• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دعائے قربانی ﴿إني وجهت وجهي للذي۔۔۔﴾ والی حدیث کی تحقیق

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
دعائے قربانی ﴿إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي ۔۔۔الخ﴾ والی حدیث کی تحقیق

کفایت اللہ سنابلی

قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت ایک طویل دعاء: ﴿إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي ۔۔۔الخ﴾ کے الفاظ سے حدیث میں وارد ہے اس مضمون میں اسی حدیث کی استنادی حالت پربحث ہوگی ۔
سب سے پہلے یہ واضح ہو کہ قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت دعاء یا ذکر کے مختلف صیغے وارد ہیں اور کسی بھی صیغے کو پڑھ کرذبح کیا جاسکتا ہے۔ضروری نہیں ہے کہ طویل دعاء یا ذکر ہی پڑھ کر ذبح کیا جائے۔ذیل میں یہ سارے صیغے پیش کئے جاتے ہیں:
✿ 1۔ بِاسْمِ اللهِ وَاللهُ أَكْبَرُ (اللہ کے نام پراور اللہ سب سے بڑا ہے)[صحيح مسلم رقم1966]
✿ 2۔ بِاسْمِ اللهِ وَاللهُ أَكْبَرُ، {اللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ} (اللہ کے نام پراور اللہ سب سے بڑا ہے، اے اللہ! یہ تیرے فضل سے ہے اور تیرے لئے ہے)[صحيح مسلم رقم1966 ،مستخرج أبي عوانة رقم7798 وإسناده صحيح]
✿ 3۔ بِاسْمِ اللهِ وَاللهُ أَكْبَرُ،{ اللهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ} (اللہ کے نام پراور اللہ سب سے بڑا ہے، اے اللہ !اسے فلاں کی طرف سے قبول فرما)[صحيح مسلم رقم1966 ایضا رقم 1967]
✿ 4۔ بِاسْمِ اللهِ وَاللهُ أَكْبَرُ، {اللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ}، { اللهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ} ۔۔۔ (اللہ کے نام پراور اللہ سب سے بڑا ہے،اے اللہ! یہ تیرے فضل سے ہے اور تیرے لئے ہے، اے اللہ !اسے فلاں کی طرف سے قبول فرما) [صحيح مسلم رقم1966 ،مستخرج أبي عوانة رقم7798 وإسناده صحيح ،صحيح مسلم رقم 1967]
✿ 5۔ ﴿إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ،إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ، لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ﴾، بِاسْمِ اللهِ وَاللهُ أَكْبَرُ، اللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ ، { اللهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ} ۔۔۔ (میں اپنا رخ اس کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا یکسو ہو کر، اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں ، یقینا میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے جو سارے جہان کا مالک ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھ کو اسی کا حکم ہوا ہے اور میں سب ماننے والوں میں سے پہلا ہوں ،اللہ کے نام پراور اللہ سب سے بڑا ہے،اے اللہ! یہ تیرے فضل سے ہے اور تیرے لئے ہے، اے اللہ !اسے فلاں کی طرف سے قبول فرما)[مسند أحمد 3/ 375 ط الميمنية ،رقم 15022 وإسناده صحيح ،صحيح مسلم رقم 1967]

وضاحت
{اللهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ} (اے اللہ! اسے قبول فرما فلاں کی طرف سے ) والی دعاء پڑھی جائے تو(مِنْ) کے بعداس شخص کا نام لیا جائے جس کی طرف سے قربانی پیش کی جارہی ہے۔اوراگراس شخص کے ساتھ اس کے تمام گھر والوں کی طرف بھی وہی قربانی پیش کی جارہی ہے تو اس طرح پڑھے:
{اللهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ فلاں و مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ} (اے اللہ اسے قبول فرما فلاں اوراس كے گھر والوں کی طرف سے )۔

اوراگر کوئی شخص خود اپنی طرف سے قربانی پیش کررہا ہے تو وہ ان الفاظ کو اس طرح پڑھے:
{اللهُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّي} (اے اللہ! اسے قبول فرما میری طرف سے ) ۔اوراگر کوئی اپنی طرف سے اور اپنے اہل خانہ کی طرف سے قربانی پیش کررہا ہے تو اس طرح پڑھے : {اللهُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّي و مِنْ أَهْلِ بَيْتِي}(اے اللہ! اسے قبول فرما میری طرف سے اور میرے گھروالوں کی طرف سے )

تنبیہ:
مؤخر الذکر طویل صیغے میں قرآنی آیات کے آخری حصے ﴿وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ﴾ کے تعلق سے بعض اہل علم نے بحث کی ہے کہ اسے ایسے ہی پڑھیں گے یا اسے وانا من المسلمین پڑھیں گے دیکھئے:[أصل صفة الصلاة للالبانی: 1/ 246]
اور غالبا اسی بحث سے متاثر ہو کر بعض رواۃ نے روایت کے اندر بھی اسے بدل دیا ہے اور «اول المسلمين» کو «من المسلمين» بنادیا ہے ،[سنن أبي داود 3/ 95 رقم2795 ]
لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہاں ویسے ہی پڑھا جائے جیسے قرآن میں ہے نیز ابوداؤد کی روایت جس میں یہ الفاظ تبدیل شدہ ہیں وہ سندا ضعیف بھی ہے اس کے برعکس جو صحیح روایت ہے جس پر آگے بحث آرہی ہے اس میں یہ الفاظ قرآن کے موافق ہی ہیں ۔

درج بالا پانچوں صیغوں میں سے کسی بھی صیغے سے ذکر ودعاء پڑھ کر قربانی کا جانور ذبح کیا جاسکتا ہے،اول الذکر چارصیغوں کی بابت کوئی اختلاف نہیں ہے، پانچویں صیغے سے متعلق متقدمین علماء میں کوئی اختلاف مجھے نہیں معلوم ، البتہ معاصرین میں اس صیغے کو لیکر اختلاف ہوگیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیاہے۔ لیکن ہماری نظر میں یہ حدیث صحیح ہے جیساکہ آگے تفصیل آرہی ہے۔

علامہ البانی رحمہ اللہ کا رجوع :
میرے علم کی حدتک علامہ البانی رحمہ اللہ سے قبل کسی بھی محدث نے اس حدیث کو ضعیف قرار نہیں دیا ہے ، سب سے پہلی شخصیت جس نے اس حدیث کی تضعیف کی وہ علامہ البانی رحمہ اللہ ہی تھے ۔ لیکن بعد میں علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی تضعیف سے رجوع فرمالیا اور مشکاۃ کی دوسری تحقیق میں اسے حسن قرار دیتے ہوئے لکھا:
”ثم حسنته لرواية ثلاثة من الثقات عن المعافري ، وتصحيح ابن خزيمة ، والحاكم ،والذهبي“
”پھرمیں نے اسے حسن قرار دیا ، کیونکہ معافری سے تین لوگوں نے روایت کیا ہے اوراس کی حدیث کو امام ابن خزیمہ ، امام حاکم اورذہبی نے صحیح قراردیا ہے“ [هداية الرواة:ج2ص:128 حاشية2]

لیکن بعض اہل علم اب بھی اس حدیث کو ضعیف کہتے ہیں ، اس لئے ذیل میں اس حدیث کی پوری تحقیق پیش خدمت ہے:

سب سے پہلے دعائے قربانی والی روایت کو مع سند ومتن دیکھتے ہیں ،امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
حدثنا يعقوب ، حدثنا أبي ، عن ابن إسحاق ، حدثني يزيد بن أبي حبيب المصري ، عن خالد بن أبي عمران ، عن أبي عياش ، عن جابر بن عبد الله الأنصاري ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ذبح يوم العيد كبشين ، ثم قال حين وجههما : إني وجهت وجهي للذي فطر السموات والأرض ، حنيفا مسلما ، وما أنا من المشركين ، إن صلاتي ، ونسكي ، ومحياي ، ومماتي لله رب العالمين ، لا شريك له ، وبذلك أمرت ، وأنا أول المسلمين ، بسم الله ، والله أكبر ، اللهم منك ، ولك عن محمد ، وأمته.[مسند أحمد 3/ 375 ط الميمنية ،وإسناده صحيح ومن طريق أحمد أخرجه الحاكم في ”المستدرك“ (1/ 467 : ط الهند) والبيهقي في ”الدعوات الكبير“ ( 2/ 172)، وأخرجه أيضا ابن خزيمه في ”صحيحه“ (4/ 287) رقم (2899 ) من طريق أحمد بن الأزهر عن يقوب به]

یہ سند بالکل صحیح ہے اس کے سارے راوی ثقہ ہیں ، ہرایک کا مختصر تعارف ملاحظہ ہو:

يعقوب بن إبراهيم القرشي:
آپ بخاری ومسلم کے راوی اوربالاتفاق ثقہ ہیں، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: ثقة فاضل [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم7811]۔

إبراهيم بن سعد الزهري:
آپ بھی بخاری ومسلم کے راوی ہیں اوربہت بڑے ثقہ ہیں، حافظ ابن حجررحمہ اللہ کہتے ہیں:ثقة حجة [مقدمة فتح الباري: ص: 385]۔

محمدابن إسحاق القرشي:
آپ بھی بخاری (تعلیقا) ومسلم(شواہدومتابعات) کے راوی ہیں البتہ بخاری میں آپ کی مرویات تعلیقا ہیں ، آپ کے بارے میں اہل فن کے اقوال مختلف ہیں لیکن راجح قول کے مطابق آپ ثقہ ہیں ،امام شعبہ جیسے جلیل القدر محدث نے انہیں أمير المؤمنين في الحديث کہا ہے [تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 1/ 228 وسندہ صحیح]۔امام خلیلی فرماتے ہیں: عالم واسع العلم ثقة[الإرشاد في معرفة علماء الحديث للخليلي: 1/ 288] کمال الدین ابن الہمام حنفی (المتوفى 861 )نے کہا:أما ابن إسحاق فثقة ثقة لا شبهة عندنا في ذلك ولا عند محققي المحدثين [فتح القدير للكمال ابن الهمام1/ 424]۔

آپ مدلس ہیں لیکن ”إبراهيم بن سعد الزهري“ نے مذکورہ سند میں انہوں نے سماع کی صراحت کردی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ ابن اسحاق نے یہ حدیث اپنے استاذ سے سن رکھی ہے۔
اس تصریح سماع پر بدر بن عبد الله البدر صاحب نے ایک عجیب اعتراض کیا ہے کہ ابن اسحاق کے دیگر شاگردوں نے سماع کی صراحت کے بجائے ابن اسحاق سے عن سے روایت کیا ہے۔[الدعوات الكبير للبيهقي 2/ 172 حاشیہ]
عرض ہے کہ:
اولا:
یہ اعتراض اس وقت درست ہوسکتا جب یہ ثابت کردیا جائے کہ ابن اسحاق سے سارے شاگردوں نے ایک ہی مجلس میں سنا ہے ، کیونکہ ایک ہی مجلس میں ابن اسحاق کوئی ایک ہی صیغہ بیان کرسکتے ہیں ۔
لیکن اگر شاگردوں نے الگ الگ مجلس میں سنا ہو تو پھر ابن اسحاق کسی سے بصیغہ عن بیان کرسکتے ہیں اورکسی سے بصیغہ سماع ، اور ایسی صورت میں مخالفت ثابت ہی نہیں ہوگی ۔بلکہ یہ مانا جائے گا کہ ابن اسحاق نے یہ حدیث اپنے استاذ سے سنی ہے پھر کبھی صیغہ سماع سے اور کبھی عن سے ۔اور مدلس کا اپنی مسموع روایت کو صیغہ عن سے بیان کرنے صیغہ سماع سے بیان کرنے کے منافی نہیں ہے ۔
لہٰذا جب اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ ابن اسحاق کے سارے شاگردوں نے ایک مجلس میں سنا ہے تو پھر بغیر کسی ثبوت کے ایک ثقہ شاگرد کے بیان کر غلط نہیں قرار دیا جاسکتا بلکہ سارے ثقہ شاگردوں کی بیان میں یہ کہہ کرتطبیق دی جائے گی کہ ابن اسحاق نے کسی مجلس میں عن سے بیان کیا ہےا ور کسی مجلس میں سماع سے۔
ثانیا:
جن شاگردوں نے ابن اسحاق سے عن کا صیغہ نقل کیا ہے ان کے تعلق سے بھی یہ ممکن ہے کہ ابن اسحاق نے ان سے بھی صیغہ سماع سے بیان کیا ہوں لیکن انہوں نے عن کے ذریعہ ہی نقل کیا ، کیونکہ یہ بات مسلم ہے کہ رواۃ ہمیشہ صیغہ سماع کو جوں کا توں نقل نہیں کرتے، بلکہ صیغہ سماع کو عن سے بھی بدل کرنقل کرتے ہیں ۔کیونکہ عن کے اندر سماع کا معنی بھی ہوتا ہے۔بنابریں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ جن شاگردوں نے عن سے نقل کیا ہے انہوں نے سماع کا انکار کیا ہے۔
ثالثا:
جب تک خاص اور مضبوط دلیل سے یہ ثابت نہ ہوجائے کہ کسی ثقہ راوی نے صیغہ سماع کو نقل کرنے میں غلطی کی ہے ، تب تک بغیر دلیل کے ثقہ راوی کی تغلیط نہیں کی جاسکتی ہے ورنہ پھر یہ اصول ہی کالعدم ہوجائے کہ عن سے روایت کرنے والا مدلس کسی طریق میں سماع کی صراحت کردے تو عنعنہ مقبول ہوگا ۔

يزيد بن أبي حبيب المصري:
آپ بھی بخاری ومسلم کے راوی اوربالاتفاق ثقہ ہیں، حافظ ابن حجررحمہ اللہ فرماتے ہیں:ثقة فقيه[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 7701]۔

آپ ارسال کرنے والی راوی ہیں ،لیکن یہ حدیث انہوں نے اپنے استاذ خالد بن أبي عمران سے نقل کی ہے ، اور ارسال کرنے والا جب اپنے معاصر استاذ سے نقل کرتا ہے تو بالاتفاق اسے سماع پر ہی محمول کیا جاتا ہے۔
البتہ اس حدیث میں کبھی انہوں نے اپنے استاذ خالد بن أبي عمران کو ساقط کرکے ارسال کیا ہے جیساکہ ابن اسحاق کی دوسری معنعن سند میں یزید بن ابی حبیب کے بعد خالد بن أبي عمران کا ذکر ساقط ہے کماسیاتی ۔
لیکن ابن اسحاق کی مصرح بالسماع والی روایت میں یزیدبن حبیب کے استاذ خالد بن أبي عمران کا ذکر موجود ہے ، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ابن اسحاق نے ان سے مرسلا اور موصولا دونوں طرح سن رکھا ہے اور دونوں طرح روایت کیا ہے ۔لہٰذا جب موصول سند میں ساقط راوی کا ذکر آگیا تو مرسل سند سے ساقط راوی کا نام معلوم ہوگیا لہٰذا وہ بھی صحیح ہے۔
اگر کوئی دونوں کو صحیح نہ مانے تو کم ازکم موصول سند کو اسے ماننا ہوگا کیونکہ اس سند کو ابن اسحاق نے صیغہ سماع کے ساتھ نقل کیا ہے جبکہ مرسل سند کو ابن اسحاق نے عن سے روایت کیا ہے اور یہ تیسرے طبقے کے مدلس ہیں ۔
یادرہے کہ مرسل سند میں خالد بن ابی عمران کا اسقاط یزید بن ابی حبیب ہی کی طرف سے کیونکہ ارسال کرنا ان کی عادت ہے جیساکہ ائمہ فن نے صراحت کی ہے ۔[المراسيل لابن أبي حاتم ت قوجاني: ص: 239]
اس کے برعکس یہ ماننے کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ یہ اسقاط ابن اسحاق کی طرف سے ہے کیونکہ ایسی صورت میں یہ تدلیس تسویہ کی صورت ہوجائے گی اور ابن اسحاق تدلیس تسویہ کرنے والے راوی نہیں ہیں ، اس لئے واضح ہے کہ یہ اسقاط ان کی طرف سے نہیں بلکہ ان کے شیخ کی طرف سے ہے۔
بہرحال جو راوی ساقط کیا گیا تھا اس کا ذکر صحیح سند میں آچکا ہے اس لئے یہ عیب باقی نہیں رہا ۔

خالد بن أبي عمران:
آپ مسلم کے راوی اوربالاتفاق ثقہ ہیں ، امام ابوحاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ثقة لا بأس به [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 3/ 345]۔

أبو عياش الزرقي:
آپ مؤطا امام مالک ، سنن اربعہ ، مسند احمد ، سنن دارمی ،صحیح ابن خزیمہ،صحیح ابن حبان اور مستدرک وغیرہ کے رجال میں سے ہیں، امام ابن حبان رحمہ اللہ نے انہیں ثقہ کہا ہے[الثقات لابن حبان ط االعثمانية: 4/ 251] اسی طرح امام ابن خلفون رحمہ اللہ نے بھی انہیں ثقہ کہاہے [إكمال تهذيب الكمال:5 /167]، حافظ ابن حجر نے امام دارقطنی سے ثقة ثبت کےالفاظ نقل کئے ہیں[تلخيص الحبير 3/ 10]، امام دارقطنی کی توثیق کو حافظ مغلطای[إكمال تهذيب الكمال:5 /167]، اور حافظ سخاوی نے بھی نقل کیا ہے[التحفة اللطيفة في تاريخ المدينة الشريفة 1/ 372]۔ علامہ عینی حنفی نے بھی ثقہ کہا ہے [ البناية شرح الهداية 8/ 288]۔علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی انہیں ثقہ تسلیم کیا ہے [إرواء الغليل للألباني: 4/ 350] بعض نے انہیں مجہول کہا لیکن دوسرے کے ائمہ کی طرف سے صریح توثیق آجانے کے بعد اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

جابر بن عبد الله الأنصاري:
آپ معروف ومشہور صحابی ہیں بخاری ومسلم میں آپ کی بھی مرویات ہیں ۔

معلوم ہوا کہ روایت بالکل صحیح ہے ، والحمدللہ۔

بعض حضرات نے درج اس حدیث کو ضعیف قراردینے کے لئے درج ذیل تین اعتراضات کئے ہیں :

  • (1) سند کا اختلاف
  • (2) ابو عیاش کی عدم توثیق
  • (3) صحیح حدیث کی مخالفت۔

اب بالترتیب ہم ان تینوں اعتراضات کا جائزہ لیتے ہیں :
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
پہلا اعتراض : سندکا اختلاف


بعض حضرات کا کہنا ہے کہ سنن ابوداؤد وغیر میں یزیدبن ابی حبیب اورابوعیاش کے درمیان کوئی واسطہ نہیں ہے جبکہ مسند احمد میں ان کے درمیاں خالد بن ابی عمران کا واسطہ ہے۔
عرض ہے کہ جس سند میں خالد بن ابی عمران کا واسطہ نہیں ہے وہ سند اصول حدیث کی رو سے ثابت ہی نہیں ہے۔اور حقیقت یہ ہے کہ زیربحث حدیث کی سند صرف ایک ہی کیفیت کے ساتھ ثابت ہے جسے اوپر مسنداحمد کے حوالہ سے نقل کیا جاچکا ہے اور اس میں خالد بن ابی عمران کا ذکر موجود ہے ، اس سے ہٹ کر جس طریق میں خالد بن ابی عمران کا ذکر نہیں ہے اس کا دارومدار ابن اسحاق کا وہ طریق ہے جس میں انہوں نے عن سے روایت کیا ہے چنانچہ:

امام دارمی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي عَيَّاشٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: ضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَبْشَيْنِ فِي يَوْمِ الْعِيدِ، فَقَالَ حِينَ وَجَّهَهُمَا: «إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ، اللَّهُمَّ إِنَّ هَذَا مِنْكَ وَلَكَ، عَنْ مُحَمَّدٍ وَأُمَّتِهِ»، ثُمَّ سَمَّى اللَّهَ وَكَبَّرَ وَذَبَحَ [سنن الدارمي 2/ 1239 واخرجہ ایضا الطحاوی فی شرح معاني الآثار (4/ 177) وابن حاتم فی تفسيرہ (5/ 1434) و البیھقی فی السنن الكبرى (9/ 482) و شعب الإيمان (9/ 438) و فضائل الأوقات(ص: 400) و الدعوات الكبير (2/ 172) من طریق أحمد بن خالد الوهبي ، واخرجہ ایضا ابوداؤ فی سنننہ (3/ 95) و البیہقی فی السنن الكبرى (9/ 482) من طریق عيسى بن يونس السبيعي ، واخرجہ ایضا ابن ماجہ فی سننہ (2/ 1043) من طريق إسماعيل بن عياش، واخرجہ ایضا البیھقی فی شعب الإيمان 9/ 438 و المزی فی تهذيب الكمال : 34/ 164من طريق يزيد بن زريع ، کلھم (أحمد بن خالد و عيسى بن يونس و إسماعيل بن عياش و يزيد بن زريع) عن ابن اسحاق معنعنا بہ ]۔

اور ابن اسحاق مشہور مدلس ہیں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے انہیں چوتھے طبقہ کے مدلسین میں ذکرکیا ہے ،دیکھیں [الفتح المبين في تحقيق طبقات المدلسين: ص: 72]۔

معلوم ہوا کہ جس طریق میں خالد بن ابی عمران کا ذکر نہیں ہے وہ طریق ثابت ہی نہیں ، لہٰذا غیرثابت طریق کو بنیاد بناکر سندمیں اختلاف کا دعوی درست نہیں ہے۔
نیز جب صحیح روایت سے ثابت ہوگیا کہ یزید بن ابی حبیب اور ابوعیاش کے بیچ ایک واسطہ ہے تو پھر اس محذوف واسطہ والی سند میں یزید بن ابی حبیب کا ارسال مانا جائے گا کیونکہ یہ ارسال کرنے والے راوی ہیں کمامضی ۔
اور صحیح سند کی بنیاد پر یہ کہا جائے گا کہ یہ محذوف واسطہ معلوم ہوچکا ہے کہ اس لئے اس مرسل سند میں بھی عیب باقی نہیں رہا ۔

سند کے اختلاف میں دوسری بات یہ کہی جاتی ہے کہ سنن بیہقی میں یزیدبن خالدبن ابی عمران کا ذکر جو کہ دیگرسند کے خلاف ہے ۔
عرض ہے کہ امام بیہقی رحمہ اللہ کے الفاظ یہ ہیں:
أخبرنا أبو عبد الله الحافظ ثنا أبو العباس محمد بن يعقوب ثنا أبو زرعة الدمشقي ثنا أحمد بن خالد الوهبي عن محمد بن إسحاق ح وأخبرنا أبو علي الروذباري أنبأ محمد بن بكر ثنا أبو داود ثنا إبراهيم بن موسى الرازي ثنا عيسى ثنا محمد بن إسحاق عن يزيد بن أبي حبيب عن أبي عياش عن جابر بن عبد الله رضي الله عنه قال : ذبح النبي صلى الله عليه و سلم يوم الذبح كبشين أقرنين املحين موجئين فلما وجههما قال إني وجهت وجهي للذي فطر السماوات والأرض على ملة إبراهيم حنيفا وما أنا من المشركين إن صلاتي ونسكي ومحياي ومماتي لله رب العالمين لا شريك له وبذلك أمرت وأنا من المسلمين اللهم منك ولك عن محمد وأمته بسم الله والله أكبر ثم ذبح صلى الله عليه و سلم لفظ حديث عيسى بن يونس وفي رواية الوهبي ذبح رسول الله صلى الله عليه و سلم كبشين يوم العيد فلما وجههما قال فذكر الدعاء ثم قال اللهم منك ولك عن محمد وأمته وسمى وذبح ورواه إبراهيم بن طهمان عن محمد بن إسحاق وقال في الحديث وجههما إلى القبلة حين ذبح وقيل عن محمد بن إسحاق عن عن يزيد بن خالد بن أبي عمران عن أبي عياش عن جابر رضي الله عنه[السنن الكبرى للبيهقي: 9/ 287]۔

مکمل الفاظ دیکھنے سے حقیقت یہ سامنے آتی ہے کہ بیہقی کی تخریج کردہ روایت کی سند بھی ابن اسحاق کی معنعن ضعیف روایت ہی کی طرح ہے اور اس روایت کو امام بیہقی نے نقل کرنے بعد ''قیل'' کے صیغہ سے کہا ہے:
وقيل عن محمد بن إسحاق عن يزيد عن خالد بن أبي عمران عن أبي عياش عن جابر رضي الله عنه[السنن الكبرى للبيهقي: 9/ 287]۔
یعنی امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس روایت کی تخریج نہیں کی ہے اس لئے یہ ادھوری سند ثابت ہی نہیں ہے اس لئے غیر ثابت سند سے اختلاف ثابت نہیں ہوسکتا۔
نیز یہ بات قابل ملاحظہ ہے کہ بیھقی کی ذکر کردہ ادھوری سند میں کیا واقعی ''خالد بن أبي عمران'' کی جگہ ''يزيد بن خالد بن أبي عمران'' ہے ؟ اس وقت بیہقی کے صرف دو مخطوطوں تک میری رسائی ہے ایک مخطوطہ تو ناقص ہے جس میں یہ متعلقہ الفاظ موجود ہی نہیں جبکہ دوسرے مخطوطہ میں یہ الفاظ موجود ہیں لیکن اگر مسنداحمد کی پیش کردہ سند کو سامنے رکھاجائے تو یقین کی حدتک یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ بیہقی کے نسخہ میں تصحیف ہوئی ہے اور ''يزيد بن خالد بن أبي عمران''کے بجائےاصل الفاظ ''يزيد عن خالد بن أبي عمران'' ہیں یعنی صرف ایک حرف کا فرق ہے اور وہ یہ کہ ''عن'' کا حرف عین(ع) حرف باء(ب) سے بدل گیا ہے اورصحیح ''یزید عن'' ہے نہ کہ ''یزیدبن'' ، اور ''یزید'' سے مراد ''یزیدبن ابی حبیب'' ہیں جیساکہ مسنداحمد وغیرہ میں ہے۔

اوراس کی ایک زبردست دلیل یہ ہے کہ خود امام بیہقی ہی نے یہی بات اپنی دوسری کتاب شعب الایمان میں یوں کہی ہے:
وَرَوَاهُ إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ يَزِيدَ بْنَ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِي عِمْرَانَ، عَنِ ابْی عَيَّاشٍ، عَنْ جَابِرٍ[شعب الإيمان، ت زغلول: 5/ 475]۔
غور کریں کہ اس کتاب میں امام بیہقی رحمہ اللہ نے واضح طور پر ''یزید بن ابی حبیب'' پورا نام ولدیت کے ساتھ ذکر کیا ہے اور اس کے بعد ''عن'' ہے، یہ اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ امام بیہقی کی ذکر کردہ اس ادھوری سند میں بھی کوئی الگ بات نہیں ہے بلکہ انہیں کی دوسری کتاب ''شعب الایمان'' ہی کے موافق ہے ، چنانچہ شعب الایمان کے محقق نے یہ عبارت دیکھنے کے بعد سنن بیہقی کے محقق پر تعاقب کیا ہے کہ وہ سنن بیہقی کے اس مصحف مقام کی تصحیح نہیں کرسکے اور دونوں ناموں کو ایک نام سمجھ لیا اور ویسے ہی چھاپ دیا ، ملاحظہ ہوں، شعب الایمان کے محقق کے الفاظ:
ولم یفطن محقق سنن البیہقی الی یزیدبن حبیب وخالد بن بی عمران فابقی علی جعلھما اسما واحدا ''یزید بن خالد بن ابی عمران''
یعنی سنن بیہقی کے محقق یہ نہیں جان سکے کہ ''یزیدبن ابی حبیب'' اور ''خالد بن ابی عمران'' دو الگ الگ نام ہیں اس لئے انہوں ان دونوں کو ایک ہی نام '' یزید بن خالد بن ابی عمران'' سمجھ لیا[شعب الإيمان، ت زغلول: 5/ 475]۔
معلوم ہوا کہ سند کے اس اختلاف کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے کیونکہ سنن بیہقی کے مخطوطہ میں تصحیف ہوئی اور مخطوطات میں تصحیف ہوجانا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے اس لئے جب دیگر طرق سے اس طرح کی تصحیف کا اشارہ ملے تو اسے قبول کرنا چاہئے چنانچہ سنن بیھقی ہی کا جونسخہ مرکزہجر سے طبع ہوا ہے اس کے محقق نے حاشیہ میں درست عبارت کی نشاندہی کردی ہے اور مکتبہ شاملہ کے ایک نسخہ میں شاملہ والوں نے باقاعدہ تصویب بھی کردی ہے ۔
اور اگر اس تصویب کو قبول نہ بھی کیا جائے تب بھی بیھقی کے ان الفاظ سے سند میں اختلاف کی دلیل نہیں لی جاسکتی کیونکہ اس اختلاف کا کوئی ثبوت ہی نہیں۔

الغرض یہ کہ اس روایت کی صرف ایک سند ثابت ہے اوراس میں کوئی اختلاف نہیں جس میں اختلاف ہے وہ ثابت ہی نہیں اس لئے اس کا کوئی وزن ہی نہیں ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
دوسرا اعتراض:”أبو عياش“کی عدم توثیق

بعض حضرات کہتے ہیں کہ اس روایت کی سند میں «ابوعیاش المعافری مصری» ہے اور اس کی کسی نے توثیق نہیں کی ہے ۔
جوابا عرض ہے کہ ان حضرات نے زیر بحث روایت کی سند میں موجود «ابوعیاش»سے «ابوعیاش المعافری» مراد لیا ہے ، جبکہ تحقیق کی روشنی میں قرائن یہی بتلاتے ہیں کہ یہاں ابوعیاش سے مراد”أبو عياش المعافری“ نہیں بلکہ”أبو عياش الزرقى“ہے ۔اس پردلائل دینے سے قبل آئیے ان دونوں کا تعارف دیکھ لیتے ہیں۔

دونوں”أبو عياش“ کا تعارف

أبو عياش المعافری کا تعارف:
ان کا نام ”فرّوخ بن النعمان“ ہے ، نسبت ”المعافرى“ ہے ، رہائش ”مصر“ کی ہے ۔
یعنی یہ «ابوعیاش ،فرّوخ بن النعمان، المعافری، المصری» ہیں۔
ابن یونس المصری نے ان کا تذکرہ کیا ہے جیساکہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے امام ذہی فرماتے ہیں:
فروخ بن النعمان، أبو عياش المعافري. عن: علي، ومعاذ، وابن مسعود، وعبادة بن الصامت، وغيرهم. حدث بمصر.روى عنه: يزيد بن أبي حبيب، وبكر بن سوادة، وخالد بن أبي عمران. ذكره ابن يونس.
فروخ بن النعمان أبو عياش المعافري ، انہوں نے علی ، معاذ ، ابن مسعود اور عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہم وغیرہ سے روایت کیا ہے ، انہوں نے مصر میں تحدیث کی ، ان سے يزيد بن أبي حبيب، بكر بن سوادہ، خالد بن أبي عمران نے روایت بیان کی ہے ، امام ابن یونس نے ان کا تذکرۃ کیا ہے۔[تاريخ الإسلام ت بشار 2/ 988]

ابن یونس کے علاوہ کسی امام نے ابوعیاش کا نام نہیں بتایا ہے امام مزی کو بھی ان کے نام کا علم نہیں تھا اس لئے انہوں نے اس کا تذکرۃ صرف ان کی کنیت سے کیا اور امام ابواحمد الحاکم سے نقل کیا کہ اس کانام معروف نہیں ہے[تهذيب الكمال للمزي: 34/ 163]
لیکن امام ذہبی نے ابن یونس المصری کے حوالہ سے ان کا ترجمہ نقل کیا جس میں ان کا نام بھی مذکورہے،امام ابن یونس المصری کی یہ نص ابن حجررحمہ اللہ کے سامنے بھی تھی اسی لئے انہوں نے تہذیب میں ابوعیاش المعافری کے تلامذہ میں بكر بن سوادہ کا بھی اضافہ کیا اور ان کا نام بھی بتایا ہے ابن حجر نے ابوعیاش المعافری کے ترجمہ میں کہا:
وبكر بن سوادة ذكره ابن يونس وقال فيه أبو عياش بن النعمان
اور ان سے بكر بن سوادة نے بھی روایت کیا ہے اسے ابن یونس نے ذکر کیا ہے اور اس کا نام ابوعیاش بن النعمان بتایا ہے[تهذيب التهذيب لابن حجر، ط الهند: 12/ 194]
ابوعیاش المصری کے تلامذہ میں ، بكر بن سوادة کا ذکر، امام ذہبی کی اس عبارت میں بھی ہے جسے انہوں نے ابن یونس سے نقل کیا ہے۔

تنبیہ بلیغ:
❀ دکتور عبدالفتاح نے متاخرین ائمہ کی کتب میں منقول ابن یونس المصری کے اقوال کو جمع کرکے ”تاریخ ابن یونس“ کے نام سے ایک کتاب مرتب کی ہے اس میں موصوف نے ابوعیاش المصری کو دو راوی بنا کر دو جگہ اس کا ترجمہ نقل کیا ہے۔
ایک جگہ ان کا نام ”فرّوخ بن النعمان المعافرى، أبو عيّاش“ ذکر کیا ہے ۔اوردوسری جگہ ان کا نام ”أبو عيّاش المعافرى المصرى: أبو عيّاش بن النعمان“ ذکرکیا ہے ۔[تاريخ ابن يونس المصرى 1/ 394 ایضا 523]
یہ دکتور صاحب کا وہم ہے کیونکہ ابن یونس نے دو ابوعیاش کو نہیں بلکہ ایک ہی ابوعیاش کو ذکر کیا ہے ، امام ذہبی نے ابن یونس کی مکمل عبارت نقل کی ہے اور ابن حجررحمہ اللہ نے صرف ان کا نام اور ان کے ایک شاگرد کو نقل کیا ہے اس سے دکتور صاحب نے یہ سمجھ لیا کہ یہ دونوں الگ الگ راوی ہے ۔
حالانکہ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابوعیاش کا نام اور ان کے ایک شاگرد کو نقل کیا ہے اور یہ دونوں باتیں امام ذہبی کی نقل کردہ عبارت میں بھی موجود ہیں۔ بلکہ ملاحظہ کریں کہ دونوں کا نام ”ابن النعمان“ اور نسبت ”المعافری“ اور کنیت ”ابوعیاش“ ، ایک ہی ہے ، اس لئے یہ دو الگ الگ نہیں بلکہ ایک ہی راوی ہیں۔
دکتور صاحب سے ایک اور تسامح ہوا ہے وہ یہ کہ انہوں نے دوسرے مقام پر ابوعیاش المعافری کے اساتذہ میں جابر رضی اللہ عنہ کانام ذکرکرکے یہ لکھا کہ جابر رضی اللہ عنہ سے ابوعیاش نے قربانی کے بارے میں روایت نقل کی ہے حالانکہ یہ عبارت تہذیب التہذیب میں ابن حجر رحمہ اللہ کی ہے نہ کہ ابن یونس المصری کی ، اور ابن حجر رحمہ اللہ نے یہ بات امام مزی کے کلام کا خلاصہ کرتے ہوئے لکھا ہے اور ابن یونس کے حوالے سے صرف ابوعیاش کا نام اور ان کے ایک شاگرد کا اضافہ کیا ہے۔ ❀

الغرض یہ کہ أبو عياش المعافری المصری کا سب سے مفصل تذکرہ مصر ہی کے امام ابن یونس المصری نے کیا ہے اس لئے ان کا بیان سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔
یہاں ملاحظہ فرمائیں کہ امام ابن یونس المصری نے ابوعیاش المصری کے اہم اساتذہ کی یہ فہرست دی ہے:
علي، معاذ، ابن مسعود اور عبادة بن الصامت
اس فہرست میں جابر رضی اللہ عنہ کا ذکر نہیں ہے حالانکہ جابر رضی اللہ عنہ ایک جلیل القدر بدری صحابی ہیں اورقربانی سے متعلق انہیں سے ابوعیاش نامی راوی کی روایت سنن ومسانید وغیرہ میں منقول اور بہت مشہور ہے۔
اگرامام ابن یونس المصری کی نظر میں جابر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں ابو عیاش یہ المعافری ومصری ہی ہوتے تو وہ یہاں ابوعیاش کے اساتذہ میں جابر رضی اللہ عنہ کا ذکر بھی ضرور کرتے ،کیونکہ یہ حدیث تو بہت مشہور ہے ۔
جبکہ یہاں ابن یونس المصری نے ابوعیاش المافری کے جن اساتذہ کا ذکر کیا ہے ان میں سوائے معاذ بن جبل کے کسی اور سے ابوعیاش المافری کی روایت معروف ومتداول دواوین حدیث میں نہیں ملتی۔
کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ ابن یونس المصری اپنے وہم وطن ابوعیاش المعافری المصری کے ان اساتذہ کا تو ذکرکریں جن سے ان کی روایت غیر مشہور ہو ، اور جس استاذ سے ان کی روایت سب سے زیادہ مشہور ہو اسے ذکر ہی نہ کریں ؟؟
بلکہ عبد الرحمن بن عبد الله بن عبد الحكم لمصري (المتوفى 257 ) نے بھی اپنی کتاب ”فتوح مصر“ میں جابر رضی اللہ عنہ سے اہل مصر کی روایات پیش کی ہیں ، لیکن ابوعیاش کی نہ تو کوئی روایت پیش کی ہے نہ ہی اس کی طرف کوئی اشارہ کیا ہے۔ [فتوح مصر والمغرب ص: 303 ، 304]
اس سے یہی سمجھ میں آرہا ہے کہ ابو عیاش المعافری نے جابر رضی اللہ عنہ سے کوئی روایت بیان ہی نہیں کی ہے ورنہ مصری مؤرخین اس کاتذکرہ ضرور کرتے ۔
اس بات کی مزید تائید اس سے ہوتی ہے کہ جابر رضی اللہ عنہ سے ابوعیاش کے طریق سے جتنی بھی روایات ہیں کسی ایک میں بھی ابوعیاش کی تعین المافری سے وارد نہیں ہے جبکہ اس کے برعکس اس طریق کی کئی ایک روایات میں ابوعیاش کی تعیین الزرقی سے موجود ہے۔(کماسیاتی)جس سے پتہ چلتا ہے کہ جابررضی اللہ عنہ کا شاگرد ابوعیاش اصل میں الزرقی ہی ہے۔اورابوعیاش المعافری کی جابررضی اللہ عنہ سے کوئی روایت نہیں ہے ۔
ابوعیاش المعافری المصری کے جابر رضی اللہ عنہ کے شاگرد نہ ہونے کی طرف اشارہ اس بات سے بھی ملتا ہے کہ جابر رضی اللہ عنہ مدینہ کے رہنے والے تھے ، مدینہ میں مسجد نبوی ہی میں ان کاحلقہ تحدیث ہوتا تھا[مصنف وكيع ، و إسناده صحيح ، وانظر: حسن المحاضرة ۔۔۔ 1/ 181] جہاں دور دراز سے طلباء آکر ان سے احادیث سنتے تھے۔

کیا ابوعیاش المعافری طلب حدیث کے لئے مدینہ آئے؟
کتب تاریخ و رجال میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں ملتا ہے کہ ابوعیاش المعافری المصری نے طلب علم کے لئے دور دراز کا سفر کیا ہو ، اسی طرح طلب علم کے لئے ان کا مدینہ آنا بھی ثابت نہیں ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایک ثقہ راوی جب اپنے ایسے معاصر سے نقل کرے جس سے اس کی ملاقات ممکن ہو تو اسے اتصال پر محمول کیا جاتا ہے گرچہ راوی اور مروی عنہ کا علاقہ الگ الگ ہو ، لیکن یہ اس صورت میں جب راوی ثقہ ہو اورغیر مدلس ہو ۔
لیکن اگر راوی نا معلوم التوثیق و مجہول الحال ہو، تو پھریہ احتمال باقی رہے گا کہ ممکن ہے اس نے غلطی سے ایسے رواۃ کو بھی اپنا استاذ بتا دیا جو اس کے استاذ نہ ہوں، یا ہوسکتا ہے اس نے ارسال کیا ہے ۔
بلکہ بعض حالات میں قرائن کے پیش نظر ایسے ثقہ راوی کی روایت بھی محل نظر ٹہرتی ہے جس نے دوسرے علاقہ کے کسی شخص سے روایت کیا ہو ۔
امام ابن أبي حاتم رحمه الله (المتوفى327)نے کہا:
سئل أبي عن ابن سيرين سمع من أبي الدرداء قال قد أدركه ولا أظنه سمع منه ذاك بالشام وهذا بالبصرة
میرے والد (امام ابوحاتم رحمہ اللہ)سے پوچھا گیا کہ کیا محمدبن سیرین نے ابوالدرداء سے سناہے؟ تو انہوں نے جواب دیاد:ان کا دور پایا ہے لیکن مجھے نہیں لگتا کہ ان سے سناہے،کیونکہ وہ شام کے رہنے والے ہیں اور یہ بصرہ کے ہیں۔[المراسيل لابن أبي حاتم ص: 187]
ملاحظہ فرمائیں ابولدرداء رضی اللہ عنہ صحابی ہیں اور عموما صحابہ کی طرف تابعین کا دور دراز سے آنا ثابت ہے ، اس کے باوجود بھی علاقہ کے اختلاف کے پیش نظر امام ابوحاتم رحمہ اللہ ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے محمد بن سیرین کی ملاقات کو محل نظر ٹہرا رہے ، غالبا اس لئے کیونکہ محمدبن سیرین ارسال کرنے والے راوی ہیں۔ واللہ اعلم۔
عرض ہے کہ ابوالعیاش المعافری کی حالت بھی نا معروف ہے، ان کے اساتذہ میں مختلف علاقوں کے کبار صحابہ کا ذکر ملتا ہے، اس لئے ممکن ہے انہوں نے ان سب کے علاقہ تک جاکر ان سے نہ سنا ہو بلکہ کسی اور سے سن کر ارسال کردیا ہو۔اوران میں سے بعض صحابہ سے ملے بھی ہوں تو ان علاقوں میں ملاقات کی ہو جہاں یہ صحابہ سکونت پذیر تھے ۔
امام مزی اور امام ابن یونس المصری نے ان کے اساتذہ کی جو فہرست دی ہے وہ یہ ہے:
علی رضی اللہ عنہ
ابن مسعود رضی اللہ عنہ
كعب بن عجرة رضی اللہ عنہ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ
جابررضی اللہ عنہ
دیکھئے :[تاريخ الإسلام ت بشار 2/ 988 نقلا عن ابن یونس، تهذيب الكمال للمزي: 34/ 163]
● علی اور ابن مسعود رضی اللہ عنہما کا کوفہ میں سکونت اختیار کرنا معروف ہے۔
● كعب بن عجرة رضی اللہ عنہ کے بارے میں امام ذہبی نے کہا:
حدث بالكوفة وبالبصرة ، انہوں نے کوفہ اور بصرہ میں ، حدیث بیان کی ہے [سير أعلام النبلاء ط الرسالة 3/ 52]
خير الدين الزركلي نے لکھا:
سكن الكوفة ، انہوں نے کوفہ میں سکونت اختیار کی [الأعلام للزركلي 5/ 227]
● ابوہریرہ اور سہل بن سعد رضی اللہ عنہما ،دونوں کاتذکرہ ا بن عبد الحكم لمصري (المتوفى 257 ) نے ان صحابہ میں کیا ہے جو مصر آئے اور اہل مصر نے ان سے روایت کی [فتوح مصر والمغرب ص: 311 ایضا ص: 305]
● معاذ بن جبل اور عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہما، ان دونوں صحابہ کا تعلق شام سے تھا اوریہیں ان دونوں کی وفات ہوئی [الأعلام للزركلي 7/ 258،تهذيب الكمال للمزي: 14/ 189، النكت الجياد 1/ 395]
● رہی بات جابر رضی اللہ عنہ کی تو ان کے بارے میں بھی بعض نے لکھا ہے کہ یہ مصر آئے لیکن تحقیق سے یہ بعد بات غلط ثابت ہوئی ہے جیساکہ تفصیل آرہی ہے۔
اس تفصیل سے ان کے اساتذہ کی فہرست بھی اس بات کا کوئی پختہ ثبوت فراہم نہیں کرتی کہ یہ مدینہ طلب حدیث کے لئے آئے ہوں،بلکہ ان کے اساتذہ میں مختلف علاقوں کے کبار صحابہ کی فہرست سے یہی لگتا ہے کہ ان میں سے کئی ایک سے ان کی روایات مرسل ہوں گی ، کیونکہ اگر واقعی اتنے سارے کبار صحابہ سے انہوں نے حدیث اخذ کیا ہوتا تو ان کے پاس احادیث کا بہت بڑا ذخیرہ ہوتا، اور کم ازکم ان کے ہم وطن مصری تلامذہ نے ان سے بہت ساری روایات بیان کی ہوتیں ۔اور یوں یہ گمنام نہ رہتے بلکہ فقہ و روایت میں ان کا خوب خوب چرچا ہوتا لیکن ایسا ہوا نہیں ، جو اسی بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ان کی بیشتر روایات مرسل ہی رہی ہوں گی، جس کے سبب ان سے تلمذ اور اخذو روایت میں زیادہ دلچسپی نہیں لی گئی واللہ اعلم۔
شاید یہی وجہ ہے کہ کتب احادیث کا جو بھی مطبوعہ یا مخطوطہ ذخیرہ موجود ہے اس میں مذکورہ اساتذہ میں صرف چند ہی سے ابوعیاش المصری کی کچھ روایات منقول ہیں۔
❀ اس کے ساتھ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ امام مزی نے ان کے اساتذہ کی جو فہرست درج کی ہے ،وہ اس فہرست سے قدرے مختلف ہے جسے ابوعیاش المافری المصری کے ہم وطن امام ابن یونس المصری نے پیش کی ہے ، جس کا سبب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بعض ایسی روایات جن میں ”ابوعیاش“ کا نام مطلق وارد تھا ، ان میں امام مزی نے ابوعیاش المافری ہی کو مراد لے لیا اوران سے اوپر کے صحابی سے ان کا رشتہ تلمذ جوڑ دیا ، جبکہ یہاں ”ابوعیاش“ سے”ابوعياش الزرقي“ بھی مراد ہوسکتے تھے۔واللہ اعلم۔
اورشاید یہی وجہ کہ ”ابوعياش الزرقي“ کے اساتذہ میں امام مزی نے صرف ایک صحابی کا تذکرہ کیا ہے جبکہ ابوعیاش الزرقی خود مدنی بھی ہیں اور معروف ومشہور ثقہ راوی بھی ہیں ۔اب کیا یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ نبوی سرزمین مدینہ کے ایک معروف و مشہور ثقہ مدنی تابعی کا صرف ایک مدنی صحابی استاذ ہو، اور فرعونی سرزمین مصر کے ایک گمنام اور مجہول الحال شخص کے اساتذہ میں مدنی صحابہ کی قطار لگ جائے ؟؟؟
بالخصوص مدنی صحابی جابر رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہمیں ذرا بھی شک نہیں کہ یہ ابوعیاش الزرقی ہی کے استاذ ہیں ، لیکن بربنائے وہم انہیں ابوعیاش المصری کا استاذ بنادیا گیا ہے۔جبکہ ابوعیاش المصری کا سرے سے مدینہ آناہی ثابت نہیں ، نہ اس کی روایات کی قوت سے، نہ ائمہ کی شہادت سے ۔

کیا جابر رضی اللہ عنہ مدینہ سے مصرآئے تھے؟ :
اور نہ ہی اس بات کا کوئی صحیح ثبوت ہے کہ جابر رضی اللہ عنہ کبھی مصر آئے ، البتہ بعض لوگوں نے غلط فہمی میں یہ لکھ دیا ہے کہ جابر رضی اللہ عنہ مصر آئے تھے ، دراصل جابر رضی اللہ عنہ کا یہ قصہ مشہور ہے کہ وہ شام میں موجود عبد الله بن أنيس رضی اللہ عنہ سے حدیث قصاص سننے کے لئے شام ميں ان کے پاس ایک ماہ کی مسافت طے کرکے گئے تھے ۔
امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
حدثنا يزيد بن هارون ، قال : أخبرنا همام بن يحيى ، عن القاسم بن عبد الواحد المكي ، عن عبد الله بن محمد بن عقيل ، أنه سمع جابر بن عبد الله ، يقول : بلغني حديث عن رجل سمعه من رسول الله صلى الله عليه وسلم فاشتريت بعيرا ، ثم شددت عليه رحلي ، فسرت إليه شهرا ، حتى قدمت عليه الشام فإذا عبد الله بن أنيس۔۔۔الخ
جابر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ مجھے ایک شخص کے بارے میں پتہ چلا کہ انہوں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سن رکھی ہے ، تو میں نے اونٹ کی ایک سواری خریدی اور اس پر زاد راہ باندھا پھر ایک ماہ کاسفر کیا یہاں تک شام پہنچا تو پتہ چلا یہ شخص عبد الله بن أنيس رضی اللہ عنہ ہیں ۔۔۔۔(آگے پورے واقعہ کابیان ہے) [مسند أحمد ط الميمنية: 3/ 495 وحسنه المعلقون علي المسند ، وأخرجه أيضا الخطيب في ”الرحلة“ (ص110) من طريق يزيد بن هارون به ، وأخرجه أيضا البخاري في”الأدب المفرد“ ( ص 337 : ت عبد الباقي) من طريق موسى عن همام به ،وحسنه الألباني في تعليقه علي الأدب ]

اسی واقعہ کو ”محمد مسلم الطائفي“ اور ”عبد الرحمن العطار“ نے بھی «القاسم بن عبد الواحد المكي» کے طریق سے روایت کیا ہے لیکن ان دونوں کی روایت میں شام کے بجائے مصر کی جانب سفر کرنے کا ذکر ہے دیکھیں ۔[حسن المحاضرة في تاريخ مصر والقاهرة 1/ 182، 183 ]
ان دونوں میں اور ان کے نیچے سند میں جو ضعف ہے اس سے قطع نظر یہ دونوں مل کی بھی حفظ وضبط کے لحاظ سے کتب ستہ کے ثقہ وثبت راوی حافظ همام بن يحيى بن دينار کے برابر نہیں ہوسکتے ۔جنہوں نے اسی طریق سے اس روایت کو بیان کیا ہے اور شام کی جانب سفر کی صراحت نقل کی ہے۔
مذکورہ غیرثابت اور صحیح روایت کے خلاف بات کو سعيد ابن عبد العزيز التنوخى نے بھی مرسلا بیان کیا ہے لیکن انہوں نے ساتھ ہی وضاحت کردی :
ويقال الذي قدم من المدينة على عقبة ابن عامر إنما هو السائب بن خلّاد الأنصارى
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو صحابی مدینہ سے آئے تھے وہ ”سائب بن خلّاد الأنصارى رضی اللہ عنہ“ تھے اور یہ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث سننے کے لئے آئے تھے [فتوح مصر والمغرب ص: 304]
یہ دوسری بات ہی قرین صواب معلوم ہوتی ہے کیونکہ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کا مصر میں آنا ثابت ہے بلکہ وہ مصر کی امارت بھی سنبھال چکے ہیں ۔جبکہ عبد الله بن أنيس کے مصر میں آنے کا سوائے مذکورہ ضعیف روایت کے کوئی ثبوت نہیں ہے۔
چونکہ یہ دونوں واقعہ ایک دوسرے سے ملتا جلتا تھا اس لئے بعض ضعیف رواۃ نے خلط ملط کردیا اورتاریخی روایات میں زیادہ چھان پھٹک زياده نہیں کی جاتی اس لئے ضعیف رواۃ کے اس بیان سے دھوکہ کھاکر کئی اہل علم نے حتی کہ امام ذہبی جیسے ماہر رجال نے لکھ دیا کہ جابر رضی اللہ عنہ ، حدیث قصاص سننے کے لئے مصر سفر کرکے آئے تھے ۔
شعيب الأرناؤوط اور ان کے رفقاء نے امام ذہبی کے اس بیان کی تردید کی ہے اور صحیح روایت پیش کرکے بتایا ہے کہ جابر رضی اللہ عنہ نے حدیث قصاص سننے کی غرض سے شام کا سفر کیا تھا نہ کہ مصر کا دیکھئے:[سير أعلام النبلاء للذهبي: 3/ 191 ، حاشیہ 3]
بلکہ تاریخ ابن عساکر کی ایک روایت کو صحیح مان لیا جائے تو غالبا امام ابن یونس مصری کو بھی اسی ضعیف روایت سے دھوکہ ہوا اور انہوں نے ایک موقع پر نہ صرف یہ کہہ دیا کہ جابر رضی اللہ عنہ مصر آئے تھے بلکہ اسی قرینہ کو دیکھ کر ابوعیاش المافری کو بھی جابر کا شاگرد کہہ دیا چنانچہ امام ابن عساكر رحمه الله (المتوفى571) نے کہا:
أنبأنا أبو محمد حمزة بن العباس وأبو الفضل أحمد بن محمد وحدثني أبو بكر اللفتواني عنهما قالا أنا أبو بكر الباطرقاني أنا أبو عبد الله بن مندة أنا أبو سعيد بن يونس قال جابر بن عبد الله بن عمرو بن حرام بن ثعلبة بن حرام بن كعب بن سلمة الأنصاري قدم مصر أيام مسلمة بن مخلد حدث عنه من أهل مصر أبو عياش المعافري وعبد الرحمن بن شريح الخولاني وعمرو بن جابر الحضرمي وأبو معشر الحضرمي
جابر رضی اللہ عنہ، مسلمہ بن مخلد کے دور امارت میں مصر آئے ، ان سے اہل مصر میں سے ابوعیاش المعافری ، عبدالرحمن بن شریح الخولانی ، عمروبن جابر الحضرمی اور ابومعشر الحضرمی نے حدیث روایت کی [تاريخ دمشق لابن عساكر: 11/ 214 ، وحمزه و أحمد لم أجد من وثقهما]۔

یہی بات امام ا بن يونس المصری (المتوفى 347 ) کے معاصر بلکہ ان کے استاذمحمد بن الربيع الجيزي المصري، (المتوفی 324) نے شك كے ساتھ اس طرح کہا:
قدم مصر على عقبة بن عامر -ويقال على عبد الله بن أنيس- يسأله عن حديث القصاص، وذلك في أيام مسلمة بن مخلد
جابر رضی اللہ عنہ، مسلمہ بن خالد کے دور امارت میں مصر آئے ، عقبہ بن عامر اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ عبداللہ بن انیس سے حدیث قصاص سننے کے لئے۔ [حسن المحاضرة في تاريخ مصر والقاهرة 1/ 181 و الظاھر ان السیوطی ینقل من کتابہ]

اوپر تفصیل سے ثابت کیا جاچکا ہے کہ عبداللہ بن انیس مصر میں وارد ہی نہیں ہوئے وہ تو شام میں تھے اور ان سے حدیث قصاص سننے کے لئے جابر رضی اللہ عنہ نے شام ہی کاسفر کیاتھا ۔
البتہ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ مصر میں تھے لیکن جیساکہ ایک روایت گذرچکی ہے ان سے حدیث سننے کے لئے مدینہ سے آنے والے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نہیں تھے بلکہ سائب بن خلاد الانصاری رضی اللہ عنہ تھے ۔جو مدینہ سے مصر پہنچتے ہی ”مسلمة بن مخلد“ کے پاس گئے اور ان سے کہہ کر عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کو بلویا اور ان سے ایک حدیث دریافت کی [فتوح مصر والمغرب ص: 305]
یعنی مسلمة بن مخلد کے دور میں آنے والے صحابی جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نہیں بلکہ سائب بن خلاد الانصاری رضی اللہ عنہ تھے ۔
اور لگتا ہے کہ ابن یونس المصری رحمہ اللہ کو بھی بعد میں حقیقت حال کا علم ہوگیا اور انہوں نے اس بات سے رجوع کرلیا کیونکہ تاریخ ابن یونس سے بعد میں جن ائمہ نے نقل کیا ان میں سے کسی نے بھی اس کتاب میں نہ تو جابر رضی اللہ عنہ کے ترجمہ کی طرف کوئی اشارہ کیا ہے اور نہ ابو عیاش المعافری کے اساتذہ میں جابر رضی اللہ عنہ کا ذکر ان سے نقل کیا ہے ۔
امام ذہبی رحمہ اللہ کے حوالے سے گذرچکا ہے کہ انہوں نے تاریخ ابن یونس المصری سے ابوعیاش المعافری کا مکمل ترجمہ نقل فرمایا ہے لیکن اس میں ابوعیاش المعافری کے اساتذہ میں ابن یونس نے جابر رضی اللہ عنہ کا تذکرہ نہیں کیا ہے ، حالانکہ ان کی نظر میں یہ بات صحیح ہوتی تو ابوعیاش المافری کے اساتذہ میں سب سے پہلے جابر رضی اللہ عنہ ہی کا تذکرہ فرماتے جیساکہ وضاحت کی جاچکی ہے۔
بلکہ امام ابن یونس المصری اوران کے استاذ محمد بن الربيع المصری دونوں سے سینیر عبد الرحمن بن عبد الله بن عبد الحكم لمصري (المتوفى 257 ) نے بھی اپنی کتاب ”فتوح مصر“ میں مذکورہ ضعیف روایت کی بناپر جابر رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا ہے ، پھر جابر رضی اللہ عنہ سے اہل مصر کی روایات پیش کی ہیں ، لیکن صرف عمرو بن جابر الحضرمى (احمق ،کذاب ) اور أبو حمزة الخولانى (نامعلوم ) کی روایات پیش کی ہیں اور ابوعیاش المعافری کا نام تک نہیں لیا ۔
الغرض یہ کہ جابر رضی اللہ عنہ کا مصر آنا ثابت نہیں ہے ۔اور اس تعلق سے مذکور بات بعض رواۃ کی غلطی و وہم کا نتیجہ ہے، لہٰذا اسے بنیاد بناکر ابوعیاش المعافری اور جابر رضی اللہ عنہ کے مابین استاذ وشاگردی کا رشتہ ثابت کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

أبو عياش المعافری اور کتب احادیث:
حدیث کی مشہور و معروف کتب چھ ہیں جنہیں کتب ستہ کہا جاتا ہے بلکہ اہل علم نے ان کتب ستہ ہی کے ساتھ موطا ، یا مسند احمد یا سنن دارمی کو بھی ملا ہے ، اس لئے ان ساری کتب کا ایک درجہ ہے عصر حاضر میں ان کتب کے لئے کتب تسعہ کی اصطلاح استعمال کی گئی ۔یعنی حدیث کی نو مشہور کتابیں۔
حدیث کی ان نوکتابوں میں سے کسی ایک میں بھی ابو عیاش المعافری کی روایت موجود نہیں ہے۔ اس کے علاوہ مشہور کتب احادیث میں بھی اس کی احادیث نہیں ہیں البتہ دیگر بعض کتب میں شاذ و نادر اس کی روایات ہیں ۔شاہ ولی اللہ محدث دہلی رحمہ اللہ کی درجہ بندی کے اعتبار سے چوتھے درجے کی کتب احادیث میں اس کی بعض روایات ہیں ۔
بعض اہل علم نے قربانی والی حدیث میں موجود ابوعیاش کو المعافری مانا ہے، اور اس اعتبار سے کتب تسعہ میں سے سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ ، مسند احمد اور سنن دارمی میں اس کی احادیث ہوں گی ۔لیکن قربانی والی حدیث میں یہ راوی موجود ہے ہی نہیں ، جیساکہ قدرے وضاحت ہوچکی ہے اور مزید تفصیلات آرہی ہیں۔

أبو عياش المعافری جرح تعدیل کے میزان میں:
ہمارے علم کی حدتک کسی ایک امام سے بھی اس کی صریح توثیق ثابت نہیں ہے ، حتی امام ابن حبان نے بھی اسے ثقات میں ذکر نہیں کیا ، اس لئے جرح وتعدیل کے اعتبار سے یہ راوی مجہول الحال ہے۔


أبو عياش الزرقى کا تعارف:
ان کا نام ”زيد بن عياش“ ہے ، نسبت ” الزرقى“ ہے ، رہائش ”مدینہ“ کی ہے ۔
یعنی یہ «أبو عياش،زيد بن عياش، الزرقى، المدنی» ہیں۔
امام مزی نے ان کے اساتذہ میں صرف سعد بن أبى وقاص رضی اللہ عنہ کو ذکر کیا ہے جبکہ کئی سند وں میں صراحت کے ساتھ ان کے اساتذہ میں جابر رضی اللہ عنہ کا نام بھی موجود ہے دیکھئے: [المعجم الكبير 19/ 176، سنن الدارقطني: 2/ 245]
اورماقبل میں اس امکان کی وضاحت ہوچکی ہے کہ بعض نے ابوعیاش الزرقی کے اساتذہ کو ابوعیاش المعافری کے اساتذہ میں گنا دیا ، بالخصوص جابر رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہم پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ابوعیاش الزرقی ہی کےاستاذ ہیں ، لیکن غلطی سے ان کا تذکرہ ابوعیاش المعافری کے اساتذہ میں کردیا گیا ہے۔

أبو عياش الزرقى اور کتب احادیث:
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کی درجہ بندی کے اعتبار سے اول ، دوم ، سوم اور چہارم ہردرجے کی کتب میں ان کی حدیث موجود ہے۔مشہورکتب میں ان کی حدیث کے حوالے ملاحظہ ہوں:
موطأ مالك ت عبد الباقي: (2/ 624) رقم (22 )۔
سنن الترمذي ت شاكر (3/ 520)رقم(1225)
سنن أبي داود (3/ 251 )رقم(3359)
سنن النسائي (7/ 268)رقم(4545)
مسند أحمد ط الميمنية:( 1/ 179 )
سنن دارمی[إكمال تهذيب الكمال لمغلطاي 5/ 167]
اس کے علاوہ دیگر صحاح ،سنن ، معاجم ، مستخرجات و مستدرکات وغیرہ میں بھی اس کی حدیث موجود ہے۔
یادرے کہ یہ حوالہ قربانی والی زیر تحقیق حدیث کے علاوہ دوسری حدیث کا ہے جس میں صراحت وتعین کے ساتھ ابوعیاش الزرقی ہی ہے۔
شاوہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کی درجہ بندی کے اعتبار سے اول سے لیکر چہارم درجہ تک سب کتب میں ابوعیاش الزرقی کی روایت موجود ہے۔
جبکہ ابوعیاش المعافری کی حدیث پہلے ، دوسرے اورتیسرے درجے کی کتب میں موجود ہی نہیں ، بلکہ صرف چوتھے درجے کی کتب میں اس کی روایت ہے۔

أبو عياش الزرقى جرح تعدیل کے میزان میں:
متعدد ائمہ نے انہیں صراحتا ثقہ قرار دیاہے ان کی توثیق پرتفصیل زیربحث حدیث کے رجال کے تعارف میں گذرچکی ہے۔
اس کے مقابل میں ابوعیاش العافری کی توثیق کسی ایک بھی امام نے نہیں کی ہے حتی کہ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے بھی اسے اپنے ثقات میں ذکر نہیں کیا ۔

دونوں ”أبو عياش“ کا تقابل :
❀ ابوعیاش الزرقی کی متعدد ائمہ نے صریح توثیق کی ہے جبکہ ابوعیاش المعافری کی توثیق کسی ایک امام نے بھی نہیں کی۔
❀ ابوعیاش الزرقی کی حدیث پہلے ، دوسرے ، تیسرے اور چوتھے درجہ کی کتب میں سے ہرکتاب میں موجود ہے۔ جبکہ ابوعیاش المعافری کی حدیث صرف چوتھے درجے کی کتب میں ہے۔
❀ ابوعیاش الزرقی مدینہ کے رہنے والے ہیں جبکہ ابوعیاش المعافری کے مصر کے رہنے والے ہیں اور ان کا مدینہ آنا ثابت نہیں ہے۔
❀ ابوعیاش الزرقی معروف ومشہور ہے جبکہ ابوعیاش المعافری مجہول الحال ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
زیربحث روایت میں ”أبو عياش“ کا تعین


جابر رضی اللہ عنہ کی قربانی والی زیربحث حدیث میں ”أبو عياش“ سے مراد ”أبو عياش، الزرقی ، المدنی“ ہیں ۔المسندالجامع کے مرتبین نے اسے الزرقی ہی لکھا ہے[المسندالجامع لاحادیث الکتب الستہ و مؤلفات اصحابھا الاخری: ج 4ص242 ]۔ اور حافظ زبیرعلی زئی نے بھی اسے زرقی مان کر روایت کو صحیح کہا ہے، [سنن ابن ماجہ مع تحقیق علی زئی: رقم3121 ]۔تحقیق کی روشنی میں یہی بات درست معلوم ہوتی ہے اس کے قرائن ملاحظہ ہوں:

پہلا قرینہ : ( ایک سند میں تعین )
خود زیربحث روایت کی ایک سند میں بھی زرقی کی صراحت آگئی ہے۔
چنانچہ امام ابن ماجة رحمه الله (المتوفى273) نے کہا:
حدثنا هشام بن عمار قال: حدثنا إسماعيل بن عياش قال: حدثنا محمد بن إسحاق، عن يزيد بن أبي حبيب، عن أبي عياش الزرقی، عن جابر بن عبد الله، قال: ضحى رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم عيد، بكبشين فقال: حين وجههما «إني وجهت وجهي للذي فطر السموات والأرض حنيفا، وما أنا من المشركين، إن صلاتي، ونسكي، ومحياي، ومماتي لله رب العالمين، لا شريك له، وبذلك أمرت، وأنا أول المسلمين، اللهم منك، ولك عن محمد وأمته»[سنن ابن ماجه 2/ 1043 رقم3121]

کسی سند کے کسی روای کے تعین کی سب سے زبردست دلیل یہ ہوتی ہے اسی سند کے دوسرے طریق میں وہ راوی تعین کے ساتھ آجائے ، ابن ماجہ کی سند میں یہ راوی متعین ہوکر آگیا ہے،لیکن اس کی سند نیچے إسماعيل بن عياش کے سبب ضعیف ہے اگر یہ سند صحیح ہوتی تو اس راوی کے تعین کے لئے یہ زبردست دلیل ہوتی ، لیکن پھر بھی بطور قرینہ اس سے استفادہ کیا جاسکتا ہے کیونکہ اس کے برخلاف دوسری کسی بھی سند میں معافری کا تعین نہیں ہے۔

زبیرعلی زئی صاحب فرماتے ہیں:
’’اس مسئلہ میں میری تحقیق یہی ہے کہ صرف صحیح اورحسن حدیث سے ہی استدلال کرنا چاہئے یہ علیحدہ بات ہے کہ کسی صحیح محتمل الوجھین روایت کا مفہوم معمولی ضعیف(جس کا ضعیف شدید نہ ہو) سے متعین کیا جاسکتا ہے‘‘ [مجلہ الحدیث : 7 ص 10].
اورایک مقام کسی اور کا قول اپنی تائید میں نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’حاشیہ پرلکھا ہوا ہے کہ’’لابأس بضعف الرواية فإنها تكفي لتعيين أحد المحتملات‘‘
یعنی ضعیف حدیث سے دو محتمل معنوں میں سے ایک معنی کا تعیین کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہے[مجلہ الحدیث : 18 ص 27]۔

مزید یہ کہ إسماعيل بن عياش علی الاطلاق ضعیف نہیں بلکہ اہل شام سے ان کی روایات صحیح ہوتی ہیں یعنی یہ مطلق ضعیف رواۃ کے مانند نہیں ہیں ۔
اور غیرشامی سے روایت میں یہ ضعیف ہیں اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ غیر شامی سے یہ لازمی طور پر غلط ہی بیان کریں گے بلکہ مطلب یہ ہے کہ غیر شامیوں سے ان کی روایات میں خطاء غالب ہے ، لیکن غیرشامیوں سے بھی بسا اوقات وہ صحیح طور پر بھی بیان کرسکتے ہیں۔
بلکہ کوئی بھی مختلط راوی اختلاط کے بعد بھی بسا اوقات صحیح طور پر بیان کرسکتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ امام بخاری ومسلم نے بعض ایسے مختلطین کی روایات بھی اپنی صحیح میں درج کی ہیں جن کو ان کے شاگردوں نے اختلاط کے بعد سنا ہے، لیکن اہل علم نے اس کا یہی جواب دیا ہے کہ ان مختلطین نے ان روایات میں غلطی نہیں کی ہے ، شیخین نے بوجوہ اس پر اطمینان کے بعد ہی ان کی ایسی روایات درج کی ہیں ۔دیکھئے:[یزید بن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ: ص234 تا 245]
عرض ہے کہ یہی معاملہ اسماعیل بن عیاش کا بھی ہوسکتا ہے ۔ اور جہاں یہ اشارہ ملے کہ وہ غیرشامی سے روایت میں غلطی نہیں کررہے ہیں وہاں ان کی روایت کو صحیح نہیں تو کم از قوی ماننا چاہئے۔
ابن ماجہ کی مذکورہ حدیث میں ہم دیکھتے ہیں کہ متن کو بیان کرنے میں اسماعیل بن عیاش نے کوئی غلطی نہیں کی ، بلکہ جوں کا توں ابن اسحاق کے دیگر شاگردوں ہی کی طرح بیان کیا ہے۔
اسی طرح سند کے بیان میں بھی کوئی غلطی نہیں کی ہے ابن اسحاق کے دیگر کئی شاگردوں نے بھی یہی سند بیان کی ہے ۔
بس سند میں صرف اتنا اضافہ ہے کہ ابوعیاش کی تعیین ”الزرقی“ سے نقل کی ہے ۔چونکہ انہوں نے اس روایت میں سند یا متن میں دیگرمقام پر کوئی غلطی نہیں کی ہے اس لئے یہ اشارہ ملتا ہے کہ انہوں نے تعین والی اضافی بات بیان کرنے میں بھی کوئی غلطی نہیں کی ہوگی ۔اس لئے ان کا یہ بیان کافی حدتک قوی ہوجاتا ہے۔اس لئے بطور دلیل نہیں تو بطور قرینہ اس سے استدلال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
رہی بات یہ کہ اس سند میں ابن اسحاق کا عنعنہ ہے تو ماقبل میں وضاحت ہوچکی ہے کہ انہوں نے دوسرے طریق میں سماع کی صراحت کردی ہے ، اسی طرح یہ بھی واضح کیا جاچکا ہے کہ يزيد بن أبي حبيب نے بھی اپنے ارسال کے واسطے کو واضح کردیا ہے لہٰذا سند کے بقیہ حصہ میں فی الواقع کوئی عیب نہیں ہے۔
مذکورہ بالا تفصیل سے کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ ہم نے اسماعیل بن عیاش کی غیر شامی سے ابن ماجہ کی مذکورہ روایت کی مکمل تصحیح کردی ہے ، ہم نے اصول حدیث کے مطابق اسے ضعیف ہی ماناہے لیکن بالا تفصیلات کی روشنی میں ہم اسے قوی قرینہ قرار دیتے ہیں۔

سنن ابن ماجہ کے مخطوطات :
واضح رہے کہ سنن ابن ماجہ کے تمام مخطوطات( قلمی نسخوں ) میں ابوعیاش کے ساتھ ”الزرقی“ کی تعین موجود ہے ۔
✿ سنن ابن ماجہ کاسبب سے قدیم نسخہ مکتبہ سلیمانیہ استانبول تحت رقم (997) کا نسخہ کاہے، جو (485) ہجری میں لکھا گیا ہے ۔یہ امام ابن ماجہ کے شاگرد ابوالحسن القطان کی روایت ہے ، امام مزی رحمہ اللہ نے تحفۃ الاشراف میں اس پر بہت اعتماد کیا ہے جابجا اس کے حوالے دئے مثلا دیکھئے: [تحفة الأشراف للمزي: 6/ 378 رقم 8923]
دارالتاصیل والوں سے قبل سنن ابن ماجہ کے کسی بھی محقق کو یہ مخطوطہ نہیں مل سکا ، اور دار التاصیل والوں نے اس نسخہ ہی کو اصل بنا کر تحقیق کی ہے اور اس کے لئے انہوں نے (س) کی علامت استعمال کی ہے۔
اس نسخہ (ق148/ب)میں بھی واضح طور پر ابوعیاش کی تعیین”الزرقی“ سے موجود ہے اس کا عکس ملاحظہ ہو:
inbe majah 1.png

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
✿ سنن ابن ماجہ کا ایک دوسرا مخطوطہ دارلکتب المصریہ فی الخزانۃ التیموریہ تحت رقم (522) کا ہے۔ جو (570ھ) میں لکھا گیا ہے ،یہ بھی امام ابن ماجہ کے شاگر ابوالحسن ابن القطان کی روایت سے ہے۔
شعیب ارنؤوط اور ان کے رفقاء نے اسے بھی بنیاد بنایا ہے ، انہوں نے اس کے لئے (م) کی علامت استعمال کی ہے۔دار التاصیل والوں نے اس کے لئے (ت) کی علامت استعمال کی ہے۔دکتو عصام موسی نے اس کے بارے میں ”غاية فى الاتقان“ کہا ہے ۔
اس نسخہ (ق 1/ 152 / أ) میں بھی واضح طور پر ابوعیاش کی تعیین ”الزرقی“ سے موجود ہے اس کا عکس ملاحظہ ہو:
Screenshot_2.jpg

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
✿ سنن ابن ماجہ کا ایک تیسرا مخطوطہ المکتبۃ الوطنیۃ بباریس تحت رقم (706) کا ہے ، جو (730ھ) میں لکھا گیا ہے ۔شعیب ارنؤوط اور ان کے رفقاء نے اسے بھی بنیاد بنایا ہے ، انہوں نے اس کے لئے (ذ) کی علامت استعمال کی ہے۔
اس نسخہ میں بھی واضح طور پر ابوعیاش کی تعیین ”الزرقی“ سے موجود ہے اس کا عکس ملاحظہ ہو:
inbe majah 3.jpg

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
✿ سنن ابن ماجہ کا ایک چوتھا مخطوطہ مکتبہ عارف حکمت کا ہے ، جو تقریبا (1336ھ) سے قبل کا لکھا ہوا ہے ، اس نسخہ میں بھی واضح طور پر ابوعیاش کی تعیین ”الزرقی“ سے موجود ہے اس کا عکس ملاحظہ ہو:
inbe majah 4.jpg

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
✿ سنن ابن ماجہ کا پانچوں مخطوطہ المكتبة المحمودية تحت رقم (856) کا ہے ، جو (1179ھ) میں لکھا گیا ہے ، اس نسخہ میں بھی واضح طور پر ابوعیاش کی تعیین ”الزرقی“ سے موجود ہے اس کا عکس ملاحظہ ہو:
inbe majah 5.jpg

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مذکورہ بالا تمام مخطوطات کے بارے میں مکمل تفصیلات کے لئے سنن ابن ماجہ کے محققین کا مقدمہ ملاحظہ فرمائیں۔
یہاں صرف چند مخطوطات کی تصاویر پیش کی گی ہیں اور حقیقت یہ کہ اس وقت روئے زمین پر سنن ابن ماجہ کے جتنے بھی مخطوطے ہیں سب میں متفقہ طوپر ابوعیاش کے ساتھ ”الزرقی“ کی تعیین موجود ہے۔
شعیب الارنؤوط اوران رفقاء نے تین بہت اہم اور متقن نسخوں سے سنن ابن ماجہ کی تحقیق کی ہے انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ ان کے پیش نظر سارے مخطوطات میں ”الزرقی“ کی تعیین موجود ہے۔[سنن ابن ماجه ت الأرنؤوط 4/ 300]
دکتورعصام موسی ہادی نے چھ قلمی نسخوں کو سامنے رکھتےہوئے ابن ماجہ کی تحقیق کی ہے انہوں نے بھی اصل متن میں ”الزرقی“ کا لفظ باقی رکھا ہے ۔ دیکھئے سنن ابن ماجہ بتحقیق عصام موصی ہادی رقم 3121۔
برصغیرکے جامعات میں درس کے لئے لے ماضی قریب میں جوقلمی نسخہ لکھا گیا اس میں بھی ”الزرقی“ کی صراحت موجود ہے۔
الغرض یہ کہ ہمارے علم کی حد تک دنیا کے کسی کونے میں بھی ابن ماجہ کا ایسا کوئی نسخہ نہیں پایا جاتا جس میں زیربحث روایت کی سند میں”الزرقی“ کی صراحت نہ ہو ۔
جہاں تک مطبوعہ نسخوں کی بات ہے تو ہمارے علم کے مطابق عصرحاضر میں سب سے پہلے فؤاد باقی کی تحقیق سے ابن ماجہ کی طباعت ہوئی اس میں بھی ”الزرقی“ کا لفظ موجود ہے۔دیکھئے سنن ابن ماجہ بتحقیق فواد باقی رقم 3121۔
عصام موسی ہادی نے چھ قلمی نسخوں کو سامنے رکھتےہوئے ابن ماجہ کی تحقیق کی ہے انہوں نے بھی اصل متن میں ”الزرقی“ کا لفظ باقی رکھا ہے ۔ دیکھئے سنن ابن ماجہ بتحقیق عصام موصی ہادی رقم 3121۔
سب سے آخر میں دار التاصیل والوں نے تحقیق کی ہے انہوں نے بھی سند میں ”الزرقی“ کا لفظ باقی رکھا ہے۔ دیکھئے سنن ابن ماجہ مطبوعہ دار التاصیل رقم 3138۔
نوٹ:دکتور بشار عواد، شعیب ارنوؤط اور علامہ البانی کےشاگر مشہور حسن صاحبان نے اپنےاپنے محقق نسخہ میں یہ لفظ ساقط کردیا ہے لیکن حاشیہ میں انہوں نے اپنے اس تصرف کے لئے کسی مخطوطہ کا حوالہ نہیں دیا ہےبلکہ دیگر امور کو بنیاد بنایا ہے جس کا جائزہ ہم آگے پیش کریں گے ۔
سردست عرض ہے کہ جس لفظ کی روایت پر دنیا کے تمام نسخے متفق ہوں وہ لفظ کسی ناسخ کی غلطی سے درج نہیں ہوسکتا، بلکہ نسخوں کا اتفاق اس بات کی دلیل ہے کہ یہ لفظ سند کے رواۃ ہی کی طرف سے ۔اب اگر دیگر دلائل سے یہ ثابت بھی ہوجائےکہ سند میں اس لفظ کا اضافہ غلط ہے تو یہ راوی کی غلطی ہوگی نسخوں کی نہیں ، بنابریں نسخہ میں تصرف علمی امانت کے سراسر خلاف ہے۔اسی لئے بعض محققین نے اس لفظ کے اضافہ کوغلط ماننے کے باوجود بھی اپنے محقق نسخہ میں اسے باقی رکھا ہے اور حاشیہ میں اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔
اور مشہور حسن صاحب نے تو اصل متن سے زرقی کا لفظ غائب کردیا اور حاشیہ میں اپنے اس تصرف کی کوئی وضاحت نہیں کی جس سے بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوسکتی ہے کہ ابن ماجہ کے تمام نسخوں میں ایسا ہی ہوگا ۔
الغرض یہ کہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ابن ماجہ کے کسی ایسے نسخہ کاسراغ نہیں ملتا جس میں زیربحث روایت کی سند میں ”الزرقی“ کا لفظ موجود نہ ہو۔عصرحاصر کے بعض محقق نسخوں میں محققین کا من مانی تصرف نسخوں کے اختلاف کی دلیل نہیں بن سکتا ہے۔اس لئے ابن ماجہ کے نسخہ میں لفظ ”الزرقی“ کے وجود کو مشکوک یا غلط بتلانا سراسر زور زبردستی اور دھاندھلی بازی ہے۔

امام مزی اور تحفۃ الاشراف:
امام مزی رحمہ اللہ نے تحفۃ الاشراف میں زیربحث حدیث جابررضی اللہ عنہ کا ذکرکیا، تو ان کے شاگرد کو ابوعیاش المعافری لکھا ، اس سے کچھ لوگوں نے یہ نتیجہ کشید کرلیا کہ امام مزی کے پاس موجود نسخہ میں ایسا ہی ہوگا۔
حالانکہ امام مزی رحمہ اللہ کے پاس ابوالحسن القطان کی روایت کا سب سے صحیح ترین نسخہ تھا کمامضی، اس نسخہ سے انہوں نے دیگر نسخوں کی غلطیاں بھی درست کی ہیں لیکن ابوالحسن القطان کے نسخہ کی تمام تر روایات میں الزرقی موجود ہے۔نیز اس وقت ابن ماجہ کے کئی مخطوطات موجود ہیں لیکن کسی میں بھی الزرقی کی جگہ المعافری نہیں ہے۔
اس لئے امام مزی رحمہ اللہ کا یہ تصرف اس بات کی قطعا دلیل نہیں کہ ان کے پاس موجود کسی نسخہ میں بھی ایسا رہا ہوگا ، بلکہ قرین صواب بات یہی ہے کہ انہوں نے ایسا اپنے اجتہاد سے ہی لکھا ہے ۔
بلکہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس معاملہ میں ان سے وہم ہوا ہو ، کیونکہ یہ معلوم بات ہے کہ امام مزی سے کئی صحابہ کے شاگردوں کے تعین میں تسامح ہوا ہے۔
دكتومحمدعبدالرحمن لکھتے ہیں:
أخطأ المزي أحيانا في تعيين بعض الرواة عن الصحابة
امام مزی رحمہ اللہ نے کہیں کہیں صحابہ سے روایت کرنے والے راویوں کے تعین میں غلطی کی ہے[الحافظ المزي والتخريج في كتابه تحفة الأشراف:ص145]

مسند رویانی کی ایک الگ حدیث:
مسند رویانی کی ایک الگ حدیث -جو قربانی والی زیربحث حدیث نہیں ہے اس- کی سند میں ”خالد بن أبي عمران“ کے استاذ کی جگہ ”أبي عياش المعافري“ متعین ہوکرآیا ہے اس کی بنیاد پر شعيب الأرنؤوط اور ان کے رفقاء نے کہا ہے کہ قربانی والی اس حدیث میں بھی خالد بن أبي عمران کا استاذ أبو عياش المعافري ہی ہے ۔[سنن ابن ماجه ت الأرنؤوط 4/ 300 حاشیہ 1]
عرض ہے کہ:
اولا:
مسندرویانی کی یہ حدیث بالکل الگ ہے ۔امام الروياني رحمه الله (المتوفى307) نے کہا:
نا أحمد، نا عمي، أخبرني ابن لهيعة , عن خالد بن أبي عمران، عن أبي عياش المعافري، عن سهل بن سعد الساعدي، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «كيف أنتم إذا بقيتم في حثالة من الناس[مسند الروياني 2/ 234]
معلوم ہوا مسندرویانی والی یہ حدیث ، قربانی والی زیربحث حدیث نہیں ہے بلکہ بالکل علیحدہ حدیث ہے، بلکہ اس میں صحابی جابر رضی اللہ عنہ نہیں بلکہ سهل بن سعد الساعدي رضی اللہ عنہ ہیں ۔یعنی یہ متن اور مخرج ہرلحاظ سے بالکل علیحدہ حدیث ہے۔
اب کسی دوسری حدیث میں خالد بن أبي عمران کااستاذ أبوعياش المعافري ہے تو یہ لازم نہیں آتا کہ قربانی والی اس حدیث میں بھی اس کا استاذ یہی ہو ۔
کیونکہ خالد بن أبي عمران کے اساتذہ میں ”ابوعیاش الزرقی“ اور ”ابوعیاش المعافری“ دونوں ہیں ، اس لئے ظاہر ہے کہ کسی حدیث میں الزرقی ان کے استاذ ہوں گے اور کسی حدیث میں المعافری ، لہٰذا جب دو الگ الگ احادیث ہوں تو ایک میں کسی استاذ کی تعیین سے یہ لازم نہیں آتا کہ دوسرے میں بھی وہی استاذ ہو۔
ثانیا:
قربانی والی حدیث جابر رضی اللہ عنہ کی ہے اور جابر رضی اللہ عنہ سے ابوعیاش کی روایات میں بھی الزرقی سے تعین موجود ہے۔ [المعجم الكبير 19/ 176،سنن الدارقطني: 2/ 245]
ان روایات کو ہم آگے نقل کریں گے ، ان شاء اللہ۔
حاصل یہ کہ قربانی والی زیربحث حدیث کو جو سند سنن ابن ماجہ میں اس میں ابوعیاش کی تعیین الزرقی سے آگئی ہے یہ تعیین ناسخ کی غلطی کا نتیجہ نہیں ہےبلکہ حدیث کے رواۃ ہی کی طرف سے ہے ۔ لہٰذا مذکورہ تفصیلات کی روشنی میں یہ بھی ایک قرینہ ہے کہ اس سند میں یہی راوی ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
دوسرا قرینہ : ( علاقہ میں بعد )
جابر رضی اللہ عنہ مدینہ ہی میں تحدیث کرتے تھے اور ”أبو عياش المعافری المصری“ مصر کا رہنے والا ہے ، اس کا مصر سےچل کر نہ تو مدینہ آنا ثابت اور نہ ہی جابر رضی اللہ عنہ کا مصر میں وارد ہونا ثابت ہے ، جیساکہ ابوعیاش المعافری کے تعارف میں تفصیلات پیش کی جاچکی ہیں۔لہٰذا اس سند میں المعافری المصری کے بجائے الزرقی المدنی ہی کا ہونا راجح ہے۔

تیسرا قرینہ : (قدیم مصری مؤرخ کا بیان )
قدیم مصری مؤرخ وامام ا بن عبد الحكم (المتوفى 257 ) نے جابر رضی اللہ عنہ سے اہل مصر کی روایات کی فہرست پیش کی ہے لیکن اس میں قربانی والی زیربحث روایت نہیں ہے اور نہ ہی اس مقام پر جابر رضی اللہ عنہ سے ابوالعیاش المعافری کی کسی روایت کی طرف کوئی اشارہ ہے۔[فتوح مصر والمغرب ص: 304]
اس سے پتہ چلتا ہے کہ اہل مصر کے یہاں جابر رضی اللہ عنہ کے حوالے سےیہ حدیث مروی نہ تھی ۔لہٰذا اس سند میں المعافری المصری کے بجائے الزرقی المدنی ہی ہے۔

چوتھا قرینہ : (متقدمین کابیان)
جابر رضی اللہ عنہ کی زیربحث قربانی والی حدیث میں ''ابوعیاش '' سے روایت کرنے والے ''خالد بن أبي عمران '' ہیں اور ان (خالد بن أبي عمران) کے اساتذہ میں ابوعیاش کی کنیت سے متقدمین ناقدین کے یہاں صرف ابوعیاش الزرقی ہی کا ذکر ملتاہے چنانچہ امام ابن ابی حاتم اپنے والد ابوحاتم (متوفی 277) سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
خالد بن أبي عمران قاضي إفريقية روى عن سالم بن عبد الله وسليمان بن يسار والقاسم بن محمد ونافع وأبي عياش الزرقي وحنش ووهب بن منبه روى عنه يحيى بن سعيد الأنصاري وطلحة بن أبي سعيد والليث بن سعد وابن لهيعة وعبيد الله بن زحر سمعت أبي يقول ذلك
خالد بن أبي عمران یہ افریقیہ کے قاضی تھے ، انہوں نے سالم بن عبد الله، سليمان بن يسار، القاسم بن محمد، نافع ، أبي عياش الزرقي ،حنش اوروهب بن منبہ سے روایت کیا ہے۔ اور ان سے يحيى بن سعيد الأنصاري ،طلحة بن أبي سعيد، الليث بن سعد ،ابن لهيعة اور عبيد الله بن زحرنے روایت کیا ہے ، میں نے ایسا اپنے والد سے کہتے ہوئے سنا[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 3/ 345]
غورفرمائیں کہ ابوحاتم(متوفی 277) رحمہ اللہ جیسے ماہر فن اورمتقدم ناقد نے ”خالد بن أبي عمران“ کے اساتذہ میں جس ابوعیاش کا ذکر کیا اس کی تعیین ”الزرقی“سے کی اور”المعافری“ کا نام تک نہیں لیا ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ”خالد بن أبي عمران“ کے اساتذہ میں ابوعیاش الزرقی ہی سب سے زیادہ مشہور ہیں، ہاں امام مزی وغیرہ نے ”خالد بن أبي عمران“ کے اساتذہ میں معافری کا تذکرہ کیا ہے لیکن یہ لوگ امام ابوحاتم کے بعد کے ادوار کے ہیں ۔امام مزی سے قبل راقم الحروف کسی بھی ایسےعالم کا حوالہ تلاش نہیں کرسکا جس نےخالد بن ابی عمران کے اساتذہ میں ابوعیاش المعافری کاتذکرہ کیاہو۔
یادرہے کہ امام ابوحاتم نے ابوعیاش المصری کے تلامذہ میں خالد بن ابی عمران کا ذکر نہیں کیا ہے بلکہ ابن ابی حاتم کی کتاب میں میں ابوعیاش المصری کا سرے سے ترجمہ ہی نہیں ہے۔

تنبیہ:
علامہ البانی رحمہ اللہ اس بات پر دھیان نہیں دے سکے زیربحث حدیث کی سند میں ابوعیاش کا جو اصل شاگرد (خالدبن ابی عمران) ہے وہ ابوعیاش الزرقی کا بھی شاگرد ہے، اس لئے ابن ماجہ کی سند میں المعافری کے ہونے کو ترجیح دی ہے ، لکھتے ہیں:
ويؤيد أنه غيره أنهم لم يذكروا فى الرواة عنه يزيد بن أبى حبيب , وإنما ذكروه فى الرواة عن المعافرى.
اور ابن ماجہ کی سند میں ابوعیاش یہ الزرقی کے علاوہ ہے اس کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ ائمہ نے ابوعیاش الزرقی کے شاگردوں میں یزید بن حبیب کا تذکرۃ نہیں کیا بلکہ ابوعیاش المعافری ہی کے شاگردوں میں یزید بن حبیب کا تذکرہ کیا ہے [إرواء الغليل 4/ 351]
عرض ہے کہ یہاں زیربحث سند میں ابوعیاش کا شاگرد حبیب بن یزید ہے ہی نہیں بلکہ یزید بن ابی عمران ہے جیساکہ دیگر ابن اسحاق کی تحدیث والی سند میں صراحت ہے ، جس کی وضاحت گذرچکی ہے۔اور یزید بن ابی عمران یہ ابوعیاش الزرقی کا شاگرد ہے جیساکہ ابوحاتم کے مذکورہ قول میں صراحت ہے۔

نوٹ:-
یادرہے کہ یہاں ہمارا مقصود یہ نہیں کہ خالدبن ابی عمران کے اساتذہ میں ابوعیاش نام کے صرف الزرقی ہیں اور المعافری نہیں ہیں ، یقینا دونوں ان کے استاذ ہیں لیکن اساتذہ کے بھی طبقات ہوتے ہیں ، کچھ بہت ہی مشہور اور قابل ذکر ہوتے ہیں اورکچھ غیرمعروف اور معمولی درجے کے ہوتے ہیں۔
چونکہ ابوحاتم نے خالد کے اساتذہ میں ابوعیاش کی کنیت سے صرف الزرقی کا تذکرہ کیا ہے لہٰذا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے اساتذہ میں اس کنیت سے یہی زیادہ مشہور وقابل ذکر ہیں ۔یعنی ابوحاتم کی طرف سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خالد کے اساتذہ میں مطلق ابوعیاش کا ذکر ہو تو الزرقی ہی مراد ہونا چاہئے کیونکہ یہی ان کے اساتذہ میں زیادہ معروف ہیں۔

پانچوں قرینہ : (شہرت)
ابوعیاش المعافری اور ابوعیاش الزرقی دونوں کے تلامذہ میں ''خالد بن أبي عمران '' کاذکر ملتاہے (دیکھئے: الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 3/ 345 اورتہذیب الکمال رقم 7556 ) بلکہ ابوعیاش الزرقی کے اساتذہ میں بھی جابررضی اللہ عنہ کا ذکر ملتا ہے ( المعجم الكبير 19/ 176) ابوعیاش المعافری کے اساتذہ میں جابررضی اللہ عنہ کاذکر امام مزی نے کیا ہے (تہذیب الکمال: رقم 7556 ) لیکن ہماری نظر میں یہ درست نہیں ہے تاہم اسے تسلیم بھی کرلیں تو منظر یہ سامنے آتا ہے کہ :
ابوعیاش المعافری اور ابوعیاش الزرقی دونوں ایک ہی طبقہ کے ہیں ،اور دونوں کے تلامذہ میں خالدبن ابی عمران بھی ہیں اور دونوں کے اساتذہ میں جابر رضی اللہ عنہ بھی ہیں ۔
لہٰذا جابررضی اللہ عنہ کے شاگرد اور خالدبن ابی عمران کے استاذ کے طور پر ابوعیاش کا مطلق ذکر آئے تو اسی ابوعیاش کومراد لینا چاہئے جو مشہور ومعروف ہے ۔
اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ابوعیاش الزرقی مشہور ومعروف ہیں ، کیونکہ ان کو متعدد محدثین نے صراحۃ ثقہ قرار دیا ہے ۔اور مؤطا و سنن اربعہ نیز مسند احمد و سنن دارمی ودیگر مشہور کتب احادیث میں ان کی روایات موجود ہیں ۔اور شاوہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کی درجہ بندی کے اعتبار سے اول درجہ سے لیکر چہارم درجہ تک سب کتب میں ابوعیاش الزرقی کی روایت موجود ہے۔
اس کے برعکس ابوعیاش المعافری کی صریح توثیق کسی ایک بھی امام سے ثابت نہیں ، حتی کہ امام ابن حبان نے بھی انہیں ثقات میں ذکر نہیں کیا ۔نیز مؤطا ،سنن اربعہ، مسند احمد ، سنن دارمی اور دیگر مشہور کتاب احادیث میں ان کی روایات بھی نہیں ہیں ، بعض نے کتب ستہ میں صرف سنن ابی داؤد ، اور سنن ابن ماجہ میں ان کی روایت بتلائی ہے لیکن اس کی بنیاد یہی قربانی والی حدیث ہی ہے جو زیربحث ہے ، اس لئے اس بحث میں یہ حوالہ مفید نہیں ۔یعنی کتب ستہ بلکہ کتب تسعہ میں بھی اس کی کوئی روایت موجود نہیں ۔اورشاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی درجہ بندی کے اعتبار سے پہلے درجے سے لیکر تیسرے درجہ کی کتب میں اس کی ایک بھی حدیث نہیں ہے بلکہ چوتھے درجے کی وہ بھی کافی نچلے طبقے کی کتب میں اس کی چند ہی احادیث ہیں ۔
یعنی ابوعیاش الزرقی ثقہ راوی اور معروف و مشہور ہیں ، جبکہ ابوعیاش المعافری مجہول الحال و غیر مشہور راوی ہے۔ لہذا ابوعیاش کا مطلق ذکرہو تو ابوعیاش الزرقی ہی مراد ہوگا علامہ البانی رحمہ اللہ ایک مقام پرفرماتے ہیں:
وله شيخان كل منهما يدعى علي بن محمد أحدهما أبو الحسن الطنافسى مولى آل الخطاب والآخر القرشى الكوفي وكلاهما يروي عن وكيع ولذلك لم أستطع تعيين أيهما المراد هنا وإن كنت أميل إلى انه الأول لأنه أشهر من الآخر , فيتبادر عند الاطلاق أنه المراد. والله أعلم.
یعنی فلاں راوی کے دو استاذ ایک ہی نام کے ہیں اور یہ دونوں وکیع کے شاگردبھی ہیں ، اس لئے یہاں ان دونوں میں سے کون مراد ہے؟ میں اس کی تعین نہیں کرسکتا، گرچہ میرا میلان اس طرف ہے کہ یہاں علي بن محمد الطنافسى ہی مراد ہے ،کیونکہ یہ دوسرے کی بنسبت زیادہ مشہور ہے لہٰذا علی الاطلاق علي بن محمد کا تذکرہ آئے تو ذہن اسی طرف جاتا ہے کہ یہی مراد ہے[إرواء الغليل للألباني: 7/ 201]۔
نوٹ:-
پانچواں قرینہ ، چوتھے قرینے سے ملتا جلتا ہے فرق یہ ہے کہ چوتھے قرینہ میں صرف امام ابوحاتم کے کلام کو بنیاد کر اسی حوالے سے بات کی گئی ہے ، جبکہ پانچویں قرینے میں راوی کی عمومی حالت کی بنیاد پر گفتگو کی گئی ہے۔

چھٹا قرینہ : (علاقہ میں یکسانیت)
جابر رضی اللہ عنہ مدنی ہیں اور ابوعیاش الزرقی بھی مدنی ہے ۔
صحابی وتابعی کے علاقہ کی یکسانیت اسی طرف اشارہ کررہی ہے کہ اس سند میں مذکور ابو عیاش یہ ابوعیاش الزرقی المدنی ہی ہیں ۔
اس کے مقابل میں کہا جاسکتاہے کہ سند میں ابوعیاش کے شاگرد خالد بن أبي عمران یہ مصری ہیں اس لئے ابوعیاش کو مصری ماننے میں ان دونوں کا علاقہ یکساں ہے ، مگر یہ دوسری بات اس وقت کمزور پڑجاتی ہے جب ہم خالد بن أبي عمران کے اساتذہ کی فہرست دیکھنے اور نتیجہ یہ سامنے آتا ہے ان کے اساتذہ کی پچاس فیصد سے زائد تعداد مدینہ کی ہے اور باقی الگ الگ علاقوں کے ہیں ۔اور مصرکے اساتذہ میں مشکل سے دو تین ہی ہیں۔
نیز ان کے اساتذہ میں مدنی اساتذہ کی جو فہرست ہے وہ کوئی معمولی لوگ نہیں ہیں بلکہ ان میں سے تقریبا سب کے سب مدینہ کے ائمہ ومفتی و فقیہ ہیں بلکہ چار تو مدینہ کے فقہائے سبعہ میں سے ہیں ، قدرے تفصیل سے جائزہ لینے کے لئے ان کے بعض مدنی اساتذہ کی فہرست پیش خدمت ہے:

1۔ أبو عبد الله عروة بن الزبير المدنى
یہ خالد بن أبي عمران کے استاذ ہیں [تهذيب الكمال للمزي: 8/ 142]
یہ مدینہ کے بہت بڑے فقیہ اورامام اور کتب ستہ کے ثقہ رجال میں سے ہیں ۔امام ذہبی فرماتے ہیں:
الإمام، عالم المدينة، أبو عبد الله القرشي، یہ امام اورمدینہ کے عالم تھے [سير أعلام النبلاء للذهبي: 4/ 421]
بلکہ یہ مدینہ کے فقہاء سبعہ میں سے ایک ہیں ۔[الأعلام للزركلي 4/ 226]

2۔سليمان بن يسار الهلالى المدنى
یہ بھی خالد بن أبي عمران کے استاذ ہیں[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 3/ 345]
یہ بھی مدینہ کے بہت بڑے امام وفقیہ اور کتب ستہ کے ثقہ رجال میں سے ہیں ۔امام ذہبی فرماتے ہیں:
عالم المدينة، ومفتيها، یہ مدینہ کے عالم اور مفتی تھے [سير أعلام النبلاء للذهبي: 4/ 444]
بلکہ یہ بھی مدینہ کے فقہاء سبعہ میں سے ایک ہیں [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 2619]

3۔سالم بن عبد الله القرشى المدنى الفقيه
یہ بھی خالد بن أبي عمران کے استاذ ہیں[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 3/ 345]
یہ بھی مدینہ کے بہت بڑے امام و فقیہ اور کتب ستہ کے ثقہ رجال میں سے ہیں ،امام ذہبی فرماتے ہیں:
الإمام، الزاهد، الحافظ، مفتي المدينة، یہ امام ، زاہد،حافظ اور مدینہ کے مفتی تھے [سير أعلام النبلاء للذهبي: 4/ 458]
بلکہ یہ بھی مدینہ کے فقہاء سبعہ میں سے ایک ہیں [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 2176]

4۔ قاسم بن محمد بن أبي بكرالمدنى
یہ بھی خالد بن أبي عمران کے استاذ ہیں[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 3/ 345]
یہ بھی مدینہ کے مشہور امام اورفقہاء میں سے تھے اورکتب ستہ کے ثقہ رجال میں سے ہیں۔امام ذہبی فرماتے ہیں:
الإمام،القدوة، الحافظ، الحجة، عالم وقته بالمدينة مع سالم وعكرمة ، یہ امام ، قدوۃ ، حافظ ، حجہ اور سالم وعکرمہ کی طرح مدینہ میں اپنے وقت کے امام تھے [سير أعلام النبلاء للذهبي: 5/ 54]
بلکہ یہ بھی مدینہ کے فقہاء سبعہ میں سے ایک ہیں [الأعلام للزركلي 5/ 181]

5۔عكرمة القرشى لمدنى ، مولى عبد الله بن عباس
یہ بھی خالد بن أبي عمران کے استاذ ہیں[تهذيب الكمال للمزي: 8/ 143]
یہ بھی مدینہ کے بہت بڑے امام ومفسر اور کتب ستہ کے ثقہ رجال میں سے ہیں ۔
امام ذہبی نے ماقبل کے حوالہ میں مدینہ کے ائمہ قاسم بن محمد اور سالم بن عبد الله کے ساتھ ان کا بھی ذکرکیا ہے۔

6۔ نافع مولى ابن عمر المدنى
یہ بھی خالد بن أبي عمران کے استاذ ہیں[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 3/ 345]
یہ بھی مدینہ کے بہت بڑے امام و مفتی اور کتب ستہ کے ثقہ رجال میں سے ہیں ،امام ذہبی فرماتے ہیں:
الإمام، المفتي، الثبت، عالم المدينة، آپ امام ، مفتی ، ثبت اور مدینہ کے عالم تھے [سير أعلام النبلاء للذهبي: 5/ 95]

7۔أبو حازم سلمة بن دينار المدنى
یہ بھی خالد بن أبي عمران کے استاذ ہیں[شرح أصول اعتقاد 1/ 131]
یہ بھی مدینہ کے بہت بڑے امام بلکہ شیخ الاسلام اور کتب ستہ کے ثقہ رجال میں سے ہیں ۔امام ذہبی فرماتے ہیں:
شيخ المدينة النبوية ، یہ نبوی شہر مدینہ کے شیخ تھے [سير أعلام النبلاء للذهبي: 6/ 96]
علامہ زرکلی فرماتے ہیں:
عالم المدينة وقاضيها وشيخها ،یہ مدینہ کے عالم ، قاضی اور شیخ تھے[الأعلام للزركلي3/ 113]

8۔أبو الحارث عامر بن عبد الله بن الزبير المدنى
یہ بھی خالد بن أبي عمران کے استاذ ہیں[ الفوائد المنتقاة لأبي بكر الشافعي مخطوط رقم 88 ترقیم جوامع الکلم ]
یہ بھی مدینہ کے بہت بڑے امام اور کتب ستہ کے ثقہ رجال میں سے ہیں۔

9۔عبد الله بن رافع المخزومي ، المدنی
یہ بھی خالد بن أبي عمران کے استاذ ہیں[المعجم الأوسط 8/ 307]
یہ بھی مدینہ کے راوی اور صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے ثقہ رجال میں سے ہیں

10۔سعد بن إسحاق بن كعب المدنى الأنصارى
یہ بھی خالد بن أبي عمران کے استاذ ہیں[تهذيب الكمال للمزي: 8/ 142]
یہ مدینہ کے راوی اور سنن اربعہ کے ثقہ رجال میں سے ہیں ۔

یہ صرف دس ثقہ مدنی اساتذہ کا ذکر ہے ورنہ یہ فہرست اوربھی طویل ہے ۔
اس تفصیل سے پتہ چلا کہ خالد بن ابی عمران کی مرویات کا سب سے بڑا سورس مدینہ ہے ، ان کے اساتذہ میں مدنی اساتذہ ہی کاغلبہ اور انہیں کی اکثریت ہے۔اس لئے اس سند میں ان کے استاذ ابوعیاش کے مدنی ہونے کا پہلو مصری ہونے کے پہلو سے زیادہ راجح ہے، بالخصوص جبکہ شیخ الشیخ جابر رضی اللہ عنہ بھی مدنی ہیں۔

ساتواں قرینہ: (جابررضی اللہ عنہ سے مروی ابوعیاش کی روایات میں صراحت)
جابر سے روایت کردہ ابوعیاش کی جتنی بھی مروایات ہیں ان میں سے کسی ایک سند میں بھی ابو عیاش کی تعین معافری سے نہیں ہوئی بلکہ اس کے برعکس تین سندوں میں ابوعیاش کی تعین الزرقی یااس کے ہم معنی لفظ سے ہوئی ہے۔

پہلی سند:
حدثنا الحسين بن إسحاق التستري ثنا بشر بن آدم قال ثنا يعقوب بن محمد الزرقي قال حدثتني كرامة بنت الحسين بن الحارث بن عبد الله بن كعب المازني - وكان عبد الله بن كعب على ثقل النبي صلى الله عليه و سلم يوم بدر - : قالت سمعت أبي يحدث عن أبي عياش الزرقي عن جابر بن عبد الله حدثني كعب بن عاصم الاشعري قال : رأيت النبي صلى الله عليه و سلم يخطب أوسط أيام الاضحى عند الجمرة[المعجم الكبير 19/ 176]
دوسری سند:
نا علي بن عبد الله بن مبشر نا أحمد بن سنان القطان نا يعقوب بن محمد حدثتنا كرامة بنت الحسين المازنية قالت سمعت أبي يذكر عن أبي عياش الأنصاري عن جابر بن عبد الله الأنصاري عن كعب بن عاصم الأشعري : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم خطب بمنى أوسط أيام الأضحى يعني الغد من يوم النحر[سنن الدارقطني: 2/ 245]
نوٹ: ابوعیاش الزرقی ہی مدنی ہیں لہٰذا انصاری یہی ہیں جیساکہ طبرانی کی روایت کردہ اسی طریق میں صراحت ہے ، نیز طبرانی میں زرقی اور دارقطنی کی رویات میں انصاری کا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اس طریق میں ابوعیاش کی تعین میں تصحیف یا تحریف نہیں ہوئی ۔
ماقبل میں طبرانی اور سنن دارقطنی کی ان دونوں سندوں کا طریق ایک ہی ہے لیکن ہم ، نیچے سند اورکتاب کے الگ الگ ہونے پر اسے دو شمار کررہے ہیں ۔
تیسری سند:
زیربحث روایت کی وہ سند جو ابن ماجہ میں ہے کماسیاتی۔
یہ تینوں سندیں گرچہ ضعیف ہیں اور ان تینوں کے متون بھی الگ الگ ہیں مگر ان تینوں اسانید میں مشترک بات یہ ہے کہ جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے والے ابو عیاش کی تعین الزرقی سے وارد ہے ،لہٰذا تینوں سندوں میں موجود یہ مشترک بات اپنے اندر قوت رکھتی ہے ، گرچہ انفرادی طور پر تینوں سندین ضعیف ہیں،بلکہ اس طرح کی صورت حال اگر متون حدیث میں نظر آتی ہے تو وہاں بھی مشترک بات کو قوی قرار دیا جاتا ہے گرچہ بقیہ متون ایک دوسرے سے مختلف ہونے کے سبب ضعیف قرار پائیں مثلا جنازہ میں تین صف بنانے سے متعلق دو حدیث مروی اور دونوں ضعیف ہے اور دونوں کا مجموعی متن بھی الگ الگ ہے ، چنانچہ :

پہلی حدیث ہے:
عن أبي أمامة قال : صلى النبي صلى الله عليه و سلم على جنازة ومعه سبعة نفر فجعل ثلاثة صفا واثنين صفا واثنين صفا
یعنی ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنازہ کی نماز پڑھائی اور اس وقت آپ کے ساتھ سات افراد تھے پس آپ نے (تین صفین بنائیں) ، ایک صف میں تین لوگوں کوکھڑا کیا دوسری صف میں دو لوگوں کو اورتیسری صٍف میں بھی دو لوگوں کو کھڑا کیا[المعجم الكبير 8/ 190 واسنادہ ضعیف]۔

اور دوسری حدیث ہے :
عن مالك بن هبيرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم " ما من مسلم يموت فيصلي عليه ثلاثة صفوف من المسلمين إلا أوجب۔
مالک بن ہبیرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جومسلم بھی فوت ہو اورمسسلمانوں کی تین صف اس کی نماز جنازہ پڑھ لے تو اس پر جنت واجب ہے[سنن أبي داود 3/ 202 واسنادہ ضعیف]۔

غورکریں کہ ان دونوں احادیث کا متن الگ الگ ہے پہلی حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کاذکر ہے اوردوسری میں قول کا ذکر ہے لہٰذا مختلف المتن ہونے کی بنیاد پر یہ دونوں روایات ضعیف ہے اور باہم مل کر بھی صحیح نہیں ہوسکتں لیکن ان دونوں روایات میں ایک بات مشترک ہے اور وہ ہے تین صف کی بات ، پس اس مشترکہ بات کی تقویت ملتی ہے چنانچہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے ان دونوں روایات کو ضعیف قرار دیا ہے اور انہیں ایک دوسرے سے ملا کر بھی صحیح نہیں کہا ہے کیونکہ دونوں کا متن الگ الگ ہے لیکن ان دونوں روایات میں جو تین صف والی مشترک بات ہے اسے علامہ البانی رحمہ اللہ نے مشروع قرار دیا ہے ،ملاحظہ ہوں علامہ البانی رحمہ اللہ کے الفاظ:
ويستحب أن يصفوا وراء الامام ثلاثة صفوف فصاعدا لحديثين رويا في ذلك: الأول: عن أبي أمامة قال:" صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم على جنازة ومعه سبعة نفر فجعل ثلاثة صفا، واثنين صفا واثنين صفا ".رواه الطبراني في " الكبير "، قال الهيثمي في " المجمع " (3 / 432) " وفيه ابن لهيعة " وفيه كلام ".قلت: وذلك من قبل حفظه لاتهمة له في نفسه، فحديثه في الشواهد لا بأس به، ولذلك أوردته مستشهدا به على الحديث الاتي، وهو: الثاني: عن مالك بن هبيرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" مامن مسلم يموت فيصلي عليه ثلاثة صفوف من المسامير إلا أوجب (وفي لفظ: إلا غفر له) ".قال: (يعني مرثد بن عبد الله اليزني): " فكان مالك إذا استتارره، أهل الجنازة جزأهم ثلاثة صفوف للحديث ".أخرجه أبو داود (2 / 63) والسياق له " والترمذي (2 / 143) وابن ماجه (1 / 454) والحاكم (1 / 362، 363) والبيهقي (4 / 30) وأحمد (4 / 79) واللفظ الاخر له وكذا في رواية للبيهقي والحاكم وقال: " صحيح على شرط مسلم " ووافقه الذهبي! وقال الترمذي وتبعه النووي في " المجموع " (5 / 212): " حديث حسن " وأقره إلحافظ في " الفتح " (3 / 145)، وفيه عندهم جميعا محمد بن اسحاق وهو حسن الحديث إذا صرح بالتحديث ولكنه هنا قد عنعن.فلا أدري وجه تحسينهم للحديث فكيف التصحيح!؟[احكام الجنائز ص: 100]۔

یادرہے کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے ان دونوں احادیث میں کسی بھی حدیث کو صحیح نہیں کہا ہے کیونکہ دونوں مختلف المتن ہیں لیکن چونکہ تین صف والی بات گرچہ الگ الگ سیاق میں مگر دونوں روایات میں موجود ہے اس لئے صرف اس حصہ کو قوی مان کراس سے استدلال کیاہے۔
ہم کہتے ہیں یہی معاملہ اوپر کی تینوں ضعیف سندوں میں بھی ہے یعنی یہ سندین سب کی سب گرچہ ضعیف یں لیکن ابوعیاش کی رزقی سے تعیین والی بات تونیوں میں مشرت یہ ےا اس لئے یہ بات مضبوط ہے ۔

آٹھواں قرینہ :(زیربحث روایت کی تصحیح از نقاد محدثین):
متعدد نقاد محدثین نے ابوعیاش کی اس روایت کو صحیح کہا ہے کماسیاتی۔ اس میں بھی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس سند میں ثقہ راوی ابوعیاش زرقی ہی ہے کیونکہ اگر اس سند میں ابوعیاش معافری نامعلوم التوثیق ہوتا تو محدثین اس کی سند کوصحیح ہرگز نہیں قرار دیتے ۔

فریق مخالف کی طرف سے پیش کردہ قرائن کا جائزہ:
● 1۔ امام مزی کا تحفۃ الاشراف میں زیربحث حدیث کے ذکرکے بعد جابر کے شاگرد کو المعافری بتلانا
عرض ہے کہ اس کا جواب پہلے قرینہ کے تحت دیا جاچکاہے۔یادرہے کہ امام مزی نے تہذیب الکمال میں بھی قربانی والی یہ حدیث ذکر کی ہے اور اس میں موجود ابوعیاش کا تعین المعافری سے کیا ہے ، پھر ان کے بعد جتنے بھی اہل علم نے اس حدیث میں ابوعیاش سے المعافری مراد لیا ہے سب نے امام مزی ہی پر اعتماد کیا ہے ، یوں سب سے پہلے امام مزی رحمہ اللہ سے چوک ہوئی پھر بعد کے اہل علم بھی یہ غلطی دہراتے گئے۔
اور امام مزی نے بھی غالبا امام مقدسی کی الکمال پر اعتماد کرنے ہوئے ایسا کہا ہے یعنی اس معاملے میں سب سے پہلے وہم کے شکار امام مقدسی ہی ہیں ، واللہ اعلم۔
اورایسا صرف اسی معاملے میں نہیں ہوا بلکہ اور بھی مثالیں ہیں جہاں امام مزی سے چوک ہوئی اور بعد کے علماء امام مزی ہی کی بات کو دہراتے گئے ۔
مثلا امام مزی نے مؤمل بن اسماعیل کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ سے منکرالحدیث کی جرح نقل کردی ، پھر بعد کے اہل علم مثلا ، ذہبی ،ترکمانی ، ابن کثیر ،زرکشی ، ابن حجروغیرہم رحمہم اللہ اسی کو دہراتے گئے ، اس کی تفصیل”انوارالبدرفی وضع الیدین علی الصدر“ (يسرالله لنا طبعه)میں ملے گی ان شاء اللہ۔
● 2۔مسند الرویانی میں ایک دوسری حدیث میں خالدبن ابی عمران کے استاذ ابوعیاش کی المعافری سے تعیین۔
عرض ہے کہ اس کا جواب بھی پہلے قرینہ کے تحت دیا جاچکا ہے۔
● 3۔ابوعیاش المعافری کے شاگردوں میں یزید بن ابی حبیب کا ذکر ہونا
عرض ہے کہ اس کا جواب بھی چوتھے قرینے کے تحت علامہ البانی رحمہ اللہ کا کلام نقل کرتے ہوئے دیا جاچکا ہے۔مکرر عرض ہے کہ یزید بی ابی حبیب کے اساتذہ میں سرے سے کوئی ابوعیاش ہے ہی نہیں کیونکہ ''يزيد بن أبى حبيب'' کا سماع ''خالد بن أبى عمران'' سے فی الحقیقت ثابت ہی نہیں، کسی بھی روایت میں اس کا ثبوت موجود نہیں ہے بعض اہل علم نے غالبا ابن ماجہ وغیرہ کی اسی منقطع سند کو دیکھ کر یزید کے اساتذہ میں ابوعیاش کا تذکرہ کردیا ہے لیکن حقیقت میں اس سند میں ایک راوی ساقط ہے جیساکہ مسند احمد کےطریق میں ہے جو کہ صحیح ہے ۔
واضح رہے کہ منقطع سند سے دھوکہ کھا کر اساتذہ وتلامذہ کا غلط رشتہ بتلانے کی اور بھی مثالیں ہیں مثلا:
سعیدبن ابی ہند کا ابوہریرہ سے سماع ثابت نہیں ہے (المراسيل لابن ابی حاتم ص 52 )لیکن اگرآپ تہذیب دیکھیں گے تو معلوم ہوگا کہ سعید کے اساتذہ میں ابوہریرہ کا ذکر موجود ہے اسی طرح ابوہریرہ کا ترجمہ دیکھیں گے تو ان کے شاگردوں میں سعید کا تذکرہ موجود ہے۔کیونکہ بعض سند میں ایسا وارد ہے لیکن فی الحقیقت وہ سند منقطع ہے
● 4۔یزید بن ابی عمران اور ابوعیاش المعافری کا ہم علاقہ ہونا
عرض ہے کہ اس کا جواب بھی چھٹے قرینہ کے تحت دیا جاچکا ہے۔
● 5۔ امام مسلم وغیرہ نے الکنی میں ابوعیاش زید یعنی الزرقی کاتذکرہ کرنے کے بعد ابوعیاش کا تذکرہ کیا ہے اور اس کے اساتذہ میں جابر رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا ہے ،چنانچہ امام مسلم فرماتے ہیں:
أبو عياش عن جابر بن عبد الله، روى عنه يزيد بن أبي حبيب وخالد بن أبي عمران.
ابوعیاش یہ جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتا ہے اور اس سے یزید بن ابی حبیب اور خالد بن ابی عمران روایت کرتے ہیں [الكنى والأسماء للإمام مسلم: 1/ 636]
عرض ہے کہ :
٭ اولا:
یہاں امام مسلم نے ابوعیاش کے ساتھ المعافری کی صراحت نہیں کی ہے ، اس لئے اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ امام مسلم نے ابوعیاش سے ابوعیاش المعافری ہی کو مراد لیا ہے ، کیونکہ ہوسکتا ہے امام مسلم نے سند میں اس کے ذکرکے اعتبار سے اس کے استاذ اور شاگرد کا تذکرہ کردیا ہو، اور خود اس کی حالت ان پر مخفی ہی رہی ہو اوران پر یہ واضح نہیں ہوسکا ہو کہ یہ ابوعیاش کون ہے ؟اس لئے اس کا علیحدہ ذکر کردیا ۔
ایسی صورت میں اگر اس کی حالت امام مسلم رحمہ اللہ پر منکشف ہوتی تو یہ ان کی نظر میں الزرقی بھی ہوسکتا تھا ، لہٰذا اس اجمالی بیان سے یہ حتمی نتیجہ نہیں نکالا جاسکتا کہ امام مسلم نے المعافری ہی کو مراد لے کر جابررضی اللہ عنہ کو ان کااستاذ بتایا ہے۔
٭ ثانیا:
بالفرض مان لیں کہ امام مسلم رحمہ اللہ نے یہاں المعافری ہی کو مراد لیا ہے تو اس سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوا گا کہ ابوعیاش المعافری کے استاذ جابر رضی اللہ عنہ ہیں ۔
لیکن زیربحث سند میں بھی ابوعیاش المعافری کے استاذ جابر رضی اللہ عنہ ہی ہیں ! یہ محض امام مسلم کے اس بیان سے قطعا ثابت نہیں ہوتا ۔دیکھئے اوپر مذکور قرائن میں ، پہلا ، چوتھا ، پانچواں ، چھٹا ، ساتوں اور آٹھواں قرینہ ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
تیسرا اعتراض : صحیح حدیث کی مخالفت


زیربحث حدیث پر ایک تیسرا اعتراض یہ ہے کہ بوقت ذبح ذکر دعاء پڑھنے سے متعلق جو دیگر روایات ہیں ان میں جابررضی اللہ عنہ والی زیربحث حدیث کے کلمات نہیں ہیں۔لہٰذا جابر رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ان دیگراحادیث کے خلاف ہے ۔
عرض ہے کہ یہ غیر اصولی بات ہے ، کسی حدیث کی تضعیف کے بعد بطور تائید تو اس طرح کی بات کہی جاسکتی ہے مگر بطور دلیل یعنی تضعیف حدیث کی دلیل کے طور پر اس طرح کی بات کرنا اصول حدیث کے خلاف ہے۔
نیز یہاں معاملہ مخالفت کا نہیں بلکہ اختصار اور تفصیل کا ہے اس لئے اسے مخالفت نہیں البتہ اسے زیادت ثقہ کہاجاسکتاہے۔مخالفت کا اطلاق عام طور سے اس وقت ہوتا ہے جب ایک چیز کی جگہ ایسی چیز ذکر کی جائے جس سے اول الذکر چیز پرعمل ممکن نہ ہو ، لیکن اگر ایک چیز کے ساتھ ایسی چیز ذکر کی جائے جو اول الذکر چیز کے مخالف نہ ہوبلکہ ایک زائد چیز ہو تو اسے مخالفت نہیں کہتے بلکہ اسے زیادت ثقہ کہتے ہیں۔ البتہ بعض لوگ اسے مخالفت سے بھی تعبیر کردیتے ہیں لیکن فی الحقیقت اس میں مخالفت والی بات نہیں ہوتی ہے۔
اور زیادت ثقہ فی نفسہ ضعف کی دلیل قطعا نہیں ہے بلکہ زیادت کے ساتھ ساتھ دیگر قرائن دیکھے جاتے ہیں اگر قرائن کسی زیادت کو رد کرنے پر دلالت کریں تو بے شک زیادت کو رد کردیا جاتاہے، لیکن اگرزیادت ثقہ کو رد کرنے پر قرائن سرے سے موجود ہی نہ ہوں تو محض زیادت ثقہ کو بنیاد بناکر حدیث کی تضعیف قطعا نہیں کی جاتی۔
بطور مثال عرض ہے کہ صحیح بخاری رقم (828) میں ابوحمیدساعدی رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جس میں ابوحمید ساعدی رضی اللہ نے نماز کاطریقہ بتلا یاہے ، صحیح بخاری کی اس حدیث میں صرف تکبیر تحریمہ کےوقت ہی رفع الیدین کا ذکر ہے لیکن یہی حدیث ابوداؤد رقم (730) میں بھی ہے اور اس میں اسی حدیث کے اندر چار مقامات پر رفع الیدین کا ذکر ہے تو کیا یہ کہہ دیا جائے کہ ابوداؤد والی حدیث صحیح بخاری کی حدیث کےخلاف ہے اس لئے ضعیف ہے؟؟؟
بلکہ خود بوقت ذبح ذکر ودعاء سے متعلق دیگر احادیث ہی دیکھ لیں ، صحیحین کی ایک حدیث میں صرف تکبیر وتسمیہ کاذکر ہے جبکہ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں { اللهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ} کا بھی ذکر ہے [صحيح مسلم رقم 1967]
اب کیا مؤخر الذکر حدیث کو صحیحین کی حدیث کے خلاف بتاکر اسے رد کرنا صحیح ہوگا ؟ ہرگزنہیں ! کیونکہ یہاں اس زیادت کو رد کرنے کا کوئی قرینہ نہیں ہے۔
ٹھیک اسی طرح جابر رضی اللہ عنہ کی زیربحث حدیث میں بھی زیادت کو رد کرنے کا کوئی قرینہ نہیں ہے ۔
نیز کسی حدیث میں زیادت ثقہ کی بحث عموما عین اسی حدیث کے دیگر طرق کی بنیاد پر ہوتی ہے اور زبربحث جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث کو جو دوسرا طریق ہے جس میں مختصر ذکرودعاء کا ذکر ہے ۔وہ درجہ وقوت میں زیربحث حدیث سے کم تر ہی ہے ۔اس لئے کمتردرجہ کی سند سے آنے والی چیز اعلی درجے کی سند سے آنے والی چیز کے لئے قادح نہیں ہوسکتی ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
زیربحث حدیث کے شواہد

آخر میں بطور فائدہ یہ بھی معلوم ہو کہ زیربحث حدیث کے بعض شواہد بھی ملتے ہیں لیکن یہ شواہد سب کے سب ضعیف بلکہ بعض سخت ضعیف ہیں ۔ملاحظہ ہو:
پہلا شاہد:
أبو مسلم محمد بن أحمد الكاتب رحمه الله نے کہا:
حدثنا أبو بكر عبد الله بن سليمان بن الأشعث السجستاني ، ببغداد ، ثنا عيسى بن حماد زُغبة ، أنا الليث ، عن يزيد ، عن خالد بن كثير ، أن علياً كان إذا وجَّه ذبيحته قال : { إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ } , {إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ , لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ } ، اللهم منك ولك يا الله والله أكبر .[مجلس من أمالي أبي مسلم الكاتب:ق 260/أ،ب]
یہ کتاب ابھی تک غیرمطبوع ہے اس لئے اس کے مخطوطہ کا عکس ملاحظہ ہو:
Ammali 1.jpg

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Ammali 2.jpg


یادرہے کہ یہ روایت گرچہ موقوف ہے لیکن بوقت ذبح دو مقام کی آیات کو ایک ساتھ پڑھنا یہ کوئی ایسامعاملہ نہیں ہے جس میں اجتہاد کا دخل ہو لہٰذا یہ حکما مرفوع ہے اورجب حکمامرفوع ہے تو مرفوع حدیث کے شاہد کے طورپر اس کا پیش کرنا بھی درست ہے جیساکہ اہل علم کے یہاں یہ بات معروف ہے ، واضح رہے کہ ہمارے نزدیک یہ شاہد ضعیف ہے لیکن اس درجہ کی ضعف والی روایات شواہد کے باب میں قابل قبول سمجھی جاتی ہیں۔
دوسراشاہد:
امام حاکم فرماتے ہیں:
أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ الْفَقِيهُ، ثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ قُتَيْبَةَ، ثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ثَنَا النَّضْرُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْبَجَلِيُّ، ثَنَا أَبُو حَمْزَةَ الثُّمَالِيُّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " يَا فَاطِمَةُ قَوْمِي إِلَى أُضْحِيَّتِكَ فَاشْهَدِيهَا فَإِنَّهُ يُغْفَرُ لَكِ عِنْدَ أَوَّلِ قَطْرَةٍ تَقْطُرُ مِنْ دَمِهَا كُلُّ ذَنْبٍ عَمِلْتِيهِ وَقُولِي: إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهُ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ " قَالَ عِمْرَانُ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا لَكَ وَلِأَهْلِ بَيْتِكِ خَاصَّةً فَأَهَلَّ ذَاكَ أَنْتُمْ أَمْ لِلْمُسْلِمِينَ عَامَّةً؟ قَالَ: «لَا بَلْ لِلْمُسْلِمِينَ عَامَّةً» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ[المستدرك على الصحيحين للحاكم 4/ 247]۔
اس روایت میں مشہود لہ کے مکمل الفاظ نہیں ہے لیکن ایک آیت مذکورہے اور یہاں جو یہ ہے کہ ''قولی'' اس سے ظاہر ہے بوقت ذبح یہ کہنے کاحکم ہے بلکہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہ کی بابت ایک اور روایت اسی مفہوم کی منقول ہے جس میں بوقت ذبح ان الفاظ کے کہنے کی صراحت ہے کماسیاتی ، لیکن یہ روایت سخت ضعیف ہے۔
تیسراشاہد:
وروي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال لعائشة رضي الله عنه: «قُومِي إلى أُضْحِيَتِكِ وَاذْبَحِي وَقُولِي: إنَّ صَلاَتِي وَنُسْكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لله رَبِّ العَالَمِينَ» .[تفسير السمرقندي = بحر العلوم 1/ 500]۔
یہ روایت بھی ماقبل میں مذکور روایت ہی کی طرح ہے لیکن اس کی سند پر میں واقف نہیں ہوسکا۔

یہ تمام شواہد ضعیف ہیں انہیں ہم نے معلومات کے لئے ذکرکردیا ہے ، ورنہ زیربحث حدیث کی تصحیح کے لئے ان کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ زیربحث حدیث اصلا اپنی سند سے ہی ثابت اور صحیح ہے ۔والحمدللہ
 
Top