• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دعا: "اے اللہ مجھے اپنے کسی بندے کا محتاج نہ بنا" کی حقیقت

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
452
پوائنٹ
209
دعا: "اے اللہ مجھے اپنے کسی بندے کا محتاج نہ بنا" کی حقیقت
مقبول احمد سلفی

حضرت علی رضی اللہ سے منقول ایک دعا وارد ہے " اللهمَّ لا تُحَوِّجْنِي إلى أَحَدٍ من خَلْقِكَ " یعنی اے اللہ مجھے کسی اپنی مخلوق میں سے کسی کا محتاج نہ بنا۔ حضرت علی کی یہ بات جب نبی ﷺ نے سنی تو فرمایا کہ ایسا مت کہو بلکہ کہو: "اللهمَّ لا تُحَوِّجْنِي إلى شِرَارِ خَلْقِكَ" یعنی اے اللہ مجھے اپنے بندوں میں سے برے آدمی کا محتاج نہ بنا۔ دراصل یہ ایک بے اصل روایت ہے جیساکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا ہے ۔( دیکھیں : لسان المیزان: 1/473)
اس حدیث کی بنیاد پر بعض اہل علم نے کہا کہ یہ دعا کرنا" اللهمَّ لا تُحَوِّجْنِي إلى أَحَدٍ من خَلْقِكَ " یعنی اے اللہ مجھے کسی اپنی مخلوق میں سے کسی کا محتاج نہ بنا صحیح نہیں ہے کیونکہ ایک انسان دوسرے انسان کا محتاج ہے جبکہ ہمیں معلوم ہوگیا کہ اس حدیث کی اصل ہی نہیں ہے۔
ایک مومن بندے سے اصلا یہی مطلوب ہے کہ وہ اللہ کا ہی محتاج بنے، اسی سے سوال کرے، اسی کے سامنے اپنی فریاد کرے، مصائب ومشکلات کی آمد پر اسی کی طرف رجوع کرے اور ہرلمحہ اسی کی طرف التفات کرے۔ یہ شرعی حکم ہے اور ہرنماز میں سورہ فاتحہ کے ذریعہ ہم اسی سے مدد طلب بھی کرتے ہیں ، اللہ کا فرمان ہے : إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحة:5)
ترجمہ: ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد طلب کرتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ صرف ایک ذات ہی خالق ، مالک اور غنی(مالدار ) ہے ، باقی سب اس کی مخلوق ہیں جو سب اس کے در کے محتاج وفقیر ہیں ۔ اللہ کا فرمان ہے : يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ
ۖ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ (فاطر:15)
ترجمہ: اے لوگو! تم سب اللہ کے محتاج ہو اور اللہ تم سب سے بے نیاز(مالدار) اور خوبیوں والا ہے۔
ایک بہت ہی پیاری اور نہایت ہی اہم حدیث جس میں نبی ﷺ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو بہت ہی قیمتی نصیحت فرمائی ہے مندرجہ ذیل ہے۔
يا غُلامُ إنِّي أعلِّمُكَ كلِماتٍ ، احفَظِ اللَّهَ يحفَظكَ ، احفَظِ اللَّهَ تَجِدْهُ تجاهَكَ ، إذا سأَلتَ فاسألِ اللَّهَ ، وإذا استعَنتَ فاستَعِن باللَّهِ ، واعلَم أنَّ الأمَّةَ لو اجتَمعت علَى أن ينفَعوكَ بشَيءٍ لم يَنفعوكَ إلَّا بشيءٍ قد كتبَهُ اللَّهُ لَكَ ، وإن اجتَمَعوا على أن يضرُّوكَ بشَيءٍ لم يَضرُّوكَ إلَّا بشيءٍ قد كتبَهُ اللَّهُ عليكَ ، رُفِعَتِ الأقلامُ وجفَّتِ الصُّحفُ .(صحيح الترمذي:2516)
ترجمہ: اے لڑکے! بیشک میں تمہیں چنداہم باتیں بتلارہاہوں: تم اللہ کے احکام کی حفاظت کر و،وہ تمہاری حفاظت فرمائے گا، تواللہ کے حقوق کا خیال رکھو اسے تم اپنے سامنے پاؤ گے، جب تم کوئی چیز مانگو توصرف اللہ سے مانگو، جب تو مدد چاہو توصرف اللہ سے مدد طلب کرو، اور یہ بات جان لو کہ اگر ساری امت بھی جمع ہوکرتمہیں کچھ نفع پہنچانا چاہے تو وہ تمہیں اس سے زیادہ کچھ بھی نفع نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، اور اگر وہ تمہیں کچھ نقصان پہنچانے کے لئے جمع ہوجائے تو اس سے زیادہ کچھ نقصان نہیں پہنچاسکتی جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے، قلم اٹھالیے گئے اور (تقدیر کے)صحیفے خشک ہوگئے ہیں ۔
گوکہ مذکورہ دعا" اللهمَّ لا تُحَوِّجْنِي إلى أَحَدٍ من خَلْقِكَ" کی کوئی اصل نہیں ہے مگر معنوی طور پر اس دعا میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ اوپر کی احادیث سے اس کی مزید وضاحت بھی ہوگئی ساتھ ہی بندوں سے بے نیازی اور استغناء سے متعلق حسن درجہ کی روایت بھی ملتی ہے ۔
عن سهل بن سعد رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : أتاني جبريل فقال: يا محمد ! عش ما شئت فإنك ميت وأحبب من شئت فإنك مفارقه واعمل ما شئت فإنك مجزي به واعلم أن شرف المؤمن قيامه بالليل وعزه استغناؤه عن الناس(رواه الحاكم والبيهقي وحسنه المنذري والألباني)
ترجمہ:سھل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ ایک مرتبہ جبریل علیہ السلام ، نبی کریم ﷺ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ اے محمد ، آپ جس قدر جینا چاہیں، جی لیں، آخر کار یقینا آپ کو موت آکر رہے گی، جس سے چاہیں، محبت کرلیں، تاہم آپ کو اس کی جدائی جھیلنی ہے اور جو چاہے عمل کرلیں، یقینا آپ کو اس کا بدلہ دیا جائے گا۔ پھر انہوں نے کہا کہ اے محمد! مومن کا شرف و اعزاز قیام اللیل میں ہے اور اس کی عزت لوگوں سے اس کی بے نیازی میں ہے۔
اسے حاکم اور بیہقی نے روایت کیا ہے اور منذری و شیخ البانی نے حسن کہا ہے۔
جہاں تک محتاج بندوں کا دوسرے زندہ بندوں سے حسی اور دنیاوی امور میں سوال کرنا ہے جس کی وہ طاقت رکھتے ہوں تو اس کی ممانعت نہیں ہے بلکہ یہ جائز اور معتاد امورہیں ۔
 
Top