کفایت اللہ
عام رکن
- شمولیت
- مارچ 14، 2011
- پیغامات
- 4,999
- ری ایکشن اسکور
- 9,800
- پوائنٹ
- 722
دعائے قربانی ﴿إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي ۔۔۔الخ﴾ والی حدیث کی تحقیق
کفایت اللہ سنابلی
قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت ایک طویل دعاء: ﴿إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي ۔۔۔الخ﴾ کے الفاظ سے حدیث میں وارد ہے اس مضمون میں اسی حدیث کی استنادی حالت پربحث ہوگی ۔
سب سے پہلے یہ واضح ہو کہ قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت دعاء یا ذکر کے مختلف صیغے وارد ہیں اور کسی بھی صیغے کو پڑھ کرذبح کیا جاسکتا ہے۔ضروری نہیں ہے کہ طویل دعاء یا ذکر ہی پڑھ کر ذبح کیا جائے۔ذیل میں یہ سارے صیغے پیش کئے جاتے ہیں:
✿ 1۔ بِاسْمِ اللهِ وَاللهُ أَكْبَرُ (اللہ کے نام پراور اللہ سب سے بڑا ہے)[صحيح مسلم رقم1966]
✿ 2۔ بِاسْمِ اللهِ وَاللهُ أَكْبَرُ، {اللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ} (اللہ کے نام پراور اللہ سب سے بڑا ہے، اے اللہ! یہ تیرے فضل سے ہے اور تیرے لئے ہے)[صحيح مسلم رقم1966 ،مستخرج أبي عوانة رقم7798 وإسناده صحيح]
✿ 3۔ بِاسْمِ اللهِ وَاللهُ أَكْبَرُ،{ اللهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ} (اللہ کے نام پراور اللہ سب سے بڑا ہے، اے اللہ !اسے فلاں کی طرف سے قبول فرما)[صحيح مسلم رقم1966 ایضا رقم 1967]
✿ 4۔ بِاسْمِ اللهِ وَاللهُ أَكْبَرُ، {اللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ}، { اللهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ} ۔۔۔ (اللہ کے نام پراور اللہ سب سے بڑا ہے،اے اللہ! یہ تیرے فضل سے ہے اور تیرے لئے ہے، اے اللہ !اسے فلاں کی طرف سے قبول فرما) [صحيح مسلم رقم1966 ،مستخرج أبي عوانة رقم7798 وإسناده صحيح ،صحيح مسلم رقم 1967]
✿ 5۔ ﴿إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ،إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ، لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ﴾، بِاسْمِ اللهِ وَاللهُ أَكْبَرُ، اللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ ، { اللهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ} ۔۔۔ (میں اپنا رخ اس کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا یکسو ہو کر، اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں ، یقینا میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے جو سارے جہان کا مالک ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھ کو اسی کا حکم ہوا ہے اور میں سب ماننے والوں میں سے پہلا ہوں ،اللہ کے نام پراور اللہ سب سے بڑا ہے،اے اللہ! یہ تیرے فضل سے ہے اور تیرے لئے ہے، اے اللہ !اسے فلاں کی طرف سے قبول فرما)[مسند أحمد 3/ 375 ط الميمنية ،رقم 15022 وإسناده صحيح ،صحيح مسلم رقم 1967]
وضاحت
{اللهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ} (اے اللہ! اسے قبول فرما فلاں کی طرف سے ) والی دعاء پڑھی جائے تو(مِنْ) کے بعداس شخص کا نام لیا جائے جس کی طرف سے قربانی پیش کی جارہی ہے۔اوراگراس شخص کے ساتھ اس کے تمام گھر والوں کی طرف بھی وہی قربانی پیش کی جارہی ہے تو اس طرح پڑھے:
{اللهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ فلاں و مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ} (اے اللہ اسے قبول فرما فلاں اوراس كے گھر والوں کی طرف سے )۔
اوراگر کوئی شخص خود اپنی طرف سے قربانی پیش کررہا ہے تو وہ ان الفاظ کو اس طرح پڑھے:
{اللهُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّي} (اے اللہ! اسے قبول فرما میری طرف سے ) ۔اوراگر کوئی اپنی طرف سے اور اپنے اہل خانہ کی طرف سے قربانی پیش کررہا ہے تو اس طرح پڑھے : {اللهُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّي و مِنْ أَهْلِ بَيْتِي}(اے اللہ! اسے قبول فرما میری طرف سے اور میرے گھروالوں کی طرف سے )
تنبیہ:
مؤخر الذکر طویل صیغے میں قرآنی آیات کے آخری حصے ﴿وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ﴾ کے تعلق سے بعض اہل علم نے بحث کی ہے کہ اسے ایسے ہی پڑھیں گے یا اسے وانا من المسلمین پڑھیں گے دیکھئے:[أصل صفة الصلاة للالبانی: 1/ 246]
اور غالبا اسی بحث سے متاثر ہو کر بعض رواۃ نے روایت کے اندر بھی اسے بدل دیا ہے اور «اول المسلمين» کو «من المسلمين» بنادیا ہے ،[سنن أبي داود 3/ 95 رقم2795 ]
لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہاں ویسے ہی پڑھا جائے جیسے قرآن میں ہے نیز ابوداؤد کی روایت جس میں یہ الفاظ تبدیل شدہ ہیں وہ سندا ضعیف بھی ہے اس کے برعکس جو صحیح روایت ہے جس پر آگے بحث آرہی ہے اس میں یہ الفاظ قرآن کے موافق ہی ہیں ۔
درج بالا پانچوں صیغوں میں سے کسی بھی صیغے سے ذکر ودعاء پڑھ کر قربانی کا جانور ذبح کیا جاسکتا ہے،اول الذکر چارصیغوں کی بابت کوئی اختلاف نہیں ہے، پانچویں صیغے سے متعلق متقدمین علماء میں کوئی اختلاف مجھے نہیں معلوم ، البتہ معاصرین میں اس صیغے کو لیکر اختلاف ہوگیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیاہے۔ لیکن ہماری نظر میں یہ حدیث صحیح ہے جیساکہ آگے تفصیل آرہی ہے۔
علامہ البانی رحمہ اللہ کا رجوع :
میرے علم کی حدتک علامہ البانی رحمہ اللہ سے قبل کسی بھی محدث نے اس حدیث کو ضعیف قرار نہیں دیا ہے ، سب سے پہلی شخصیت جس نے اس حدیث کی تضعیف کی وہ علامہ البانی رحمہ اللہ ہی تھے ۔ لیکن بعد میں علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی تضعیف سے رجوع فرمالیا اور مشکاۃ کی دوسری تحقیق میں اسے حسن قرار دیتے ہوئے لکھا:
”ثم حسنته لرواية ثلاثة من الثقات عن المعافري ، وتصحيح ابن خزيمة ، والحاكم ،والذهبي“
”پھرمیں نے اسے حسن قرار دیا ، کیونکہ معافری سے تین لوگوں نے روایت کیا ہے اوراس کی حدیث کو امام ابن خزیمہ ، امام حاکم اورذہبی نے صحیح قراردیا ہے“ [هداية الرواة:ج2ص:128 حاشية2]
لیکن بعض اہل علم اب بھی اس حدیث کو ضعیف کہتے ہیں ، اس لئے ذیل میں اس حدیث کی پوری تحقیق پیش خدمت ہے:
سب سے پہلے دعائے قربانی والی روایت کو مع سند ومتن دیکھتے ہیں ،امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
حدثنا يعقوب ، حدثنا أبي ، عن ابن إسحاق ، حدثني يزيد بن أبي حبيب المصري ، عن خالد بن أبي عمران ، عن أبي عياش ، عن جابر بن عبد الله الأنصاري ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ذبح يوم العيد كبشين ، ثم قال حين وجههما : إني وجهت وجهي للذي فطر السموات والأرض ، حنيفا مسلما ، وما أنا من المشركين ، إن صلاتي ، ونسكي ، ومحياي ، ومماتي لله رب العالمين ، لا شريك له ، وبذلك أمرت ، وأنا أول المسلمين ، بسم الله ، والله أكبر ، اللهم منك ، ولك عن محمد ، وأمته.[مسند أحمد 3/ 375 ط الميمنية ،وإسناده صحيح ومن طريق أحمد أخرجه الحاكم في ”المستدرك“ (1/ 467 : ط الهند) والبيهقي في ”الدعوات الكبير“ ( 2/ 172)، وأخرجه أيضا ابن خزيمه في ”صحيحه“ (4/ 287) رقم (2899 ) من طريق أحمد بن الأزهر عن يقوب به]
یہ سند بالکل صحیح ہے اس کے سارے راوی ثقہ ہیں ، ہرایک کا مختصر تعارف ملاحظہ ہو:
يعقوب بن إبراهيم القرشي:
آپ بخاری ومسلم کے راوی اوربالاتفاق ثقہ ہیں، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: ثقة فاضل [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم7811]۔
إبراهيم بن سعد الزهري:
آپ بھی بخاری ومسلم کے راوی ہیں اوربہت بڑے ثقہ ہیں، حافظ ابن حجررحمہ اللہ کہتے ہیں:ثقة حجة [مقدمة فتح الباري: ص: 385]۔
محمدابن إسحاق القرشي:
آپ بھی بخاری (تعلیقا) ومسلم(شواہدومتابعات) کے راوی ہیں البتہ بخاری میں آپ کی مرویات تعلیقا ہیں ، آپ کے بارے میں اہل فن کے اقوال مختلف ہیں لیکن راجح قول کے مطابق آپ ثقہ ہیں ،امام شعبہ جیسے جلیل القدر محدث نے انہیں أمير المؤمنين في الحديث کہا ہے [تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 1/ 228 وسندہ صحیح]۔امام خلیلی فرماتے ہیں: عالم واسع العلم ثقة[الإرشاد في معرفة علماء الحديث للخليلي: 1/ 288] کمال الدین ابن الہمام حنفی (المتوفى 861 )نے کہا:أما ابن إسحاق فثقة ثقة لا شبهة عندنا في ذلك ولا عند محققي المحدثين [فتح القدير للكمال ابن الهمام1/ 424]۔
آپ مدلس ہیں لیکن ”إبراهيم بن سعد الزهري“ نے مذکورہ سند میں انہوں نے سماع کی صراحت کردی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ ابن اسحاق نے یہ حدیث اپنے استاذ سے سن رکھی ہے۔
اس تصریح سماع پر بدر بن عبد الله البدر صاحب نے ایک عجیب اعتراض کیا ہے کہ ابن اسحاق کے دیگر شاگردوں نے سماع کی صراحت کے بجائے ابن اسحاق سے عن سے روایت کیا ہے۔[الدعوات الكبير للبيهقي 2/ 172 حاشیہ]
عرض ہے کہ:
اولا:
یہ اعتراض اس وقت درست ہوسکتا جب یہ ثابت کردیا جائے کہ ابن اسحاق سے سارے شاگردوں نے ایک ہی مجلس میں سنا ہے ، کیونکہ ایک ہی مجلس میں ابن اسحاق کوئی ایک ہی صیغہ بیان کرسکتے ہیں ۔
لیکن اگر شاگردوں نے الگ الگ مجلس میں سنا ہو تو پھر ابن اسحاق کسی سے بصیغہ عن بیان کرسکتے ہیں اورکسی سے بصیغہ سماع ، اور ایسی صورت میں مخالفت ثابت ہی نہیں ہوگی ۔بلکہ یہ مانا جائے گا کہ ابن اسحاق نے یہ حدیث اپنے استاذ سے سنی ہے پھر کبھی صیغہ سماع سے اور کبھی عن سے ۔اور مدلس کا اپنی مسموع روایت کو صیغہ عن سے بیان کرنے صیغہ سماع سے بیان کرنے کے منافی نہیں ہے ۔
لہٰذا جب اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ ابن اسحاق کے سارے شاگردوں نے ایک مجلس میں سنا ہے تو پھر بغیر کسی ثبوت کے ایک ثقہ شاگرد کے بیان کر غلط نہیں قرار دیا جاسکتا بلکہ سارے ثقہ شاگردوں کی بیان میں یہ کہہ کرتطبیق دی جائے گی کہ ابن اسحاق نے کسی مجلس میں عن سے بیان کیا ہےا ور کسی مجلس میں سماع سے۔
ثانیا:
جن شاگردوں نے ابن اسحاق سے عن کا صیغہ نقل کیا ہے ان کے تعلق سے بھی یہ ممکن ہے کہ ابن اسحاق نے ان سے بھی صیغہ سماع سے بیان کیا ہوں لیکن انہوں نے عن کے ذریعہ ہی نقل کیا ، کیونکہ یہ بات مسلم ہے کہ رواۃ ہمیشہ صیغہ سماع کو جوں کا توں نقل نہیں کرتے، بلکہ صیغہ سماع کو عن سے بھی بدل کرنقل کرتے ہیں ۔کیونکہ عن کے اندر سماع کا معنی بھی ہوتا ہے۔بنابریں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ جن شاگردوں نے عن سے نقل کیا ہے انہوں نے سماع کا انکار کیا ہے۔
ثالثا:
جب تک خاص اور مضبوط دلیل سے یہ ثابت نہ ہوجائے کہ کسی ثقہ راوی نے صیغہ سماع کو نقل کرنے میں غلطی کی ہے ، تب تک بغیر دلیل کے ثقہ راوی کی تغلیط نہیں کی جاسکتی ہے ورنہ پھر یہ اصول ہی کالعدم ہوجائے کہ عن سے روایت کرنے والا مدلس کسی طریق میں سماع کی صراحت کردے تو عنعنہ مقبول ہوگا ۔
يزيد بن أبي حبيب المصري:
آپ بھی بخاری ومسلم کے راوی اوربالاتفاق ثقہ ہیں، حافظ ابن حجررحمہ اللہ فرماتے ہیں:ثقة فقيه[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 7701]۔
آپ ارسال کرنے والی راوی ہیں ،لیکن یہ حدیث انہوں نے اپنے استاذ خالد بن أبي عمران سے نقل کی ہے ، اور ارسال کرنے والا جب اپنے معاصر استاذ سے نقل کرتا ہے تو بالاتفاق اسے سماع پر ہی محمول کیا جاتا ہے۔
البتہ اس حدیث میں کبھی انہوں نے اپنے استاذ خالد بن أبي عمران کو ساقط کرکے ارسال کیا ہے جیساکہ ابن اسحاق کی دوسری معنعن سند میں یزید بن ابی حبیب کے بعد خالد بن أبي عمران کا ذکر ساقط ہے کماسیاتی ۔
لیکن ابن اسحاق کی مصرح بالسماع والی روایت میں یزیدبن حبیب کے استاذ خالد بن أبي عمران کا ذکر موجود ہے ، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ابن اسحاق نے ان سے مرسلا اور موصولا دونوں طرح سن رکھا ہے اور دونوں طرح روایت کیا ہے ۔لہٰذا جب موصول سند میں ساقط راوی کا ذکر آگیا تو مرسل سند سے ساقط راوی کا نام معلوم ہوگیا لہٰذا وہ بھی صحیح ہے۔
اگر کوئی دونوں کو صحیح نہ مانے تو کم ازکم موصول سند کو اسے ماننا ہوگا کیونکہ اس سند کو ابن اسحاق نے صیغہ سماع کے ساتھ نقل کیا ہے جبکہ مرسل سند کو ابن اسحاق نے عن سے روایت کیا ہے اور یہ تیسرے طبقے کے مدلس ہیں ۔
یادرہے کہ مرسل سند میں خالد بن ابی عمران کا اسقاط یزید بن ابی حبیب ہی کی طرف سے کیونکہ ارسال کرنا ان کی عادت ہے جیساکہ ائمہ فن نے صراحت کی ہے ۔[المراسيل لابن أبي حاتم ت قوجاني: ص: 239]
اس کے برعکس یہ ماننے کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ یہ اسقاط ابن اسحاق کی طرف سے ہے کیونکہ ایسی صورت میں یہ تدلیس تسویہ کی صورت ہوجائے گی اور ابن اسحاق تدلیس تسویہ کرنے والے راوی نہیں ہیں ، اس لئے واضح ہے کہ یہ اسقاط ان کی طرف سے نہیں بلکہ ان کے شیخ کی طرف سے ہے۔
بہرحال جو راوی ساقط کیا گیا تھا اس کا ذکر صحیح سند میں آچکا ہے اس لئے یہ عیب باقی نہیں رہا ۔
خالد بن أبي عمران:
آپ مسلم کے راوی اوربالاتفاق ثقہ ہیں ، امام ابوحاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ثقة لا بأس به [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 3/ 345]۔
أبو عياش الزرقي:
آپ مؤطا امام مالک ، سنن اربعہ ، مسند احمد ، سنن دارمی ،صحیح ابن خزیمہ،صحیح ابن حبان اور مستدرک وغیرہ کے رجال میں سے ہیں، امام ابن حبان رحمہ اللہ نے انہیں ثقہ کہا ہے[الثقات لابن حبان ط االعثمانية: 4/ 251] اسی طرح امام ابن خلفون رحمہ اللہ نے بھی انہیں ثقہ کہاہے [إكمال تهذيب الكمال:5 /167]، حافظ ابن حجر نے امام دارقطنی سے ثقة ثبت کےالفاظ نقل کئے ہیں[تلخيص الحبير 3/ 10]، امام دارقطنی کی توثیق کو حافظ مغلطای[إكمال تهذيب الكمال:5 /167]، اور حافظ سخاوی نے بھی نقل کیا ہے[التحفة اللطيفة في تاريخ المدينة الشريفة 1/ 372]۔ علامہ عینی حنفی نے بھی ثقہ کہا ہے [ البناية شرح الهداية 8/ 288]۔علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی انہیں ثقہ تسلیم کیا ہے [إرواء الغليل للألباني: 4/ 350] بعض نے انہیں مجہول کہا لیکن دوسرے کے ائمہ کی طرف سے صریح توثیق آجانے کے بعد اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
جابر بن عبد الله الأنصاري:
آپ معروف ومشہور صحابی ہیں بخاری ومسلم میں آپ کی بھی مرویات ہیں ۔
معلوم ہوا کہ روایت بالکل صحیح ہے ، والحمدللہ۔
بعض حضرات نے درج اس حدیث کو ضعیف قراردینے کے لئے درج ذیل تین اعتراضات کئے ہیں :
- (1) سند کا اختلاف
- (2) ابو عیاش کی عدم توثیق
- (3) صحیح حدیث کی مخالفت۔
اب بالترتیب ہم ان تینوں اعتراضات کا جائزہ لیتے ہیں :