دلالت کے اعتبار سے لفظ کی اقسام:
لفظ کے اپنے معنی پر دلالت کرنے کے اعتبار سے کئی حالات ہیں:
۱۔ یہ کہ اس میں صرف ایک ہی معنی کا احتمال ہو۔ جیسا کہ اللہ رب العالمین کا فرمان ہے:
﴿ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ ﴾ [البقرة:196] یہ پورے دس ہیں۔
اسی طرح اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا یہ فرمان : ﴿ فَتَمَّ مِيقَاتُ رَبِّهِ أَرْبَعِينَ لَيلَةً ﴾ [الأعراف:142] تو ان کے رب (کی ملاقات )کا وقت چالیس راتوں کا ہوگیا۔
اس جیسی عبارتوں کا نام ’نص‘ رکھا جاتا ہے۔ نص کا لفظ ’منصة العروس‘ سے لیا گیا ہے جس کا لغوی معنی بلندی ہے۔
۲۔ یہ کہ ایک سے زیادہ معانی کا برابر طورپر احتمال رکھتاہو۔ جیسا کہ «قرء وعين»ہے۔ اس کا نام ’مجمل ‘رکھا جاتا ہے۔
۳۔ یہ کہ ایک سے زیادہ معانی کا احتمال تو رکھتا ہو لیکن ان معانی میں سےایک معنی دوسرے معانی سے زیادہ راجح ہو۔ تو جو راجح ہوتا ہے اس کا نام ’ظاہر‘ رکھا جاتا ہے۔جیسا کہ آپ کہتےہیں: «رأيت اليوم أسدًا»میں نے آج ایک شیر دیکھا۔تو ہوسکتا ہے کہ آپ نے جنگل میں دھاڑتے ہوئے شیر کو دیکھا ہو یا پھر کسی بہادر آدمی کو دیکھا ہو۔ تو یہاں پر پہلا معنی زیادہ راجح ہے۔
۴۔ اور اگر زیادہ معانی والے لفظ میں سے مرجوح معنی مرادلیا جائے تو وہ ’مؤول‘ ہے۔ جیسا کہ ’اسد‘ کے لفظ کو گزشتہ مثال میں بہادر آدمی پر فٹ کرنا۔مرجوح معنی پر محمول کرنے کےلیے کسی قرینہ کی موجودگی ضروری ہے ورنہ ایساکرنا باطل ہے۔
دلالت کے اعتبار سے لفظ کو صرف ان مذکورہ بالا اقسام میں محصور کرنے کی وجہ یہ ہے کہ لفظ یا تو ایک ہی معنی کا احتمال رکھتا ہے یا ایک سے زیادہ معانی کا۔ تو پہلی صورت میں اس کا نام ’نص‘ ہے۔ اور دوسری صورت میں یا تو دو معنوں میں سے ایک معنی کا احتمال رکھتا ہے یا مختلف معانی میں سے جو اپنے غیر سے زیادہ ظاہر ہوتا ہے۔اس میں پہلی صورت یہ ہے کہ یا تو وہ برابر برابر احتمال رکھتا ہے تو پہلے کا نام ’ظاہر‘ اور جو اس کے مقابلے میں ہوتا ہے اس کانام ’مؤول‘ رکھتے ہیں اور دوسری صورت کا نام ’مجمل‘ رکھتے ہیں۔
ان اقسام کا حکم:
۱۔ نص سے صرف نسخ کے ذریعے ہی عدول (تجاوز)کیا جائے گا۔
۲۔ مجمل پر بیان کے بعد ہی عمل کیا جائے گا۔
۳۔ ظاہر کو چھوڑ کر مؤول کی طرف صرف کسی مضبوط قرینہ کی وجہ سے ہی منتقل ہوا جائے گاجو مرجوح جانب کو راجح بنا دے۔
اس کی مثال ’جار‘ کا لفظ ہےجو اس حدیث «الجار أحق بسقبه»میں ہے۔ تو اس میں راجح معنی ہمسایہ ہے۔اور مرجوح معنی میں ساتھی ہے۔ تو حنابلہ نے اسے اس کے مرجوح معنی ہونے کے باوجود ایک مضبوط قرینہ کے وجہ سے شریک پر محمول کیا ہے۔ اور یہ قرینہ نبی کریمﷺ کا یہ فرمان گرامی ہے: «فإذا ضربت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة» جب حدود مقرر ہوجائیں اور راستے علیحدہ ہوجائیں تو پھر شفعہ کا کوئی حق باقی نہیں رہتا۔
توانہوں نے کہا کہ : حدود کا مقرر ہونا اور راستوں کا علیحدہ ہونا صرف شراکت میں ہی ممکن ہے کیونکہ ہمسایوں کی تو پہلے ہی حدیں مقرر اور راستے الگ ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے انہوں نے کہا ہے کہ: ہمسایہ کےلیے شفعہ ہے ہی نہیں۔
ترجمہ کتاب تسہیل الوصول از محمد رفیق طاہر