• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

درگزرکرنا

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
درگزر کرنا

رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ اللّٰہَ تَعَالیٰ عَفْوٌ یُّحِبُّ الْعَفْوَ۔ (صحیح الجامع الصغیر، رقم: ۱۷۷۹۔)
''بے شک اللہ تعالیٰ درگزر کرنے والا ہے درگزری کو پسند کرتا ہے۔''
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ} [الاعراف: ۱۹۹]
''درگزری کو لازم پکڑ اور نیکی کا حکم دے اور جاہلوں سے اعراض کر۔''
دوسرے مقام پر متقین کی صفات حسب ذیل الفاظ میں بیان فرمائیں:
{الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ} [آل عمران: ۱۳۴]
''غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ ایسے اچھے اخلاق والوں کو دوست رکھتا ہے۔''
مزید فرمایا:
{وَأَن تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ} [البقرہ: ۲۳۷]
''اور تمہارا معاف کر دینا تقویٰ سے بہت نزدیک ہے۔''
شرح...: عفو کا معنی ہے کہ انسان قصاص یا مالی جرمانہ کا مستحق ہے مگر اسے چھوڑ دے، یعنی غلطی کی بناء پر جو مواخذہ ہے اسے چھوڑ دینا، اور صفح کا معنی ہے: دل سے غلطی کو معاف کر دینا۔ نیز عفو اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی میں شامل ہے۔
غصہ کے وقت درگزر کرنے والوں کی قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مدح و ستائش کی ہے چنانچہ فرمایا:
{وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ} [الشوریٰ: ۳۷]
''غصے کے وقت بھی معاف کر دیتے ہیں۔''
غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والوں کی اللہ تعالیٰ نے ثناء بیان کی ہے اور یہ خبر بھی سنائی کہ میں اس نیکی اور احسان کی وجہ سے ان کو دوست رکھتا ہوں۔
مزید فرمایا:
{إِن تُبْدُوا خَيْرًا أَوْ تُخْفُوهُ أَوْ تَعْفُوا عَن سُوءٍ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوًّا قَدِيرًا}[النساء:۱۴۹]
''اگر تم کسی نیکی کو علانیہ کرو یا پوشیدہ یا کسی برائی سے درگزر کرو پس یقینا اللہ تعالیٰ مکمل معاف کرنے والا اور مکمل قدرت رکھنے والا ہے۔ ''
اللہ رب العزت نے عفو و درگزری پر آمادہ کیا اور رغبت دلائی ہے۔
تشریح...: ''عفو'' ان افعال میں شامل ہے جن کے ذریعہ انسان اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر لیتا اور اس کے ہاں جو ثواب ہے اس کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ درگزر کرنا اللہ تعالیٰ کی صفات میں شامل ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ بندوں کو عذاب دینے پر قدرت رکھنے کے باوجود عفو درگزر سے کام لیتے ہیں۔''
فرمایا:
{وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا ۗ أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ} [النور:۲۲]
''اور معاف کر دینا اور درگزر کر لینا چاہیے کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے قصور معاف فرما دے اللہ قصوروں کا معاف فرمانے والا مہربان ہے۔''
جزاء چونکہ عمل کی جنس ہے اس لیے جب تو کسی سے درگزر کرے گا تو اللہ تعالیٰ تجھ سے درگزر کرے گا اور جب تو کسی کی غلطی معاف کرے گا تو اللہ تعالیٰ تیری غلطیوں پر معافی کی قلم پھیر دیں گے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے درگزر کرنے اور غصہ کی حالت میں اپنے آپ پر کنٹرول رکھنے اور غصہ پی جانے پر ابھارا ہے کیونکہ ایسا کام جہاد بالنفس اور اعلیٰ عبادت میں داخل ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَیْسَ الشَّدِیْدُ بِالصُّرْعَۃِ، إِنَّمَا الشَّدِیْدُ الَّذِيْ یَمْلِکُ نَفْسَہُ عِنْدَ الْغَضَبِ۔ (أخرجہ البخاري في کتاب الأدب، باب: الحذر من الغضب، رقم: ۶۱۱۴۔)
''کسی کو پچھاڑنے والے طاقت ور نہیں بلکہ طاقت ور وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ پر کنٹرول رکھے۔''
دوسری حدیث میں فرمایا:
مَا مِنْ جُرْعَۃٍ أَعْظَمُ أَجْرًا عِنْدَاللّٰہِ، مِنْ جُرْعَۃِ غَیْظٍ، کَظَمَھَا عَبْدٌ ابْتِغَاءٓ وَجْہِ اللّٰہِ۔
''سب سے زیادہ اجر والا گھونٹ اللہ تعالیٰ کے ہاں غصہ کا گھونٹ ہے جسے بندہ اللہ کی رضا چاہتے ہوئے پی جاتا ہے۔ '' (صحیح سنن ابن ماجہ، رقم: ۳۳۷۷۔)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
ابوداؤد میں حدیث ہے:
وَقَالَ صلی اللہ علیہ وسلم : مَنْ کَظَمَ غَیْظًا، وَھُوَ قَادِرٌ عَلَی أَنْ یُّنْفِذَہٗ دَعَاہٗ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ عَلیٰ رُؤُوْسِ الْخَلَائِقِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ حَتّٰی یُخَیِّرَہُ اللّٰہُ مِنَ الْحُوْرِ مَا شَاءَ (صحیح سنن أبي داؤد، رقم: ۳۹۹۷)
''جو شخص غصہ کو نافذ کرنے کی طاقت رکھنے کے باوجود اسے روک لیتا ہے اور پی لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن لوگوں کے سامنے بلائے گا اور اسے اختیار دے گا کہ جس حور کو وہ چاہے پسند کر لے۔''
یعنی اللہ تعالیٰ اسے لوگوں کے درمیان مشہور کر دیں گے اور اس کی تعریف کریں گے اور اس کے ذریعہ فخر کریں گے حتیٰ کہ اسے کوئی بھی حور لینے کا اختیار دیا جائے گا یہ محفوظ جنت میں جانے اور بلند درجات تک پہنچنے کی خوشخبری اور کنایہ ہے۔ غصہ پر قابو پانا نفس امارہ (یعنی برائی پر ابھارنے والے نفس) کے خلاف کھلی جنگ ہے لہٰذا جس نے اس کی پیروی ترک کردی جنت اس کا ٹھکانہ اور حور اس کی جزا ہے۔
اتنی پیاری تعریف، اتنی خوبصورت ثناء اور اتنا زیادہ بدلہ محض غصہ کو کنٹرول کرنے پر ہے اور اگر اس کے ساتھ عفو و درگزری یا مد مقابل پر احسان بھی مل جائے پھر تو سونے پہ سہاگہ ہے۔
مصطفی علیہ السلام اسلام کا فرمان ہے کہ:
مَا نَقَصَتْ صَدَقَۃٌ مِنْ مَّالٍ مَا زَادَ اللّٰہُ عَبْدًا بِعَفْوٍ إِلاَّ عِزًّا وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلّٰہِ إِلاَّ رَفَعَہُ اللّٰہُ۔ (مسلم في کتاب البر والصلۃ والآداب)
''اللہ تعالیٰ صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا درگزر کرنے کی وجہ سے بندے کو عزت میں ہی زیادہ کرتا ہے اور جو کوئی اللہ کے لیے فروتنی (تواضع انکساری) اختیار کرے گا اللہ تعالیٰ اسے بلندی عطا کریں گے۔''
اس کے دو مطلب ہیں:
(۱)...اپنے ظاہر پر ہی محمول ہے یعنی جس نے عفو و درگزر سے کام لیا وہ لوگوں کے دلوں میں با عزت اور با شرف بن جائے گا۔
(۲)...آخرت میں اجر اور عزت دینا مراد ہے۔
بسا اوقات دونوں مطلب ہی مراد لیے جاتے ہیں یعنی دنیا میں بھی عزت اور آخرت میں بھی اجر و ثواب کا مستحق۔
چنانچہ ایسا انسان ظالم سے نرمی و بردباری سے پیش آتا ہے اور اپنے دشمن پر غصہ نکالنے پر قدرت رکھنے کے باوجود خاموش رہتا ہے اور غصہ پی جاتا ہے۔ نیز جو بیوقوفی کرتا ہے اس سے اعراض کرتا ہے اور وہ شخص ان سب افعال کی بنیاد صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے معافی اور ثواب پر بھی رکھتا ہے۔
رب کائنات کا فرمان ہے:
{فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ} [الشوریٰ: ۴۰]
''اور جو معاف کر دے اور اصلاح کر لے اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔ بلا شبہ وہ ظالموں کو پسند نہیں کرتے۔''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے:
جس نے قصاص ترک کردیا اور اپنے اور ظالم کے درمیان عفو و درگزر کے ذریعہ درستی کرلی تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے یعنی اس کام کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اسے اجر سے نوازے گا کیونکہ یہ اعلیٰ اخلاق کی علامت اور بڑے اچھے کاموں میں سے ہے۔ (تفسیر قرطبی، ص: ۱۳۴ ؍ ۴، ص:۵، ۶، ص: ۲۴، ۲۷ ۱۶/ شرح مسلم للنووی، ص: ۱۴۱، ۱۴۲؍،۱۶۔ تفسیر ابن کثیر، ص: ۵۸۵ ؍ ۱۔ ص: ۲۸۶ ؍ ۳۔ عون المعبود: ۹۵ ؍ ۱۳۔ تحفۃ الاحوذی، ص: ۱۴۰ ؍ ۴۔)

اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند
 
Top