلاک کردے گا توزمین میں تیری عبادت نہیں ہوگي ) صحیح مسلم ۔
تیسری دلیل :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ زمین پرجو بھی آج کی رات موجود ہے وہ سوبرس بعد باقی نہیں رہے گا ۔
توبالفرض اگر اس وقت خضر علیہ السلام زندہ بھی تھے تواس سوبرس سے زيادہ زندہ نہیں رہے ۔
امام مسلم رحمہ اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ عبداللہ بن عمررضي اللہ تعالی عنہما نے بیان کیا کہ :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں ایک رات ہمیں عشاء کی نماز پڑھائ اورسلام پھیرنے کے بعد فرمانے لگے :
تم اپنی آج کی اس رات کویاد رکھو ، بلاشبہ جوبھی آج روۓ زمین پرموجود ہے وہ سوبرس بعد اس زمین پر باقی نہیں رہے گا ۔
عبداللہ بن عمررضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ لوگوں کونبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کلمہ کوسمجھنے میں غلطی لگ گئ جس میں وہ اس سوبرس کے متعلق باتیں کرنے لگے ہیں ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تویہ فرمایا کہ جوآج اس زمین پرزندہ ہے وہ سوبرس بعد زندہ نہیں رہے گا ، اس سے مراد تویہ تھا کہ وہ صحابہ کادورگزر جاۓ گا ۔۔۔ ۔
چوتھی دلیل :
اگرخضرعلیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےزمانے تک زندہ ہوتے توپھروہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے والوں میں ہوتے اوران کی مدد وتعاون کرتے اوران کے ساتھ مل کر جھاد وقتال کرتے اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب جن وانس کی طرف مبعوث کیے گۓ ہیں ۔
واللہ اعلم .
دیکھیں اضواء البیان للشنقیطی رحمہ اللہ ( 4 / 178- 183 ) ۔
اب جن دلائل کی بنیاد پر کہا جا رہا ہے کہ خضر فوت ہوئے کیا انہی کی بنیاد پر حدیث جساسہ کو قبول کیا جا سکتا ہے
کیا شیخ محمد صالح المنجد کے فتویٰ کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ خضر علیہ السلام زندہ ہیں -
لیکن
اب ایک حدیث جو صحیح مسلم میں موجود ہے - اس میں ابو اسحاق إبراهيم بن سفيان جو صحیح مسلم کے ایک راوی ہیں ان کے مطابق خضر زندہ ہیں اور دجال جس شخص کو قتل نہ کر سکے گا وہ خضر ہوں گے
دجال کے وصف اور اس مدینہ کی حرمت اور اس کا مومن کو قتل اور زندہ کرنے کے بیان میں
راوی: عمرو ناقد حسن حلوانی عبد بن حمید عبد یعقوب ابن ابراہیم بن سعد ابوصالح ابن شہاب عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ ابوسعید خدری
حَدَّثَنِي عَمْرٌو النَّاقِدُ وَالْحَسَنُ الْحُلْوَانِيُّ وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ وَأَلْفَاظُهُمْ مُتَقَارِبَةٌ وَالسِّيَاقُ لِعَبْدٍ قَالَ حَدَّثَنِي و قَالَ الْآخَرَانِ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ وَهُوَ ابْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ صَالِحٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ قَالَ حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا حَدِيثًا طَوِيلًا عَنْ الدَّجَّالِ فَکَانَ فِيمَا حَدَّثَنَا قَالَ يَأْتِي وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْهِ أَنْ يَدْخُلَ نِقَابَ الْمَدِينَةِ فَيَنْتَهِي إِلَی بَعْضِ السِّبَاخِ الَّتِي تَلِي الْمَدِينَةَ فَيَخْرُجُ إِلَيْهِ يَوْمَئِذٍ رَجُلٌ هُوَ خَيْرُ النَّاسِ أَوْ مِنْ خَيْرِ النَّاسِ فَيَقُولُ لَهُ أَشْهَدُ أَنَّکَ الدَّجَّالُ الَّذِي حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثَهُ فَيَقُولُ الدَّجَّالُ أَرَأَيْتُمْ إِنْ قَتَلْتُ هَذَا ثُمَّ أَحْيَيْتُهُ أَتَشُکُّونَ فِي الْأَمْرِ فَيَقُولُونَ لَا قَالَ فَيَقْتُلُهُ ثُمَّ يُحْيِيهِ فَيَقُولُ حِينَ يُحْيِيهِ وَاللَّهِ مَا کُنْتُ فِيکَ قَطُّ أَشَدَّ بَصِيرَةً مِنِّي الْآنَ قَالَ فَيُرِيدُ الدَّجَّالُ أَنْ يَقْتُلَهُ فَلَا يُسَلَّطُ عَلَيْهِ
قَالَ أَبُو إِسْحَقَ يُقَالُ إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ هُوَ الْخَضِرُ عَلَيْهِ السَّلَام
عمرو ناقد حسن حلوانی عبد بن حمید عبد یعقوب ابن ابراہیم بن سعد ابوصالح ابن شہاب عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ایک دن ہم سے دجال کے متعلق ایک لمبی حدیث بیان کی اسی حدیث کے درمیان ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ وہ آئے گا لیکن مدینہ کی گھاٹیوں میں داخل ہونا اس پر حرام ہوگا وہ مدینہ کے قریب بعض بنجر زمینوں تک پہنچے گا پس ایک دن اس کی طرف ایک ایسا آدمی نکلے گا جو لوگوں میں سے سب سے افضل یا افضل لوگوں میں سے ہوگا وہ بزرگ اس سے کہے گا میں گواہی دیتا ہوں کہ تو وہی دجال ہے جس کے بارے میں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث بیان کی تھی تو دجال کہے گا اگر میں اس آدمی کو قتل کر دوں اور پھر اسے زندہ کروں تو تمہاری کیا رائے ہے پھر بھی تم میرے معاملہ میں شک کرو گے وہ کہیں گے نہیں تو وہ اسے قتل کرے گا پھر اسے زندہ کرے گا تو وہ آدمی کہے گا جب اسے زندہ کیا جائے گا اللہ کی قسم مجھے تیرے بارے میں اب جتنی بصیرت ہے اتنی پہلے نہ تھی پھر دجال اسے دوبارہ قتل کرنے کا ارادہ کرے گا لیکن اس پر قادر نہ ہوگا
ابواسحاق نے کہا، کہا جاتا ہے کہ وہ آدمی حضرت خضر علیہ السلام ہوں گے۔
اب @ابن داوود بھائی اصل حقیقت کیا ہے - آپ کا جواب یہی ہو گا -
اب ایک بات اور بھی تحقیق کر لیں یہی حدیث جو صحیح مسلم کی میں نے اوپر پیش کی ہے یہ آپ کے محدث فورم کے احادیث کے سافٹ ویئر میں موجود ہے - لیکن وہاں اس کی عربی نہیں -السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مجھے یہ گمان کیوں ہوتا کہ @وجاہت صاحب نور اللہ شوستری کی روحانی اولاد میں سے ہیں!
لنک
http://mohaddis.com/View/Muslim/7375
اب اس حدیث میں عربی کے یہ الفاظ
قَالَ أَبُو إِسْحَقَ يُقَالُ إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ هُوَ الْخَضِرُ عَلَيْهِ السَّلَام
کہاں ہیں
اور موسۃ القرآن والحدیث ابن منیر سوفٹ وئیر ورژن 3.4.2.2a میں اس کا الٹ کیا گیا - وہاں عربی موجود ہے لیکن اس کا ترجمہ نہیںhttp://mohaddis.com/View/Muslim/7375
اب اس حدیث میں عربی کے یہ الفاظ
قَالَ أَبُو إِسْحَقَ يُقَالُ إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ هُوَ الْخَضِرُ عَلَيْهِ السَّلَام
کہاں ہیں
لنک
http://islamicurdubooks.com/Sahih-Muslim/Sahih-Muslim-.php?hadith_number=7375
اب اس حدیث میں اردو ترجمہ
ابواسحاق نے کہا، کہا جاتا ہے کہ وہ آدمی حضرت خضر علیہ السلام ہوں گے۔
کہاں ہے
http://islamicurdubooks.com/Sahih-Muslim/Sahih-Muslim-.php?hadith_number=7375
اب اس حدیث میں اردو ترجمہ
ابواسحاق نے کہا، کہا جاتا ہے کہ وہ آدمی حضرت خضر علیہ السلام ہوں گے۔
کہاں ہے
لیکن میں آپ کی طرح کسی پر تقیہ کا الزام نہیں لگاؤں گا - لیکن میرے بھائی بندے کو دوسروں کی طرف انگلی ٹھانے سے پہلے یہ سوچنا چاہیے کہ اگر ایک انگلی دوسرے کی طرف اشارہ کر رہی ہے تو تین اپنی طرف بھی اشارہ کر رہی ہوتی ہیں -
Last edited: