• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دستور امارت اسلامیہ افغانستان

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
دسویں فصل : متفرق احکامات

آرٹیکل ١٠٦ : اس دستور میں کسی بھی قسم کی ترمیم اور کمی بیشی امیر المؤمنین' وفاقی کابینہ اور سپریم کورٹ پر مشتمل ایوان بالا (سینیٹ) یا پارلیمنٹ کے اراکین کی ایک مخصوص تعداد کی تجویز سے ہو گی۔ اور اس ترمیم یا کمی بیشی کی منظوری پارلیمنٹ اور وفاقی کابینہ و سپریم کورٹ پر مشتمل ایوان بالا(سینیٹ) کی تصدیق سے ہو گی ۔

آرٹیکل ١٠٧ : اس دستور کے نفاذ کے ساتھ ہی سابقہ نظاموں کے لیے وضع کردہ بنیادی قوانین کلی طور پر باطل اور ساقط الاعتبار ہوں گے۔

آرٹیکل ١٠٨ : اس دستور کی تفسیر و تشریح کا حق پارلیمنٹ کو ہو گا۔

آرٹیکل ١٠٩ : اس دستور کے نفاذ سے پہلے جو قوانین صادر ہو چکے ہیں وہ اس صورت میں نافذ العمل ہوں جبکہ وہ دین اسلام کے احکام اور اس دستور کی اساسات کے خلاف نہ ہوں۔

آرٹیکل ١١٠ : یہ دستورجس کی تکمیل دس فصول اور ایک سو دس شقوں کی صورت میں ہوئی ہے' اس کی تنفیذ کا اعلان اس کی نوک پلک سنوارنے کے بعد کیا جائے گا اور اس کو سرکاری اخبار میں نشر کیا جائے گا۔

مترجم : ابو الحسن علوی (عربی سے اردو ترجمہ)
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
دسویں فصل : متفرق احکامات

آرٹیکل ١٠٦ : اس دستور میں کسی بھی قسم کی ترمیم اور کمی بیشی امیر المؤمنین' وفاقی کابینہ اور سپریم کورٹ پر مشتمل ایوان بالا (سینیٹ) یا پارلیمنٹ کے اراکین کی ایک مخصوص تعداد کی تجویز سے ہو گی۔ اور اس ترمیم یا کمی بیشی کی منظوری پارلیمنٹ اور وفاقی کابینہ و سپریم کورٹ پر مشتمل ایوان بالا(سینیٹ) کی تصدیق سے ہو گی۔

آرٹیکل ١٠٧ : اس دستور کے نفاذ کے ساتھ ہی سابقہ نظاموں کے لیے وضع کردہ بنیادی قوانین کلی طور پر باطل اور ساقط الاعتبار ہوں گے۔

آرٹیکل ١٠٨ : اس دستور کی تفسیر و تشریح کا حق پارلیمنٹ کو ہو گا۔

آرٹیکل ١٠٩ : اس دستور کے نفاذ سے پہلے جو قوانین صادر ہو چکے ہیں وہ اس صورت میں نافذ العمل ہوں جبکہ وہ دین اسلام کے احکام اور اس دستور کی اساسات کے خلاف نہ ہوں۔

آرٹیکل ١١٠ : یہ دستورجس کی تکمیل دس فصول اور ایک سو دس شقوں کی صورت میں ہوئی ہے' اس کی تنفیذ کا اعلان اس کی نوک پلک سنوارنے کے بعد کیا جائے گا اور اس کو سرکاری اخبار میں نشر کیا جائے گا۔

مترجم : ابو الحسن علوی
 
B

Barakah

مہمان
اسلام علیکم
مسلک طالبان پر ایک نظر
حضرات ذرا اس کتابچہ پر نظر کرے۔
http://www.esnips.com/doc/71ff1306-54b1-4d48-b902-293328c5bec5/Taalibaan
اللہ حافظ
جزاک اللہ خیر ۔۔ میرے خیال سے یہ ایک انتہائی مفید کتابچہ ہے جو ہر کسی کو پڑھنا چاہیے ۔۔ تاکہ طالبان کے بارے میں غلط فہمیاں دور ہو سکیں ۔۔
 

سلفی منہج

مبتدی
شمولیت
جولائی 24، 2011
پیغامات
39
ری ایکشن اسکور
117
پوائنٹ
0
کیا طالبان اہلسنۃ ہیں؟

یہ لنک کام نہیں کر رہا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
کیا طالبان اہلسنۃ ہیں؟

”افغانستان الطالبان ومعارکہ الاسلام الیام“ سے ماخوذافغا نستان ،کا بل ،1998
ابو مصعب عمر عبدالحکیم السوری اور”المیزان لی حرکتی طالبان‘
یوسف ابن صا لح العیری افغانستان،2002
ترجمہ : ابو عبدالرحمن السلفی حفظہ اللہ​


تمام تعریفیں اﷲ کے لئے ہیں، جو تمام کائنات کا خالق ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل و عیال اور صحابہ رضی اللہ عنہم پر بے شمار درو و سلام ہو۔
اما بعد!
آج کل منافقین اور رویبدہ جن کے دلوں میں مرض ہے ، امیرالمومنین اور طالبان پر غلط الفاظ چسپا کر رہے ہیں۔ یہ طالبان پر الزامات لگائے جاتے ہیں کہ :
1۔ قبوریہ ہیں
2۔ ارجاءتکفیرکرتے ہیں
3 ۔سروریہ اور دیوبندیہ ہیں
4 ۔تعصب اور تقلیدکرتے ہیں
5 یونائیٹڈنیشن (United Nations ) میں شامل ہوناچاہتے ہیں

جو لوگ امیرالمومنین حفظہ اللہ پر مرجئہ ہونے کا الزام لگا رہے ہیں، اگر وہ اپنا جاہل منہ کھولنے سے پہلے، تھوڑی سی تحقیق کرتے تو ان کو اس بارے میں حقائق معلوم ہو جاتے۔ لیکن شیطان نے ان کے کانوں میں سرگوشی کرکے ان کو گمراہ کیا، اور یہ اسی گمراہی کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف بولتے ہیں، حالانکہ ان کو حقیقت کا کچھ علم نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا!”یہ بھی گناہ کے لئے کافی ہے، کہ بندہ جو سنے اسے آگے دوسروں کو سنا دے“۔(سلسة الصحیحة:۵۲۰۲،صحیح الجامع:۲۸۴۴)
تو پھر ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جو امیرالمومنین پر مرجئی کا الزام لگا رہے ہیں اور ان میں اتنی شرم نہیں کہ تھوڑی سی تحقیق کر لیں یا ان سے پوچھ لیں، جو امیرالمومنین حفظہ اللہ کے ساتھ رہ چکے ہیں۔یہ لوگ تو کبھی افغانستان گئے ہی نہیں۔ تو پھر کیوں یہ مسلمانوں کے معاملوں میں اپنی ٹانگ لڑا رہے ہیں۔ جیسے کہ ایک حدیث میں ہے۔

”ایک وقت آئے گا کان دھوکہ دیں گے۔ سچ بولنے والوں کو جھوٹا، اور جھوٹ بولنے والے کا یقین کیا جائے گا۔ دیانت دار کو بد دیانت اور بد دیانت کو دیانتدار سمجھا جائے گا۔ اور رویبدہ اسی زمانے میں بولیں گے۔(فتح الباری:۳۱/۱۹، البدایة والنہایة:۱/۷۸،۴۱۲،سلسلة الصحیحة:۷۸۸۱،۳۵۲۲،صحیح ابن ماجہ:۱۶۲۳،صحیح الاجامع للالبانی:۰۵۶۳،صحیح الوادعی۱/۰۸۳،۳/۶۹۴،۵/۹۶۳،صحیح المسند للوادعی:۷۲)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: رویبضہ کیا ہے، یا رسول اﷲ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ایک معمولی شخص جو ساری آبادی کی طرف سے بولتا ہے“۔(ایضا)
اور دوسری روایت میں ہے ” فویسق: ایک گناہگار اور باغی“، جو ساری آبادی(عوام) کی طرف سے بولتا ہے۔
اور یہی ان کی حقیت ہے، یہ سارے حقیر فویسقہ ہیں۔
ا ب یہ ضروری ہو گیا ہے کہ ان چیزوں کی وضاحت مستند معلومات اور حقائق کی بنیاد پر کی جائے تاکہ حالات کی صحیح عکاسی ہو اور لوگ گمراہ نہ ہوں۔ اور ہم مدد صرف اﷲ سے مانگتے ہیں۔
ان الزامات پر بحث کرنے سے پہلے کچھ علماءکے خیالات بیان کرتے ہیں۔
(ا) شیخ یوسف العیری نے کہا” پڑھنے والوں کے لئے میں ایک بات لکھنا چاہوں گا جس سے کتا ب میں جو کچھ آگے آئے گا اسے سمجھنے میں مدد ملے گی۔ ہم یہ دعوی نہیں کرتے کہ طالبان تحریک ایک سلفی تحریک ہے۔ اور جو کوئی بھی ایسا کہتا ہے، وہ غلطی پر ہے۔ اسی طرح ہم طالبان کے قبوریہ (شرک اکبر) ہونے کو بھی نہیں مانتے۔ ہم کہتے ہیں، کہ طالبان میں سے لوگ ہیں جو سلفی ہیں۔اور ان میں سے لوگ ہیں جو بدعتی صوفی ہیں۔ لیکن ان کی اکثریت عقیدہ، فقہ اور طورطریقوں میں امام ابو حنیفہ کے مذہب پر ہیں۔یہ ہم ان کے بارے میں جانتے ہیں اور ہم نے یہ سب صرف اس لیے لکھا کہ حقائق کی وضاحت ہو جائے۔“
شیخ آگے لکھتے ہیں” ہم دیکھ رہے ہیں کہ لوگ معاملے کو پیچیدہ کر رہے ہیں اور دعوی کرتے ہیں کہ طالبان دیوبندی ہیں ، ان کے خیال میں دیوبندی ایک علیحدہ عقیدہ ہے۔ لیکن حقیقت میں دیوبندیہ ایک نیا عقیدہ نہیں ہے، بلکہ یہ ہندوستان میں ایک مدرسہ ہے ، جس کا نام دیوبند شہر کے نام پر رکھا گیا۔ یہ مدرسہ 200 سا ل پہلے وجود میں آیااور امام ابوحنیفہ کی فقہ پر ہے۔
دیوبندیہ ایک مدرسہ ہے، ایک علیحدہ عقیدہ نہیں ہے۔ جس طرح مصر میں الازہر ہے۔ جا معہ الازہر مصر میں معرض وجود میں آیا جس کی شاخیں پھیلیں ہوئی ہیں۔ الازہر سے پڑھا ہر طالب علم اما م شا فعی رحمہ اللہ کے مذہب ، اور اشعری عقیدہ پر نہیں ہے۔ بہت سے علماء جو الازہر سے پڑھے سلفی ہیں اور اہل حدیث کے علماء ہیں۔ یہی حالت مدرسہ دیوبند کی ہے۔ لیکن یہ اپنے بنانے والوں کے عقیدے سے کچھ حد تک متاثر ہوئی ہے۔
طالبان پر حکم جاری کرنے سے پہلے ان سب کا سمجھنا بہت ضروری ہے۔ اور ویسے بھی سارے طالبان مدرسہ دیوبند سے فاضل نہیں ہیں۔ ان کی اکثریت مدرسہ حقانیہ پشاور سے فاضل ہے، اس کے علاوہ ایک بڑی تعداد جامعة الاسلامی کراچی سے فاضل ہیں، اور ان پر بہت بڑااثر محترم شیخ نظام الدین شامزئی رحمہ اللہ کا ہے، جو شعبہ حدیث کے نگران تھے۔
یہ طالبان کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے، کہ ہم ان کو مدرسہ دیوبند کی غلطیوں کی سزا دے رہے ہیں۔ دیوبند کی غلطیاں کوئی جواز نہیں کہ طالبان کو ان کا قصوروار ٹہرایا جائے۔ کیونکہ طالبان کے خلاف حکم، حکم شخصی ہے، اور شخصی حکم خاص ہوتا ہے، جبکہ مدرسہ دیوبند کا حکم عام ہے۔ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم خاص کا حکم ، ایک ایسی چیز پر کریں جو عمومی ہو۔ اور اس حقیقت کو مدنظر رکھتےہوئے کہ ان کی اکثریت وہاں سے پڑھی بھی نہیں۔ اس لئے اگر کوئی یہ کہے کہ سارے دیوبندی ہندو ہیں اس لئے کہ یہ مدرسہ ہندوستان میں ہے، تو یہ غلط ہو گا اس لئے کہ مدرسے کا عقیدہ اور ملک ہندوستان کا عقیدہ ، دو مختلف چیزیں ہیں۔ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ مدرسہ دیوبند کے عقیدہ اور طالبان تحریک میں کچھ مشترک نہیں ہے۔ کیونکہ سب سے پہلے ہمیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ سارے طالبان دیوبند سے پڑھے ہوئے ہیں، اور پھر یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ مدرسہ دیوبند کے عقیدے پر قائم ہیں۔ جن مدارس سے طالبان پڑھے ہیں، اگر یہ ثابت ہو جائے کہ وہاں پرغلط عقیدہ پڑھایا جاتا ہے، تو پھر ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا طالبان اس سے راضی ہیں۔ اور وہ سب کچھ مانتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں جو انہوں نے پڑھا ہے۔ کیونکہ یہ لازمی نہیں ہے کہ بندہ جو کچھ بھی پڑھتا ہے، وہ اس کا عقیدہ بن جائے۔ آج کل مدارس اور جامعات جس قدر پھیلے ہوئے ہیں، یہ ممکن نہیں ہے، کہ ہم کسی شخص کے عقیدے کے بارے میں صرف اس بات پر حکم لگائیں کیونکہ وہ ایک ایسے مدرسہ سے پڑھا ہے جس میں عقیدے کی کچھ غلط کتابیں پڑھائی جاتی ہیں۔یہ سب تفصیل اس لئے دی جا رہی ہے کہ آگے پڑھنے اور سمجھنے میں آسانی رہے۔
شیخ ابو مصعب السوری طالبان کی کمزوریاں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں،”طالبان کی دنیا کے معاملات سے ناواقفیت، جس میں بین الاقوامی اور علاقائی سیاست، مسلمان ملکوں کے مرتد غلام حکمرانوں کی اصلیت اور حقیقت سے ناآشنائی شامل ہے۔اس کے علاوہ بین الاقوامی سیاست کی پیچیدگیاں خاص کر غدار ممالک جیسے سعودی عرب اورپاکستان کا کردار۔ طالبان کو تسلیم کرنے والے ممالک (پاکستان،سعودی عرب ) کے بارے میں طالبان کے سیاسی فیصلوں اور شرعی نظریات سے یہ بات واضح ہے۔ میرے خیال میں طالبان ان مرتد عرب حکومتوں جیسے صدام، اور دوسرے اسلامی ممالک کی مرتدحکومتوں ِ خاص کر سعودی عرب جسے یہ بلادالحرمین کہتے ہیں، پاکستان اور عرب امارات کے خلاف ایسے ہی جہاد نہیں کریں گے جیسے وہ عیسائیوں اور یہودیوں کے خلاف کرتے ہیں اور اﷲ سب سے بہتر جانتا ہے۔
لیکن ہم اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ کچھ طالبان اور ان کے قائدین (جیسے جلال الدین حقانی، یونس خالص اور دوسرے) کو معاملات کی اتنی ہی فہم ہے ،جتنی ہم سب کو ہے۔ میرا طالبان کے کچھ بڑے قائد ین سے بحث و مباحثہ ہوا ہے۔ جس سے یہ بات مجھ پر واضح ہو گئی کہ ان کہ سوچ الولاءوالبراء، حاکمیہ اور اسی طرح کے معاملات میں بالکل ٹھیک اور صحیح ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وقت سب پر یہ ظاہر کر دے گا۔ اب ان غلام حکومتوں نے اپنے آقا کی خوشنودی کے لئے طالبان سے دشمنی شروع کی ہے،اور سعودی عرب نے طالبان کے نمائندوں کو ملک سے نکال دیا اور ان کے سفیر کو قید کر دیاہے۔
مجھے یقین ہے کہ طالبان کے خلاف عالمی جنگ اسلامی حکومتوں کے اصلی چہروں کو بے نقاب کر دے گی۔ اور اس کے بعد طالبان کو ان حکومتوں کے کفرمیں کوئی شک نہیں رہے گا اور ان کے خلاف جہاد کریں گے۔
اس تعارف کے بعد اب ہم اعتراضات کا جواب دیں گے، انشاءاﷲ
1 قبوریہ کے بارے میں طالبان کا عقیدہ کیا ہے؟
مولوی جلال الدین شنواری 1نے کہا!”بے شک ہم لوگوں کو پڑھاتے ہیں اور یہ تعلیم دیتے ہیں کہ قبروںکے اوپر گنبدیں اور عمارتیں تعمیر کرنا شرعی جائز نہیں ہے ۔ یہ شریعت کے خلاف ہے اور ہمارے دین کا حصہ نہیں ہے۔ امیرالمومنین اس کے حکمت اور دانائی کے ساتھ خلاف جنگ کر رہے ہیں ۔ میں نے خود اپنے ہاتھوں سے ایک قبرکو توڑا ہے جس پر گنبد بنا ہوا تھا اور لوگ اس کی عبادت کرتے تھے اور یہ وزارت انصاف کے قریب تھا“۔
کابل کے گورنر نے قبروں کے متعلق کہا، ”ہمارا منہج قبروں کے متعلق وہی ہے جو اہل السنہ کا ہے۔ جو کچھ بھی ان قبروں پر ہوتا ہے ، شریعت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ طالبان اس گمراہی کے خلاف لڑ رہے ہیں جبکہ ان گمراہوں کے پاس شریعت سے کوئی دلیل نہیں ہے۔
امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے وزیر نے کہا” افغانی بہت عرصے سے کمیونسٹ کے زیر تسلط رہے ہیں جس کی وجہ سے اس طرح کی گمراہیاں بڑھ گئی ہیں، اس لئے اب ہمیں اسے روکنے میں دشواری آرہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم لوگوں کو قبروں کی زیارت کا سنت طریقہ بتاتے ہیں، اور اس کے خلاف جو گمراہی بھی وہاں پر ہوتی ہے اس سے منع کرتے ہیں۔ہمیں کتابوں اور رسالوں کی ضرورت ہے کہ ہم اسے لوگوں میں بانٹ سکیں جس سے ان کے عقائد اور دین کی اصلاح ہو۔اگر ممکن ہو تو آپ ہماری اس میں مدد کرے“۔
ملا محمد حسن2 نے کہا”یہا ں پر مختلف قسم کے شرک اور بدعتیں اور عجیب اور غریب چیز یں تھی۔پھر ہم آئے اور لوگوں کو ان سب سے منع کیااور انہیں تعلیم دی ، کیونکہ ان میں بہت سے جاہل ہیں۔ اور ہم نے ہمیشہ لوگوں کو شرک سے روکا ، جیسے کے مزاروں پر چادر چڑھانا ، وہاں پر قربانیاں کرنا، اور قبروں پر تبرک کے لئے ہاتھ پھیرنا۔ہم نے لوگوں کو خبردار کیا کہ یہ سب شریعت کے خلاف ہے جس کی وجہ سے یہ شرک اور گمراہیاں بہت کم ہو گئی ہے“۔
شہید شیخ یوسف العیری رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔ ”جہاں تک لوگوں کی شرک کی بات ہے جو وہ قبروں پر کرتے ہیں تو اس کے لئے طالبان کو قصوروار نہیں ٹہرایا جا سکتا۔اور باقی ممالک کا بھی یہی حال ہے، جہاں پر یہ شرک اور ارتداد ہو رہا ہے۔ یہ مناسب نہیں کہ حکومت کو الزام دیا جائے ،جب تک کہ یہ ثابت نہ ہو جائے کہ حکومت لوگوں کو اس کی طرف دعوت دیتی ہے،ایسے جگہیں تعمیر کرتی ہے اور اس کی طرف نرمی برتتی ہے۔کسی حکومت کو چند جاہل عوام کے عمل کی وجہ سےکافر کہنا ، بہت بڑی نا انصافی ہے۔ان کو اس وقت تک الزام نہیں دیا جا سکتا جب تک یہ ثابت نہ ہو جائے، کہ حکومت اس کی طرف لوگوں کو بلاتی ہے، ایسی جگہیں تعمیر کرتی ہے اور اس کے لئے نرم گوشہ رکھتی ہے۔اور یہ ساری باتیں ہمیں طالبان میں نظر نہیں آئی۔جبکہ ہم نے انہیں اس کے برعکس پایا( مقبروں اور شرک کے خلاف جنگ کرنے والے)۔
جہاں تک افغانستان سے شرک کے ہر ایک جگہ کو صاف کرنے کی بات ہے، تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ طالبان ان کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ بلکہ اس لئے کہ عوام میں سے کچھ لوگ اپنے مقبروں اور عقیدے کو بچانے کے لئے لڑنے کے لئے تیا ر ہیں۔ اس لئے ان کو شریعت سمجھانے کے لئے وقت دیا جا رہا ہے، جو کبھی کبھار ضروری بھی ہوتا ہے، بڑے فتنہ(خونریزی اور تباہی) سے بچنے کے لئے۔
2 کیا طالبان مرجئہ ہیں؟
مفتی نظام الدین شامزئی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا، کہ طالبان کا ایمان کے بارے میں کیا عقید ہ ہے؟ آپ نے جواب دیا۔”وہی ہے جو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا تھا، اور جو الطحاویہ میں بیان ہوا ہے، جسے ہم نصاب میں پڑھاتے ہیں“۔
کیا طالبان اس پر یقین رکھتے ہیں کہ عمل سے کفر اکبر کا ارتکاب ہوتا ہے؟ اگرچہ ان میں بہت سوں نے حکومتوں پر تکفیرالعین نہیں کی، لیکن جو بات ظاہر ہے، وہ یہ ہے کہ طالبان اس پر ایمان رکھتے ہیں کہ عمل سے کفر اکبر کا ارتکاب ہوتا ہے۔جس طرح افغانستان کے علماءکے کونسل نے1420.8.3ھ،نے کہا، ”اگر ہم اسامہ حفظہ اللہ کو امریکہ کے حوالے کر دیں، امریکہ پھر کہے گا کہ اب اپنی عورتوں کے حجاب اتروادو، حدود اور قصاص ختم کر دو، وغیرہ وغیرہ، اور پھر وہ اﷲ کے قوانین ختم کرنے کا مطالبہ کریں گے۔ اور وہ خالص کفریہ قوانین (ا نسانی گمراہ قوانین) نافذ کرنے کا تقاضہ کریں گے۔ اس لئے میں کہتا ہوں کہ اسامہ حفظہ اللہ کا حوالے کرنا شریعت کے خلاف ہے اور نہ ہی اس میں سیاسی فائدہ ہے۔اور یہ ناجائز عمل اﷲ سے جنگ کے برابر ہے ( کفر اکبر)۔
3 کیا طالبان صوفیہ اور دیوبندی ہیں؟
مفتی نظام الدین شامزئی نے کہا ” صوفیہ کے کچھ طریقے صحیح ہیں، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں جیسے زہد اور تقوی اور مادی چیزوں سے دور رہنا۔ لیکن جہاں تک ابن عربی کا تعلق ہے اور جو اس کے طریقے پر ہیں، جو وحدت الوجود کے عقیدے اور گمراہ صوفیت پر ہیں، تو طالبان کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کے برعکس طالبان ان کے دشمن ہیں“۔
سید مولوی جلال الدین شنواری کہتے ہیں” ہم صوفیت سے بالکل خوش نہیں ہے۔ ہمیں کسی کے بارے میں بھی جب پتہ چلتا ہے کہ اس کا تعلق کسی صوفی طریقے سے ہے تو ہم اس کو حکومت سے خارج کر دیتے ہیں۔ کابل میں دو معمر شخص تھے، جو بڑھاپے کی وجہ سے چلنے سے قاصر تھے، ان کا تعلق نقشبندیہ سے تھا۔ لوگ سینکڑوں کی تعداد میں ان سے ملنے جاتے تھے۔ امیرالمومنین حفظہ اللہ نے ان دونوں کو کچھ عرصے کے لئے جیل میں بند کر دیا۔ پھر ان کو رہا کر دیا اور یہ تنبیہ کی کہ اس گمراہی سے دور رہیے۔ وہ کابل واپس چلے گئے اور آج تک وہ اس گمراہی سے دور ہے۔ اور سب تعریفیں اﷲ کے لئے ہیں۔ امریکہ چاہتا ہے کہ یہ سب چیزیں یہ صوفی اور صوفیت ہر طرف پھیل جائے تاکہ لوگ ان کے خلاف نہ لڑیں اور جہاد کو بھول جائیں۔ صوفیت سے دین اور جہاد ختم ہو جاتی ہے“۔
طا لبان کے عرب امارات کے لئے سابقہ سفیر نے کہا” جو کوئی بھی آج کل افغانستان کا دورہ کرے گا، اس پر یہ بات عیا ں ہو گی کہ شرک کے سارے اڈے ختم ہو چکے ہیں اور سا لانہ جشنوں پر پابندی لگا دی گئی ہیں۔ طالبان کے آنے سے پہلے جوجشن منائے جاتے تھے، بند ہو گئے ہیں۔ جب طالبان نے مزارشریف پر قبضہ کیا تو وہاں پر علی رضی اللہ عنہ کے قبر پر منعقد ہونے والے سالانہ جشن پر پابندی لگا دی۔ ان چیزوں پر علماءنے پہلے دن سے پابندی لگائی ہوئی ہے۔ عورتوں کو قبروں پر جانے سے منع کیا گیا ہے۔ اور قبرستانوں پر بورڈ لگائے گئے ہیں جو زیارت کرنے والوں کو زیارت کا سنت طریقہ بیا ن کرتے ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہم نے بدھ مت کے مجسموں کو تباہ کر دیا، حالانکہ ساری دنیا اس کی وجہ سے ہماری دشمن ہو گئی ہے۔
ہم مانتے ہیں کہ اب بھی کچھ جگہیں ہیں، جہا ں پر بدعت ہو رہی ہے اور علماءان کا ایسا حل تلاش کر رہے ہیں جو موثر اور فائدہ مند ہو۔ کیونکہ اب بھی کچھ انتہائی جاہل لوگ موجود ہیں، جو اپنی بدعت میں عرصہ دراز سے اتنے مگن ہیں کہ ان کو اس سے ہٹانا بہت مشکل ہے۔ طالبان کو خدشہ ہے کہ کہیں یہ بغاوت نہ کر دیں جس کی وجہ سے انہیں اسلام سیکھنے کے لئے کچھ وقت دے رہے ہیں ۔ اس کے باوجود انہوں نے گمراہ صوفیوں مثلا قادریہ پر پابندی لگا دی ہے اور ان کی تعلیمات پر کھلم کھلی پابندی لگا دی ہے جنہیں لوگ ”حلقہ الذکر“ کے نام سے جانتے ہیں جو حقیقت میں ذکر نہیں تھا۔ کچھ گمراہ لوگ طالبان کی پابندیوں سے تنگ آ کر پاکستان چلے گئے اور طالبان کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا“۔
مفتی نظام الدین شامزئی رحمہ اللہ نے اﷲ کے اسماء وصفات کے بار ے میں دیوبندیوں کے اور طالبان کے عقیدے کے بارے میں فرمایا۔ ”عام طور پر دیوبندی اشعری اور ماتریدی ہیں ِ ، لیکن ان میں اہل السنہ بھی ہیں۔ اس لئے میں افغانیوں کے لئے حق منہج (منہج سلف) کو بیان کرتا ہوں اور انہیں خلف کے منہج کی تنبیہ کر تا ہوں۔ لیکن ہمارے لئے اشعریوں اور ماتریدیوں کے خلاف بولنا اتنا آسان نہیں ، جتنی آسانی سے جزیرہ عرب کے علماءکرتے ہیں۔ جہاں تک طالبان کا تعلق ہے، تو رئیس الافتاء ( فتوی جاری کرنے کا ادارہ) کا سربراہ میرا شاگرد ہے اور وہ سلفی منہج پر ہے۔ اسی طرح بہت بڑا عا لم عبداﷲذکیری بھی سلفی ہے۔ اور ہم کوشش کر رہے ہیں کہ لوگوں کو حق بیا ن کریں“۔
مولوی احمد جان3 سے پوچھا گیا” ہم سنتے ہیں اور یہ باتیں اسلامی ممالک اور خاص کر بلادالحرمین میں گردش کر رہی ہیں کہ طالبان تحریک کا عقیدہ ، صوفیت، قبوریہ اور ماتریدیہ کا آمیزہ ہے۔ یہ عقائد کہاں تک آ پ کی تحریک اور ملک میں موجود ہیں؟
آپ نے جواب دیا! یہ سچ ہے کہ لوگ طالبان اور افغانستان کے بارے میں ایسی افواہیں پھیلا رہے ہیں اور اس کے علاوہ بہت سے الزامات لگا رہے ہیں۔ ان افوہوں کا تعلق کبھی مذہب سے، کبھی دین سے، اور کبھی شریعت کے نفاذ سے ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ان افواہوں نے سچ اور حقیقت کو چھپا دیا ہے اس لئے کہ لوگ اس تحریک سے دور ہو جائیں اور اس کی مدد نہ کریں۔ لیکن ہم طالبان یہ بات صاف صاف کہتے ہیں، کہ ہم اور اسلامی حکومت جو عقیدہ اپنے نشرواشاعت، مدارس، سکولوں اور جامعات میں پڑھا رہی ہے اور اس کی تبلیغ کر رہی ہے، عقیدہ اہل السنہ والجماعة ہے، جو عقید ہ الطحاویہ میں بیان ہوا ہے۔
یوسف العیری رحمہ اللہ کہتے ہیں” جہاں تک ان لوگوں کا تعلق جو کہتے ہیں کہ ہمیں طالبان سے دور رہنا چاہیے کیونکہ وہ ماتریدی ہیں، تو ہم کہتے ہیں کہ نہ ہم یہ بات مانتے ہیں نہ اس کا انکار کرتے ہیں۔ کیونکہ اس بات کا دارومدارطالبان سے پوچھنے اور سمجھنے میں ہے۔ اور خوارج نے باریک مسائل ( مسائل خافیہ) میں لوگوں کو پرکھنا شروع کیاتھا۔ ہمارا یہ عقید ہ ہے کہ یہ مسلمان ہیں، اور جو کوئی بھی یہ دعوی کرتے ہیں کہ طالبان ماتریدی ہیں ِتو ہم ان سے دلیل مانگتے ہیں، لے آئے اپنی دلیل اور ہمیں نام دے کہ طالبان میں کون کون ماتریدی ہیں، تاکہ ہم ان کے متعلق جان لیں۔ اس لئے کہ ہم نے جن علماءسے بھی پوچھا جیسے ، عبداﷲذکیری،مولوی احسان اﷲ احسان، ملا محمد ربانی اور مفتی نظام الدین شامزئی رحمہ اللہ ، جنہوں نے جواب دیا” ہم ماتریدیہ کے عقیدے کا انکار کرتے ہیں اور عقید ہ اہل السنہ پڑھاتے ہیں“۔
شیخ رحمہ اللہ آگے ان لوگوں کے بارے میں لکھتے ہیں، جو طالبان پر ماتریدی ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔ ہمیں ایک افغانی کی کتاب ملی جس میں وہ پاکستان اور افغانستان کا عقیدہ ماتریدیہ بیان کرتا ہے۔ جس سے لوگوں نے طالبان کے متعلق یہ بات پھیلا دی، جو کہ بہت عجیب ہے۔ یہ کتاب طالبان کا عقیدہ بیان کرتی ہے، کہ طالبان کس کے پیروکار ہیں، اور افغانی عوام جس میں بیشتر صوفی اور دیوبندی ہیں، کیاکہتے ہیں طالبان کے بارے میں۔
افغانستان کے علماءکے کونسل کے سربراہ نے کہا!”لوگوں سے صو فیت کے بار ے زیاد ہ نہ پوچھو، اور نہ ہی اس بار ے میں زیادہ باتیں کرو، کیونکہ عوام میں سے کچھ لوگ جاہل ہیں جو انسانوں کے روپ میں شیطانوں کی سنتے ہیں، وہ انہیں آپ کے خلاف کر دیں گے اور آپ (مجاہدین) کو وہابی کہنا شروع کر دیں گے“۔
مفتی نظام الدین شامزئی رحمہ اللہ نے کہا”پا کستان اور افغانستان کے لوگوں نے ان شیطانوں ( گمراہ صوفی) سے وہابیت کے بارے میں برائی کے سوا کچھ نہیں سنا۔لیکن میں بذات خود، طالبان اور ان کے علماءاور قائدین جانتے ہیں کہ یہ سب جھوٹ ہے۔ ہم وہابیت کو سلف کے منہج سے جانتے ہیں۔ میں نے خود شیخ محمدبن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی کئی کتابیں پڑھی ہیں۔“
امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے وزیر نے کہا”ہم انسان ہیں، ہم سے بھی غلطیاں ہوتی ہیں۔ کبھی ہم ٹھیک ہوتے ہیں اور کبھی غلط۔ اور جب ہمارا تجربہ بھی نہیں ہے، اس لئے ہمیں جزیرہ عرب سے علماءاور اساتذہ کی ضرورت ہے کہ وہ آئیں اور ہمیں تعلیم دیں اور ہماری رہنمائی کریں اور ہمارے لئے حق کو بیا ن کریں۔جہاں تک وہاں سے نکتہ چینی اور تنقید کا تعلق ہے، تو یہ مفید نہیں ہے۔ یہ ضروری ہے کہ وہ یہاں آئیں اور ہماری رہنمائی کریں اور ہم ضرور ان سے مشورے کریں گے۔ پھر اگر ہم ان کی بات نہ مانیں، پھر ان کو پورا حق ہے کہ ہم پر تنقید کریں۔ ہمیں ان کی اشد ضرورت ہے، کیونکہ وہ ہمارے علماء ہیں، ہم ان کی عزت کرتے ہیں، ان کو خوش آمدید کہتے ہیں اور ہم ان کا پورا دفاع کریں گے۔ “
مولوی شہاب الدین (آپ قاضی اور قندھار کی عدالتوں کے امیر تھے)۔نے کہا” ہم اس کا انکار نہیں کرتے کہ افغانستان میں آج کئی جگہ گمراہی موجود ہے۔جب طالبان آئے تو پہلے انہوں نے لوگوں کو نرمی سے سمجھایا اور پھر آہستہ آہستہ اس پر پابندی لگادی۔ مثال کے طور پرایک کپڑے کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کیا گیاتھا، اور دو دن مقر ر ہوئے تھے، ان سے تبرک حاصل کرنے کے لئے، ایک دن مردوں کے لئے اور ایک دن عورتوں کے لئے۔ طالبان نے اس پر پابندی لگا دی، اور لوگوں کو وہاں جانے سے منع کیا ۔ اور ہم نے لوگوں کو بیان کیا کہ نفع اور نقصان کا مالک صرف اﷲہے۔ طالبان توحید الالوہیہ کے اعتبار سے موحدین ہیں جو لوگوں کو قبروں پر تبرک کے لئے ہا تھ پھیرنے سے ، نذر چڑھانے اور سجدہ کرنے سے منع کرتے ہیں اور لوگوں کو بتاتے ہیں کہ یہ سب کچھ شریعت میں جائز نہیں ہے۔ دوسری مثال، ایک آدمی ایک پتھر اور کپڑا لایا تھا جو بہت عرصے سے موجود تھا۔ لوگوں نے اسے مقدس بنا دیا تھا۔ اور اس پر تبرک کے لئے ہاتھ پھیرتے تھے۔ طالبان نے اس پر پابندی لگا دی اور اس کے ارد گرد لوہے کی دیوار بنا دی اور لوگوں کو اس کے قریب جانے سے منع کر دیا اور اب اﷲ کے فضل سے اس کے قریب کوئی نہیں جاتا۔ اس کے علاوہ اس نے دو بوڑھے نقشبندیوں کا قصہ سنایا جس کا ذکر وزارت انصاف کے وزیر پہلے کر چکے ہے۔
میں نے ہمیشہ جامی ( قندھا ر کی مرکزی مسجد) میں ان گمراہوں کے خلاف بولا ہے۔ اور یہ کہ نفع اور نقصان دینے والا صرف اﷲ ہے۔ اور میں نے ہمیشہ ان کے لئے زیارت کا سنت طریقہ بیان کیاہے،کہ آپ صرف سلام کرنے جاؤ اور پھر واپسی کرو۔“
4 کیا طالبان متعصب اور حنفی مذہب کے اندھے مقلد ہیں؟
مفتی نظام الدین شامزئی رحمہ اللہ نے کہا”افغانی اور پاکستانی عوام اور علماءحنفی مذہب کے بارے میں انتہائی متعصب ہیں۔ لیکن جب روس سے جہاد میں عربی آئے اور افغان ان کے ساتھ گھل مل گئے، اور پھر تعلیم کے لئے افغان جزیرہ عرب چلے گئے۔ جس سے علماء میں تعصب بہت حد تک کم ہو گیا ہے اور کچھ علماءاور عوام میں تو بالکل ہی ختم ہو گیا ہے۔ جہاں تک طالبان کا تعلق ہے تو ان میں حنفی مذہب کے لئے تعصب بالکل نہیں ہے ، البتہ کچھ طالبان میں ہیں جو بہت تھوڑے ہیں اور ہم ان کو روک رہے ہیں اور تعلیم دے رہے ہیں“۔
امر بالمروف ونہی عن المنکر کے نائب وزیر نے کہا ”مسلمان آج کل تقسیم ہو گئے ہیں،ان میں اتفاق نہیں ہے۔ اور یہی تو یہودی اور عیسائی چاہتے ہیں۔ اس لئے انہوں نے گمراہ نظریات پھیلائے ہیں تاکہ مسلمانوں کو تقسیم کیا جائے۔ یہ وہابی ہے، وہ حنفی ہے، یہ شافعی ہے۔ یہ سب ہم کو تقسیم کرنے کے لئے ہے۔ ہم یہ نہیں چاہتے اور اسے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم مسلمانوں کو متحد کرنا چاہتے ہیں، کہ ہم ایک امت بن جائے ایک جسم کی طرح“۔
شیخ ابومصعب السوری نے کہا ”امیرالمومنین ملا محمد عمر حفظہ اللہ سے اور دوسرے طا لبان قائدین سے ثابت ہے کہ آ پ فقہ میں بہت سے موقعوں پر دلیل کو لیتے تھے اور اسی طرح عدالتی احکام میں بھی حنفی مذہب کے خلاف فیصلے کرتے تھے“۔
5 طالبان اور یونائیٹڈنیشن
شیخ ابو مصعب جب طالبان کی یونائیٹڈنیشن میں شمولیت کی درخواست کی تاویل بیان کر رہے تھے، تو آپ نے کہا کہ کچھ بھائی امیرالمومنین سے ملنے گئے تاکہ امیرالمومنین حفظہ اللہ انہیں اس کی وضاحت کریں ۔آپ نے فرمایا کہ طالبان نے اس درخواست کے ساتھ کچھ یہ شرط بھی دی ہے، کہ طالبان کوئی ایسا فیصلہ یا حکم تسلیم نہیں کریں گے جو شریعت کے خلاف ہو۔ اور طالبان کے بیانات سے یہ بات ظاہر ہے کہ انہوں نے بال یونائیٹڈنیشن کے ہاتھ میں تھما دی تھی۔ اگر وہ انکار کرتے ہیں تو طالبان قصوروار نہیں ہونگے۔ اس لئے انہوں نے شمولیت کے لئے ایسی شرط رکھی جو کفر نہیں تھا۔ اور یہ شرط اس لئے رکھی گئی کہ شرک سے بچا جائے۔ وہ کبھی بھی اس شرط کے بغیر یونائیٹڈ نیشن میں شامل ہونا نہیں چاہتے تھے۔ بلکہ یہ ایک حکمت عملی تھی۔ اور یہ طالبان کی تاویل ہے جب انہوں نےUN میں شامل ہونے کی حواہش ظاہر کی تھی۔
اسلامی مملکت کے سرکاری مبصر امین خان متقی نے کہا، کہ جب شیخ سید المصری نے پوچھا کہ ”طالبان نے کیوںUN میں شامل ہونے کی درخواست دی ہے، کیونکہ یہ تو ان کے تحریک کے مقصد (شریعت) کے خلاف ہے“۔ تو متقی نے جوا ب دیا” بے شک طالبان نے کبھی بھی ایک لمحے کے لئے یہ نہیں چاہا کہ بغیر کسی شرط کے UN میں شامل ہو جائیں۔ بلکہ انہوں نے ہمیشہ اس شرط پر زور دیا ہے کہ طالبان UN کا کوئی بھی حکم جوشریعت کے خلاف ہونہیں مانیں گے۔“ پھر شیخ نے پوچھا کہ اس طرح شرط کا ماننا بہت مشکل ہے کیونکہ کہ UN کے آئین کے خلاف ہے۔ “ تو متقی نے جواب دیا، ”اگر وہ ہمیں تسلیم نہیں کرتے، تو ہم بھی اپنے عقائد اور دین سے ہٹنے والے نہیں“۔
جب شیخ یوسف العیری نے مفتی نظام الدین شامزئی سے پوچھا، کیا یہ سچ ہے کہ طالبان نےUN میں شامل ہونے کی درخواست کی تھی۔ آپ نے جواب دیا، ہا ں یہ سچ ہے۔ میں اور کچھ اور علماءامیرالمومنین حفظہ اللہ کے پاس گئے تھے کہ ان کی رہنمائی کریں اس معاملے میں۔ تو امیرالمومنین حفظہ اللہ نے جواب دیا”مجھے اس کے سواء کچھ نہیں چاہئے کہ اسلامی مملکت کو تسلیم کیا جائے۔ ہم صرف ان احکام کو مانیں گے جو شرعی جائز ہو۔ “ ہم نے ان سے کہا ” یہ ممکن نہیں ہے، صرف UN میں شامل ہونا کفر ہے کیونکہ وہ کفریہ قوانین بناتے ہیں“۔ ہم وہاں سے چلے گئے اور آپ کو اکیلا چھوڑدیا۔آپ شک اور کشمکش میں پڑھ گئے۔ اور جب ہم ان سے اس سا ل ملنے گئے تو آپ نے ذہن سے UNکی شمولیت کا خیال نکال دیا تھا۔ “
شیخ یوسف العیری پھر لکھتے ہیں”ہم یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ جو کچھ ابو مصعب نے بیان کیا اور جو کچھ مفتی نظام الدین شامزئی رحمہ اللہ نے کہا کے درمیان نو مہنیے کا عرصہ ہے۔
اور اﷲ نے مجھے یہ سب کچھ جمع کرنے کی توفیق دی اور سب تعریفیں اﷲ کے لئے ہیں۔ اﷲطالبان کی مدد کرے اور انہیں حکومت اور طاقت واپس لوٹا دے۔
اور میں خاتمہ امیرالمومنین حفظہ اللہ کے الفاظ جو آپ نے اس وقت لکھے تھے جب ساری دنیاطالبان کے خلاف ایک ہو گئی تھی(1422.7.16ھ)۔”اور ان کا کیا حکم ہے جنہوں نے مسلمانوں کے مقابلے میں صلیبیوں کا ساتھ دیا، ان کے ساتھ لڑے، ان کی ہر طرح کی مدد اور معاونت کی؟
امت کا اجماع ہے اس بات پر، اور تمام امام اس پر متفق ہیں کہ ایسے حالات میں جو آج کل ہیں۔ ان صلیبیوں کے خلاف جہاد فرض عین ہے ہر مسلمان پر۔ بیٹے کو باپ سے اجازت کی ضرورت نہیں۔ نہ غلام کو مالک سے، نہ شوہر کو بیوی سے، نہ قرض دار کو محسن سے اجازت کی ضرورت ہے، اور اس بات پر تمام علماء متفق ہیں۔ اور یہی حکم ہے ان غاصبوں اور قابضوں کے لئے اور یہی مسلمانوں کا فریضہ ہے۔
جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جو ان صلیبیوں کا ساتھ دے رہے ہیں، تو ان کے لئے اﷲ نے صاف صاف کہہ دیا ہے۔
”اے ایمان والو! یہودو نصاری کو اپنے ساتھی نہ بناؤ۔ وہ ایک دوسرے کے ساتھی ہیں۔ اور تم میں سے جو کوئی بھی ان کو دوست بنائے گا، انہی میں سے ہوگا۔بے شک اﷲ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔“(المائدہ ، 51)
اس آیت میں اﷲ تعالی نے کچھ باتیں واضح کر دی ہیں۔جن میں سے:
1 یہود و نصاری کے ساتھ موالات(دوستی اور مدد) اور متحرہ ( مسلمانوں کے مقابے میں ان کی مدد کرنا) سے منع کیا گیا ہے۔
2 جو کوئی بھی ان کا ساتھی بنتا ہے، اور مسلمانوں کے مقابے میں ان کی مدد کرتا ہے، ان کا حکم انہی یہود و نصاری کی طرح ہے اور انہی میں سے ہے۔
3 ان سے دوستی منافقین کی روش اور طریقہ ہے۔
اور اﷲ نے فرمایا کہ جو بھی ان سے دوستی رکھے گا، اس کا اﷲ اور رسول پر ایمان زائل ہے۔
”تو ان میں سے بہتوں کو دیکھے گا کہ کافروں سے دوستی رکھتے ہیں۔کیا بری چیز وہ اپنے لئے آگے بھیجتے ہیں کہ اﷲ ان پر غصے ہواور عذاب میں وہ ہمیشہ رہیں۔ لیکن اگر وہ اﷲ، اس نبی اور اس پر جو اتارا گیا ہے، ایمان لائے تو انہیں دوست نہ بناتے، لیکن ان میں بہت سے نافرمان ہیں۔ “ (المائدہ ،79,80)۔
ان آیتوں اور دوسرے آیتوں سے علماء اس بات پر متفق ہیں ، کہ مسلمانوں کے مقابے میں کفار کی مدد کرنا، ناقض الایمان ہے۔ اور بندہ دائر ہ اسلام سے نکل کر کافر مرتد ہو جاتا ہے۔“
دستخط، ”اسلام اور مسلمانوں کا خادم، امیرالمومنین، ملا محمد عمر مجاہدحفظہ اللہ“
[HR][/HR]
1آپ مملکت اسلامیہ میں وزارت انصاف کے نائب وزیر تھے۔ اس کے علاوہ آپ ا فغانستان کے مشرق میں ایک قبیلے کے سردار بھی تھے۔
2آپ قند ہار کے گورنر تھے۔ آپ امیرالمومنین کے بہت قریب اور ان کے بعدطالبان تحریک میں دوسرے نمبر پر تھے۔ آپ کا تعلق ان مجاہدین سے تھا جنہوں نے روس کے خلاف جہاد کیا جس میں آپ نے ایک پاؤں کھویا۔ ہم ( شیخ یوسف العیری اور ان کے ساتھی) نے محسوس کیا، کہ آپ کو عربی میں باتیں کرنے میں دشواری تھی۔ لیکن اس کے باوجود عربیوں میں آپ کا بہت مرتبہ تھا۔ عربی آپ کی بہت تعریف کرتے اس گمراہی کے خلاف آپ کے عزم سے متاثر تھے۔ یہ جواب گورنر نے دیا تھا جب ان سے پوچھا گیا کہ طالبان کیا کہتے ہیں ان لوگوں کے بارے میں جو قبروں پر جاتے ہیں اوروہاں بدعت پھیلاتے ہیں۔
3آپ کی ساری عمر اس عقیدہ پر گزری کہ عمل ایمان کا حصہ نہیں ہے۔ لیکن بعد میں آپ نے رجوع کر لیا تھا اور اہل السنہ کے عقیدہ کو اپنا لیا تھا۔ تمہید ابن عبدالبر:۹/۷۴۲ ، اور شرح الطحاویہ :۵۹۳۔
4آپ امیرالمومنین کے دفترکے نمائندے تھے۔
 
Top