رمضان میں محترم عبدہ صاحب سے ملاقات ہوئی ، فورم کے اراکین کے بارے میں تبادلہ خیال کے دوران میں نے گزارش کی کہ فورم کے کئی اراکین سے میری بالمشافہ ملاقات نہیں ، محترم عبدہ صاحب نے کہا کہ ایسا کرتے ہیں ، ایک دعوت کا اہتمام کرلیتے ہیں جس میں سب ساتھی ایک دفعہ پھر اکٹھے ہوکر بیٹھ جائیں گے اور اسی طرح آپ کی ان سب سے ملاقات بھی ہو جائے گی ، میں نے فورا اظہار تشکر کے ساتھ حامی بھری ، اور محترم محمد نعیم یونس صاحب کے ذریعے ’’ دعوت ککڑی ‘‘ کا اعلان لگ گیا ، اس کے بعد ’’ ککڑی ‘‘ تبدیل ہوئی ’’ بکری ‘‘ میں ، یہ تمام داستان اس لڑی میں موجود ہے ، محترم عبدہ صاحب بہت پیار اور محبت کے ساتھ وقتا فوقتا رابطے میں رہے ، تاآنکہ ٹائپرالحروف ، محترم
@ابن آدم ، سید حبیب الرحمن شاہ صاحب ، اور محسن علی تابش صاحب ، چار افراد کا یہ قافلہ ابن آدم صاحب کی گاڑی میں بروز ہفتہ 8 اگست بعد از نماز عصر رائیونڈ سے دعوت میں شریک ہونے کے لیے روانہ ہوگیا ، رستے میں سب سے پہلے تو تابش صاحب سے تعارف ہوا ، اس کے بعد محترم
@فلک شیر صاحب کا تذکرہ ہوا ، ابن آدم صاحب نے بتلایا کہ وہ کسی وجہ سے دعوت میں شریک نہیں ہورہے ، پھر میری بھی ان سے فون پر بات ہوئی تو انہوں نے کچھ معقول گھریلو مصروفیات کا تذکرہ کیا ، اور آئندہ کسی وقت ملاقات کا دعدہ کیا ، فلک شیر صاحب سے رابطہ منقطع ہوا تو رائیونڈ روڈ کا وہ حصہ شروع ہوچکا تھا ، جہاں شاہان وقت نے اپنی مستقبل کی سہولیات کے لیے عوام کے ’’ حال ‘‘ کو ’’ بدحال ‘‘ کیا ہوا تھا ، ٹوٹی پھوٹی سڑک کا تقریبا 7 کلومیٹر پر مشتمل ٹکڑا ختم ہوا اور ہم ٹھوکر نیاز بیگ لاہور پہنچ گئے ، ٹھوکر کراس کرکے تھوڑی دیر بعد دائیں طرف ایک سڑک پر اتر گئے ، غالبا یہ وہی رستہ تھا جہاں سے سابقہ دعوت میں ابن آدم صاحب بمع رفقا شرکت کے لیے گئے تھے ، لیکن اب کی بار پہلے ہی موڑ پر کیچڑ کی بھرمار سے اندازہ ہوگیا کہ اس طرف سے منزل مقصود کی طرف جانا ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہوگا ، جس کی تصدیق فون پر عبدہ بھائی نے بھی کی اور ایک متبادل راستہ بتلایا ، ابھی ہم واپس ہو ہی رہے تھے کہ سامنے سے ایک موٹر سائیکل پر محترم محمد نعیم یونس صاحب آتے دکھائی دیے ، ان کے ساتھ ایک اور ساتھی بھی تھے ، راستے کی خرابی کا تذکرہ کرنے کے بعد طے یہ پایا کہ نعیم صاحب کے پاس چونکہ موٹر سائیکل ہے ، وہ اسی طرف سے جاسکتے ہیں ، البتہ گاڑی کے لیے دوسرا راستہ ہی مناسب رہے گا ، بطور گائیڈ کے انہوں نے دوسرے بھائی کو ہمارے ساتھ بٹھا دیا ، میں سمجھ رہا تھا شاید یہ آپ کے بھائی معین صاحب ہیں ، لیکن بعد میں ان سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ وہ عبدالروف بھائی ہیں ، اور کسی میڈیسن کمپنی میں بطور سیل مین کام کرتے ہیں ، راستے میں ایک تھانہ بھی واقع تھا ، جہاں سید حبیب الرحمن شاہ صاحب کے کوئی واقف کار ملازم تھے ، شاہ صاحب نے ان سے بھی ملاقات کی ، انہوں نے بڑی گرمجوشی سے استقبال کیا ، چونکہ ہم جلدی میں تھے ، تو انہوں نے دکان سے ایک جمبو سائز بوتل لے کر ہمیں دے دی ، بلکہ ساتھ ایک شیشے کا گلاس بھی دے دیا ، احباب بطور مزاح کہنے لگے کہ ہم نے ان کے پیسے خرچ کروائے ہیں ،اب دیکھیں کون غریب اس کا کفارہ ادا کرنے کا سبب بنتا ہے ۔ ابتسامہ ۔
خیر دوران سفر ہی ،ایک اور لطیفہ پیش آیا ، عبدالروف بھائی اردو میں بات کر رہے تھے ، ہم نے بھی تکلف کرکے ان کا ساتھ دینے کی کوشش کی ، بالآخر ہم نے کہا کہ بھائی معذرت ، ہمیں پنجابی بولنا ذرا آسان ہے ، اس لیے اردو سے معذرت قبول کیجیے ، اب عبدالروف بھائی نے جب پنجابی شروع کی تو ، ہمیں اندازہ ہوا کہ وہی مشکل جو ہمیں اردو میں پیش آرہی تھی ، وہ پنجابی بولنے میں محسوس کر رہے ہیں ، لہذا میں نے گزارش کی کہ جناب آپ اردو بولیں اور ہم پنجابی ، تاکہ سب ہی ’’ سوکھے ‘‘ رہیں ۔ مسکراہٹیں ۔
عبدہ بھائی نے دو چار دفعہ کوشش کرکے مجھے رستہ سمجھانے کی کوشش کی ، میں نے جواب میں بڑے دھیان سے ’’ ہاں ، ہاں ، جی ، جی ‘‘ اسی طرح کہا جس طرح کلاس میں استاد کے سامنے بیٹھا ہوا طالبعلم کرتا ہے ، جبکہ چشم تصور سے وہ کسی اور قصہ ، کہانی سے لطف اندوز ہورہا ہوتا ہے ۔ لہذا میں نے فون سننے کے فورا بعد سچ سچ بتادیا کہ جناب مجھے راستہ سمجھ میں نہیں آیا ، لہذا اپنی ذمہ داری پر سفر جاری رکھیں ، تھوڑا آگےجاکر ابن آدم صاحب نے محسوس کیا کہ ہم راستہ بھٹک چکے ہیں ، اور اس جگہ پہنچ گئے ہیں ، جہاں ایک قاری صاحب اس وقت پہنچ گئے تھے ، جب ان کی والدہ نے انہیں کسی فیکڑی سے چربی لینے کے لیے بھیجا تھا ، لیکن وہ دشمنانِ یارانِ نبی کے ہتھے چڑھ گئے ، اور تین دن تک تشدد برداشت کرنے بعد انہیں رہائی ملی ۔ گویا ہم ایک طرح سے ممنوعہ علاقے میں جاچکے تھے ، فورا واپس ہوئے ، ذرا پیچھے آکر ایک صاحب سے ، جو حلیہ سے تبلیغی محسوس ہورہے تھے ، مسجد تقوی کا رستہ پوچھا تو ، انہوں نے رستہ پتہ نہیں صحیح بتایا یا غلط ، لیکن ایک بات انہوں کمال کردی ، مسافت کا اندازہ بتاتے ہوئے کہنے لگے ، یہاں سے آپ 100 دفعہ تسبیح کریں گے تو آپ اپنے مطلوبہ مقام تک پہنچ جائیں گے ۔
خیر ، قصہ مختصر ، ہم مسجد تقوی پہنچ گئے ، گیٹ پر لائق احترام ، عبدہ ،@محمد زاہد بن فیض ، محمد نعیم یونس ، معین یونس بھائیوں نے استقبال کیا ، مغرب کی جماعت ہوچکی تھی ، ہم نماز ادا کرنے کےلیے مسجد کے اندر چلے گئے ، وہاں پہلے سے محمد آصف مغل صاحب جماعت کروا رہے تھے ، پیچھے پینٹ شرٹ میں ملبوس ایک نوجوان بھی نماز ادا کر رہے تھے ، نماز پڑھنے کے بعد پتہ چلا کہ وہ
@ساجد تاج بھائی ہیں ، ملتے ہی ذرا خفگی کا اظہار کرنے لگے کہ رمضان میں میں نےآپ سے رابطہ کیا تھا ، لیکن آپ نے میرا فون نہیں اٹھایا ، میں نے بھی عذر پیش کیا کہ مجھے پتہ ہی نہیں چل سکا ، نمبر محفوظ نہ ہونے کے سبب دوبار رابطہ بھی نہیں کرسکا ، خیر اب عذر قبول ہوا یا نہیں یہ تو وہی بتائیں گے ۔ ابتسامہ ۔
نماز سے فارغ ہوکر واپس آئے تو گیٹ کے سامنے کھڑے افراد میں کچھ افراد کا اضافہ ہوچکا تھا ، جن میں ایک محترم
@ہابیل صاحب تھے ، اور دوسرے محترم
@عبدالودود صاحب ۔
سب صاف ستھرے ، اور مہمانوں کے لیے تیار شدہ ایک کمرے میں بیٹھ گئے ، جو غالبا محترم عبدہ صاحب کے مدرسہ کے لیے دفتر ، دواخانہ ، اور مہمان خانہ کے طور پر استعمال ہوتا تھا ۔
تھوڑی دیر بعد فورم کے ناظم اعلی استاد محترم
@انس نضر صاحب ، ناظم خاص
@حافظ اختر علی صاحب ، فتوی سائٹ کے نگران قاری @مصطفی راسخ صاحب ، لائبریرین محترم
@محمد اصغر صاحب اور محترم بھائی
@عبدالقیوم صحافی صاحب بھی تشریف لے آئے ، ان سے پہلے ڈاکٹر
@خان ساب ، عاطف بیگ صاحب ، بلال نیازی صاحب اور @مفکر اسلام صاحب بھی تشریف لا چکے تھے ۔
محترم میزبان محترم عبدہ بھائی نے شرکاء کی تکمیل کا اشارہ دیا اور گفتگو کا باقاعدہ آغاز تمام شرکاء کے تعارف سے شروع ہوا ، اور یہ پل صراط محترم میزبان کو ہی عبور کرنا پڑا ، جہاں کہیں وہ اٹکے ، صاحب تعارف نے خود ہی لقمہ دے کر تعارف مکمل کیا ، اس کے بعد فورم کے ناظم اعلی کی تمہیدی گفتگو ہوئی ، جس میں انہوں نے عمل صالح کی اہمیت ، مقصد زندگی اور عصر حاضر میں انٹرنیٹ پر دعوت و تبلیغ کی اہمیت کو مختصر او رجامع الفاظ میں بیان کیا ۔ اسی طرح محترم عاطف بیگ صاحب نے فیس بک اور ٹویٹر پر کام کی افادیت پر بات کی ، محترم مفکر اسلام صاحب چونکہ ویب ڈیزائننگ سے تعلق رکھتے تھے ، انہوں نے اس سلسلے میں بڑے مفید مشورے اور تجاویز سے نوازا ، بلکہ ان کا یہ سلسلہ آخر تک جاری رہا ، اور آخر میں انہیں خود محسوس ہوا کہ مجلس میں سب سے زیاد وقت وہی لے رہے ہیں ـ مسکراہٹیں ۔ شرکاء میں سب سے آخر میں محترم سجاد صاحب بھی شریک محفل ہوئے ۔
عشاء کی نماز کاوقت ہوا ، نماز کے لیے عبدہ بھائی نے مجھے حکم دیا ، نماز کے بعد ایک کشادہ حال میں بہترین قسم کا کھانا بمع تمام لوازمات سجادیا گیا تھا ، تمام شرکاء نے بڑے ذوق و شوق سے بکرے کو چبا چبا کر کھایا ، کبھی روغنی نانوں کے ساتھ اور کبھی باسمتی چاولوں کے ساتھ ، جنہیں فرصت ملی ، انہوں نے پانی بھی پیا اور بوتل کے بھی دو چار گھونٹ لیے ، تمام احباب کھا چکے ، لیکن اب بھی کھانا پینا وافر مقدار میں موجود تھا ، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے محترم میزبان نے کسی بھی جگہ ، کسی قسم کی کمی کا احتمال بھی نہیں رہنے دیا تھا ۔ اللہ تعالی ان کے جان ، مال ، اولاد ، اعمال و افعال میں برکت عطا فرمائے اور انہیں بہترین بدلے سے نوازے ۔اور ان کےساتھ انتظام کرنے والے ان کے دیگر متعلقین کو بھی جزائے خیر دے ۔
کھانے کے بعد دوبارہ مجلس شروع ہوئی ، اور طے یہ پایا کہ تمام شرکاء ایک ایک منٹ میں اپنا مافی الضمیر بیان کریں گے ،اس میں وہ تجاویز ، شکایات ، اصلاحات ، مدح سرائی یا مذمت وغیرہ کوئی بھی کام کرسکتے ہیں ، بہت سی تجاویز اور شکایات سامنے آئیں ، جنہیں محترم حافظ اختر علی صاحب ساتھ ساتھ نوٹ کرتے رہے ، اور مسائل کا ساتھ ساتھ حل بھی بتاتے رہے ، اس سلسلے میں ان کی مدد محترم ابن آدم بھائی ، محترم مفکر اسلام صاحب اور محترم محمد نعیم یونس صاحب نے بھی کی ، استاد محترم انس نضر صاحب اور ٹائپرالحروف بھی کچھ نہ کچھ حصہ ڈالتے رہے ۔
اس سلسلے کا اختتام محترم
@سجاد صاحب کی تجویز پر ہوا کہ فورم کی ایک خاص ایپلیکیشن ہونی چاہیے جو انڈرائیڈ اور آئی فون وغیرہ موبائلز میں قابل استعمال ہو۔
باقی تفصیلا تمام احباب نے کیا کیا تجاویز و اصلاحات رکھیں ، وہ خود ہی بیان کریں گے ، ان شاءاللہ ۔
محترم ابن آدم بھائی اور محترم سجاد صاحب حسب پیشکش مٹھائی بھی ساتھ لے کر آئے ہوئے تھے ، جس سے کھانے کے بعد ہونے والی مجلس میں شرکا وقتا فوقتا محظوظ ہوتے رہے ، مٹھائیایں دونوں ہی خوب تھیں ، لیکن ایک کا ذرا الگ ہی مزا تھا ، جس کا اظہار میں نے مجلس کے اختتام پر الواداعی ملاقات میں لانے والے سے کردیا تھا ۔
آخر میں مدرسے کی چند ننھی منی طالبات کی تلاوات قرآن مجید بھی ہوئیں ، تمام احباب نے ان کو بہت سراہا ، تجوید اور لہجہ دونوں ہی چیزیں قابل تعریف تھیں ۔
اختتامی دعا جس کے لیے قاری مصطفی راسخ ، پھر سید حبیب الرحمن شاہ صاحب کو کہا گیا ، لیکن بالآخر استاد محترم انس صاحب نے دعا کروانے کی سعادت حاصل کی ، اور یہ مجلس برخاست ہوئی ۔
اس مجلس میں میں نے جو ملاحظہ کیا وہ جوش ، جذبہ ، ولولہ ، دینی اخوت تھی ، جو تمام شرکاء دین کی سربلندی ، اور مسلمان بھائیوں کے تعاون کے لیے اپنے دلوں میں سموئے ہوئے تھے ۔
کچھ احباب کی غیر موجودگی کو اس میں محسوس کیا گیا ،جس میں بالخصوص دو تین نام لوں گا ، محترم رفیق طاھر صاحب ، استاد محترم ابو الحسن علوی صاحب او تیسرے محمد علی جواد صاحب ۔
ایک موضوع پر محمد آصف مغل صاحب کی گفتگو کی منطقیت اور سادگی نے متاثر کیا ، محسن علی تابش اور محترم مفکر اسلام صاحب کے دعوت دین کا جذبہ قابل تعریف محسوس ہوا ، محترم نعیم یونس صاحب کی شخصیت سے میں ملاقات سے قبل ہی متاثرہوں ۔
محترم ہابیل صاحب کی دین سیکھنے کی تڑپ بہت بھلی محسوس ہوئی ، زاہد فیض صاحب کی باتوں میں متانت و سنجیدگی نظر آئی ،
محترم سجاد صاحب کی تواضع اور سبقت الی الخیر جیسی خوبیوں پر دل خوش ہوا ، عبدالودود بھائی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم فلیقل خیرا أو لیصمت کی عملی تصویر نظر آئے ، حقیقت یہ ہے کہ تمام احباب مجلس میں بیٹھے ایک گلدستہ کی مانند محسوس ہوئے جو مختلف بیش بہا پھولوں سے مرکب ہوتا ہے ، اور ہر پھول اپنی ایک نمایاں پہچان رکھتا ہے ۔